Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Wo Humsafar Tha

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 31 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :61

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط اکتيس

”اتنا مت سوچو، تم بھی میرے ساتھ چلو۔۔ شادی کے لیے اگر کوئی ڈریسز لینے ہوں تو لے لینا۔۔ وہاں جا کر دیکھ لیں گے کیا ویڈنگ گفٹ لینا چاہیے۔“ یافث نے اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر اپنے مزید قریب کرتے ہوئے اسے ساتھ چلنے کا کہا۔
”نہیں میں نہیں ساتھ جانا چاہتی، میں ریسٹ کر لوں گی۔ مجھ سے شاپنگ کی زلالت نہیں جھیلی جاتی۔ آپ خود لے لیجیے گا۔ مجھے آئڈیا بھی نہیں ویڈنگ گفٹ کیا ہونا چاہیے، ہمیں تو پیسے، ڈریسز اور جیولری گفٹ ملی تھی۔ پتا نہیں شہر کے لوگ کیا پسند کرتے ہوں۔“ وہ پزل ہو گئی۔
”گفٹ کا آئڈیا نہیں تو ویسے ہی چلی جاؤ، آؤٹنگ ہو جائے گی۔ لانگ ڈرائیو پر چلے جائیں گے۔ اتنی بوڑھی بنی رہتی ہو، انجوائے کیا کرو، تمہیں بس پڑھنا ہی آتا ہے۔“ وہ خفگی سے بولتا اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف کرتا اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا۔
”ہم پھر کبھی چلے جائیں گے، آج نہیں۔۔ میں ریسٹ کرنا چاہتی ہوں تاکہ بالکل ٹھیک ہو جاؤں۔“ اوزگل بہانے سے رخ پھیرتی اپنے چہرے کی سرخی چھپانے لگی۔
”تمہیں اندازہ نہیں ہے تم بہت انٹرسٹنگ ہو۔۔ تمہیں دیکھ کر انسان کا موڈ اچھا ہو جاتا ہے۔“ وہ اس کے شرمانے پر ہنستے ہوئے اسے خود سے لگا گیا۔ اوزگل خفت اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”اچھا تمہیں کچھ منگوانا ہے؟“ یافث نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے سوال کیا تاکہ موبائل میں اس کی بتائی چیزوں کی لسٹ تیار کر لے۔
”جی ہاں، مجھے بھی اپنی فرینڈز کو گفٹس دینے ہیں، ان دونوں کی انگیجمنٹ ہو چکی ہے۔ آپ دو بہت اچھے والے لیڈیز پرفیومز پیک کروا کر لے آئیے گا۔۔“ وہ یاد آنے پر بولی تو یافث نے سر ہلایا۔
”اور؟“ وہ اس کی خاموشی پر رک کر اسے دیکھنے لگا۔
”بس یہی۔۔“ اوزگل نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔
”بس یہی؟ واؤ۔۔“ وہ حیرت سے موبائل بند کر کے رکھ گیا۔ اوزگل ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”تم بتاؤ کیا ارادہ ہے، شادی پر عبایا پہن کر جاؤ گی؟ یا کوئی ڈیسنٹ سے ایونٹ کے حساب سے ڈریس لاؤں۔۔“ وہ اس کے چہرے کے گرد بکھری زلفوں کو سمیٹتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”میں عبایا ہی پہنوں گی، آپ کو اچھا نہیں لگتا تو نہیں جاؤں گی۔ میں انجان لوگوں کی شادی میں پردے کے بغیر نہیں جا سکتی۔“ وہ دو ٹوک لہجے میں بولی۔
”تمہیں لگتا ہے میں اعتراض کروں گا؟ میری پاگل گڑیا تم پردہ نہ کرتیں تو میں لے کر ہی نا جاتا۔۔ آئی نو یہاں کمبائن فنگشن ہوتے ہیں۔ فرینڈ نے بہت ریکوئسٹ کی، وہ پردے کا بھی خیال رکھیں گے۔ اس لیے لے جا رہا ہوں۔“ وہ نرمی سے بولا۔
”آپ کو عجیب نہیں لگے گا میں پردے میں آپ کے ساتھ ہوں گی؟ شادیوں پر تو ایسے نہیں جاتے لوگ۔۔ آپ کو بھی میرے ساتھ جاتے ہوئے انکمفرٹیبل فیل ہو گا۔۔“ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ اس کی اعلا شخصیت اور خوبصورتی، اس کا شاہانہ پن اور اس کی وجاہت اسے لوگوں میں نمایا کرتی تھی۔
وہ منفرد لگتا تھا۔ اوزگل کو جھجک محسوس ہو رہی تھی، وہ اسے ساتھ لے جا کر شرمندہ نہ ہو جائے۔ کہیں اتنے لوگوں میں اوزگل کی وجہ سے مذاق نہ بن جائے۔
”اوز وہ پردہ ہی کیسا جو شادیوں پر اتر جائے۔ اللہ کے لیے کرنا ہے تو ہر موقع پر کرنا چاہیے۔ مجھے عجیب نہیں لگے گا، الٹا سیدھا مت سوچو۔۔“ وہ اس کا سر تھپتھپا کر بولا۔ وہ مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
یہ تو اسے لگ رہا تھا اسے عجیب نہیں لگے گا، اس کے سامنے تو اوزگل کی قد بہت چھوٹی لگتی تھی، اس پر نا میک اپ نا تیاری نا خوبصورت لباس۔۔ سادہ سا عبایا میں ناجانے وہ کیسی لگے گی۔ اسے یقین تھا اس کے ساتھ وہاں جا کر یافث خان کو شرمندگی ہو گی۔
”اوکے میں اب جاتا ہوں تاکہ جلدی فری ہو کر آجاؤں اور پلیز کوکنگ کر لیتی ہو تو باقی کام مت کرنا، صفائی وغیرہ میں مت الجھنا۔۔“ وہ اسے ہدایت دے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اوزگل سر ہلاتی کمرے میں جا کر سو گئی۔ وہ شاپنگ کے لیے چلا گیا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”میں تمہاری ہر غلطی کو معاف کر سکتا ہوں، بس تم ایک بار مجھ پر اعتبار کرنا سیکھ لو۔۔ پھر ہمارے درمیان کوئی مشکل نہیں رہے گی۔“ زورک خان نے اس سے بار بار یہی ایک بات کی تو زرگل اسے دیکھتی سوچ میں مبتلا ہوئی۔
”اگر غلطی ناقابلِ معافی ہوئی؟ اگر جرم بڑا ہوا تو؟ کیا واقعی معاف کر دیں گے؟“ زرگل نے سوال کیا۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اسے زرگل کا لہجہ کچھ عجیب لگا تھا مگر توجہ نہیں دی۔
”تم اتنی بھی بری نہیں ہو کہ ناقابلِ معافی غلطیاں کر بیٹھو، بےضرر غلطیاں کرتی ہو۔۔ ہاں تمہاری وجہ سے جو لوگوں کا دل دکھتا ہے۔ یہ بھی چھوٹی بات نہیں لیکن اب مجھ سے کوئی بات چھپانا نہیں۔۔
تم جو بھی کہتی ہو میں کرتا ہوں۔ لیکن چاہتی کیا مجھے نہیں پتا۔۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تم کیا سوچتی ہو۔ مجھے خان زادہ نے اس روز طنز کیا تھا کہ میں نے اپنی زمہ داری پوری نہیں کی، تمہیں وہاں اکیلا چھوڑ دیا۔ کیا تم بھی ایسا سوچتی ہو؟
کیا وہاں سب ایسا سوچتے ہیں؟ کیا تمہیں لگتا ہے میں زمہ داری پوری نہیں کرتا؟ تم جانا چاہتی تھیں تو میں نے کچھ دن کے لیے بھیج دیا۔ جب تم نے جانے کا کہا تب کیا تم واقعی جانا چاہتی تھیں؟“ زورک سوال کر رہا تھا۔
”میں واقعی جانا چاہتی تھی، آپ نے ہر زمہ داری پوری کی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔۔ مورے اور آبا جان ایسا ویسا کچھ نہیں سوچتے، آپ باقی لوگوں کو سوچنے دیں وہ جو بھی سوچتے رہیں۔ کوئی ہمیں جج نہیں کر سکتا۔۔“
زرگل مدھم لہجے میں بولی۔ کیا وہ اسے بتا سکتی تھی جب اس کے لیے خان حویلی میں رہنا مشکل ہو جائے تو چند روز سکون کے گزارنے کے لیے ماں باپ کے پاس جاتی تھی۔ وہ ایسا تو بالکل نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس لیے تسلی دینے لگی۔
”زرگل میں نے شادی کے بعد سب صاف الفاظ میں تمہیں سمجھا دیا تھا۔ میں رشتے میں کوئی الجھن کوئی راز نہیں رکھنا چاہتا۔ میں کیا سوچتا تھا، کیا چاہتا تھا تمہیں سب کہہ دیا لیکن تم پہلے روز سے کچھ نہیں بولیں۔ کبھی مجھے میرے سوال کا ٹھیک سے جواب نہیں دیا۔
میں نے تو اپنے رشتے کو بہت سادہ سمجھا تھا لیکن اب لگتا ہے ہمارا تعلق دن بہ دن الجھتا جا رہا ہے، میں تنگ آ چکا ہوں۔ تم کیا سوچتی ہو بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔ ڈھکی چھپی اور الجھی ہوئی کیوں ہو۔۔ صاف بتا دو، اب ہمارے درمیان کچھ چھپا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔“ زورک خان کو شاید یافث کے الفاظ بری طرح چبھے تھے۔
زرگل اس کی باتوں پر متذبذب سی ہو گئی، وہ بھی نہیں چاہتی تھی اب کچھ چھپا ہوا ہو۔ اس نے شادی کن حالات میں کی وہ تو سب ماضی ہو گیا تھا۔ اسے خان زادہ پسند تھا، وہ بچپن کی محبت تھا وہ بھی اس کا زاتی راز تھا۔ وہ اسے چھپانے کا حق رکھتی تھی۔
مگر زورک خان کی اولاد اس کی لاپروائی کی وجہ سے اس دنیا میں نہیں آ سکی تھی۔ اس نے جو نقصان کیا تھا وہ ناقابلِ معافی جرم تھا اور وہ اس بات کو زیادہ عرصہ چھپا بھی نہیں سکتی تھی۔ زورک خان کو چاہے یافث خان کے الفاظ پر اعتراض ہوا ہو مگر ان کا ملنا جلنا تو ختم نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ ایک خاندان تھے، سامنا بھی ہوتا رہتا، ملاقات ہوتی رہتی اور ہر بار زرگل کو یہی خوف رہتا کہ کہیں وہ دونوں زورک خان کو سچ نہ بتا دیں۔ زورک کا رویہ اوزگل سے بہت بدل گیا تھا اور یہی بدلاؤ کسی روز سچ سامنے لے آتا اور سچ سب کے سامنے آنے سے بہتر تھا اکیلے میں زورک خان کو بتا دیتی۔
”کیا سوچ رہی ہو؟ تمہاری یہی حرکت مجھے زچ کرتی ہے۔ میں بات کر رہا ہوتا ہوں تم ناجانے کن سوچوں میں گم ہو جاتی ہو۔۔ جواب دیا کرو، بات کیا کرو۔۔ کن سوچوں میں رہتی ہو آخر؟“ زورک خان نے ابرو چڑھا کر سوال کیا۔
”خان صاحب میں آپ کو ایک سچ بتانا چاہتی ہوں۔ آپ مجھ پر زیادہ غصہ تو نہیں کریں گے؟“ زرگل نے جھجک کر اسے دیکھا تو وہ اس کے ہاتھ تھام کر محبت سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں کیوں غصہ کروں گا۔ میں نے تم سے کہا تھا ناں اب میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ میں تمہیں سننا چاہتا ہوں، بولو کیا بتانا ہے۔“ وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔ لہجے میں نرمی تھی، زرگل کو اس کے روئیے سے بات کرنے کی ہمت ہوئی تھی۔
”اس رات جب میرے سر میں شدید درد تھا تو۔۔ وہ میڈیسن میں نے خود لی تھی۔ اوزگل نے نہیں دی تھی۔“ زرگل نے کے الفاظ پر زورک خان ہکا بکا سا اسے دیکھنے لگا۔ ہاتھوں سے ہاتھ چھوٹ گئے تھے، بےیقینی کے مارے وہ کچھ دیر بول نہیں پایا۔
”پلیز آپ غصہ نہیں کرنا، میں جانتی ہوں ڈاکٹر نے مجھے میڈیسنز لینے سے منع کیا تھا مگر۔۔ اس وقت میرے سر میں شدید درد۔۔۔“ زرگل کی بات زورک خان کے مارے گئے تھپڑ پر ادھوری رہ گئی، وہ لڑکھڑا کر ایک طرف گری۔
”میں غصہ نہ کروں؟ تم جیسی بےرحم اور بےحس لڑکی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ میں تمہیں بےضرر سمجھتا تھا مگر تم تو سنگدلی میں میری سوچ کو پیچھے چھوڑ گئیں۔۔ تم نے خود جرم کیا، اپنے ہی بچے کو مارا اور پھر اپنی بہن پر الزام لگا دیا۔۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا۔۔؟ کیوں اتنی بےحس ہو۔۔ شرم نہیں آئی تمہیں؟ جرم کر کے اوزگل پر الزام لگاتے ہوئے دل بھی نہیں کانپا؟“ زورک خان غصے کی شدت سے چیخ اٹھا تھا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔
غصہ اتنا شدید تھا کہ وہ زرگل کا چہرہ بگاڑ دینا چاہتا تھا اور وہ ایسا کر گزرتا مگر اس کی حالت کے پیشِ نظر ہاتھ دوسری بار اٹھانے سے رک گیا۔ ایک تھپڑ کے بعد خود پر ضبط کر گیا۔
”میں نے۔۔ جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ میرا یقین کریں۔۔ میں ڈر گئی تھی۔۔ اس لیے اوزی۔۔۔“ زرگل نے روتے ہوئے سہم کر اسے بتایا مگر زورک خان نے دھاڑ کر اس کی بات کاٹی۔
”بکواس بند کرو، تمہیں تکلیف تھی اس لیے جانتے بوجھتے پین کلر لے لی، ہیوی ڈوز اور دو ٹیبلٹس ایک ساتھ۔۔ میں مر گیا تھا کیا؟ مجھے کیوں نہیں کال کی، ہاسپٹل لے جاتا۔ مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔ تم نے خود ہی سب کر لیا۔۔
پھر میں کیسے یقین کروں کہ تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ نا صرف وہ غلطی کی بلکہ ایسا کر کے تم ڈر گئی تھیں تو تم نے اوزی کو سب میں زلیل کروا دیا۔۔ تم اس نرمی اور محبت کے قابل ہی نہیں ہو جو میں تم پر لٹاتا رہا۔۔“ زورک خان غصے سے بول رہا تھا۔
زرگل سہمی ہوئی سی اپنے گال پر ہاتھ رکھے روتی رہی۔ وہ اسی لمحے سے ڈرتی تھی۔ وہ لاپروائی کر گئی تھی پھر جرم پر جرم کر بیٹھی اور ہمیشہ کی طرح اوزگل کا نام لگا گئی۔ وہ اسی پل سے ڈر رہی تھی اور اب زورک کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
”میں تمہیں سدھارنے چلا تھا لیکن تمہارے اس پتھر جیسے دل کا کیا علاج کروں۔ تم نے ضد کر کے پھپھو کے پاس جانے کا کہا اور میں صرف اس لیے مان گیا کہ اس حال میں تم پر کوئی زبردستی نا کروں۔۔ تمہاری وجہ سے خان زادہ نے سب کے درمیان مجھے جتا دیا کہ میں نے زمہ داری پوری نہیں کی۔
تمہاری وجہ سے مجھے باتیں سننے کو ملتی ہیں، تم نخرے دکھاتی ہو، حویلی میں سب پر حکم چلاتی ہو مگر میں چپ رہا۔ تم نے مورے کو سائیڈ پر کر دیا۔ حاکم بن کر گھومتی رہیں اور ہم سب صرف اسی لیے برداشت کرتے رہے کہ تم ہمیں وارث دینے والی ہو۔۔
لیکن تمہاری نظر میں میرے معصوم بچے کی بس اتنی اہمیت تھی کہ سر درد سے نجات کے لیے تم نے اس کی زندگی داؤ پر لگا دی۔ تم کٹھور اور پتھر دل لڑکی ہو۔ تم جیسی لڑکیوں کو سدھارا نہیں جا سکتا۔“ زورک خان کی ساری نرمی دم توڑ گئی تھی۔ وہ غصے اور سختی سے بولتا چلا گیا۔
”میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ کبھی۔۔“ زرگل نے روتے ہوئے اسے یقین دلانا چاہا۔
”آئندہ کس نے دیکھی ہے، میں تو یہ سوچ رہا ہوں تم پر دوبارہ یقین کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ میں تو اپنی محبت پر پچھتا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں تم خان زادہ کو پسند کرتی ہو، تم اس کی خاطر شادی سے انکار کرتی رہیں۔“ زورک خان کے الفاظ پر زرگل کو جھٹکا لگا۔
”لیکن میں نے تمہاری محبت میں اتنی بڑی بات برداشت کر لی، مجھے لگا بس وہ کم عمری کی انسیت ہو گی۔ شاید وہ دو دن کا چارم ہے لیکن نہیں۔۔ تم نے شاید مجھے کبھی قبول کیا ہی نہیں، تم نے میری اولاد کی بھی حفاظت نہیں کی۔ تمہیں پرواہ ہی نہیں تھی۔۔
تم تو آج تک اوزگل سے نفرت نبھا رہی ہو۔ تمہیں ہمارے تعلق اور ہمارے بچے سے کیا لینا دینا، تمہیں تو اوزی سے دشمنی پوری کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔۔“ زورک خان کا لہجہ زخمی ہو رہا تھا۔ زرگل ساکت سی بیٹھی تھی۔
”میں اس سے زیادہ ظرف بڑا نہیں کر سکتا، اس سے زیادہ میری برداشت نہیں ہے۔ تم ابھی اور اسی وقت ڈرائیور کے ساتھ اپنی حویلی چلی جاؤ۔۔“ زورک کی بات پر زرگل کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی۔
”خان صاحب۔۔۔ مجھے۔۔ مجھے ایک موقع دیں۔ بس ایک۔۔ ایک بار مجھے۔۔ موقع دے دیں۔۔ پلیز۔۔“ وہ روتے ہوئے اس کی منتیں کرنے لگی۔ ڈر کے مارے رونے لگی، زلت کے خوف سے چہرہ بالکل سفید پڑ گیا تھا۔ اگر زورک خان نے رشتہ ختم کیا تو سب کو کیا وجہ بتائے گی۔
”فی الحال میری نظروں سے دور ہو جاؤ ورنہ میں تین جملے کہہ کر فارغ کر دوں گا۔ اگر چاہتی ہو میں کوئی انتہائی قدم نا اٹھاؤں تو چلی جاؤ یہاں سے۔۔ کچھ دن میں تمہیں اپنے سامنے برداشت نہیں کر سکتا۔۔“ زورک رخ موڑتا سرد مہری سے بول رہا تھا، پھر ایک دم پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔
زرگل روتے ہوئے وہیں بیٹھی رہ گئی، اس نے زورک خان پر یقین کر کے غلط کیا تھا۔ اس کی نرمی پر ایمان لے آئی تھی۔ اس کی محبت بھری تسلی پر یہ سمجھ بیٹھی کہ زورک خان ہر غلطی پر سر ہلا کر کہہ دے گا کوئی بات نہیں۔۔ اتنی بڑی بھول کر بیٹھی تھی۔
زورک خان جب محبت دے رہا تھا تو اسے سختی لگتی تھی۔ جب آزادی اور عیاشی ملی، اسے لگتا تھا وہ قید ہو گئی ہے۔ آج سختی کر رہا تھا تو احساس ہوا اصل مشکل تو اب شروع ہوئی ہے۔ اصل امتحان تو اب شروع ہونے والا تھا۔ آزادی بھی شاید اب سلب ہونے کو تھی۔
زندگی پہلے تو آسان تھی، اب ناجانے کیسی ہونے والی تھی۔ ناجانے کیا ہو رہا تھا۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث خان آفس سے نکلا تو مائر اور راحیل کی کالز پر کالز آ رہی تھیں۔ آج مائر کی مہندی تھی اور اس نے صبح سے ناجانے کتنی بار اسے یادہانی کروائی تھی کہ اسے ضرور آنا ہے۔ اسے بھی یاد تھا، وہ صبح اوزگل سے کہہ کر آیا تھا کہ تیار رہے۔
اب بھی وہ مائر کو اپنے آنے کا یقین دلاتا گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پہنچا تو اوزگل نیند کرنے میں مصروف تھی۔ وہ سر پیٹ کر رہ گیا۔ وہ پہلے ہی لیٹ ہو گیا تھا، اب اپنی تیاری بھاگتے دوڑتے کرتا۔ لیکن اوزگل کو جگانے کا مرحلہ باقی تھا
”اوز۔۔ اٹھ جاؤ، میں تم سے کہہ کر گیا تھا کہ ہمیں آج مہندی پر جانا ہے۔“ اس نے اوزگل کو جگاتے ہوئے خفگی سے کہا۔ وہ اس کے جگانے پر آنکھیں کھول گئی، حواس بیدار ہوئے تو جلدی سے اٹھی۔
”میں تیار ہوں۔“ جھٹکے سے بیٹھتے ہوئے بولی۔ سنہری مائل بال پشت پر بکھر گئے تھے۔
”میں نہا کر سوئی تھی، اب صرف عبایا پہنوں گی۔ آپ فریش ہو جائیں۔ تیاری تو آپ کو کرنی ہے۔“ وہ آنکھیں مسلتے ہوئے بول رہی تھی۔ یافث نے اس کا سر سہلایا اور اپنے لیے وائٹ کرتا شلوار لے کر شاور لینے چلا گیا۔
باہر نکلا تو اوزگل ابھی تک بیٹھ کر نیند کرنے میں مصروف تھی۔ وہ رات کو جلدی سو جانے کی عادی تھی اور یہاں نو بجے وہ لوگ مہندی پر جا رہے تھے، ناجانے واپسی کب ہونے والی تھی۔ یافث نے بال برش کرتے ہوئے اسے پکارا تو وہ سستی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے چلی گئی۔
باہر آ کر اپنے بال برش کر کے ڈھیلا سا جوڑا بنایا۔ وہ تیار ہو کر بیڈ پر بیٹھا اب دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ پیور وائٹ فلیری کفتان عبایا پہنے سر پر وائٹ نیٹ کی سٹائلش سی حجاب کیپ پہن رہی تھی۔ پھر اس کے اوپر سٹالر لپیٹا اور اپنے لیے وائٹ کوٹ شوز نکالنے لگی۔
”بیڈ پر بیٹھو۔۔“ یافث اٹھ کر اس کے پاس پہنچا اور اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔ اوزگل نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”آر یو شیور اوز تم یہی شوز پہنو گی؟ اگر ان میں ٹھیک سے واک نا کر سکیں تو مشکل ہو گی۔“ وہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے جوتے پہناتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ وہ گھبرا گئی۔
”آپ چھوڑ دیں میں خود پہن لوں گی پلیز۔۔“ وہ خفت سے سرخ ہونے لگی۔ یافث ان سنا کیے دونوں جوتے پہنا چکا تھا۔ اوزگل جھینپی ہوئی سی بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوئی۔ عبایا زمین تک پھیلا ہوا تھا۔
”ما شاء اللہ۔۔“ وہ اسے خود سے لگاتا اس کے دونوں رخساروں کو چومنے لگا۔ بالکل سادہ چہرے کے ساتھ عبایا پہنے وہ بہت معصوم لگ رہی تھی، چہرے پر شرم کی وجہ سے سرخی پھیل گئی تھی۔ جلدی سے اپنا نقاب پہننے لگی، ہاتھوں میں لرزش نمایاں ہو رہی تھی۔
وہ اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اسے اپنے ساتھ لے کر باہر نکلا اور بہت احتیاط سے گاڑی تک پہنچایا تھا۔ اوزگل سے زیادہ اسے فکر تھی کہ کہیں وہ ہائی ہیلز کی وجہ سے گر نہ جائے۔
مہندی کا ایونٹ گھر کے وسیع لان میں کیا جا رہا تھا۔ وہ پہنچے تو ایسا لگا جیسے وہاں صبح ہو۔۔ مائر اپنی فیملی کے ساتھ ویلکم کے لیے سامنے ہی موجود تھا، راحیل بھی وہیں ساتھ کھڑا تھا۔ اوزگل بےساختہ یافث کی اوڑ میں ہو گئی۔ وہ اسے ساتھ لیے آگے بڑھا اور سب سے ملنے لگا۔ نا اس نے دوستوں سے اوزگل کو ملوایا نا وہ اس سے ملے۔
وہاں جو عورتیں اور لڑکیاں موجود تھیں، وہی اوزگل سے مل رہی تھیں۔ شاید وہاں موجود لوگوں میں وہ واحد تھی جس نے مکمل پردہ کیا ہوا تھا۔ ورنہ وہاں کے لوگ الگ دنیا کے باسی لگ رہے تھے، پردہ تو ایک طرف ڈوپٹہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا، لڑکیاں بھی اور عورتیں بھی۔۔
”تم یہاں بیٹھو میں باقی فرینڈز سے مل کر آتا ہوں۔“ وہ اسے صوفے پر بٹھا کر لڑکوں کے ایک گروہ کی طرف بڑھ گیا۔ اوزگل نے ایک طائرانہ نظر اطراف میں دوڑائی۔ ہر فیملی کو الگ ٹیبل دی جا رہی تھی۔ لوگ سامان رکھے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔
لڑکے، مرد، عورتیں اور لڑکیاں سب چلتے پھرتے انجوائے کر رہے تھے۔ یافث دوستوں سے مل کر واپس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اوزگل کھسک کر اس کے قریب ہوتی حیرت سے سب کو دیکھتی نروس ہو رہی تھی۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟“ یافث نے توجہ سے اوزگل کو دیکھا۔
”وہ لڑکیاں کب سے آپ کو دیکھ رہی ہیں اور آپ کی باتیں کر رہی ہیں۔ آپ وہاں تھے تو وہاں دیکھ رہی تھیں اور اب یہاں آ گئی ہیں۔ سب لڑکیاں آپ کو دیکھ رہی ہیں۔ کیا انہیں نہیں پتا آپ میریڈ ہیں؟“ وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”میں تمہارے ساتھ آیا ہوں، یہ میری شادی کا بہت بڑا پروف ہے۔ وہ صرف مجھے دیکھنے کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہیں۔“ وہ اطمینان سے بول رہا تھا۔ اوزگل اس کے کندھے سے سر اٹھائے پیچھے دیکھ رہی تھی۔ وہاں کھڑی دو تین لڑکیوں نے یافث خان کی پکچر بنائی تھی۔
وہ اپنی باکمال شخصیت، اپنے شاہانہ انداز اور خوبصورتی کی وجہ سے کوئی سیلیبرٹی لگ رہا تھا۔ اس کا کسی کو توجہ نا دینا ہی سب کو متوجہ کر رہا تھا۔ سامنے سٹیج پر لڑکیاں اور لڑکے ڈانس کر رہے تھے۔
”اوزی۔۔۔ سنو، میری طرف دیکھو۔۔“ یافث نے اس کے کان کے قریب جھکتے ہوئے سرگوشی میں اسے پکارا۔ وہ سر سیدھا کر کے اسے دیکھنے لگی۔ نیلی آنکھوں میں بےچینی بھری ہوئی تھی۔
”اگر تم تنگ ہو رہی ہو تو واپس چلیں؟“ وہ اس کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھتا اسے اتنا قریب کر گیا کہ اس کے لب اوزگل کے ماتھے کو چھونے لگے۔ وہ جھجک سی گئی تھی۔
”ابھی تو آئے ہیں۔“ وہ نظریں جھکاتے ہوئے بولی۔ سامنے ڈانس کرتے لڑکے لڑکیوں پر نظر پڑی تو ٹھٹک گئی، دمکتی رنگت والی نازک، دراز قد لڑکیاں مختلف رنگوں کے لہنگے پہنے مہارت سے ڈانس کر رہی تھی۔
”میں نے فیل کیا ہے تم انجوائے نہیں کر رہیں، ابھی ڈنر بھی باقی ہے لیکن وہ بھی تمہیں مشکل ہو گی۔ پردے میں کیسے کچھ کھاؤ گی۔۔ کہو تو واپس چلتے ہیں۔“ وہ اور کہیں متوجہ ہی نہیں تھا، اس کی نظریں سفید نقاب سے نظر آتی ان نیلی آنکھوں پر ٹکی تھیں۔
”کیوں نہیں کھا سکتی، آپ کو لگتا ہے پردہ کر لینے کے بعد ہم لڑکیاں کچھ نہیں کر سکتیں؟ یہ نقاب ہٹا کر اندر سے کھاتی رہوں گی۔ پردے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے، میں کیسے اور کتنا کھا رہی ہوں کسی کو آئیڈیا نہیں ہوتا۔۔“ وہ آنکھیں پٹپٹا کر پردے کی اہمیت بتا رہی تھی۔ یافث کے لیے اپنا قہقہہ ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
”یعنی ابھی بیٹھنا ہے۔“ وہ اس کی باتوں پر سر ہلاتا مسکراہٹ دبا کر بولا۔
”کیا آپ پہلے بھی ایسے ایونٹس پر آتے رہتے ہیں؟“ اوزگل وہاں موجود ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکیوں کو دیکھ کر غیر مطمئن ہو رہی تھی۔
”ہاں شاید دو سے تین بار ہی آیا ہوں، اسی فرینڈ کے بھائی کی شادی پر آیا تھا اور دوسرا دوست ہے راحیل اس کی بڑی بہن کی شادی پر گیا تھا۔ زیادہ تر میں اوائڈ کرتا ہوں، فیملی ایونٹس کا یہی مسئلہ ہے۔ اب یہاں ان کا خاندان گھوم رہا ہے اور میرے لیے سب غیر ہیں۔
مجھے بیٹھنا بھی یہیں ہے اور ان کے ہاں کمبائن فنگشنز ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کسی کے گھر میں خوامخواہ گھسا بیٹھا ہوں۔ اس لیے تمہیں لانا چاہتا تھا فیملی ساتھ ہونے سے کچھ ڈیسنٹ فیل ہوتا ہے۔“ وہ آہستگی سے بول رہا تھا۔
اوزگل کو پریشانی ہو رہی تھی وہ کسی لڑکی کے حسن کا اسیر نا ہو جائے اور وہ اس کے علاوہ کسی کو دیکھ نہیں رہا تھا۔ ڈانس وغیرہ کے بعد ڈنر سرو ہوا تو وہ اوزگل کے لیے پلیٹ بنا لایا۔ وہ سکون سے نقاب کے اندر سے کھا پی رہی تھی۔
گرم گرم سیخ کباب کھاتی کھانا انجوائے کر رہی تھی۔ یافث اس پر مسلسل ہنس ہنس کر آنکھیں بھگو چکا تھا۔ابھی وہ لوگ کھانا کھا کر فری ہوئے تھے کہ مائر کی والدہ اور بہن ان کے پاس چلی آئیں، یقیناً مائر نے انہیں بھیجا تھا۔ وہ دونوں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
”بیٹا اپنی بیوی کو لا کر یہیں بٹھایا ہوا ہے۔ وہ بور ہو رہی ہو گی۔ فرح تم بھابھی کو لڑکیوں کے پاس لے جاؤ، انجوائے کرواؤ۔۔“ مائر کی مدر نے نرمی سے مسکراتے ہوئے اوزگل کو دیکھ کر چھوٹی بیٹی کو مخاطب کیا۔
”میری وائف تھوڑی شائے ہے، سوشل نہیں ہے اس لیے اپنے پاس لے کر بیٹھا ہوں۔ مجھے ایشو نہیں ہے لیکن اگر یہ جانا چاہے۔۔“ یافث نے اوزگل کو دیکھا تو وہ قہقہے لگاتی ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔
”آجائیں میں آپ کے ساتھ رہوں گی، آپ کو انکمفرٹیبل نہیں ہونے دوں گی۔ ویسے بھی ابھی کھانا کھایا ہے تو سب لڑکیاں میک اپ فریش کرنے کے لیے اندر جائیں گی۔ آپ بھی تھوڑا ریلیکس ہو جائیے گا۔“ مائر کی چھوٹی بہن فرح نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اوزگل کا ہاتھ تھام لیا۔
وہ اس کے ساتھ جانے کے لیے مچل اٹھی، یافث اسے اکیلا بھیجنے سے ہچکچا رہا تھا مگر اوزگل کی اجازت طلب نظروں کو خود پر ٹکا دیکھ کر سر ہلا گیا۔
”جلدی آنا اوز۔۔ کوئی ایشو ہو تو مجھے میسج کر دینا۔“ اس نے آہستگی سے ہدایت دی، وہ سر ہلا کر فرح کے ساتھ اندر چلی گئی۔ یافث دوستوں کے پاس رک گیا۔
”یار تم تو بیوی کو ہی پیارے ہو گئے ہو، ہماری طرف دیکھا ہی نہیں۔۔ میں نے مما کو بھیجا تاکہ تم کچھ دیر ہم پر بھی نظر کرم کر دو۔۔“ مائر نے اسے دیکھتے ہوئے خفگی سے کہا تو وہ ہنس پڑا۔
”جیسا کہ تم نے دیکھا وہ ایسے ایونٹس کی نا عادی ہے نا کمفرٹیبل ہو رہی تھی۔ میری ضد پر آئی ہے۔ اسے ایسے اکیلا چھوڑ دیتا تو آئندہ میرے ساتھ کہیں نا جاتی۔“ یافث مسکراتے ہوئے اطمینان سے بول رہا تھا۔
”ہمیں کیوں اعتراض ہو گا، میں تو تم سے سیکھ رہا ہوں۔ بیوی کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے۔“ راحیل شوخی سے بول رہا تھا۔
”تم پہلے بیوی تو لے آؤ، متوجہ بعد میں کر لینا۔“ یافث نے اس کا کندھا تھپتھپا کر اس کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ وہ آہ بھر کر رہ گیا۔۔ دوستوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے باتیں کرتے یافث کی نظریں بار بار موبائل پر جاتی تھیں۔
اوزگل کو اندر گئے کافی دیر ہو چکی تھی۔
جاری ہے۔۔

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!