Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Wo Humsafar Tha

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 33 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :113

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط تينتيس

“کیا اب آپ لڑکیوں میں انٹرسٹ لیتے ہیں؟“ اوزگل گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ یافث نے جھک کر جوتے پہنتے ہوئے مسکراہٹ دبائی۔
”اب کا کچھ پتا بھی نہیں، تم نے مجھے صنف نازک کی خوبصورتی اور نازک اندامی سے انٹروڈیوس کروایا ہے اب تو میرا دل میرے بس میں ہی نہیں رہا۔۔“ وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل کچھ بول نہیں پائی تھی، دل ایک دم رک گیا تھا۔
اس لمحے میں پہنچ گئی تھی جب زرگل نے اسے کہا تھا اسے یافث خان پسند ہے، وہی چاہیے اور اوزگل کو یہ سن کر لگا تھا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔ وہ اس کی منتیں کرتی رہی تھی اور رو رو کر پاگل ہوتی رہی تھی۔ وہ آج بھی اس لمحے کی اسی کیفیت میں جا پھنسی تھی۔
یافث خان نے جواب نا آنے پر سر اٹھا کر اوزگل کو دیکھا تو سٹپٹا گیا۔ وہ آنسو بہا رہی تھی، اس کے دیکھنے پر چہرہ چھپاتی بری طرح رونے لگی۔ وہ اپنے مذاق پر شرمندہ ہو گیا، اٹھ کر اس کے پاس بیٹھتا اسے سینے سے لگا گیا۔
”میں مذاق کر رہا تھا، رو کیوں رہی ہو۔ چپ کر جاؤ اوز میں ایسا کبھی کر سکتا ہوں کیا؟ میں اپنی اوز سے محبت کرتا ہوں، اس کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھ سکتا۔“ وہ اسے خود میں بھنچے محبت سے بول رہا تھا۔ اوزگل اس کا کرتا مٹھیوں میں بھنچے روتی رہی، آنکھیں میچے وہ اسے سن ہی نہیں رہی تھی۔
”اوز میں مذاق کر رہا تھا۔ تمہارے علاوہ کبھی کسی کو نا دیکھوں گا نا قریب آنے دوں گا، ڈونٹ وری اب چپ ہو جاؤ۔۔“ وہ اسے اپنے سامنے کرتے ہوئے نرمی سے بولا۔ اوزگل اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباتی سسکیوں کا گلا گھونٹنے لگی۔
”آپ یہ ڈریس پہن کر نہیں جائیں۔“ اوزگل نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا۔ وہ زیادہ تر سفید لباس پہنتا تھا اور اوزگل کو لگتا تھا اس پر وہی رنگ زیادہ اچھا لگتا ہے۔ آج سیاہ میں دیکھ کر وہ ان سیکیور ہو گئی تھی۔ یافث اس کی فرمائش پر اسے دیکھ کر رہ گیا۔
”استری خراب ہو گئی ہے اس لیے۔۔“ اس کے دیکھنے پر اوزگل نے جھجک کر آہستگی سے بہانہ بنایا۔ یافث نے سر جھکا کر اپنے سینے کی جگہ پڑ چکی سلوٹوں کو دیکھا۔
”اٹس اوکے میں نے اوپر کوٹ پہن لینا ہے تو چھپ جائے گا۔“ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا، اوزگل نے گھبرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”نہیں۔۔ آپ اور ڈریس پہن لیں، آپ اتنا تیار ہو کر کیوں جا رہے ہیں۔ آپ کا نکاح تو نہیں ہے۔“ وہ روہانسی ہو گئی۔ یافث اس کی بات سمجھتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنسا۔ یعنی وہ چاہتی ہی نہیں تھی وہ اچھا لگے۔ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
”میرے نکاح پر تم نے مجھے دیکھا ہی نہیں تھا ورنہ میں اتنا اچھا لگ رہا تھا۔ تیار تو میں تب ہوا تھا۔“ وہ دلکشی سے مسکرایا۔ اوزگل نے بےاختیار اسے دیکھا، وہ گہری آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں، وہ پزل سی ہو گئی۔
”میں نے دیکھا تھا۔“ وہ آہستگی سے بولی، یافث چونک گیا۔ پھر اس کی بات سمجھ کر بےساختہ ہنس پڑا۔
”تب ویسے تمہارا مزاج نہیں مل رہا تھا، تمہیں دور دور سے دیکھنا پڑا ورنہ حسین تو تم لگ رہی تھیں۔“ وہ اس کے گال سہلاتے ہوئے بولا۔
”اب مجھے جانا چاہیے، دیر ہو رہی ہے مجھے۔۔“ اس کے بولنے پر اوزگل جلدی سے اٹھ کر الماری میں ہینگ کیے کپڑے دیکھنے لگی۔
”چینج کر لیں۔“ وہ اس کے لیے ڈارک بلیو ڈریس پینٹ اور ہم رنگ ڈریس شرٹ لے آئی۔ یعنی اس سیاہ لباس میں اسے شادی پر جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ اس کا مذاق اسے مہنگا پڑ چکا تھا۔ یافث نے آہ بھری اور کپڑے لے کر چینج کرنے چلا گیا۔
”اس سے اچھا تھا تم میرے ساتھ چلی جاتیں۔“ وہ اپنے بال سیٹ کرتے ہوئے خفگی سے اسے دیکھنے لگا۔ اوزگل خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھی رہی۔ وہ تیار ہو کر چلا گیا۔ اوزگل بستر پر نیم دراز اپنا ناول پڑھنے لگی۔
جبکہ یافث ڈائریکٹ اسی مارکی پہنچا جہاں بارات پہنچنی تھی، وہ عین نکاح کے وقت پہنچا تھا۔ راحیل اور مائر اسی کا انتظار کر رہے تھے۔
”مجھے لگا تھا تم نہیں آؤ گی، ناراض ہونے والا تھا میں۔۔ اور تم بھابھی کو کیوں نہیں لائے؟ کل ماما کو پتا چلا فرح وغیرہ نے ان کے ساتھ شرارت کی ہے تو بہت ناراض ہوئیں لڑکیوں پر۔۔ شاید وہ ناراض ہو گئی ہیں۔“ مائر نے شرمندگی سے کہا۔
”نہیں یار ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ کل تھک گئی تھی اس لیے آج نہیں آئی۔ میں بس آفس میں لیٹ ہو گیا تھا تو آنے میں دیر ہو گئی، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“ یافث نے اس کا کندھا تھپتھپا کر کہا۔ اوزگل کا تو مزاج ایسا تھا وہ گھبرا جاتی تھی وہ یہ بات دوستوں کو نہیں کہہ سکتا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
”ہمیں صاف صاف بتا کیوں نہیں دیتیں، کیا چل رہا ہے تم دونوں کے درمیان۔۔ ہفتہ سے زیادہ ہو گیا ہے زورک خان تمہیں لینے نہیں آیا، تم یہاں پڑی گم صم اور بیمار ہو رہی ہو۔ زر میری گڑیا کیا تمہیں اپنے آبا پر بھی یقین نہیں رہا؟“ ثمر خان اس کے پاس بیٹھے پوچھ رہے تھے۔
”میں نے اتنا بھی کہا ہے میں لالا سے بات کر لیتی ہوں۔ ہم تمہارے ماں باپ ہیں، ہمیں بھی نہیں بتاؤ گی تو مسئلہ کیسے حل ہو گا۔“ بیگم ثمر افسردگی سے بول رہی تھیں۔ زرگل کی خاموشی اور اب تپتا چہرہ نڈھال حالت ان دونوں کر پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا۔
”زورک اب نہیں آئے گا مجھے لینے، وہ ناراض ہو گیا ہے۔ وہ مجھ سے ناراض ہے، اسے غصہ ہے کہ میری وجہ سے اس کا بچہ مر گیا۔ زورک خان اب کسی کی بات نہیں سنے گا۔“ زرگل کا ضبط چھوٹا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
”زورک خان نے تم سے ایسا کہا؟ یہ کیسی جہالت ہے، کیا وہ نقصان صرف زورک کا تھا، وہ تکلیف تم نے اٹھائی ہے۔ تم نے خود پر وہ نقصان جھیلا ہے۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی تم سے یہ بات کرنے کی۔“ ثمر خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا تھا۔
”زورک ایسا کیسے کر سکتا ہے، تم نے جان بوجھ کر تو وہ دوا نہیں لی، وہ تو اوزی نے ناسمجھی میں تمہیں دے دی تھی۔۔“ بیگم ثمر بےیقینی کا شکار ہو رہی تھیں۔ جس بھتیجے پر اتنا مان تھا، اس نے شرمندہ کروا دیا تھا۔
”اوزگل بھی کبھی وہ غلطی نا کرتی اگر زرگل اس حال میں سر درد سے نا پڑی ہوتی۔ کیا زورک خان کسی کو الزام دے سکتا ہے، جب وہ تکلیف اور مشکل میں بیوی کو اس کے میکے بھیج دیتا تھا۔ اس کے بعد اس کا حق بنتا ہے اس نقصان پر بیوی کو باتیں سنائے؟“
ثمر خان کا پارہ ہائی ہو چکا تھا۔ بیگم ثمر پریشان ہونے لگیں، زرگل چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بری طرح رو رہی تھی۔ اب تو سوچ سوچ کر تھکن کا شکار ہونے لگی تھی۔ اس کے رشتے کا آخر انجام کیا ہونا تھا، زورک خان کب تک اس سے دور رہنے والا تھا۔
“خان صاحب میں لالا سے بات کرتی ہوں۔ غلطی تو اوزی کی تھی پھر زرگل کو کیوں۔۔“ بیگم ثمر نے گھبرا کر ثمر خان کا غصہ کم کرنا چاہا مگر وہ ان کی بات پر مزید غصہ ہو گئے، جبکہ زرگل مسلسل اپنی ماں کے منہ سے اوزگل کا نام سن کر بےبس ہونے لگی۔
”قصور ان دونوں کا نہیں تھا۔ زورک خان کو بچہ اتنا عزیز تھا تو بیوی کو اپنے پاس رکھتا، اس تکلیف میں یہاں پھینک کر نا جاتا۔ اوزی کو کیا سمجھ۔۔ اس دن سب کے درمیان وہ لوگ اوزی کو برا بھلا کہنے لگے۔ اس سے بھی غم ہلکا نہیں ہوا؟ اب زرگل کو تختہ مشق بنا لیا۔۔
ان بچیوں کی عمر ہی کیا ہے، میں تو شادی کرنے کے حق میں ہی نہیں تھا۔ خان داد لالا نے ضد کی، گارنٹی دی تھی کہ زرگل کو کبھی کوئی پریشان نہیں ہونے دیں گے۔ نا بچی کو پڑھنے دیا، نا سنبھلنے دیا۔ شادی کروا لی اور اب زلیل کر رہے ہیں۔ میری مجبوری یہ تھی کہ رشتہ بچپن سے طے تھا۔
اور ہمارے خاندان کے رسم و رواج میرے پیروں کی زنجیر تھے، کچھ مجھے زورک خان پر مان بھی تھا کہ وہ پڑھا لکھا سمجھدار انسان ہے لیکن اس نے مجھے مایوس کیا ہے۔“ ثمر خان نے زرگل کو سینے سے لگاتے ہوئے بمشکل اپنی آواز بلند ہونے سے روکی تھی۔ طیش سے ان کا برا حال ہو رہا تھا۔
”میں فون کرتی ہوں، زورک خان کا بھی پتا کرتی ہوں۔“ بیگم ثمر نے خفت سے کہا۔ انہیں شرمندگی ہو رہی تھی، زورک خان ان کے خاندان کا تھا۔ زرگل کی خوشیوں سے ہی اب ان کا سکون مشروط تھا۔ خان حویلی فون کرنے کا سن کر زرگل گھبرا گئی۔
”مورے رکیں، آبا جان میں نے کچھ بتانا ہے۔ دراصل۔۔ زورک نے مجھ پر خوامخواہ غصہ نہیں کیا۔ میں نے غلطی کی ہے۔ وہ پین کلرز میں نے خود لی تھیں اور زورک خان کے ڈر سے اوزی پر الزام لگا دیا تھا، زورک خان کو اس بات کا غصہ ہے۔“
زرگل نے سسکتے ہوئے ماں باپ کو سچ بتا کر مجرموں کی طرح سر جھکایا۔ بیگم ثمر اس کی بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔ ثمر خان نے بھی خشمگیں نظروں سے زرگل کو گھورا تو وہ گھبرا کر روتے ہوئے معافیاں مانگنے لگی۔
”زر بچے اس دن تم نے تکلیف سے بچنے کے لیے جو بھی میڈیسن لی، وہ لاپروائی انجانے میں ہوئی تھی۔ تمہارا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے تم نے ابھی تک اپنی غلطیوں کا الزام اوزی پر لگانے کی عادت نہیں چھوڑی۔ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا۔
اس انسان سے ڈر کر تم نے اپنی بہن پر الزام لگایا جس نے سچ پتا چلنے پر تمہارا لحاظ ہی نہیں کیا اور تمہیں یہاں بھیج دیا۔ اور دیکھو تمہاری بہن سب سے باتیں سنتی رہی مگر کھل کر تمہارا نام نہیں لیا۔ تم کب سمجھو گی کی اپنوں کی محبت کا کوئی مول نہیں ہوتا۔“
ثمر خان نے اسے خفگی سے سمجھایا۔ زرگل کی یہ غلطی تو پہلی نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ سے ایسا کرتی تھی اور ان کے لیے دونوں بیٹیاں برابر تھیں۔ زرگل شرمندگی سے سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔
”اور تم نے بھی جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا۔ تمہارا تجربہ نہیں، ناسمجھ ہو۔ میں بھابھی بیگم اور لالا سے آج بات کرتی ہوں۔“ بیگم ثمر نے اپنا موبائل اٹھا لیا۔
”زورک خان کا پوچھنا اور ہو سکے تو انہیں یہاں بلا لینا، ایک بار کھل کر اس مسئلہ کو کوئی حل کرنا چاہیے۔ اگر زورک خان نے اسے لے جا کر بھی یہی رویہ رکھنا ہے تو بتا دے، میں پھر زرگل کو بھیجوں گا ہی نہیں۔۔
اس کے دل میں اگر زرگل کے لیے نرمی اور عزت باقی نہیں رہی تو اس تعلق کو گھسیٹنے کی بجائے اس کا کوئی انجام طے کر لیں۔“ ثمر خان کی بات پر بیگم ثمر اور زرگل کو جھٹکا لگا۔ وہ گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”خان صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں، ہمارے خاندان میں ایسے رشتے ختم نہیں کیے جاتے۔ آپ سب جانتے تو ہیں پھر بھی۔۔“ بیگم ثمر حواس باختگی سے بول رہی تھیں۔
”میں جانتا ہوں لیکن تم بتاؤ کیا کروں، اسے واپس بھیج دوں اور یہ پھر کبھی ایسے ہی واپس آ جائے تو کیا کروں گا؟ میں خاندان کے رواج کو لے کر چلوں اور یہ باپ کی بزدلی کی وجہ اتنی سی عمر میں زلالت جھیلتی رہے۔۔ پھر کیا فائدہ۔۔“
وہ دو ٹوک لہجے میں بول رہے تھے۔ بیگم ثمر کے ہاتھ میں موبائل کپکپا گیا تھا۔ ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ زرگل پھٹی پھٹی آنکھوں سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی کیفیت نہیں سمجھ پا رہی تھی، یہ فیصلہ اسے اچھا لگا تھا نا برا لگا تھا۔
وہ خالی دماغ لیے باپ کو دیکھتی رہی اور بیگم ثمر موبائل پر کال ملاتی حواس باختہ سی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ثمر خان نے اس کے بعد کوئی بات نہیں کی تھی، وہ اب صرف فیصلہ کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث رات کو دیر سے واپس آیا تھا، حالانکہ نکاح ہوتے ہی اس نے نکلنے کا سوچا تھا کیونکہ اسے فلیٹ میں اکیلی بیٹھی اوزگل کا خیال ستا رہا تھا جو ضد کر کے شادی میں نہیں آئی تھی اور وہ وہاں سارا وقت اسی کو سوچتا رہ گیا تھا۔
”اتنی جلدی کیوں ہے تمہیں؟ کچھ دیر تو رکو، ابھی تو ڈنر سرو ہو گا۔ ہمارے ساتھ بھی وقت گزار لو، رخصتی کروا کر واپس جائیں گے تو چائے پی کر چلے جانا۔“ راحیل نے اسے جلدی جانے کی بات پر خفگی سے روکا۔
”میری وائف اکیلی ہے، اس کی فکر ہو رہی ہے۔“ اس نے ہینڈ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
”بلڈنگ تم لوگوں کی اپنی ہے، سیکیورٹی کا اچھا سسٹم ہے تمہیں فکر کیوں ہو رہی ہے۔ شادی کے بعد کیا مردوں کا دوستوں سے ملنا ہی منع ہو جاتا ہے؟ یافث تمہاری شادی کے ایک ایک ایونٹ پر ہم تمہارے ساتھ رہے۔ ان فیکٹ تمہاری حویلی میں رہے تھے۔ تم تو اتنے بےمروت ہو گئے ہو۔“
مائر اس سے اچھا خاصہ ناراض ہو گیا تھا۔ وہ شرمندہ ہوا، دوستی کا حق بھی اپنا تھا۔ اگر وہ ہر بار ایسا کرتا تو وہ جانتا تھا اوزگل کو ہی قصوروار سمجھا جاتا۔ اوزگل نے تو ایک بار بھی یافث کو جلدی آنے کا نہیں کہا تھا نا اس نے پیچھے بار بار کالز یا میسجز کر کے تنگ کیا۔
وہ اسے فرینڈز کے ساتھ وقت گزارنے کی مکمل پرائیویسی دے رہی تھی۔ یافث کو اچھا نہیں لگا راحیل یا مائر اسے غلط سمجھتے۔ وہ ان کی ضد پر رک گیا۔ دوستوں کے ساتھ ہی ڈنر کیا، وہ گھر سے لیٹ کھانا کھا کر آیا تھا اس لیے بس تھوڑا سا ٹیسٹ کیا۔ رات کے بارہ بجے تک وہ لوگ دلہن لے کر واپس آئے۔
آگے مائر کے گھر ان کے استقبال کے لیے کچھ ملازمین کو کھڑایا ہوا تھا جو سب پر پھول برسانے لگے اور سنو سپرے کیا جو مائر کے پیچھے موجود راحیل اور یافث پر تو اچھا خاصہ ہو گیا تھا۔ راحیل قہقہے لگا رہا تھا، یافث فوری سائیڈ پر ہوتا ٹشو سے خود کو صاف کرنے لگا۔
سنو سپرے اس کے سر، چہرے اور سینے تک آیا تھا۔ اس کی سکن پر اس سپرے سے عجیب کھجلی سی ہونے لگی تھی۔ اسے سکن الرجی ہو رہی تھی، وہ یہ بات دوستوں کے سامنے کر کے انہیں فکر مند نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے ٹشو سے خود کو اچھی طرح صاف کر کے کچھ دیر وہاں بیٹھا اور چائے پی کر واپس ہو لیا۔
فلیٹ کا ڈور کھول کر اندر آیا تو باہر کی لائٹس ان تھیں، وہ ڈور لاک کر کے لائٹس آف کرتا کمرے میں پہنچا۔ اوزگل مزے سے بستر پر پڑی نیند کر رہی تھی۔ گھڑی رات کے دو بجانے والی تھی۔ وہ چینج کر کے بستر پر دراز ہوا۔ یہ تو شکر تھا اگلے دن سنڈے تھا اور اسے آفس نہیں جانا تھا۔
اس نے اطمینان سے اوزگل کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا تو اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر رک گیا۔ اس نے آہستگی سے اوزگل کے ہاتھ سے موبائل نکال لیا۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سکرین پر ٹچ کیا تو روشن ہو گئی، سامنے یافث کے نمبر پر ہوئی چیٹ اوپن ہو گئی۔ سکرین پر نظر پڑتے ہی وہ چونک گیا۔
“آپ کب واپس آئیں گے؟ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ساتھ والے فلیٹ میں کچھ عورتوں کی لڑائی ہو گئی، بہت زیادہ شور کر رہی ہیں۔ پلیز جلدی واپس آ جائیں۔۔” اس نے ٹھٹک کر میسج پڑھا جو صرف لکھا ہوا تھا مگر سینڈ نہیں کیا گیا تھا۔ شاید وہ اسے تنگ نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
یافث نے تاسف سے موبائل بند کر کے رکھتے ہوئے اوزگل کو خود میں بھنچ لیا۔ ناجانے کب لڑائی ہوئی اور وہ کتنی دیر ڈرتی رہی تھی۔ میسج بھیج دیتی تو وہ چلا آتا۔ وہ نرمی سے اس کے رخسار پر لب رکھتا اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔ افسوس ختم نہیں ہو رہا تھا۔
ناجانے کتنی دیر یہی سوچتے رہنے کے بعد اسے نیند آئی تھی۔ اگلی صبح اوزگل کی آنکھ کھلی تو وہ ہمیشہ کی طرح یافث خان کے حصار میں قید تھی۔ اس نے نیم اندھیرے میں ایک نظر اس پر ڈالی اور اٹھ کر فجر پڑھنے لگی۔ نماز کے بعد پھر تھک کر سو گئی۔ رات کے گیارہ بجے تک وہ ناول پڑھتی رہی تھی۔
اس کے بعد نیند سے تنگ آ کر سوئی تو کچھ ہی دیر میں اچانک ساتھ والے میں فلیٹ میں شور برپا ہو گیا۔ وہ ڈر کر نیند سے جاگ گئی۔ لڑائی بھی بہت سنجیدہ قسم کی لگ رہی تھی۔ شاید ارد گرد کے لوگ بھی اپنے فلیٹس سے باہر نکل آئے تھے، اوزگل تو ان اونچی چیختی آوازوں پر بری طرح ڈر گئی تھی۔
ایک وہ شور اور اس پر کچی نیند سے جاگنے کی وجہ سے اس کا دل اتنے زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ پورا وجود سنسنا گیا۔ اس نے دو تین بار یافث کو میسج کرنے کا سوچا، نمبر نکال کر کال ملانے کا بھی ارادہ کرتی رہی مگر یہ سوچ کر رک جاتی تھی کہ وہ دوست کی شادی میں انجوائے کر رہا ہو گا، اوزگل کی کال سے پریشان ہو جاتا۔
پھر کسی نے سیکیورٹی کو بلوا لیا، لوگوں نے شرم دلائی اور کچھ دیر بعد وہ آوازیں کم ہوتے ہوتے تھم گئیں۔ وہ پھر بھی ڈرتی رہی، اتنے اچانک خاموشی ہو جانے کے باوجود اس کا دل خوف کا شکار ہو رہا تھا۔ یافث خان بھی ابھی تک نہیں آیا۔ اسے وہم ستانے لگے، ایسا لگتا تھا ابھی وہ عورتیں اس کے فلیٹ میں گھس آئیں گی۔
اس نے یافث کو میسج لکھا لیکن سینڈ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، کروٹیں بدلتی رہی اور اس کا انتظار کرتی رہی۔ ایک بجے کے قریب اسے پھر سے نیند آ گئی تھی۔ اب نیند پوری نا ہونے اور دیر تک موبائل پر ناول پڑھنے کی وجہ سے آنکھیں بری طرح جل رہی تھیں۔
وہ نماز پڑھنے کے بعد قرآن نہیں پڑھ پائی، بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ یافث کے حصار میں سمٹتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا کر سو گئی۔ وہ بھی شاید تھکا ہوا تھا، جاگا نہیں مگر اب اس کے لمس کا عادی ہو گیا تھا۔وہ جیسے ہی اس کے حصار میں آتی تھی، وہ اس کے گرد بانہیں پھیلاتا اسے خود میں چھپا لیتا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°
بیگم ثمر نے زورک خان کو کالز کیں مگر وہ ان کی کال نہیں اٹھا رہا تھا۔ وہ گھبرا گئیں، کیا زورک خان اب اتنا بےمروت ہو گیا تھا کہ ان کے رشتے کا بھی لحاظ نہیں رہا۔ انہوں نے پریشانی کے مارے خان داد کو کال کی، وہ اپنے مردان خانے میں موجود تھے۔
”ابھی کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں میں تمہیں بعد میں کال کرتا ہوں۔“ وہ شاید مصروف تھے، تیزی سے بول کر کال کاٹ دی۔ بیگم ثمر بےچینی سے کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہلنے لگیں۔ ایک بیٹی کی فکر ختم ہوتی تھی تو دوسری کا مسئلہ ہو جاتا تھا۔ اب انہیں بھی احساس ہونے لگا شادی میں جلدی کرنا ان کی غلطی تھی۔
ثمر خان تو مرد تھے جذباتی ہو رہے تھے، رشتہ ہی ختم کرنے کا کہہ دیا اور اس کے بعد یقیناً ان دو گھرانوں کا آپس میں میل جول بھی بند ہو جاتا۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ نا وہ اتنی کم عمری میں زرگل پر طلاق کا داغ لگوانا چاہتی تھیں نا اپنے میکے سے قطع تعلق ہونا چاہتی تھیں۔
ان کے خاندان میں اکثر گھرانے ایسے تھے جہاں بیوی کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا تھا۔ اکثر مرد غصہ کے تیز تھے اور گھر کی عورتوں پر سختی کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو بات بے بات ہاتھ اٹھاتے تھے۔ عورت چاہے جس حال میں بھی رہی تھی کبھی کسی نے طلاق نہیں لی نا شوہر سے آزادی کا سوچا، نا کبھی کسی باپ نے یہ قدم اٹھانے کی ہمت کی۔
خان امروز اور ثمر خان کی حویلیاں ہی تھیں جہاں عورت کو اتنی عزت اور محبت دی جاتی تھی کیونکہ وہ دونوں بھائی اسی مزاج کے تھے۔ خان امروز کے بیٹے بھی ویسے تھے۔ ان کے بعد خان داد کی حویلی میں بھی پابندیاں تو تھیں مگر سختی نہیں تھی، زورک خان نے ہی یہ حرکت کی تھی۔
اور اب ثمر خان واحد باپ تھے جو بیٹی کے سکون کے لیے طلاق تک بات لے آئے تھے۔ بیگم ثمر گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھیں۔ بس نہیں چل رہا تھا زورک خان کے پاس پہنچ کر اسے شرم دلائیں جو بات یہاں تک لے آیا تھا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ خان داد نے کال بیک کی۔
”کیسی ہو؟ میں بھی تمہیں کال کرنے والا تھا۔ زرگل واپس نہیں آئی۔ طبیعت صحت ٹھیک ہے؟ واپس آنا ہے تو میں لے آتا ہوں۔“ ان کی بات پر بیگم ثمر کا دل بھر آیا۔
”لالا زرگل کیسے واپس جائے، زورک خان نے جو اپنی حویلی سے نکال پھینکا اسے۔۔۔ آپ کی ضد پر ہم نے شادی کی تھی، مجھے تو زورک پر بہت مان تھا یہ اس نے کیا کیا۔۔“ وہ بھائی سے شکوہ کرتی رونے لگیں۔
خان داد اس وقت زنان خانے میں بیٹھے تھے، بیگم خان داد بھی قریب بیٹھی تھیں، وہ دونوں ہی ٹھٹک گئے۔ ان کے لیے تو یہ اچانک اطلاع تھی کہ زورک خان نے زرگل کو حویلی سے نکال دیا ہے۔
”ایسا تو کچھ نہیں ہوا، زرگل تو یہاں سے خود گئی تھی۔ نا کوئی لڑائی جھگڑا ہوا نا کوئی ایسی ویسی بات ہوئی۔ کیا تم سے زرگل نے ایسا کہا؟“ بیگم خان داد نے جلدی سے موبائل لیتے ہوئے گھبرا کر سوال کیا۔
”تو کیا زورک خان نے آپ دونوں کو بتایا نہیں؟ اس نے صرف اتنی سی بات پر زرگل کو واپس بھیج دیا کہ اس نے لاپروائی میں بچے کا نقصان کیا۔۔ زورک خان کا ظرف اتنا تنگ کیوں پڑ گیا ہے۔ تکلیف تو زرگل نے بھی جھیلی ہے، اس کی عمر تو دیکھیں آخر کتنی توقعات ہیں زورک خان کو اس سے۔۔“
بیگم ثمر نے خفا لہجے میں بھائی بھابھی سے شکوہ کیا تھا۔ وہ دونوں تو زورک خان کی حرکت سن کر ہی شرمندہ ہو گئے۔ اتنا پڑھا لکھا بیٹا ایسی جہالت کا ثبوت دے رہا تھا۔
”وہ نقصان تو دونوں کا ہوا ہے، غلطی اوزی کی تھی اور۔۔۔“ بیگم خان داد نے آہ بھر کر کہا تو خان داد نے ان سے موبائل لے کر انہیں گھورا۔ جبکہ بیگم ثمر عجیب مشکل میں پھنس گئیں، اپنی بھابھی کی تنگ نظری کو بھی پہچانتی تھیں۔ اگر اوزگل کی صفائی دیتیں تو وہ یہی گلہ شکوہ ساری عمر زرگل سے کرتیں۔
”میں زورک سے بات کرتا ہوں، جس دن زرگل تمہارے پاس گئی اس سے اگلے ہی دن وہ ضروری کام سے شہر چلا گیا تھا۔ اناج وغیرہ کے حساب کتاب تھے، اسے بہت مصروفیت رہی۔ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ اس لیے ہمیں اندازہ نہیں ہوا نا اس نے کوئی ایسی ویسی بات کی۔
میں تو اپنے تئیں اس لیے زرگل کو واپس لانا چاہ رہا تھا کہ شاید زورک کی مصروفیات کی وجہ سے وہ وہاں بیٹھی ہو گی۔ اس کے بغیر اب حویلی بہت سونی سونی سی لگتی ہے۔ تم فکر مت کرو، زورک کو اس حرکت پر ڈانٹوں گا اور خود زر کو لینے آؤں گا۔“
خان داد نے نرمی سے بہن کو تسلی دی تو وہ کچھ مطمئن ہو گئیں۔ اگر خان داد پہلے سے ہی بات کو سنبھال لیتے تو یقیناً مسئلہ بڑھتا نہیں۔ ثمر خان کا غصہ تو برحق تھا مگر انہوں نے سوچ لیا وہ زرگل کو اکیلے میں سمجھائیں گی۔
”لالا اس سے فوری بات کریں اور یہاں آئیں۔۔ آپ جانتے ہیں خان صاحب کو زرگل بہت عزیز ہے۔ انہیں زورک خان کی حرکت بہت مایوس کر رہی ہے۔ اللہ معاف کرے ایسا نا ہو رشتہ ہی ختم ہو جائے۔“ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں بھائی کو خطرے سے آگاہ کیا۔
”اللہ نا کرے ابھی تو میرے بچے نے خوشی دیکھی تھی، اتنی سی بات پر رشتہ کیسے ختم ہو سکتا ہے۔ ہم زورک سے کہیں گے ابھی واپس آئے اور اس بات کی وضاحت کرے۔ تم دونوں بھی زرا ہوش سے کام لو، بیٹیوں کے گھر ایسے بات بات پر توڑے نہیں جاتے۔“
بیگم خان داد تو رشتہ ختم ہونے کا سنتے ہی بوکھلا گئی تھیں۔ خان داد نے گہرا سانس بھر کر بہن کو تسلی دی اور جلدی آنے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔ بیگم ثمر کو اطمینان تو ہوا مگر ساتھ یہ فکر بھی ستا رہی تھی کہ کہیں زورک خان ماں کو نا بتا دے وہ غلطی اوزگل کی نہیں زرگل کی تھی۔
اس سچ کے بعد ان جیسی تنگ نظر خاتون سے کوئی بعید نہ تھی زورک سے زیادہ سخت رد عمل سامنے لے آتیں۔ وہ پریشانی سے سر پکڑ بیٹھیں۔ زرگل کی لاڈ پیار میں طبیعت لاپرواہ سی ہو گئی تھی۔ اس کے لیے ان سختیوں اور پریشانی میں زندگی گزارنا بہت مشکل تھا۔
وہ سوچ سوچ کر بےچین ہونے لگیں کہ ناجانے اب ان کے رشتے کا کیا انجام ہونے والا تھا؟؟
°°°°°°°°°°°°°°°°°

جاری ہے ۔۔۔

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!