Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 24 Complete

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چوبیس

یافث اسے بہلاتا سمجھاتا چپ کروا کر دوست سے ملنے چلا گیا۔ پیچھے اوزگل منہ ہاتھ اچھے سے دھو کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ اپنے کپڑے غور سے دیکھنے لگی، کھلتے رنگوں کے قیمتی سٹائلش لباس جو خان بیگم اس کے لیے بنواتی تھیں، کچھ ثمر بیگم اس کو تحفہ میں دیتی رہتی تھیں۔ جدید تراش خراش والے۔۔
اس نے اپنی آنکھوں سے ملتے رنگ والا نیلا فراک نکال لیا۔ وہ سلک کا نہایت خوبصورت انارکلی فراک تھا، ویلوٹ کی پیٹی اور بازو تھے۔ پورا نیلا اور کوئی رنگ شامل نہیں تھا۔ اوزگل نے وہی فراک پہن لیا۔ قد آدم شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا جائزہ لیا تو اس کے نازک مرمریں وجود پر وہ لباس بہت جچ رہا تھا۔
اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے میک اپ کے سامان کو توجہ دے دیکھا، چیزیں کھولتی بند کرتی رہ گئی، سمجھ نہیں آیا کیسے میک اپ کرے۔۔ یافث خان کے لیے بن سنور رہی تھی مگر اتنا زیادہ نہیں سجنا چاہتی تھی کہ وہ چونک جاتا۔۔
لپ اسٹک کھولی پھر خیال آیا ابھی تو رات کا کھانا سب کے ساتھ کھانا تھا۔ اسے شرم سی آئی تھی، آج ہی تو سب کے سامنے عزت افزائی ہوئی تھی، اب وہ سج سنور کر سامنے بیٹھ جاتی۔ یعنی ظاہر کرتی کہ شوہر کے لیے سولہ سنگھار ہو رہے ہیں۔ جلدی سے لپ اسٹک واپس رکھی، کاجل بھی رکھ دیا۔۔
ہلکا سا کلون لگا کر گرم شال کندھوں پر پھیلاتی کمرے سے باہر نکلی۔ دی جان اسے دیکھ کر بلائیں لینے لگی، وہ ان کے حصار میں سمٹتی شرمندہ سی چہرہ چھپا گئی۔ خان بیگم بھی محبت سے اسے دیکھتی دل میں ہی یافث خان کے سدھرنے کی دعائیں کرنے لگیں۔
”اپنی ماں کی باتوں کو محسوس نہیں کرنا، وہ تمہاری بھلائی کے لیے سمجھا رہی تھی۔ خان زادہ ہمارا خون ہے مگر کیا کریں مرد زات کا بھروسہ نہیں ہوتا ناں۔۔ اس نے بہت چاہ سے شادی کی تھی، تمہارا خیال رکھتا ہے ناں؟ اگر تم بھی خیال رکھو تو قدر کرے گا ورنہ یہی ہوتا ہے پھر مرد کا دل بدل جاتا ہے۔“
دی جان اسے خود سے لگائے پیار سے سمجھانے لگیں۔ اوزگل نے سہم کر انہیں دیکھا۔ آج کے دن تو سب یہی زور دے رہے تھے کہ وہ بدل جائے گا۔ وہ تو کچھ اور کہہ رہا تھا، وہ سمجھ نہیں پائی اس کے اظہار کو سوچے یا ان بڑی بوڑھیوں کے تجربات کو۔۔
”ہاں اور اگر مرد خود بھی دور رہتا ہو تو عورت اپنا کر لیتی ہے۔ اس کے پاس رہا کرو، اس کا خیال رکھا کرو۔ ایسے ہی پیارے پیارے کپڑے پہنا کرو، اتنی پیاری معصوم سی بیٹی ہے ہماری۔۔ وہ نظر انداز کر ہی نہیں پائے گا۔ اس کے دل میں اپنا مضبوط مقام بنا لو اوزی۔۔“ خان بیگم نے بھی اسے سمجھایا۔
اوزگل نے ان کے سمجھانے پر سر ہلایا، وہ ان کی باتوں کا پس منظر جانتی تھی۔ یافث خان نے انہیں ان فاصلوں کی وجہ یہی بتائی تھی کہ وہ اوزگل کو قبول نہیں کر رہا۔ اسے شرمندگی سی ہوئی تھی، اگر خان بیگم جان لیتیں کہ اوزگل نے یافث کو خود سے دور کیا ہوا تھا۔ وہ ان کا ردعمل تصور کر کے ہی جھرجھری لے گئی۔
”امو جان میں ان کا خیال رکھتی ہوں، اب وہ بیمار تھے تو میں ان کے ساتھ ساتھ رہی تھی، ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئی تھی۔ میں خود کھانا بنا کر بھی دیتی تھی۔ میں پڑھائی کے ساتھ گھر بھی سنبھال سکتی ہوں۔“ اوزگل نے انہیں صفائی دی، کوئی اسے یہ نا کہہ دے اس لاپروائی کی وجہ تعلیم تھی۔
”میں صدقے۔۔ مجھے پتا ہے میری اوزی بہت پیاری بچی ہے، خان زادہ کی خالہ آئی تھی تو وہ بھی تعریف کر رہی تھی۔۔“ دی جان پرجوش سی اسے گلے لگا کر چومنے لگی، انہیں تو خیر وہ تھی ہی بہت پیاری۔۔ چاہے کچھ بھی نا کرتی، انہیں بہت عزیز تھی۔ مگر یہاں یافث خان کی مہربانی سے خان بیگم بھی اس کی قدر کرنے لگی تھیں۔
وہ رات تک ان دونوں کے ساتھ باتیں کرتی رہی، ان کی نصیحتیں سنتی رہی۔ کچھ مشورے بھی ملے، تھوڑے سبق بھی پڑھائے گئے کہ کیسے شوہر کو مٹھی میں کرنا ہے وہ جو پہلے ہی اس کی مٹھی میں تھا۔ وہ بڑی توجہ سے سنتی رہی، یہ سب تو اس کے کام بھی آ سکتا تھا۔
کل ملا کر دو نسخے تھے، شوہر کے لیے اچھے اچھے کھانے بنانا اور اس کے لیے صاف ستھرا بن سنور کر رہنا تھا۔ اس نے وہ دونوں نسخے پلو سے باندھ لیے، ابھی تو یافث خان اسے سب اچھا اچھا دکھا رہا تھا مگر کوئی بعید نہ تھی کبھی واقعی یہاں وہاں نگاہیں بھٹکنے لگیں تو علاج جانتی ہو۔۔
یافث خان باہر سے آیا تو اسے خان بیگم اور دی جان کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر وہیں چلا آیا۔ گہرے نیلے رنگ کے فراک میں وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی، چمکتی شفاف رنگت میں گلابیاں چھلک رہی تھیں۔ شال کو بار بار سر ٹکاتی چہرے کے گرد بکھری لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے اوزگل نے نظر اٹھا کر سامنے بیٹھے یافث کو دیکھا۔
وہ مسکراتی نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا، اس کی نیلی آنکھوں کو خود پر ٹکا دیکھ کر اپنی دو انگلیاں لبوں پر رکھ کر اوزگل کی طرف کر گیا، وہ اس فلائنگ کس پر ایک دم سرخ پڑ گئی، گھبرا کر رخ پھیرتی شال میں چہرہ چھپانے لگی، وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”کیا بات ہے، اکیلے بیٹھے کیوں ہنس رہے ہو۔۔؟“ دی جان اور خان بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ نفی میں سر ہلاتا اوزگل کو دیکھنے لگا۔ وہ خفت زدہ سی خوامخواہ نظریں چرا رہی تھی گویا خان زادہ کے اس پاگل پن میں اس کا قصور ہو۔۔
اس کے بعد کھانا کھانے تک اوزگل نے دوبارہ اس کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ آغا جان سے باتیں کرتے ہوئے، خان بیگم کی تعریفیں سنتی، دی جان کی نصیحتیں سنتی وہ خود کو مصروف ظاہر کرتی رہی۔ یافث نے کھانے کی ٹیبل پر بہت بار بہانے سے پکارا تب بھی وہ سر جھکائے اس کی پکار نظر انداز کرتی رہی۔

وہ کھانے کے بعد آغا جان کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہا اور اوزگل کمرے میں چلی گئی۔ اس بار کمرے میں جا کر بھی اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ یافث خان کے لیے میک اپ کرتی یا اپنی نوک پلک سنوارتی۔ خود پر پرفیوم چھڑکتی سمٹ کر بیڈ پر بیٹھ گئی، وہ تو ایسے ہی شوخیوں پر اترا ہوا تھا، اس کے سجنے پر تو ناجانے کیا کرتا۔

زورک خان غصے سے بھرا مردان خانے سے اندر آیا تھا، اس کی ماں سر پکڑ کر سامنے بیٹھی تھی۔ ساتھ کھڑی ایک کم عمر ملازمہ جلا ہوا ہاتھ لیے بری طرح رو رہی تھی۔
”پھر کیا ہو گیا ہے؟ ہر آئے دن کوئی نا کوئی تماشہ۔۔“ زورک خان اکتائے ہوئے لہجے میں ماں سے پوچھ رہا تھا، اس کے آنے پر ملازمہ سر جھکائے بےآواز رونے لگی۔
”زرگل کے ہوتے کیا ہو سکتا ہے، بس کچھ عرصہ سکون کا گزار سکی ہے۔۔ دیکھو اس لڑکی کا کیا حال کر دیا ہے۔ چائے مانگ رہی تھی، مجھ سے غلطی ہوئی کہہ دیا دودھ گرم کر کے جا دو، وہی گرم دودھ اٹھا کر اس لڑکی کے ہاتھ پر الٹ دیا۔۔ انوکھی ماں بن رہی ہے۔۔ ہر وقت شور، ہر وقت چخ چخ۔۔ حویلی کا سکون برباد ہو گیا ہے۔“
زورک خان کی والدہ بےزار لہجے میں بول رہی تھیں، بہت پیار محبت سے رکھا تھا مگر زرگل جب سے ماں بننے کے مراحل سے گزر رہی تھی، اس کا چڑچڑا پن حد سے بڑھ چکا تھا۔ زورک نے بےاختیار ملازمہ کی طرف دیکھا جو سہمی ہوئی سی جلا ہوا ہاتھ لیے کھڑی تھی۔
”برکت خان سے کہو ہسپتال سے پٹی کروا لائے تمہاری۔۔ ہاتھ ٹھیک ہونے تک کام نہیں کرنا تم۔۔“ زورک خان نے اس ملازمہ کو ہدایت دے کر ڈرائیور کے پاس بھیجا اور خود کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ زرگل سامنے آڑھی ترچھی بیڈ پر پڑی تھی، اسے دیکھ کر منہ بسورا۔
”ماں بننا کوئی جرم تو نہیں خان صاحب، آپ سب نے تو میرا کھانا پینا بند کر دیا ہے۔ صبح سے تیسری مرتبہ چائے مانگ رہی ہوں، سر میں شدید درد ہے۔ مگر دو بار ملازمہ نے ان سنا کر دیا اور تیسری بار دودھ لے آئی۔۔“ زرگل اس سے شکایت لگا رہی تھی، وہ اس کے پاس بیٹھتا اسے گھورنے لگا۔
”اور تم نے وہی گرم دودھ اس کے ہاتھ پر الٹ دیا، تمہیں شرم نہیں اس کم عمر لڑکی پر ایسے ظلم کرتے ہوئے۔۔“ زورک خان نے غصے سے سوال کیا، وہ ٹھٹک کر اٹھ بیٹھی۔
”میں نے الٹا نہیں بس واپس دیا تھا، اس کے ہاتھ سے گلاس چھلک گیا۔ اس میں میری کیا غلطی ہے۔“ وہ ماتھے پر بل ڈالتی خفگی سے بول رہی تھی۔ الٹا مزاج خراب ہو رہا تھا۔
”جھوٹ مت بولو زرگل، اس بچی کا ہاتھ پورا جلا ہوا تھا۔ دودھ چھلکنے سے کوئی اتنی بری طرح نہیں جلتا۔“ زورک کا ضبط جواب دے رہا تھا۔
”وہ پندرہ برس کی لڑکی، بچی اور بےچاری ہے؟ پھر میں بھی تو سترہ سال کی ہوں۔ جب شادی ہوئی سولہ برس کی تھی، آپ کے لیے چائے بناتے ہوئے میرا بھی ہاتھ جلا تھا تب آپ نے کہا گھر کے کاموں میں ایسا ہو جاتا ہے۔ بیوی پر ترس نہیں آیا اور ملازمہ سے ایسی محبت۔۔ کیا چکر چل رہا ہے۔“ زرگل تیکھے لہجے میں بول رہی تھی۔
”زرگل۔۔“ زورک خان غصے سے دھاڑ اٹھا۔ بمشکل ہاتھ اٹھانے سے خود کو باز رکھا تھا۔ زرگل کا دل ایک لمحے کے لیے سہما تھا مگر وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہی تھی۔
”جب تمہارا ہاتھ جلا تین دن تم نے اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا اور میں تمہیں کھانا کھلاتا رہا تھا۔ تمہارا ہاتھ چائے بناتے ہوئے جلا تھا اور اس کا ہاتھ تم نے جان بوجھ کر جلایا ہے، انسانیت ختم ہو گئی ہے تم میں؟ کیسی جاہلانہ حرکتیں کر رہی ہو۔۔“ وہ سختی سے بولا۔
”ہاں جاہل ہوں، پڑھنے لکھنے نہیں دیا، جاہل رکھا ہے تو جاہلانہ حرکتیں ہی کروں گی ناں۔“ زرگل چیخی تو زورک خان نے اس کا منہ دبوچ کر اس کی سنہری آنکھوں میں آنکھیں گاڑھیں۔
”زرگل تم میرے بچے کی ماں بن رہی ہو، اس لیے تمہیں عزت دے رہا تھا۔ محبت اور توجہ دے رہا تھا لیکن تمہیں شاید غلط فہمی ہو گئی ہے کہ زورک خان میں دم خم نہیں رہا۔۔ عزت کسی کسی کو راس آتی ہے اور تم ان عورتوں میں سے ہی نہیں ہو جنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے۔“ وہ سرد لہجے میں غرایا۔
”میں۔۔ میں نے ایسا کیا کر دیا۔ نیند پوری نہیں ہوتی، طبیعت بوجھل ہے۔ سر میں درد تھا چائے مانگ لی تو کیا جرم کر دیا تھا۔ اس ملازمہ کے ہاتھ پر میں نے دودھ نہیں گرایا۔ آپ سے اب میں برداشت نہیں ہوتی تو مجھے واپس چھوڑ آئیں۔۔“ وہ سسکتے ہوئے بولی تو زورک خان کی گرفت ڈھیلی پڑی۔
”اپنی نیند نا ہونے کا الزام اپنی حالت کو مت دو، راتوں کو دیر تک موبائل چلانے لگی ہو۔۔ تمہیں موبائل لے کر دینے کی جو غلطی کی ہے اس پر بھی پچھتا رہا ہوں، کوئی ایکٹیویٹی نہیں رہی۔ سارا دن کمرے میں پڑی کھا پی رہی ہو اور موبائل یوز کر رہی ہو، دیکھو خود کو۔۔ کیسے عورت لگنے لگی ہو۔“
زورک نے تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیا تو وہ گڑبڑا کر خود کو شال میں چھپانے لگی۔ موٹاپا بڑھتا جا رہا تھا۔ زورک اب اسے کچھ کہتا نہیں تھا بس اسی بات کا فائدہ اٹھا رہی تھی۔ وہ رونی صورت بنا گئی۔
”میں ملازمین سے کہہ دیتا ہوں آئندہ تم جو مانگو گی تمہیں دیا جائے گا۔ لیکن ملازمین سے اپنا رویہ بہتر کرو زرگل، یہ تمہاری پرانی عادت ہے۔ ملازمین کو کم زات سمجھتی ہو۔ لیکن اب تمہیں بچوں کی تربیت بھی کرنی ہے، بچے ماں سے سیکھتے ہیں اور اگر میرے بچوں میں تمہاری وجہ سے ایسی جہالت پیدا ہوئی تو پھر میں تمہاری تربیت اپنے انداز سے کروں گا۔“
زورک کے لیے غصہ ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ زرگل نے اسے اتنے دن بعد پھر سے غصے میں دیکھا تو پریشان ہو گئی۔ کھسک کر اس کے قریب ہوتی اس کے سینے سے لگ گئی۔
”میں غصے میں آ گئی تھی، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ مجھ پر غصہ کیوں کر رہے ہیں۔ میں بھی تو مشکل میں ہوں خان صاحب۔۔“ وہ رونی صورت بنا کر زورک کو دیکھنے لگی، معصومیت سے آنکھیں جھپکاتی ہمیشہ والا حربہ آزما رہی تھی۔ زورک خان غصہ کرنے آیا تھا مگر آہ بھر کر اسے خود سے لگا گیا۔
”زرگل مجھے سختی پر مجبور مت کیا کرو، میں تمہارے لیے آخری حد تک نرمی دکھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن تم کبھی کبھی میرا ضبط آزماتی ہو۔ اب تھوڑی تمیز سیکھ لو تم بھی۔۔“ زورک نے اسے خفگی سے سمجھایا تو وہ فرمانبرداری سے سر ہلانے لگی۔
”دوبارہ یہ تماشہ نا ہو زرگل، میں اگلی بار بالکل نرمی نہیں کروں گا۔ اگر تم اپنے مزاج میں نرمی لاؤ گی تو میں بھی خیال رکھوں گا ورنہ مجھ سے اچھے کی امید مت رکھنا۔۔“ زورک نے اسے سختی سے وارن کیا تو وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپائے بیٹھی رہی۔
وہ اسے سمجھا کر کمرے سے نکلا اور ملازمین کو اس کے لیے چائے بنانے کی ہدایت دینے کے ساتھ سختی سے سمجھایا کہ اب زرگل کچھ بھی مانگے، اسے دے دیں۔ خان داد بھی حویلی میں ہوئے صبح کے ہنگامے کا احوال سن چکے تھے، بیوی کو سمجھانے لگے کہ زرگل کم عمر ہے، وہ بڑی ہیں وہی صبر کریں۔
ایک دم جیسے ماحول بدل سا گیا تھا، ملازمین کو بھی اندازہ ہو گیا اب زرگل کے مزاج کے خلاف کچھ نہیں کرنا۔ مجبوری تو وہ بچہ تھا جو ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا۔ وہ کم عمر تھی مگر زورک خان حویلی کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس حساب سے زرگل کی بھی اہمیت زیادہ تھی۔ اب تو حویلی کو اگلا وارث دینے والی تھی۔
ملازمہ اس کے لیے چائے بنا کر لائی تو زرگل کے لبوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی، اب زرگل مزید کسی زمہ داری کو نہیں اٹھانے والی تھی۔ اب اسے اپنی مرضی سے جینا تھا اور اب تو وہ زورک خان کی کمزوری بھی بن چکی تھی۔ یہ بات اسے جب سے سمجھ آئی تھی، تب سے اس کا مزاج پرانے رنگ میں ڈھل گیا تھا۔
مگر وہ یہ نہیں جان پائی اپنی ماں کے ہوتے ہوئے ملازمین کو زرگل کی بات کو اہمیت دینے کا کہنے کے بعد زورک خان مردانے میں سر جھکائے خاموش سا بیٹھا رہا تھا۔ اسے اپنی ماں کا چپ ہو جانا اچھا نہیں لگا تھا، اسے یہ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اب ملازمین یہ سمجھ بیٹھے تھے حویلی کی مالکن زرگل ہے۔

اس کے دل میں زرگل کے لیے جو نرمی اور محبت تھی، وہ اس وقت پھیکی پڑ رہی تھی۔ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کمرے میں جا کر زرگل کی خبر لے یا اس کے پاس بیٹھے۔۔ وہ وہیں بیٹھا رہا، زرگل کے بلاوے پر بھی نہیں گیا۔

یافث خان کمرے میں آیا تو اوزگل بیڈ پر نیم دراز نیند میں تھی، وہ اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس کے پاس جا بیٹھا۔ اس کے قریب ہوا تو چونک گیا، اوزگل نے اچھا خاصہ پرفیوم لگایا ہوا تھا۔ تیز خوشبو نے یافث خان کے اعصاب پر اثر ڈالا تھا۔ وہ اوزگل کے گرد بازو پھیلائے اسے ٹھیک سے سلانے لگا۔
بستر پر لیٹتے ہی اوزگل کی آنکھ کھل گئی، وہ یافث خان کو دیکھتی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، بلینکٹ کھولتے یافث نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ وہ آنکھیں رگڑتی اسے دیکھ رہی تھی۔ بال کھل کر کندھوں پر بکھر گئے تھے۔
”کیا بات ہے؟ میں نے جگا دیا۔۔“ یافث نے نرمی سے اس کے بال سمیٹتے ہوئے اسے دیکھا۔ شاید ابھی نیند میں تھی ورنہ شال کے بغیر وہ یافث خان کے سامنے بیٹھنے کی حرکت کبھی بھول کر بھی نہیں کر سکتی تھی۔
”نہیں میں سو تو نہیں رہی تھی، میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی۔“ وہ مسکرا کر بولتی خود کو فریش ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ یافث کی نظریں اس کے سراپا پر الجھ گئیں۔
”ایسے ہوش ربا حلیہ میں میرا انتظار کیا جا رہا تھا، خدا خیر کرے مجھے مارنے کا ارادہ تو نہیں؟“ وہ ایک دم اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچتا اس کی نیند بھری آنکھوں میں شوخی سے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔
”میں نے آپ سے معافی بھی مانگنی تھی۔“ زرگل کے سوئے ہوئے دماغ میں اب باتیں بےترتیب ہو رہی تھیں۔ اسے معافی مانگنی تھی، پھر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا تھا، اس کا شکریہ ادا کرنا تھا اور پھر۔۔۔ یافث نے اسے سینے سے لگایا تو جو یاد آیا تھا، وہ بھی بھول گئی۔
”کس بات کی معافی؟ تمہیں اندازہ ہے اس وقت تم مجھے کس مشکل میں ڈال رہی ہو۔۔ یہ کیا رویہ ہے اوز اب مجھ سے ڈیمانڈ مت کرنا کہ میں تمہیں مزید آزادی دوں گا۔“ وہ خمار آلود لہجے میں بولتا اس کے بالوں میں چہرہ چھپاتے ہوئے گہرا سانس بھر گیا۔
اس کے حصار میں سمٹا وہ خوشبوؤں میں بسا وجود اسے پاگل کر رہا تھا۔ اوزگل نے شرم سے سرخ پڑتے ہوئے اس کے کندھے میں چہرہ چھپایا تو یافث خان اس کی خود سپردگی پر ٹھٹک گیا تھا۔ وہ اس کا چہرہ اپنے سامنے کرتا وارفتگی سے اسے دیکھنے لگا۔ یعنی یہ تیاری، یہ اہتمام۔۔ اس کے لیے تھا؟
”اوز۔۔“ اس نے اوزگل کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے اسے گھمبیر آواز میں پکارا تو وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ نیلی آنکھوں میں گلابی پن نمایاں ہو رہا تھا۔
”تمہیں میری محبت پر یقین آیا ہے یا سب کے سمجھانے کی وجہ سے صرف بیوی بن کر میرے قریب آ رہی ہو؟“ وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھنساتا اس کا چہرہ اپنے سامنے کر گیا۔ لہجہ سنجیدہ تھا، سوالیہ نظریں اوزگل کے گلابی پڑتے چہرے پر ٹکی تھیں۔
”میں کمپرومائز نہیں چاہتا، بس اتنا بتاؤ کہ مجھ پر میری محبت پر تمہیں یقین تو ہے ناں؟ تمہیں محبت نہیں تو نا سہی۔۔ میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہے مگر میری محبت پر یقین تو کر سکتی ہو ناں؟“

یافث خان کے سوال پر اوزگل نے بےاختیار نظر جھکائی۔ یافث انتظار کر رہا تھا، اس کی گہری نظروں کے حصار میں بیٹھی اوزگل کے لیے بولنا مشکل ہو گیا۔

”آپ۔۔ تھکے ہوئے ہوں گے، سو جائیں۔“ وہ اس کی نظروں سے پزل ہوتی بلینکٹ میں چھپنے لگی، ایک دم جیسے ہوش حواس جگہ پر آئے تھے، کب سے بال بکھرائے بغیر شال کے اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ شرم نے اس پر اچانک حملہ کیا تھا مگر یافث خان نے رخ موڑتی اوزگل کو کھینچ کر اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ گڑبڑا گئی۔
”اوز۔۔ مجھے کوئی تھکن نہیں نا مجھے سونا ہے۔ پہلے مجھے جواب دو، تم نے کہا تھا تمہیں مجھ سے نفرت ہے۔ تمہیں مجھ پر غصہ تھا۔۔ بڑوں کے کہنے پر خود پر جبر مت کرنا، میں اتنے پیارے رشتے میں ایسی زبردستی بالکل نہیں چاہتا میری جان۔۔“ یافث نے اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکاتے ہوئے بےتابی سے کہا۔
”کیا تمہیں میں پسند نہیں؟ تمہیں مجھ سے نفرت ہے؟“ اس کی خاموشی پر یافث پریشان ہوا۔ اسے اوزگل سے محبت بھی تھی اور اس پر حق بھی تھا مگر اس کی گھبرائی ہوئی نظروں نے اسے روک رکھا تھا۔ اس نے ایک سال اوزگل کی رضامندی کا انتظار کیا تھا، اس کے بعد یوں جلد بازی میں اس رشتے کو اس پر مسلط کرتا تو اس کا انتظار رائیگاں جاتا۔
”جھوٹ تھا سب۔۔ ایسا کچھ نہیں آپ سے مجھے نفرت نہیں ہو سکتی، غصہ بھی نہیں تھا آپ پر۔۔“ وہ اس کے سوال پر تڑپ کر انکار کرنے لگی۔ وہ ایسی کوئی غلط فہمی نہیں چاہتی تھی۔ ایسا جھوٹ کتنا ازیت دے سکتا تھا اوزگل سے زیادہ بہتر کون جانتا تھا۔ اس کے انکار پر یافث نے توجہ سے اسے دیکھا۔
”میں۔۔ ہرٹ تھی۔ آپ نے کہا تھا آپ کو اوزگل اچھی نہیں لگتی۔ آپ نے امو جان سے کہا اوزگل آپ کے قابل نہیں ہے۔ میں بہت ہرٹ ہوئی تھی۔“ وہ اس سے شکوہ کرتی آنکھیں بھر لائی تھی۔ یافث نے نرمی سے اس کی بھیگی آنکھوں کو چھوا۔
”وہ سب تو کلئیر ہو گیا ناں، اب تو کوئی ناراضگی نہیں؟ مجھے اوزگل ہی پسند تھی۔ اسی سے محبت ہے۔ پاگل تھا، سمجھ نہیں پایا تھا، ان باتوں کو چھوڑ دو۔ میں نے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا ہے، ایک سال کی خفگی کافی تھی۔“ وہ وارفتگی سے اس کے رخساروں پر نرمی سے لب رکھتا اوزگل کو سٹپٹانے پر مجبور کر گیا۔
”مجھے۔۔ آپ سے کچھ پوچھنا بھی تھا۔“ وہ گھبرا کر بولی تو یافث نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا نرمی سے اس کا سرخ رخسار سہلا رہا تھا۔
”کیا پوچھنا ہے؟ جو بھی پوچھنا چاہتی ہو پوچھو اور اپنی غلط فہمیاں ختم کرو۔ میں اب مزید کوئی ناراضگی نہیں چاہتا اوز۔۔ میں نے یہ شادی اپنی مرضی اور خوشی سے کی تھی، اب یہ فاصلے ختم کرو۔۔“ وہ نرم نگاہوں سے اس کا سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”آپ مجھے بی ایس کمپلیٹ کرنے دیں گے ناں؟ میں آپ کی ہر بات مانوں گی۔ آپ نے کہا تھا آپ کے ساتھ رہوں، میں آپ کے لیے کوکنگ بھی کروں گی۔ پھر آپ مجھے سٹڈیز سے نہیں روکیں گے ناں؟“ وہ آنکھوں میں آس لیے یافث خان کو دیکھ رہی تھی۔
”میں کیوں روکوں گا، بالکل نہیں۔۔ جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کروں گا۔ بی ایس کے بعد تمہیں ماسٹرز بھی کرواؤں گا، تم خود تھک جاؤ تو تمہاری مرضی۔۔ کچھ نہیں بدلے گا اوز۔۔ تم اب بھی مجھے اپنی خواہشات بتا سکتی ہو۔۔“ وہ محبت سے بولتا اوزگل کو اطمینان دلا گیا۔
”میں پڑھائی کے ساتھ بھی گھر سنبھال سکتی ہوں، کسی کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔“ وہ پرجوش لہجے میں بولی۔ اس کی نیلی آنکھیں ایک دم چمک اٹھی تھیں، لبوں پر شرمیلی سی مسکان پھیل گئی۔
”اوز میری پاگل گڑیا۔۔ اتنا وقت ان غلط فہمیوں میں ضائع کر دیا تم نے۔۔ مجھے تم سے کوئی شکایت ہے بھی نہیں اور جب میں خوش ہوں تو باقی سب کو چھوڑو۔۔“ اس کی خوشی کے اس معصومانہ اظہار پر یافث خان نے دیوانگی سے اسے خود میں بھنچ لیا۔
اوزگل جھینپ کر آنکھیں بند کرتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔ اسے یافث خان سے محبت تھی، تب سے تھی جب اسے پتا چلا تھا وہ اس کا منگیتر ہے۔ لیکن درمیان میں جو زرگل کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ وہ اسے گم صم کر گئی تھیں۔
اسے تو لگتا تھا یافث خان اسے پسند نہیں کرتا، اس کے سامنے سجنے سنورنے سے ہی ڈرتی تھی کہیں اسے اوزگل سے چڑ نہ ہونے لگے۔ ناجانے اسے کیسی لڑکیاں پسند تھیں؟ وہ سوچتی رہ جاتی تھی اور فاصلے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔
سب کے سمجھانے سے زیادہ اثر یافث خان کے اظہار کا ہوا تھا، وہ اپنا آپ اس کے حوالے کرتی شرمائی لجائی سی یافث خان کا چہرہ تکتی جا رہی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا اور عقیدت سے ان نیلی چمکتی آنکھوں کو چوم لیا۔
وہاں خان حویلی میں بیٹھی زرگل فون پر بیگم ثمر کی پریشانی سن رہی تھی۔
”اوزگل کی لاپروائی خان زادہ کو اس سے دور نا کر دے، تم بہنوں نے تو خود کو اجنبی ہی بنا لیا ہے۔ انسان ایک دوسرے سے بات کرتا ہے، اچھا برا سمجھاتا ہے۔ مجھے تو خبر ہی نہیں تھی، غضب خدا کا پورا سال اس لڑکی نے شوہر کو تنگ کیا اور وہ اتنا لحاظ کرتا رہا۔ ایسا ظرف کسی کا نہیں ہوتا۔۔“
بیگم ثمر تاسف سے بول رہی تھیں۔ زرگل لب بھنچے خاموشی سے سنتی رہی۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا، ایسا ظرف صرف یافث خان کا تھا۔ ایسی محبت بھی صرف وہی کر سکتا تھا، وہ یافث خان کا جب بھی زکر سنتی تھی اسے زورک خان کی توجہ اور محبت بےمعنی لگنے لگتی تھی۔
”آپ نے ہی بگاڑا ہے، ہر وقت میری اوزی، میری اوزی کہتی رہتی تھیں۔ آغا جان وغیرہ بھی اسے اتنا معصوم سمجھتے رہتے ہیں۔ اس لیے سر پر چڑھ گئی ہے۔ اور آپ خان زادہ کے ظرف پر خوش ہو کر نہیں بیٹھ جانا مورے۔۔ اوزی نہیں سدھرے گی، سختی کریں ورنہ اس کے فارغ ہونے کی تیاری کر لیں۔۔
کیونکہ یہ وہی یافث خان ہے جو ایک بار کوئی فیصلہ کر لے تو آغا جان کی بھی نہیں سنتا۔ وہ لحاظ مروت نہیں جانتا، اس کے مزاج سے پورا خاندان واقف ہے۔“ زرگل سپاٹ لہجے میں بولتی چلی گئی تھی۔ بیگم ثمر کے دل پر ہاتھ پڑا تھا، بری طرح گھبرا گئیں۔
”اللہ نا کرے زری۔۔ اللہ نا کرے اوزگل کا گھر تباہ ہو۔۔ میں اسے سمجھاؤں گی۔ ایسا نا بولو بچے۔۔“ وہ پریشانی سے بولتی دل پر ہاتھ رکھ گئی تھیں۔
اوزگل کا رویہ، اس کی ڈھٹائی نے سب کو یقین دلا دیا تھا کہ سب یافث خان مزید اسے برداشت نہیں کرے گا اور وہاں وہ تھا جس نے اپنے حصار میں سمٹی اوزگل سے پہلے پوچھا تھا وہ خوش ہے یا خود پر جبر کر کے اس کے پاس آئی ہے۔
محبت ایسی سستی تو نہیں ہوتی کہ ملن سے ہی مکمل ہو، محبت تو جذبوں کی تجارت ہے۔ یہ تو بہت خالص سا لین دین ہے۔ دل راضی ہو تو ملن بھی خوبصورت لگتا ہے ورنہ سب دھوکہ ہے، سب جسموں کا کھیل ہے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے۔

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top