Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Wo Humsafar Tha

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 29 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :84

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط انتيس

”کیسے ہو یافث خان۔۔“ اس نے کال اٹینڈ کر کے اس کی خیریت پوچھی تو زرگل کا رنگ اڑا۔
”زورک خان آج کے بعد تم لوگ اوز کو کال مت کرنا۔ اس سے کوئی واسطہ، کوئی رشتہ نہیں رہا تمہارا۔۔ جتنی بےمروتی اور بےشرمی تم لوگ اس دن اپنے غم کی آڑ میں دکھا چکے ہو، اتنی کافی ہے۔ اور میں نے بھی جتنا برداشت کرنا تھا کر لیا۔۔
اگلی بار تم دونوں میں سے کسی نے بھی اسے رلایا تو تم مجھے جانتے ہو، میں وہیں آ کر تم دونوں کی حقیقت تمہیں یاد دلاؤں گا۔۔“ یافث خان سرد لہجے میں بول رہا تھا۔ زورک ٹھٹک گیا۔ ساتھ بیٹھی زرگل بھی اس کے الفاظ سن کر پھیکی پڑ گئی تھی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے یافث خان، میں اس دن کے لیے شرمندہ ہوں اور آج تمہیں ناجانے اوزگل نے کیا بتایا مگر۔۔“ زورک خان نے سنجیدگی سے کہنا چاہا لیکن وہ اس کی بات کاٹ گیا۔
”اوزگل مجھے کچھ بتاتی ہی تو نہیں ہے، وہ مجھ سے کچھ کہتی نہیں ہے اس لیے تمہاری اتنی جرات ہوئی کہ پورے خاندان کے سامنے تم اسے زلیل کر رہے تھے۔ وہ ایک بار مجھ سے کہہ دیتی تو میں دیکھتا کس کی ہمت تھی اس پر انگلی اٹھاتے۔۔“ یافث کا سرد لہجہ زورک کو لب بھنچنے پر مجبور کر گیا۔
”تم اب بدلحاظی کر رہے ہو یافث خان، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اوزگل کی غلطی کی وجہ سے ہمارا۔۔“ زورک خان کی بات درمیان میں رہ گئی، زرگل اس کے لبوں پر ہاتھ رکھے التجائیہ نظروں سے اسے چپ رہنے کی درخواست کر رہی تھی۔
”میں ابھی تمہارا لحاظ ہی کر رہا ہوں ورنہ کال نا کرتا خود وہاں آتا اور تمہارے نقصان کا ایسا ازالہ کرتا کہ ساری عمر یاد رکھتے۔ کوشش کرنا یہ وقت نا آئے۔ زرگل سے بھی کہہ دینا، اپنے غم میں زرا کمی لائے ورنہ یہ کام مجھے کرنا پڑے گا۔“
وہ غصے سے کہتا مزید اس کی سنے بنا کال کاٹ گیا۔ زورک خان ہکا بکا سا موبائل ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا۔ زرگل ہراساں سی پہلو بدل رہی تھی، اگر آج زورک خان بار بار وہی بات دہراتا تو یقیناً یافث خان بھی چپ نا رہتا۔
زورک نے لب بھنچ کر موبائل ایک طرف پٹخ دیا۔
”خان زادہ کا مزاج تھوڑا گرم ہے، مجھے اندازہ تھا وہ اپنے مزاج کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا مگر وہ اتنی بدلحاظی دکھائے گا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تم نے سنا اس نے کیا کہا؟ بہت سنگدل انسان ہے۔“ زورک خان کا موڈ آف ہو گیا تھا۔ زرگل خاموش رہی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔ دماغ میں الٹی سیدھی سوچیں بھر گئی تھیں۔ یعنی کسی کو اس کی پرواہ نہیں رہی اور نا کوئی اوزگل سے محبت کرتا تھا۔ اسے والدین سے بھی نئے سرے سے شکوہ ہوا، جب زورک خان اور مامی اسے ڈانٹ رہے تھے اس کی سائیڈ کیوں نہیں لی گئی۔
اسے زرگل سے بھی گلہ ہوا جس نے اپنی غلطی اس کے سر تھوپ دی اور زورک خان پر بھی غصہ آیا جو اتنی سختی سے بات کرنے لگا تھا۔ سب سے زیادہ دکھ تو یافث خان کے کال کاٹنے کا تھا۔ وہ رو رہی تھی، اسے بتا رہی تھی کہ اس کے پاس جانا ہے۔ اسے تسلی دینی چاہیے تھی، اسے چپ کرواتا۔
احساس دلاتا کہ وہ اس کے ساتھ ہے مگر نہیں۔۔ شاید وہ ابھی اب اس کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ وہ بھی تھک گیا تھا۔ اوزگل کا ہر وقت رونا اور چھوٹی چھوٹی بات پر آنسو بہانا، گھبرا جانا یافث خان کو اس سے بےزار کر گیا تھا۔ اسے ثمر خان بھی تو یہی کہتے تھے ہر وقت رونے والی لڑکی سے سب کا دل بھر جاتا ہے۔
بیگم ثمر بھی یہی زچ ہوتی تھیں، اتنی اتنی سی بات پر روتی ہو۔ زرگل کو دیکھو کیسے کندھے اچکا دیتی ہے۔ دی جان کہتی تھیں کوئی تمہارے آنسو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرے گا۔ خود کو مضبوط بناؤ۔۔ ٹھیک ہی کہتے تھے سب۔۔ اس نے سوچ لیا اب اس کا رونا کوئی نہیں دیکھے گا۔ یافث خان بھی نہیں۔۔۔
کچھ دیر گزری تھی کہ یافث کی پھر سے کال آنے لگی، اوزگل کا چھوٹا سا دل اداسی سے بھر چکا تھا۔ اس نے کچھ دیر روتے ہوئے اس نمبر کو دیکھا اور پھر کال کاٹ کر نمبر بلاک کر دیا۔ ناراضگی کا شدید اظہار کیا تھا اور دوسری طرف یافث خان ایک بار پھر سے نمبر بلاک کروا کر آہ بھر گیا۔
پہلے تو غصے میں خیال ہی نہیں آیا اس نے اچانک کال کاٹ دی، زورک خان سے تو بات کر لی تھی لیکن اب یہاں وہ وضاحت کے لیے موجود نہیں تھی۔ ناجانے ان لوگوں نے اسے پھر سے کیا کہا ہو گا۔ جو جرم اس نے کیا ہی نہیں تھا اس پر باتیں سنتی وہ کس کیفیت سے گزر رہی ہو گی یافث کو اندازہ تھا اس لیے فکرمند ہونے لگا۔
رات کا وقت تھا، اوزگل کو بھی اس کا نمبر بلاک کر کے بےچینی ہونے لگی، ناجانے کیا بات کرنے والا تھا۔ خود کال کاٹی تھی پھر ناجانے کیوں کال کی۔ وہ جو بھی کہنے والا تھا وہ سننا بھی نہیں چاہتی تھی اور اس کی کمی بھی شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ کروٹیں بدلتی رہی، روتی رہی اور بےچین ہوتی رہی۔
اسی میں آدھی رات گزر گئی، اوزگل کو بھی نیند آ گئی تھی۔ جب صبح آنکھ کھلی تو وہ کسی کے حصار میں قید تھی۔ اس نے غائب دماغی سے آنکھیں جھپکائیں، پھر نظر اٹھائی تو یافث خان کا چہرہ دیکھ کر اداس ہوئی۔ یعنی اب جاگتی آنکھوں سے اس ظالم کے خواب دیکھ رہی تھی۔
وہ سچ تو بالکل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے دو بڑے ثبوت یہ تھے کہ وہ رات اکیلی تھی، صبح جاگی تو وہ اس کے پاس سو رہا تھا اور دوسری بڑی وجہ وہ اپنی مخصوص آفس ڈریسنگ میں موجود تھا۔ ایش گرے پینٹ پر وائٹ ڈریس شرٹ جس کے دو بٹن کھلے ہوئے تھے۔ سنہری بال بےترتیب ہو رہے تھے۔
اوزگل اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی آنکھیں بند کر گئی۔ اگر وہ خواب تھا تب بھی خود کو اس کے حصار میں مقید محسوس کر کے اسے اچھا لگ رہا تھا۔ یافث خان نے نیند میں اسے مزید خود میں بھنچا تو وہ ٹھٹک گئی۔ بوکھلا کر پھر سے اس کا چہرہ دیکھا، وہ گہری نیند میں تھا۔
”آپ کب آئے؟“ اوزگل نے ایک دم اسے جھنجھوڑ کر جگاتے ہوئے حیرت سے سوال کیا۔ یافث نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، اوزگل اس کے بالکل قریب گھٹنوں کے بل بیٹھی حیران پریشان سی اس پر جھکی ہوئی تھی۔ نیلی آنکھوں میں بےیقینی نمایاں ہو رہی تھی، یافث بےاختیار مسکرایا۔
”میں فجر سے کچھ پہلے پہنچا تھا۔ ٹائم کیا ہو رہا ہے؟“ یافث نے بولتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر موبائل کے لیے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ اوزگل ہونق سی اسے دیکھنے لگی۔
”لیکن۔۔۔ ایسے اچانک کیوں آئے؟ کل تک تو آپ کا ایسا کوئی پلان نہیں تھا؟“ وہ اتنی حیران تھی کہ رات اس پر ظاہر کرنے والی ناراضگی تک بھول گئی۔ اس کے سوال پر موبائل پر ٹائم دیکھتے یافث نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جو ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔
”تمہاری کال کاٹنے کا جرم کر بیٹھا تھا، اس کے بعد پلان بنایا اور تمہارے پاس پہنچا ہوں۔ پلیز تم اب میرا نمبر بلاک کرنے کا شوق ختم کر دو۔۔ مجھے آدھی رات کو سفر کرنا پڑا۔۔“ وہ ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اس کا رخسار سہلاتے ہوئے بولا۔ اوزگل کی آنکھیں پوری سے زیادہ پھیل گئیں۔
”آپ نے میری کال کاٹی تھی، جب میں رو رہی تھی۔ مجھے آپ کی ضرورت تھی تب آپ نے میری کال کاٹی تھی۔“ وہ ہکلا کر نمبر بلاک کرنے کی وضاحت دینے لگی۔ اسے اندازہ نہیں تھا یافث اس کی حرکت پر ایک ہی رات میں اس کے پاس پہنچ جائے گا۔
”تمہیں میری ضرورت تھی اس لیے آ گیا ہوں، تمہیں لینے آیا ہوں۔ ابھی بتانا چاہو تو ابھی بتاؤ کیوں رو رہی تھیں؟ ورنہ وہیں چل کر تفصیل سے پوچھ لوں گا۔“ وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے لگا۔ شاید پہنچتے ہی تھکن زدہ سا سو گیا تھا۔
”مجھے بلوا لیا ہے، مجھے ٹھیک سے ملو تو سہی۔۔“ وہ اس کی حیرت پر اس کی طرف رخ کرتا بانہیں پھیلا کر نرمی سے مسکرایا۔ اوزگل گڑبڑا گئی، آگے ہو کر اس کے گلے لگی اور اس سے پہلے کہ وہ اس کے گرد بانہوں کا حصار باندھتا وہ دور بھی ہو گئی۔ وہ حیران ہوا۔
”میں آپ کے لیے کپڑے نکال دیتی ہوں، آپ اتنی اچانک کیوں آ گئے۔ سب کو کیا بتائیں گے، آدھی رات کو کیوں آئے۔۔ آغا جان ناراض ہوں گے۔ آپ کو تھکن نہیں ہوئی؟“ وہ بوکھلائی ہوئی سی بستر سے اترتے ہوئے بول رہی تھی۔ یافث سر جھکا کر مسکرایا۔
”میں آفس سے لیٹ آیا تھا، پھر سفر کرنا پڑا، نیند بھی پوری نہیں ہوئی تو افکورس تھکاوٹ ہو رہی ہے۔ سب کو صاف بتاؤں گا میری اوز کو میری ضرورت تھی اس لیے آیا ہوں۔“ وہ بھاری آواز میں بول رہا تھا۔ ڈریسنگ روم میں جاتی اوزگل گھبرا کر پلٹی۔
”آپ ایسا نہیں کہہ سکتے۔۔ آپ کو شرم نہیں آئے گی؟“ وہ پریشان ہو گئی۔ خفت سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ بدحواس سی ہو گئی تھی۔ اس نے تو تصور بھی نہیں کیا تھا وہ اس کے بلاوے پر یوں فوراً چلا آئے گا۔
”نہیں۔۔ شرمانے کی ساری کسر تم پوری کر لیتی ہو۔۔ اور میں جھوٹ کیوں بولوں؟ میرا ڈریس نکال دینا لیکن میں ابھی کچھ دیر مزید سونا چاہتا ہوں پھر ہمیں واپس بھی جانا ہے۔ اپنی پیکنگ کر لینا۔۔“ وہ ایک ساتھ سب جواب دیتا پھر سے کروٹ کے بل لیٹتا تکیہ سر پر رکھ گیا۔
اوزگل اپنی جگہ حیران پریشان سی کھڑی رہ گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”یافث آیا ہوا ہے؟ کب آیا۔۔ سب خیر تو ہے، اتنی اچانک۔۔ اتنی صبح صبح۔۔“ ناشتے کی ٹیبل پر جس نے بھی اس کے آنے کا سنا حیران رہ گئے۔ اوزگل خجل زدہ سی نظریں چراتے ہوئے چائے پینے لگی۔ سب کی حیرت پر مزید ندامت محسوس ہوئی۔
زرگل اور زورک خان کی وجہ سے اتنی ایموشنل ہو گئی تھی کہ پہلے کال کر کے اس کے پاس جانے کا کہا اور پھر غصے میں اسے بلاک بھی کر دیا۔ پہلے تو دل میں وہ شکوہ رقم تھا کہ اس نے روتی ہوئی اوزگل کی کال کاٹی، اب وہ خود چلا آیا تھا یہ شکوہ تو ختم ہو گیا۔ اب بس ندامت تھی۔
”اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ ابھی تک کیوں سو رہا ہے، کب پہنچا؟“ دی جان اس سے سوال کر رہی تھیں، اس نے چونک کر انہیں دیکھا پھر گڑبڑا گئی۔
”جی جی وہ ٹھیک ہے، صبح صبح پہنچے تھے اس لیے سو رہے ہیں۔“ اوزگل کو سمجھ نہیں آیا کیسے وضاحت دے۔ ایسے ایمرجنسی میں راتوں رات سفر کر کے کیوں پہنچا تھا۔ سب کو فکر ہو رہی تھی، وہ سر جھکائے ناشتہ کرتی رہی۔
دن کے بارہ بجے وہ جاگ کر فریش سا کمرے سے نکلا۔ اوزگل سنگل صوفے پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی تھی، خان بیگم اور دی جان بھی وہیں موجود تھیں، وہ ان سے مل کر دی جان کے پاس بیٹھ گیا۔ خان امروز بھی اس سے ملنے چلے آئے۔
”کوئی پریشانی کی بات تو نہیں؟ ایسی کیا جلد بازی تھی۔ آدھی رات کو سفر کیا۔“ خان امروز کے سوال پر اس نے مسکراتی آنکھوں سے اوزگل کو دیکھا جو ہڑبڑا کر سیدھی ہوتی نظریں چرا رہی تھی۔
”سب خیریت ہے۔ اوز کو لینے آیا ہوں۔ میری آفس میں مصروفیات بڑھ رہی ہیں، لڑکے کو فارغ کر دیا ہے۔ مشکل ہو رہی تھی۔ کھانے میں کیا ہے امو جان؟ بھوک لگ رہی ہے۔“ وہ تفصیل سے جواب دیتا بیگم خان سے پوچھنے لگا۔
”کھانا بنا رکھا ہے میں نے، گرم کر کے لگواتی ہوں۔ اور مشکل ہو رہی تھی تو بھائیوں کے پاس چلے جاتے۔“ وہ ملازمہ کو کھانا گرم کرنے کی ہدایت دیتی اسے دیکھ رہی تھیں۔ اوزگل انجان بن کر بیٹھی رہی۔
”وہ آفس سے بہت دور ہو جاتے ہیں، مجھے مشکل ہوتی ہے۔“ وہ گہرا سانس بھر کر بولا۔ سنہری آنکھوں میں سرخی تھی، شاید تھکن ابھی اتری نہیں تھی۔ وہ چور نظروں سے اسی کو دیکھتی رہی۔ دی جان کی بات سنتے ہوئے یافث نے اس کی طرف دیکھا تو اسے خود کو دیکھتا پا کر مسکرایا۔
اوزگل نے خفت سے نظریں چرائیں۔ یافث کی مسکراہٹ گہری ہوئی، اوزگل کا اس کے دیکھنے پر ہر بار شرمانا، گھبرانا اسے انوکھے سے احساس میں مبتلا کرتا تھا۔ ہاں مگر اس کے چھوٹی چھوٹی بات پر رونے سے پریشان تھا۔ ایک وہ گھبراتی بہت تھی، اس پر اس کے مسائل بھی بہت تھے۔
”اوز اپنی پیکنگ کر لو، میں زیادہ وقت نہیں رکوں گا۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر ہی بیٹھوں گا، تم تیار رہنا۔“ کھانا ٹیبل پر لگا تو اس نے اٹھتے ہوئے اوزگل کو ہدایت دی۔ وہ سر ہلا کر کمرے میں چلی گئی۔ یافث خان کھانا کھانے کے دوران ہی سب سے بات چیت کرتا رہا۔ اس کے بعد چائے پی اور اٹھ کھڑا ہوا۔
اوزگل بھی تیاری کر چکی تھی، روانہ ہوتے ہوئے بیگم خان سے ملی تو وہ پرجوش سی اسے سینے سے لگا کر نصیحت کرنے لگیں کہ شوہر کا ہر ممکن خیال رکھے جس میں سر فہرست اس کے کھانے پینے کی زمہ داری تھی۔
”دیکھا کیسے تمہیں اس کی ضرورت پڑی تو ایسے اچانک لینے چلے آئے اور میری اوزی نے زرا چوں چرا نہیں کی۔ تمہارے ایک بار کہنے پر ہی سامان باندھے تمہارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی، ایسی معصوم فرمانبردار بیوی آج کے دور میں کم ملتی ہیں۔“
دی جان نے اوزگل کو سینے سے لگاتے ہوئے یافث خان کو جتایا۔ یقیناً ان کا اشارہ ان اعتراضات پر تھا جو غلط فہمی کی وجہ سے یافث خان کو اوزگل سے ہوئے تھے۔ بیگم خان بھی نہال ہوتی نظروں سے اوزگل کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ یافث خان کے ہنسنے پر خفت زدہ ہوئی۔
”جی ہاں۔۔ میں آپ کی اوزی کی اسی فرمانبرداری کا مرید ہو گیا ہوں۔ اس احسان کو بھول نہیں پاؤں گا۔“ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولتا شوخی سے نچلا لب دانتوں تلے دبا گیا۔ اوزگل خجالت کے مارے بجلی کی رفتار سے گاڑی میں سوار ہوئی۔
”اچھا چلتا ہوں، آپ کی اوزی شہر جانے کے لیے بے قرار لگ رہی ہے۔“ وہ اس کی حرکت پر قہقہہ لگا کر ہنسا اور سب کو اللہ حافظ کہتا گاڑی میں سوار ہوا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش اور مطمئن دیکھ کر وہ سب بھی سکون میں آ گئے تھے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
زرگل سست سی اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی، موسم ابر آلود دیکھ کر اس کی سستی ہوا ہوئی۔ صبح سے وہ صرف نیند کر رہی تھی مگر یہ موسم اس کا پسندیدہ موسم تھا۔ اس کی سنہری آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ فریش ہو کر کمرے سے باہر آئی۔
ملازمہ کو پکوڑے اور چائے بنانے کا کہتے ہوئے ڈرائنگ روم میں بیٹھی ممانی کے پاس رکی۔ وہ اسے اتنے دن بعد کمرے سے باہر دیکھ کر خوش ہوئیں، نہائی دھوئی فریش سی زرگل انہیں اطمینان دلا گئی کہ وہ اب ٹھیک ہے ورنہ انہیں خوف تھا اب زرگل کچھ عرصہ تو غم میں ہی نکال دے گی۔
”ما شاءاللہ آج تو میری بہو ٹھیک لگ رہی ہے۔ شکر ہے تم کمرے سے تو نکلیں۔۔ اچھی لگ رہی ہو، تم پر یہ سرخ رنگ جچتا بہت ہے اس لیے زورک خان نے بری میں بھی زیادہ تر اسی رنگ کے کپڑے رکھوائے تھے۔“ وہ مسکراتے ہوئے زرگل کی تعریف کر رہی تھیں جو سرخ فراک میں گلاب لگ رہی تھی۔ ان کی تعریف پر جھینپ گئی۔
”میں زرا پائیں باغ (حویلی کا پچھلا حصہ) میں جا رہی تھی۔“ زرگل نے انہیں اطلاع دی تو وہ سر ہلا گئیں۔ وہ آگے بڑھ گئی۔ سر سبز وسیع لان میں ایک شیڈ کے نیچے زورک خان نے شادی کے بعد خصوصی طور پر اس کے لکڑی کا جھولا لگوایا تھا۔ وہ درمیانے سائز کا صوفہ تھا، زرگل کو وہاں بیٹھ کر وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔
اس پر بیٹھ کر کر گزرے وقت کو سوچنا اور جو نہیں ملا اس پر اکیلے میں ملال کرنا تکلیف دہ تھا مگر سکون دیتا تھا۔ وہ اس ووڈن سوینگ پر بیٹھتے ہوئے چہرہ اوپر کرتی جل تھل آسمان کو دیکھنے لگی۔ اس نے ہمیشہ اوزگل کو احساس دلایا تھا کہ وہ اس سے بہتر حال میں ہے، زورک خان اس سے محبت کرتا ہے۔ سب سچ ہی تھا مگر وہ جو خالی پن تھا۔۔۔
وہ جو اوزگل کو ہمسفر ملا تھا، جسے زرگل نے چاہا تھا۔ اس کا غم دل کے کسی کونے میں آج بھی قائم مقام تھا۔ وہ اوزگل سے بہتر تو ہرگز نہیں ہو سکتی تھی۔ اسے یافث خان مل جاتا تو الگ بات ہوتی مگر وہ جو نہیں ملا تو سب فضول لگتا تھا۔ دل کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھی مگر جب اکیلی ہوتی تھی وہی یاد آتا تھا۔
وہ اس امانت میں خیانت کا کیا حل نکالتی، کسی اور کے نکاح میں تھی، محبت کسی اور کی تھی اور یاد کسی اور کو کرتی تھی۔ نامحرم سے محبت۔۔ یک طرفہ محبت۔۔ رد ہوئی، ٹھکرائی ہوئی زرگل۔۔ اس کے پاس ہزاروں غم تھے اور پھر بھی شور مچاتی تھی کہ وہ اوزگل سے بہتر حال میں ہے۔ خود بےسکونی خرید رہی تھی اور شکوہ قسمت سے کرتی تھی۔
”زرگل۔۔“ زورک کی پکار پر اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور جلدی سے چہرے کے تاثرات ٹھیک کیے۔ وہ خوش دلی سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ ویسے تو موسم سرد تھا، اس بارش میں کبھی اسے باہر نکلنے کی اجازت نہ دیتا۔
مگر جیسے وہ کمرے میں بند رہنے لگی تھی، زورک کو یہی بہتر لگا وہ باہر نکلے۔ طبیعت پر شاید اچھا اثر ہو۔۔۔ وہ ٹانگیں سمیٹے کشنز سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی، زورک خان نے توجہ سے اسے دیکھا تھا۔
”بہت اچھا کیا کمرے سے نکل آئیں، یہ تمہارا پسندیدہ موسم ہے۔ یہی سوچ کر آیا تھا کہ تمہیں باہر نکلنے کا کہوں۔۔ طبیعت کیسی ہے؟“ زورک اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اس کے کندھے پر شال پھیلا گیا۔ سرخ لباس میں زرگل پرکشش لگ رہی تھی۔
اس کے ساتھ جو حادثہ ہوا اس کے بعد اس کی صحت میں بہت فرق آیا تھا۔ پہلے سے بہت کمزور ہو گئی تھی، ستا ہوا چہرہ مگر دمکتی رنگت اور سوگوار تاثرات میں وہ اب بھی حسین لگتی تھی۔ وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے آہستگی سے مسکرائی تو زورک نے بےاختیار اسے خود سے لگا لیا۔
”تو موسم انجوائے ہو رہا ہے؟ سردی تو نہیں لگ رہی؟“ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ زرگل نے نفی میں سر ہلایا۔
”بارش میرا موڈ اچھا کر دیتی ہے۔ ٹھنڈ تو ہے مگر اتنی نہیں، میں نے خود کو کور کیا ہوا ہے۔ اوہ ملازمہ کو آپ کی چائے بنانے کا نہیں کہا۔۔“ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”میں کہہ آیا ہوں۔“ زورک نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھے۔ زرگل نے اطمینان سے سر ہلایا۔ زورک خان کا سہارا ہی تھا کہ وہ اپنی الجھی بکھری حسرتوں کی دنیا سے نکل آتی تھی۔
ملازمہ گرما گرم پکوڑے اور چائے لے آئی۔ وہ دونوں چائے پیتے پکوڑے کھا رہے تھے، بارش میں کمی آ چکی تھی۔ ٹھنڈک بڑھ رہی تھی، وہ اسے اندر لے جانا چاہتا تھا مگر زرگل کا دمکتا چہرہ زورک خان کو روک رہا تھا۔
”ایک بات پوچھوں؟“ زرگل نے زورک خان کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ سر ہلا گیا۔
”آپ کو کب پتا چلا کہ ہمارا رشتہ ہو چکا ہے؟“ زرگل کے سوال پر وہ مسکرا کر گہرا سانس بھر گیا۔
”بہت پہلے۔۔ جرمنی جانے سے بھی پہلے۔۔ جب تم دونوں میرے پاس بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اوزگل جب کتاب پکڑتی تھی، بالکل سنجیدہ ہو جاتی تھی، توجہ سے صرف پڑھائی کرتی تھی اور تمہارے دماغ ناجانے کیا کیا چلتا رہتا تھا۔
تم شرارتوں پر مائل رہتی تھیں، کبھی اوزگل کو تنگ کرنا اور کبھی مجھے۔۔۔ کبھی میرے کمرے کی چیزیں بکھیر دینا، میں تمہیں تب ڈانٹ کر بٹھاتا تھا۔ تب ایک دن مورے نے مجھے بلا کر کہا تھا کہ اوزگل پر نرمی کرتے ہو، زرگل کو ڈانٹتے رہتے ہو۔ تمہیں پتا ہے زرگل تمہاری منگیتر ہے۔۔
مورے کو لگا میں اوزگل میں دلچسپی لیتا ہوں اور تم سے چڑتا ہوں، انہیں ڈر تھا جوان ہونے پر مسائل ہوں گے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا میں صرف دکھاوے کا غصہ کرتا تھا۔ مجھے تم بری نہیں لگتی تھیں، بس تم الگ بچی تھیں جسے زرا سختی سے سنبھالنا پڑتا تھا۔“ زورک خان اسے تفصیل بتاتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
”اور تب جب مجھے یہ پتا چلا کہ تمہیں میری زندگی میں شامل ہونا ہے، فطری طور پر میں تمہیں زیادہ توجہ دینے لگا۔ تمہیں بہتر انسان بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ تمہیں اور سب کو لگتا تھا میں تم پر سختی کرتا ہوں، اوزگل کو کچھ نہیں کہتا۔
میں اوزگل کو کچھ کہتا بھی کیوں، وہ کتابوں کی شوقین اور کافی تمیز دار تھی۔ مجھے تو تمہیں توجہ دینی تھی، میرا تم سے لینا دینا تھا۔ تمہیں پسندیدہ لڑکی بنانا چاہتا تھا۔ میری سختی کو آج تک تم نہیں سمجھتیں اور میں آج تک اسی کوشش میں مبتلا ہوں۔“ زورک خان نے آہ بھر کر کہا۔
”یعنی میں اچھی لڑکی نہیں ہوں؟“ زرگل ناراض ہوئی۔
”اچھی لڑکی کیسی ہوتی ہے زر؟ جس کی وجہ سے اس کے عزیز رشتوں کو کوئی تکلیف نا پہنچے، اچھی لڑکی سے کسی کو شکایت نہیں ہوتی، کسی کو ڈر نہیں ہوتا کہ وہ کچھ غلط کر بیٹھے گی۔
اچھی لڑکیوں کو ایک بار اچھا برا سکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کی نگرانی نہیں کرنی پڑتی۔ ان کے مزاج میں نرمی اور ادب مخصوص ہوتا ہے۔ تو تم بتاؤ اپنے بارے میں کیا سوچتی ہو؟“ زورک خان نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے سوال کیا۔ زرگل چپ سی ہو گئی۔
”اوزگل اچھی لڑکی ہے شاید اس لیے۔۔“ وہ بےاختیاری میں یہ کہتے کہتے رک گئی کہ اس لیے خان زادہ کو اس سے محبت ہے، شاید محبت ایسی لڑکیوں کو ہی ملتی ہے۔ محبت نا ہو تب بھی ہو جاتی ہے۔ لڑکی کے مزاج میں نرمی، وفا اور فرمانبرداری ایسی خوبی ہے جو سب کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
”تم اپنی بات کرو۔۔ میرا اوزگل سے واسطہ نہیں ہے۔ مجھے تم بتاؤ اچھی لڑکی بننا چاہتی ہو؟“ زورک خان نے غائب دماغی سے آسمان کو دیکھتی زرگل کو اپنے قریب کرتے ہوئے سوال کیا۔
”کیا میں بن سکتی ہوں؟“ وہ اسے دیکھنے لگی۔
”میں مدد کروں گا، میں اب تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا، تمہاری تربیت کرنا چاہتا ہوں نرمی سے سکھاؤں گا، اچھا برا سمجھاؤں گا اگر تم میرا ساتھ دو۔۔ انسان ہر وقت چڑچڑا رہے، ہر وقت لڑنا، الجھنا، برائی کرنا، لہجے میں تلخی اور دل میں ہر ایک کے لیے کدورت۔۔ زندگی میں سکون نہیں رہتا۔“
زورک خان اسے سمجھا رہا تھا۔ زرگل اتنے عرصے میں پہلی بار اسے سننے پر آمادہ ہوئی تھی۔ پہلی بار اس کی بات سن رہی تھی اور دل میں بےزاری نہیں تھی۔ وہ خود بھی سکون چاہتی تھی۔ اکڑ، تلخی، نخرہ۔۔ یہ مزاج اور یہ بےزاری سکون تو نہیں دیتا۔ پھر ایسی زندگی کا کیا کرتی جس میں چیخ چیخ کر بتانا پڑتا کہ وہ خوش ہے۔
”تم بھی جانتی ہو تم سے کیا غلطیاں ہوئیں، تم نے کس کس کے ساتھ برا کیا۔ اب بس کر جاؤ، تمہاری عمر ان الجھنوں میں الجھنے کی نہیں ہے۔“ زورک نے نرمی سے کہا اور اس کے رخساروں پر محبت بھرا لمس چھوڑتا اسے سینے سے لگا گیا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ دونوں راستے میں تھے جب آسمان پر پھیلے سیاہ بادل برسنے لگے، ہلکی پھلکی رم جھم نے اوزگل کو متوجہ کیا۔ وہ شیشے سے ناک چپکائے چمکتی آنکھوں سے بارش کو دیکھنے لگی۔ شہر کی حد میں آتے ہی بارش زور پکڑ چکی تھی، وہ مچلنے لگی۔
”شیشہ نیچے کر دیں پلیز۔۔“ اوزگل رہ نہیں سکی تو گردن موڑ کر ڈرائیونگ کرتے یافث کو مخاطب کیا۔ اس نے سوالیہ انداز میں ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
”بارش ہو رہی ہے۔“ اس نے اتنے جوش سے اطلاع دی کہ یافث کو بےاختیار ہنسی آ گئی۔
”یہ سردی کی بارش ہے اوز۔۔ دور سے ہی انجوائے کرو۔“ وہ نرمی سے بولا۔ وہ خاموشی سے سیدھی ہوتی باہر دیکھنے لگی۔ پھر دونوں ہاتھ شیشے سے ٹکا کر ماتھا شیشے پر لگائے ایسے حسرت سے باہر دیکھنے لگی کہ یافث کو بےاختیار اس پر پیار آیا۔
”سر پیچھے کرو۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھتے ہوئے نرمی سے کہا تو اوزگل ہاتھ ہٹا کر پیچھے ہوئی۔ انداز میں اداسی بھر آئی تھی۔ وہ شیشہ نیچے کر گیا۔
”شکریہ۔۔“ اوزگل نے چہک کر شکریہ ادا کیا۔
”خیال کرنا بھیگ جاؤ گی۔ شیشہ اس لیے زیادہ نیچے نہیں کر رہا۔“ وہ اسے ہدایت دے رہا تھا۔ وہ پیچھے ہوئی، بازو سے حجاب ہٹایا اور گلابی نازک سا ہاتھ شیشے سے باہر نکال کر بارش کو چھونے لگی۔
”اتنی ٹھنڈی بارش ہے، کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ہاتھ لگا کر دیکھیں۔۔ اوہ میرے خدا۔۔“ وہ ایک کے بعد دوسرا ہاتھ بھی باہر نکال چکی تھی۔ اس کی بچوں جیسی خوشی دیکھ کر یافث کو حیرت ہوئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا اوزگل کو بارش اتنی پسند ہے۔
”اوز سنبھل کر بیٹھو، ٹھنڈ لگ جائے گی۔“ یافث اس کے سرخ پڑتے ہاتھوں کو دیکھتا فکرمندی سے بولا۔ وہ اسے سن ہی نہیں رہی تھی۔ وہ شیشہ نیچے کر کے پچھتا رہا تھا۔ گاڑی میں ٹھنڈ بھر چکی تھی، اوزگل کو پرواہ ہی نہیں تھی۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!