Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط تئیس
اوزگل کی حیرت پر یافث خان نے مسکراتے ہوئے نرمی سے اس کے رخسار پر لب رکھے، وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوتی بوکھلاہٹ میں یافث کو دور کرنے لگی۔
”میں اب سوتی ہوں، صبح پھر ہم نے جانا ہے۔“ وہ بہانے سے اسے سنوا رہی تھی۔ یافث نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
”تم نے مجھے بہت زیادہ اچھا سمجھ لیا ہے۔۔“ وہ ایک جھٹکے سے اسے سینے سے لگاتا اس کے بالوں میں انگلیاں الجھا گیا۔ اوزگل نے سٹپٹا کر اسے دیکھا۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آپ کو ریسٹ کرنا چاہیے۔“ وہ دل کی شور مچاتی دھڑکنوں سے پریشان ہوتی اسے سمجھا رہی تھی۔ یافث خان نے اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا، وہ بوکھلائی ہوئی تھی۔ لب کاٹتی لرزتے ہاتھ اس کے سینے پر رکھے نظر جھکا کر پڑی تھی۔
”ہممم۔۔ آج ہمیں ریسٹ کرنا چاہیے۔“ وہ اس کی حالت پر ترس کھاتا مسکرا کر اس کا سر تھپکتے ہوئے بولا۔ اوزگل جلدی سے آنکھیں بند کر گئی، وہ اسے دیکھ کر بےساختہ ہنس پڑا۔
اگلی صبح پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ یافث خان کی آنکھ کھلی تو اوزگل اس کے قریب نہیں تھی، وہ بیڈ کے دوسرے کنارے سمٹ کر سو رہی تھی۔ پوری رات وہ نیند میں بھی احتیاط کرتی رہی تھی، جب یافث کے حصار میں سمٹتی تھی فوراً جاگ کر دور ہو جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں کے بدلتے رنگوں سے گھبرا گئی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے اس پر بلینکٹ سیٹ کرتا اس کے سر پر نرمی سے لب رکھ گیا۔ اسے اوزگل کی یہی بات پسند تھی اس میں بدتمیزی کا عنصر بالکل نہیں تھا۔ وہ ناراض تھی یا غلط فہمی کا شکار تھی، اس نے کبھی اس سے بدتمیزی نہیں کی، اس کے سامنے آواز بلند نہیں کرتی تھی۔ وہ اس پر غصہ نہیں کرتا تھا مگر اوزگل پر پھر بھی اس کا رعب تھا۔
وہ اٹھ کر فریش ہوا، اب طبیعت کافی حد تک سنبھلی ہوئی تھی۔ نم بال برش کرتے ہوئے اس نے اوزگل کو جگایا۔ آواز دیتا رہا مگر وہ کسمسا کر پھر سے سو جاتی تھی۔ اس کی نیند بہت گہری تھی۔ وہ سر جھٹک کر کمرے سے نکل کر کچن میں گیا۔ کھانا رات والا پڑا تھا، چائے بناتے ہوئے اوون میں کھانا گرم کیا۔
”اوز ہمیں جلدی جانا ہے، پلیز اٹھ جاؤ اب۔۔“ وہ واپس کمرے میں پہنچتا اس کے منہ سے بلینکٹ ہٹا کر اس کا رخسار تھپتھپانے لگا۔ وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتی جلدی سے اٹھ بیٹھی۔
”میں نے کھانا گرم کر لیا ہے، جلدی آؤ ٹھنڈا ہو جائے گا۔“ وہ کمرے سے نکل گیا۔ اوزگل اٹھ کر منہ ہاتھ دھوتی کمرے سے نکلی، وہ ٹیبل پر کھانا رکھے موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ اوزگل نے اپنی چائے اٹھا کر اپنے سامنے رکھی۔ پلاؤ پر کباب رکھتی سستی سے کھانے لگی۔
”میرا پروجیکٹ کچھ ٹائم کے لیے روک لو، حاذق خان سے باقی تفصیلات پوچھ لینا۔ میں تو کچھ دن آفس نہیں آؤں گا طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ سنجیدگی سے بولتا چائے پیتے ہوئے اوزگل کو دیکھ رہا تھا۔
وہ کباب پلیٹ میں رکھتی کیچپ کے ساتھ اس کے سامنے رکھ گئی، چاول بھی کھا چکی تھی، لیگ پیس پڑے تھے وہ بھی صاف کر کے پلیٹ میں رکھے۔ ایک خاموش اشارہ تھا کہ وہ بھی کھائے۔ یافث نے مسکراتے ہوئے فورک سے کباب کا پیس توڑ کر منہ میں ڈالا۔ کال بند ہوئی تو وہ اوزگل کی طرف متوجہ ہوا۔
”ہم کچھ دیر میں نکلیں گے، تمہارا ایک منتھ فری ہے۔ اب وہیں رہو گی تو کچھ چاہیے یا شاپنگ وغیرہ کرنی ہے تو بتا دو۔۔“ یافث نے کباب پر کیچپ ڈالتے ہوئے سوال کیا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
”نہیں بس جلدی واپس چلیں، سب یاد آ رہے ہیں اور میں ریسٹ کرنا چاہتی ہوں۔“ وہ آنکھیں رگڑتی مشکل سے بیٹھی تھی۔ وہ اس کی بات پر اسے دیکھنے لگا۔
”تمہیں تو ایگزامز کے بعد میرا خیال رکھنا تھا ناں؟“ اس کے سوال پر وہ گڑبڑا کر اسے دیکھتی سر ہلا گئی۔
”جی وہی کہہ رہی ہوں، آپ کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ریسٹ کرنا چاہیے۔“ وہ خفت زدہ سی سر جھکا کر بولی۔ یافث چائے کے خالی کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”آئی ہوپ وہاں جا کر تم اپنی بات پر قائم رہو گی، تمہیں میرا خیال بھی رکھنا ہے اور اب میں تمہیں دور بھی نہیں رہنے دوں گا۔ تمہاری مستی کے دن ختم ہو چکے ہیں، اب سے میرا وقت شروع ہو گا اور میری مرضی چلے گی۔“ وہ اس کی جانب جھکتا گہرے لہجے میں بولا۔
وہ کچن میں جا چکا تھا، اوزگل کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔ اٹھ کر جلدی سے برتن اٹھاتی کچن میں پہنچ گئی۔
”میں یہ برتن دھو لیتی ہوں، آپ تیار ہیں تو بس نکلتے ہیں۔“ وہ اس سے کپس لے کر سنک میں رکھتے ہوئے بولی تو وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
”میں نے حمزہ کو کام سے فارغ کر دیا ہے۔“ شیلف سے ٹیک لگائے وہ اسے بتا رہا تھا۔ پلیٹ سے ویسٹ فوڈ سائیڈ پر نکالتی اوزگل نے رک کر اسے دیکھا۔
”کیوں؟ آپ تو ہوٹلنگ نہیں کر سکتے، آپ کو کسی کک کی ضرورت تو رہے گی ناں۔۔“ وہ فکرمندی سے بولی۔ یافث خان اس کے قریب ہوا۔
”کیا مطلب میری بیوی اپنی بات خود بھول گئی؟ تم نے میرا خیال رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور اب تم میرے پاس رہو گی۔ مجھے کسی کک کی ضرورت نہیں، مجھے تمہارے ہاتھ کا کھانا پسند ہے۔“ اس کی اطلاع پر اوزگل کے چھکے چھوٹ گئے۔۔
”جی؟ مگر میری پڑھائی تو ابھی باقی ہے اور آپ نے کہا تھا کہ۔۔۔“ وہ گھبرا کر اسے یاد دلا رہی تھی جب یافث نے اسے سنجیدگی سے ٹوکا۔
”کہ اگر کسی کو شک نا ہوا تو میں کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا مگر یہاں سب مجھ سے پوچھنے لگے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو ابھی تک قبول کیوں نہیں کیا۔ اسے حق سے محروم کیوں رکھا ہے، وہ ویران اداس کیوں لگتی ہے۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں خالی پن کیوں ہے۔۔
ویسے یہ سوال مجھے بھی تم سے کرنے تھے، دور رہنے کا فیصلہ تو تمہارا تھا۔ تمہیں ہی شوق تھا دور رہ کر پڑھنا ہے، الگ رہنا ہے۔ میں تمہیں تنگ نا کروں۔۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ خوش کیوں نہیں لگتیں؟ تمہیں تو پہلے سے زیادہ فریش ہو جانا چاہیے تھا۔“ وہ اس پر جھکتا اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
”میں تو خوش ہوں۔۔“ وہ گڑبڑا کر نظریں چرانے لگی۔
”پھر مجھ سے کیوں شکوہ کیا تھا کہ میری وجہ سے تمہیں کبھی سکون نہیں ملا۔۔ کیسا سکون چاہتی ہو زرا تفصیل سے بتاؤ۔۔ تم جو چاہتی تھیں وہ سب تو دیا ہے، اس سے سکون نہیں ملا؟ سکون سے رہنے کے لیے میرا طریقہ آزمانا چاہو گی؟“ وہ اس کی کمر کے گرد بازو پھیلاتا اسے کھینچ کر اپنے قریب کر گیا۔
”میں خوش ہوں، میں تو آپ پر غصہ تھی۔ آپ نے بھی تو امو جان سے کہا تھا کہ۔۔“ وہ گھبرا کر اس کے کندھوں پر ہاتھ جمائے پیچھے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔
”میں نے امو جان کو صرف جواب دیا تھا۔ جیسے تم سے سوال ہوتے تھے، مجھ سے بھی تفتیش ہونے لگی تھی مجھ سے بھی وجہ مانگی جا رہی تھی کہ میں شادی کے بعد کیوں اپنی خوبصورت، معصوم اور بےچاری بیوی کو خود سے الگ رکھتا ہوں تو تم ہی بتاؤ کیا وجہ دیتا؟“ وہ اسے خود میں بھنچتا اس کے کندھے میں چہرہ چھپاتے ہوئے بولا۔
اوزگل مشکل میں آ گئی، بوکھلائی ہوئی سی اس کے حصار میں قید کھڑی تھی۔ اس کا پورا وجود یافث خان کے جان لیوا لمس سے کانپ اٹھا تھا۔ دل بےترتیب سا دھڑک رہا تھا، سرخ چہرہ لیے بولنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے، تمہاری خواہشات پوری کرنے کی قیمت چکائی ہے، نا تم نے قدر کی نا میری کوئی عزت رہی ہے۔ سب کو مجھ پر شک ہوا اور تمہیں کلئیر کرنے کے لیے میں خود کو برا بنا رہا تھا۔ اور تمہاری وجہ سے میرا جو وقت ضائع ہوا اس کا حساب الگ ہے۔“ وہ اسے سینے سے لگاتا خفگی سے بول رہا تھا۔
”اگر میں آپ کا خیال رکھوں اور فرینڈز کے ساتھ رہوں۔۔“ اوزگل نے مدھم سے لہجے میں اس سے کہنا چاہا مگر یافث خان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ابرو چڑھائے تو اس کی بولتی بند ہو گئی۔
”تم اب یہیں رہو گی، میں بس اتنی ہیلپ کر سکتا ہوں کہ تمہاری فرینڈز کو وہاں رہنے دیا جائے گا جہاں وہ تمہاری وجہ سے رہ رہی ہیں۔ تم جا کر مل سکتی ہو مگر جب میں واپس آؤں گا تم مجھے یہیں ملو گی۔ میرے لیے کھانا تم بناؤ گی ہاں اگر تمہیں ہیلپر چاہیے تو ہم میڈ رکھ سکتے ہیں، مجھے مسئلہ نہیں۔۔“
وہ سنجیدگی سے بولتے ہوئے اس کے رخسار پر شدت بھرا لمس چھوڑ گیا۔ اوزگل نے سمٹ کر آنکھیں سختی سے بند کیں۔
”اب کچن کا کام ختم کرو، کوئی پیکنگ کرنی ہو تو کر لینا۔۔ میں نے ایک فائل پہنچانی ہے، واثق لالا کو دے کر ابھی آؤں گا تو پھر چلیں گے۔“ وہ اسے خود سے الگ کرتا کچن سے نکل گیا۔ اوزگل سرخ چہرہ لیے شیلف پر ہاتھ رکھتی اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔
جتنی زیادہ اس نے نرمی دکھائی تھی اب اتنی سنجیدگی سے اپنی بات منوا رہا تھا۔ اس کا فیصلہ اٹل تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ دونوں حویلی پہنچے تو یافث خان کو دیکھ کر ہی سب پریشان ہو گئے، کہاں وہ فریش سا ہنستا مسکراتا آ کر سب سے ملتا تھا، اب تو کمزور ہو رہا تھا۔ تھکن زدہ اور سست سا لگ رہا تھا۔
”اوزگل کے بھی انہی دنوں پیپر تھے، اس لیے وہ بےچاری بھی کھانا پکانا نہیں کر پائی ہو گی۔ ایک تو عجیب ضد ہے تمہیں، بھائیوں کے ساتھ رہنے میں کیا حرج ہے۔ ملازمین ہیں، بھابھیاں کھانے کا بھی خیال رکھتیں۔ اوزگل بھی بچی سی بچی ہے، آخر کتنی زمہ داریاں اٹھائے، الگ ہو کر بیٹھ گئے۔۔“ دی جان اس پر ناراض ہو رہی تھیں۔
”کوئی مسئلہ نہیں تھا بس وہ لڑکا چھٹی پر چلا گیا تھا اس لیے تنگی ہوئی۔ ویک نیس ہو گئی تھی اس پر سردی اتنی تھی کہ ٹمپریچر ہو گیا۔ اب تو ٹھیک ہوں دی جان۔۔“ وہ ان کے کندھے پر سر رکھے نرمی سے مسکرا رہا تھا۔
”کہاں ٹھیک ہو، میں تو سوچ رہی ہوں ابھی تم دونوں کی شادی نہیں کرنی چاہیے تھی، اتنی کیا جلدی تھی۔ اوزی پڑھائی کر لیتی تو پھر وہ زمہ داری اٹھانے کے قابل ہوتی۔ حویلی میں رہتی تو الگ بات تھی۔ رہنا تم دونوں کو شہر میں ہے۔ نا اس کی پڑھائی پوری ہو اور نا تم دونوں کی صحت بہتر ہو۔۔
وہ بھی اتنی تھکی ہوئی لگ رہی تھی، بتا رہی ہے پیپروں کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوئی، تمہاری ٹینشن بھی ہو گی بےچاری کو۔۔“ خان بیگم کو تو دونوں کی جلد شادی ہی بہتر نہیں لگ رہی تھی۔
”اوز کہاں گئی؟ کمرے سے نہیں نکلی، اس کا بھی پتا کریں وہ تو ٹھیک ہے۔“ آغا جان کو اس کی فکر ہونے لگی۔ خان بیگم سر ہلا کر اٹھتے ہوئے ان کے کمرے کی طرف بڑھیں، یافث خان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
”میں بھی کچھ دیر ریسٹ کرتا ہوں۔ ڈرائیو کر کے تھکن ہو رہی ہے۔“ وہ آہستگی سے بولا۔
”ہاں ریسٹ کرو، طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اب کچھ دن رک کر اپنی صحت بنانا۔۔ کوئی ضرورت نہیں واپس بھاگنے کی۔۔“ آغا جان نے اسے سختی سے تاکید کی۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو خان بیگم کمرے سے نکل رہی تھیں۔
”سو رہی ہے، میں نے نہیں جگایا۔ اچھا ہے نیند کر لے۔“ انہوں نے اوزگل کی طرف اشارہ کیا۔ وہ جو اپنا سامان رکھنے کے بہانے کمرے میں آتے ہی بستر پر گر گئی تھی اب گہری نیند میں ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھی۔ وہ بھی کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا۔
شام کو یافث تو اٹھ کر گھر والوں سے باتیں کرتا رہا مگر اوزگل کو پھر نیند سے جگانا ہی محال ہو گیا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت تو وہ لوگ پہنچے تھے، کھانا کھاتے ہی جا کر سو گئی تھی۔ اس کے بعد نا وہ شام کی چائے کے لیے جاگی نا پھر رات کے کھانے کے لیے۔۔۔
کمرے میں ہی نیند میں جھولتی اٹھ کر نماز پڑھتی اور پھر سے سو جاتی تھی۔ یافث خان نے اس کی تھکن کا سوچتے ہوئے رات کو اسے نیند میں ہی زبردستی فروٹ دے دیا، اس کے بعد اسے تنگ نہیں کیا۔
اگلے دن بھی وہ کچھ دیر ناشتے کے وقت بیٹھ کر باتیں کرتی رہی۔ وہ مردان خانے میں تھا جب بارہ بجے کے قریب ثمر خان اور بیگم ثمر ان سے ملنے چلے آئے۔
”مجھے پتا چلا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی یافث، اب کیسے ہو؟“ یافث ملنے آیا تو بیگم ثمر نے فکرمندی سے پوچھا۔ اوزگل بھی وہیں بیٹھی تھی۔
”جی بہتر ہوں، بس تھوڑا ہوٹلنگ کرنے سے طبیعت خراب ہو گئی تھی، اتنا سیرئیس ایشو نہیں ہے۔“ یافث نرمی سے مسکرایا۔ اوزگل نے پہلو بدلا، اگر اس کی ماں جان لیتی اوزگل نے خیال نہیں رکھا تھا تو پھر خیر نہیں تھی۔
”تو ہوٹلنگ کیوں کی بچہ۔۔ حویلی میں آتے ہو تو بھابھی خود کھانے بنا بنا کر کھلاتی ہیں، تمہارا ہمیشہ سے یہی مسئلہ ہے پھر کیوں لاپروائی کرتے ہو۔۔“ بیگم ثمر نے اسے سمجھایا۔
”اس کا کام کرنے والا لڑکا چھٹی پر چلا گیا تھا۔ وہاں سے زیبا، ژالے بھی حویلی آئی ہوئی تھیں۔ مجھے تو اس کی یہی فکر لگی رہتی ہے، جب باہر سے کھاتا ہے حالت خراب ہو جاتی ہے۔“ دی جان بھی پریشان ہو رہی تھیں۔
”کیوں اوزی اتنی اچھی کوکنگ کر لیتی ہے، اوزی تم کھانا نہیں بنا کر دیتی تھیں؟ لڑکا کیوں رکھا ہوا ہے۔“ ثمر خان ٹھٹک کر بیٹی کو دیکھنے لگے، وہ گڑبڑا گئی۔
”پڑھائی کے دوران گھر سنبھالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے ایگزامز بھی تھے۔“ یافث نے اس کے چہرے کی اڑی رنگت دیکھ کر آہستگی سے کہا۔
”ایگزامز میں کھانا پینا چھوڑ دیا تھا؟ ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ اوزی جب تمہارے شوہر کو اس حال میں ہوٹلنگ کرنی پڑے۔ ایسے زمہ داری اٹھا رہی ہو؟ زرگل کو دیکھا ہے پوری حویلی کا نظام سنبھال رکھا ہے۔“ بیگم ثمر تو ویسے بھی موقع کی تلاش میں تھیں، جب سے زرگل نے بتایا تھا کہ اوز شہر میں الگ رہ رہی تھی، ان کا دماغ گھوما ہوا تھا۔
”نہیں مورے میں دراصل۔۔۔“ اوزگل نے بوکھلا کر صفائی دینے کی کوشش کی مگر وہ اسے سن کب رہی تھیں۔
”خان زادہ سیدھی سی بات کروں گی، بھلے یہ میری بیٹی ہے، بیوی کو سر پر چڑھاؤ گے تو ساری عمر بچی بنی رہے گی۔ اسے اس کی زمہ داریوں کا احساس دلایا کرو۔ اگر یہ پڑھائی اسے گھر داری سے ہی دور کر رہی ہے تو بس ایک سال بہت ہے۔ آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ بیگم ثمر نے سختی سے کہا۔
”بس کر جاؤ بہو، بچی کی تعلیم کے پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔ چار کلاسیں پڑھ لے گی تو کل کو بچوں کی تربیت اچھی کرے گی۔“ دی جان نے اوزگل کی رونی صورت دیکھ کر بیگم ثمر کو ٹوکا۔
”اور تم ہماری بیٹی کے ساتھ سختی سے بات مت کرو، جب ہمیں اعتراض نہیں تو تم کیوں غصہ کر رہی ہو۔۔“ خان بیگم نے اوزگل کو سینے سے لگایا، انہیں تو یہ بھی شرمندگی تھی کہ بیٹا ان کا بیوی کو قبول نہیں کر رہا تھا تو اوزگل کیوں باتیں سنتی۔
”سختی کرنے والی بات نہیں مگر اچھا برا سمجھانا چاہیے، شادی کے بعد لڑکی بچی نہیں ہوتی نا اسے بچوں کی طرح لاڈ پیار اٹھوانے کی خواہش پالنی چاہیے، اوزی سے مجھے بہت امید تھی میں تو زرگل کو لے کر پریشان ہوتا رہتا تھا۔ یہاں وہ شوہر اور حویلی کو سنبھالے بیٹھی ہے۔
مگر اوزی کے ابھی تک پڑھائی کے نام پر ریسٹ چل رہے ہیں، نا حویلی کا پتا ہے، نا شوہر کا نا گھر بار کا۔۔ بچے مرد کی اچھی صحت بھی تو عورت کا فائدہ ہے، خدانخواستہ بستر پر پڑا رہے تو تمہارے ساتھ رہنے کا اسے کیا فائدہ۔۔“ ثمر خان نے نرمی سے بیٹی کو سمجھایا۔
”اچھا چھوڑو یہ باتیں، بچی ہے ابھی۔۔ سیکھ جائے گی سب۔۔ زرگل کی صحت ٹھیک رہتی ہے؟ کافی دنوں سے ملنا نہیں ہوا۔۔“ آغا جان نے بات بدلی۔ یافث سر پکڑ کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھا تھا۔ اوزگل بہانے سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی تاکہ کھانا اپنی نگرانی میں بنوائے۔
مگر جانے سے پہلے اوزگل ماں باپ سے مل کر کمرے میں گئی تو اس سے بات کرنے کے بہانے بیگم ثمر اس کے کمرے میں گئیں اور اوزگل پر اکیلے میں اچھی خاصی ناراضگی دکھائی تھی۔
”یہ کیا حرکتیں کرتی پھر رہی ہو اوزی؟ سب کی قدر کرو کیسے تمہاری سائیڈ لے رہے تھے۔ زرگل مجھے بتا چکی ہے وہاں شہر میں تم الگ فلیٹ میں مرضی سے رہ رہی ہو۔ الگ کیوں رہنا ہے؟ شادی کرنے کے بعد کون الگ رہتا ہے۔ تمہاری انوکھی خواہشات ہیں۔ میں ایک بات صاف الفاظ میں سمجھا رہی ہوں اوزگل۔۔
شوہر کو اس کا حق نہیں دو گی، اس کا خیال نہیں رکھو گی اور اسے اپنے ہونے کا احساس نہیں دلاؤ گی تو وہ سکون کے لیے راستہ بدل لے گا۔ ما شاءاللہ اتنا پیارا اور پیسے والا لڑکا ہے، ہزار لڑکیوں کی نظر ہو گی اس پر۔۔
آج کل لڑکیوں کے کیا حال ہیں، تمہیں بھی اندازہ ہے۔۔کسی نے باہر اسے عزت محبت دینا شروع کر دی تو وہ اسی کو گھر لے آئے گا، پھر انصاف مانگتی پھرو گی کہ شوہر سوتن لے آیا ہے، اب وقت نہیں دیتا، توجہ نہیں دیتا۔۔ اور تب طلاق لے کر آنے کا تو سوچنا بھی مت۔۔
پھر نا گلہ کرنا دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے، رہنا پھر ساری عمر اکیلی۔۔“ بیگم ثمر نے غصے سے اسے اچھی خاصی سنا ڈالی تھیں۔ وہ تو یافث خان کی دوسری شادی، سوتن اور دوسری بیوی کے ساتھ رہنے والی باتوں کو تصور کر کے ہی گھبرا گئی۔
”ن۔۔۔نہیں مورے، ایسا کچھ نہیں ہے، ہمارے درمیان سب ٹھیک ہے۔ زرگل جھوٹ بولتی ہے۔ میں ان کا خیال رکھتی ہوں، اب تو میرے پیپر تھے اس لیے۔۔“ اس نے گھبرا کر انہیں صفائی دی۔
”بس کر جاؤ اوزی، یہ بہانے ان کو سناؤ جو تم پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔۔ پیپر تھے تو شوہر کو بالکل ایک طرف لگا دیا، بھلا بچہ ہے کہ پھر بھی تمہاری سائیڈ لے رہا تھا۔ کوئی اور مرد ہوتا تو صاف کہہ دیتا اپنی بیٹی کو خود سمجھا لیں یا اسے اپنے پاس ہی رکھ لیں۔۔
محبت بھی کب تک رہتی ہے، انسان کو چین سکون نا ملے تو وہ محبت کو سر پر تاج کی طرح سجا کر عمر نہیں گزارے گا۔ اپنی حالت دیکھو زرا۔۔۔ اتنی روکھی پھیکی بیوی ہو تو کون دیکھنا پسند کرے گا۔ میں یہاں زرگل کو تمہاری مثالیں دے رہی تھی، تم نے تو شرمندہ ہی کروا دیا۔“ وہ غصے سے بولیں۔
نرمی کے بھی نتائج دیکھ لیے تھے، انہیں اندازہ نہیں تھا اوزگل ابھی تک وہی بات لے کر گھوم رہی ہو گی۔ شادی سے پہلے بھی وہ بلاوجہ شادی سے انکار کر رہی تھی، انہوں نے توجہ نہیں دی کیونکہ انہیں لگا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یافث خان جیسے شہر میں لے جا کر اسے پڑھا رہا تھا۔
انہیں تو لگا تھا ان کی معصوم اور نرم مزاج بیٹی نے اس کے بعد شوہر کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہو گا۔ مگر وہ تو جب آتی تھی اتنی خالی آنکھیں، سادہ حلیہ لیے انہیں گھبراہٹ میں مبتلا کر دیتی تھی۔ انہیں لگا یافث خان قدر نہیں کر رہا بعد میں ماجرا کھلا کہ ان کی معصوم اوزی اتنی ہوشیار ہو گئی تھی۔
”آئندہ مجھے کوئی شکایت نا ملے ورنہ تمہارے آبا کو سچ بتا دوں گی کہ ہماری بیٹی نے شوہر کو شہر میں الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ کھلا راستہ دئیے بیٹھی ہے کہ اکیلے گھر میں کوئی اور عورت لے آئے۔ اٹھو اور اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔۔
اپنے لباس پر توجہ دو، شوہر کے لیے سجنا سنورنا چاہیے، ایسے پھیکا سا منہ لیے رکھتی ہو۔ اٹھو اور جا کر کوئی اچھے سے کپڑے پہنو۔۔ میں اب چلتی ہوں۔ تمہارے آبا انتظار کر رہے ہوں گے۔“ وہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد سمجھا بجھا کر وہاں سے چلی گئیں۔ اوزگل سر جھکائے وہیں بیٹھی تھی۔
ثمر خان کے جانے کے بعد یافث کچھ دیر تو مردان خانے میں بیٹھا رہا پھر کسی دوست سے ملنے کا بول کر کمرے میں تیاری کرنے گیا۔ سامنے اوزگل آنسو بہاتی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا، اوزگل بھی گھبرا کر چہرہ چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
”کیا بات ہے اوز؟ کیوں رو رہی ہو؟“ وہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر چہرے سے ہٹا گیا۔ وہ آنسوؤں سے بھگتا چہرہ جھکا کر سسکنے لگی۔
”کیا ہو گیا ہے، اتنے آنسو کیوں، کوئی پریشانی ہے؟“ وہ اسے اپنے قریب کرتا نرمی سے خود سے لگا گیا۔ پریشان لہجے میں سوال کرتا وہ اوزگل کو گویا رونے کا راستہ ہی دے گیا تھا۔ وہ اس کے کندھے پر سر رکھتی زور زور سے رونے لگی۔
”اوز میری جان ایسے کیوں رو رہی ہو؟“ یافث نے گھبرا کر اسے خود میں چھپاتے ہوئے اس کی پشت تھپکی۔
”مورے نے ڈانٹا ہے، کہتی ہیں میں اچھی نہیں ہوں زرگل اچھی بیٹی ہے۔ وہ سب کا خیال رکھ رہی ہے۔ مورے مجھ پر اتنا غصہ کبھی نہیں کرتی تھیں، انہیں تو میں سب سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ زرگل نے انہیں سب بتا دیا ہے۔“ وہ روتے ہوئے اسے اپنا غم سنا رہی تھی۔
”اوہ یہ تو بہت برا ہوا، زرگل نے ایسا کیا بتا دیا ہے کہ وہ ناراض ہو رہی تھیں۔“ یافث نے مسکرا کر اس کے بال سمیٹتے ہوئے سوال کیا۔۔
”وہ بہت چالاک ہے، ہم سے مل کر اس نے مورے کو بتا دیا کہ میں اکیلی رہتی ہوں۔ میں نے آپ کا خیال تو رکھا تھا، آپ نے انہیں کیوں نہیں بتایا۔۔ آبا بھی مجھے آنکھیں دکھا رہے تھے۔ اب میں ملنے جاؤں گی تو وہ دونوں مجھے پھر سے ڈانٹیں گے۔“ وہ آنسو بہاتی اس سے ناراض ہو رہی تھی۔
”میں تو کہہ رہا تھا انہوں نے سنا ہی نہیں۔۔“ وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے صفائی دے رہا تھا۔ اب تو صلح ہو گئی تھی پھر سے ناراض تھوڑی کرنا تھا۔ اوزگل ہونٹ لٹکائے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
“آپ نے نہیں بتایا میں نے آپ کا خیال رکھا، آپ نے کہا ایگزام کی وجہ سے بزی تھی۔ آپ بھی تنگ آ چکے ہیں، یہی چاہتے تھے مورے اور آبا جان مجھے ڈانٹیں۔۔ آپ کی تو خواہش تھی۔“ وہ ایک بار آنکھیں رگڑتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایسی ایسی باتیں کی تھیں مورے نے کہ اس کا غم نہیں جا رہا تھا۔
کہاں تو پہلے دونوں بہنوں میں صرف اس کی تعریف ہوتی تھی، کہاں اب وہی ماں اسے زرگل کی مثال دے رہی تھیں۔ اسے دکھ کھا رہا تھا یوں جیسے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہو۔ زرگل تو پھر ڈانٹ کھاتی رہتی تھی اسے تو کبھی ڈانٹا نہیں گیا تھا۔ وہ رو رو کر پاگل ہو رہی تھی۔
”ہاں میری غلطی ہے، مجھے کلئیر بتانا چاہیے تھا۔ تم نے واقعی میرا خیال رکھا ہے اور یقین کرو میں دل سے تمہارا شکر گزار ہوں۔ میں تمہیں وہاں لے کر جاؤں گا تو چچا کو خود بتاؤں گا کیسے تم نے میری کئیر کی۔۔
ان سے کہوں گا میری بیوی کو کوئی غلط نا کہے، اس نے میری بہت کئیر کی ہے۔ دنیا کی کوئی لڑکی تم سے نہیں مل سکتی۔“ یافث خان اسے سینے لگاتا نرمی سے اس کے ہاتھ چومنے لگا۔
”آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ آپ دوسری بیوی تو نہیں لائیں گے ناں؟“ وہ سسکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ یافث اس کے سوال پر حیران ہوا۔
”دوسری بیوی کون لا رہا ہے؟ میرا تم سے ہی دل نہیں بھرتا، میں کسی اور کی طرف کیوں دیکھوں گا۔ میں کسی کو برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ الٹا سیدھا مت سوچو۔۔ مجھ پر تم ہی کافی ہو، تمہارا ہونا ہی سب کچھ ہے۔“ وہ محبت سے اس کے بال سنوار رہا تھا۔
”مورے نے تو آج مجھے ڈرا دیا تھا۔“ وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی آواز سے رونے لگی۔ یافث خان کو ہنسی آئی، یعنی ایک ساتھ اتنے غم تھے اور وہ اکیلی ہر غم کو رو رہی تھی۔ وہ بےساختہ اس کے بال سمیٹ کر پیچھے کرتا اس کے بھیگے رخسار پر لب رکھ گیا۔
”اب کوئی تمہیں ایسا ڈراوا دے تو کہہ دینا تم میں یافث خان کی زندگی بستی ہے۔ مجھے میری اوز سے زیادہ پیارا کوئی نہیں۔۔ اب رونا بند کرو ورنہ خوامخواہ تھکن ہو گی۔ پیپرز کی ٹینشن سے جان چھوٹی ہے تو نئے غم لے کر بیٹھ گئی ہو۔۔“ وہ اسے اپنائیت بھرے لمس سے نوازتا سمجھا رہا تھا۔
اوزگل اس کے حصار میں سمٹ سی گئی تھی۔
جاری ہے