Genre:
haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط اٹھائيس
”زرگل میں تمہیں حویلی واپس لے جانا چاہتا ہوں، میں یہاں زیادہ دن نہیں رک سکتا اور تمہیں اس حال میں یہاں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا، تمہارا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔“ زورک خان نے زرگل کو نرمی سے کہا تو وہ اسے دیکھنے لگی۔
اگر وہ جان لے اس نقصان کے پیچھے زرگل ہے تو وہ یقین سے کہہ سکتی تھی زورک خان اسے یہاں چھوڑ کر ہی چلا جاتا۔ اس نے اوزگل پر بات ڈال کر خود کو اس کی سختی سے بچا لیا تھا مگر پہلی بار اسے اپنی حرکت پر ندامت ہو رہی تھی۔ اوزگل سب کی باتیں سن کر بری طرح روئی تھی۔
”اوزی چلی گئی؟ مجھے مل کر بھی نہیں گئی۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرتی تھی۔“ وہ غائب دماغی سے بولی۔ زورک خان چونک گیا پھر لب بھنچے۔
”یافث خان لے گیا ہے اسے، وہ سر پھرا سا بندہ ہے۔ ہماری باتوں پر اس کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ اس نے اوزگل سے پوچھا ہی نہیں۔۔ اور جو غلطی وہ کر چکی ہے ویسے بھی تمہارا سامنا کرنے سے شرمندہ ہو رہی ہو گی۔“ زورک سنجیدگی سے بولا۔
”آپ تو ہر وقت اوزگل کی طرف داری کرتے تھے، مجھے اس کی مثالیں دیتے تھے کہ وہ معصوم ہے۔ اب کیوں اتنے اجنبی بن گئے۔ اوزگل کو اندازہ نہیں ہوا ہو گا کہ وہ پین کلر مجھے نقصان دے گی۔“ زرگل نے ندامت سے نظریں چراتے ہوئے زورک خان سے کہا۔
”مجھے اب بھی اوزگل کی معصومیت پر کوئی شک نہیں، میں جانتا ہوں وہ بےضرر ہے۔ وہی پرانی اوزی ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اور میں اجنبی نہیں ہوا۔ میں ہرٹ ہوا ہوں۔ اوزگل کو بنا سوچے سمجھے اتنی بڑی بےوقوفی نہیں کرنی چاہیے تھی۔
تمہیں اندازہ نہیں ہمارا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے؟ میں اپنے بچے کو ویلکم کرنے کے لیے بےتاب تھا زرگل۔۔ مجھے جب ڈاکٹر نے کہا اب وہ بچہ نہیں رہا، مجھے لگا میرا دل جیسے کسی نے مسل دیا ہو۔ مجھے گہرا شاک لگا ہے، مرد ہوں ناں تمہاری طرح رو نہیں سکا مگر مجھے تکلیف ہوئی ہے۔
میرا نقصان ہوا ہے زرگل اور میں اس پر غصہ بھی نا کرتا؟“ زورک خان کی ضبط سے آنکھیں سرخ ہوئیں۔ زرگل کو اپنا آپ مجرم لگنے لگا۔ وہ زورک کی توجہ اور محبت کو حق سمجھ کر وصول کرتی رہی تھی۔ شادی ہو گئی، سال گزر گیا، اب وہ ماں بننے والی تھی مگر بےنیازی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔
اسے بھی اس نقصان سے دھکا سا لگا تھا۔ اسے بھی تب اندازہ ہوا بلاوجہ کی ٹینشن پالی، اوزگل کو رلایا۔ جھوٹی سچی بات پر تماشہ کر کے چیختی رہی اور جب سر میں درد ہوا تو وہ سب ہدایات بھلا گئی۔ اسے تب بھی اپنے سکون کی پرواہ تھی۔
اسے بری طرح پچھتاوا ہوا۔ کاش وہ زورک خان کو بلا لیتی، سر درد کے لیے چیک اپ کروانے چلی جاتی یا وہ اس تکلیف کو سہہ لیتی، اوزگل کے روکنے پر رک جاتی۔ وہ کبھی سنجیدہ ہی نہیں ہوئی تھی مگر آج نقصان کروا کر عقل آئی تھی۔
”تم رونا نہیں، زرگل میری طرف دیکھو۔ بس بھول جاؤ سب۔۔ میں بھی بھول جاتا ہوں۔ میرے پاس تم ہو، شکر ہے تمہیں کچھ نہیں ہوا ورنہ ناجانے میرا کیا ہوتا۔۔“ زرگل کے آنسو بہانے پر زورک خان نے بےاختیار اسے سینے سے لگایا۔ اس کے الفاظ پر وہ ساکت ہوئی۔
”تمہیں کچھ نہیں ہوا، میرے لیے اتنا کافی ہے۔ ڈاکٹر نے تسلی دی ہے کہ تم دوبارہ ماں بن سکتی ہو۔ اگر تمہارا کوئی ایسا ویسا نقصان ہوتا تو میں برداشت نا کر پاتا۔ بس اتنا کافی ہے ہمارے لیے۔۔ تم رونا بند کرو۔۔“ زورک محبت سے اس کا سر سہلا رہا تھا۔
زرگل کو رونا آیا۔ زورک خان کے الفاظ اسے رلا رہے تھے۔وہ اتنی محبت کرتا تھا؟ کیا ہمیشہ سے ایسی محبت کرتا تھا؟ زرگل نے کبھی محسوس کیوں نہیں کیا۔ وہ یافث خان کے سحر سے ہی نہیں نکلی کہ زورک خان کی محبت محسوس کرتی۔
”میرے ساتھ چلو۔ میں تمہارا خیال رکھوں گا۔ اب کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ ٹھیک ہے ناں زر؟ اب یہاں رہنے کی ضد مت کرنا۔“ زورک نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔ اب عقل آ گئی تھی۔ زورک نے اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے اس کا سر تھپکا۔
”میں پھپھو سے بات کر کے آتا ہوں۔ تم تیار رہنا اور اب کوئی ٹینشن پالنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ اسے ہدایت دے کر کمرے سے نکل گیا۔ زرگل بھیگی آنکھوں کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی رہی۔ کیا ضروری تھا عقل آنے کے لیے اتنی بڑی ٹھوکر کھاتی۔
اب ایک اور جھوٹ تھا جو وہ زورک سے چھپائے بیٹھی۔ اب اطمینان کے ساتھ ایک اور خوف تھا کہ کہیں وہ سچ نا جان لے۔ اوزگل نے آج جو باتیں سنی تھیں زرگل ہوتی تو فوراً سچ اگل دیتی۔ اوزگل برداشت کر گئی تھی مگر کب تک؟ اسے ڈر تھا وہ کسی روز کھول دے گی۔
زرگل نے اپنی سادہ اور آسان سی زندگی کو اپنی لاپروائی کی وجہ سے اتنا الجھا دیا تھا کہ کھل کر مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہر گھڑی جھوٹ پکڑے جانے کا خوف ستاتا تھا۔
اگر کبھی اوزگل کا ضبط جواب دے گیا۔ بس وہی تھی جو اگر بول پڑی تو اس کا یہ محبت بھرا رشتہ ایک لمحے میں خاک ہو جائے گا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”آپ کو خان زادہ صاحب بلا رہے ہیں۔۔“ اوزگل خان بیگم اور دی جان کے ساتھ بیٹھی تھی جب ملازمہ نے اسے آ کر یافث خان کا پیغام دیا۔
”جا کر اس کی بات سن لو، اسے بتا بھی دینا اس کی خالہ آ رہی ہے۔ ایسا نا ہو نکل جائے شہر کے لیے۔۔“ خان بیگم کی ہدایت پر اوزگل سر ہلا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
کمرے میں یافث خان ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صوفے پر بیٹھا کال پر بات کر رہا تھا۔ بیڈ پر اس کا سامان بکھرا تھا اور ساتھ تہہ شدہ کپڑے پڑے تھے۔ اوزگل ایک نظر اسے مصروف بیٹھا دیکھ کر اس کا سامان بیگ میں رکھنے لگی۔
”تم بھی اپنی پیکنگ کرو، ہم نے کچھ دیر میں نکلنا ہے۔“ وہ کال بند ہوتے ہی اٹھ کر اس کے پاس آیا۔ اس کی بات پر اوزگل کے ہاتھ تھم گئے۔ یافث اس کے پیچھے کھڑا اس کے گرد بازو پھیلاتا اسے اپنے حصار میں سمیٹ گیا۔
”میں نہیں جاؤں گی۔ آپ بعد میں لینے آ جائیے گا اور آپ بھی ابھی نہیں جائیں، آج خالہ آ رہی ہیں۔“ اوزگل نے گڑبڑا کر کہا تو یافث نے ابرو چڑھائے، وہ اس کی پشت اپنے سینے سے لگائے کھڑا تھا جس کی وجہ سے اوزگل اس کے تاثرات نہیں دیکھ پائی۔
”ہم خالہ سے مل کر چلے جائیں گے۔“ یافث اس کی بات نظر انداز کر کے بولتا اس کے سر پر لب رکھ گیا۔
”میں نہیں جانا چاہتی۔۔“ اوزگل مدھم لہجے میں بولی۔ رات والا جذباتی پن ختم ہو چکا تھا، لہجے میں شدید شرمندگی بھر آئی تھی۔ وہ اس سے الگ ہو کر اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”کل تو جناب روتے ہوئے درخواست کی جا رہی تھی کہ میرے پاس رہنا ہے، اب کیا ہوا؟ نیت بدل گئی؟“ یافث نے اس کے ہاتھ تھام کر سوال کیا۔ اوزگل خفت سے سرخ چہرہ لیے سر جھکا کر کھڑی تھی۔ وہ اسے مزید قریب کرتا سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا گویا جواب کا منتظر ہو۔
”خالہ آ رہی ہیں ناں۔۔“ وہ اسے دیکھتی معصومیت سے اس کے ساتھ نا جانے کی وجہ بتانے لگی۔ یافث کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”تو ہم ان سے مل لیں گے لیکن جانا تو ہے۔۔ میں مزید نہیں رک سکتا اور تم بھی بتا چکی ہو تمہیں میرے بغیر نہیں رہنا۔“ وہ آخری جملے پر زور دے کر معنی خیزی سے بولا۔ اوزگل روہانسی ہوئی۔
”وہ تو میں گھبرائی ہوئی تھی۔ پریشانی میں کہہ دیا تھا، میں بعد میں چلی جاؤں گی۔ آپ کا جلدی جانا ضروری ہے تو آپ بےشک۔۔“ وہ اس کے سامنے کھڑی نظریں چراتے ہوئے بول رہی تھی جب وہ اس کی بات درمیان میں کاٹ گیا۔
”اوز جب تم گھبرائی ہوئی تھیں اور پریشانی میں میرے ساتھ جانے کا کہا تھا تب میں نے فیصلہ کر لیا تھا تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گا۔ اس لیے ہم خالہ سے مل کر روانہ ہو جائیں گے۔ اپنی پیکنگ کر لو۔۔“ وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نرمی سے اس کے رخسار پر لب رکھ گیا۔
”پلیز مجھے نہیں جانا، میں تب جذباتی ہو گئی تھی اس لیے کہہ دیا۔۔“ وہ تمتماتے رخسار پر ہاتھ رکھتی منت بھرے لہجے میں بولی۔ موبائل چارجنگ پر لگاتے یافث نے پلٹ کر اسے دیکھا، وہ رونی صورت لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
”تو میری جان آئندہ میرے سامنے زرا سوچ سمجھ کر جذباتی ہونا۔۔ میں تو اب تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔“ وہ اطمینان سے بولتا کمرے سے نکل گیا۔ اوزگل سر پکڑ کر بیٹھتی اپنے آپ کو کوسنے لگی۔ ایک دن پہلے پریشانی میں سب کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔
لیکن اب دل چاہ رہا تھا کچھ دن مزید سب کے پاس رکے اور اب وہ اسی کی بات پر قائم ہو چکا تھا۔ وہ اس کی پیکنگ چھوڑ کر دی جان کے پاس بھاگی۔ وہ ملازمہ سے اپنے میووں والے جار صاف کروا کر بھروا رہی تھی۔
”دی جان وہ کہتے ہیں مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے۔ اگلے مہینے پھر سے پڑھائی شروع ہو جائے گی، پھر آنا مشکل ہو گا۔ یہی دن ہیں، یہاں نہیں گزارنے دے رہے۔ ان سے کہیں ناں مجھے چھوڑ جائیں۔“ وہ دی جان کے گلے میں بانہیں ڈالتی روہانسے لہجے میں بولی۔
”کیوں لے جائے گا، پاگل ہے وہ۔۔ میں بات کرتی ہوں، پریشان مت ہو۔۔ اس لڑکے کے انوکھے کام ہیں۔“ دی جان تو اوزگل کی رونی صورت دیکھ کر گھبرا گئیں۔ وہ ان کے سینے سے لگی وہیں بیٹھی رہی۔ دی جان کسی بچے کی طرح اسے بہلاتی اخروٹ کا پیک اس کے سامنے رکھ گئیں، وہ اخروٹ کھاتی مطمئن ہوئی۔
مہمان آئے تو یافث اپنی خالہ سے ملتا اطمینان سے باتیں کرنے لگا۔ اسے اندازہ نہیں تھا اوزگل نے اپنی پیکنگ نہیں کی تھی۔ اوزگل خالہ کے سامنے بیٹھی باتیں کر رہی تھی، وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے مسکرائیں۔ اس کے انداز میں اعتماد بھر آیا تھا، اب یافث خان سے جھجک محسوس نہیں کر رہی تھی۔
وہ دیکھتا تھا تو جھینپ جاتی تھی۔ خان بیگم نے بھی بہن کو سب اچھا ہو جانے کی رپورٹ دی تھی۔ انہوں نے شکر کا سانس بھرا۔ یافث خان تو انہیں پہلے بھی خوش ہی نظر آیا تھا مگر اوزگل اب خوش لگ رہی تھی۔ خالہ نے زرگل کے بچے کے لیے افسوس کیا تو وہ افسردہ ہو گئی۔
”آپ یہ بتائیں یہاں رکنے کا ارادہ ہے؟ میں اتنے دن یہاں تھا، پہلے کیوں نہیں آئیں؟“ یافث خان نے بات بدلی۔ وہ چونک گئیں۔
”تم اتنے دن یہاں تھے تو مجھے بتایا تھا؟ نالائق اب بھی تمہاری وجہ سے آئی ہوں اور تم مجھے ناراضگی دکھا رہے ہو۔“ خالہ نے اسے گھورا۔
”اب بھی میں نے تمہاری خالہ کو بتایا، اس بچاری کو تو پتا ہی نہیں تھا تم لوگ آئے ہوئے ہو۔۔“ خان بیگم نے بھی سر ہلاتے ہوئے چھوٹی بہن کی سائیڈ کی۔
”مجھے آئڈیا نہیں ہوا، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس کے بعد بزی ہو گیا۔ آج ہمیں واپس جانا ہے۔ آپ اب آ رہی ہیں۔ اوزگل بھی اداس ہو رہی تھی۔“ یافث نے چپ بیٹھی اوزگل کو متوجہ کیا۔ اس کا منہ اتر گیا۔
”اوزگل کیوں اداس ہو گی، یہ تو نہیں جا رہی۔۔ تم اپنی فکر کرو۔“ دی جان نے اسے اطلاع دی۔ وہ ٹھٹک کر اوزگل کو دیکھنے لگا جو جگمگاتی نظروں سے دی جان کو دیکھ رہی تھی۔ خان بیگم اور آغا جان بھی اوزگل کے رکنے کی بات کرنے لگے۔
”اسے بہت چالاکیاں آ گئی ہیں، مجھے پتا ہی نہیں اور یہاں پروگرام بدل کر سب کو ساتھ ملا لیا ہے۔ اچھا ہے آج خالہ نے بھی دیکھ لیے معصوم اوزی کے کارنامے۔۔“ یافث خان نے خفگی سے اوزگل کو دیکھا۔
”بچہ آگے اس کی پڑھائی شروع ہو جائے گی، اسے ہمارے پاس رہنے کا تو موقع ہی نہیں ملتا۔ کچھ دن رہنے دو سکون سے یہاں۔۔“ دی جان نے یافث کی خفگی محسوس کر کے نرمی سے کہا۔ وہ اوزگل کو دیکھ رہا تھا، وہ گھبرائی ہوئی سی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
”ہاں میں بھی اوزگل کے ساتھ کچھ وقت گزار لوں گی۔“ خالہ نے مسکراتے ہوئے اوزگل کو دیکھا تو وہ گہرا سانس بھر گیا۔
”ٹھیک ہے، مجھے کیا مسئلہ ہو گا۔“ وہ سر ہلا گیا مگر اوزگل کو اس کی ناراضگی صاف محسوس ہو رہی تھی۔ وہ پریشان ہوئی۔ دوپہر کا کھانا سب نے ساتھ کھایا، یافث جانے کی تیاری کرنے کے لیے کمرے میں گیا تو اوزگل اٹھ کر اس کے پیچھے گئی۔
”آپ ناراض ہیں؟“ اس نے جوتے پہنتے یافث خان کے سامنے رکتے ہوئے آہستگی سے سوال کیا۔ وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ جیسے رونے کے لیے بالکل تیار تھی۔ یافث نے اس کا ہاتھ تھام کر کھینچتے ہوئے اپنے حصار میں لے لیا۔
”نہیں ہونا چاہیے؟ چھوڑ کر جا رہا تھا تو خود کہہ کر موڈ بنایا اور اب مجھے اکیلا بھیج رہی ہو۔ دھوکہ دینے میں مہارت حاصل ہے تمہیں۔۔“ وہ خفگی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
”مجھے وہاں جا کر سب کی یاد آتی ہے۔“ وہ اداسی سے آنکھیں جھپکتی اسے بتا رہی تھی۔ یافث کا حصار بےساختہ تنگ ہوا۔
”میں جاؤں گا تو میری یاد نہیں آئے گی؟“ وہ جھک کر اس کے ناک کو چھوتا سوال کر رہا تھا۔ اوزگل نے نظریں جھکائیں۔
”پتا نہیں۔۔“ وہ بےخبری ظاہر کرنے لگی۔ یاد تو اسے ہمیشہ کرتی تھی، تب بھی جب اس سے ناراضگی جتا رہی تھی۔ اب یہ بات کیسے بتا دیتی۔
”مجھے تو تمہاری بہت یاد آتی ہے لیکن اب صبر کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔“ وہ اس کے نازک وجود کو خود میں بھنچتا نرمی سے بولا۔ اوزگل کا دل رک سا گیا تھا۔
”اپنا خیال رکھنا، میں ناراض نہیں ہوں۔ ریلیکس رہو اور سب کے ساتھ اچھا وقت گزارو۔۔ کوئی الٹی سیدھی سوچ پال کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یافث نے اس کے ماتھے پر لب رکھ کر ہدایت دی اور اس سے الگ ہوتا اٹھ کھڑا ہوا۔
اوزگل سرخ چہرہ لیے اسی جگہ سمٹ کر بیٹھی رہی، وہ اللہ حافظ کہتا وہاں سے چلا گیا۔ اوزگل کا دل ایک دم اداس ہونے لگا۔ ابھی وہ گیا نہیں تھا کہ اسے پھر سے خواہش ہونے لگی وہ اس کے ساتھ چلی جائے۔ کمرہ خالی خالی ویران سا لگنے لگا تھا۔ اس کے جانے کے بعد رات تک اوزگل کے حواس پر عجیب سی اداسی سوار رہی تھی۔
وہ جادوگر اس پر کوئی تو جادو کرتا تھا کہ اسے خود سے باندھ لیتا تھا۔ وہ اس کے حصار سے نکلتی تھی تو لگتا تھا اب کہیں کی نہیں رہی۔ اتنی نرمی جتاتا تھا کہ وہ جب گھبراتی تھی اس کے پاس پناہ ڈھونڈتی تھی۔ اوزگل اب اس سے بندھ چکی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
زرگل خان حویلی واپس جا چکی تھی، زورک خان اس کا بہت زیادہ خیال رکھنے لگا تھا، اسے اکیلا نہیں چھوڑتا تھا اسے ڈر تھا وہ ڈپریشن کا شکار نہ ہو جائے۔ اسے اوزگل کا خیال آنے لگا۔ بیگم ثمر سے فون پر بات کی تو اس کا پوچھ لیا۔
”اوزی سے بات ہوئی آپ کی؟ وہ یہیں ہے یا شہر واپس چلی گئی؟“ زرگل کے پوچھنے پر وہ آہ بھر گئیں۔
”ابھی یہیں ہے۔ بات کی ہے ہم نے دو تین مرتبہ لیکن وہ اب ہم سے بات کرتے ہوئے جھجک جاتی ہے۔ بات بدلنے لگتی ہے پھر جلدی فون بند کر دیتی ہے۔ اسے خوف ہے ہم اس سے سوال کریں گے۔ تمہارے آبا جان بہت پریشان ہوتے ہیں اس کے لیے، انہیں زورک اور بھابھی کے روئیے سے مایوسی ہوئی ہے۔“ بیگم ثمر شکستگی سے بولیں۔
”مورے آپ اوزی سے کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں کرتیں؟ اس حادثہ کے حوالے سے۔۔“ زرگل نے ہچکچا کر پوچھا تو وہ ایک پل کے لیے چپ سی ہوئیں۔
”تم چاہتی ہو میں اس سے سوال کروں؟ زر میں اسے مزید نہیں ڈانٹ سکتی۔ میں جانتی ہوں تمہارا نقصان بہت بڑا ہے لیکن اس دن سب کے درمیان اوزی کو اتنی باتیں سننے کو ملیں وہ زلت کم نہیں تھی۔ میں نے بس اسے ایک دو بار سمجھایا کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نا کرے۔۔
سب پریشان ہیں کہ اوزگل کل کو یہی لاپروائی اپنے ساتھ بھی کرے گی۔ اسے سمجھاتی ہوں تو بالکل چپ سی ہو جاتی ہے۔ میرا دل دکھ رہا ہے، وہ اتنی بےوقوف تو کبھی نہیں تھی۔ شاید تمہاری فکر میں غلطی کر گئی۔ اس بات کو بھول جاؤ بچے۔۔ اس کو اب کچھ مت کہنا۔“
بیگم ثمر کی وضاحت پر زرگل گم صم سی ہو گئی۔ اس کی ماں کو لگ رہا تھا وہ اوزگل پر غصہ ہے اور ماں باپ سے بھی یہی ڈیمانڈ کرنا چاہتی ہے۔ زرگل انہیں وضاحت بھی نہیں دے پائی۔ اب تک وہ یہی تو کرتی آئی تھی۔
جب دونوں میں لڑائی ہوتی تھی زرگل اس کی غلطیاں ماں باپ کو بتا بتا کر ڈانٹ پڑواتی تھی۔ وہ دونوں جڑواں تھیں اور ایک جیسے مزاج کی مالک تھیں مگر زرگل کے اس روئیے نے خود اسے تو بااعتماد اور نخریلا بنا دیا تھا جبکہ اوزگل کی طبیعت میں گھبراہٹ اور ہراس بڑھنے لگا تھا۔
ہر بار جھگڑے کے بعد کئی کئی دن تک زرگل کا طنز کرنا اوزگل کو سہمانے لگا تھا۔ وہ ایک ہی خوف کا شکار رہنے لگی کہ کہیں اسے ڈانٹ نا پڑ جائے، کہیں ان کا باپ غصہ نا ہو جائے، کہیں ماں ناراض نا ہو جائے۔ اسے زرگل جیسا بننا تھا جسے کوئی ڈانٹتا نہیں تھا لیکن وہ اس سے الٹ بنتی چلی گئی تھی۔
”سن رہی ہو زر؟ تم نے اسے کال تو نہیں کی؟ زرگل بیٹا احتیاط کرنا، اب تم دونوں کنواری بہنیں نہیں ہو جنہیں ہم سمجھا بجھا کر چپ کروا دیتے تھے۔ تم نے اس دن دیکھا خان زادہ کو زورک خان پر کتنا غصہ آیا تھا۔ اوزگل کی غلطی پر بھی وہ برداشت نہیں کر رہا تھا کوئی اسے برا بھلا کہے۔
اگر لالا خان داد زورک خان کو روکتے نہیں تو ناجانے کیا ہو جاتا۔ تمہیں اس کے مزاج کا نہیں پتا، وہ بہت سرپھرا ہے۔ زورک خان کا گریبان پکڑنے سے بھی نا رکتا۔ بار بار اوزگل کو کال مت کرنا ایسا نا ہو خان زادہ بگڑ جائے۔ اللہ تمہیں اور اولاد دے گا۔“ بیگم ثمر نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
”میں کال نہیں کر رہی۔ آپ پریشان نہیں ہوں مورے۔۔ میں جانتی ہوں اوزگل کی غلطی نہیں ہے۔ وہ نقصان میرے نصیب میں لکھا ہوا تھا۔ آپ بھی اب اوزگل کو بار بار نہیں سمجھائیں، وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گی۔ اسے ہرٹ نا کریں۔“ زرگل کی آواز بھیگ گئی تھی۔
ناجانے اوزگل ماں باپ سے ایسی نصیحتیں سن کر کیسا محسوس کرتی ہو گی۔ بیگم ثمر اسے دعائیں دینے لگیں، خوش ہو رہی تھیں کہ وہ بڑے پن کا ثبوت دے رہی ہے اور یہ تو زرگل جانتی تھی بڑے پن کا ثبوت کون دے رہا تھا، کال کٹی تو وہ ہاتھ میں موبائل لیے کتنی دیر بیٹھی رہی۔
دل چاہ رہا تھا اوزگل کو کال کرے، اس کی خیریت پوچھے۔ اس سے سب کی باتوں کی معافی مانگے اور التجا کرے کہ وہ کبھی کسی کو سچ نہ بتائے ورنہ زرگل کا سکون برباد ہو جائے گا۔ لیکن اس نے اوزگل کو پہلے ہی یہ بات اتنی بار کی تھی کہ اب بولتے ہوئے شرمندگی ہو رہی تھی۔
کال ملا کر اس نے دوسری بیل پر خود کال کاٹ دی۔ وہ اوزگل سے بات نہیں کر سکتی تھی۔ ابھی تو بالکل نہیں۔۔ وہ موبائل رکھ رہی تھی کہ اوزگل کی کال آ گئی۔ زرگل نے جلدی سے کال اٹینڈ کی۔
”تم نے کال کیوں کی؟ سب ٹھیک ہے؟“ وہ حال احوال کے بعد گھبرائی ہوئی سی پوچھ رہی تھی۔
”ہاں سب ٹھیک۔۔ تم کیسی ہو؟ اوز اس دن جو ہوا اس کے لیے میں نے تم سے معافی مانگنی تھی۔ میں نے مورے کو بھی منع کیا ہے کہ تمہیں بار بار وہ بات نا کریں۔ تم نے کسی کو کچھ بتایا تو نہیں ناں۔۔؟“ زرگل نے آہستگی سے پوچھا۔
”تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔“ اوزگل نے اسے تسلی دی۔
”یافث خان کو بھی مت بتانا، پلیز کسی کو۔۔۔“ زرگل التجا کر رہی تھی جب اوزگل نے اس کی بات کاٹی۔
”زر جب مجھے ہر ایک نے اس ناکردہ غلطی پر ڈانٹا اور نصیحتیں کیں تب یافث نے مجھے سہارا دیا، اس نے مجھ سے ایک بار بھی سوال نہیں کیا۔ میرے پاس اب صرف وہی ہیں جن سے میں کھل کر سب کہہ سکتی ہوں اور میں ان سے کچھ نہیں چھپا پائی۔ انہیں سب پتا ہے لیکن فکر مت کرو۔۔“ اوزگل کے الفاظ پر زرگل کو کرنٹ لگا۔
”تم نے اسے بتا دیا؟ تمہیں لگتا ہے وہ اتنا اچھا ہے جو میرا راز رکھ جائے گا؟ اس نے تو تب زورک خان کو نہیں بولنے دیا جب اسے تم نے کلئیر نہیں کیا تھا۔ اب تمہیں لگتا ہے سچ جان کر وہ چپ ہو جائے گا؟ اوزی تم نے کیا کر دیا ہے۔ جس دن اس کا زورک خان سے سامنا ہوا وہ سب بول دے گا۔
وہ بےرحم انسان ہے۔ تم نے اس پر اعتبار کر کیسے لیا۔“ زرگل چیخ اٹھی تھی۔ اس کی سانس پھول گئی۔ اسے لگا اوزگل نے خوب بدلا لیا ہے، جس سے چھپانا چاہیے تھا اسی کو بتا دیا تھا۔ اب وہ ایک جملہ اوزگل کے خلاف سنتا اور خان حویلی کو الٹ کر رکھ دیتا۔۔
”میں اور کسی پر اعتبار کر سکتی ہوں؟ مورے اور آبا جان ہم دونوں کی جب بات آئے، تمہیں چنتے ہیں۔ مجھے ہر بار چپ کروایا جاتا ہے۔ ہر بار یہی ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ زرگل جذباتی ہے تم سمجھدار ہو، چپ ہو جاؤ۔۔
تم پر بھی مشکل وقت آیا ہے تو اوزگل کی فکر کر رہی ہو، میں تو تمہاری وجہ سے اکثر ایسے ہی بےعزت ہوتی ہوں۔ کیا پہلے کبھی میری پرواہ کی؟ یافث کو بےرحم مت کہو۔ میں ان سے نا کچھ چھپا سکتی ہوں نا چھپاؤں گی۔“ اوزگل کو اس کے الفاظ برے لگے تھے۔
”تم۔۔ مجھے دھمکا رہی ہو؟ تم یہی کر رہی ہو نا اوزی۔۔ بدلہ لے رہی ہو ناں مجھ سے؟ کاش میں بھی مر جاتی۔۔ میں بھی اپنے بچے کے ساتھ مر جاتی، تم تو یہی چاہتی ہو۔۔“ زرگل بری طرح رونے لگی۔ اوزگل اس کے الفاظ پر ساکن ہو گئی۔
کمرے میں داخل ہوتا زورک خان بھی اس کے جملوں پر تڑپ گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر زرگل سے موبائل لے کر کان سے لگایا۔ زرگل خوف زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔
”اوزی میں نے بہت نرمی دکھا لی ہے لیکن اب تم حد سے بڑھ رہی ہو۔۔ تمہیں احساس ہے تم نے اپنی بہن کا اتنا بڑا لاس کیا ہے اور وہ اب بھی ٹھیک نہیں ہے۔ خدا کا واسطہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔ ڈاکٹرز نے اسے ٹینشن لینے سے منع کیا ہے، تم کیوں اسے رلا رہی ہو؟“ زورک خان سخت لہجے میں بول رہا تھا۔
”خان صاحب ایسا کچھ نہیں، ہم دونوں تو بس۔۔“ زرگل نے گھبرا کر زورک خان کو مزید بولنے سے روکا۔
”کیا نہیں ہے، میں مانتا ہوں تم نے اب تک اوزگل کو بہت ستایا ہے لیکن اب یہ موقع نہیں ہے تمہیں رلانے کا۔۔ اوزی تم کیسے۔۔“ زورک خان غصے سے بول رہا تھا، اوزگل نے کال کاٹ دی۔ وہ لب بھنچ کر موبائل ایک طرف رکھ گیا۔
”آپ نے اوزی کو کیوں ڈانٹا، ہم صرف بات کر رہی تھیں۔“ زرگل نے روتے ہوئے زورک خان کو دیکھا، وہ اسے خود سے لگائے چپ کروا رہا تھا اس کے شکوہ پر ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگا۔
”پھر رو کیوں رہی ہو؟ کیوں میرا دماغ خراب کر رہی ہو۔ ڈاکٹرز مجھے لعن طعن کرتے ہیں کہ کم عمر بیوی کو اتنا بیمار کر دیا ہے، یہاں تم آئے روز کسی نا کسی مسئلہ میں الجھی طبیعت خراب کر بیٹھتی ہو۔“ زورک خان غصے سے تپ اٹھا۔
”چپ کر جاؤ اب، دماغ خراب مت کرو میرا۔۔“ وہ اسے چپ کرواتا سختی سے بولا۔ زرگل بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ زورک خان نے ضبط کر کے نرمی سے اس کے آنسو صاف کیے۔
”زرگل پلیز مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کیا کرو۔۔ اپنی حالت تو دیکھو۔ تم نے میڈیسن لی تھی؟ اب طبیعت ٹھیک ہے؟“ وہ اسے سینے سے لگائے سوال کرتا اس کا دھیان بٹا رہا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل کال کاٹ کر بری طرح رونے لگی، زورک خان کتنا بدل گیا تھا۔ زرگل کی ہمدردی بھی اس کے مطلب کے لیے تھی۔ اسے ان دونوں پر غصہ آ رہا تھا۔ کیا وہ چاہتے تھے اوزگل ان کے حساب سے چلے؟ اس کا دل خالی ہونے لگا۔ یافث خان کو گئے دو دن ہوئے تھے کہ وہ پھر سے ڈسٹرب ہو گئی تھی۔
موبائل پر پھر سے کال آ رہی تھی، اس نے سسکتے ہوئے نمبر دیکھا تو یافث کی کال تھی۔ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے روتی جا رہی تھی، کال اٹینڈ کرنے سے کترانے لگی۔ وہ پہلا سوال یہی کرتا کہ کیوں رو رہی ہے۔ کال مسلسل آتی رہی۔ تھک کر اس نے کال اٹینڈ کی۔
”اوز۔۔ کیسی ہو؟ کب سے کالز کر رہا ہوں، نمبر بزی تھا کس سے بات کر رہی تھیں؟“ یافث کال اٹینڈ ہوتے ہی نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
”زورک اور زرگل سے بات کر رہی تھی۔“ وہ بولی تو اس کی بھیگی آواز پر یافث ٹھٹک گیا۔
”کیا بات کر رہی تھیں؟ رو کیوں رہی ہو، انہوں نے پھر کچھ کہا ہے؟ مجھے بتاؤ اوز۔۔“ اس کے سوال پر وہ ضبط کھوتے ہوئے کھل کر رو پڑی۔
”آپ مجھے لینے آ جائیں، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اب کسی سے بات نہیں کروں گی میں، بس واپس جانا چاہتی ہوں۔“ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”زرگل کو تم نے کال کی یا وہاں سے کال آئی تھی؟“ یافث نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
”اس کی کال آئی تھی۔ آپ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں۔ میں آپ سے کہہ رہی ہوں مجھے آپ کے پاس آنا ہے۔“ اوزگل بےاختیاری میں جواب دیتی ایک دم رک کر ناراض ہونے لگی۔ یافث کال کاٹ گیا۔ وہ پتھرا گئی۔
کیا وہ اس کے مسلسل رونے سے تنگ آ چکا تھا؟ اس کی فرمائش سے زچ ہو گیا تھا؟ وہ رو رہی تھی اور یافث خان نے چپ کروائے بغیر کال کاٹ دی۔ وہ تو ایسا کبھی نہیں کرتا تھا۔ اوزگل کو شدت سے رونا آیا۔
جبکہ دوسری جانب یافث کال کاٹ کر زورک خان کو کال کر چکا تھا۔ زورک تب اپنی نگرانی میں زرگل کو فروٹ کھلا رہا تھا۔ یافث کی اچانک کال پر چونک گیا۔
جاری ہے۔۔