Genre:
haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط پينتس
رات کے وقت یافث خان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھا تھا۔ لیپ ٹاپ سامنے رکھے وہ شاید کوئی ای میل چیک کر رہا تھا۔ اوزگل اسے دیکھنے لگی، بیگم ثمر نے بتایا تھا زورک خان کو سچ پتا چل چکا تھا جس کی وجہ سے اس نے بہت غصہ کیا اور حویلی سے جانے کا کہا تھا۔
اوزگل کو یقین تھا زرگل اپنی غلطی خود تو نہیں بتا سکتی تھی، اس کا یہ مزاج ہی نہیں تھا۔ نا وہ غلطی مانتی تھی نا اعتراف کرتی تھی۔ تو کیا یافث خان نے بتایا ہو گا؟ اس نے یافث کو بتا دیا تھا۔ ہاں منع بھی کیا تھا کہ کسی کو نا بتائے مگر جیسے وہ غصہ ہوا تھا کون جانے سچ اگل دیا ہو۔
”بات سنیں۔۔ یافث۔۔“ اس نے آہستگی سے پکارا۔ اسے ایک بار پوچھنا تو چاہیے تھا۔ وہ متوجہ نہیں ہوا۔
”یافث۔۔ میری بات سنیں۔۔“ اوزگل اس کے اور لیپ ٹاپ کی سکرین کے درمیان حائل ہوتی اسے متوجہ کرنے لگی۔ وہ اس کی حرکت پر چونک کر کانوں سے ائیر پوڈز اتارنے لگا۔
”کیا بات ہے؟“ وہ لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر اوزگل کو دیکھنے لگا۔ وہ پریشان لگ رہی تھی۔ اس کے سوال پر متذبذب سی بات کرنے کے لیے الفاظ سوچنے لگی۔
”کیا بات کرنی ہے اوز، بولو میں سن رہا ہوں۔۔“ وہ اس کے گرد بازو پھیلاتا اسے کھینچ کر اپنی ٹانگ پر بٹھا گیا۔ اپنی گھبراہٹ اور سوچوں میں الجھی اوزگل کو اتنے قریب ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
”آج مورے کی کال آئی تھی، آپ کو پتا ہے زورک خان نے زرگل کو حویلی سے نکال دیا ہے۔“ وہ اس کے کالر سے کھیلتی بتا رہی تھی۔ یافث اس کی بات پر چونک گیا۔
”اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا، ایک غلطی سدھارتا ہے تو دوسری کر بیٹھتا ہے۔ اب کیا بات ہو گئی؟“ یافث نے اس کے بال سنوارتے ہوئے سوال کیا۔
”اسے پتا چل گیا کہ پین کلرز زرگل نے خود لی تھیں۔ کیا آپ نے بتایا اس کو؟“ اوزگل کے سوال پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”مجھے اس دن غصہ ضرور آیا تھا کہ تم نے وہ غلطی کی نہیں تو الزام کیوں لگا۔ لیکن تم بہنوں کا مسئلہ تھا، تم نے مجھے درمیان میں بولنے سے منع کر دیا تو میں کیوں بلاوجہ زورک کو بتاتا۔۔“ یافث نے نرمی سے کہا۔ وہ پریشان ہو گئی، تو کیا زرگل نے خود اعتراف کیا تھا۔
”تم کہو تو میں زورک خان سے بات کروں؟ وہ آیا تھا میرے پاس آفس میں۔۔ تم پر جو غصہ کیا اس کے لیے معذرت کر رہا تھا، اس نے مجھے کوئی تفصیل نہیں دی تھی اس لیے مجھے اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کیوں اچانک معذرت کر رہا ہے۔ وہ تم سے بھی شرمندہ تھا۔
کہہ رہا تھا بعد میں چکر لگائے گا تو تم سے بھی معافی مانگے گا۔ میں نے منع کر دیا۔ مجھے لگا تم اپ سیٹ ہو جاؤ گی۔ اگر تم کہو تو میں زورک کا دماغ ٹھکانے لگا سکتا ہوں، یہاں معافیاں مانگ رہا ہے اور بیوی کو حویلی سے نکال دیا۔“ یافث نے خفگی سے کہا تو اوزگل نفی میں سر ہلانے لگی۔
”نہیں آپ کچھ نہیں کہنا، زورک خوامخواہ لڑائی کرے گا آپ سے بھی۔۔“ وہ زورک خان سے کچھ زیادہ ڈر گئی تھی۔ یافث نے مسکرا کر اس کے گال تھپتھپائے۔
”اتنی ہمت نہیں ہے مجھ سے لڑے۔ ڈونٹ وری اوز، میں بہت کول مائنڈڈ ہوں آرام سے بات کروں گا۔۔“ یافث نے اسے خود میں سمیٹتے ہوئے تسلی دی۔ وہ کول مائنڈڈ تو ہرگز نہیں تھا مگر اوزگل کو اس کا مزاج نہیں پتا تھا، اس نے اطمینان سے اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
”زورک تو واپس آنے والا ہے، ابھی اس کے کچھ کام رہتے تھے۔ مگر ہم سے صبر نہیں ہوا اس لیے زرگل کو لینے چلے آئے۔ کیا وہ ٹھیک ہے؟“ خان داد نے ثمر خان اور بیگم ثمر سے ملتے ہی زرگل کا پوچھا تھا۔ وہ دونوں میاں بیوی زرگل کو لینے چلے آئے تھے۔
”وہ ٹھیک نہیں ہے، بخار ہو رہا ہے بہت زیادہ۔۔ ضد کر کے پڑی ہے۔ نا چیک کروانے گئی اور نا اب دوا لے رہی ہے۔ کمزور ہو گئی ہے میری بچی۔۔“ بیگم ثمر نے بھیگے لہجے میں بھائی کو بتایا۔
”میں اسی لیے آئی تھی کہ تم دونوں سے معافی مانگوں گی۔ زورک کی حرکت نے ہمیں بھی پریشان کر دیا ہے، زرگل کو ہم لے جائیں گے آج، زورک سے کہوں گی شہر لے جا کر چیک اپ کروا لے۔“ بیگم خان داد نے فکرمندی سے کہا۔
”زورک خود آ کر یہاں سے لے جائے، تاکہ مجھے اندازہ ہو وہ بھی اپنے کیے پر شرمندہ ہے یا نہیں۔ آپ دونوں بڑے ہیں معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نا کریں مگر زورک خان نے بہت مایوس کیا ہے۔ بچیوں کی کم عمری کے باوجود میں نے شادی کر دی کہ چلو اپنے ہیں سنبھال لیں گے مگر۔۔۔“
ثمر خان ضبط سے لب بھنچ گئے تھے۔ ان کی بات پر خان داد شرمندگی سے پہلو بدلا۔ انہیں بھی بیٹے کی حرکت پر غصہ آیا تھا۔ بہن کے آنسو بھی پریشان کر رہے تھے یعنی بات بہت بڑھ چکی تھی۔
”میں نے گارنٹی دی تھی اس لیے میں خود آیا ہوں۔ میرے ساتھ زرگل کو بھیجو پھر میں دیکھتا ہوں کون اسے وہاں سے نکالتا ہے۔“ خان داد نے سنجیدگی سے بولتے ہوئے ثمر خان کو یقین دلایا تو وہ بےچین ہوئے۔
”اور اگر زورک خان نے پھر سے اس پر سختی کی تو کیا کریں گے ہم؟ اس نے اتنا بھی لحاظ نہیں کیا کہ وہ میچور اور سمجھدار مرد ہے جبکہ زرگل کم عمر اور ناسمجھ ہے۔ شادی کی عمر بھی نہیں تھی مگر میں نے اپنی معصوم بیٹی اس کے حوالے کر دی۔“ ثمر خان ناراضگی سے بول رہے تھے۔
”میں لے جاؤں گا تو ظاہر ہے میری گارنٹی ہے۔ میں اس کا خیال رکھوں گا ناں۔ فکر مت کرو، مجھ پر اعتبار ہے یا نہیں۔۔“ خان داد نے ان کو اطمینان دلایا تو وہ بیگم ثمر کو دیکھنے لگے جو حامی بھرنے کے لیے بےتاب ہو رہی تھیں۔
”لالا آپ بڑے ہیں میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں مگر ایسا نا ہو اب زورک خان بیوی کو برداشت نا کرنا چاہے اور آپ زبردستی زرگل کو اس کے پاس لے جائیں۔ اسے کہیں وہ آ جائے تو میں زرگل کو بھیج دوں گا۔ ورنہ نہیں۔۔“ ثمر خان اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے تھے۔
”ورنہ کب تک بٹھاؤ گے؟ ہم بڑے ہیں، تمہیں یقین دلا رہے ہیں کہ بات سنبھال لیں گے۔ زورک خان نے جو سختی کی ہے اس کے لیے معافی مانگے گا۔ نا بھی مانگے تو ہم اسے دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرنے دیں گے۔ تم نے ایک دن تو زرگل کو بھیجنا ہے ناں۔“ بیگم خان داد کے الفاظ پر بیگم ثمر نے گھبرا کر شوہر کو دیکھا۔
”ہر حال میں بیٹی کو بھیجنا ضروری بھی نہیں، میں جانتا ہوں ہمارے خاندان میں طلاق کا رواج نہیں مگر میں نے کم عمری میں ان کی شادیاں کر کے جو غلطی کی ہے اسے سدھارنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔“ ثمر خان کے الفاظ پر خان داد پریشان ہوئے۔
”ثمر خان یہ کیا بےوقوفی ہے، تو کیا اب تم بیٹی کو طلاق کراؤ گے۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ زورک خان واقعی مصروف تھا، فصل کا حساب کتاب رہتا تھا۔ منڈی سے بھی کچھ پیسوں کا حساب لینا تھا۔ زرگل کو یہاں بھیج کر اگلے دن شہر چلا گیا۔ ہو سکتا ہے بات اتنی بڑی ہو ہی نہیں۔۔“
خان داد نے سنجیدگی سے ثمر خان کو وضاحت دیتے ہوئے سمجھایا۔ بیگم ثمر خاموشی سے آنسو بہا رہی تھیں ان کے پاس تو اب کوئی الفاظ ہی نہیں بچے تھے۔ جبکہ ثمر خان کے فیصلے پر بیگم خان داد کو پتنگے لگ گئے۔
”مجھے یہ بتاؤ ثمر خان تم نے کیا کم عمری کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ہمارے اسلام میں تو ہے بھی یہی لڑکی بالغ ہوتے ہی اس کا نکاح کر دیا جائے۔ یہ تو ہم نے بیٹیوں کو بچہ بنا لیا ہے، لاڈ اٹھاتے اٹھاتے انیس کا کر دیتے ہیں تب جا کر انہیں لگتا ہے وہ جوان ہوئی ہیں۔ یا تو کہہ دو کہ خدانخواستہ ہمارا مذہب ہی غلط کہتا ہے۔
میں مانتی ہوں بیٹیاں سب کو پیاری ہوتی ہیں، تمہیں بھی زرگل عزیز ہے۔ لیکن اس کی شادی ٹھیک عمر میں ہوئی۔ اسے بچہ اور ناسمجھ کہنا چھوڑ دو، عاقل بالغ لڑکی تھی شادی بیاہ کو خوب سمجھتی ہے کوئی ناانصافی نہیں ہوئی اس کے ساتھ۔۔“ بیگم خان داد بولنے پر آئیں تو بولتی چلی گئیں۔
”چلیں ٹھیک ہے میں نے مان لیا اسلام میں لڑکی کا نکاح اس کے بالغ ہوتے ہی کر دینے کا حکم ہے تو کیا ساتھ یہ حکم نہیں کہ بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ بیوی کو عزت اور محبت سے رکھنے کا حکم نہیں ہے؟ زورک خان نے اسے برا بھلا کہا اور ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیا۔
کیا زرگل اس سلوک کی حقدار تھی؟ جب سے آئی ہے بالکل چپ لگی ہوئی ہے۔ گم صم سی بیٹھی رہتی ہے، زورک کے نام پر ہی سہم جاتی ہے۔ میں کم عمری کو جواز نا بناؤں تو زورک خان کا رویہ تب بھی بہت بڑی وجہ ہے جس نے مجھے یہ فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔“
ثمر خان کا چہرہ ضبط سے سرخ ہوا تھا۔ خان داد سر پکڑ کر بیٹھ گئے، زورک خان کو بار بار کال ملانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ کال اٹینڈ ہی نہیں کر رہا تھا۔ بیگم ثمر تو شوہر کے غصہ پر دل چھوڑ بیٹھیں، انہیں لگا فیصلہ ہو چکا ہے۔
”ہاں تو ہم وہی مان مان رہے ہیں، احساس ہے تب ہی بڑے ہو کر بھی معافی مانگ رہے ہیں اور خود زرگل کو لینے آئے ہیں۔ ناجانے اندر کی کیا بات ہوئی دونوں کے درمیان کہ زورک نے یہ حرکت کی۔ وہ غصے کا بہت تیز ہے لیکن بلاوجہ کبھی غصہ نہیں کرتا۔
زرگل سے پوچھو تو سہی بات کیا ہوئی ہے؟ کوئی تو وجہ بتائی ہو گی اس نے۔۔“ بیگم خان داد کے سوال پر بیگم ثمر نے نظریں چراتے ہوئے شوہر کو دیکھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں زرگل کی غلطی انہیں بتائی جائے۔
”وجہ اتنی سی ہے کہ زرگل نے اس دن پین کلر خود لی تھی اوزگل نے نہیں دی۔۔ اس نے یہ بات زورک خان کو بتا دی اور اس نے اتنا جہالت کا ثبوت دیا کہ اسے بچے کی قاتل بنا دیا۔ یہ وجہ ہے جو زورک خان کو اتنی بڑی لگی کہ اس نے زرگل کو حویلی سے ہی نکال دیا۔“
ثمر خان اپنے آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ ایک دم ان کا غصہ بڑھ گیا تھا۔ ان کے الفاظ پر بیگم خان داد نے ساکت نظروں سے انہیں اور پھر بیگم ثمر کو دیکھا جو نظریں چرا رہی تھیں۔
”ہاں زورک خان نے واقعی غلط کیا ہے، اسے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا یہ نقصان جھیلنے والی معصوم بیوی کو ایسے برا بھلا کہہ کر واپس بھیج دیا۔ تم زرگل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ثمر خان۔۔ میں اس بار وعدہ کرتا ہوں اگلی بار زرگل اپنی مرضی سے یہاں آئے گی۔
زورک یا کسی میں اتنی جرات نہیں ہو گی کہ اسے حویلی سے نکالیں، خان حویلی کی اگلی مالکن وہی ہے اور کوئی اس سے اس کی جگہ نہیں چھینے گا۔“ خان داد نے سنجیدگی سے بات سنبھالی۔ ان کا اٹل لہجہ بتا رہا تھا وہ اب زرگل پر کوئی الزام یا سختی برداشت نہیں کریں گے۔ بیگم خان داد تو چپ سی ہو گئی تھیں۔
”تم زورک کو بچپن سے جانتے ہو ثمر خان، وہ دل کا برا نہیں ہے۔ ہم مردوں کی یہی غلطی ہے کہ ہمیں لگتا ہے بچے پر سب سے زیادہ حق ہی ہمارا ہے، شاید زورک کو دکھ ہوا ہو کہ زرگل نے اس کی امانت کی حفاظت نہیں کی۔ مگر یقین کرو اس کا غصہ وقتی ہو گا۔
زورک خان نا اتنا بےمروت ہے کہ ساری عمر اس بات کو لے کر بیٹھا رہے نا ہی بےغیرت ہے کہ اپنے نکاح میں موجود لڑکی کو ساری زندگی کے لیے اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑ دے۔ وہ اپنی زمہ داری سے نہیں بھاگے گا۔ وہ اپنی غلطی بھی سدھار لے گا۔۔
لیکن ابھی تم ضد کر کے زرگل کو اپنے پاس بٹھانے کی غلطی مت کرو، تمہیں بھی چاہیے کہ بیٹی کا گھر بچانے کی کوشش کرو۔۔ ایسے جذباتی پن سے نقصان صرف زرگل کا ہو گا، زورک کا کیا ہے مرد ہے دوسری عورت لے آئے گا۔“ خان داد نرمی سے انہیں سمجھانے لگے۔
”ٹھیک ہے لالا آپ کی درخواست پر آپ کے ساتھ زرگل کو بھیج دیتا ہوں مگر زورک نے اگر دوبارہ وہی غلطی کی تو میں مزید اس رواج کو لے کر نہیں چلوں گا کہ بیٹی مر جائے مگر سسرال سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔“ ثمر خان نے دوٹوک لہجے میں فیصلہ سنایا۔
”ٹھیک ہے تم فکر مت کرو اس کی نوبت نہیں آنے دوں گا۔ تم بھی رونا بند کرو، ابھی میں مرا نہیں ہوں۔ زرگل کو میں نے زورک خان کے نام کیا تھا اور اب اس رشتے کو بھی میں خود بچاؤں گا۔ مجھے زرگل کے پاس لے جاؤ، کہاں ہے وہ۔۔“ خان داد ثمر خان اور اپنی بہن کو اطمینان دلاتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
مگر اس دوران بیگم خان داد بالکل خاموش رہی تھیں، وہ دوبارہ نہیں بولیں۔ نا وہ شوہر کے ساتھ اٹھ کر زرگل کو دیکھنے گئیں۔ ان کا جوش ماند پڑ چکا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
”آج کچن کا کام کر کے سامان سمیٹ لینا، میں نے پینٹ ہاؤس کی صفائی کروا لی ہے۔ شام تک کچھ لڑکے آئیں گے ضرورت کا سامان اٹھا لیں گے۔ شفٹنگ کر لیتے ہیں پھر حویلی چکر لگائیں گے۔“ ناشتے کے بعد یافث خان نے اسے ہدایت دی تو اوزگل نے سر ہلایا۔ وہ زورک خان کو کال ملا گیا۔
”واپس چلے گئے ہو یا ابھی یہیں ہو؟ میرے پاس چکر لگاؤ، بات کرنی ہے۔“ کچن سمیٹتی اوزگل نے یافث خان کے جملے سنے تو باہر جھانک کر اسے دیکھنے لگی۔
”کیا کہتے ہیں؟ آئیں گے؟“ کال بند ہونے پر اوزگل نے سوال کیا۔ وہ خود بھی چاہتی تھی زرگل کا مسئلہ ختم ہو جائے، اگر یافث خان اسے عقل دلا سکتا تھا تو فائدہ تھا۔
”ہاں واپس جا رہا تھا، بلایا ہے ابھی آئے گا۔“ اس کے بتانے پر اوزگل نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ زورک خان سے بات کرنے کے لیے ہی رک گیا تھا۔ آفس بھی نہیں گیا تھا۔ وہ دوپہر کا کھانا تیار کرتے ہوئے ساتھ ساتھ کچن کا سامان کاٹنز میں رکھنے لگی۔
زورک خان آیا تو اس سے ملتے ہوئے شرمندہ ہونے لگا۔ اس کے معذرت کرنے پر اوزگل نے بات نہیں بڑھائی۔ وہ بہانے سے کچن میں چلی آئی جبکہ یافث حال احوال لیتا ڈرائنگ روم میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں ہی یافث نے بات چھیڑ دی۔
”میں نے سنا ہے تم نے زرگل کو واپس بھیج دیا، ویسے تو تمہارا پرسنل میٹر ہے مگر تمہاری حرکت بالکل اچھی نہیں تھی۔“ یافث کی بات پر زورک نے بےاختیار لب بھنچ لیے۔
”میری حرکت اتنی بڑی نہیں تھی جتنی بنا کر پیش کی گئی ہے۔ میں اس کا ریگولر چیک اپ کرواتا رہا اور اس نے خود سنا تھا ڈاکٹر نے سجیشن کے بغیر میڈیسنز لینے سے منع کیا مگر زرگل اتنی نازک مزاج بن گئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر سر درد کا رونا روتی ہے اور اس حالت میں پین کلرز لے کر نقصان کروا بیٹھی۔
اگر میں اس کی غلطی کو اتنے آرام سے معاف کر دیتا تو وہ آئندہ بھی یہی لاپروائی کرتی رہتی۔ پھر ڈھٹائی دیکھو غلطی قبول کرنے کی بجائے اوزگل کا نام لگا دیا۔ میں تب غصے میں تھا، اگر اسے جانے کا نہ کہتا تو شاید کچھ غلط کر بیٹھتا۔ اس لیے چند دن کے لیے بھیج دیا لیکن اس نے تو پورے خاندان میں ڈھنڈورا پیٹ لیا۔“
زورک خان ناراض ہو رہا تھا۔ ان چند دنوں میں اسے ناجانے کتنی بار سب کی کالز آ چکی تھیں اور اس کا غصہ جو کم ہو رہا تھا، پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔ اوزگل کچن میں کھڑی چپ چاپ سن رہی تھی۔
”تم اسے بغیر کچھ کہے بھیج دو گے تو وہ ظاہر ہے پریشان ہو گی اور ڈھنڈورا کہاں پیٹا ہے، اپنی فیملی کو اپنی پریشانی بتانا کوئی غلط کام نہیں ہے۔ وہ تمہارے روئیے سے گھبرا گئی تو گھر والوں کو بتا دیا۔ اوز بتا رہی تھی بیمار بھی ہو گئی ہے۔ اتنی کم ظرفی کیوں دکھا رہے ہو۔۔“ یافث بول رہا تھا۔ اوزگل نے چائے کے ساتھ لوازمات ٹیبل پر سجا دئیے۔
”میں کم ظرفی دکھا رہا ہوں؟ زرگل سے پوچھنا شادی کے بعد سے اب تک کتنی بار سختی کی اور کتنی بار اسے غصے میں حویلی سے نکالا۔۔ وہ اکثر چڑچڑی ہو جاتی تھی اور چاہتی تھی میں اسے کچھ دن کے لیے ماں باپ کے پاس بھیج دوں۔ سب مجھے لعن طعن کرتے ہیں بیوی کو بیمار ہوتے ہی میکے بھیج دیتا تھا۔
کسی کو یہ اندازہ نہیں اتنا خیال رکھنے کے باوجود جب بیوی چڑچڑی ہو جائے اور میری شکل دیکھنا ہی اسے بےزار کر دے تو مجھے کیسا لگتا ہو گا۔ میں نے اس کی خاطر اپنے غصے کو کنٹرول کیا، اس کی ہر اچھی بری عادت کو قبول کیا لیکن وہ ہر بار میکے جا کر میری برائیاں کرتی تھی۔“
زورک خان کا ضبط جواب دے گیا۔ اس کی بات پر یافث نے بےساختہ اوزگل کی جانب دیکھا جو سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ زورک خان کے آخری جملے پر گھبرا کر پہلو بدلنے لگی۔
”ایسا نہیں ہے، زرگل ہمیشہ کہتی تھی وہ خوش ہے اور آپ لوگ اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔“ اوزگل نے صاف گوئی سے کہا تو زورک خان کے لبوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ ابھری۔
”ایسا وہ صرف تم سے کہتی تھی۔ پھپھو سے پوچھنا کیا کبھی ایسا ہوا زرگل نے اعتراف کیا ہو کہ میں اس کا خیال رکھتا ہوں؟ جب بھی زرگل واپس آئی کچھ دن بعد بہانے سے مجھے فون کر کے پھپھو بار بار کہتی تھیں زرگل کو توجہ دیا کرو، اس کا خیال رکھو، اس کی قدر کرو۔۔
اس کا کیا مطلب ہے یافث خان؟ کیا ایسی کالز تمہیں آتی ہیں؟ نہیں کیونکہ زرگل نے مجھے ان کے سامنے برا بنا کر پیش کیا۔ میں پھر بھی یہی سوچتا رہا کہ ناسمجھ ہے۔ لیکن اب حد ہو گئی تھی۔“ زورک خان ضبط سے بول رہا تھا، اوزگل اس بار خاموش رہی۔
”اوز کھانا بنا لو، زورک کھانا کھا کر جائے گا۔“ یافث نے نرمی سے کہتے ہوئے اوزگل کو وہاں سے بھیج دیا۔ وہ سر ہلا کر کچن میں چلی گئی۔
”میری بات سنو زورک خان، تمہارے لہجے کی یہی سختی اور غصہ زرگل کو تم سے دور رکھتا ہے۔ اس کا خیال رکھتے ہو تو پھر ظرف بھی بڑا کرو۔ اس نے غلطی کا الزام اوزگل پر کیوں لگایا کیا تم وجہ نہیں جانتے؟ شادی کو سال سے اوپر ہو گیا ہے اور آج تک تم بیوی کا اعتماد نہیں جیت پائے۔۔
وہ غلطی ہونے پر ڈر گئی کہ تم ڈانٹو گے، سختی کرو گے اور تم نے پتا چلنے پر بالکل وہی کیا۔ یار تم اور میں عمر میں ان سے بڑے ہیں۔ وہ چھوٹی ہیں، ابھی لاپرواہ ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو ہمارے برابر چلیں، جیسا ہم سوچتے ہیں وہی کریں تو وقت دو۔ کیا تم اور میں اس ایج میں پرفیکٹ تھے؟
اور جو کام اس سے انجانے میں ہوا، جس کا احساس اسے ہوا تو اس نے تم سے خود اعتراف بھی کیا، تم نے اس پر بھی سختی کی تاکہ وہ دوبارہ نہ کرے؟ ظرف بڑا کر کے معاف کر دیتے۔ عورت تو مرد کی بدکرداری تک کو معاف کر کے اس کے ساتھ رہتی ہے، کبھی طلاق کی دھمکی نہیں دیتی۔
اور ہم مرد زرا سی بات پر پکڑ کر گھر سے نکال دیتے ہیں، تف ہے ہماری مردانگی پر۔۔“ یافث اوزگل کے جاتے ہی سنجیدگی سے بولا۔ زورک خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھا تھا۔ اس نے کوئی بحث نہیں کی، نا اس بار زرگل کو برا کہا۔
”زورک اپنا ظرف بڑا کرو، اس کا صرف خیال نہیں رکھو بلکہ اعتماد بحال کرو۔ اسے یقین دلاؤ کہ تم اس کے ساتھ ہو۔ اس کا دل جیتو۔ صرف تمہاری محبت کافی نہیں ہے، زرگل کو بھی خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دو۔۔ مجھے نہیں لگتا محبت کے بغیر شادی شدہ زندگی میں کوئی سکون ہوتا ہے۔
میں اور تم دونوں جانتے ہیں ہماری غلطیوں اور سختیوں کو ہماری بیویاں برداشت بھی کرتی ہیں اور اس کا کبھی طعنہ بھی نہیں دیتیں۔ تم بھی پھر گزرے وقت کو بھول جاؤ۔۔ رشتہ قائم رکھنا ہے تو محنت کرو اور محنت کا مطلب یہ نہیں ہے، اسے ایک دائرے میں قید کر کے زبانی کلامی کہہ دو تمہیں اس سے محبت ہے۔“
یافث خان نے اسے صاف الفاظ میں جتایا کہ غلطی اسی کی ہے۔ زرگل کے خوف کے پیچھے، اس کی غلطیوں اور لاپروائیوں کے پیچھے۔۔ اس کی ان شکایات اور بےزاری کے پیچھے وجہ صرف زورک خان ہی تھا۔ زورک اور یافث خان دونوں جانتے تھے زرگل کو یافث خان میں دلچسپی تھی۔
اس دلچسپی کو اپنی زات کے شوق میں مبتلا کر کے ختم کرنے کی بجائے زورک خان نے سختی سے دبانے کی کوشش کی تھی اور وہ ایسا کر کے زرگل کو ان دونوں میں موازنہ کرنے پر اکساتا تھا۔ پھر ہر بار جب موازنہ کرنے پر یافث خان کا پلڑا بھاری ہوتا زرگل اپنے شوہر سے بےزار سی ہو جاتی تھی۔
یافث اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہو گیا۔ اس کا کام سمجھانا تھا۔ اس نے کوشش کی اور سوچنے کی زمہ داری زورک خان پر چھوڑ دی۔ اوزگل نے بھی خاموشی سے کھانا بنا کر سامنے رکھا، زورک واپس جانا چاہتا تھا مگر یافث خان نے زبردستی روک لیا۔
کھانے کے دوران ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہیں، وہ زرگل کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی مگر یافث نے اسے روک دیا۔ زورک کھانا کھاتے ہی روانہ ہو گیا۔
”آپ نے مجھے بات نہیں کرنے دی، میں صرف جاننا چاہتی تھی کہ وہ اب زرگل کے بارے میں کیا فیصلہ کرنے والا ہے۔“ اوزگل نے برتن سمیٹتے ہوئے خفگی سے کہا۔
”اور وہ تمہیں کیوں بتائے گا کہ کیا فیصلہ کیا ہے؟ بار بار ایک بات دہرائی جائے تو اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے سمجھانا تھا سمجھا لیا۔ اب وہ یقیناً خود بھی اپنی غلطی سدھارے گا۔“ یافث نے اس کی مدد کرتے ہوئے نرمی سے کہا۔
”اللہ کرے زورک کو احساس ہو جائے، اس نے بہت غلط کیا ہے۔“ اوزگل نے تاسف سے کہا۔
”تم نے سنا نہیں وہ زرگل سے کتنا بدظن ہو رہا تھا۔ جو بیویاں مسلسل اپنے والدین سے شوہر کی شکایات کریں تو شوہر بدظن ہو ہی جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح چھوٹی سی غلطی کی بھی گنجائش نہیں نکال پاتے۔“ یافث سرسری لہجے میں بول رہا تھا۔
”اگر میں نے کبھی آپ کی شکایت لگائی تو آپ بھی میرے ساتھ ایسا کریں گے؟“ اوزگل اس کے سامنے رک کر سوال کرنے لگی۔
”اگر کبھی تم مجھے اپنے والدین کے سامنے برا کہنا چاہو تو مجھے پہلے سے وارن کر دینا پلیز تاکہ میں کوئی مناسب حل سوچ سکوں کیونکہ بیوی یہ غلطی کرنے کے بعد شوہر کی سختی تو بالکل برداشت نہیں کرتی اور اس زلت کے بعد نرمی کیسے برتی جائے، اس کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔“ وہ مخصوص مطمئن انداز میں جواب دیتا اوزگل کو لاجواب کر گیا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”غضب خدا کا تم اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے کر بیٹھی ہو اور تمہارا باپ بار بار چیخ رہا تھا کہ کم عمر بچی کی شادی کر دی آپ لوگوں نے قدر نہیں کی۔ کون کم عمر؟ میری شادی بھی اسی عمر میں ہوئی، سب چھوڑو تمہاری اپنی ماں بھی سولہ سال کی تھی جب شادی ہوئی۔ بالغ لڑکی کا اسلام میں نکاح کر دینا جائز ہے۔
لڑکی بھلے بارہ سال کی عمر میں بالغ ہو جائے، چاہے تیرہ سال کی عمر میں۔۔ یا پھر بیس سال کی عمر ہو جائے۔ جو وقت اللہ نے نکاح کا بتا دیا تو بتا دیا۔ ہم انوکھے ہیں جو بچوں کو اٹھارہ سال کی عمروں میں دودھ پیتا بنا کر گھومتے رہتے ہیں۔ بی بی یہ اٹھارہ سال تو ہمارے قانون دانوں نے بنا دی بالغ عمر۔۔
ورنہ تم بھی جانتی ہو لڑکی بالغ کب ہوتی ہے۔ ہاں چلو مانتی ہوں پھر آگے لڑکے کی عمر بھی زیادہ بڑی نا ہو، لڑکا عزت اور قدر بھی ویسے ہی کرے تو کیا زورک خان نے تمہاری عزت نہیں کی کبھی؟ سر پر بٹھایا ہوا تھا، مجھے بھی آ کر چپ کروا دیتا تھا کہ مورے زرگل کے سر پر زمہ داریاں نا ڈالیں۔“
بیگم خان داد بغیر سانس لیے بولتی چلی گئیں۔ زرگل ان کے سامنے سر جھکا کر بیٹھی تھی۔ ایک دن پہلے جب آئی تو طبیعت بھی بہت زیادہ خراب تھی اور خان داد بھی اس کے پاس بیٹھے رہے۔ تب تو بیگم خان داد خاموش رہیں آج موقع ملا تھا تو باتیں سناتی چلی گئیں۔
”مجھ سے انجانے میں غلطی ہو گئی تھی۔“ وہ سانس لینے کے لیے رکیں تو زرگل نے سر اٹھا کر روہانسے لہجے میں وضاحت دی۔ ان کی بھنویں تن گئیں۔
”انجانے میں بچہ مار دیا؟ اور اتنی معصوم بن کر بیٹھ گئیں۔ میرے زورک کا نقصان بھی ہوا اور وہ کچھ کہے بھی نہیں۔ تمہارے ماں باپ نے تو ہمیں بےزبان جانور سمجھ لیا ہے۔ بیٹی کو تمیز نہیں سکھائی، وہ تو ٹھہری کم عمر معصوم۔۔“ بیگم خان داد ایک دم بھڑک اٹھیں۔
”میں نے بچہ نہیں مارا، میں نے وہ پین کلر جان بوجھ کر نہیں لی۔“ زرگل ان کے الفاظ پر رونے لگی۔
”میرے سامنے ڈرامے مت کرو، اوزی کو قاتل کہا تو تمہیں برا نہیں لگا، اگر جرم تمہارا تھا تو تم بھی وہی ہو۔۔“ بیگم خان داد سختی سے بولیں، زورک خان عین اسی وقت حویلی پہنچا تھا۔
”مورے یہ کیا بول رہی ہیں۔“ زورک تیزی سے آگے بڑھا۔ بیگم خان داد اور زرگل ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگیں۔
جاری ہے