Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Wo Humsafar Tha

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 30 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :96

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط تيس

بلڈنگ میں پہنچتے ہی یافث نے اسے پیچھے کر کے شیشہ بند کیا۔ فلیٹ میں پہنچ کر اسے چینج کرنے بھیجا، اس کے بازو بارش میں مسلسل ہاتھ رکھنے کی وجہ سے بھیگ چکے تھے مگر اتنی خوش تھی جیسے انعام ملا ہو۔ ان کے پہنچنے تک عصر کا وقت ہو چکا تھا۔
”چائے بنا کر پی لو اوز اور اب بارش میں مت جانا، مجھے آفس جانا ہے۔ میں جلدی آ جاؤں گا۔“ وہ فارمل ڈریسنگ کرتا اسے ہدایت دے کر چلا گیا۔ وہ عصر کی نماز پڑھ کر چائے بنانے کے لیے کچن میں پہنچی۔ بارش اسے اور زرگل دونوں کو بہت پسند تھی۔
سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر وہ دونوں لان میں نکل جاتی تھیں۔ زرگل کو تو چائے کے ساتھ اہتمام بھی پسند تھا، پکوڑے، سموسے، سوجی کا گرم حلوہ، گاجر کا گرم حلوہ۔۔ البتہ اوزگل کے لیے بارش ہی کافی ہوتی تھی۔ وہ یافث خان کے ساتھ بارش میں بیٹھ کر باتیں کرنا چاہتی تھی۔
مگر ایک روز پہلے اسے اتنی دور بلا چکی تھی، اب اس کے کام میں رکاوٹ بننے سے جھجک گئی۔ وہ چلا گیا، اوزگل نے چائے بنائی اور ٹیرس پر پڑی چئیر پر بیٹھ گئی۔ واٹس ایپ پر خوشنما اور رودابہ کو گروپ کال ملائی۔
”علیزے کی بچی کہاں گم ہو گئی تھیں، ہم نے اتنی کالز کیں، میسج کر کے گم ہو جاتی تھیں۔“ رودابہ کال اٹینڈ کرتے ہی اس پر چیخی تھی۔ وہ موبائل کان سے ہٹا گئی۔ ٹھنڈی ہوا سے ناک اب سرخ ہو رہا تھا۔
”بھئی تم گھر والوں کے پاس چلی جاؤ تو ہمیں بھول ہی جاتی ہو۔۔ تمہیں اتنی بڑی گڈ نیوز دینی تھی مگر تم اویل ایبل ہی نہیں ہوئیں۔“ خوشنما نے بھی خفگی سے کہا۔
”آئم سو سوری، جب تمہاری کال آئی میری فیملی بہت بڑے کرائس سے گزر رہی تھی۔ میری سسٹر کا مس کیرج ہو گیا تھا۔ شی واز ویری اپ سیٹ۔۔“ اس نے آہ بھر کر بتایا تو وہ دونوں افسوس کرنے لگیں۔ وہ انہیں تفصیل بتاتی رہی۔
”میں پیرنٹس کے گھر بھی بس ایک دن کے لیے گئی تھی، گھر میں مصروفیات تھیں، خالہ آئی ہوئی تھیں۔ دی جان بھی کہتی ہیں جب حویلی آتی ہو تو یہاں سب کو توجہ دیا کرو۔۔“ وہ بےخیالی میں بول رہی تھی، وہ دونوں حیران ہوئیں۔
”تم اپنے پیرنٹس کے پاس نہیں رہتیں؟ یہاں سے جا کر بھی اپنے آغا جان کی حویلی میں رہتی ہو؟ اپنے اس کزن یافث خان کی حویلی میں؟“ رودابہ نے حیرت سے پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی۔ اب مزید اپنا جھوٹ ویسے بھی نہیں چلا سکتی تھی، یافث بتا چکا تھا اب وہ اسے اپنے پاس رکھے گا۔
”ہاں میں وہیں رہتی ہوں، خیر تم بتاؤ کیا گڈ نیوز ہے؟“ اس نے بات بدل دی، انہیں اب سچ تو بتانا تھا مگر ان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ فون پر آدھی ادھوری بات نہیں بتانا چاہتی تھی۔
”رودابہ کی میرے بھائی کے ساتھ انگیجمنٹ ہو گئی ہے۔“ خوشنما نے مسکراتے ہوئے اطلاع دی۔ اسے جھٹکا لگا۔
”واہ کب؟“ اس نے چھینکتے ہوئے سوال کیا۔
”بس میں گھر گئی تو تمہاری بات دماغ میں رہ گئی تھی۔ میں نے اپنی امی سے بات کی، امی نے بھائی سے پوچھا۔ انہیں اعتراض نہیں تھا بلکہ سچ کہوں تو مجھے صاف لگتا ہے بھائی کی دلی رضامندی شامل تھی۔“ خوشنما ہنس رہی تھی۔ رودابہ فی الحال شرمانے میں مصروف تھی۔
”بہت بہت مبارک ہو تم دونوں کو۔۔ پھر انگیجمنٹ ہو گئی؟“ وہ تفصیل سننے کے لیے پرجوش ہو رہی تھی۔ دوسری بار چھینک آنے کے بعد وہ مسلسل چھینکنے لگی۔ بارش انجوائے کرنے کا اثر ہو رہا تھا، وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
”ہاں ہو گئی، بس جب میں نے بات کی، ایک دو دن میں ہم رشتہ لے کر چلے گئے۔ میرے بھائی کی اب ویسے بھی جاب ہو گئی تھی، رشتہ تو کرنا ہی تھا۔ دابہ کے ماموں اور مدر کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ لوگ تو چاہتے ہیں اس کی شادی ہو جائے۔ تمہیں انگیجمنٹ کا بتانے کے لیے کالز کی تھیں۔“
خوشنما نے اسے پوری تفصیل بتائی۔ رودابہ بھی خوش تھی، اسے ندامت سی محسوس ہوئی تھی۔ وہ دونوں اپنی ایک ایک خوشی کی تفصیل اسے بتاتی تھیں جبکہ وہ اتنی بڑی بات چھپا کر گھوم رہی تھی۔
”مجھے انگیجمنٹ کی پکچرز بھیجو ابھی اور۔۔ اس بار جب تم دونوں آؤ گی تو میں نے بھی تمہیں کچھ بتانا ہے۔“ اس کی بات پر وہ دونوں ٹھٹک گئیں۔
”کیا بتانا ہے، جلدی بتاؤ۔۔ کہیں تمہاری شادی تو تیار نہیں ہو گئی؟ ہمیں ابھی چھوڑ کر جانے کا سوچنا بھی مت علیزے۔۔“ وہ دونوں پہلے سے اسے خبردار کرنے لگیں، وہ ٹشو اٹھاتی آہستگی سے ہنسی۔
”نہیں میں سٹڈیز نہیں چھوڑوں گی نا کہیں جا رہی ہوں۔ کال پر بتانے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ تم آ جاؤ تو۔۔“ وہ بات کرتے کرتے رک کر چھینک پڑی۔
”تمہیں فلو کیوں ہو رہا ہے۔ ٹھنڈ میں بیٹھی ہو کیا؟“ خوشنما نے فکرمندی سے سوال کیا۔
”یہاں بارش ہو رہی ہے بہت زیادہ۔۔ اس کی وجہ سے فلو ہو گیا ہے۔ اوکے پھر بات کریں گے، میں تم دونوں کا انتظار کروں گی۔“ اس نے بات ختم کی، چھینکوں نے اب اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسے تیسے مغرب کی نماز پڑھی۔
پھر رات کے کھانے کے لیے کچن میں پہنچی۔ ماسک پہن کر اس نے آٹا گوندھ کر رات کا کھانا بنایا، کھانا بنانے تک عشاء کی اذان ہو گئی تھی، وہ نماز پڑھ کر بستر پر لیٹ گئی۔ یافث خان کا میسج کھانا بنانے کے دوران آ گیا تھا کہ وہ میٹنگ میں ہے اور کچھ دیر میں گھر آئے گا۔
جب وہ آفس سے آیا تو اسے سویا ہوا دیکھ کر چونک گیا۔ کیا وہ پھر سے سارا دن سوتی رہی تھی؟ کرتی تو یہی تھی، بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند آ جاتی تھی، تھک کر نیند، کھا پی کر نیند اور جاگ کر پھر سے نیند آتی تھی۔ وہ چینج کر کے اسے جگانے کے لیے اس پر جھکا۔
”اوز۔۔ کھانے میں کیا کھاؤ گی؟ میں منگوا لیتا ہوں، کھانا کھا کر سو جانا۔۔“ اسے پکارتے ہوئے اس کے چہرے پر آتے بال سمیٹے تو ٹھٹک گیا۔ وہ تپ رہی تھی۔ یافث آہ بھر گیا۔ جیسے بارش میں خوش ہو رہی تھی، اسے یہی خوف تھا وہ بیمار نا ہو جائے۔
اس کا تکیے سے ڈھلکتا سر سنبھال کر ٹھیک سے سلاتے ہوئے اس پر بلینکٹ پھیلایا تو وہ کروٹ بدلتے ہوئے اس کی موجودگی محسوس کر کے آنکھیں کھول گئی۔
”آپ آ گئے، میں ویٹ کر رہی تھی کہ آپ کے ساتھ کھانا کھاؤں گی۔“ وہ نقاہت بھری آواز میں بولتی ایسا ظاہر کر رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔ اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا اس کی طبیعت کتنی خراب ہو چکی ہے حالانکہ اب جسم سردی کی شدت سے کپکپاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔
”میں کھانا منگوا لیتا ہوں۔ مجھے بتایا کیوں نہیں تمہاری طبیعت خراب ہے۔ میں زیادہ لیٹ ہو جاتا تو ایسے پڑتی ہوتیں۔“ وہ اسے بلینکٹ میں چھپاتا خفگی سے بول رہا تھا۔
”کھانا بنا ہوا ہے، صرف گرم کرنا ہے۔ میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا فلو ہو گیا تھا۔“ وہ بےچینی سے کروٹیں بدلتی رہی۔ سر بھاری ہو رہا تھا، اٹھنا مشکل ہو گیا۔
”تھوڑا فلو؟ تمہیں اتنا ٹمپریچر ہو رہا ہے۔ تم اس حالت میں کھانا بناتی رہیں۔۔ اب مجھے اپنی بےخبری پر گلٹ ہو رہا ہے۔ میں کھانا گرم کے لاتا ہوں۔ تم لیٹی رہو۔۔“ وہ اچھا خاصہ پریشان ہو گیا۔ اوزگل آنکھیں بند کر گئی۔یافث خان کھانا گرم کر کے لایا تو وہ ہاتھ دھونے کے لیے بستر سے نکلنے لگی۔
”بیٹھی رہو بستر میں، کھانا میں کھلا دیتا ہوں۔“ یافث نے اسے روک کر پھر سے بلینکٹ اس پر ڈالا۔ وہ کشنز کے سہارے بیٹھ گئی، اس کے ہاتھ سے کھانے کا سن کر جھینپ سی گئی تھی۔
”میں تمہیں کل شاپنگ پر لے جانا چاہتا تھا۔ کچھ دن بعد مائر کی شادی ہے۔ تمہیں سکون بالکل نہیں ہے۔ خود کو بیمار کر لیا ہے۔“ وہ احتیاط سے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر اس کے منہ میں ڈال رہا تھا۔
”آپ نہیں کھائیں گے؟“ اوزگل نے اس سے پوچھا۔
”کھاؤں گا، پہلے تمہیں تو کھلا دوں۔۔“ وہ نرمی سے بولا۔
”آپ بھی ساتھ کھائیں۔“ اوزگل نے اسے روک کر کہا۔ وہ نوالہ اپنے منہ میں ڈال گیا۔
”تمہاری کوکنگ اتنی اچھی کیسے ہے۔ پہلے بھی بناتی رہتی تھیں یا شہر آ کر سیکھنا پڑا۔۔“ وہ زائقہ دار کھانے پر مرعوبیت سے سر ہلاتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔
”بہت پہلے سے کرتی ہوں، کالج میں تھی جب مورے نے کوکنگ کا شوق ڈالا۔ زرگل اور میری کسی بات پر لڑائی ہوتی تھی تو مورے مجھے کچھ نا کچھ بنانے کا کہہ دیتی تھیں، اس سے میرا غصہ ختم ہو جاتا تھا۔
پھر دی جان کے پاس جاتی تھی تو امو جان خود مجھے کوکنگ سکھاتی تھیں۔ مجھے نہیں پتا تھا وہ دونوں مجھے کس کے لیے ٹرینڈ کر رہی تھیں۔“ وہ آخری جملے پر منہ بسورنے لگی۔ یافث بےاختیار قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”مجھے اب فیل ہو رہا ہے میں نے بہت اچھا پیریڈ ضائع کر دیا۔ جب تم ہماری حویلی آ کر میرے لیے کھانے بنانا سیکھ رہی تھیں، مجھے تب پتا ہونا چاہیے تھا تم میری فیانسی ہو۔۔ تم بہت ہنستی مسکراتی تھیں، پوری حویلی میں بھاگتی دوڑتی۔۔ تمہارے قہقہے مجھے اپنے کمرے میں سنائی دیتے تھے۔“ وہ بول رہا تھا، اوزگل حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کے ہوتے ہوئے تو میں ایسا کبھی نہیں کرتی تھی۔“ وہ زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
”میں کئی بار ویک اینڈ پر جاتا تھا، بس روم میں رہتا تھا۔ مجھے کزنز کا فری ہونا نہیں پسند تھا مگر میں اتنا کولڈ نہیں تھا کہ حویلی میں تم لوگوں کا ہونا ہی برداشت نا کرتا۔ اور مجھے تم سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔ تمہارا ہنسنا بولنا، ملازمین سے مذاق کرنا اور تمہاری شرارتیں مجھے بری نہیں لگتی تھیں۔“
وہ اس کے منہ میں نوالہ دیتے ہوئے مسکرایا۔ اوزگل ٹشو سے بار بار ناک صاف کرتی بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ کھانا کھا چکے تو یافث نے برتن ایک طرف ٹیبل پر رکھ دئیے۔ سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ٹمپریچر اور فلو کی ٹیبلٹس دیکھنے لگا۔
”میں آپ کو بری نہیں لگتی تھی؟“ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی اوزگل نے فلو کی وجہ سے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ یافث کو دیکھا۔
”تم مجھے اچھی لگتی تھیں۔ محبت کی بات تو نہیں کروں گا لیکن سوچتا ضرور تھا، تمہارا مجھ پر امپریشن رہ جاتا تھا۔ تمہارا زور زور سے ہنسنا مجھے یاد رہ جاتا تھا اور میں تمہاری اس معصوم بےضرر طبیعت سے متاثر تھا۔
تم ہماری حویلی میں اکثر آئی رہتی تھیں، بس کبھی تم سے بات نہیں کی تھی۔ آئی سوئر میں بہت آدم بیزار تھا۔“ وہ افسوس کر رہا تھا۔ اوزگل کی حیرت کے مارے آنکھیں پھیل گئیں، وہ اتنا بڑا انکشاف اتنے سرسری انداز میں کر رہا تھا۔
”سچ کہہ رہا ہوں بس یہ سچ تمہیں ٹھیک سے بتا نہیں پایا۔ تم نے مہلت بھی نہیں دی اور یقین بھی نہیں کرنا تھا۔ تمہیں دیکھتا رہتا تھا، اگر بات کرنے کا بھی سوچ لیتا تو اتنی غلط فہمیاں درمیان میں کبھی نا آتیں۔“ یافث نے اسے میڈیسن دیتے ہوئے اس کی حیرت محسوس کی تو ہنس پڑا۔
اوزگل تو بالکل سرخ پڑ گئی۔ یہ دل بھی کیا چکر چلاتے ہیں، محبت کا کوئی بھروسہ ہے۔ کب کہاں پہنچ جائے۔ جس وقت میں زرگل خان زادہ کو دیکھ کر خوش ہوتی تھی، اسی وقت وہ اوزگل سے متاثر رہتا تھا۔ وہ تو بتا رہا تھا دیکھتا بھی تھا اور اسے سنتا بھی رہتا تھا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔
”اب سو جاؤ، صبح تک تمہیں بہتر ہونا چاہیے۔ پلیز میں تمہیں فرینڈ کی شادی پر ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے تمہارا ساتھ جانا اچھا لگے گا۔ پلان چینج نہیں کرنا چاہتا۔“ یافث نے پانی کا گلاس ایک طرف رکھ کر اس کے جلتے ماتھے پر لب رکھے۔
وہ تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرتی بلینکٹ میں ناک تک چھپ گئی۔ یافث خان لائٹس آف کر کے دوسری طرف سے لیٹتا اس کی طرف جھکا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے دبانے لگا۔
”اوز کچھ چاہیے تو بتاؤ، سر میں درد تو نہیں ہو رہا؟“ وہ اس کی خراب طبعیت کی وجہ سے غیر مطمئن تھا۔ اس کے سوال پر وہ چپ چاپ اس کے حصار میں سمٹتی اس کے فراخ سینے میں چہرہ چھپا گئی۔
”سر میں ہلکا سا درد ہے۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“ وہ آہستگی سے بولی تو وہ نرمی سے اس کا سر دبانے لگا۔ اوزگل نیند میں جانے لگی۔ ثمر خان کے بعد یافث خان وہ پہلا مرد تھا جس کے حصار میں اتنی طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ سکون سے سو رہی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل نے شال کندھوں پر پھیلاتے ہوئے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔ موسم صاف ہو چکا تھا، سورج اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔ صبح وہ جاگی تو کافی بہتر تھی، فلو بھی اب نہیں تھا۔ پھر بھی فجر کے بعد کچھ دیر آرام کیا اور اب جاگ کر بھی بور ہو رہی تھی۔
آج سنڈے تھا، یافث خان نے آفس نہیں جانا تھا۔ ناجانے وہ کتنی دیر مزید سونے والا تھا۔ اس کی وجہ سے اوزگل نے ناشتہ بھی نہیں بنایا تاکہ تازہ کھانا بنا کر دے۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جب دس بجے تو اس نے یافث خان کو جگایا، وہ اسے دیکھ کر جلدی سے اٹھا۔
”اوز طبیعت ٹھیک ہے؟“ وہ اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے قریب کرتا اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کرنے لگا۔ اوزگل اس کے حصار میں سمٹتی سر ہلا گئی۔ یافث خان جب اسے قریب کرتا تھا بہت نرمی سے چھوتا تھا اور اب بھی اس کے لمس پر اوزگل کے لیے اپنا شور مچاتا دل سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔
”جی اب بہتر ہوں۔ فلو کی وجہ سے ٹمپریچر ہو رہا تھا۔ اب آرام ہے۔ دس بج رہے تھے میں نے سوچا آپ کو جگا دوں۔“ وہ آہستگی سے بولی۔ یافث نے مسکراتے ہوئے اس کے تمتماتے رخسار کو لبوں سے چھوا۔
”اچھا کیا اور تم پہلے سے بہتر ہو مگر ابھی ٹمپریچر ہے، آج کا دن ریسٹ کرنا۔۔ اور آئندہ طبیعت خراب ہو تو کچن میں جانے کی بالکل کوشش مت کرنا۔ میں تمہیں اپنی خدمتوں کے لیے نہیں لایا۔۔“ وہ اسے ہدایت دیتا کپڑے اٹھا کر واش روم میں بند ہو گیا۔
اوزگل اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی اٹھ کر کچن میں چلی گئی، اس کی طبعیت بہتر تھی اور وہ چاہے کچھ بھی کہہ لیتا۔ ایک بار اس کی زمہ داری نا اٹھانے کا گلٹ اوزگل کے اندر سے ختم نہیں ہوا تھا کہ پھر سے وہی سب دہراتی۔ بیگم خان نے اسے بھیجتے ہوئے کہا تھا۔
”خان زادہ کے لیے کھانا خود بنانا اوزی، چاہے اور کوئی کام مت کرنا۔۔ کوئی ملازمہ رکھ لو وہاں لیکن بس کھانے میں کوتاہی نہیں کرنا۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں بہت حساس ہے۔“ وہ تب تاکید نہیں کر رہی تھیں، ان کا لہجہ التجائیہ تھا۔
وہ اپنی حویلی میں بیٹھ کر کام کروانے والی عورت بھی یافث خان کے لیے کھانا خود بناتی تھیں۔ مخصوص ذائقوں اور گھر کے سادہ کھانوں کے علاوہ جتنا بھی اچھا کھانا ہو اسے سوٹ نہیں کرتا تھا۔ اوزگل اس کی بیوی تھی اور اس نے مان لیا یہ اسی کی زمہ داری تھی جس سے وہ کوتاہی برتنے کی غلطی کر چکی تھی۔
وہ باقی کاموں میں سستی دکھا سکتی تھی مگر اس نے ارادہ کر لیا تھا، اب یافث خان کو کھانے پینے میں مشکل کبھی نہیں ہونے دے گی۔ وہ تیزی سے ہاتھ چلاتی اس کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ سالن تو رات والا رکھا تھا، وہ گرم کیا اور روٹی بنانے لگی۔ ابھی روٹی توے پر ڈالی تھی کہ وہ فریش سا کچن میں چلا آیا۔
”اوز اتنی ضدی کیوں ہو، تمہیں منع کیا تھا کچن میں مت آنا۔۔ آج سنڈے ہے میں خود کچھ کر لیتا۔“ وہ خفگی سے بولتا اسے کمر سے پکڑ کر چولہے سے پیچھے ہٹا گیا۔ اوزگل نے گڑبڑا کر روٹی کی طرف دیکھا۔
”روٹی جل جائے گی۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر روٹی الٹنے کی کوشش کی مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر گیا۔
”ہٹ جاؤ یہاں سے، آگے مت آنا۔۔“ وہ اسے روک کر روٹی الٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ جلتی انگلیوں کو منہ سے پھونک مارتا اتنی مشکل کا شکار ہو رہا تھا کہ اوزگل ناک چڑھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”آپ مجھے تب ریسٹ کروائیے گا جب توے پر پڑی روٹی کو آرام سے الٹ سکیں گے۔“ وہ نخرے سے بولتی آگے ہو کر روٹی الٹ گئی۔ یافث نے اس کا نخریلا انداز دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔ وہ اب دوسرا پیڑہ اٹھا کر روٹی کی صورت بڑھا رہی تھی۔
”اس کی بجائے میں تمہاری خاطر باہر کا کھانا کھانے کی عادت ڈال سکتا ہوں۔“ وہ آہستگی سے اسے حصار میں لیتا اس کے سر پر لب رکھتا نرمی سے بولا۔ صبح صبح گلابی لباس پہنے وہ یافث خان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھی۔
”وہ مرد تو اچھے لگتے ہیں جو کھانا بنا سکتے ہیں۔“ وہ احتیاط سے روٹی توے پر ڈالتے ہوئے بول رہی تھی۔ توجہ سے اس کے شفاف گلابی چہرے کے گرد بکھری نرم زلفوں کو دیکھتے یافث خان نے اس کے الفاظ پر چونک کر اسے دیکھا۔ اسے لگا وہ اپنی خواہش بتا رہی ہے۔
”یہ کھانا بنانا، گھر سنبھالنا اور لیڈیز ورک۔۔ آئم سوری میں ایسا نہیں کر سکتا اوز۔۔“ وہ بےچارگی سے بولتا اس کا ملائم ہاتھ تھام کر ہاتھ کی پشت پر لب رکھ گیا۔ اوزگل نے جھینپ کر اسے دیکھا۔
”لیکن میں چائے بنا سکتا ہوں، وہ بنا دیا کروں گا۔“ وہ نرمی سے بولتے ہوئے کیتلی اٹھا کر دھونے لگا۔ اوزگل روٹی بھول کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسے کبھی کبھی حیران کر دیتا تھا۔ اتنا خیال رکھتا تھا۔ اتنی نرمی، اتنی محبت۔۔ وہ یقین نہیں کر پاتی تھی۔ کیا یہ سب خواب نہیں تھا؟
”کیا سوچ رہی ہو؟ کام کرواتے ہوئے اچھا لگ رہا ہوں؟“ وہ اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے شوخی سے مسکرایا۔ وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔ یافث ہنس کر چائے بنانے لگا۔ اوزگل کی توجہ بار بار اس کی طرف جاتی تھی، اس کے کلون کی خوشبو اس کے گرد پھیلی ہوئی تھی۔
وہ بار بار اسے دیکھنے لگتی تھی اور کئی بار ا سکی چوری پکڑی جاتی تھی۔ یافث رک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا تھا اور اس کے گڑبڑانے پر مسکراہٹ دبا جاتا تھا۔ وہ اپنی بےاختیاری پر شرمندہ ہونے لگی۔ سر جھٹک کر اپنی توجہ اس سے ہٹاتے ہوئے اس نے روٹی بنا کر آملیٹ تیار کیا۔
ناشتہ بنا کر وہ دونوں باہر ڈائننگ ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
”آپ سے ایک سوال پوچھوں؟“ اوزگل نے کب سے دماغ میں کلبلاتا سوال پوچھنے کی اجازت مانگی۔ یافث سر ہلاتے ہوئے پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھ رہا تھا۔
”ضرور پوچھو۔۔“ وہ ناشتہ انجوائے کرتے ہوئے بولا۔ نہایت ہلکا پھلکا بغیر کسی سپائس کے سالن اور گول باریک سی روٹی۔۔ اوزگل کی کوکنگ ابھی سے بیگم خان والی ہو گئی تھی۔ شاید بہت توجہ سے سیکھتی رہی تھی۔
”آپ۔۔ یعنی آپ کو اگر مجھ سے کوئی نفرت نہیں تھی، میں اچھی لگتی تھی اور شادی بھی آپ کی مرضی سے ہوئی تھی تو۔۔ آپ نے کیسے ایک سال مجھے میری مرضی کرنے دی؟ جیسا چاہتی تھی کرنے دیا، جو مانگتی تھی دے دیتے تھے۔
میں اتنی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی رہی، ناراض ہوتی رہی، آپ کو برا بھلا کہتی رہی لیکن آپ نے کبھی مجھے ٹوکا نہیں، سختی نہیں کی، زبردستی نہیں کی۔۔ کبھی میری کسی حرکت پر ڈانٹا تک نہیں۔۔ کیوں برداشت کیا اتنا۔۔“ اوزگل کے الجھے ہوئے سوال پر وہ توجہ سے اسے دیکھنے لگا۔
”پہلے تو مجھے لگتا تھا آپ کو میں پسند نہیں اس لیے میرا دور رہنا، رابطہ نا رکھنا آپ کو مطمئن رکھتا ہے۔ میرے فاصلہ رکھنے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا۔ مجھے یہی لگتا تھا لیکن۔۔“ وہ بول رہی تھی، یافث کے ہنسنے پر خفت سے بات ادھوری چھوڑ گئی۔
”دیکھو اوز جب ہماری شادی ہوئی تم سولہ سال کی تھیں، یہ بہت چھوٹی ایج ہے۔ میرے حساب سے تو ایک لڑکی کی شادی کے لیے یہ بہت چھوٹی ایج ہے۔ اتنی سی عمر میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر کے میں تم پر سختی کرتا، زبردستی کرتا، زمہ داریاں تم پر ڈال دیتا۔ میں یہ نہیں کر سکتا تھا۔
میں میچور ہوں، بڑا ہوں۔ تم سے بحث کرنا مجھے زیب نہیں دیتا۔ مجھے اچھا لگتا تھا تمہاری خواہش پوری کرنا، تمہارے ساتھ نرمی کرنا۔ مجھے تم سے محبت سے اوز اور اس کے لیے ضروری نہیں میں تمہارے سر پر سوار ہو جاتا۔ تمہاری خواہشات پوری کرنا میرا فرض تھا جو میں نے پورا کیا۔“
وہ نرمی سے بول رہا تھا۔ اوزگل یک ٹک اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ یہ سب اس نے کبھی نہیں سوچا تھا، اسے نہیں لگتا تھا وہ اس قدر نرمی اور اتنی پرواہ ڈیزرو کرتی ہے۔ اسے لگا شادی ہو گئی تو اب صرف زمہ داری ہو گی، فرض ہو گا اور محبت تو اس کے خیال میں تھی ہی نہیں۔۔
”ان فیکٹ میں حیران تھا تم اتنی سی ایج میں اتنی میچور ہو، میں تمہیں کچھ سپیس دینا چاہتا تھا۔ اگر مجھے بیوی سے نرمی چاہیے، اگر میں چاہتا ہوں وہ انسان جیسی لگے روبوٹ نہیں جو بس زمہ داریاں پوری کرتی جائے، رشتے کو فرض سمجھے اور اپنی خواہشات و احساسات دبا کر رکھے۔
اگر میں چاہتا ہوں میری بیوی ہنستی مسکراتی زندہ دل رہے، اسے ہمارے رشتے کی خوبصورتی مطمئن کرے، اسے میرا لمس سکون دے، وہ پورے دل سے، اپنی خوشی سے اپنا آپ میرے حوالے کرے تو پھر مجھے چاہیے کہ میں بھی نرمی کروں۔
تمہیں محبت دوں اور احساس دلاؤں کہ شادی کا مطلب صرف زمہ داری نہیں ہے۔ شادی کے بعد زندگی مزید خوبصورت ہو سکتی ہے، میں تمہیں محبت دے رہا تھا، نرمی برتی تاکہ تم زمہ داری اور فرض کے بوجھ میں اپنی خواہشات دبانے کھ بجائے کھل کر جیو۔
مجھے بااعتماد اور زندگی سے بھرپور ہمسفر چاہیے۔“ یافث نے بولتے ہوئے اوزگل کو دیکھا، وہ ساکت سی اسے دیکھ رہی تھی۔ یافث نے ہاتھ بڑھا کر اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے دبا کر اسے ہوش کی دنیا میں کھینچا۔ ان نیلی آنکھوں میں حیرت تھی، بےیقینی تھی۔
”میں نے یہی کیا ہے اوز۔۔ پورا سال تمہیں لگتا ہے میں نے تمہاری پرواہ نہیں کی، تمہارے دور رہنے سے مطمئن تھا تو غلط لگتا ہے۔ لیکن تمہارا ناراض ہونا، خفگی جتانا، تمہاری خواہشات مجھے بری نہیں لگتی تھیں۔
میں تمہیں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں میں نے کبھی دل میں بھی تمہیں برا نہیں سمجھا۔ میری نظر میں تمہاری ایج ہی ایسی ہے، اس میں لڑکی پریشان ہو جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرا جاتی ہے۔ میں تمہیں وقت سے پہلے بوڑھا نہیں بنانا چاہتا۔ تم جو ہو وہی رہو۔۔
جو تمہاری ایج ہے اسی کے حساب سے چلو۔۔ نخرہ کرو، لڑائی کرو، جو سوچتی ہو اور جو بھی چاہتی ہو، مجھ سے کہو اور مجھ سے مانگو۔۔“ یافث نے پہلی بار کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور اوزگل گنگ ہو گئی تھی۔
وہ کیا تھا، کمال شخص تھا۔ اس سے محبت تو کرتا تھا مگر پرواہ بھی ایسی کہ وہ خود پر رشک کرنے لگی۔ ناجانے کس نیکی کا صلہ مل گیا تھا۔ جتنا جانتی جا رہی تھی اتنی دیوانی ہو رہی تھی۔ یافث نے نرمی سے اس کے ہاتھ چھوڑ دئیے۔
”خود کو میری وجہ سے خول میں بند کرنے کی کوشش مت کرنا، اپنا اصل چھپا کر صرف میری بیوی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم بس اوزگل بن کر رہو۔۔“ وہ اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اپنی جگہ جم کر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔
”ناشتہ کرو، ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔“ وہ اسے ناشتہ کرنے کی ہدایت دیتا توجہ سے کھانا کھانے لگا، اوزگل بھی حیرت زدہ سی چائے کا کپ لبوں سے لگا گئی۔ باقی تمام وقت یافث نے کوئی بات نہیں کی۔ وہ کھانا کھا کر فارغ ہوا تو اوزگل نے برتن سمیٹ کر کچن میں رکھے۔
”اوز یہاں آؤ۔۔“ ابھی وہ برتن دھو کر کچن سمیٹنے کا سوچ رہی تھی جب یافث خان نے اسے پکارا۔ وہ سب چھوڑ کر باہر آئی۔ وہ سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صوفے کی بیک پر بازو پھیلا کر بیٹھا تھا۔
”میں کچھ دیر میں جاؤں گا شاپنگ کرنے، مجھے مشورہ دو اپنے فرینڈ کو شادی کا کیا گفٹ دوں، اگر اس کی وائف کے لیے بھی گفٹ لیں تو کیا ہونا چاہیے؟“ وہ اسے اپنے قریب بٹھاتا اس کا ہاتھ تھام کر سوال کر رہا تھا۔
”اس کی وائف کے لیے اچھا سا پرفیوم لے لیں۔“ وہ جوش سے بولی۔ اسے تو خوشبو بہت پسند تھی اور اسے یہی لگتا تھا لڑکی کے لیے شادی کا گفٹ پرفیوم ہی ہو سکتا تھا۔ یافث نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”کتنا اِن ڈیسنٹ لگے گا، میں اس غیر لڑکی کے لیے خوشبو گفٹ کروں۔۔ عقل نہیں ہے تم میں بالکل۔۔“ وہ اس کے سر سے سر ٹکراتا آہستگی سے بولا۔ وہ گڑبڑا گئی، اسے یہ خیال ہی نہیں آیا تھا۔ پرسوچ انداز میں لب کاٹنے لگی، یافث اسے دیکھ کر ہنسی دبا گیا۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!