Genre:
haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چونتيس
اوزگل کی آنکھ کھلی تو اس نے کروٹ بدل کر یافث خان کو دیکھا۔ وہ سیدھا لیٹا ہوا تھا مگر اسی کی جانب چہرہ کیا ہوا تھا۔ اوزگل کی اٹھتے ہوئے یافث کی گردن پر نظر پڑی تو ٹھٹک گئی۔ وہ خراشوں کے نشانات تھے۔ گردن، اس کے رخسار سے نیچے گلے پر اور سینے پر۔۔
وہ حواس باختہ سی ان نشانات کو دیکھنے لگی، دماغ میں عجیب سی تصویر بنی تھی۔ لیکن اس نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی نہایت بری سوچ کو پرے دھکیلا۔ مگر ان نشانات سے اوزگل پر بہت برا تاثر پڑ رہا تھا پھر یافث خان رات کو آیا بھی تو بہت دیر سے تھا۔ ناجانے کب پہنچا تھا۔
وہ ہاتھ بڑھا کر ان نشانات کو چھوتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کس وجہ سے بنے ہوں گے۔ بہت گہری سرخ سی خراشیں تھیں۔ وہ کچھ الٹا سیدھا نہیں سوچنا چاہتی تھی لیکن دل ڈوب رہا تھا۔ اس کی انگلیوں کے نرم ملائم سے لمس پر یافث کی آنکھ کھلی تو اس نے حیرت سے اوزگل کو دیکھا۔
اس کے سینے پر اپنا بازو ٹکائے وہ رونی صورت بنا کر اس کی گردن کو چھو رہی تھی۔ نظر اٹھا کر یافث کو دیکھا تو وہ اطمینان سے اپنی جگہ پڑا اسی کو دیکھ رہا تھا، نظریں ملنے پر اس نے سوالیہ انداز میں ابرو چڑھائے تو اوزگل گڑبڑا کر پیچھے ہوئی۔
”میں بس ابھی جاگی تھی، میں نے کچھ نہیں کیا۔“ وہ یافث کی گہری نظروں سے بوکھلاتی بنا سوچے سمجھے وضاحت دینے لگی۔ وہ اس کے الفاظ پر اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹتا قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”تم میرے ساتھ سب کچھ کر سکتی ہو، تمہیں سب اجازت ہے۔ میں نے تم پر شک نہیں کیا۔ صبح صبح اتنے فنی منہ کیوں بنا رہی ہو۔۔“ وہ ہنستے ہوئے شوخی سے بول رہا تھا۔ اوزگل کا چہرہ شرم کے مارے سرخ ہوا۔
”آپ کب واپس آئے تھے، شادی میں بہت دیر لگ گئی۔“ اوزگل کی نظریں اس کی گردن پر موجود خراشوں کے نشانات پر پڑیں تو اس نے بےساختہ سوال کیا۔
”ہاں شادی میں بہت دیر ہو گئی تھی۔ میں دو بجے کے قریب پہنچا تھا۔“ اس نے رک کر بتایا تو اوزگل کی آنکھیں پوری سے زیادہ پھیل گئیں۔ دو بجے تک کون سی شادیاں ہوتی ہیں۔ اس کا شک اسے بار بار یافث کے گلے اور سینے پر بنے ان نشانات کی طرف دیکھنے پر اکسا رہا تھا۔
”رخصتی بارہ کے قریب ہوئی تھی۔ پھر مائر کی فیملی نے چائے کے لیے روک لیا۔ راحیل نے باتوں باتوں میں دیر کروا دی۔ آئم سو سوری مجھے اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اور تم نے مجھے میسج کیوں نہیں کیا اوز۔۔“ وہ اسے وضاحت دیتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
”تم ہمارے درمیان تکلفات کی اس دیوار کو اب گرا دو، کیا رات ہمارے فلور پر کوئی جھگڑا ہوا تھا؟ تمہیں ڈر لگ رہا تھا تو مجھے کال کیوں نہیں کی۔ اوز ان معاملات میں دوبارہ ہچکچاہٹ کا شکار کبھی مت ہونا۔۔ میں عام سا مرد ہوں، تمہیں ایک بار کلئیر کر دوں۔۔
اگر تم مجھے ریسٹرکٹ نہیں کرو گی تو میں آزاد ہوتا چلا جاؤں گا۔ مجھے احساس تھا کہ تم اکیلی ہو، نکاح کے فوری بعد آنے والا تھا مگر فرینڈز نے مجھے روک لیا اور میں بھی صرف یہی سوچ کر رک گیا کہ تمہیں کوئی ایشو نہیں ہو گا۔“
وہ اس کے سامنے بیٹھا سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل کی سوالیہ نظروں پر اس کا موبائل اٹھا کر اس کے سامنے کیا جہاں ابھی تک ان سینڈ ہوا وہ میسج موجود تھا۔ وہ خفت سے میسج کلئیر کرنے لگی۔
”اوز تمہیں ہی مجھے احساس دلانا پڑے گا کہ تم اکیلی نہیں رہ سکتیں، گھبرا جاتی ہو۔ کل جو جھگڑا ہوا وہ تمہیں ڈرا گیا تھا۔ میں بہت خیال رکھوں تب بھی لاپروائی کر جاؤں گا۔ تم کیا سوچتی ہو اور کب مشکل کا شکار ہو تمہارے بتائے بغیر تو میں کبھی نہیں جان سکتا ناں۔۔۔
اس لیے پلیز تکلف چھوڑ کر مجھے بتایا کرو اور اب پریشان نہیں ہونا میں آج سارا معاملہ دیکھتا ہوں۔ اگر ان لوگوں نے بلاوجہ سب کو پریشان کیا ہے تو ان کو فلیٹ خالی کرنے کا بول دوں گا۔ اور آئندہ کا حل بھی سوچ لیا ہے۔“ وہ اسے اطمینان دلاتے ہوئے بولا۔
”میں بتانا چاہتی تھی لیکن پھر جھگڑا ختم ہو گیا تھا۔ اس لیے میں نے آپ کو تنگ نہیں کیا اور مجھے اندازہ بھی نہیں تھا آپ اتنے لیٹ ہو جائیں گے۔“ اوزگل نے بستر سے اترتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
”اگر میں اپنے دوست کے نکاح میں بیٹھا ہوتا یا اگر میں اسی وقت وہاں پہنچا ہوتا اور تب تم مجھے کال کر کے واپس آنے کا کہتیں، میں چلا آتا اوزی۔ میں تمہاری کال یا تمہارے بلاوے سے کبھی تنگ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں جانتا ہوں تم یہاں اکیلی ہو۔۔
اور اگر کبھی تم پریشان ہو گی تو مجھے ہی بلاؤ گی، تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میری بات سمجھ رہی ہو ناں؟“ یافث نے اسے روک کر سنجیدگی سے کہا۔ اوزگل نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ اس کا راستہ چھوڑ گیا۔
لیکن اوزگل فریش ہونے اور ناشتہ تیار کرنے تک یافث خان پر اٹکی رہی۔ وہ رات کو دیر تک کہاں تھا۔ اسے بھول گیا وہ اکیلی تھی، ڈر رہی تھی۔ اس کی نیند خراب ہوئی تھی، عورتوں کے شور پر وہ سہم گئی تھی اور یہ بھی کہ اسے تب بہت رونا آیا تھا۔
اسے سب بھول گیا بس صبح صبح یافث خان کی گردن اور سینے پر جو نشانات دیکھے وہی یاد رہ گئے۔ اسے یافث پر کوئی الٹا سیدھا شک نہیں تھا، اس کے کردار کی مضبوطی پر بھی پورا اعتماد تھا مگر وہ لڑکیوں کی توجہ کا مرکز بھی تو رہتا تھا۔
وہ سوچوں میں الجھی ناشتہ بنا کر ٹیبل پر لگانے لگی، یافث کسی کال سے فارغ ہو کر وہاں آیا تھا۔ اس کے سامنے چئیر پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ غائب دماغ سی لگ رہی تھی، اسے لگا وہ ابھی تک پریشان ہے۔
”اس بلڈنگ کے ٹاپ فلور پر جو پینٹ ہاؤس ہے، وہاں حاذق لالا کا کچھ ضروری سامان پڑا ہوا تھا۔ پہلے وہ ان کے یوز میں ہوتا تھا۔ مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور تمہارے آنے کے بعد تو ویسے بھی یہیں رہتا تھا تاکہ تم سامنے رہو۔۔“
یافث ناشتہ کرتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔ اوزگل چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ اسے اس بات کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔ یافث نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”اب میں وہاں کی صفائی کروا لیتا ہوں، ہم وہیں شفٹ ہو جاتے ہیں۔ پورا فلور ہمارا ہو گا۔ نا کوئی دوسرا وہاں ہو گا نا کبھی پریشانی ہو گی۔ میں آج ان لوگوں کو نکال بھی دوں تو کل کسی اور کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ تمہیں پریشانی ہوتی ہے، ڈرتی بھی رہتی ہو تو ہم وہاں اکیلے ٹھیک ہوں گے۔“ اس نے تفصیل بتائی۔
”میری فرینڈز تو یہیں ہوں گی ناں؟“ اوزگل نے گھبرا کر سوال کیا۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا تھا اوزگل کی دوستی بڑی وفادار تھی۔ وہ خود جہاں بھی چلی جاتی، دوستوں کی فکر ساتھ رہتی تھی۔
”ہاں وہ یہیں ہوں گی، بس اسی فلور سے اوپر تو ہمارا پینٹ ہاؤس ہو گا۔ تم لفٹ سے ان کے پاس آ سکو گی اور وہ بھی جب چاہیں تمہارے پاس آ سکتی ہیں۔“ یافث نے اسے تسلی دی۔ اوزگل مطمئن ہوئی۔
”میں آج مائر سے معذرت کر لوں گا۔ آج نہیں جاؤں گا بس۔۔ اور آئندہ بھی لیٹ نائٹ کوئی ڈنر یا پارٹی ہوئی تو ایکسکیوز کر لیا کروں گا ڈونٹ وری۔۔“ اس نے مزید بتایا۔ وہ حیران ہوئی۔ اوزگل کے لیے وہ اس کی سوچ سے زیادہ پوزیسو تھا۔
”مگر آج آپ کے فرینڈ کا ریسپشن ہے ناں۔۔ آپ کے فرینڈ ہرٹ ہوں گے۔“ اوزگل کو اس کا رکنا اچھا نہیں لگا۔ ناجانے وہ اس کی وجہ سے اپنا پروگرام خراب کیوں کر رہا تھا۔
”نکاح تو کروا لیا، اب کیا ریسیپشن ضروری ہے۔ اس کی بات مت کرو، اس کا بس چلے تو ہنی مون پر بھی ہمیں ساتھ لے جائے۔“ یافث نے سر جھٹکتے ہوئے بےنیازی سے کہا۔ اوزگل خفیف سی نظریں جھکا گئی۔
”ویسے ہم بھی ہنی مون پر کہیں نہیں گئے۔ پہلے تو میں شادی شدہ ہی نہیں لگتا تھا، ہاں اب حالات بدل گئے ہیں، کیا تم کہیں جانا چاہتی ہو؟“ وہ رغبت سے آملیٹ کھاتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں مجھے تو ایسا کبھی شوق نہیں ہوا۔“ وہ صاف انکار کر گئی، شرم سے رخسار سرخ ہوئے تھے۔ یافث خان نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپ میں الجھاتے ہوئے نہایت فرصت اور دلچسپی سے اسے دیکھا۔
”مجھے بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، میں تو سمجھ لو ہنی مون ہی منا رہا ہوں۔ اسی لیے تو تمہیں سب سے الگ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔“ وہ شوخی سے بول رہا تھا۔ اوزگل کا چہرہ لال ہوا۔
یافث ناشتے کے دوران اپنی عادت کے مطابق اس کے ساتھ چھوٹی موٹی باتیں کرتا رہا۔ اوزگل صرف سر ہلاتی رہی تھی۔ وہ اس کے بالکل سامنے تھا، سکن سے کلر کی ڈریس شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کا ایک بٹن کھلا تھا۔ اس کی گردن سامنے تھی اور گلے کے نشانات بھی واضح تھے۔
ہر بار اوزگل نظر اٹھاتی تھی تو نظر وہیں جاتی تھی اور ہر بار وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسنے لگتی تھی۔ سوال کرنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی اور جانے بغیر بھی چین نہیں مل رہا تھا۔ یافث خان دنیا جہان کی بات کر رہا تھا لیکن اپنی اس حالت پر کوئی بات نہیں کی اور چھپا بھی نہیں رہا تھا۔ سامنے ہی تھا۔
ناشتے کے بعد وہ اوزگل کے ساتھ کچن سمیٹنے لگا۔ پھر باہر صوفے پر بیٹھتے ہوئے ایل ای ڈی پر نیوز دیکھنے لگا۔ اوزگل کمرہ سیٹ کر کے آئی تو یافث نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”نیکسٹ منڈے سے تمہاری یونی سٹارٹ ہو جائے گی۔ ویک اینڈ اسی شادی میں چلا گیا۔ تو میں سوچ رہا ہوں ویک اینڈ کا ویٹ نہیں کریں گے، تمہیں پہلے ہی لے جاؤں گا۔ مجھے بھی دی جان اور امو جان کی یاد آ رہی ہے۔“ وہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں الجھاتا بول رہا تھا۔
”جی ٹھیک ہے۔“ اوزگل نے آہستگی سے کہا، نظر اپنے بالکل قریب بیٹھے یافث کی گردن پر جا ٹکی تھیں۔ اس نے خفت سے نظریں چرائیں۔
”آج اتنی چپ چپ کیوں ہو اوز؟ کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟“ اس نے تھک کر پوچھ لیا۔ اوزگل کی غائب دماغی اسے ٹھٹکا رہی تھی۔ اس کی چور نظریں یافث خان پر ٹکی تھیں لیکن وہ دیکھتا تھا تو نظریں چرا لیتی تھی۔
”آپ کی گردن پر یہ کیا ہوا ہے؟“ اوزگل نے بھی ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ وہ رک کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”یہ۔۔ تم کب سے یہ نشانات دیکھ رہی تھیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے کیا ہوا ہو گا؟“ وہ ایک ٹانگ فولڈ کر کے صوفے پر رکھتا بالکل اس کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔ سنہری آنکھوں میں شوخی چمک رہی تھی۔ لبوں کے کناروں پر مسکان مچلنے لگی۔
”آپ رات کو شادی پر ہی تھے ناں؟“ اوزگل روہانسی ہو گئی۔ اس کے سوال پر وہ ایک دم زور سے ہنسا۔ پھر کتنی دیر ہنستا چلا گیا۔ اوزگل خفت سے لب کاٹنے لگی۔
”اوز۔۔ تم کیا سوچتی رہتی ہو۔“ وہ ہنس ہنس کر سر پکڑ بیٹھا۔ آنکھیں بہت زیادہ ہنسنے کی وجہ سے نم ہو رہی تھیں۔
”کل وہاں شادی میں سنو سپرے کیا تھا، مجھے اس سے سکن الرجی ہو گئی تھی۔ میں سارے راستے کھجلی کرتا رہا ہوں۔ لیکن میں نے رات ہی ٹیبلٹ لے لی تھی۔ اب ٹھیک ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے اسے بتانے لگا۔
”اوہ۔۔“ اوزگل کو سکون سا محسوس ہوا۔ اس کا اطمینان بھرا اوہ یافث کو ہنسنے پر مجبور کر گیا۔ وہ ایک دم اسے کھینچ کر اپنے حصار میں بٹھاتا اس کے رخسار پر لب رکھ گیا۔
”تم مجھ پر شک کر رہی تھیں؟“ وہ اسے اپنے نہایت قریب کرتا اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کر رہا تھا۔۔ اوزگل گھبرا گئی۔
”نہیں، میں آپ پر کبھی شک نہیں کر سکتی۔۔ میں بس۔۔ مجھے لگا مہندی پر وہ لڑکیاں۔۔ آپ کے گرد گھوم رہی تھیں تو۔۔“ اپنی الٹی سوچ پر وہ خود بھی شرمندہ ہونے لگی۔
”استغفراللہ۔۔ میں کیا اتنا کمزور ہوں کہ کوئی بھی میرے قریب آ جائے گا۔۔ جو سکون تمہارے پاس ملتا ہے، وہ مجھے کہیں اور مل سکتا ہے کیا۔۔“ وہ اسے مزید قریب کرتا اس کے سر پر لب رکھ گیا۔ اوزگل اس کے حصار میں سمٹ کر بیٹھی تھی۔
”تم میرے لیے کب سے اتنی پوزیسو ہو گئیں؟“ یافث نے ہنستے ہوئے اسے چھیڑا۔ اور وہ اس کی طرح کھل کر کہہ نہیں پائی تب سے جب پتا چلا تھا وہ اس کا ہمسفر بننے والا ہے۔ وہ سر جھکا گئی اور بات اس کی شرم میں وہیں رہ گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل یافث خان کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب اپنی حویلی سے کال آنے پر اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
”کیسی ہیں مورے؟“ وہ سلام دعا کے بعد نرمی سے پوچھنے لگی۔ وہ پریشان اور روئی روئی سی لگ رہی تھیں، اوزگل گھبرا گئی۔
”زورک نے زرگل کو واپس بھیج دیا ہے، اتنی پریشانی ہو رہی ہے مجھے۔۔ زرگل نے بتایا ہمیں کہ اس نے پین کلر خود لی تھی، شاید زورک خان کو بھی بتایا ہو یا ناجانے اسے کیسے پتا چلا۔۔ اس نے غصہ کیا اور واپس بھیج دیا۔ بہت بےمروت نکلا زورک تو۔۔“ بیگم ثمر روتے ہوئے بتا رہی تھیں۔
”تمہیں بھی خوامخواہ سب نے ڈانٹ دیا، زر نے سچ بتایا تو مجھے بہت دکھ ہوا تمہارے لیے۔۔ اوزی تم میری بہت پیاری بیٹی ہو، تم نے ہمیشہ دل بڑا کیا ہے۔ زرگل اس وقت بہت اپ سیٹ ہے اس کے ساتھ اچھے سے پیش آنا تاکہ اسے کم سے کم تمہارا سہارا ہو۔۔“ بیگم ثمر کی بات پر وہ افسردہ ہوئی۔
”مورے میں اس کے ساتھ پہلے بھی برا رویہ نہیں رکھتی، آپ میری فکر نہ کریں اور یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔ زورک اتنی بدلحاظی پر کیوں اتر آیا ہے۔ اتنی سی بات پر اس نے زرگل کو واپس بھیج دیا؟“ اوزگل کو برا لگ رہا تھا۔
”بس قسمت ہی خراب ہے زری کی، پہلے وہ سنجیدہ نہیں ہو رہی تھی اور جب عقل آئی تو غلطیاں اتنی تھیں کہ اب سدھارے نہیں سدھر رہیں۔ میں خان داد لالا سے بات کی ہے، زورک نے ماں باپ کو کچھ نہیں بتایا۔ مجھ سے بھی کہہ رہا تھا اتنی بڑی بات نہیں بس مصروف ہوں۔
لیکن یہ کیسی مصروفیت ہے، ہفتہ ہو گیا زرگل ہمارے پاس ہے، نا لینے آیا ہے نا ملنے آیا ہے۔ بخار سے پھنک رہی ہے۔ سر نہیں اٹھایا جا رہا۔ تمہارے آبا جان تو کہتے ہیں زورک خان نے رویہ بہتر نہیں کرنا تو رشتہ ختم کرے۔ زرگل کو سمجھاؤں تو وہ رونے لگ جاتی ہے۔ میں کیا کروں۔۔“
بیگم ثمر پریشانی کا شکار تھیں، اوزگل سے سب شئیر کرتی رونے لگیں۔ وہ بھی گھبرا گئی۔ زرگل تو بہت خوش تھی اچانک ہی حالات نے پلٹا کھایا۔
”مورے آپ پریشان نہیں ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ زرگل نے کوئی میڈیسن لی؟ پریشانی کی وجہ سے بیمار ہو گئی ہو گی۔ زورک کیوں یہ سب کر رہا ہے۔“ اوزگل کو دکھ محسوس ہو رہا تھا۔
”ہاں دی ہے دوا بھی، تمہارے آبا ہاسپٹل لے جانا چاہتے تھے مگر وہ مانی ہی نہیں۔ عجیب سی ضد آ گئی ہے اسے، بس سوئی پڑی رہتی ہے یا روتی رہتی ہے۔ ایک ہی شکوہ کر رہی ہے کہ جلدی شادی کیوں کی، جب شادی کا نام اٹھا تو خوش تھی۔ اب پرانی بات دہرا رہی ہے۔“
بیگم ثمر کی بات پر اوزگل نے بےاختیار لب بھنچے۔ ماں کو کیا بتاتی تب زرگل کن خوابوں میں رہتی تھی۔ وہ تو یافث خان کی دلہن بننے کے لیے تیار تھی۔ من پسند انسان کے لیے اسے چھوٹی عمر سے بھی پریشانی نہیں ہوئی لیکن اب اس کا پہلا رونا چھوٹی عمر تھی۔
”اب زورک کے رویہ نے اسے اتنا بدظن کر دیا ہے۔ اللہ کرے یہ مسئلہ جلدی حل ہو۔ تم تو خوش ہو ناں وہاں؟“ بیگم ثمر نے فکرمندی سے سوال کیا۔
”جی میں خوش ہوں، چکر لگاؤں گی کچھ دن میں۔۔ آپ زرگل کا خیال رکھیے گا، ماموں سے کہیں زورک کو سیدھا کریں۔ آپ کیوں فکر کرتی ہیں۔“ وہ ماں کو تسلی دینے لگی۔
”تم زرگل کو فون کر لینا، تمہارا پوچھ رہی تھی۔ رابطہ نہیں کرتی ہو کیا؟“ بیگم ثمر کے سوال پر وہ جزبز سی ہو گئی۔
”جی میں کروں گی کال، آبا جان ٹھیک ہیں؟“ وہ ان سے حال احوال لینے لگی۔ کال بند ہوئی تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی۔ اس نے وضو کر کے نماز ادا کی۔ باہر یافث صوفے پر نیم دراز لیپ ٹاپ پر آفس کا کام کر رہا تھا، باہر آتی اوزگل کو خفگی سے دیکھا۔
”میں تمہارے لیے رکا ہوں تاکہ تمہیں وقت دوں اور تم کمرے میں بند ہو گئیں۔“ وہ ناراضگی سے بولا تو اوزگل شرمندہ ہو گئی۔
”میں کھانا بنانے والی تھی۔ لنچ میں کیا بناؤں؟“ اوزگل نے اپنے بالوں کو سمیٹ کر ڈھیلا سا جوڑا بناتے ہوئے پوچھا۔ وہ توجہ سے اسے دیکھنے لگا۔
”کچھ بھی بنا لو جو رات کا بھی ہو جائے۔ ایسا کرو پلاؤ بنا لو، ڈبل ورک نہیں ہو گا اور رات کو بھی وہی کھا لیں گے۔ کام نہیں بڑھایا کرو اپنے لیے۔۔“ وہ نرمی سے بولا۔ اوزگل سر ہلا کر کچن میں چلی گئی۔
کچھ دیر لیپ ٹاپ پر مصروف رہنے کے بعد وہ بھی مدد کروانے کے خیال سے کچن میں چلا گیا۔ اس کی ضد پر اوزگل نے پیاز اس کے سامنے رکھ دئیے۔ یافث نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”سلاد کے لیے کاٹ لیں، گول والے کاٹیے گا اور باریک ہوں۔ یہ کٹنگ بورڈ پر کاٹ لیں آسانی ہو گی اور یہ سبز مرچ بھی کاٹنی ہے۔ میرے ہاتھوں میں اس سے جلن ہوتی ہے۔“ اوزگل کے بتانے پر وہ سر ہلا کر پیاز چھیلتا نہایت توجہ سے کاٹنے لگا۔
چکن بھونتی اوزگل اس کے انہماک پر ہنسی دبانے لگی۔ وہ ایک بار بھی گول اور باریک پیاز نہیں کاٹ پایا، ہر کوشش پر چھری ترچھی ہو جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کچھ ہی دیر میں پانی بھر آیا تھا۔ بازو سے بار بار آنسو صاف کرتا اوزگل کو دیکھنے لگا۔
”کیا تم ٹھیک ہو اوز؟ تمہارا فیس اتنا ریڈ کیوں ہو رہا ہے؟“ اس نے ہنسی دبانے کے چکر میں سرخ پڑتی اوزگل کو فکرمندی سے دیکھا۔
”جی وہ چولہے کی وجہ سے۔۔ ہیٹ سے ریڈ ہو رہا ہے۔ آئم فائن۔۔“ اس نے ہنسی ضبط کر کے ہاتھ جھلاتے ہوئے اپنے چہرے کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
”اوزی میں یہ نہیں کر سکتا سوری۔۔“ وہ تھک کر چھری رکھتے ہوئے بولا۔ سنہری آنکھوں کا اتنی سی دیر میں حشر خراب ہو گیا تھا۔ وہ ٹشو اپنی آنکھوں پر رکھے کھڑا تھا۔ اوزگل نے کٹنگ بورڈ اپنی طرف کھسکایا۔
”بٹ ٹرسٹ می، میں تمہاری ہیلپ کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی اور کام بتا دو جو میں کر سکوں۔“ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ اوزگل نے بےاختیار اسے دیکھا۔
”میں سب کر لوں گی، آپ بیٹھ جائیں۔“ وہ نرمی سے بولی۔ یافث کو ناجانے کیوں اس کے جملے عجیب سے احساس میں مبتلا کر گئے۔ وہ ایک دم اس کے گرد بازو کا حصار بناتا اسے خود سے لگا گیا۔
”تم کیسے کر لیتی ہو یہ سب۔۔ تمہارے لیے بھی تو مشکل ہے، مجھے سچ بتانا اوز۔۔ اگر تمہارے لیے بھی کوکنگ کرنا آسان نہیں ہے تو ہم کوئی کک ارینج کر لیتے ہیں، حویلی سے کوئی میڈ بلوا لیتے ہیں۔“ آج پیاز کاٹ کر اس کے ہوش اڑ گئے تھے، ایک دم اسے اوزگل کی فکر ستانے لگی۔
”نہیں مجھے مشکل نہیں ہوتی کیونکہ دو بندوں کا کھانا بنانا بہت آسان ہے۔ میں کم مقدار میں کھانا بہت آرام سے بنا لیتی ہوں، مجھے کوکنگ پسند ہے۔“ وہ اطمینان سے بول رہی تھی۔
”تو کیا تمہیں تھکن نہیں ہوتی؟“ وہ شیلف سے ٹیک لگائے دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ سادہ سے حلیے میں وہ سجی سنوری حسین لڑکیوں سے کہیں زیادہ حسین لگتی تھی۔ سادگی میں اس کا کمسن حسن مزید نمایاں ہو جاتا تھا۔
”تھکن تو ہو جاتی ہے۔ کیونکہ میں ریگولر کوکنگ اب کرنے لگی ہوں، پہلے تو کبھی کبھی شوق میں کرتی تھی۔ لیکن مورے کہتی ہیں کچھ عرصے میں عادت ہو جائے گی۔“ وہ ایمانداری سے بولی۔
”اوکے پھر تمہیں کوکنگ کر کے جب تھکن ہو گی تو میں رات کو تمہیں مساج کر دیا کروں گا۔“ وہ اطمینان سے بولتا اوزگل کو گڑبڑانے پر مجبور کر گیا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ سٹپٹا کر اسے دیکھنے لگی۔ لیکن یافث کے چہرے پر سنجیدگی تھی، وہ مذاق نہیں کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہوا اور اس نے اس بار بھی ہیٹ کو الزام دیا تھا۔
”تم بیویاں کتنی پیاری ہوتی ہو ناں، دن بھر کام کرنا ہے۔ تھکن کی شکایت نہیں کرنی اور اب میں اپنی مرضی سے مساج کرنے کی آفر دے رہا ہوں تو تم جھجک کا شکار ہو رہی ہو۔۔ دیکھ لو کیا پتا یہ آفر فائدہ مند ثابت ہو، اس سے تمہیں اور بھی زیادہ اچھی نیند آئے۔“
وہ گاجر اٹھا کر کھاتے ہوئے اسے لالچ دے رہا تھا۔ گہری نظریں اس کے سراپا پر ٹکی تھیں۔ اوزگل کے دل میں واقع لالچ سا پیدا ہوا تھا۔ وہ اتنی بھی میچور نہیں تھی جتنی بنی رہتی تھی۔ وہ آرام و سکون کے سبز باغ دکھا رہا تھا۔
”نہیں آپ کو مشکل ہو گی۔“ اوزگل نے اسے دیکھا تو نیلی آنکھوں میں چمک تھی مگر لبوں پر انکار لیے وہ نظریں چرا گئی۔ یافث خان نے چونک کر اسے دیکھا، وہ مذاق کر رہا تھا لیکن اوزگل کا چہرہ بتا رہا تھا اسے یہ آفر اچھی لگی تھی۔
”مجھے تو مشکل نہیں ہو گی تم بتاؤ، مساج کروانا چاہتی ہو؟“ اس نے سوال کیا تو لہجے میں شامل ہوتی حیرت کو بمشکل چھپایا تھا۔ اوزگل نے اس بار جواب نہیں دیا۔ اور لڑکی کی خاموشی اس کا اقرار ہوتی ہے، یافث خان بھی یہ اصول جانتا تھا۔
”اوز تم نے کبھی بتایا کیوں نہیں تم اتنی تھک جاتی ہو۔“ وہ آدھی گاجر ٹوکری میں رکھ کر نرمی سے اس کا سر سہلاتے ہوئے بولا، لہجے میں فکر سمٹ آئی تھی۔ اتنا سا کام کر کے تھکن کیوں ہونی تھی، لیکن وہ پوچھ رہا تھا تو وہ بھی تھکن ظاہر کرنے لگی۔ وہ اتنی توجہ دے رہا تھا، اوزگل جذباتی ہونے لگی۔
سلاد کاٹنے کے بعد چھری رکھ کر ہاتھ اس کے سامنے کر گئی۔ لبوں پر خاموشی تھی مگر انداز میں بےچارگی لیے وہ اسے اپنے ہاتھ دکھا رہی تھی جو مسلسل کٹنگ کرنے کی وجہ سے سرخ ہو رہے تھے۔ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر چھری کا نشان بن گیا تھا۔
”اوہ مائی ڈئیر۔۔ پور ساؤل۔۔ یہ کام تمہارے لیے تمہاری برداشت اور طاقت سے بھی بڑا ہے۔ آئم سو سوری میری جان۔۔“ یافث اس کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے مسکراہٹ دبائے تاسف سے بولا۔ اس نے اوزگل کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا۔ توجہ ملتے ہی وہ بےچاری ترین بنتی جا رہی تھی۔
”مجھے کوکنگ پسند ہے مگر یہ مشکل ہوتی ہے۔“ وہ اب بازو پر ڈھونڈ کر جلے کے نشان بھی اسے دکھا رہی تھی جو روٹیاں بناتے ہوئے توے پر لگنے سے بنتے تھے، یافث کو اس کی حرکت پر ہنسی آئی۔ یعنی اتنی تکلیفوں کے بعد وہ اس کے لیے کھانا بناتی تھی۔
”میں دل سے تمہارا شکر گزار ہوں اور اب بھی یہی کہوں گا اگر تم نہیں کر سکتیں تو بتا دینا ہم کوئی کک رکھ لیں گے۔ تمہیں اتنی پریشانی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یافث نے نرمی سے اس کے بازو پر بنے ان نشانات کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے اچھا لگتا ہے، آپ کے لیے کوکنگ کرنا۔۔“ وہ مدھم سے لہجے میں بولی تو شرم سے رخسار تمتما اٹھے تھے۔ وہ بےساختہ اسے دیکھنے لگا۔ حویلی میں شہزادیوں کی طرح رہنے والی لڑکی جس کو پانی کا گلاس بھی ملازمہ ہاتھ میں دے۔ وہ کچن کا کام کر رہی تھی تو واقعی کمال کر رہی تھی۔
”یہ میری خوش نصیبی ہے۔“ وہ نرمی سے مسکرایا۔ وہ واقعی دل سے اس کی محنت کا اسیر ہوا تھا۔ اوزگل خوشی سے بھر گئی تھی۔ وہ کال سننے کے لیے کچن سے باہر گیا تو پلاؤ بناتے ہوئے وہ جھینپی ہوئی سی مسکراتی چلی گئی۔ اسے یافث کے پاس رہتے ہوئے تجربہ ہوا تھا مرد کا سراہنا کتنا سکون دیتا ہے۔
زرگل کا خیال آیا تو اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اچھی خاصی خوش لگتی تھی، شادی سے پہلے اپ سیٹ رہتی تھی مگر زورک نے بہت پیار سے سنبھال لیا تھا۔ وہ شادی سے پہلے بھی ان دونوں کا خیال رکھتا تھا اور زرگل کو خصوصی توجہ دیتا تھا۔ ناجانے اب کیوں ایسا ہو گیا تھا۔ شاید شوہر بن کر مرد کا رویہ بدل جاتا ہے۔
جیسے یافث خان پہلے سنجیدہ اور روڈ لگتا تھا، بات کرنا بھی اس کی شان کے خلاف تھا۔ اب اس سے زیادہ نرم مزاج کوئی نہیں تھا۔ اوزگل کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرتا تھا۔ زورک خان نے ان دونوں پر کبھی سختی نہیں کی تھی اب وہ غصہ کرنے لگ گیا تھا۔ زرگل کی بھی کیسی قسمت تھی۔ اسے افسوس ہوا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°ط
جاری ہے ۔۔۔