Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط پچیس
اوزگل کی آنکھ کھلی تو اس نے عادتاً اپنی نیند سے بھاری آنکھوں کو مسلنا چاہا مگر یافث نے نرمی سے اس کے ہاتھ تھام کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اوزگل نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ اس کے قریب کہنی کے بل نیم دراز اسی کو دیکھ رہا تھا۔
”صبح بخیر میری جان۔۔“ یافث نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے تو وہ سرخ پڑتی اس کے پہلو میں چہرہ چھپا گئی۔ یافث نے محبت سے اسے اپنے حصار میں سمیٹتے ہوئے اس کے بال سنوارے۔
”تم بہت سوتی ہو، آدھے گھنٹے سے تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ اتنی گہری پرسکون نیند کہ تم نے کروٹ تک نہیں بدلی۔۔ اتنا کیسے سو لیتی ہو۔۔؟“ وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔
”دی جان کہتی ہیں اس عمر میں لڑکیوں کی نیند ایسی ہی لاپروائی بھری اور گہری ہوتی ہے۔“ وہ مدھم لہجے میں بول رہی تھی۔ یافث نے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا۔ وہ اسے دیکھنے کی بجائے آنکھیں میچ گئی۔
”اور کیا اس عمر میں سب لڑکیاں تمہاری طرح شرمیلی ہوتی ہیں یا یہ خاصیت صرف تمہاری ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے اس کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔
”لڑکیاں تو سب شرماتی ہیں، اس کا عمر سے کیا لینا۔۔“ وہ جھینپی ہوئی سی اس کے کرتا کے بٹن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ اس کا گریز، اس کی شرم اور خفت زدہ سا انداز یافث خان کی توجہ سمیٹ رہا تھا۔
”اوز میری طرف دیکھو، مجھے بتاؤ کیا تم خوش ہو؟ تمہیں اب مجھ سے مزید کوئی ناراضگی نہیں ہے؟ سب ٹھیک ہے ناں اب؟“ یافث نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اس سے سوال کیا۔ اسے وہم تھا شہر جا کر وہ پھر سے کنارہ کر لے گی۔
”جی میں خوش ہوں، میں۔۔ کیوں ناراض ہوں گی۔“ اوزگل نے بےاختیار نظر اٹھا کر اسے پریشانی سے دیکھا۔ وہ یقین کیوں نہیں کر رہا تھا اوزگل کو اس سے محبت ہے۔ وہ بنا بولے چاہتی تھی وہ سمجھ جائے اور وہ اس کے منہ سے سنے بغیر مطمئن نہیں ہونے والا تھا۔
”تمہیں ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں چاہیے، تم خود سے کچھ بھی فرض کر لیتی ہو۔۔“ وہ اس کی مخروطی انگلیوں کو نرمی چھوتا ایک دم اس کا ہاتھ اپنے لبوں پر رکھ گیا۔ جبکہ اوزگل اس کے الفاظ پر گھبرا گئی۔
”میں ایسی نہیں ہوں، ایسا ہر بار نہیں ہو گا۔ مجھے آپ پسند ہیں۔“ وہ جھجک کر بولتی یافث کو چونکا گئی۔ رونی صورت لیے گھبرائی ہوئی سی اوزگل کو دیکھتا وہ اس کا ہاتھ نرمی سے دبا گیا۔
”کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ تمہیں میں کب پسند آیا تھا؟“ یافث کے تجسس بھرے لہجے میں کیے سوال پر اوزگل نے اس کے بھاری مضبوط ہاتھ میں دبا اپنا نازک سا ہاتھ دیکھا۔
”جب مجھے پتا چلا آپ میرے منگیتر ہیں۔“ وہ نظریں جھکا کر آہستگی سے بولی۔ یافث چونک گیا۔
”بس اس لیے کیونکہ میں منگیتر تھا؟“ وہ حیران ہوا۔
”جی ہاں۔۔ پہلے تو۔۔ ہمارا زیادہ سامنا نہیں ہوتا تھا، آپ حویلی میں کم آتے تھے۔ جب آتے تھے آپ کو ہم سے ملنا، بات کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں آپ کو اتنا نہیں جانتی تھی۔ سب سے سننے کو ملتا تھا خان زادہ کو کزنز کا فری ہونا نہیں پسند۔۔
اس لیے زرگل اور میں بھی احتیاط کرتے تھے۔“ اوزگل نے اسے بتاتے ہوئے آخری جملے پر خاموشی اختیار کی۔ وہ مزید نہیں بتا پائی کہ سب کا روکنا زرگل کو کم عمری سے ضد دلاتا تھا۔ وہ چھپ چھپ کر یافث خان کو اپنے بھائیوں کے ساتھ ہنستا بولتا دیکھتی تھی۔
پھر وہ اسے دیکھتے دیکھتے ہی اسے پسند کرنے لگی تھی اور اوزگل کو کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ ہر بار یافث خان کے آنے کا سن کر زرگل بھی آغا جان کی حویلی جانے کے لیے کیوں مچل اٹھتی تھی۔ وہ دونوں ساتھ ہی آتی تھیں، زرگل کہاں گھومتی تھی، کیا کرتی تھی اسے کبھی خبر نہیں ہوتی تھی۔
وہ دی جان کے کمرے میں گھسی رہتی تھی۔ ان کے کمرے میں گویا ان کا پورا گھر تھا، وہیں چھوٹا سا سلنڈر رکھا تھا، چائے کا سامان، اوون بھی رکھا ہوا تھا۔ ایک پوری الماری میں کھانے پینے کا سامان تھا۔ ایک طرف دواؤں کا خانہ اور اس میں ہر مرض کی دوا رکھی تھی۔ میوہ جات، فروٹس اور یہاں تک کہ بیکری کا سامان بھی۔۔
اوزگل کو تو وہیں سکون ملتا تھا اور زرگل کو یافث خان کے گرد چکرانے سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ حالانکہ کبھی کبھی وہ یافث خان کے بارے میں بکت شوق سے اوزگل کو بھی بتاتی تھی۔
اوز خان زادہ جب ہنستا ہے تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ اتنی زیادہ کہ گمان ہوتا ہے، وہ رو رہا ہے۔
اوزی کیا تمہیں پتا ہے خان زادہ کی آنکھیں بھی میری آنکھوں جیسی سنہری ہیں مگر میری پلکیں بہت گھنی ہیں، اس کی پلکیں لمبی ہیں۔
اوزگل خان زادہ ملازمین کے ساتھ اتنی باتیں کرتا ہے، اسے سب کا پتا ہے کون کس مشکل میں ہے، کس کے گھر میں کیا چل رہا ہے۔
کیا تم جانتی ہو اوز خان زادہ سفید رنگ بہت زیادہ پہنتا ہے، بلکہ زیادہ تر وہ سفید رنگ ہی پہنے رکھتا ہے۔
اوزی تم نے دیکھا خان زادہ جب آبا سے مل رہا تھا، اس کا قد آبا سے بھی اونچا ہو گیا ہے۔ اتنا لمبا ہے، ناجانے کیا کھاتا ہے۔
وہ ہر تفصیل بتاتی تھی، اتنی تفصیل کہ اوزگل کبھی توجہ سے سن لیتی تو اسے اندازہ ہوتا وہ کتنی توجہ اور تفصیل سے یافث خان کو دیکھتی تھی۔ اس نے کبھی توجہ سے سنا ہی نہیں تھا۔ زرگل پڑھائی کے دوران یہ باتیں لے بیٹھتی تھی اور اوزگل کو پڑھائی کے وقت اپنا نام بھی یاد نہیں رہتا تھا، خان زادہ کو کیا سنتی۔
”آپ کو نہیں لگتا لڑکی کو اپنا ہمسفر جاننے کے بعد اسی سے محبت کرنی چاہیے؟ محبت کرنے میں اتنی جلدی کیوں کی جاتی ہے۔۔“ وہ زرگل کو سوچتی افسردہ سی یافث خان کے سینے میں سمٹی۔
”محبت یہ حد کب دیکھتی ہے، اس لیے نظروں کا پردہ ہے۔ اس لیے تو کہا جاتا ہے محرم کو ہی دیکھنا چاہیے۔ نظریں بھٹک جائیں تو کئی دلوں کو روگ لگتے ہیں۔ تم اچھی رہ گئیں تم نے کہیں دیکھا ہی نہیں۔۔“ یافث اس کے خیالات سے بےخبر مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پر نرم لمس چھوڑ گیا۔
”ہم کزنز تھے، میرا مزاج ایسا تھا الگ تھلگ رہا تو کیا تم نے بھی مجھے کبھی دیکھا نہیں تھا؟ کیا تم نے مجھے تب توجہ دی جب ہمارے رشتے کا پتا چلا؟“ یافث کے سوال پر وہ ہاں میں سر ہلا گئی۔
”جی چھوٹی پھپھو نے بتایا تھا۔ زورک خان سے تو ہماری دوستی تھی۔ مجھے وہ دوست کی حیثیت سے اچھے لگتے تھے۔ وہ بہت غصیلے ہیں مگر میں اور زری جب ان کے پاس ہوتی تھیں وہ غصہ کنٹرول کر لیتے تھے۔ وہ ہماری بہت کئیر کرتے تھے۔ زرگل کی ساری بدتمیزیوں کو برداشت کرتے تھے۔۔
زر کو سب ڈانٹتے تھے مگر زورک خان نے کبھی نہیں ڈانٹا تھا مگر زرگل کو پھر بھی ان سے شکوہ رہتا تھا کہ وہ مجھے فیور کرتے ہیں۔ مگر وہ تو زرگل کو پسند کرتے تھے اور آپ کبھی ملے ہی نہیں۔۔ آپ کا مجھے چھوٹی پھپھو نے اپنے ولیمہ پر بتایا تھا کہ میرا رشتہ آپ کے ساتھ ہوا ہے۔“ اوزگل ان لمحات کو یاد کرتی شرما سی گئی تھی۔
تب وہ شاکڈ ہوئی تھی، پھپھو کے منہ سے اپنے منگیتر کا نام سن کر اس پر گھبراہٹ سوار ہوئی تھی۔ جس خان زادہ کے سامنے جانے سے پرہیز کرتی تھی کہ اسے کوئی بات بری نا لگ جائے، اسے کسی حرکت پر غصہ نا آ جائے، وہ اس کا ہمسفر تھا۔۔ گھبرائی ہوئی اوزگل کا اس کے بعد جب بھی یافث خان سے سامنا ہوا، اس کا دل دھڑک اٹھتا تھا۔
وہ خوامخواہ غصہ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ غصیلا تو لگتا ہی نہیں تھا۔ تب اس نے توجہ دی اور اسے وہ اچھا لگنے لگا تھا۔ اس نے یافث خان کی محبت کو فرض کی طرح خود پر عائد کیا تھا۔ اس کو سوچنا اسے اچھا لگنے لگا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا نہایت دلچسپی تجربہ تھا، وہ اس کے لیے ایک نیا انسان تھا جسے وہ اب کھوج رہی تھی۔ پہلے اس کے زکر پر توجہ نہیں دیتی تھی۔
منگیتر سمجھنے کے بعد سے جب یافث خان کا نام سنا اس کا دل دھڑک اٹھتا تھا۔ سماعت خودبخود اس جانب متوجہ ہوتی تھی۔ اس کی شخصیت میں بہت رعب تھا، اس کا زکر ہر بار سب کی زبان پر بہت اچھے الفاظ میں ہوتا تھا۔ علی زئی حویلی کے ملازمین کی اس سے عقیدت بھی اوزگل کو بعد میں نظر آنے لگی تھی۔
وہ یافث خان کے سرد روئیے کو بھی خوشی سے برداشت کرتی تھی، اسے لگنے لگا وہ اب سامنے جانے لگی ہے تو شاید خان زادہ کو اچھا نہیں لگ رہا مگر پیچھے کی کہانی تو زرگل کو پتا تھی۔ اسے سوچوں میں گم دیکھ کر یافث نے اس کی ٹھوڑی پر انگلی رکھتے ہوئے اسے پکارا۔
”اوز کیا تم مجھے سن رہی ہو؟ کیا تم ٹھیک ہو؟“ وہ اس کی غائب دماغی سے پریشان ہوا۔ وہ ہڑبڑا گئی۔
”جی میں ٹھیک ہوں۔“ وہ جھینپ کر کہتی اٹھ بیٹھی۔
”تم فریش ہو کر آؤ، میں ویٹ کر رہا ہوں۔ پھر ناشتہ کرنے چلتے ہیں۔“ یافث نے اس کی پشت پر پھیلے بالوں کو نرمی سے چھوتے ہوئے کہا تو اوزگل نے یافث خان کی جانب توجہ دی۔
وہ فریش چہرہ لیے سفید کاٹن کے لباس میں اس کے سامنے موجود تھا۔ صبح جاگ کر فریش ہوا اور اسے جگانے کی بجائے اس کے پاس نیم دراز اسے سویا ہوا دیکھتا رہا تھا۔ اوزگل خفت زدہ سی لب کاٹتی اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گئی۔ یافث لبوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ سجائے اپنا موبائل چیک کرنے لگا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”ثمر خان نے فون کیا تھا صبح۔۔ کہہ رہا تھا زرگل آئی ہوئی ہے۔ اوزگل کو بھی ایک دو دن کے لیے بھیج دیں، بہنیں مل بھی لیں گی اور کچھ وقت ساتھ گزار لیں گی۔“ خان امروز نے ناشتے کی ٹیبل پر یافث خان کو بتایا تو اوزگل نے بھی اجازت طلب نظروں سے یافث کو دیکھا۔
”شام کو چھوڑ آؤں گا، کتنے دن رہنا ہے؟“ یافث نے اوزگل کی طرف دیکھا۔ شرمائی لجائی سی گلابی چہرہ لیے وہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔ خان بیگم کی مسکراتی نظریں اوزگل پر ٹکی تھیں۔
”تم نے واپس کب جانا ہے؟ ابھی تو یہیں ہو پھر دو تین دن کے لیے بھیج دو۔۔ پڑھائی کی مصروفیات میں اس کا تو ماں باپ کے ہاں اتنا جانا ہی نہیں ہوتا۔“ دی جان نے مشورہ دیا تو وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔
”ایک دن کافی ہے، میں بھی کوئی مہینہ نہیں رہوں گا۔ بعد میں چلی جائے گی ملنے۔۔ آج چچا جان نے بلوایا ہے تو ایک رات ان کے پاس رک جائے۔“ یافث نے ایک ترچھی نظر اوزگل پر ڈالی۔ چائے پیتی وہ سر ہلا رہی تھی، یافث کو اس کا انداز کچھ متذبذب سا لگا تھا۔
شاید وہ کچھ دن ماں باپ کے پاس رہنا چاہ رہی تھی، یقیناً اکیلے میں اس سے زیادہ دن کی اجازت مانگنے والی تھی۔ وہ آہ بھر گیا، اس دشمنِ جان کو کیسے سمجھاتا وہ ایک دن کے لیے بھی بہت مشکل سے بھیج رہا تھا ورنہ وہ ایک ایک پل اس کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔
ناشتے کے بعد وہ دی جان کی ہدایت پر تیار ہونے کے لیے کمرے میں گئی تو یافث خان باہر ہی بیٹھا رہا۔ نا اس کے پاس جائے نا وہ زیادہ دن کی اجازت مانگے مگر اس کے موبائل پر کچھ دیر بعد اوزگل کا میسج آیا، وہ اس کا میسج پڑھ کر آہستگی سے ہنسا۔
”روم میں آئیں، بات کرنی ہے پلیز۔۔“ وہ درخواست کر رہی تھی۔ وہ اٹھ کر کمرے میں گیا۔ سامنے بےچینی سے ٹہلتی اوز اسے دیکھ کر رک گئی۔
”کیا بات کرنی ہے؟“ وہ صوفے پر بیٹھتا فرصت سے اسے دیکھنے لگا۔ گلابی رنگ کے کپڑوں میں وہ خود بھی گلابی سی گڑیا لگ رہی تھی۔
”آپ کی طبیعت اب ٹھیک ہے؟ اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تو میں مورے سے معذرت کر لوں گی۔“ وہ اس کی فکر کر رہی تھی، یافث ایک دم سیدھا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ کیا سمجھ رہا تھا اور اوزگل کیا بول رہی تھی۔ اس نے ایک دم اوزگل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”اتنی فکر مت کرو، مجھے کچھ ہو جائے گا۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، تمہاری توجہ نے ٹھیک کر دیا ہے۔ تمہیں گھر والے بلا رہے ہیں، زرگل آئی ہوئی ہے تو چلی جاؤ، بس زیادہ دن مت رکنا۔۔“ وہ مسکراتے ہوئے اسے خود سے لگائے اس کے گلابی رخسار پر لب رکھ گیا۔ اوزگل سمٹ سی گئی تھی۔
”آبا جان کو کیا پتا زرگل کو مجھ سے ملنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ میں اس کی موجودگی میں جاؤں یا نا جاؤں، ایک ہی بات ہے۔ بلکہ اسے شاید میرا نا ہونا زیادہ اچھا لگتا ہے۔“ وہ افسردگی سے مسکرائی۔ یافث سنجیدہ ہوا۔
”اوز تم اسے اوائڈ کرنا چھوڑ دو، نارمل بی ہیو کیا کرو۔ وہاں جایا کرو، ماں باپ سے ملا کرو۔ مطمئن رہا کرو اور زرگل کی باتوں کو دھیان مت دیا کرو پھر وہ بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ تمہارا اوائڈ کرنا اور اس کے غصہ سے پریشان ہو کر چھپنا اسے مزید پاگل پن پر اکساتا ہے۔“ یافث نے اسے نرمی سے سمجھایا تو اوزگل جھلملاتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کچھ نہیں جانتے۔“ وہ اداسی سے نظر جھکا گئی۔ وہ نہیں جانتا تھا زرگل کو اوزگل کیوں بری لگنے لگی۔ اسے کیا خبر یہ رویہ کب سے بدلنے لگا تھا۔ وہ دونوں کم عمر لڑکیاں تھیں، کم عمری کی خالص محبت جان لیوا ہوتی ہے اور ان دونوں کو یافث خان سے محبت ہوئی تھی۔
زرگل کو جب سے پتا چلا تھا جس خان زادہ کو وہ شوق سے دیکھتی ہے وہ اسی کی بہن کا منگیتر ہے۔ اسے اپنی بہن سے جلن ہونے لگی تھی۔ وہ اسے خان زادہ کے ساتھ تصور کر کے چڑتی تھی۔ اسے لگتا تھا وہ ہار گئی ہے، قسمت یا نصیب کے چکر میں نہیں پڑتی تھی۔ اسے تو صاف صاف یہ ناانصافی لگتی تھی کہ جو اسے پسند تھا وہ اوزگل کا کیوں تھا۔۔
اوزگل بھی یافث خان کے لیے روئی تھی اور زرگل بھی اسی کے لیے پاگل تھی۔ فرق کہاں تھا، اوزگل کا یافث خان پر حق تھا اور زرگل کی محبت پرانی بہت تھی۔ زورک خان کو دونوں دوست سمجھتی تھیں، ان کے لیے وہ الگ تھلگ رہنے والا سنجیدہ سا یافث خان زیادہ پرکشش تھا۔ جو میسر نہیں تھا وہی پسند آیا تھا۔ وہ یہ بات یافث خان کو کیسے سمجھاتی۔
”میں سب جانتا ہوں۔“ یافث کے الفاظ پر اوزگل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔ وہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں وہ تم سے کیوں دور رہتی ہے، اسے کیا غصہ ہے۔ میں سب جانتا ہوں اوز۔۔ میں بچہ نہیں ہوں۔ مجھے لوگوں کی پہچان ہے اور زرگل تو میرے سامنے کھل چکی تھی۔ اس نے کچھ چھپایا ہی نہیں۔“ وہ گہرا سانس بھر کر بولا۔
اوزگل کا خفت سے چہرہ سفید پڑ گیا۔ زرگل کی چوری زورک خان کی نظر میں آتی تو اس کا گھر تباہ ہو جاتا اور یہ چوری کی یافث خان کی نظر میں آئی تھی تو اوزگل کی نظر میں اصل تباہی تو یہی تھی۔ اس سے تو شرمندگی کے مارے نظر نہیں اٹھ رہی تھی۔
”اس لیے سمجھا رہا ہوں، نارمل ری ایکٹ کیا کرو۔ اس کی خوشی کے لیے مجھ سے دور ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے سامنے ہمارے رشتے کا شو آف بھی مت کرنا۔۔ لیکن جتنا تم اوائڈ کرو گی، اسے لگے گا وہ ٹھیک ہے اور تم نے اس کے ساتھ غلط کیا ہے۔ تم نے کچھ نہیں کیا اوز۔۔“
یافث خان نے اسے سمجھاتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں، وہ خوامخواہ ایک بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ اس نے کچھ نہیں کیا تھا مگر وہ ہر بار چھپتی تھی۔ زرگل کے رونے پر گھبرا جاتی تھی۔ وہ کئی بار یافث خان کو بھی الزام دے بیٹھی تھی۔
اگر وہ اس کا منگیتر ہی نا ہوتا، اگر وہ ان کے درمیان نا آتا تو ان بہنوں میں اتنے فاصلے کبھی پیدا نا ہوتے۔ کاش ان دونوں کو اسی ایک سے محبت نا ہوتی۔ اس نے اس بات کا الزام یافث خان کو دیا تھا، کتنی پاگل تھی بات بڑھاتی جا رہی تھی۔ قصور اس کا نہیں تھا، قصور تو یافث خان کا بھی نہیں تھا۔
”چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسے روتی ہو، پریشان کر دیتی ہو۔۔ ریلیکس ہو جاؤ اور اگر میرے ساتھ جانے سے انکمفرٹیبل ہو تو ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا۔۔“ یافث نے نرمی سے اس کا سر تھپکا۔ اوزگل سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”آئم سوری۔۔ میں واقعی ڈرائیور کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔“ وہ بھیگی آنکھوں کو رگڑتی بےچارگی سے بول رہی تھی۔ زرگل آئی ہوئی تھی، وہ یافث خان کے ساتھ جاتی تو شاید زرگل کو اس کا آنا ہی اچھا نہ لگتا۔
”ڈونٹ وری، اس میں کیا پریشانی ہے۔ تم تیاری کر کے ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ، اتنا دور تو نہیں جانا اور اس بار ایزی ہو کر رہنا اوز۔۔ زرگل اپنی زندگی میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ وہ تمہیں پیچھے دھکیل رہی ہے اور تم اس کا پورا ساتھ دے رہی ہو۔ آئندہ یہ پاگل پن مت کرنا۔“ یافث اس کے آنسو صاف کرتا اسے سمجھا رہا تھا۔
اوزگل نے سر ہلا کر اس کے سینے پر دیکھا تو سفید کرتا پر آنسوؤں کے نشانات واضح ہو رہے تھے۔ وہ شرمندگی سے ان نشانات کو صاف کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ یافث نے اس کی حرکت پر سر جھکا کر اپنے کرتا کو دیکھا۔
”میں نے۔۔ یہ خراب کر دیا ہے۔“ وہ شرمندگی سے بولی۔
”کچھ خراب نہیں ہوا، سب ٹھیک ہے۔ تم جاؤ۔۔“ وہ اپنے سینے پر ان نشانات کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپاتے ہوئے اطمینان سے بولا۔ اوزگل اٹھ کر منہ دھونے چلی گئی، دل پر جو بوجھ تھا وہ اب ہٹا تو سب منظر اچھے لگ رہے تھے۔ وہ چہرہ تھپتھپاتی باہر آئی۔
”میں اب چلی جاتی ہوں، آپ کل صبح مجھے لینے آ جائیے گا۔ میں سب سے کہہ دوں گی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے میک اپ کے سامان کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔
”تم میرے پاس جلدی آنے کے لیے ان کے سامنے جھوٹا بہانہ بناؤ گی؟“ یافث مسکراہٹ دبائے اس سے پوچھ رہا تھا، اوزگل نے گڑبڑا کر اسے دیکھا۔
”بہانہ نہیں، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ناں ابھی۔۔“ وہ اس کی گہری نظروں سے نظریں چراتی حواس باختگی سے وضاحت دے رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں اوز۔۔ تمہیں میرے پاس آنے کے لیے بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ بےاختیار ہنس پڑا۔ اوزگل خفت زدہ سی رخ پھیر گئی۔ یافث اٹھ کر اس کے پاس گیا اور شیشے میں اس کا عکس دیکھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھتا اس کی طرف جھکا۔
”لیکن تمہیں یہی کرنا چاہیے، میں تمہیں کل صبح لینے آ جاؤں گا۔ تم کہہ دینا یافث خان اب تمہارے بغیر بیمار ہو جاتا ہے۔“ وہ بےباک نظروں سے اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اوزگل جھینپ کر سر جھکا گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
زرگل صوفے پر نیم دراز پیر جھلاتے ہوئے موبائل چلا رہی تھی، سرخ و سفید رنگت دمک رہی تھی۔ بےڈول سراپا اب اچھا خاصہ موٹاپے میں بدل چکا تھا۔ انگلیوں میں پہنی سونے کی نفیس انگوٹھیاں، سونے کے کنگن اور گلے میں پہنا لاکٹ۔۔۔ لبوں پر گہرے رنگ کی لپ اسٹک لگائے زرگل کے انداز میں خاص شاہانہ پن نمایاں ہوتا تھا۔
کچھ فاصلے پر بیٹھی بیگم ثمر ملازمہ سے اپنی نگرانی میں صفائی کروا رہی تھیں۔ کندھے پر رکھی سٹائلش خوبصورت شال اور شفاف رنگت والی بیگم ثمر کے انداز میں ملازمین سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ نرمی ہوتی تھی۔
”بیگم صاحبہ دوپہر کے کھانے میں آج کیا بنانا ہے؟“ ملازمہ نے آ کر سوال کیا تو وہ چونک گئیں۔
”آج اوزی آ رہی ہے، اس کے لیے وائٹ قورمہ اور قیمے والا پلاؤ بنا لو۔۔ اسے بہت پسند ہے۔ میٹھے میں بھی کبھی بنا لو، وہ تو شوق سے نہیں کھاتی لیکن خان زاد میٹھے کا شوقین ہے۔“ بیگم ثمر کی بات پر زرگل چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔
”آج آئے گی تو اس کی کلاس لینا آپ، ڈھیل نہ دیا کریں۔ وہ لوگ تو لحاظ کریں گے مگر آپ کو پتا ہونا چاہیے اوزگل کے نخروں کا کیا انجام ہو گا۔“ زرگل نے انہیں یاد دلایا۔ وہ ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرتی زرگل کو دیکھنے لگیں۔ ملازمہ چلی گئی۔
”زرگل ملازمین کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو، تم اپنے تماشے دکھا چکی ہو، اتنا کافی ہے۔ لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں ہوتی کہ ملازمین میں بھی تمہارے ازدواجی تعلقات پر بات ہو رہی ہو۔۔“ ثمر بیگم نے اسے ناراضگی سے گھورا۔
”میں نے کون سا تماشہ دکھایا ہے؟ آپ کے بھتیجے کی مہربانی ہوتی ہے۔ وہ ہر بار مجھے تکلیف دیتا ہے اور یہاں پھینک جاتا ہے۔ وہاں تو رونا بھی منع ہے، آپ چاہتی ہیں میں یہاں آ کر بھی نا روؤں۔۔“ زرگل آنکھیں بھر لائی تھیں، ایک دم غصے سے موبائل ٹیبل پر پٹخا۔
”میں اتنی پریشانی کا شکار ہوں، آپ کو میری پرواہ نہیں ہے۔ آپ کو اب بھی اوزگل کی فکر ہے۔ بس اس کی یہاں ویلیو ڈاؤن نا ہو باقی زرگل مرتی مر جائے۔“ وہ غصے سے بولتی اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ ثمر بیگم سر پکڑ بیٹھیں۔ ناجانے زورک خان کیسے اس کی بدمزاجی جھیل رہا تھا۔
جب بھی آتی تھی، آتے ہی رونا دھونا مچا دیتی تھی۔ ہر بار زورک خان کی شکایات لگاتی ملازمین کے سامنے بھی بولتی رہتی تھی۔ اب تو جب سے آئی ہوئی تھی اس کی مہربانی سے اوزگل اور یافث خان کے درمیان دوری بھی ملازمین کے سامنے آ چکی تھی۔ روکنے پر وہ اور زیادہ شور مچا لیتی تھی۔
وہ فکرمند سی اوزگل کا انتظار کرنے لگیں، وہ بارہ بجے کے قریب آئی تو اکیلی تھی۔۔ چہکتی باتیں کرتی فریش سی۔۔ لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ کا بسیرا تھا۔ اسے دیکھ کر بیگم ثمر چونک گئیں، دیکھ کر تو یہی لگتا تھا کہ سب ٹھیک ہے۔ ثمر خان بھی اس کے آنے کی اطلاع سن کر چلے آئے تھے۔
”خان زادہ ٹھیک تو ہے ناں؟ وہ کیوں نہیں آیا؟ اوزی بچے اس کا خیال رکھا کرو۔۔ دوبارہ ہمیں شکایت نا ملے، تمہارے ایگزامز کے چکر میں وہ بیمار ہو گیا اور تمہیں اپنی پڑھائی کی فکر تھی۔ تم سب اس حویلی کی لاڈلی بیٹی نہیں بہو بن چکی ہو۔“ ثمر خان نے اسے سمجھایا۔
”وہ ٹھیک ہیں آبا جان، میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ ان کی طبیعت کی وجہ سے میں نے کہا میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاتی ہوں۔ اس لیے نہیں آئے لیکن مجھے لینے وہی آئیں گے۔ زرگل بھی آئی ہوئی ہے کیا؟“ اوزگل باپ کو یافث خان کا بتاتی متلاشی نظروں سے زرگل کو ڈھونڈنے لگی۔ بیگم ثمر سنجیدہ ہو گئی تھیں۔
”ہاں زری کمرے میں ہو گی۔“ وہ ابھی بتا رہے تھے جب زرگل بھی اپنے کمرے سے نکل آئی۔ سرخ لباس میں گوری چٹی صحت مند سی زرگل وہاں آ کر اس کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھ گئی۔ سونے سے لدی، مغرور سی۔۔ اوزگل نے خیریت پوچھی تو ابرو چڑھا گئی۔
”میں تمہارے سامنے ہوں، بالکل ٹھیک ہوں۔ ناجانے تم ہر وقت مجھ سے میری طبیعت پوچھ کیا جاننا چاہتی ہو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، تم سے تو زیادہ ٹھیک ہوں۔“ زرگل نے ہنس کر کہا۔ اس کے جملے پر اوز ماں باپ کے سامنے خفت زدہ ہو گئی۔
”زرگل وہ تمہاری خیریت پوچھ رہی ہے۔ آرام سے جواب دو دو۔۔ اتنے دن بعد دونوں ملتی ہو، یہ کیسے بات کر رہی ہو بہن سے؟ تم اپنا رویہ درست کرو۔۔“ ثمر خان نے اسے سختی سے ٹوکا تو وہ منہ بنانے لگی۔ اوزگل چپ سی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
کھانا سب نے ایک ساتھ کھایا تھا، کھانے کے دوران بھی اوزگل ماں باپ سے بات چیت کرتی رہی۔ شوق سے کھانا کھاتی وہ یافث کی ہدایت کے عین مطابق زرگل کو نظر انداز کیے رہی تھی۔ کھانا کھا کر ثمر خان تو کام سے چلے گئے، وہ ماں بیٹیاں ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں جب بیگم ثمر نے مزے سے انگور کھاتی اوزگل کو دیکھا۔
”تم یہ بتاؤ خان زادہ کو ساتھ کیوں نہیں لائیں، ہم نے تو سوچا دونوں آؤ گے۔ تم نے خود اس سے کہہ دیا ڈرائیور کے ساتھ جاؤ گی؟ اگر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو تم رک جاتیں، کوئی عقل ہے تم میں یا نہیں۔۔“ بیگم ثمر نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔
”وہ ٹھیک تھے مورے، ان کی اجازت سے ہی آئی ہوں۔ میں نے ڈرائیور کے ساتھ آنے کا اس لیے کہا تھا کیونکہ۔۔۔“ اوزگل ابھی بول رہی تھی جب زرگل نے تمسخر سے اسے دیکھتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”تمہاری شادی یافث خان سے ہوئی ہے یا ڈرائیور سے؟ عجیب انسان ہو، یہاں اگر کوئی شوہر لڑکی کو ڈرائیور کے ساتھ میکے بھیجے تو وہ زلت سمجھتی ہے۔ مجھے تو زورک خان کبھی بہت مصروف ہوں اور ڈرائیور کے ساتھ جانے کا کہیں تب بھی نہیں مانتی۔ میں تو حویلی جب بھی آؤں ان کے ساتھ ہی آتی ہوں۔“ زرگل بول رہی تھی۔
”اوزی تمہارا دماغ کیوں خراب ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے تمہیں سمجھایا بھی تھا کہ شوہر کا خیال رکھو، اسے توجہ دو۔۔ اسے تمہارا روکنا کتنا برا لگا ہو گا۔ مجھے پتا چلا ہے تم اس سے دور دور بھاگتی ہو۔ آخر تمہارا کیا مسئلہ ہے؟“ بیگم ثمر اس کی کم عقلی پر غصہ ہوئیں۔
”مورے ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ مجھ پر اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں، وہ مجھے لینے آئیں گے تو دیکھ لینا بالکل ٹھیک ہیں۔ انہیں میرا آنا برا نہیں لگا اور میں کیوں ان سے دور بھاگوں گی۔“ اوزگل روہانسی ہو گئی۔
”اسے برا ہی تو نہیں لگتا، میں جب شہر گئی تو یہ اپنے فلیٹ میں مزے سے رہ رہی تھی۔ ایک بار یافث خان کے پاس نہیں گئی۔ اگلے دن بھی زورک خان نے ملنے کے لیے بلایا تو مہمانوں کی طرح کھڑے کھڑے چادر اٹھا کر چلی آئی۔
اور اتنا فضول سادہ سا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ نا کوئی میک اپ، نا زیور۔۔ ملازموں والا حال تھا اور آتے ہی صوفے پر بیٹھتی زورک خان سے باتیں کرتی رہی، ایک بار کچن میں نہیں جھانکا اور اس کا شوہر آفس سے آ کر خود چائے بناتا، ہمارے سامنے ٹیبل سجا رہا تھا۔
ساری مہمان نوازی اسی نے کی مورے۔۔ یہ محترمہ تو ایسے بیٹھی تھی جیسے کسی انجان شخص کے گھر مہمان بیٹھی ہو۔۔“ زرگل نے ایک بھی بات چھپائے بغیر پوری تفصیل ماں کو بتائی۔
”تب تو۔۔ میں دراصل۔۔“ اوزگل ہکلا گئی، سمجھ نہیں پائی کیا وجہ دے۔ جو بات تھی سچ ہی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا زرگل اس طرح ماں کو بتا دے گی۔ بیگم ثمر کا تو یہ سن کر ہی دماغ گھوم گیا۔۔۔
جاری ہے