Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چھبیس
”یہ کیا بد لحاظی ہے۔ کیا کرتی پھر رہی ہو تم وہاں؟ بےوقوف لڑکی اگر ایسی ناکارہ اور روکھی پھیکی عورت ہو تو کون بدبخت برداشت کرے گا۔ آج وہ خاندان کا لحاظ کر رہا ہے، کل تمہارے آغا جان کے منہ پر کہہ دے گا اب رشتہ نہیں رکھنا۔۔
حویلی والوں کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے کا یہ حال کر رکھا ہے تو پہلی فرصت میں فارغ کریں گے تمہیں۔۔ کیوں تمہارا دماغ بند ہو گیا ہے۔ یہ تربیت دے کر بھیجا تھا میں نے؟“ بیگم ثمر سرخ چہرہ لیے اسے گھورنے لگیں۔
”مورے یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ ہم دونوں خوش ہیں، آپ چاہیں تو ان سے پوچھ لیں۔ مجھے دیکھیں، کیا میں آپ کو اب بھی خوش نہیں لگ رہی۔ زرگل کی باتوں کو توجہ نہیں دیں۔“ اوزگل نے مزے لیتی زرگل کو مسکراتا دیکھا تو مٹھیاں بھنچ کر بولی۔
”میں جھوٹ بولتی ہوں تو ٹھیک ہے، ابھی بلواتی ہوں زورک خان کو۔۔ وہ خود مورے کو بتا دیں گے، انہوں نے تو وہاں بھی اوزگل سے کہا کہ اتنا پڑھ کر کیا کرو گی، اتنی بےرونق سی ہو گئی ہو۔ اور واپس آتے ہوئے مجھے بھی کہہ رہے تھے اوزگل کو سمجھانا مرد کا ظرف بھی بس ایک حد تک ہی ہوتا ہے۔
کہہ رہے تھے خان زادہ اپنی حویلی میں کتنے شاہانہ انداز سے رہتا ہے پورا خاندان گواہ ہے اور شہر میں بیوی نے کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا ہوا۔ ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ کہ ڈگری ہاتھ میں آئے تو شوہر کسی اور کا ہو چکا ہو۔۔ پوچھ لینا آپ زورک خان سے۔۔“ زرگل نے اطمینان سے کہتے ہوئے موبائل نکالا۔
”پھر چائے پر بلاؤں تمہارے زورک لالا کو؟“ زرگل چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتی سوال کر رہی تھی۔ اوزگل نے گھبرا کر ماں کو دیکھا جو سخت نظروں اسے دیکھ رہی تھیں۔ اسے اندازہ نہیں تھا یہ باقاعدہ دعوت اس عزت افزائی کے لیے کی گئی تھی۔
”مورے اب تو سب ٹھیک ہے۔ آپ نے سمجھایا تھا تو میں نے ان سے معافی مانگ لی تھی اور انہوں نے بھی معاف کر دیا۔ وہ خود مجھے پڑھا رہے ہیں، سب جانتے ہیں۔ اسے کہیں زورک خان کو نہیں بلائے۔ اتنی انسلٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اوزگل کی آواز بھر آئی تھی۔
”یہ نہیں بلائے گی، اس کا تو دماغ خراب ہے۔ رکھو فون زرگل۔۔ ہزار بار کہا ہے گھر کی بات گھر میں رہنے دیا کرو۔۔“ بیگم ثمر نے زرگل کو ڈپٹ کر کال کرنے سے روکا۔ اوزگل رخ پھیرے آنسو بہا رہی تھی۔
”اوزی خدا کے واسطے تم بھی ہوش کے ناخن لو اور اب دوبارہ ایسی حرکتیں مت کرنا۔۔ اتنی کم عمری میں دونوں کو اپنے گھر کا کیا ہے۔ تم دونوں ناقدری لڑکیوں کو اتنے شاندار مرد ملے ہیں۔۔
میں نہیں چاہتی تمہاری بےوقوفی کی وجہ سے تم گھر آ بیٹھو۔۔ تم دفع کرو پڑھائی کو، اب پڑھنے کی بالکل ضد مت کرنا، حویلی میں رہو۔۔ زمہ داری اٹھاؤ، تاکہ یافث خان کو بھی پتا چلے اس کی شادی ہو گئی ہے۔
ایک سال تم نے لاپروائی کا مظاہرہ کر کے جو اپنے شوہر کا دل برا کیا ہے اس کی معافی ایک دن میں نہیں مل جائے گی۔ جتنا خیال وہ کرتا ہے اتنا تم بھی کرو۔۔ روؤ نہیں تم تو میری پیاری بیٹی ہو۔۔“ بیگم ثمر نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
زرگل اب اطمینان سے موبائل پر گیم کھیل رہی تھی۔ اوزگل انگوروں سے بھری ٹوکری واپس رکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کا دل بھر آیا تھا۔ خوش ہو کر وہاں آئی تھی لیکن اب کمرے میں بند ہوتی بری طرح رو رہی تھی۔ ناجانے زرگل کا دل اس سے کب صاف ہو گا۔
اس نے غلطی کی تھی، وہ غلط فہمی کا شکار ہوئی تھی اور یہ بھی زرگل کی وجہ سے ہوا تھا مگر وہ اپنی غلطی کبھی قبول نہیں کرنے والی تھی۔ وہ اوزگل کے گرد گھیرا تنگ کرتی جا رہی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
ثمر خان حویلی پہنچے تو دونوں بیٹیوں کا شور سن کر گھبراتے ہوئے اندر گئے، سامنے کی صورتحال انہیں بوکھلاہٹ میں مبتلا کر گئی۔ زرگل اور اوزگل ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح لڑ رہی تھیں، پہلی بار بیگم ثمر کے روکنے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”تمہارے ساتھ جو سب ہو رہا ہے، بہت اچھا ہو رہا ہے۔ تم عزت اور احترام کے قابل ہی نہیں ہو۔ میں ہی پاگل تھی جو تمہاری فکر کرتی رہی۔ زورک خان کو چاہیے تمہیں باندھ کر رکھے بلکہ پاگل خانے میں رہنے کے قابل ہو۔۔“ اوزگل غصے سے چیخ رہی تھی۔
اس کے الفاظ پر ایک دم زرگل کا ہاتھ اس پر اٹھا تھا۔ اس سے پہلے کہ بیگم ثمر اسے روکتیں، وہ طمانچہ اوزگل کے رخسار پر پڑتا اسے لڑکھڑانے پر مجبور کر گیا۔ ثمر خان عین اسی وقت وہاں پہنچے تھے، زرگل خونخوار نظروں سے اوزگل کی جانب بڑھی۔
”اب بولو کیا کہہ رہی تھیں، اب بولو میرے سامنے۔۔ میں پاگل خانے میں رہنے کے قابل ہوں۔“ زرگل نے آنسو بہاتی اوز کا منہ دبوچ لیا۔ ملازمین ہکا بکا سے دونوں بہنوں کا جھگڑا دیکھ رہے تھے۔
”یہ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے دونوں نے؟ زرگل پیچھے ہٹو۔۔ شرم نہیں آتی تم دونوں کو؟“ ثمر خان کی دھاڑ پر وہ دونوں دور ہوئیں۔ بیگم ثمر حواس باختہ سی سر پکڑ کر بیٹھی تھیں۔ زرگل بھی باپ کو دیکھ کر رونے لگی۔
”یہ مت سمجھنا کہ میرے ہاتھ بندھے ہیں، یہ تھپڑ میں بھی مار سکتی تھی مگر تمہاری حالت کا لحاظ کر گئی ہوں۔ آبا جان آپ نے دیکھا زری نے مجھے تھپڑ مارا ہے؟“ اوزگل روتے ہوئے باپ سے بولی۔
”میں نے اس سے پہلے تمہاری بات بھی سنی تھی، یہ کیسی باتیں کر رہی تھیں اوز؟ تم دونوں شادی کے بعد اتنی جاہل کیوں ہو گئی ہو۔ مسئلہ کیا ہے تمہارا۔۔“ ثمر خان نے اس کے سرخ پڑتے رخسار کو نرمی سے سہلاتے ہوئے خفگی سے اسے دیکھا۔
”آپ مجھ سے کہہ رہے تھے بہن سے اچھا رویہ رکھوں، یہی وجہ ہے میں اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔ جب سے شادی ہوئی ہے اوزگل نے مجھے ایسی باتیں سنانا شروع کر دی ہیں۔ میرا بس اتنا قصور ہے کہ شادی سے پہلے خان حویلی کے پابند ماحول کی وجہ سے میں نے شادی سے انکار کیا۔
اس بات کا طعنہ اوزگل آج تک مجھے بہانے بہانے سے دیتی ہے اور آج تو آپ دونوں نے سن ہی لیا یہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ میں اسے پاگل لگتی ہوں۔۔“ زرگل غصے سے چیخ رہی تھی۔ ثمر خان نے ملازمین کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تو سب جلدی سے یہاں وہاں ہو گئے۔
”تم دونوں ہی پاگل ہو گئی ہو، ماں باپ کا بھی لحاظ نہیں رہا تم دونوں میں۔۔ کب سے میں روک رہی ہوں، ملازمین کے سامنے اپنا تماشہ بنا لیا۔ ہوا ہے کیا اوز؟ کیوں اس پر چیخ رہی ہو۔۔ اس کی حالت کا ہی خیال کر لو۔۔“ بیگم ثمر نے غصے سے دونوں کو دیکھا۔
”مورے کیا میں پہلے ایسے لڑتی تھی؟ اس سے پوچھیں کیوں اس نے ملازمین کے سامنے ایسی باتیں کیں، میں نے آج اپنے کانوں سے سنا ہے دو تین ملازمائیں مجھ پر ترس کھا رہی تھیں کہ مجھے یافث خان نے بیوی کا مقام نہیں دیا۔ وہ شادی سے انکاری تھے اور پھر آغا جان کی خاطر مجھے قبول کیا۔
میرے بارے میں یہاں پر الٹی سیدھی باتیں ہو رہی ہیں، سب کو لگتا ہے کہ مجھے علی زئی حویلی میں دنیا کی نظر میں بہو بنا کر لے جایا گیا ہے ورنہ میری حیثیت شو پیس جیسی ہے۔ میں نے اس سے سوال کیا تو شرمندہ ہونے کی بجائے یہ مجھ پر ہنس رہی تھی۔“ اوزگل ماں باپ کو بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
زرگل بےزار سی اسے دیکھنے لگی، ثمر خان نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔ بہن سے ایسی نفرت کسے ہوتی ہے۔ وہ اپنی بہن کا لوگوں میں مذاق بنا رہی تھی؟ بیگم ثمر بھی غصے سے زرگل کو گھورنے لگیں۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، مورے سے میں نے صرف ایک بات ڈسکس کی اور ملازمہ نے سن لی۔ یہ مجھ سے عجیب و غریب سوال کرے گی تو مجھے ہنسی ہی آئے گی۔ مجھے کیا پتا اس کا اور اس کے ہزبینڈ کا کیسا ریلیشن ہے، یہ مجھ سے کیوں پوچھ رہی تھی۔
اسے صرف رونے اور ہمدردیاں سمیٹنے کی عادت ہو گئی ہے۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ مورے نے اسے آج اس کی حرکتوں پر ڈانٹ دیا۔ کیونکہ یہ یافث خان کے ساتھ ٹھیک سے نہیں رہ رہی اور یہ بات میں نے مورے کو بتا دی، اس لیے غصہ اتار رہی ہے۔“
زرگل اپنا سر دباتی اکتائی ہوئی سی بول رہی تھی۔ اوز نے آنسو بہاتے ہوئے غصے سے اسے گھورا جبکہ ثمر خان پریشانی سے بیوی کو دیکھ رہے تھے گویا جاننا چاہتے ہوں ماجرا کیا ہے۔ بیگم ثمر نے دانت پیس کر زرگل کو دیکھا جو ہر بات کھولتی جا رہی تھی۔
”تم خان زادہ کے ساتھ ٹھیک کیوں نہیں ہو؟ کیا وجہ ہے اوزی؟ کیوں اپنا سکون خراب کرنا چاہتی ہو، کیا اس کی بیماری اور تمہاری لاپروائی کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی؟ تم اپنی شادی سے خوش نہیں ہو؟“ ثمر خان نے اوزگل کو سنجیدگی سے دیکھا۔
”میں خوش ہوں، ہم دونوں ٹھیک ہیں۔ ہمارے درمیان کچھ غلط فہمی تھی مگر اب سب ٹھیک ہے۔ میرا یقین کریں میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔“ اوزگل کو بار بار اپنے رشتے کی وضاحت دیتے ہوئے بری طرح رونا آیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا اس کی وہ غلطی آنے والے وقت میں ایسی پریشانی بن جائے گی۔
”پاگل ہے پڑھائی کی وجہ سے توجہ نہیں دے پا رہی تھی مگر اب اس نے یقین دلایا ہے کہ دوبارہ کبھی لاپروائی نہیں کرے گی۔ زرگل تم اس کی زاتی زندگی کا بار بار زکر کرنے کی فضول حرکت چھوڑ دو۔ وہ شادی شدہ ہے، جو بھی مسئلہ ہو گا دونوں خود دیکھ لیں گے۔“ بیگم ثمر نے شوہر کو وضاحت دیتے ہوئے سختی سے زرگل کو ٹوکا۔
”مجھے کیا شوق ہے اس کی زاتی زندگی میں گھسنے کا، میری اپنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ سکون کے لیے آئی تھی یہاں اور اس نے آ کر سارا سکون غارت کر دیا۔ میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے، آبا جان میں تو کبھی اس کے معاملات میں دخل نہ دیتی۔
بلکہ اسے بھی سمجھایا تھا کہ خان زادہ سے جو بھی اختلافات ہیں، اپنے تک رکھے۔ میں زورک خان کے ساتھ گئی تو یہ ان کے سامنے بھی منہ بنا کر بیٹھی رہی، وہ بھی پوچھنے لگے کہ آخر ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے۔ کیا اوزگل علیحدگی چاہتی ہے۔“
زرگل نے نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے زورک خان کے نام سے جھوٹے جملے گھسیٹے۔ ثمر خان بری طرح گھبرا گئے۔ اوزگل کو ڈانٹتے سمجھاتے سر پکڑ بیٹھے، اب اچانک ناجانے کیوں مسائل کھڑے ہو گئے تھے۔ جب تک اوزگل خاموشی اختیار کر کے رکھتی تھی زرگل کے بولنے پر بھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔
اب اوزگل کی برداشت جواب دے چکی تھی، اس کا دوبدو جواب دینا مسائل کو بڑھا رہا تھا۔ ماں باپ کو اس کی پریشانی ستانے لگی تھی۔ اس کے یقین دلانے کے باوجود جب ثمر خان نے اسے اچھے سے رہنے کی نصیحت کی تو وہ رونے لگی۔
”آئندہ زرگل کی موجودگی میں کبھی یہاں نہیں آؤں گی۔ آپ لوگ مجھے اس سے ملنے کے لیے نہیں بلائیے گا۔ آپ کو اندازہ نہیں اس نے میری زندگی میں پہلے بھی زہر گھولنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی وجہ سے میں اتنا وقت ڈسٹرب رہی۔ اپنی غلطی ماننے کی بجائے یہ مجھے بتا رہی ہے، سہی غلط کیا ہے۔۔“
اوزگل نے روتے ہوئے کہا تو زرگل بوکھلا گئی۔ کیا وہ سب راز کھولنے والی تھی۔ وہ سب جو راز رہ گیا تھا، اس کا اوزگل بن کر یافث خان کے سامنے رہنا اور اسے رشتہ توڑنے پر اکسانا۔۔ زرگل کا یافث خان کے لیے پاگل پن، اس کی کوششیں اور وہ سب غلط فہمیاں جو اس نے پیدا کی تھیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مجھے سچ سچ بتاؤ زرگل نے کیا کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔؟“ ثمر خان مسلسل روتی اوزگل کو سینے سے لگائے سوال کر رہے تھے۔ زرگل کا سر چکرانے لگا۔ اوز نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اسے لگا ان نیلی آنکھوں میں اس کے لیے دھمکی نمایاں تھی۔
”میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ زرگل ایک دن اپنی جگہ سے اٹھی اور قدم بڑھانے کی کوشش میں لڑکھڑا گئی۔ اس کا چہرہ بالکل سفید پڑ رہا تھا۔ اوزگل پر بہت بار چیخی تھی، اسے بدنام بھی کیا، تمسخر بھی اڑا لیا مگر وہ سب خود جھیلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
”طبیعت تو خراب ہو گی، کب سے شور مچایا ہوا تھا۔ آرام سے چلو۔“ بیگم ثمر ہراساں سی اس کو سہارا دیتے ہوئے بولیں۔ ثمر خان بھی گھبرا کر اس کی طرف بڑھے تھے۔
”زیادہ مسئلہ ہے تو ہسپتال لے جاتا ہوں۔“ وہ زرگل کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے۔ اوز اپنے آنسو صاف کرتی پریشان سی زرگل کو دیکھ رہی تھی۔ اگر اسے کوئی نقصان ہو جاتا تو وہ بھی برداشت نا کر پاتی۔
”میں بس کمرے میں جانا چاہتی ہوں۔“ زرگل گھبرائی ہوئی سی بول رہی تھی، ماں باپ کے سہارے کمرے میں پہنچی۔ جس بات کا کبھی خیال نہیں آیا، اب اس کا خوف ستانے لگا۔ وہ بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر گئی۔ بیگم ثمر کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہیں۔۔
اوزگل خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی، کچھ دیر سر پکڑے یہاں وہاں ٹہلتی رہی مگر چین نہیں ملا تھا۔ زرگل ماں بننے والی تھی اور اس نے دی جان سے سنا تھا کہ وہ کم عمر ہے، اسے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ جب فکر بڑھی تو وہ رات کے وقت دبے پاؤں اس کے کمرے میں پہنچی۔
”زر کیا تم ٹھیک ہو؟“ اسے بستر پر سمٹ کر سسکتا دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ اس کے چہرے پر تھپڑ کی سوزش اب بھی نمایاں تھی مگر زرگل کی فکر میں ہلکان ہو رہی تھی۔
”اوزی تم آبا جان کو وہ سب مت بتانا، اگر زورک خان تک بات پہنچی تو وہ مجھے معاف نہیں کرے گا۔ تم نے خود کہا تم دونوں کے درمیان اب سب ٹھیک ہے۔ زرگل تو درمیان سے نکل چکی ناں، اب اس بات کو کیوں دہراتی ہو۔۔“ وہ اوزگل کو دیکھتی روتے ہوئے التجا کرنے لگی۔
”میں نے بتانا ہوتا تو پہلے بتا دیتی، زورک خان سے بھی میرا رابطہ ہے۔ یہ دشمنی صرف تم نبھا رہی ہو زر۔۔ میں نے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا؟ جو بات تمہیں ڈرا گئی ہے، تم وہی زلالت مجھے دے رہی ہو۔۔
کیا تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا زر؟ میرا کیا قصور ہے، تم جانتی ہو تمہاری وجہ سے میں اتنا عرصہ یافث خان سے دور رہی۔ بےسکون رہی ہوں۔ تم تو خوش تھیں، مجھے بھی خوش رہنے دو۔۔“ اوزگل اس کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔
”میں اب نہیں بولوں گی، ٹھیک ہے۔ میں اب کچھ نہیں کہوں گی۔ مجھے معاف کر دو۔ آئندہ کچھ نہیں کہوں گی مگر تم وہ سب آبا جان اور زورک کو مت بتانا۔۔“ زرگل گھبرائی ہوئی تھی۔ دونوں معافی تلافی کرتی ایک دوسرے کے گلے لگی رو رہی تھیں۔
”اب تم سو جاؤ، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ دی جان کہتی ہیں تمہیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔“ کچھ دیر بعد اوزگل نے نرمی سے اسے سونے کا کہا تو وہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
”میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نہیں سو سکوں گی۔ مجھے پین کلر دے دو، وہاں دراز میں پڑی ہو گی۔“ زرگل نے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔ اوزگل نے پانی کا گلاس بھر کر اسے پکڑاتے ہوئے دراز سے پین کلر اٹھا کر اسے دی۔
”زر کیا یہ تمہاری ہیلتھ کے لیے ٹھیک ہے؟ تم رکو میں دودھ گرم کر کے لاتی ہوں اور مورے سے پوچھ لیتی ہوں۔ ابھی مت کھانا۔۔“ اوز نے اسے میڈیسن لینے سے روک دیا اور خود اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ پیچھے زرگل سر درد سے پریشان ہوتی پانی سے ٹیبلٹ لے کر سو گئی۔
اوزگل آئی تو وہ بستر میں دبکی نیند کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے دودھ اس کے سرہانے رکھتی واپس لوٹ گئی۔ اس نے بیگم ثمر سے میڈیسن کا نہیں پوچھا۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑے پتے سے ٹیبلٹ غائب تھی، اسے اس طرف دیکھنے کا بھی خیال نہیں آیا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل نے اپنے بستر پر لیٹ کر موبائل اٹھایا تو یافث خان کا میسج آیا ہوا تھا، اس نے میسج اوپن کیا۔
”اوز کیسی ہو ڈئیر؟ میں کل تمہیں کس ٹائم لینے آؤں؟ مجھے ابھی سے تمہاری یاد آ رہی ہے۔ ٹائم بتا دو تاکہ میں تمہیں واپس لانے میں جلدی نا کروں۔۔“
وہ اس کے میسج پر بےاختیار مسکرانے لگی۔ پھر رپلائی ٹائپ کر کے بھیجا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ جب بھی لینے آئیں گے، میں تیار رہوں گی۔ لیکن مورے اور آبا کو اچھا لگے گا اگر آپ ان کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ بےشک ناشتے پر چلے آئیے گا۔“
یافث اس کے جواب پر موبائل سینے پر رکھے لیٹا رہا۔
وہ اب واقعی یاد آ رہی تھی۔ بہت سے زیادہ۔۔ اتنی بےچینی ہوئی کہ اس کا دل چاہا ابھی چلا جائے۔ اس بار میسج کی بجائے اس نے کال ملا لی۔
”اوکے صبح میرا ویٹ کرنا۔۔۔ باقی سب خیریت ہے؟“ یافث کے فکر بھرے سوال پر وہ سمجھ گئی اس کا اشارہ کس جانب تھا۔ وہ پریشان تھا کہ کہیں زرگل کچھ ایسا ویسا نا کہہ دے۔ وہ بہت کچھ کہہ چکی تھی مگر وہ بہنیں تھیں۔ جتنی زیادہ لڑائی ہوئی تھی، اتنی جلدی صلح ہو گئی۔
”جی سب خیریت ہے، میرا اچھا ٹائم گزرا۔ مورے اور آبا جان ناراض تھے کہ میں نے آپ کو کیوں روکا۔ کیا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟“ اس نے یافث کو تسلی دی۔ جو گزر گیا تھا اسے دہرانا نہیں چاہتی تھی۔
یافث خان اس کے لیے تو بہت نرم مزاج تھا مگر زرگل کی ایسی حرکتیں بالکل برداشت نہیں کر پاتا تھا اور اوزگل اسے بالکل نہیں بتانے والی تھی کہ زر ان کے زاتی معاملات کو یوں سر عام ڈسکس کرتی ہے۔
وہ اس سے بات کرتا رہا۔ ڈھیروں باتیں کیں، چھوٹی چھوٹی تفصیل پوچھی۔ دن بھر کیا کیا، کیا کھایا اور سب سے اہم سوال جو اس نے ناجانے کتنی بار پوچھا تھا۔ کسی نے کچھ کہا تو نہیں؟ اوز اس کے مسلسل سوال پر گھبرا گئی۔
”آپ کو کیوں لگتا ہے کوئی مجھے کچھ کہے گا، میں اپنے گھر آئی ہوں۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔“ اوزگل نے مدھم لہجے میں کہا تو یافث نے گہرا سانس بھرا۔
”تمہیں جب چچا جان ملنے آئے تو ان دونوں نے کافی سختی سے بات کی تھی۔ آئم سوری میں انہیں ٹھیک سے کلئیر نہیں کر پایا کہ میں تمہارے ساتھ خوش ہوں۔ مجھے ڈر ہے وہاں تمہیں اسی بات پر ڈانٹا جائے گا، اس لیے پوچھ رہا ہوں۔“ یافث کی بات پر وہ ایک دم چپ ہوئی تھی۔
”میں خوامخواہ فکر کر رہا ہوں ناں؟ اوکے لیو اٹ۔۔ پریشان مت ہو، مجھے ان لوگوں پر کوئی شک نہیں ہے۔ مجھے تو اب ملی ہو، پہلے ان کے ہی پاس تھیں۔ کیا تمہیں نیند آ رہی ہے اوز؟“ یافث نے نرمی سے پوچھا۔ وہ اس کی نرم مردانہ آواز پر طمانیت سے آنکھیں موند کر مسکرائی۔
”جی نیند آ رہی ہے۔“ وہ اس سے زیادہ بات نہیں کر سکتی تھی۔ اسے لگا ایک بار اور یافث خان نے سوال کیا تو وہ کچھ چھپا نہیں پائے گی۔
”اوہ ڈئیر گو ٹو سلیپ، سویٹ ڈریمز اینڈ۔۔ آئی لو یو اوز۔۔“ یافث کی مسکراتی آواز اسے ایک دم شرم سے سرخ کر گئی تھی۔ وہ کال کاٹ گیا، اوزگل موبائل ایک طرف رکھتی بلینکٹ میں سمٹ گئی، دل کی شور مچاتی دھڑکنیں اسے صاف محسوس ہو رہی تھیں۔
یافث خان کو سوچتے سوچتے ہی وہ نیند میں چلی گئی لیکن ابھی اسے کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ آوازوں پر اس کی آنکھ کھلی۔ اسے لگا اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر بیگم ثمر بول رہی ہیں۔ وہ جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھول گئی۔
”مورے سب ٹھیک ہے؟“ بیگم ثمر کو ساتھ زرگل کے کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر وہ پریشان ہوئی۔ ابھی وہ جواب دیتیں کہ ثمر خان تیزی سے ان کی طرف آئے۔
”بچے زرگل کی طبعیت خراب ہو گئی ہے، ہم اسے ہاسپٹل لے جاتے ہیں۔ دعا کرو سب خیریت رہے۔“ ثمر خان نے اسے تسلی دی تو اس کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
”میں بھی چلتی ہوں آبا جان، مجھے بھی ساتھ لے جائیں۔۔“ اوزگل نے زر کو دیکھا تو بےاختیار رونے لگی۔ زرگل کو اسی وقت لے کر ہسپتال پہنچے، ڈاکٹر نے اسی وقت اسے ایڈمٹ کر لیا۔ اس کا بلڈ پریشر بہت لو تھا اور اس نے جو پین کلر لی تھیں، اس سے مسئلہ بڑھ گیا تھا۔
ڈاکٹر نے جب یہ بات بتائی تو اوزگل گھبرا گئی، اس نے زرگل کو منع کیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ پھر بھی ٹیبلٹ کھا لے گی۔ ثمر خان نے زورک کو بھی فون کر کے بتا دیا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر میں حواس باختہ سا بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا۔
آنکھوں میں سرخ ڈورے اور اس کا رف حلیہ بتا رہا تھا نیند سے جاگ کر آیا ہے۔ سب زرگل کے لیے دعا کرنے لگے، ڈاکٹر نے بتایا بچے کی جان کو خطرہ ہے، زرگل نے جو پین کلرز لی تھی، وہ بہت سخت والی تھی۔
”میری بیوی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے، مجھے اس کی خیریت کی خبر دیں۔ میری بیوی تو ٹھیک ہے ناں؟“ زورک خان کو اس لمحے زرگل کی فکر ہو رہی تھی، اوز بےاختیار اسے دیکھنے لگی، ہر وقت بن سنور کر شاہانہ انداز میں لوگوں سے ملنے والا زورک الجھے ہوئے سے حلیہ میں کھڑا زرگل کے لیے فکرمند ہو رہا تھا۔
اس نے سنا تھا بچے کی جان کو خطرہ ہے، اسے گھبراہٹ بھی ہوئی تھی، بیٹھ نہیں پا رہا تھا مگر پھر بھی اسے زرگل کی جان بچانے کی فکر تھی اور زرگل کہتی تھی زورک خان اس سے محبت نہیں کرتا۔ بیگم ثمر بری طرح رو رہی تھیں۔
”تمہیں کہہ رہی تھی بحث مت کرو، وہ تو ہمیشہ سے ایسی تھی۔ چڑچڑی اور ضدی مزاج۔۔ تم میری بات مان کر خاموش رہتی تھیں۔ آج بھی مان لیتیں، اتنا شور نا مچاتیں۔ دیکھو اب زرگل کس حال کو پہنچ گئی ہے۔ وہ حساس طبیعت کی ہے، تم ہی خیال کر لیتیں۔۔“
بیگم ثمر اوزگل کے پاس بیٹھی روتے ہوئے آہستگی سے بول رہی تھیں۔ اوزگل نے ماں کو دیکھا، حساس تو وہ بھی تھی۔ جو باتیں زرگل ہنسی میں اڑا دیتی تھی اسے وہ بھی رلاتی تھیں لیکن بیگم ثمر کے سمجھانے پر ہر بار برداشت کرتی رہی۔ وہ اب بھی وہی چاہتی تھیں، اوزگل کا دل بھر آیا۔
صبح کے قریب خان حویلی سے خان داد اور ان کی بیوی بھی آ گئے۔ زرگل کی بھی فکر تھی اور انہیں تو اپنے وارث کی بھی فکر تھی جو ابھی دنیا میں ہی نہیں آیا تھا۔ اوزگل نے شدت سے دعا کی زرگل اور اس کا بچہ ٹھیک ہوں مگر ڈاکٹرز نے کچھ دیر بعد اطلاع دی کہ بچہ نہیں رہا تھا۔
سب پر گویا بجلی سی گری تھی، زرگل اب خطرے سے باہر تھی مگر اتنا بڑا نقصان ہو چکا تھا۔ زورک خان ساکت سا کھڑا تھا۔ زورک کی ماں بری طرح رونے لگیں۔
”ہوا کیا تھا؟ وجہ کیا بنی اس حالت کی۔۔ مجھے اندازہ تھا وہ بہت نازک مرحلہ سے گزر رہی ہے۔ اتنا خیال رکھتی رہی، آخر کیسے ہو گیا یہ سب۔۔ تم لوگوں نے خیال نہیں رکھا کیا؟“ زورک کی ماں روتے ہوئے بیگم ثمر سے پوچھ رہی تھیں۔
”میں کیوں خیال نہیں رکھوں گی۔ رات کو اچانک ہی اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔“ بیگم ثمر نے بھیگی آنکھوں سے اوزگل کو دیکھا تو وہ ندامت میں گڑھ گئی۔ زورک خان ڈاکٹر سے ملنے جا چکا تھا۔ ثمر خان ہاسپٹل ڈیوز کلئیر کرنے لگے۔
”اتنے خوش تھے ہم، اندازہ ہوتا تو کبھی نا بھیجتی اسے۔۔ ہمارے پاس تھی تو کبھی بلڈ پریشر کا مسئلہ نہیں ہوا، اب ڈاکٹر کہہ رہے ہیں بی پی لو تھا۔“ زورک خان کی ماں مسلسل ان لوگوں کو الزام دے رہی تھیں۔ مرد ایک سائیڈ پر تھے۔ اوزگل چپ چاپ آنسو بہا رہی تھی۔
زورک خان ڈاکٹر سے ہو کر آیا تو جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔ یقیناً اسے اس حالت کی وجہ پتا چل چکی تھی۔ زرگل کے پاس گیا تو وہ بستر پر نڈھال پڑی اپنے نقصان پر آنسو بہا رہی تھی۔ زورک کی غصیلی نظروں پر سہم گئی۔
”تمہارا چیک اپ کروایا تھا تب ڈاکٹر نے منع کیا تھا کہ ڈاکٹرز کی ہدایت کے بغیر کوئی میڈیسن مت لینا۔ اس کنڈیشن میں یہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ تم نے پھر بھی ایک ساتھ دو ہیوی ڈوز پین کلرز لے لیں۔ کیا تم جان بوجھ کر یہ حرکتیں کرتی ہو؟
کیوں میرا جینا حرام کر رکھا ہے، میرا اتنا بڑا نقصان کر دیا ہے تم نے۔۔ میں اس کے لیے تمہیں بالکل معاف نہیں کروں گا زرگل۔۔“ زورک خان کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں، مٹھیاں بھنچے وہ زرگل کو دیکھ رہا تھا۔
زرگل کو لگا وہ اسی وقت اسے مار ڈالے گا، وارث کے لیے تو زورک خان نے اس کی ہر ضد، ہر الٹی سیدھی بات مانی تھی۔ زرگل کو سر درد کی تکلیف میں اندازہ نہیں ہوا وہ کتنا بڑا رسک لے رہی ہے، ایک ٹیبلٹ کے بعد آرام نا آنے پر اس نے دوسری ٹیبلٹ بھی لے لی تھی۔
”میں نے وہ میڈیسن۔۔۔ نہیں لی خان صاحب، میرے سر میں شدید درد تھا اور اس وقت مجھے تو ہوش بھی نہیں تھا۔ اوزی نے مجھے وہ ٹیبلٹس دیں۔“ زرگل نے زورک خان کی ناراضگی کے ڈر سے روتے ہوئے اپنی غلطی اوزگل کے حصے میں ڈال دی۔
زورک خان اوزگل کا نام سن کر جبڑے بھنچ گیا، زرگل آنسو بہا رہی تھی۔ سفید رنگت لیے بےحد کمزور لگ رہی تھی۔ چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔ نقصان تو اس کا بھی ہوا تھا۔ زورک خان نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔
”رونا بند کرو زرگل، ہمارا ایک نقصان ہو چکا ہے لیکن میں اب تمہیں نہیں کھونا چاہتا۔ پلیز رونا بند کرو۔۔“ وہ اسے خود سے لگائے نرمی سے اس کا چہرہ چومنے لگا۔ اس کے انداز میں نرمی اور محبت محسوس کرتی زرگل آنسو بہاتی اس کے حصار میں سمٹ گئی۔
”تم ٹینشن مت لینا، ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ کچھ وقت تمہیں بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ تمہاری حالت ٹھیک نہیں ہے۔ بچے بھی ہو جائیں گے، پہلے تم اپنی صحت بہتر کرو۔ میری خاطر خود کو سنبھالو زرگل۔۔“ زورک خان اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا نرمی سے بول رہا تھا۔
اس شام ہاسپٹل سے ڈسچارج ہونے پر زرگل نے زورک خان سے منت کر کے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ وہ اوزگل پر بات ڈال کر خود کو بچا گئی تھی مگر دل میں خوف ابھی موجود تھا۔ اگر زورک خان کو زرا سا بھی اندازہ ہوا یہ نقصان زرگل کی وجہ سے ہوا ہے تو ناجانے کیا انجام ہو گا۔
جاری ہے۔