Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Yaman Eva Novels

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 36 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :2111

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چھتيس

وہ دونوں زورک خان کی آمد سے واقف نہیں تھیں، وہ بولتے ہوئے سامنے آیا تو بیگم خان داد ایک لمحے کے لیے پریشان ہوئی تھیں۔ زرگل تو زورک خان کو دیکھتے ہی ایسے سہم گئی جیسے وہ اسی وقت اس کا بازو پکڑ کر باہر نکال دے گا۔ مگر وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، وہ اپنی ماں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”کیا بول رہی ہوں، جو سچ ہے وہی کہا۔ تم تو شاید چھپانے والے تھے ہم سے۔۔ اس لڑکی کی لاپروائی نے ہمیں کیا نقصان پہنچایا۔“ بیگم خان داد کے الفاظ پر زورک خان نے لب بھنچ کر زرگل کو دیکھا جو مجرموں کی طرح سر جھکائے رونے میں مصروف تھی۔
”اس نے کوئی لاپروائی نہیں کی، میری غلطی تھی چیک اپ وغیرہ کروانے کے بعد میں نے اسے ٹھیک سے بتایا ہی نہیں کہ اسے کوئی پین کلرز نہیں لینی، آپ بتائیں کیا آپ نے اسے بتایا تھا؟“ زورک خان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔ زرگل نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔
”تم تو کہہ رہے تھے کہ۔۔“ بیگم خان داد لاجواب ہوئیں۔
”کہ ڈاکٹرز سب سمجھاتے رہے مگر ڈاکٹر نے پین کلرز لینے یا نا لینے کی کوئی بات نہیں کی۔ وہ پہلی بار ماں بن رہی تھی مورے، اسے کیسے اندازہ ہوتا کہ پین کلرز نہیں لینی ہوتی اور میری غلطی تھی جب بھی زرگل کی طبیعت خراب ہوتی تھی میں خیال رکھنے کی بجائے اسے میکے بھیج دیتا تھا۔
مورے اسے میں نے ناکردہ جرم پر جتنا زلیل کرنا تھا کر لیا، میں غلطی کر چکا ہوں مگر اب میں کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ اس بات کا طعنہ زرگل کو دے۔ آپ کو بھی نہیں۔۔ پلیز آپ اس سے اپنا تعلق خراب نہیں کریں۔ زرگل کو بہو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ آج بھی آپ کے لیے وہی زرگل ہونی چاہیے جس پر میں نے سختی کی تھی تو آپ نے سائیڈ پر بلا کر ڈانٹا تھا۔“ زورک خان سنجیدگی بولتا صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بیگم خان داد خفت زدہ سی زرگل کو دیکھنے لگیں جو ابھی تک اپنی جگہ کھڑی رو رہی تھی۔
”زر تم کمرے میں جاؤ۔۔“ زورک نے اسے وہاں سے بھیج کر اپنی ماں کو دیکھا۔ جو خفگی سے اسے گھور رہی تھیں۔
”جب تم جانتے ہو اس کا قصور نہیں تو مجھے سمجھانے کی بجائے پہلے خود کو کیوں نہیں سمجھایا؟ تم نے کیوں اسے ڈرائیور کے ساتھ ماں باپ کے گھر بھیج دیا۔ تمہیں اندازہ ہے ثمر خان تو وہاں طلاق کی تیاری کر بیٹھا تھا۔
اور اب بھی اسی شرط پر بھیجا ہے کہ اگر تمہیں زرگل قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اسے چھوڑ دو۔“ بیگم خان داد نے زرگل کے جاتے ہی گہرا سانس بھرتے ہوئے اسے حالات سے آگاہ کیا۔ زورک آخری جملے پر ٹھٹک گیا۔
”آپ فکر نہ کریں اب ایسی نوبت نہیں آئے گی، بیوی ہے وہ میری۔۔ میں تو اس بات پر ناراض ہوا کہ زرگل نے ہمارے غصے سے ڈر کر اوزگل پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ پین کلرز اس نے دی تھیں۔ مجھے اس کے جھوٹ پر غصہ آیا لیکن یہ بھی ان دونوں بہنوں کا مسئلہ تھا، اوزگل اور اس کے درمیان سب ٹھیک ہے تو میں کون ہوتا ہوں سوال کرنے والا۔۔
میں نے غصے میں زرگل کو پھپھو کے پاس جانے کا بول دیا۔ اگلے دن مجھے کام سے شہر جانا پڑا اور میرے دماغ سے وہ بات نکل گئی۔ میں تو وہاں اطمینان سے کام نمٹاتا رہا کہ زرگل اپنے ماں باپ کے پاس ہے۔ ورنہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، میں پہلے سیدھا پھپھو کی حویلی گیا تھا ان دونوں کو بھی کلئیر کر آیا ہوں۔“
زورک خان نے انہیں تسلی دی۔ اپنی غلطی کا ازالہ وہ یوں کر رہا تھا کہ زرگل کی غلطی کو جھوٹ کے پردے میں چھپاتا اس پر لگا الزام ہٹا گیا۔ ورنہ اسے یقین تھا بیگم خان داد اس بات کو یاد رکھتیں۔
”وہاں تو جا کر وضاحت دے دی لیکن ہم ماں باپ کو بھی کچھ بتا دیا کرو۔ تم دونوں میں جو بھی بات ہوئی، تم نے زرگل کو بھیج دیا لیکن ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ یہ تو ہم وہاں پہنچے تو ثمر خان نے ناجانے کتنے شکوے کر ڈالے جبکہ ہمیں کچھ پتا ہی نہیں تھا۔“
بیگم خان داد نے خفگی سے زورک خان کو گھورا جو بالکل سنجیدہ لگ رہا تھا۔ ان کی بات پر خفیف سا سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ انہیں کیسے کچھ بتاتا وہ تو اب بھی جھوٹ بول کر بات ختم کر چکا تھا۔ کمرے میں گیا تو زرگل رونے میں مصروف تھی، اسے دیکھ کر آواز دبا گئی۔
”طبیعت ٹھیک ہے اب؟ ٹمپریچر ہو گیا تھا؟“ وہ اپنی شال اتار کر رکھتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔ اس نے صاف محسوس کیا تھا کہ زرگل اس سے ڈری ہوئی تھی۔
”جی۔۔“ اس کے سوال پر وہ صرف اتنا ہی بولی تھی، زورک سمجھ نہیں پایا یہ پہلے سوال کا جواب تھا یا دوسرے کا۔۔ وہ اس کے سامنے بیٹھ کر اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔ زرگل سمٹ کر پیچھے ہوئی۔
”تمہیں کیوں لگا کہ میں تمہیں اب چھوڑ چکا ہوں؟ میں نے تم سے کہا تھا چند دن کے لیے جاؤ۔۔ تم وجہ جانتی تھیں زرگل پھر تمہیں یہ خوف کیوں محسوس ہوا کہ میں یہ رشتہ ختم کر دوں گا؟“ زورک اسے دیکھ رہا تھا۔ زرگل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سنہری آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
”میں نے اگر تم سے جان چھڑوانی ہوتی تو تم سے شادی ہی نا کرتا۔ میں تمہارا مزاج تمہارے بچپن سے جانتا ہوں۔ شادی سے پہلے ہم سے پوچھا گیا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو لڑکیاں بدل دی جائیں، تمہیں لگتا ہے میں اوزی کو فیور کرتا ہوں۔۔ میرے پاس تب آپشن تھا، میں اوزی کو چن سکتا تھا مگر مجھے تم سے ہی شادی کرنی تھی۔۔
مجھے محبت ہے تم سے زر۔۔ لیکن محبت میں زلالت برداشت نہیں کر سکتا، میں نے تمہاری غلطیوں اور نادانیوں کے باوجود تمہیں دل سے قبول کیا تھا۔ تمہیں محبت دی، لاڈ اٹھائے۔ گردن اکڑا کر اس حویلی میں گھومتی رہی ہو لیکن آج تک تم نے مجھے دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔۔
تم نے میری محبت کو ہر بار ٹھوکر کی زد میں رکھا ہے۔“ زورک خان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ زرگل ندامت سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ مکرنے کی حالت میں بھی نہیں تھی نا اب وہ جھوٹ بولنے کے قابل رہی تھی۔ اسے قبول کرنا پڑا کہ زورک خان جو بول رہا تھا وہی سچ تھا۔
”میں اور کتنا برداشت کرتا، مجھے جب تم نے بتایا کہ وہ ٹیبلٹس تم نے لیں تو مجھے ایک دم لگا جیسے میرے ساتھ ساتھ تم نے میرے بچے کو بھی ٹھکرا دیا ہے۔ مجھے لگا تم نے جان بوجھ کر وہ سب کیا ہو گا۔ دماغ خراب ہو گیا تھا میرا، تم پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ میں اس حرکت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ میری غلطی تھی، میرا ضبط جواب دے گیا تھا۔
میں وقت واپس نہیں لے جا سکتا لیکن اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ وہ حرکت دوبارہ کبھی نہیں کروں گا۔ میں نے سنا ہے تمہارے آبا جان اب طلاق پر بات لے آئے تھے۔ اگر یہ بات مجھے پتا چلتی اور تم وہاں ہوتیں تو میں ان کے فیصلہ کو قبول کر لیتا۔“ زورک کی بات پر زرگل کی آنکھوں میں ہراس پھیل گیا۔
”میں ایسا نہیں چاہتی، مجھے فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگا تھا مگر میں نے جان لیا ہے کہ میں طلاق نہیں چاہتی۔ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، میں مانتی ہوں میں نے غلطیاں کی تھیں مگر مجھے ایک موقع دے دیں۔“ زرگل نے روتے ہوئے اعتراف کیا تو زورک خان نے رک کر اسے دیکھا۔
”تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں زرگل۔۔ میرے وہاں نا جانے اور تمہیں خود نا لانے کے باوجود تم خان حویلی چلی آئی ہو۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔ اگر تم نا آتیں تو میں تمہیں واپس نہیں لانے والا تھا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے محبت نہیں رہی بلکہ وجہ ہی یہی ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
میں شہر سے آنے کے بعد سیدھا پھپھو کی حویلی گیا تھا تاکہ اپنے روئیے کی معافی مانگ لوں اور تمہیں بتا دوں کہ اب میں تم پر کوئی جبر نہیں کروں گا۔ تمہیں زبردستی میرے ساتھ باندھا گیا تھا، تم دل مار کر میرے ساتھ رہیں اور میں نے بھی ایک سال تمہیں محبت دینے اور تمہارا دل جیتنے کی کوشش کی۔
مجھے لگا تھا میں ناکام ہوا ہوں، تمہیں آزاد کر دوں لیکن تمہارا میرے پاس آنا مجھے بتا رہا ہے کہ میری محنت ضائع نہیں ہوئی۔“ زورک آخری جملے پر مسکرایا تو زرگل سسکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔ زورک نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے نرمی سے اس کا وہی رخسار چوم لیا جہاں اس نے تھپڑ مارا تھا۔
”زرگل ہم اپنے رشتے کو پھر سے شروع کرتے ہیں۔ نئے سرے سے آغاز لیتے ہیں۔۔ پہلے جو بھی بدگمانیاں اور فاصلے آئے، میں نے جو سختی کی اور تم نے جو غلطیاں کیں۔ ہم وہ سب بھول جاتے ہیں، دہرائیں گے نہیں۔۔ کیا تم اب میرا ساتھ دو گی؟ مجھے قبول کر لو زرگل، میرے لیے اب صرف میری محبت کافی نہیں رہی۔۔“
وہ اس کے بھیگے رخساروں کو نرمی سے صاف کرتے ہوئے محبت اور نرمی سے بول رہا تھا۔ زرگل نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ زورک خان نے اسے خود میں سمیٹ لیا۔ شادی کے بعد جب اس نے زرگل کو اپنے قریب کیا تھا تو وارن کیا تھا کہ اس کے علاوہ کسی کو نا سوچے۔۔
اس بار وہ اسے خود سے لگائے یقین دلا رہا تھا کہ وہ اس کی محبت جیت لے گا، اسے سنبھلنے کا وقت دے گا۔ اب وقت بھی بدل گیا تھا۔ حالات بھی اور زورک خان کے الفاظ بھی۔۔ اس بار ٹھوکر دونوں کو لگی تھی اور سنبھلنے کے لیے دونوں ایک دوسرے کا سہارا لے رہے تھے۔
زرگل نے زورک خان کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔ وہ تھک گئی تھی دور رہتے رہتے۔۔ اسے لگتا تھا زورک خان سے اس کا رشتہ بوجھ سے بڑھ کر کچھ نہیں مگر ان کچھ دنوں میں اسے احساس ہوا تھا وہ اب زورک سے الگ ہوئی تو کہیں کی نہیں رہے گی۔
صرف وہی تھا جو اس کی خامیوں کو بھی نظر انداز کر دیتا تھا۔ جس نے یہ بات بھی ہضم کر لی کہ زرگل اس کی بجائے خان زادہ کو پسند کرتی ہے اور اس بات کا کبھی طعنہ بھی نہیں دیا۔ اس کے بعد بھی جس نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، اس کے پاس نا رہتی تو کہیں کی نا رہتی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث خان کی مصروفیات بڑھ چکی تھیں، اس نے اوزگل کو پینٹ ہاؤس میں شفٹ کر لیا اور اگلے ہی دن اسے لے کر علی زئی حویلی پہنچا تھا۔ اوزگل ماں باپ سے مل کر انہی کے ساتھ زرگل سے بھی مل آئی تھی۔ اس بار جب وہ گئی تو زرگل نے اس کا بہت خوشی سے استقبال کیا تھا۔ بیگم ثمر کو خوف تھا ان کی بھابھی زرگل کو لعن طعن کرتی ہوں گی۔
مگر وہاں جا کر سب ٹھیک نظر آیا اور زرگل تو بالکل ٹھیک لگ رہی تھی۔ اس کا اوزگل سے خوش ہو کر ملنا اس بات کا ثبوت تھا کہ اب اس کے دل میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں رہی تھی۔ زورک خان کو یافث کی باتوں نے بہت کچھ سمجھایا تھا لیکن نا اوزگل نے اسے بتایا نا زورک خان نے اس کا نام لیا۔ یافث اسے ایک رات کے لیے ہی وہاں لے گیا تھا۔ ایک دن رہ کر وہ دونوں واپس چلے آئے۔
اس وقت پینٹ ہاؤس کے اوپن کچن میں اوزگل دو تین لوگوں کے لیے رات کا کھانا تیار کر رہی تھی، رودابہ اور خوشنما شام تک پہنچ رہی تھیں۔ ایک دن کے بعد ان کی یونی بھی سٹارٹ ہونے والی تھی۔ کھانا بناتے ہوئے اس نے ناجانے کتنی بار اپنے دماغ میں الفاظ سوچے تھے وہ ان دونوں کو کیسے اپنی شادی کا بتائے۔ شادی کی خبر دینے سے زیادہ یافث خان کو اپنا ہزبینڈ بتانا مشکل ہو رہا تھا۔
”آپ بزی تو نہیں ہیں؟“ اوزگل نے کوفتے بنا کر یافث خان کو میسج کیا۔ رپلائی کی بجائے کال آئی تھی۔
“نہیں میں بزی نہیں ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”میں نے پوچھنا تھا آپ آج لیٹ آئیں گے ناں؟ آپ صبح کہہ رہے تھے کہ۔۔“ اوزگل کے سوال پر وہ اسے ٹوک گیا۔
”اوزی لڑکیاں تو اپنے شوہر کو کال کر کے فرمائش کرتی ہیں کہ جلدی آنا اور تم کنفرم کر رہی ہو میں لیٹ آؤں گا یا نہیں۔۔ کتنا روڈ کوئسچن تھا، تمہیں مجھ سے بالکل محبت نہیں اوز۔۔“ اس کے شکوہ پر اوزگل گڑبڑا گئی۔
”میں تو۔۔ آپ نے صبح خود کہا اس لیے پوچھ رہی تھی۔ آئم سوری میرا وہ ارادہ نہیں تھا۔“ اس کی پریشانی پر یافث آہستگی سے ہنسا۔
”تو پھر کیا ارادہ ہے؟“ وہ سوال کر رہا تھا۔
”میری فرینڈز آ رہی ہیں آج، میں سوچ رہی تھی رات کے کھانے پر انوائٹ کر لوں۔ میں انہیں بتانا بھی چاہتی تھی کہ میں میریڈ ہوں۔ اگر آپ جلدی آئیں گے تو میں صرف کھانا بھیج دوں گی کل جا کر مل لوں گی۔ میں نہیں چاہتی آپ انکمفرٹیبل ہوں۔“ اوزگل نے اسے تفصیل سے بتایا۔
”اوہ تم فرینڈز کو انوائٹ کر لو کیونکہ میں آج تھوڑا لیٹ ہو جاؤں گا۔ شاید دس بجے تک واپس آؤں، اتنا ٹائم اینف ہو گا؟ کیونکہ میرے واپس آنے سے پہلے ہی تمہاری فرینڈز کا چلا جانا بہتر ہو گا۔ میں انکمفرٹیبل نہیں ہوتا مگر بہتر یہی ہے کہ میری موجودگی میں وہ لڑکیاں ہمارے گھر نا آیا کریں۔“
یافث نے اسے ٹائم بتانے کے ساتھ آئندہ کے لیے بھی نرمی سے سمجھایا۔ اوزگل نے سر ہلایا۔ کال بند ہونے کے بعد اس نے وقت دیکھا۔ ابھی دو بج رہے تھے۔ ان دونوں نے شام چھ بجے تک پہنچنا تھا۔ رودابہ ایک دن پہلے خوشنما کے گھر گئی تھی اور اب وہاں سے دونوں اکٹھی یہاں آ رہی تھی۔ ان کے پہنچنے سے پہلے اس نے کھانا بنا لیا۔
پانچ بجے تک وہ فریش ہوئی اور ایک گہرے رنگ کا سٹائلش سا لباس پہن کر بال کھولے۔ لبوں پر جھینپی ہوئی سی مسکراہٹ تھی۔ ناجانے وہ دونوں اس کی شادی کا سن کر کیسا ری ایکشن ظاہر کریں گی۔ اوزگل کو خوف بھی تھا وہ دونوں ناراض ہو جائیں گی۔ موبائل پر میسج آیا تو اس نے چونک کر میسج چیک کیا۔
یافث نے ان دونوں کی شادی اور ولیمے کی دو پکچرز بھیجی تھیں۔ ان پکچرز میں وہ دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے اسی کو دیکھ رہا تھا اور اوزگل دونوں جگہ سر جھکائے اداس سی بیٹھی تھی۔ وہ دونوں ساتھ بیٹھے بہت اچھے لگ رہے تھے، اس نے وہ پکچر خود بھی پہلی بار دیکھی تھی۔ یافث نے کبھی نہیں بتایا اس کے پاس ان کی کوئی پکچر ہے۔
”اپنی فرینڈز کو یہ دکھا دینا۔ تمہیں میرا نام بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔“ یافث کا میسج آیا تو وہ حیران ہوئی۔ وہ اس کا نروس ہونا محسوس کر گیا تھا۔
”آپ کے پاس یہ پکچرز کب سے ہیں؟“ وہ حیرت سے میسج کر رہی تھی۔ ان تصاویر نے اسے اداس کر دیا تھا۔ اس نے واقعی نہایت قیمتی وقت برباد کیا تھا۔۔ وہ بہت خوش لگ رہا تھا بس اوزگل ہی اداس اور خاموش لگ رہی تھی۔
”میرے پاس تمہاری سوچ سے زیادہ پکچرز ہیں جن میں صرف تم ہو۔ میرے ساتھ بس یہی دو تھیں۔“ اس کا رپلائی اوزگل کو مزید حیران کر گیا تھا۔ وہ کبھی کچھ کہتا کیوں نہیں تھا۔ اتنی خاموشی سے کون محبت کرتا ہے، وہ تو لڑکی تھی زرا سی بےاعتنائی پر شور مچا دیا تھا۔
کتنی روئی تھی اور کتنے دن وہی دکھ سینے سے لگائے رہی تھی اور وہ پورا ایک سال اس کی خوامخواہ کی ناراضگی سہتا رہا اور صلح ہونے پر شکوہ تک نہیں کیا۔وہ سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی جب خوشنما کا میسج آیا۔
”ہم پہنچ گئی ہیں لیکن تم کہاں ہو؟“ اس کے میسج پر وہ سیدھی ہوئی۔
”سامان رکھو اور ٹاپ فلور پر آ جاؤ۔۔ میں پینٹ ہاؤس میں ہوں۔“ اس نے جوابی میسج لکھ کر اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر کندھوں پر پھیلایا۔ پینٹ ہاؤس کی الگ سے لفٹ تھی، بلڈنگ کے دائیں جانب باقی بلڈنگ کے لیے لفٹ تھی اور بائیں جانب پینٹ ہاؤس کی لفٹ تھی جو ان کے فلور پر ڈائریکٹ اوپن ہوتی تھی۔
خوشنما اور رودابہ اس کے پاس آئیں تو حیران پریشان سی تھیں۔ سمجھ نہیں پائیں کہ وہ وہاں کیوں تھی اور کیا وہ اب وہیں رہنے والی تھی یا پھر کسی سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ اوزگل ان سے مل کر انہیں بٹھانے لگی۔ پہلے تو وہ دونوں حال احوال لیتی رہیں، اوزگل کا حلیہ اور سجا سنورا روپ انہیں ٹھٹکا رہا تھا مگر سوال نہیں کیا۔
اوزگل نے کھانا مغرب کی نماز پڑھتے ہی ٹیبل پر لگا دیا۔ وہ بھی تھکی ہوئی تھیں اور یافث نے بھی دس بجے آ جانا تھا۔ اس سے پہلے ہی فارغ ہونا چاہتی تھی۔ کھانے کے دوران رودابہ کا صبر جواب دے گیا۔ اس نے اوزگل کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔
”علیزے تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کیا یہاں بھی تمہارے کوئی رشتہ دار رہتے ہیں؟ اور اتنی تیاری کیوں کی ہوئی ہے کیا کہیں جانا ہے تمہیں؟“ رودابہ کے سوالات پر خوشنما نے بھی سر اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”یہاں میرے کزن رہتے ہیں، میں یہاں اس لیے ہوں کیونکہ اب یہیں رہتی ہوں اور مجھے کہیں نہیں جانا، تم دونوں آ رہی تھیں اس لیے تیار ہوئی ہوں۔“ اوزگل نے لب دبا کر شرارت سے مسکراتے ہوئے انہیں بتایا۔
”یہاں رہتی ہو؟ کیا مطلب، تم اب ہمارے ساتھ نہیں رہو گی۔۔۔ مطلب اب ہم اس فلیٹ میں نہیں رہیں گے؟“ وہ دونوں گھبرا کر سوال کرتی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”تم دونوں وہیں رہو گی لیکن میں یہاں رہوں گی۔۔ خوشی، دابہ میں نے تمہیں کچھ بتانا ہے اور پلیز تم دونوں ناراض نہیں ہونا مجھ سے۔۔“ اس نے گہرا سانس بھر کر انہیں پوری بات بتانے سے پہلے تمہید باندھی۔
”ہم تم سے ناراض نہیں ہو سکتیں تم جانتی ہو۔ تم بس جلدی سے بتاؤ کہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہو گی۔ کیا ہوا ہے؟“ وہ دونوں پریشانی سے پوچھنے لگیں۔
”کیونکہ میں میریڈ ہوں، میرے ہزبینڈ نے پہلے پرمیشن دی ہوئی تھی الگ رہنے کی مگر اب ان کے ساتھ رہوں گی۔“ اس نے اچانک خبر دے کر ان دونوں کے سر پر دھماکہ کیا۔ وہ منہ کھولے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس دیکھنے لگیں۔
”تم میریڈ ہو؟ کب سے؟“ وہ دونوں ایک ساتھ چیخ پڑیں۔ وہ شرمائی ہوئی سی انہیں دیکھنے لگی۔ اتنا عرصہ سچ چھپانے پر شرمندگی بھی ہو رہی تھی۔
”ایک سال سے۔۔“ اس کی آواز مزید مدھم ہوئی تھی۔
”واٹ؟ علیزے کی بچی، اس کا مطلب جب تم ہمیں ملیں تو میریڈ تھیں؟ تم نے کیوں نہیں بتایا؟ تمہارے ہزبینڈ کہاں ہوتے ہیں۔ اتنی چھوٹی ایج میں شادی کیوں ہوئی۔ ہم سے کیوں چھپایا؟“ وہ سوال پر سوال کرتی صدمے میں آ گئی تھیں۔
”تم دونوں ناراض نہیں ہونا پلیز میں نے اس لیے چھپایا کیونکہ میں اپنے ہزبینڈ سے ناراض تھی۔ ہمارے درمیان تھوڑی غلط فہمی چل رہی تھی، میں نے اسی شرط پر سٹڈیز کی پرمیشن لی تھی کہ میں الگ رہ کر صرف پڑھائی کروں گی۔ تم دونوں کو بتانا چاہتی تھی مگر میں انکمفرٹیبل نہیں ہونا چاہتی تھی۔
آئی مین تم دونوں اگر مجھے میرے ہزبینڈ کے نام سے چھیڑتیں تو میں ان ایزی رہتی۔ کیونکہ مجھے ان پر تب بہت غصہ تھا اور میں اسی غصے میں خود کو ان میریڈ بنا کر گھومتی رہی تھی۔“ اس نے آہ بھر کر افسردگی سے انہیں بتایا۔
”اوہ اٹس اوکے تمہارے پاس ریزن تھی مگر ہمیں اچھا لگتا اگر تم ہم پر ٹرسٹ کرتیں، ضروری نہیں ہم تمہیں ناراض شوہر کے نام سے چھیڑ چھاڑ کر کے پریشرائز کرتے۔۔“ خوشنما نے اسے تسلی دی۔
”یار تم یہ سب چھوڑو، جلدی سے بتاؤ تمہارے ہزبینڈ کون ہیں بلکہ پکچرز دکھاؤ اور وہ نہیں تو ہمیں ملواؤ ان سے۔۔ پتا تو چلے کون خوش نصیب ہے۔“ رودابہ جوشیلے لہجے میں بول رہی تھی۔ وہ جھلملاتی نظروں سے دونوں کو دیکھنے لگی۔ نا گلہ شکوہ کیا نا اس بات کو سر پر سوار کیا تھا۔
”رو کیوں رہی ہو؟ کوئی پریشانی ہے؟“ اس کی بھیگی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے وہ دونوں پریشان ہوئیں۔
”نہیں۔۔ میں بس ایموشنل ہو گئی تھی۔۔ مجھے انڈرسٹینڈ کرنے کے لیے تھینکس۔۔ اب کھانا کھاتے ہیں پھر ایزی ہو کر سب تفصیل بتاؤں گی بلکہ اپنی شادی کی پکچر بھی دکھاؤں گی۔“ اس نے ٹشو سے اپنی آنکھوں کی نمی خشک کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”ہاں کھانا کھاتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اپنے ہزبینڈ کے بارے میں بھی بتاؤ ہمیں۔۔ لو میرج ہے؟ پہلے کس نے پرپوز کیا تھا اور یہ ناراضگی صرف تمہاری طرف سے تھی یا وہ بھی ناراض تھے۔ کہیں زبردستی شادی تو نہیں ہوئی دونوں کی؟“ ان کا تجسس بڑھ گیا تھا۔
”ہمارا بچپن سے رشتہ ہو چکا تھا کسی نے پرپوز نہیں کیا۔۔ ہاں لو میرج ہی سمجھ لو۔۔ ناراضگی میری طرف سے تھی کیونکہ مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی کہ انہیں شادی کے لیے فورس کیا گیا ہے یا وہ راضی نہیں۔ میں اس بدگمانی کو کلئیر کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔“
وہ کھانا کھاتے ہوئے انہیں آہستگی سے بتاتی جا رہی تھی۔ وہ اس کی عقل پر ماتم کرتی اسے گھور رہی تھیں۔
”ہمیں اندازہ نہیں تھا تم اپنی شادی شدہ زندگی اتنی نان سیرئیس ہو کر گزار رہی ہو۔۔“ خوشنما نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔ وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔
”جب تمہارے ہزبینڈ صاحب اتنے اچھے ہیں تو میری انگیجمنٹ میں ان کے ہی ساتھ چلی آتی، ہم نے تمہیں اتنا مس کیا۔“ رودابہ بھی افسوس کر رہی تھی۔
”تم تو بہت خوش ہو گی، تمہیں کنوارے ہونے کا بہت دکھ تھا۔“ وہ پرانی باتیں یا کر کے رودابہ کو چھیڑنے لگی۔ خوشنما نے قہقہہ لگایا۔
”اور تم گھنی چالاکو ماسی ہماری ٹھنڈی آہوں کو انجوائے کرتی رہیں۔ منہ سے ایک بار نہیں پھوٹیں کہ ہم دونوں سے چھوٹی ہم سے بھی پہلے میاں جی والی ہو چکی تھی۔“ رودابہ اسے گھور رہی تھی۔ وہ ہنسنے لگی۔
کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر ان دونوں نے پینٹ ہاؤس دیکھا۔
وہ تین بیڈ رومز والا نہایت لگژری اور خوبصورت گھر تھا۔ ٹیرس بھی بہت کھلی اور ہوادار تھی۔ پورا گھر دیکھنے کے بعد وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئیں، اوزگل کمرے سے جا کر ان دونوں کے لیے پیک شدہ مہنگے پرفیومز لے آئی۔
”یہ تم دونوں کا انگیجمنٹ گفٹ ہے۔“ اوزگل انہیں گفٹ دیتے ہوئے مسکرا کر ان کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”تھینک یو اب اپنے ہزبینڈ دکھاؤ۔۔“ وہ دونوں اس کے گرد جڑ کر بیٹھتے ہوئے جوش سے پوچھنے لگیں۔ اوزگل نے موبائل اٹھا کر یافث خان کی بھیجی پکچرز ان کے سامنے کر دیں۔
”یہ تمہارا ہزبینڈ۔۔ علیزے کی بچی۔۔ تو یہ سین تھا۔ اس لیے وہ جناب فلیٹ میں گھسے چلے آتے تھے، ہر وقت علیزے کی فکر میں ہلکان۔۔ اوہ مائی گاڈ تم دونوں کتنے چالاک ہو، ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا۔“ وہ دونوں اسے گھورتی چیخ رہی تھیں، وہ لبوں پر ہاتھ رکھے ہنستی چلی گئی۔
”اور دوبارہ ایسی حرکت مت کرنا، تم نے غلط فہمی میں اتنا وقت برباد کر دیا۔ عجیب بےوقوف لڑکی ہو۔ اتنے اچھے بندے پر کون شک کرتا ہے۔“ خوشنما نے اسے ڈانٹتے ہوئے سمجھایا۔
”انفیکٹ وہ غلط ہو تب بھی ساتھ رہنے میں کیا نقصان تھا۔ اپنے ہزبینڈ کو غور سے دیکھا ہے کبھی؟ ناجانے کتنی لڑکیوں کی اس پر نظر ہو گی۔“ رودابہ نے بھی اسے گھورا۔ وہ آہ بھر کر انہیں وضاحت دینے لگی کہ تب اس کی عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ اسے وہ بہت پسند تھا اور جس سے محبت ہو اس کی ناپسندیدگی زیادہ دکھی کرتی ہے۔
لیکن اس کی سب وضاحتیں ناکام ہوئی تھیں، وہ دونوں اسے اس غلطی پر اچھی خاصی باتیں سناتی رہیں اور ساتھ ساتھ ایسے نصیحتیں کرتی رہیں گویا وہ شادی شدہ اور بہت تجربہ کار ہوں۔ ان کی ساری ہمدردی یافث خان کے ساتھ تھی۔ اوزگل آہ بھر کر رہ گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث خان آفس سے نکلا تو دس بج رہے تھے، اس نے اوزگل کو میسج یا کال نہیں کی تاکہ وہ دوستوں کے ساتھ انجوائے کر سکے۔ گھر پہنچنے تک ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اوزگل اس کی توقع کے عین مطابق کام کاج سے فارغ سوئی ہوئی تھی۔
وہ دبے پاؤں کمرے میں پہنچا، موبائل چارجنگ پر لگا کر اپنا ڈریس اٹھایا اور چینج کرنے چلا گیا۔ کھٹ پٹ پر اوزگل کی آنکھ کھلی تو وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ یافث فریش ہو کر آیا تو وہ جاگی ہوئی تھی۔ وہ چونک گیا۔
”سوئی رہو، جاگی کیوں ہو۔۔“ وہ اس پر جھک کر اس کی پیشانی پر لب رکھتا نرمی سے مسکرایا۔ اوزگل سوئی جاگی سی اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں ویٹ کر رہی تھی، آپ کے لیے کھانا گرم کروں؟“ وہ بستر سے اٹھنے لگی۔ یافث نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”اوز میں خود کر لوں گا۔ تمہیں اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ اسے روکنے لگا۔ لیکن اوزگل جلدی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھوتی کچن میں پہنچ گئی۔
”تمہاری فرینڈز آئی تھیں؟“ وہ اوپن کچن کے قریب رکھی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔ وہ آتشی رنگ کے لباس میں کھلے بالوں کے ساتھ ڈوپٹہ جیسے تیسے سر پر ٹکائے کھڑی تھی۔ سالن اوون میں رکھ کر اسے دیکھنے لگی۔
”جی کھانا ان کے ساتھ کھایا تھا۔ میں نے انہیں بتا دیا، وہ میری شادی سے زیادہ آپ کے انٹروڈکشن پر شاکڈ ہوئی تھیں۔“ وہ جھینپی ہوئی سی بتا رہی تھی۔ رخسار بھی سرخ ہوئے جا رہے تھے۔ وہ ہنسنے لگا۔
”کیا ان کو میں تمہارے لیے سوٹ ایبل نہیں لگا؟“ اوزگل نے کھانا گرم کر کے اس کے سامنے رکھا تو یافث نے سوال کیا۔ وہ اس کے سامنے ٹیبل پر بیٹھ گئی۔
”جب ان لوگوں نے میرے بارے میں سب جانا تو انہیں میں آپ کے لیے سوٹ ایبل نہیں لگی۔“ وہ اپنی ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائے منہ بسورتے ہوئے بول رہی تھی۔
”انہیں دوبارہ ایسی بات مت کرنے دینا، انہیں اندازہ نہیں تم میرے لیے کیا ہو۔ تم میں تو میری جان بستی ہے۔“ وہ کھانا کھاتے ہوئے سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل کا دل زور سے دھڑک اٹھا تھا۔
”میں انہیں ایسی باتیں کیسے کر سکتی ہوں۔ وہ کہیں گی میں اوور ہو رہی ہوں۔“ وہ خفت زدہ سی ٹیبل پر انگلیوں سے ڈیزائن بناتے ہوئے بولی۔
”تمہاری فرینڈز ایسی ہیں؟ کیا وہ تم پر بیلیو نہیں کرتیں؟“ وہ رک کر سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔ اوزگل گڑبڑا کر نفی میں سر ہلانے لگی۔
”ایسا نہیں ہے، وہ دونوں میری بہت کئیر کرتی ہیں۔ انہیں مجھ پر بہت ٹرسٹ ہے۔ میری غلطی تھی اس لیے انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ مجھے بغیر ثبوت کے آپ پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔“ وہ ان کی طرف داری کرتے ہوئے بولی۔
”اوز تمہیں ڈانٹنے کا حق صرف مجھے ہے لیکن میں بھی تمہیں کبھی ڈانٹنا نہیں چاہتا نا کبھی تم پر سختی کروں گا۔ کسی کو کوئی حق نہیں تمہیں کسی بات پر ڈانٹے۔ ہاں تم مجھ سے دور رہیں۔ مگر جب مجھے مسئلہ نہیں ہوا، میں ناراض نہیں تھا تو وہ کیوں ہوئیں۔“
وہ سنجیدہ تھا اوزگل منہ کھولے ہونق سی اسے دیکھنے لگی۔ اس کی حیرت پر وہ ٹشو سے منہ صاف کرتا ابرو چڑھا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ جواب نہیں سمجھ پائی تھی، اسے تو ابھی یافث خان کی بات بھی نہیں سمجھ آ رہی تھی۔
”اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو، جس بیوی پر کبھی میں نے سختی نہیں کی کسی دوسرے کو کیسے اجازت دوں اس پر سختی کرے یا اچھا برا سمجھائیں۔ مجھے تمہاری کسی بات سے کوئی مسئلہ نہیں۔“ وہ نرمی سے بولتے ہوئے برتن سمیٹنے لگا۔
”آپ کے لیے چائے بناؤں؟“ اوزگل مسکراتے ہوئے اس سے برتن لے کر کچن میں داخل ہوئی۔ وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
”آج میں بہت بزی رہا ہوں آفس میں، اب تھکن ہو رہی ہے صرف سونا چاہتا ہوں۔ مجھے چائے کی طلب نہیں، اب موسم بھی بدل رہا ہے۔ اتنی چائے نہیں پی سکتا پھر گرمی لگتی ہے۔“ وہ اس کا سر تھپک کر کمرے میں چلا گیا۔ اوزگل نے کچن سمیٹا اور لائٹس آف کر کے باہر نکلی۔
کمرے میں پہنچی تو موبائل پر رودابہ نے اپنی انگیجمنٹ کی سب ویڈیوز بھیجی ہوئی تھیں۔ شاید اس کی منگنی بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی، ویڈیوز کا ڈھیر جمع کیا ہوا تھا۔ اس نے تجسس سے لیپ ٹاپ اٹھایا اور کمرے سے نکل کر باہر بیٹھی۔ لیپ ٹاپ پر ویڈیوز لگا کر دیکھنے لگی۔
خوشنما سجی سنوری لڑکیوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح ناچ رہی تھی۔ رودابہ بھی میک اپ سے نقوش ٹکائے سٹیج پر بیٹھی تھی۔ خوشنما کا بھائی خوش شکل اور میچور انسان لگ رہا تھا۔ رودابہ کے لبوں پر شرمیلی مسکان اور خوشنما کے بھائی کی چمکتی آنکھیں ظاہر کر رہی تھیں دونوں اس رشتے پر خوش تھے۔
اوزگل پرجوش سی ان کی ویڈیوز دیکھ رہی تھی، اسے دیکھ کر ہی مزہ آ رہا تھا۔ ہلا گلا دیکھتے ہوئے خیال آیا اگر وہ یافث خان سے بول دیتی تو شاید وہ لے جاتا۔ اس نے کبھی کوئی فرمائش ہی نہیں کی تھی حالانکہ وہ کئی مرتبہ یقین دلاتا تھا کہ اوزگل جو چاہے مانگ سکتی ہے، وہ انکار نہیں کرے گا۔۔ اسے اب خیال آ رہا تھا وہ چاہتی تو رودابہ کی منگنی پر جا سکتی تھی۔
وہ درمیانے طبقہ کے لوگ تھے، ان کی انجوائے منٹ اور ہلا گلا تمیز کے دائرے میں تھا۔ وہ حیران ہو رہی تھی کہ لوگ منگنی پر بھی اتنی دھوم دھام کرتے ہیں۔ رات کے بارہ بجے تک بیٹھ کر اس نے تمام ویڈیوز نہایت تفصیل سے دیکھی تھیں۔ خوشنما اور رودابہ بھی جاگی ہوئی تھیں اس سے کال پر بات کرتے ہوئے اسے ہر رسم کے بارے میں بتاتی رہیں۔
”علیزے تمہارے ہزبینڈ ابھی تک نہیں آئے؟ کیا تم اکیلی بیٹھی ہو؟“ خوشنما نے اچانک خیال آنے پر سوال کیا۔
”وہ تو سو رہے ہیں۔ تھکے ہوئے تھے۔“ وہ لاپروائی سے بولی۔ وہ دونوں حیران ہوئیں۔
”تمہارے مزے ہیں، نا کوئی روک ٹوک نا کوئی زمہ داری۔۔ بندہ بھی ایسا مل گیا ہے جو آتے ہی سو گیا اور تم مزے سے بیٹھی ہمارے ساتھ باتیں کر رہی ہو آہ۔۔“ رودابہ نے آہ بھری۔
”تم میرے سامنے بیٹھی دوست کے شوہر پر آہیں بھر رہی ہو بےشرم لڑکی اب میں تمہاری نند بن چکی ہوں۔ تم بس میرے بھائی پر توجہ دو۔“ خوشنما نے اسے ڈپٹا، اوزگل آواز دبائے ہنستی جا رہی تھی۔
”تمہارے بھائی صاحب بھی میرا ایسے ہی خیال رکھیں گے تو پھر میں آہیں بھرنا چھوڑ دوں گی۔“ رودابہ بھی نخرے سے بولی۔ اس کے خوابوں کی پتنگ منگیتر ملنے پر مزید اونچی پرواز کرنے لگی تھی۔
”خواب دیکھ لو، نا میرا بھائی یافث خان ہے نا تم علیزے خان۔۔ اس لیے بی بی زرا حد میں اڑو۔۔“ خوشنما نے اس خواہشات کی پتنگ کاٹ دی۔ اوزگل کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔
”اسے دیکھو کیسے ہنس رہی ہے ہم پر۔۔“ خوشنما نے اس کے ہنسنے پر اسے شرم دلائی۔ اوزگل سینے پر ہاتھ رکھے ہنسی کنٹرول کرنے لگی۔ چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
”اب ہم سوتے ہیں۔ تم بھی سو جاؤ، پہلے جلدی سو جایا کرتی تھیں اب کیوں جاگ رہی ہو۔ بند کرو سب پھر صبح ملتے ہیں بات کریں گے۔“ خوشنما نے اسے تاکید کی اور کال کاٹ دی۔
اس نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کیا۔ کمرے میں جانے کی بجائے گلاس ونڈو سے باہر چمکتا ہوا چاند اور ہواؤں کا شور دیکھ کر وہ ونڈو کے پاس پہنچی۔ باہر بہت ہوا چل رہی تھی۔ وہ باہر جانے کے لیے مچل اٹھی لیکن اکیلے باہر نکلنے سے ڈر لگ رہا تھا۔
وہ کمرے میں جا کر یافث کو دیکھنے لگی، وہ سینے تک بلینکٹ ڈالے اطمینان سے سو رہا تھا۔ اوزگل بےچینی سے پہلو بدلنے لگی، بستر پر دراز ہوئی پھر اٹھ بیٹھی۔ پھر رہا نہیں گیا تو آہستگی سے یافث کا کندھا ہلایا۔ وہ جاگ کر اسے دیکھنے لگا۔
”اوز کیا ہوا، کیا بات ہے؟“ وہ اس کے جگانے پر پریشان ہو گیا کیونکہ اوزگل بستر پر لیٹنے کی بجائے اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔
”باہر چلیں ٹیرس پر؟“ وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔
”ابھی؟ رات کو؟ خیر تو ہے ناں؟“ وہ حیران ہوا۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
”باہر ہوا چل رہی ہے۔ بہت تیز ہوا، مجھے ایسا موسم بہت اچھا لگتا ہے۔“ وہ خوشی سے چہکی۔ بار بار بےچینی سے کھڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔ وہ اس کا جوش دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔
”تمہیں کبھی دن ٹائم خیال نہیں آیا ٹیرس پر جانے کا۔۔؟ یہاں سے سٹی ویو بہت اچھا ہے۔ مجھے لگا تھا تم بہت ان رومانٹک ہو۔۔“ وہ اٹھ کر اس کے ساتھ باہر ٹیرس پر نکلا۔ اوزگل کھلی ٹیرس پر کھڑی ہوتی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
تیز ہوا سے اس کے بال اڑ رہے تھے، یافث ایک طرف پڑی چئیرز پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ دائیں بائیں چلتی جوش سے پاگل ہو رہی تھی۔ نا اسے ٹھنڈی ہوا سے مسئلہ تھا نا اب نیند کی پرواہ تھی۔ ڈوپٹہ بار بار سنبھالنے کی کوشش کرتی وہ خوشی سے بھر چکی تھی۔ ہوا سے اُڑتے سنہری مائل لمبے بال اور ڈوپٹہ سنبھالتی وہ ریلنگ کو تھام کر نیچے کی جانب دیکھنے لگی۔
”تمہارا حساب کسی بچے والا ہے جس پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ نیچے کیا جھانک رہی ہو، ہوا اتنی تیز ہے، ڈوپٹہ تمہارے پیروں میں پڑا ہے پیر اٹکنے سے نیچے گر گئی تو کیا کرو گی۔“ یافث بےاختیار اٹھ کر اس کے پاس جاتا اس کے پیٹ کے گرد بازو کا پھیلائے اسے پیچھے کی جانب کھینچتا سینے سے لگا گیا۔
”نہیں گروں گی، یہ بلڈنگ بہت اونچی ہے، یہاں سے نیچے روشنیاں دیکھنا اچھا لگ رہا ہے۔“ وہ نیچے دیکھنے کے لیے مچل رہی تھی۔ یافث اس کی پشت اپنے سینے سے لگائے ریلنگ پر ٹکے اس کے ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا گیا۔ اوزگل اس کے حصار میں سمٹتی بری طرح شرما گئی۔
”نہیں کرو اوز، مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ میری غیر موجودگی میں بھی کبھی یہ حرکت مت کرنا۔ روشنیاں دیکھنی ہیں تو نیچے لے جاتا ہوں، قریب سے دیکھ لینا۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اندر کی جانب بڑھا۔
”نہیں اوپر سے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا، آج چاند کی روشنی بہت زیادہ ہے، ہوا بھی بہت تیز ہے اس لیے ٹیرس پر آئی ہوں۔ میں اکیلی نہیں آؤں گی یہاں۔“ وہ ہاتھ چھڑوا کر چئیر پر بیٹھ گئی۔
”اوز سونا نہیں ہے کیا؟“ وہ اسے بیٹھتا دیکھ کر سر پکڑ گیا۔ ناجانے آج اسے کیا مستی سوجھ رہی تھی۔ وہ اس کے سوال پر نفی میں سر ہلانے لگی۔
”یہاں مزہ آ رہا ہے۔ مجھے اندر روم میں گھٹن ہوتی ہے، موسم چینج ہو رہا ہے۔ کل رات بھی مجھے اچانک گرمی سی لگنے لگی تھی۔“ وہ بےچارگی سے بولی۔ چئیر پر بیٹھی ٹھٹھر رہی تھی مگر باہر بیٹھنے پر بضد تھی۔
”اندر چلو، آج گرمی نہیں لگے گی۔ اب تم ساری رات یہاں تو نہیں بیٹھی رہ سکتیں۔“ وہ اس کی کلائی تھامتا زبردستی اسے اندر لے گیا۔ کمرے کی ونڈو کھول کر پردے سمیٹ دئیے۔
”اب سو جاؤ، تمہیں بھی نیند آ رہی ہے۔“ وہ اس کی سرخ پڑتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے پہلو میں لیٹا گیا۔ وہ اس کے بازو پر سر رکھے پیچھے کھلی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ہلکی ٹھنڈی ہوا کمرے میں بھر چکی تھی۔ موسم بدل رہا تھا مگر ابھی گرمی نہیں آئی تھی۔
دن میں دھوپ اچھی خاصی ہوتی تھی مگر راتیں اب بھی کافی ٹھنڈی تھیں۔ یافث نے اسے سرد پڑتا محسوس کیا تو اس پر بلینکٹ پھیلاتے ہوئے اس کے سرد ہاتھ بھی بلینکٹ کے اندر کر دئیے۔ اوزگل کچھ ہی دیر میں گہری نیند سو گئی۔ وہ کچھ دیر نیند میں کروٹیں بدلتا رہا، کمرے میں ٹھنڈک بڑھتی جا رہی تھی۔
اس نے اٹھ کر ونڈو بند کر کے پردے برابر کیے اور اوزگل کو سینے سے لگاتا سکون سے سو گیا۔ اوزگل صبح فجر کے لیے جاگی تو رات کی ساری مستی ہوا ہو چکی تھی۔ زکام سے اس کا حال خراب ہو رہا تھا۔ نماز پڑھنا بھی مشکل ہو گیا۔ فارغ ہوتے ہی وہ بستر پر گرتی پوری بلینکٹ میں چھپ گئی۔
یافث نے نماز ادا کر کے اسے دیکھا تو گہرا سانس بھر کر اس کے پاس آیا۔ بلینکٹ ہٹا کر اس کے چہرے کو چھوا تو وہ تپ رہی تھی۔ ٹشو باکس ساتھ رکھے وہ ٹشو نکال نکال کر ناک سے بہتا پانی صاف کرتی بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ وہ اس کے لیے جنجر اور ڈیٹ والی چائے بنا لایا۔
”تمہارے شوق عجیب ہیں۔ تمہیں ٹھنڈی ہوا اتنی پسند ہے تو گرمیوں کا ویٹ کر لیتیں۔“ اسے سہارے سے اٹھا کر چائے پلاتے ہوئے وہ تاسف سے سر ہلا رہا تھا۔
”رات کو مزہ آیا تھا ناں؟“ وہ بھیگی آنکھوں اور فلو سے بےحال چائے پیتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔ یافث کو اس پر بےاختیار ہنسی آئی۔ وہ اسے دلچسپ اور بےوقوف لگتی تھی لیکن آج تو حد ہو گئی تھی۔
”مجھ سے زیادہ تو تمہیں مزہ آیا ہے، دیکھو اس مزے کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔“ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ اوزگل گرم گرم چائے حلق سے انڈیلتی سکون بھرے سانس لے رہی تھی۔ اس کے چھیڑنے پر ٹشو اٹھانے کے بہانے چہرہ چھپانے لگی۔
”اب سو جاؤ آئی ہوپ تمہیں آرام آ جائے گا، آئندہ مستی وہی کرنا جو تمہاری ہیلتھ خراب نا کرے۔ گرمیوں میں بارشیں اور ہوائیں انجوائے کریں گے۔“ وہ اسے ہدایت دیتا کپ سائیڈ پر رکھ کر لیٹ گیا۔
”آپ آفس کس ٹائم تک جائیں گے، میں اٹھ کر بریک فسٹ تیار کر دوں گی۔“ وہ اس کے سینے میں چھپتی پوچھ رہی تھی۔ یافث اسے اپنے حصار میں سمیٹتا نرمی سے اس کا سر سہلانے لگا۔
”تم سو جاؤ، میں آفس لیٹ جاؤں گا۔“ اس نے تسلی دی۔ اوزگل نے اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں۔ یافث خان اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا مسکرا رہا تھا۔ اوزگل ہمیشہ اس سے بات کرتے ہوئے جھجک جاتی تھی لیکن اب کھل کر سامنے آ رہی تھی۔
آدھی رات کو ٹھنڈ میں ٹیرس پر کھڑے ہو کر انجوائے کرتی اوزگل اسے جگا کر باہر لے جاتے ہوئے جھجک کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ اب وہ کھل کر اپنی خواہش کا اظہار کرنے لگی تھی اور یافث خان کی نظر میں یہی ان کے رشتے کی اصل مضبوطی تھی۔ ان کا تعلق بہتر ہوتا جا رہا تھا۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!