Genre:
haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط سينتيس
اوزگل یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی تھی، اگلا سمسٹر سٹارٹ ہوئے دو تین ماہ ہو چکے تھے، گرمیوں کا موسم بھی آچکا تھا، حجاب پہنتے ہوئے وہ جمائی لیتی زبردستی آنکھیں کھول رہی تھی۔ رات یافث خان سے پڑھنے کا شوق ہوا تھا اور اس کی سزا یہ ملی کہ رات کے بارہ بجے تک اس نے اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیا۔
اتنی سنجیدگی اور توجہ سے پڑھایا کہ اوزگل کے پسینے چھوٹ گئے، نیند سے یہاں وہاں جھولتی رہ گئی لیکن وہ پر بار پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے جگا دیتا تھا۔
”اوز یا سٹڈی کرو یا ریسٹ۔۔ تمہیں پڑھنے کا کسی نے نہیں کہا، شوق سے پڑھ رہی ہو تو ٹھیک سے پڑھو۔“ بارہ کے بعد بھی جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اوزگل کا نیند سے سر چکرانے لگا۔ وہ ابھی اور کتنا پڑھانا چاہتا تھا؟ وہ کتاب کو ہاتھ مار کر سائیڈ پر کر گئی۔
”میں آپ سے دوبارہ کبھی نہیں پڑھوں گی۔ میں اپنی مرضی سے پڑھ رہی ہوں تو یہ بھی میری مرضی ہو گی مجھے کب تک پڑھنا ہے۔“ وہ ساری کتابیں اس کے سامنے ڈھیر کرتی بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹ گئی۔ یافث حیران ہوا۔
”بہت نان سیرئیس ہو۔“ وہ کتابیں سمیٹتا تاسف سے بول رہا تھا۔ اس کا سامان ٹیبل پر رکھا اور بیگ بھی وہیں رکھ دیا۔ لائٹس آف کر کے نائٹ بلب آن کیا اور بستر پر لیٹا تو وہ کھسک کر اس کے قریب ہوتی اس کی بازو پر سر رکھ گئی۔
”تم چاہو تو پڑھائی چھوڑ سکتی ہو۔“ یافث نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے نرمی سے آفر دی۔ اوزگل کا تو نہیں پتا تھا مگر اب وہ اس کی پوری توجہ چاہتا تھا۔ ہر وقت پڑھنے میں مصروف بھاگ دوڑ میں کام نمٹاتی وہ تھکن زدہ حال میں اسے میسر آتی تھی۔
”مگر آپ نے کہا تھا آپ مجھے پڑھنے دیں گے۔“ اوزگل اس کی بات پر پریشانی سے اس کے حصار میں مزید سمٹ آئی۔ یافث نے نیلی روشنیوں میں پریشانی سے خود کو تکتی ان نیلی آنکھوں کو دیکھا جن میں نیند کی سرخی پوری طرح بھری ہوئی تھی۔
”اس لیے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم چاہو تو۔۔ تم تھک جاتی ہو، میں جب شام کے وقت آتا ہوں، تم پڑھتی رہتی ہو۔ رات کا کھانا بھی تیزی میں بناتی ہو۔ جب فارغ ہوتی ہو تو دن بھر کی بھاگ دوڑ کے بعد تمہیں نیند ستا رہی ہوتی ہے۔ میرے لیے تمہارے پاس وقت نہیں بچتا۔۔“
وہ اس کی آنکھوں کو نرمی سے چومتے ہوئے بول رہا تھا۔ اوزگل آنکھیں بند کیے اسے سن رہی تھی۔ اس کے آخری جملے پر بےساختہ اسے دیکھا۔ وہ اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے نظر ہٹائی تو پسندیدہ منظر چھوٹ جائے گا۔ اس کی گہری سنہری آنکھوں میں محبت تھی، طلب تھی۔۔۔
”میں آپ کو کل سے ٹائم دیا کروں گی، میں ایسا کروں گی، یونی سے آ کر جو کچھ دیر نیند کرتی ہوں وہ کرنے کی بجائے پڑھ لیا کروں گی اور جب آپ آئیں گے تو۔۔۔“ وہ اس کی بات سمجھ کر اپنی روٹین کو ری سیٹ کرنے لگی جب یافث نے اسے ٹوک دیا۔
”نہیں میں ایسا بالکل نہیں چاہتا کہ تم خود کو برڈنائز کرو۔ تم تھوڑا بہت ریسٹ کر کے بھی اتنی سوئی جاگی سی رہتی ہو۔ وہ نیند بھی نہیں لو گی تو تمہاری کیا حالت ہو جائے گی۔ جیسا چل رہا ہے چلنے دو لیکن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ یافث نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے اس کے بالوں کو نرمی سے چھوا۔
”تم جانتی ہو اوز ہماری شادی کو ڈیڑھ سال ہونے کو ہے، سب ہمارے بچوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں دی جان اور امو جان نے مجھے مشورہ دیا کہ میں تمہیں کسی اچھی سی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لے جاؤں۔ اب انہیں خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ تم میں یا مجھ میں کوئی کمی ہے۔“ یافث آہستگی سے بول رہا تھا۔
”میں اب حویلی والوں کو مزید مایوس نہیں کرنا چاہتا اور میں خود بھی اب یہ خوشی چاہتا ہوں۔“ یافث کے الفاظ پر اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ نروس ہو رہی تھی۔ یافث نے گہرا سانس بھرا۔
”تو کیا تم بچوں کے ساتھ سٹڈیز مینیج کر لو گی؟“ وہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔ وہ پریشان ہوئی، اس زمہ داری کے ساتھ کیسے پڑھائی کرتی، وہ تو اب بھی اپنی نیندیں قربان کر رہی تھی ورنہ اس جیسی بندی کو نیند سے بڑھ کر کیا عزیز ہو سکتا تھا۔
”میں کیسے کروں گی یہ سب مینیج، ابھی نہیں۔۔ ابھی بچے نہیں۔۔“ وہ روہانسی ہوتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔ یافث بالکل چپ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ کچھ بول نہیں پایا نا وہ سو پایا تھا۔
بمشکل ہفتہ بھر پہلے خان حویلی میں زرگل کی گود بھرائی ہوئی تھی۔ زورک خان بہت خوش تھا، پورے خاندان کو گود بھرائی میں بلایا۔ باقاعدہ دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ دونوں بھی گئے تھے اور وہاں زورک کو مبارک دیتے ہوئے سب نے یافث خان سے سوال کیا تھا کہ وہ یہ خوشخبری کب سنا رہا ہے۔
وہاں سے واپس ہوئے اوزگل چپ چپ سی لگ رہی تھی، یافث کو تب اندازہ نہیں ہوا۔ مگر رات کو بیگم خان نے اسے بتایا تھا کہ وہاں خاندان کی عورتوں نے اوزگل کو باتوں باتوں میں بانجھ کہا تھا۔ پہلے اس سے پوچھا جاتا تھا مگر اب سب نے خود طے کر لیا کہ وہ بانجھ ہی ہے۔ وہ تب سے اپ سیٹ ہو رہا تھا۔
اس نے اوزگل کا چہرہ اپنے سامنے کیا، وہ اس کے حصار میں سکون سے نیند کر رہی تھی۔ وہ جانتا تھا اوزگل بھی کنفیوز ہو رہی ہے۔ ایک طرف اس کا خواب تھا، وہ وعدہ تھا جو یافث خان نے اس سے لیا تھا کہ وہ اسے تعلیم مکمل کروائے گا اور ایک طرف لوگوں کی سوال کرتی نظریں تھیں۔
اس نے کئی مرتبہ اوزگل کو سوچوں میں گم اور کھویا ہوا محسوس کیا تھا۔ وہ بچوں کو دیکھ کر ناجانے کہاں کھو جاتی تھی۔ یافث اس پر زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ جان چکا تھا اب ان دونوں کی شادی شدہ زندگی میں بچوں کی آمد ضروری تھی۔ اوزگل کی خوشی بھی یہی تھی مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
ان سوچوں میں اسے بہت دیر سے نیند آئی تھی۔ صبح جلدی جاگ کر اوزگل نے جلدی سے ناشتہ بنایا، یونی کی تیاری کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ یافث بھی آفس کے لیے تیار اب کال پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
”موسٹ ویلکم ضرور آئیں۔۔ ٹھیک ہے ڈنر میری طرف کر لیں۔۔ اوکے۔۔“ وہ یہاں وہاں ٹہلتے ہوئے بول رہا تھا۔ کال بند کر کے حمزہ کو کال ملائی اور اسے رات کا کھانا بنانے کے لیے بلایا۔ وہ اسے ہدایات دے رہا تھا، اوزگل اس کے انتظار میں بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر پڑی نیند کرنے میں مصروف تھی۔
”آ جاؤ اوز۔۔ دیر ہو رہی ہے۔“ وہ فارغ ہو کر اسے اٹھاتے ہوئے نرمی سے بولا۔ وہ ہڑبڑا کر جاگتے ہوئے اپنا سامان اٹھا کر اس کے پیچھے چلنے لگی۔ لفٹ سے نیچے پہنچنے تک اس نے بمشکل آنکھیں کھولی تھیں۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ آنکھیں بند کر گئی۔ یافث اس کی حرکتوں پر نفی میں سر ہلانے لگا۔
”اوز آج تم واپسی پر اپنی فرینڈز کے پاس چلی جانا۔ گھر مت آنا، میرے کچھ گیسٹ آ رہے ہیں ڈنر پر۔۔ میں تم لوگوں کو بھی کھانا بھیج دوں گا، تم ان کے جانے کے بعد آنا۔۔“ اس نے اوزگل کو جگاتے ہوئے سمجھایا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”جی ٹھیک ہے۔“ اس نے سمجھ کر ہلایا اور سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
”اوز ایکٹو ہو کر بیٹھو، گھر سے باہر نکل کر ایسے نیند میں گھومتی رہتی ہو کیا؟“ وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولا۔ وہ جلدی سے سیدھی ہو بیٹھی۔ اسے یونیورسٹی چھوڑ کر وہ چلا گیا۔
خوشنما اور رودابہ اسی کا ویٹ کر رہی تھیں، وہ صبح یافث خان کے ساتھ یونی ورسٹی جاتی تھی اور واپس ان دونوں کے ساتھ آ جاتی تھی۔ یونیورسٹی پہنچتے ہی ایکٹیو ہو گئی مگر سارا دن دماغ میں یافث خان کی رات کے وقت کہی جانے والی باتیں گھومتی رہیں۔
وہ اپنی خواہش کا واضح اظہار کر چکا تھا، وہ شادی شدہ مرد تھا یہ تو فطری سی خواہش تھی اگر وہ اولاد چاہتا تھا۔ اسے گھر میں بچوں کی چہل پہل کی خواہش ہونے لگی تھی۔ وہ اسے انکار کر کے اب برا محسوس کر رہی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل یونیورسٹی سے واپس آکر رودابہ اور خوشنما کے پاس رک گئی تھی دوپہر کے لیے وہ تینوں اپنا کھانا باہر سے ہی لے آئی تھیں۔ کچھ دیر تینوں باتیں کرتی پرانا وقت یاد کرتی رہیں۔ پھر اوزگل پڑھنے بیٹھ گئی۔ خوشنما منگیتر سے بات کرنے لگی کیونکہ بقول اس کے اس کا منگیتر روزانہ بات کیے بنا رہ نہیں سکتا تھا۔
رودابہ جمائیاں لیتی رہی کیونکہ خوشنما کا بھائی اس سے کبھی کبھی میسج پر بات کر لیتا تھا ورنہ کالز وغیرہ نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ اس کی بہن کے ساتھ رہ رہی تھی اور اسے بہن کی موجودگی میں منگیتر سے کالز پر باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
“میں تو بور ہو گئی ہوں، نیند آ رہی ہے لیکن جیسے آنکھ بند کروں گی خوشی آ جائے گی چائے بناؤ۔۔ یہ لوگ تو اتنی گرمیوں میں بھی گرمی کے وقت ہی چائے پیتے ہیں۔ میں چائے بنانے جا رہی ہوں تم پیو گی؟“ رودابہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ایک لمبی تقریر جھاڑ کر اس سے پوچھا۔
”ہاں بنا لو، مجھے بھی تھکن ہو رہی ہے۔ نیند آ رہی ہے لیکن سو گئی تو شام تک میرا اٹھنا مشکل ہو جائے گا اور ان کے بلاوے پر نا پہنچی تو پھر وہ ناراض ہوں گے کہ تھکن زدہ رہتی ہوں۔“ وہ جمائی لیتے ہوئے بولی تو رودابہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھی۔ وہ کتابیں کھول کر جھومتی رہی۔ ایک لفظ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔
”ہو گئی بات؟ سارا دن باتیں کرتی ہو، شادی کے بعد کیا کرو گی۔“ خوشنما فارغ ہو کر آئی تو اوزگل نے اس سے سوال کیا وہ چونک گئی۔
”شادی کے بعد بھی باتیں کروں گی اور کیا۔۔ ہم دور کے رشتہ دار ہیں ناں تو میرے منگیتر کو ہر وقت مجھ سے بات کرنے کا شوق رہتا ہے۔ جب سے منگنی ہوئی ہے اس کی دلچسپی ختم نہیں ہو رہی۔ اس کا بس نہیں چلتا ایک دن میں میرے بارے میں سب جان لے۔“ خوشنما نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”اور وہ شادی سے پہلے سب جان لے گا تو تمہیں کیا لگتا ہے شادی کے بعد کتنا عرصہ اس کی دلچسپی قائم رہے گی؟ جو تجسس اور شوق اسے اب ستا رہا ہے، وہ شادی کے بعد پورا کرتا تو عمر اسی کھوج میں گزر جاتی۔ وہ تمہیں شوق سے دیکھتا اور خود اوبزرو کرتا۔۔“
اوزگل لاپروائی سے بول رہی تھی جبکہ اس کے سامنے بیٹھی خوشنما اور کچن میں کھڑی رودابہ نے بےاختیار اسے دیکھا۔ وہ ایسے تصور کی بات کر رہی تھی جو ان کے دماغ میں کبھی آیا ہی نہیں تھا لیکن ایسی طلب جو ہر عورت کو رہتی ہے کہ اس کا ہمسفر اسے جاننے کی کوشش کرے، اسے کھوجے، اسے توجہ دے۔
”دی جان کہتی ہیں جو لڑکیاں شادی سے پہلے منگیتروں سے باتیں کرتی رہتی ہیں شادی کے بعد ان کے رشتے میں جلد بےزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ پسند، ناپسند اور اپنی شخصیت کا ہر راز، ہر بات بتا کر دلچسپی ختم کر دیتی ہیں۔ محبت تو ویسے بھی رشتے میں بدل کر زمہ داری ہی رہ جاتی ہے۔
پھر جب نا کوئی چھپا ہوا پہلو بچتا ہے نا کوئی راز اور وہی عورت جس کے ساتھ شادی سے پہلے باتیں کرنے کا شوق پورا ہو جائے، شادی کے بعد اسی سے وہ شوق بس تھوڑا عرصہ ہی چلتا ہے۔ مرد تو بھاگتا ہی اس عورت کے پیچھے ہے جس کی زات رازوں بھری ہو۔۔“
اوزگل دی جان کی نصیحتیں انہیں سمجھا رہی تھی۔ وہ دونوں اسے سنتی بالکل خاموش ہو چکی تھیں جب اوزگل کو یافث خان کی باتیں یاد آئی تھیں۔ اس نے بھی یہی کہا تھا تم سے بات کرنے کا خیال آتا تھا مگر کبھی کر نہیں پایا اور اب وہ خیال شوق میں ایسا بدلا تھا کہ یافث خان گھنٹوں اس سے باتیں کرتا تھا۔
”یار کہتی ٹھیک ہو، سب کچھ تو وہ گھنا ابھی جاننے میں لگا ہوا ہے۔ شادی کے بعد میں مصروفیت کے بہانے سنتی رہ جاؤں گی۔ سب کچھ تو ہم ابھی بول لیتے ہیں۔ شادی کے بعد کیا باتیں رہ جائیں گی؟ یعنی بس ٹیپیکل ضرورت کی باتیں۔۔ محبت اور چاہ تو ابھی ختم ہو جائے گی۔“
خوشنما کے بند دماغ کی کھڑکیاں کھلتی چلی گئی تھیں اور کچن میں چائے بناتی رودابہ یہ سوچ کر مطمئن ہو رہی تھی کہ ابھی اس کا منگیتر بہن کے لحاظ میں ہی چپ رہ جاتا تھا۔ اچھا ہی تھا ان میں زیادہ بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ وہ دونوں اوزگل کو داد دیتی فیصلہ کر رہی تھیں کہ اب منگیتر سے کھل کر بات نہیں کرنی۔
رودابہ چائے بنا کر لائی تو وہ چائے کے گھونٹ بھرتی شرمائی ہوئی سی انہیں بتا رہی تھی کیسے یافث اس کے بارے میں نئی نئی باتیں اور اس کے عجیب و غریب حرکتوں اور الٹے سیدھے شوق سن کر انجوائے کرتا تھا۔ وہ کبھی کھل کر اس کی خوبصورتی کی تعریف نہیں کرتا تھا لیکن یہ بات اکثر کرتا تھا کہ وہ اسے دلچسپ لگتی ہے۔
”تم تھکی ہوئی ہو تو روم میں جا کر سو جاؤ، پہلے بھی تو یہیں رہتی تھیں۔ ہم نے تو تمہارے روم کو چھیڑا تک نہیں سب کچھ ویسے کا ویسا ہے۔“ خوشنما نے اس کی آنکھوں میں تھکن محسوس کی تو اسے آرام کرنے کا مشورہ دیا۔
”ہاں اب یہی کرنا پڑے گا۔ مغرب پڑھ کر کچھ دیر سو جاؤں گی۔ یافث کھانا بھیجیں گے تو مجھے اٹھا دینا۔ میں ان سے پوچھوں تو سہی ان کے گیسٹ آئے یا نہیں۔“ اس نے جمائی لیتے ہوئے یافث خان کے نمبر پر کال ملائی۔ اس نے کچھ دیر بعد کال پک کی تھی۔
”آپ کے گیسٹ آ گئے؟“ اوزگل نے کال اٹینڈ ہوتے ہی آوازیں سن لی تھیں۔ یافث ابھی جواب نہیں دے پایا تھا کہ پیچھے دو لڑکیوں کا قہقہہ گونجا، وہ ہنس ہنس کر کوئی بات کر رہی تھی، اوزگل ٹھٹک گئی۔
”ہاں آئے ہوئے ہیں۔ خیریت؟ تمہیں بھوک تو نہیں لگ رہی؟ حمزہ کھانا بنا چکا ہے۔ بریانی اور وائٹ قورمہ بنایا ہے۔ میں ابھی اس کے ہاتھ کھانا بھیجتا ہوں۔“ یافث شاید اٹھ کر سائیڈ پر ہوا تھا، آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں۔
”آپ کے پاس لڑکیاں آئی ہوئی ہیں؟ آپ نے مجھے نہیں آنے دیا اور کھانے پر فیمیل فرینڈز کو انوائٹ کر لیا۔ آپ بہت برے ہیں۔“ اوزگل نے بمشکل آنسوؤں کا گلا گھونٹا تھا۔ یافث اس کی بات پر آہستگی سے ہنسا۔
”پاگل صرف فیمیل نہیں میل بھی ہیں۔ ان کو جلدی فری کر دوں گا، گھر آ جانا تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔“ وہ اس کی آواز کا دھیما پن محسوس کر کے نرمی سے بولا۔ اوزگل نے کال کاٹ دی اور نمبر بلاک کرنے کی خواہش کو بمشکل دل میں دبایا تھا۔ وہ موبائل ایک طرف رکھتے ہی رونے لگی۔
”کیا ہوا علیزے؟ خدا خیر کرے سب ٹھیک تو ہے ناں؟“ وہ دونوں اسے اچانک روتا دیکھ کر گھبرا گئیں۔
”ان کے پاس پھر سے لڑکیاں آئی ہیں، جب بھی وہ گھر میں فرینڈز کو بلاتے ہیں لڑکیاں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ کبھی مجھے پتا ہی نہیں ہو گا اور وہ دوسری شادی کر لیں گے۔“ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔ وہ دونوں ہونق سی اسے دیکھنے لگیں۔
”بھئی تمہارے ہزبینڈ بزنس پرسن ہیں، ان کا فرینڈز سرکل بڑا ہو گا اور ان فرینڈز کی وائف ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اس میں کیا انوکھی بات ہے۔ صرف لڑکیاں بلائیں تو پھر ڈرنے کی بات ہے۔“ خوشنما نے اسے تسلی دیتے ہوئے آنسو صاف کیے۔
”اور اتنی پیاری گڑیا جیسی وائف کے ہوتے ہوئے وہ کیوں دوسری شادی کریں گے۔ کوئی وجہ بھی تو ہو۔۔“ رودابہ نے بھی اسے دلاسہ دیا کہ اس کی جگہ کوئی لڑکی لے بھی نہیں سکتی۔
”وجہ بچے ہیں، ان کو بچے پسند ہیں۔ مجھے بھی کہا کہ میں اب فیملی بڑھانا چاہتا ہوں۔ میں نے ان کی خواہش پوری نہیں کی تو وہ کسی اور اسے پوری کر لیں گے۔ زرگل کی گود بھرائی میں سب یہی کہہ رہے تھے۔ خان زادہ میں کوئی کمی نہیں۔۔
وہ جب بچے چاہے گا، اچھے اچھے خاندانوں کی لڑکیاں مل جائیں گی۔“ وہ بری طرح روتے ہوئے انہیں اپنا غم سنا رہی تھی۔ وہ دونوں بےاختیار ہنسنے لگیں۔
”یار تم نے ایک سال تو اپنے بےچارے شوہر کو منہ نہیں لگایا۔ اب جا کر صلح ہوئی ہے تو تمہاری وہی لاپروائی اور بچگانہ پن ہے۔ بس پڑھنا ہے اور سونا ہے۔ پہلے تمہیں عقل آ جائے پھر بچے بھی آجائیں گے۔ تم دونوں کے درمیان جو کلیشز رہے ان کا خاندان والوں کو پتا نہیں کیا؟“ خوشنما نے ہنسی دباتے ہوئے اسے دیکھا۔
”نہیں۔۔ سب کو لگتا تھا ہم نارمل ہیں۔“ وہ آنسو بہاتی نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی تو اس بار ان دونوں کو واقعی جھٹکا لگا۔
”آہ اسی لیے تمہارے خاندان والے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ انہیں بتانا جو شوہر پورا سال اپنی بےوقوف بیوی کی بلاوجہ ناراضگی سہتا رہا ہے۔ ایک بار ایسا نہیں کیا کہ آکر بازو سے پکڑتے ہوئے اپنے پاس لے جاتا اور بولتا میں تمہارا شوہر ہوں میری مرضی چلے گی۔ بلکہ وہ انتظار کرتا رہا۔۔
وہ بندہ تمہیں چھوڑ ہی نہیں سکتا۔ وہ تمہارے ساتھ ہی رہے گا۔ فکر مت کرو، خان صاحب بڑے پوزیسو قسم کے شوہر لگتے ہیں۔“ رودابہ نے اسے اطمینان سے تسلی دلائی۔ اوزگل کا دل ابھی مطمئن ہونے ہی والا تھا کہ خوشنما نے نفی میں سر ہلا کر رودابہ کو ٹوکا۔
”تم بہت خوش فہمی کا شکار ہو رہی ہو۔ تمہیں مرد کی نیچر کا ابھی تک اندازہ ہی نہیں ہوا۔ ضروری نہیں جس مرد نے ایک سال نخرہ برداشت کیا ہے وہ ساری زندگی نخرے اٹھائے گا۔ یہ بہت نایاب کیس ہو سکتا ہے ورنہ یہ بھی ممکن ہے جس نے ایک سال خوامخواہ نخرہ برداشت کیا ہے، اس کا صبر جواب دے گیا ہو۔
علیزے میرا یا رودابہ کا یہاں بولنے کا نا کوئی رائٹ ہے نا یہ ہمارے سمجھانے کی جگہ ہے مگر تم ہماری بہت اچھی اور پیاری دوست ہو۔ میں نہیں چاہتی تم جیسی خالص لڑکی کا اتنی سی عمر میں کوئی نقصان ہو۔ میری بات کان کھول کر سن لو تمہارے شوق اپنی جگہ مگر شوہر کا شوق بھی پورا کرو۔۔
وہ تمہیں صاف کہہ چکا اسے فیملی بڑھانی ہے تو ایک سال بعد اس کا یہ کہنا بنتا تھا۔ اس کی خواہش سن کر بھی تمہیں پڑھنے کا شوق ہے؟ ایسا نا ہو وہ تمہاری خواہشات کے لیے اپنی خواہش دباتے دباتے بالکل ہی بدظن ہو جائے۔“ خوشنما نے مخلص دوست کی طرح سنجیدگی سے اسے سمجھایا۔ اوزگل بری طرح سہم گئی۔
”خوشی تم اسے ڈرا رہی ہو۔“ رودابہ بےچین ہوئی، اوزگل گھٹنوں میں سر دئیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ خوشنما نے رودابہ کو گھور کر چپ کروایا اور بہانے سے کھینچتے ہوئے ایک طرف لے گئی۔
”میں اسے نہیں ڈرا رہی، میں خود ڈر گئی ہوں۔ اتنا اعلا بندہ ہے، باہر کوئی چڑیل اسے قابو میں کر گئی تو بےوقوف علیزے واقعی ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ شادی شدہ مرد ہے، اسے بچے چاہئیں تو کیا برا ہے اور یہ پاگل ڈگری لینے سے پہلے شوہر کسی کو دے بیٹھے گی۔“ خوشنما نے آہستگی سے اسے سمجھایا۔
”اس لیے اچھا ہے وہ ڈر جائے، روئے اور پھر ہوش کے ناخن لے۔“ خوشنما مطمئن تھی۔ رودابہ بےچینی سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ جس کا رونا ابھی تک جاری تھا۔
اسے تو یہ تصور ہی سہما گیا تھا کہ یافث خان بدل سکتا ہے۔ جو اتنی توجہ سے دیکھتا تھا، اتنا پیار دیتا تھا جو اپنی تھکن بھلائے روزانہ رات کو اس کا سر اپنے بازو پر رکھے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے سلاتا تھا۔
وہ بدل گیا یا کسی اور کو اپنی زندگی میں لے آیا تو اوزگل کیسے رہے گی؟ اوزگل تو اس کی دیوانی تھی، اسے لگتا تھا یافث خان کی توجہ اور محبت اسے زندہ رکھتی ہے۔ اگر اس نے اوزگل کے علاوہ کسی دوسری لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا تو وہ کیا کرے گی؟ وہ تصور کر کے ہی رو رہی تھی۔
پریشر میں تو پہلے بھی آئی ہوئی تھی، زرگل کی دوسری بار خوشخبری ملتے ہی پورا خاندان اس پر الٹ آیا تھا۔ دونوں کی ساتھ شادی ہوئی تھی، وہ ایک بار حادثہ سے گزر کر دوسری بار ماں بن رہی تھی اور اوزگل کو ایک بار بھی یہ خوشی نصیب نہیں ہوئی۔
پھر ابھی وہ خاندان والوں کی باتوں سے پریشان ہو رہی تھی کہ دی جان، بیگم خان اور بیگم ثمر نے باری باری اکیلے میں بلا کر اسے کھوجتے ہوئے پوچھا تھا کہ ابھی تک اس نے خوشخبری کیوں نہیں سنائی۔ وہ تو انہیں وضاحتیں دیتے ہوئے بوکھلا گئی تھی۔۔
اس پر یافث خان نے بھی گزری رات ہی اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے انکار پر وہ خاموش ہو گیا تھا، دوبارہ بات بھی نہیں کی مگر اب وہ ڈر رہی تھی۔ اس سے انکار سنتے ہی اگلے دن اس کے پاس ڈنر کے لیے لڑکیاں کیوں آئی تھیں۔ کیا واقعی یافث اب دوسری بیوی لانے والا تھا؟ وہ غم سے بےحال ہونے لگی۔ حمزہ کھانا دینے آیا تو خوشنما نے اسے دروازے پر روکا۔
”سنو تمہارے سر کے کون سے مہمان آئے ہیں جو صبح سے اپنی بیوی کی خبر ہی نہیں لی۔ وہ یہاں شام سے رو رو کر نیم بےہوش ہوئی جا رہی ہے، تمہیں لگتا ہے اس حال میں کھانا کھائے گی؟“ خوشنما کی بات پر وہ حیران ہوا۔
”سر کے کچھ بزنس پارٹنر آئے ہیں، ساتھ ان کی بیویاں ہیں۔ کچھ ہوا ہے کیا؟“ حمزہ تو یافث کی بیوی کے رونے یا اس کے دوستوں کے آنے کی بات سمجھ نہیں پایا۔
”ہمیں کیا پتا کچھ تو ہوا ہو گا۔ اپنے سر سے پوچھنا، بلکہ بتا دینا کہ ان کی وائف کھانا کھانے کی حالت میں نہیں ہے۔“ خوشنما نے بہانے سے اطلاع دی اور اندر آ گئی۔ حمزہ الجھا ہوا سا واپس چلا گیا۔
”حمزہ تم اپنے لیے بھی کھانا ڈالو، یہاں بیٹھ کر کھانا چاہو تو تمہاری مرضی ورنہ ساتھ لے جانا۔“ یافث نے مہمانوں کو ڈنر سرو کرتے ہی واپس جانے کی تیاری کرتے حمزہ کو کچھ میں آ کر کہا۔
”سر میں تو کھانا لے لوں گا مگر وہ خوشنما بتا رہی تھی آپ کی وائف کھانا نہیں کھا سکیں گی وہ شام سے صرف رو رہی ہیں۔ پتا نہیں کیوں۔۔“ حمزہ نے اپنے لیے ٹفن باکس بھرتے ہوئے اسے بتایا تو وہ پریشان ہوا۔
”بےوقوف لڑکی پتا نہیں پھر کیا ہوا ہے۔“ وہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکلا لیکن کھانا نہیں کھایا گیا۔ بےچینی سے مہمانوں کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ وہ لوگ جونہی کھانا کھا کر فارغ ہوئے اس نے چائے کافی کا تکلف کیے بغیر انہیں پہلی فرصت میں رخصت کیا اور خود اوزگل کو لینے پہنچا۔
ابھی اس نے بیل بجائی تھی کہ اوزگل باہر آئی اور پوری تیاری سے باہر آئی تھی، چادر پہنی ہوئی تھی، بیگ اور بکس کے ساتھ ساتھ عبایا بھی ہاتھ میں تھا۔ روتی آنکھوں کو چھپانے کی کوشش کرتی وہ لفٹ میں داخل ہوئی۔ یافث گہرا سانس بھرتا اس کے ساتھ لفٹ میں سوار ہوا۔
”اوز کیا ہوا ہے؟“ اس نے یہ سوال راستے میں بھی کیا تھا، پہنچ کر بھی کیا اور اب چادر اتار کر بستر پر بےسدھ پڑی اوزگل سے دوبارہ بھی پوچھ رہا تھا لیکن اس نے جواب نہیں دیا تھا۔
”اوزی میری جان، مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے میری گڑیا کو۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے؟ تمہیں جس نے بھی رلایا ہے، آج میں اسے بخشوں گا نہیں۔“ وہ اسے اٹھا کر سینے سے لگاتا محبت سے اس کی پشت سہلاتے ہوئے بولا۔
”آپ نے رلایا ہے۔ آپ دوسری شادی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“ وہ اس کے سینے سے لگتی بری طرح رو رہی تھی۔ یافث تو اس کے الفاظ پر گنگ رہ گیا۔
”تمہیں یہ خبر کہاں سے ملی؟ بلکہ یہ چھوڑو یہ بتاؤ کیا اس دنیا میں تم جیسی کوئی اور ہے؟ اگر کوئی ہے تو بتاؤ پھر میں واقعی اسے بھی اپنے گھر لے آتا ہوں۔“ وہ بولتے ہوئے ہنسی دبا گیا۔ اوزگل کا رونا بڑھ گیا۔
”اوز ایسا کچھ نہیں ہے، ہم دو بزنس پارٹنرز نے ایک تھرڈ بزنس مین کے ساتھ مرجنگ کی ہے۔ اس خوشی میں وہ لوگ ڈنر ساتھ کرنا چاہتے تھے، میرے پاس اس لیے آئے کیونکہ میں انہیں حمزہ کے ہاتھ کا کھانا کھلا چکا تھا، انہیں وہی پسند آیا۔
ان کی بیویاں ساتھ تھیں لیکن وہ لوگ نا پردہ کرتے ہیں نا رہنے دیتے ہیں، اس لیے میں نے تمہیں سائیڈ پر رہنے کا کہا۔ میں تمہیں ان ماڈرن لڑکیوں سے بھی نہیں ملوانا چاہتا، ان کا کیا بھروسہ اپنے ہزبینڈز کے سامنے تم پر تبصرے کرتی رہتیں۔ بس اتنی سی بات ہے، تم نے کیا کیا سوچ لیا۔“
وہ محبت سے اسے سینے سے لگائے تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔ اوزگل سسکتے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھے سنتی رہی۔ اس نے اطمینان تو دلا دیا تھا مگر خوشنما کی بات بھی دل میں اٹک گئی تھی۔ آج نہیں تو کل یافث خان کا صبر جواب دے گیا تو کیا کرے گا۔
”مجھے تھکن ہو رہی تھی، میں سو نہیں پائی۔ رات سے نیند پوری نہیں ہوئی اور پورا دن سونا نصیب نہیں ہوا، یونی میں جو بھاگ دوڑ کی وہ الگ۔۔ ابھی رات نہیں ہوئی کہ کل پھر سے صبح جاگ کر وہی روٹین شروع ہونے کا سوچ کر تھکن بڑھ گئی ہے۔“ وہ روتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔
”کھانا کھا کر سو جاؤ۔“ وہ اس کا چہرہ تھام کر نرمی سے ان بھیگے رخساروں کو لبوں سے چھونے لگا۔ اوزگل خود میں سمٹتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔
”مجھے یونی نہیں جانا۔ مجھے بھی بس زرگل کی طرح فیملی چاہیے، میں گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔“ اوزگل کی مدھم سی فرمائش پر یافث خان بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا۔ اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔
”اوز فیملی کا مطلب وہی ہے ناں؟ تمہیں میری خواہش یاد ہے کیا؟ مجھے تمہارے جیسی بیٹی چاہیے۔ نیلی آنکھوں والی معصوم سی گڑیا۔۔ کیا تم بھی ایسا چاہتی ہو؟“ وہ وارفتگی سے اسے خود میں سمیٹتے ہوئے اس کے چہرے پر نرم سا لمس بکھیرنے لگا۔ اوزگل اس کے مضبوط حصار میں قید ہوتی کوئی جواب نہیں دے پائی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”شکر ہے میرے اللہ نے ہمیں پھر سے خوشی دکھائی ہے۔ اس بار بہت خیال رکھنا، کوئی بھی پریشانی ہو مجھے بتانا۔۔ زورک تو کہہ رہا تھا اب تمہیں زیادہ دن کے لیے ماں باپ کے پاس بھی نہیں بھیجے گا، بعد میں بےشک چلی جانا۔۔“
بیگم خان داد پرجوش لہجے میں زرگل کو ہدایات دے رہی تھیں، وہ مسکراتے ہوئے سر ہلاتی رہی۔ جب ان کی اگلی بات پر اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
”خان زادہ کی تو قسمت خراب نکلی، اولاد کی خوشی نہیں دیکھ پا رہا۔ اوزی تو سونی گود لیے گھوم رہی ہے۔ ایک بار کوئی امید ہی نہیں لگی۔ لوگ کہتے ہیں عمر بڑی ہو جائے تو لڑکی ماں نہیں بنتی۔ سب وہم ہیں ورنہ چالیس سال کی جوان عورتوں کو بھی اللہ اولاد دے دیتا ہے۔
اور اوزی اتنی کم عمر ہے لیکن اولاد نہیں ہو رہی۔ اللہ انہیں بھی خوشی دکھائے۔ کہیں وہ بےچاری بانجھ تو نہیں؟ کتنی پیاری بچی ہے، کبھی کبھی ایسے ہی خوشیاں ادھوری رہ جایا کرتی ہیں۔“ بیگم خان داد افسوس کا اظہار کر رہی تھیں۔
”نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، اوزی میں ایسا کوئی عیب نہیں ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہے بس پڑھائی کی وجہ سے۔۔“ زرگل بولتے بولتے جھجک سی گئی تھی۔ اپنی بات کا خود بھی اندازہ ہوا وہ بڑی بوڑھیوں کو یہ وضاحت نہیں دے سکتی تھی کہ وہ پڑھائی کی وجہ سے یہ خوشی نہیں چاہتی تھی۔
”لو پاگل لڑکی، پڑھائی کا بچوں سے کیا لینا دینا۔ بچے قسمت میں ہوں تو دنیا میں آ ہی جاتے ہیں۔ اچھا خیر ہم کون ہوتے ہیں یہ بات کرنے والے۔۔ اللہ سب کو خوشیاں دے۔ لیکن تم بہن کو سمجھانا کہ اپنا علاج کروائے، شہر میں ہی رہتی ہے۔ ورنہ مرد کی توجہ کہیں اور چلی جائے گی۔“
بیگم خان داد نے اسے رازداری سے سمجھایا۔ زرگل گھبرا گئی۔ بیگم خان داد اب پھر سے اسے احتیاط کی تاکید کر رہی تھیں۔
جب سے یہ خوشی کی خبر ملی تھی، یہ ہدایات اسے بیگم ثمر اور بیگم خان داد دن میں کئی بار دیتی تھیں، زورک خان تو مردان خانے سے دن میں ناجانے کتنی بار اس کے پاس آتا تھا، اسے اپنی نگرانی میں کھانا کھلانا اور فروٹس دینا اس نے اپنا فرض بنا لیا تھا۔
”آپ کو ڈر ہے کہ میں پھر سے کوئی نقصان کر دوں گی؟“ اس کی اتنی زیادہ احتیاط نے زرگل کو خوش سے زیادہ اندر ہی اندر افسردہ کر دیا تھا۔ کیا زورک خان کو اس پر ابھی تک اعتبار نہیں آیا تھا۔ کیا وہ اس کی نگرانی کر رہا تھا؟ وہ چاہتی تھی اس کا خیال رکھا جائے، اس پر نظر نا رکھی جائے۔
”تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے، کیا میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکتا؟“ زورک خان نے اسے نرمی سے دیکھا۔ زرگل اس کی مسکراہٹ دیکھتی خفگی سے نفی میں سر ہلا گئی۔
”آپ میرا خیال رکھتے ہیں مگر آپ کو خوف ہے میں کچھ غلط کر بیٹھوں گی۔ مجھے فیور ہوا تو آپ دن رات میرے سر پر بیٹھے رہے۔ آپ کو لگا میں پھر سے میڈیسن لے لوں گی۔“ زرگل ایسے بول رہی تھی، جیسے اسے سب پتا ہو۔ زورک خان بےاختیار ہنس پڑا۔
”ہاں یہ سچ ہے کہ پہلی بار ہمارا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا، ہم نے نقصان اٹھایا تھا اور میں ڈر بھی گیا تھا لیکن اب ایسا نہیں کہ مجھے تم پر یقین ہی نہیں رہا۔ میں جانتا ہوں تم نے جو تکلیف جھیلی تھی تم مجھ سے بھی زیادہ احتیاط کرو گی۔ میں صرف تمہارا خیال رکھنا چاہتا ہوں زرگل۔۔
میں نے بھی تب یہی سبق سیکھا تھا۔ میں تم سے لاپرواہ رہا، الگ رہا اور بعد میں تمہیں الزام دے دیا۔ میری غلطی برابر کی تھی، میں خود سے ڈر گیا ہوں۔ میں نہیں چاہتا میں پھر سے وہی لاپروائی کروں اور تم جب تکلیف میں ہو تو اکیلی پڑی رہ جاؤ۔ میں اپنی زمہ داری پوری کرنا چاہتا ہوں۔“
زورک خان نے اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے یقین دلایا، اس کے لہجے کی سچائی زرگل کے اندر ڈھیروں اطمینان بھر گئی تھی۔ اس نے ان چند ماہ میں زورک خان کے اندر بہت تبدیلیاں محسوس کی تھیں۔ وہ پہلے جیسی سختی نہیں دکھاتا تھا۔
ہاں وہ آج بھی اصول پرست ہی تھا مگر اب وہ زرگل کو آسانی دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا تھا۔ پہلے وہ بےصبر ہوتا تھا، زرگل کی توجہ نا ملنے پر چڑ جاتا تھا اور جب وہ غائب دماغی کا مظاہرہ کرتی تھی تو وہ بھی بہانے بہانے سے غصہ ہو جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا تھا۔ اب وہ اسے وقت دے رہا تھا۔
اب وہ زرگل کی محبت کا انتظار کر رہا تھا اور یہ شاید اس کی نرمی تھی، بےپناہ توجہ اور تحمل مزاجی تھی کہ زرگل بھی اسے سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ جب وہ اسے توجہ دیتا تھا تو وہ بھی توجہ سے اسے سنتی تھی۔ اب وہ کسی اور کو نہیں سوچ پاتی تھی۔ اب وہ زورک خان سے دور بھی نہیں ہو سکتی تھی۔
اب وہ میکے جاتی تھی تو موبائل ایک طرف پھینک کر دن رات ملازمین کے سامنے زورک خان کی برائی نہیں کرتی تھی نا بلاوجہ اس کے شکوے کرتی تھی۔ اب وہ وہاں جا کر بھی زورک خان کو یاد کرتی تھی۔ اس کی باتیں کرتی تھی اور کالز کر کے اس کا حال احوال لیتی رہتی تھی۔
تبدیلی ان دونوں میں آئی تھی، اب زورک خان کی محبت بڑھ چکی تھی اور اب زرگل کو لگنے لگا تھا وہ بھی شاید زورک خان سے محبت کرتی ہے۔ زورک خان کی وضاحت پر زرگل نے گہرا سانس بھرا۔
”میں اپنی غلطیوں پر بہت پچھتائی ہوں، آپ کی محبت دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے میں نے آپ کے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔ آپ کو بہت تکلیف دی، وہ حرکت کی جو کوئی بھی غیرت مند مرد برداشت نہیں کر سکتا۔“ وہ اس کے نکاح میں ہو کر یافث خان سے محبت کرنے کے جرم کا اعتراف کر رہی تھی۔
”ان باتوں کو بھول بھی جاؤ زرگل، میں نے سب بھلا دیا ہے۔ صرف تم غلط نہیں تھی میں بھی حصہ دار تھا۔ اب بس میری اور اپنی بات کیا کرو۔۔“ زورک نے اسے خود سے لگاتے ہوئے نرمی سے ٹوک دیا۔ زرگل نے گیلا سانس بھرا۔
”لیکن میں نے اوزگل کے ساتھ تو بہت برا رویہ رکھا، میں ہمیشہ اسے ٹیز کرتی تھی۔ کئی بار اسے رلایا ہے۔ میرے لیے سب سے آسان اوزگل کو ڈیل کرنا تھا اور آج تک میں اس سے نارمل ہو کر نہیں مل سکتی۔ اوزگل سے معافی مانگنا میرے لیے سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ کیونکہ وہ ظاہر ہی نہیں کرتی کہ کبھی ہمارے درمیان کچھ ہوا تھا۔“
زرگل کے اعصاب پر بھاری بوجھ سا پڑا ہوا تھا۔ وہ ہر گلٹ سے آزاد ہو چکی تھی، اس نے زورک خان سے بھی تعلقات بحال کر لیے تھے بس ایک اوزگل سے وہ نا معافی مانگ سکی نا سمجھ سکی کہ بات کہاں سے شروع کرے اور کس کس بات کی معافی مانگے۔
”زرگل بہن بھائیوں کا رشتہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر تمہیں لگتا ہے معافی مانگ کر سب ٹھیک ہو سکتا ہے تو اسے مل کر بس ایک بار کہہ دینا ہر غلطی کے لیے شرمندہ ہو۔۔ ورنہ تمہارا اور اس کا پہلے کی طرح ملنا اور ہنسنا بولنا ہی اس بات کی نشانی ہے کہ تم دونوں کے درمیان بنا کہے معافی تلافی ہو چکی ہے۔
دنیا میں ہر رشتہ ٹوٹ کر جب جڑے اس میں دراڑ رہ جاتی ہے، بس بہن بھائیوں کا رشتہ ہی واحد رشتہ ہے جن کا ایک بار گلے لگنا برسوں کی ناراضگی ختم کر دیتا ہے۔ نا کچھ دہرانا پڑتا ہے نا باقاعدہ معافی کا لفظ بولنا پڑتا ہے۔“ زورک خان اسے اپنائیت سے سمجھا رہا تھا۔
”اگر میں اسے مل کر ہر بات پر شرمندگی ظاہر کر دوں تو کیا سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا وہ واقعی مجھے معاف کر چکی ہو گی۔“ زرگل سوچ میں مبتلا ہوئی۔
”میں جانتا ہوں ناں اوزی کو۔۔ وہ جیسے تم سے ملتی ہے، مجھے یقین ہے وہ تمہیں معاف کر چکی ہے۔“ زورک خان پورے یقین سے بولا تھا۔ زرگل نے اسے گھورا۔
”آپ آج بھی اوزی کو فیور دیتے ہیں۔ آپ کی نظر میں وہ صرف اچھی ہے۔ میں اچھی اور بری ہوں۔“ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔ زورک خان قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”ہاں وہ میری نظر میں اچھی ہے، تم میری نظر میں بری سہی لیکن مجھے ہزار بار بھی فیصلہ کا حق ملے تو میں ہر بار تمہیں چنوں گا۔ مجھے اچھی اوزی نہیں چاہیے، مجھے بری زرگل سے عشق ہے۔“ وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتا بھاری لہجے میں بولا۔ زرگل کا دل زور سے دھڑکا۔
”آپ بس مجھے بہلاتے ہیں۔“ وہ نظریں چرانے لگی۔ وہ کہتا تھا اسے عشق ہے اور زرگل کو ہر بار شک ہوتا تھا۔ وہ زرگل کو کیسے چاہ سکتا تھا۔ وہ اس کے سامنے کھلی کتاب جیسی تھی۔ جس کا بچپن، حسد، چالاکی، تنفر اور ہر برائی زورک خان کی نظروں میں رہی تھی۔ وہ اس لڑکی سے کیسے محبت کر سکتا تھا
”تمہیں مجھ پر یقین کیوں نہیں؟“ زورک خان نے اس کے رخساروں کو نرمی سے چھوتے ہوئے سوال کیا تھا۔ اس نے محبت کو ہر طرز، ہر انداز سے ظاہر کیا تھا ناجانے زرگل کو کیسا شک تھا۔ کیسی بےیقینی رہتی تھی۔
”مجھے اپنی زات کی خامیاں یاد ہیں، مجھے یاد ہے میں کتنی بری تھی، برائی اب بھی کہیں باقی ہو گی۔ مجھے اندازہ ہے آپ میرے ہر عیب سے واقف ہیں عشق تو مکمل لوگوں سے، اچھے لوگوں سے کیا جاتا ہے۔ عشق تو اوزی جیسی لڑکی سے کیا جا سکتا ہے، زرگل تو اس قابل نہیں ہے۔ مجھ سے عشق، مجھ سے محبت تو صرف خسارہ ہے۔“
وہ نظریں جھکا کر بولی تو لہجہ زخمی تھا۔ وہ اپنی زات کی ان خامیوں سے ابھی نکل نہیں پائی تھی۔ وہ سدھر تو گئی تھی مگر بگڑ جانے کا خوف ابھی باقی تھا۔ وہ بولی تو اس کے انداز میں شکستگی بالکل واضح تھی۔ اتنی ہاری ہوئی تھی کہ زورک کا دل رک سا گیا تھا۔
”زرگل میری طرف دیکھو اور بتاؤ کیا تمہیں لگتا ہے میں خسارے میں ہوں؟ کیا تم نے مجھے ناخوش، غیر مطمئن محسوس کیا ہے؟ جسے تم عیب اور برائی کہنے پر تلی ہو۔ وہ تمہاری خواہشات، تمہاری حسرتوں کی ایک جنگ تھی جس میں تم نے اچھا برا سب بھلا دیا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب تو سب ٹھیک ہے ناں؟“
زورک خان کے تسلی دیتے الفاظ پر زرگل نے بھیگی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ اس کی سنہری آنکھوں میں ہلکورے لیتی بےیقینی کو دیکھنے لگا۔ وہ حیران تھی اتنی کہ زورک خان کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔
”زرگل مجھے تم سے محبت ہے تو بس ہے۔ یہ خسارہ ہے تب بھی اب تو دل تمہارا ہو گیا۔۔“ وہ ایک دم اسے خود میں بھنچتا اس کے بالوں میں چہرہ چھپا گیا۔
تجھ سے عشق ہو گیا اب خسارہ کیسا
دریائے عشق میں اتر گئے اب کنارہ کیسا
ایک بار تیرے ہو گئے تو بس ہو گئے
ہر روز کرنا نیا اب استخارہ کیسا۔۔
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں الجھاتا مدھم لہجے میں سرگوشی کر رہا تھا۔ اس کے بےتاب لمس میں زرگل کے ہر شک کا جواب تھا۔ وہ اس کے حصار میں سمٹی، اس کی سرگوشیاں سننے لگی۔ دل سے شکوک مٹنے لگے تھے، محبت بھرنے لگی تھی۔
وہ جتنا بھٹکی، جتنا ہاتھ پیر مارے، اسے سنبھالا زورک خان نے ہی تھا۔ وہی اس کے لیے ظرف بڑا کر پایا تھا۔ زرگل کو آنا اس کی پناہ میں ہی تھا۔ اس کا نصیب وہی تھا، وہی اس سے محبت کر سکتا تھا کیونکہ وہی اس کا ہمسفر تھا۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث ٹیسٹ رپورٹس لیے گاڑی میں بیٹھا تھا۔ اوزگل کی چند روز سے بہت طبیعت خراب تھی، ڈاکٹر نے مسلسل بخار کی دو وجوہات بتائی تھیں۔ پریگنینسی بھی ہو سکتی تھی جس میں کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے اسے ٹمپریچر ہو رہا تھا۔ اور ایک شک یہ بھی ظاہر کیا کہ شاید اسے بہت سیرئیس قسم کا انفیکشن ہو چکا ہے۔
اس نے دونوں ٹیسٹ کروائے تھے اور اب رپورٹس اس کے ہاتھ میں تھیں، وہ گھر کی طرف روانہ ہوا مگر دل ڈرا ہوا تھا اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ رپورٹس چیک کر لیتا۔ گھر پہنچا تو اوزگل سوئی ہوئی تھی، ٹمپریچر ابھی باقی تھا۔ اس نے پہلے تو سوپ گرم کیا اور اسے جگا کر پلایا۔
وہ جانتا تھا سستی اور بےزاری کی وجہ سے ناشتے کے بعد اس نے کچھ کھانے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ اس کی فرینڈز بھی دلیہ، سوپ یا یخنی وغیرہ بنا کر بھیجتی رہتی تھیں۔ اوزگل کو سلا کر وہ باہر صوفے پر بیٹھا۔ گہرا سانس بھر کر رپورٹس اٹھائیں، ڈرتے ڈرتے دونوں رپورٹس ایک ساتھ کھول کر سامنے کیں۔
اگلے ہی لمحے خوشی اور بےیقینی سے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اوزگل کو کوئی انفیکشن یا سیرئیس مسئلہ نہیں تھا، پریگنینسی رپورٹ پازیٹو تھی البتہ اس کا ایچ بی لیول کم ہو رہا تھا جس کی وجہ سے وہ ٹمپریچر میں مبتلا تھی۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“ وہ ایک دم سینے پر ہاتھ رکھ کر دھڑکتے شور مچاتے دل کو محسوس کرنے لگا۔ کچھ دیر تو خوشی کے مارے ہل نہیں پایا تھا۔ پھر فوراً اٹھ کر اوزگل کے پاس پہنچا، وہ کہنی کے بل اٹھنے کی کوشش کرتی پانی کے جگ کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی۔
”رکو میں دیتا ہوں۔“ یافث نے تیزی سے آگے بڑھ کر پانی گلاس میں ڈالا اور اسے اپنے سہارے بٹھاتے ہوئے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔ وہ محبت سے اسے دیکھتا بار بار اس کے پرحدت چہرے کو دیوانگی سے چوم رہا تھا۔ اوزگل نے پانی کا گلاس اسے پکڑاتے ہوئے ناک چڑھایا تو وہ بےساختہ ہنس کر اسے خود میں چھپا گیا۔
”اوز ہماری فیملی مکمل ہونے والی ہے۔ تم میری خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتیں۔ مجھے لگتا ہے میں خواب دیکھ رہا ہوں، یقین نہیں آ رہا کہ میں واقعی باپ بننے والا ہوں۔“ وہ اسے خوشخبری سناتا اس کی جلتی پیشانی پر لب رکھ گیا۔ اوزگل کا بخار کی حدت سے سرخیاں چھلکاتا چہرہ شرم سے مزید سرخ ہوا۔
کچھ ہی دیر میں یافث خان سب کو اپنے باپ بننے کی خبر دے چکا تھا۔ اسے اب جا کر تو اوزگل سے بانجھ پن کا لیبل ہٹانے کا موقع ملا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اعلان کروا دے۔ سب سے مبارکباد وصول کرتا وہ ہنستا جا رہا تھا۔ اوزگل نے اسے پہلی بار اتنا خوش دیکھا تھا۔۔
اور خود اس نے سب سے پہلی کال زرگل کو کی تھی۔ شرماتے ہوئے جب اسے اپنے ماں بننے کی خبر دی تو زرگل کو زورک کے الفاظ پر یقین آیا تھا بہن بھائیوں میں معافی تلافی نہیں ہوتی۔ ان میں صرف تعلق کی بحالی ہوتی ہے۔ بس بات کرنا ہی سب بہتر کر دیتا ہے۔
”اگر ہماری بیٹی نا ہوئی؟“ اوزگل نے رات کے وقت یافث کے ہاتھ سے فروٹ کھاتے ہوئے سوال کیا تو وہ مسکرایا۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس تم اور بیبی ٹھیک رہو میرے لیے اتنا کافی ہے۔“ وہ اسے بوجھ سے آزاد کرتا اس کے منہ میں سیب کا پیس دے چکا تھا۔ اوزگل نے اطمینان اس کے کندھے پر سر رکھا۔
”مجھے لگتا تھا ابھی میں اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں لیکن اب میں اتنی ایکسائیٹڈ ہو رہی ہوں، دل چاہ رہا ہے ابھی میری گود میں بچہ آ جائے اور میں اسے دیکھوں وہ کیسا ہو گا، کس پر جائے گا۔ بیٹی ہو گی یا بیٹا۔۔“ اوزگل نے جوش سے مٹھیاں بھنچتے ہوئے بتایا۔ یافث ہنس کر اس کا سر تھپتھپانے لگا۔
”میں جانتا تھا تم یہی چاہتی ہو، تمہیں بس اندازہ نہیں ہوا اور میں زبردستی یہ بات منوا نہیں سکتا تھا۔“ وہ نرمی سے بولتے ہوئے اوزگل کو حیران کر گیا۔ وہ کیسے اس کے دل کی چاہ جان گیا تھا۔ اوزگل کنفیوز تھی، اسے اندازہ نہیں ہوا تو یافث خان کو کیسے اندازہ ہو گیا۔
اور جب یہی سوال اس نے یافث خان سے کیا تو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نرمی سے بولا
”کیونکہ میں تم سے واقعی محبت کرتا ہوں، مجھے تمہاری خوشی اور تمہاری خواہش کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں بچوں کے لیے امڈتی حسرت پہچان لی تھی۔ لائف پارٹنرز ایسے ہی ہوتے ہیں اوز۔۔“
اس کے الفاظ پر اوزگل کا دل رکا اور پھر زور سے دھڑکا۔ یافث خان اور اس کی محبت اوزگل کو آج تک حیران کرتی تھی۔ اسے اس کی محبت الگ سے سکون میں مبتلا کر گئی تھی۔ وہ کہتا تھا ہمسفر ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن اوزگل جانتی تھی، شاید سب ایسے نہیں ہوتے۔
صرف وہی ایسا تھا اور وہ بھی اس لیے ایسا تھا کیونکہ وہ اوزگل کا ہمسفر تھا۔ اسے اوزگل سے محبت تھی، وہ محبت اسے ایسا بنا گئی تھی۔ وہ اس کے حصار میں بیٹھی اپنی خواہشات بتا رہی تھی اور اس بار یافث خان کا دل سکون سے بھرا ہوا تھا کیونکہ اوزگل کی خواہشات اب ان کے بچے کے گرد گھوم رہی تھیں۔
ختم شد