Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط بائیس
”اوز۔۔ کوئی پریشانی ہے؟“ یافث خان نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ نفی میں سر ہلانے لگی، آنکھوں کا بھیگا پن صاف کرتی آنسو چھپا گئی۔
”پیپرز کی ٹینشن ہے بس۔۔۔ میں چائے بنا دیتی ہوں، آپ باہر کیوں جاتے ہیں۔ گھر میں جو کیک بسکٹس پڑے ہیں، اسی سے کام چل جائے گا۔“ وہ ڈوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے باتھ روم میں بند ہوئی، چہرہ اچھے سے دھو کر باہر آئی تو یافث سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔
”اوز تمہیں پڑھائی میں کوئی مشکل ہو رہی ہے تو مجھے بتاؤ میں ہیلپ کر دیتا ہوں۔ چائے چھوڑو بس، میری بیماری نے تمہیں اتنا بزی کر دیا ہے، کیا تمہارا پیپر اچھا نہیں ہوا؟“ وہ باہر جاتی اوزگل کا ہاتھ تھام کر اسے روک گیا۔ اوزگل کو اپنے جھوٹ پر شرمندگی ہوئی۔
”چائے بنانے میں کتنا ٹائم لگے گا، میں بھی پینا چاہ رہی تھی۔ اب کوئی مسئلہ نہیں، لاسٹ پیپر ایزی ہے۔ میں تو آپ سے کہہ رہی ہوں، آپ اب باہر نہیں جائیں۔“ وہ اپنا نم چہرہ صاف کرتے ہوئے بولی تو یافث نے گہرا سانس بھر کر سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے۔“ وہ اس کا ہاتھ چھوڑ گیا، اوزگل باہر نکل گئی مگر یافث اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ اوزگل کا رونا بلاوجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے حمزہ کو کال ملائی۔
”سر میں بس آج رات واپس روانہ ہو جاؤں گا، سوری بہت دن لگ گئے۔“ حمزہ شرمندہ سا وضاحت دے رہا تھا۔
”نہیں تم ابھی مت آؤ، مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے منع کر دیا، حمزہ حیران ہوا۔
”مگر سر۔۔ مجھے اب جاب تلاش کرنی ہے، ڈگری مکمل ہو گئی ہے۔ کیا آپ گھر پر نہیں ہیں؟“ وہ گھبرا کر پوچھ رہا تھا۔۔
”تمہاری جاب میرے آفس میں ہو جائے گی، میں گھر پر ہی ہوں مگر میری وائف اب میرے ساتھ رہتی ہے۔ تمہیں آفس کے ساتھ کسی جگہ رہائش ڈھونڈنی چاہیے۔ ابھی تم مت آؤ۔۔ اپنا خیال رکھنا، پیسے ضرورت ہوں تو بھیج دیتا ہوں۔ اس منتھ کی سیلری تو دینی ہی ہے۔“ وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
حمزہ اس کی بیوی کا سن کر حیرت سے ساکت رہ گیا، اسے تو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سر شادی شدہ ہے۔ یافث خان نے اسے سیلری بھیج دی اور گھر کی نوکری سے فارغ کر دیا۔ وہ بھی خوش ہو گیا۔ یافث گاڑی کی چابی اٹھاتا کھانے پینے کا سامان لینے چلا گیا۔ وہ واپس آیا تو اوزگل چائے بنا کر فارغ ہو چکی تھی۔
”آپ کو منع کیا تھا، اتنی ویک نیس ہو رہی ہے۔ سردی لگ گئی ہو گی۔“ اس سے سامان لیتے ہوئے اوزگل کو اس کے ہاتھوں کا سرد پن محسوس ہوا تو پریشانی سے بولی۔ اس کے دوست پہنچنے والے تھے اور وہ سردی سے کپکپا رہا تھا۔
”کوئی بات نہیں، میرے دوست کافی ٹائم بعد آ رہے ہیں، اچھا نہیں لگتا میں اہتمام ہی نا کروں۔۔ تم پڑھنے کے لیے فرینڈز کے پاس جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ، میں سب کر لوں گا۔۔“ یافث نے نرمی سے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
”نہیں میں یہ کر لیتی ہوں، پھر روم میں بیٹھ جاؤں گی۔“ وہ تیزی سے ہاتھ چلاتی چائے کپوں میں ڈالنے لگی، پھر کھانے پینے کا سامان برتنوں میں ڈال کر تیزی سے کمرے میں چلی گئی۔ یافث نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ راحیل اور مائر اندر آئے تو وہ ان سے ملنے لگا۔
”بڑی مصروفیات ہیں خان صاحب، شادی کیا ہوئی بیوی کو ہی پیارے ہو گئے۔ بےوفا اتنے زن مرید لگتے تو نہیں تھے۔“ راحیل اسے مل کر خفگی سے شکوہ کر رہا تھا، وہ آہستگی سے ہنسا۔
”اتنے ویک لگ رہے ہو، طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟“ مائر نے اس کی چہرے پر غیر معمولی سرخی محسوس کر کے فکر سے پوچھا۔ وہ چائے رکھتا سر ہلا گیا۔
”میں بالکل فٹ ہوں، بس پچھلے دنوں تھوڑا طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تم دونوں سناؤ شادی کب کر رہے ہو۔“ وہ اطمینان سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”میری شادی ہو رہی ہے، وہی انویٹیشن دینے آ رہا تھا تو راحیل نے کہا اکٹھے چلتے ہیں۔ تم نے بھابھی کے ساتھ ضرور آنا ہے یافث، میں سپیشل انوائٹ کرنے آیا ہوں۔ میری ماما اور بہنیں جانتی ہیں تمہاری فیملی پردہ کرتی ہے، اس لیے فکر مت کرنا بھابھی کے پردے کا پورا خیال رکھا جائے گا۔“
مائر نے اسے شادی کی دعوت دیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بیوی کے ساتھ ضرور آئے۔ یافث نے سر ہلاتے ہوئے کارڈ اٹھا کر ڈیٹس چیک کیں، جو اگلے ماہ کی تھیں۔
”آجانا یافث خان۔۔ انجوائے کر لیں گے اور بھابھی کو بھی لانا، میری فیملی بھی ہو گی۔ اچھا ہے ملنا جلنا ہوتا رہے تو ہمارا فائدہ ہے، تمہاری صورت دیکھنے کو ملتی رہے گی۔“ راحیل کے کہنے پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”لاؤں گا، اسے بھی لاؤں گا۔ تم لوگ چائے پیو ناں۔۔ راحیل تم بھی شادی کر لو اب۔۔“ وہ راحیل کو کہتا اس کے زخم ادھیڑ گیا۔
”یار مت پوچھو، مجھے ایک کزن اچھی لگتی تھی۔ میں مذاق مذاق میں اسے کہتا رہا کہ وہ کہیں اور شادی کر لے، مجھے اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ اس نے بات کو سیرئیس لے لیا، اس کی کہیں منگنی ہو گئی ہے اور اب میری منتوں پر بھی نہیں مان رہی۔۔“ راحیل بےچارگی سے بولا۔
”اوہ یہ تو برا ہوا۔۔ مس انڈرسٹینڈنگ فوراً کلئیر کر لینی چاہیے۔“ یافث نے پریشانی سے اسے دیکھا۔
”ہم اب تمہارے لیے دعا کر سکتے ہیں۔“ مائر بھی افسوس سے سر ہلا رہا تھا۔
”یار یہ لڑکیاں ایک بات کو اتنا کیوں گھسیٹ لیتی ہیں، ہمیں تو کچھ بھی کہہ دیں سن لیتے ہیں اور جب چاہیں آ جاتی ہیں ہم قبول کر لیتے ہیں۔ محبت صرف ہم مردوں کو کرنی آتی ہے۔ لڑکی کا ظرف بالکل بڑا نہیں ہوتا۔“ راحیل غمزدہ ہو رہا تھا۔
کمرے میں موجود اوزگل ان کی باتیں سنتی کتاب پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ کیا واقعی لڑکی کا ظرف بڑا نہیں ہوتا؟ کیا یافث خان بھی ایسا سوچتا ہو گا؟ وہ ناچاہتے ہوئے بھی ان کی باتوں کو سوچ رہی تھی جب یافث کی سنجیدہ مدھم آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”محبت کی بات نہیں کرو راحیل، لڑکیوں کی محبت بھی بہت مضبوط ہوتی ہے اور ظرف بھی۔۔ وفا میں بھی ہم سے دو ہاتھ آگے ہوتی ہیں، شرط یہ ہے کہ انہیں واقعی محبت ہو۔۔ اور اگر ہم ہی انہیں ہرٹ کریں، مذاق کی بھی حد ہوتی ہے۔
تم نے اپنے مذاق کو اتنا کیوں گھسیٹا کہ اسے سنجیدہ ہونا پڑا، انا تو پھر سب میں ہوتی ہے۔ اب بات ظرف کی نہیں ہے، اب بات اس کی انا کی ہے۔۔“ یافث خان بولتے ہوئے آہ بھر گیا۔ وہ دونوں دوست راحیل کو سمجھا رہے تھے۔ اوزگل یافث کی باتوں کو سوچتی رہی۔
یافث کے دوست گئے تو وہ برتن سمیٹتا کچن میں رکھنے لگا، کمرے کا دروازہ کھول کر اس کے پاس آیا تو وہ اپنی بک پر جھکی ہوئی تھی۔ وہ بیڈ کی ایک سائیڈ پر لیٹتے ہوئے آنکھیں بند کر گیا۔۔ اوزگل نے ایک ترچھی نظر اس پر ڈالی۔۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟“ اوزگل نے فکر سے پوچھا۔
”ٹمپریچر ہو رہا ہے۔ اتنے ٹائم بعد فرینڈز آئے تھے ملنے، میں ٹھیک سے ٹائم بھی نہیں دے پایا۔“ وہ مدھم لہجے میں بول رہا تھا۔ اوز نے بےاختیاری میں ہاتھ بڑھا کر اس کی تپتی پیشانی پر رکھا۔ یافث نے چونک کر آنکھیں کھولیں، وہ ایک دم گڑبڑا کر ہاتھ پیچھے کر گئی۔
”آپ کو واقعی بخار ہو رہا ہے۔ ٹمپریچر کی میڈیسن پڑی ہے؟ میں آپ کے لیے کچھ بنا کر لاؤں؟ رات کو کیا کھائیں گے؟“ وہ پریشانی سے بکس بند کر گئی۔
”اوز تم پلیز اپنے پیپر کی تیاری کرو، فری ہو کر میری خدمت کر لینا۔ مجھے صرف ریسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں ٹھیک ہو جاؤں گا اور میڈیسن پڑی ہے، رات کو لے لوں گا۔“ وہ اسے ٹوک کر کروٹ بدلتا سر تک بلینکٹ پھیلا گیا۔
اوزگل اسے دیکھ کر رہ گئی، اب پڑھنے میں کہاں دل لگنا تھا۔ اسے تو یہ فکر تھی کہ اس کا خیال رکھنا بھی کسی کام نہیں آ رہا تھا یا پھر وہ ٹھیک سے خیال ہی نہیں رکھ پا رہی تھی۔ اگلے دن اس کا آخری پیپر تھا، بس ایک اور دن۔۔۔ وہ اس کے لیے کچھ بنانے کا سوچ کر بستر سے اتری۔
”کہاں جا رہی ہو؟“ وہ فوراً منہ سے کمبل ہٹا کر کروٹ بدلتا اسے دیکھنے لگا۔ آواز قدرے بھاری اور کمزور ہو رہی تھی۔ اوزگل رک گئی۔
”آپ کے لیے کچھ بنا لیتی ہوں، میرے لیے تو سالن پڑا ہے بس روٹی بنانی ہو گی۔ آپ بتا دیں کیا لیں گے؟“ اس کے سوال پر وہ سیدھا ہوا۔
”میں نے چائے کے ساتھ نگٹس لیے تھے، اب بھوک نہیں ہے۔ رات کو سونے سے پہلے چائے بنا دینا، میں میڈیسن لے لوں گا۔ تم بیٹھ جاؤ اب دوبارہ مت اٹھنا۔۔“ وہ اسے ہدایت دیتا آنکھیں بند کر گیا۔ اوزگل واپس بیٹھ گئی۔
عشاء کی نماز ادا کر کے اپنے لیے روٹی اور اس کے لیے چائے کے ساتھ انڈہ بنا کر بریڈ گرم کر لائی۔ یافث نے اٹھ کر بریڈ اور انڈہ کھا کر چائے کے ساتھ ٹیبلٹ لی۔ اوزگل بھی وہیں بیٹھی کھانا کھاتے ہوئے کتاب پر نظریں دوڑا رہی تھی۔
”میں سو رہا ہوں، تم یہیں بیٹھ کر پڑھنا باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یافث خان نے میڈیسن لے کر ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور اسے ہدایت دیتا پھر سے سو گیا۔ اوزگل وہیں بیٹھی رات کو دیر تک پڑھتی رہی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
وہ پیپر دے کر فارغ ہوئی تو خوشنما اور رودابہ اس کے پاس پہنچیں۔
”ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا، چل کر کچھ کھا پی لیں؟“ رودابہ نے اس سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
”نہیں پلیز واپس چلو، میرے کزن کی طبیعت بہت خراب تھی۔ کل رات ان کو تیز بخار ہو گیا تھا۔ پتا نہیں اب وہ کیسے ہوں گے۔“ اوزگل پریشان ہو رہی تھیں۔
”اوہ چلو ٹھیک ہے، ہم نے بھی آج گھر واپس جانا ہے۔ سوچا تھا تھوڑا ٹائم ساتھ گزار لیں گے۔“ وہ ان دونوں کی بات پر آہ بھر کر رہ گئی۔
”تم دونوں جانے سے پہلے مجھے مل کر جانا، میں بھی جلد حویلی چلی جاؤں گی، نیکسٹ سمسٹر میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔“ واپس آ کر فلیٹ میں داخل ہونے سے پہلے اوزگل نے ان دونوں کو ہدایت دی تو وہ سر ہلا گئیں۔
اس نے اندر جا کر حجاب اتارا اور پہلے کمرے میں جھانکا۔ یافث خان جاگا ہوا تھا، کسی کال پر مصروف تھا، وہ خاموشی سے کچن میں آ گئی۔ پانی پی کر اپنے لیے سینڈوچ بنائے، بھوک سے بری حالت ہو رہی تھی۔
”پیپر کیسا ہوا اوز؟“ یافث کچن میں چلا آیا تھا۔
”بہت اچھا ہوا۔ میں روم میں آئی تھی، آپ کال پر بزی تھے۔۔ طبیعت کیسی ہے؟“ اوزگل نے اسے دیکھتے ہوئے فکر سے پوچھا تو وہ ایک دم گھٹنوں پر ہاتھ رکھتا اس کے سامنے جھکا۔
”چیک کر لو۔۔“ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کے قریب چہرہ لے آیا تھا۔ اوزگل نے گھبرا کر نظریں چراتے ہوئے پیچھے ہٹنا چاہا مگر وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے جلتے رخسار سے لگا گیا۔ اوزگل کا دل زور سے دھڑکا۔
”میں پہلے سے کچھ بہتر ہوں مگر تمہاری توجہ کی بہت ضرورت ہے۔“ یافث نے بولتے ہوئے اس کی ہتھیلی پر لب رکھے۔ وہ سٹپٹا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچتی رخ موڑ گئی۔
”میں سینڈوچ بنا رہی تھی، آپ کے لیے بناؤں؟“ وہ بریڈ کے پیکٹ پر گرفت سخت کرتی اس سے پوچھ رہی تھی، شرم سے چہرہ سرخ انار ہو رہا تھا۔ یافث نے توجہ سے اسے دیکھا۔
”بنا لو، مجھے بھی بھوک لگ رہی ہے۔“ وہ نرمی سے بولا۔
”میں کچھ دیر تک پلاؤ بناؤں گی، ابھی تھکن ہو رہی ہے اس لیے سینڈوچ بنا رہی ہوں۔“ وہ اس کی گہری نظروں کو خود پر محسوس کر کے خوامخواہ اسے وضاحت دینے لگی۔
”تمہیں بھی ریسٹ کرنا چاہیے، زیبا بھابھی نے کہا ہے وہ ڈرائیور کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گی۔ کل ہم حویلی جائیں گے تاکہ کچھ ریسٹ کر سکیں۔“ یافث نے اسے تسلی دی تو وہ مطمئن ہوئی۔
یافث کمرے میں جا کر بیٹھ گیا، اوزگل سینڈوچ بنا کر کمرے میں لے گئی۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ کمزور سا لگ رہا تھا، اوزگل کو محسوس ہوا اس کی تھکن اور اس کمزوری کی وجہ وہی تھی۔
وہ اسے نظر انداز نا کرتی تو شاید اس کی یہ حالت نا ہوتی۔ وہ سب بھلائے اوزگل کی پڑھائی اور اس کی خواہشات کو اہم رکھتا تھا، اوزگل بھی وہی کر رہی تھی۔ اسے ندامت محسوس ہوئی۔ اس کے سامنے بیٹھتی گلا کھنکار کر اسے متوجہ کر گئی۔ یافث نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
”میں ابھی کچھ دیر کے لیے فرینڈز کے پاس چلی جاؤں؟ آپ کو کچھ چاہیے تو نہیں ناں؟“ اوزگل نے اس سے پوچھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ ایک سینڈوچ کھا کر اپنی جگہ لیٹ گیا۔ اوزگل نے کچن میں برتن رکھے اور سینڈوچ لے کر خوشنما اور رودابہ کے پاس چلی گئی۔
”واہ سینڈوچ لائی ہو۔۔ میں اب چائے بنا رہی تھی۔“ خوشنما نے اسے دیکھ کر خوشی سے کہا۔ وہ ہنستے ہوئے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ رودابہ اداس سی صوفے پر لیٹی ہوئی تھی۔
”تمہیں کیا ہوا؟“ اوزگل نے اس سے پوچھا۔
”پورا ایک مہینہ۔۔ میں تم دونوں سے دور رہوں گی۔ اب تو کہیں اور دل ہی نہیں لگے گا۔ ابھی سے اداس ہو رہی ہوں۔“ رودابہ افسردگی سے بولی۔
”ہم کانٹیکٹ میں رہیں گی۔ تم جب چاہو ہم سے بات کر لینا۔۔“ اوز نے اسے تسلی دی۔ وہ آہ بھر گئی۔
”میں نے تو کہا ہے میرے ساتھ چلی چلو، میرے گھر والے تو رودابہ سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔ لیکن اس کے ماموں اس کا ویٹ کر رہے ہیں۔“ خوشنما نے وہاں آتے ہوئے کہا تو اوزگل نے بےساختہ اداس بیٹھی رودابہ کو دیکھا۔
”تم اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر رکھ لو۔۔“ اوزگل نے شرارت سے کہا تو رودابہ نے اسے گھورا۔
”میرے بڑے بھائی کی نوکری لگ چکی ہے، اگر رودابہ کہے تو میں اسے بھابھی بنا لوں۔“ خوشنما نے بھی شوخی سے کہا۔ وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”کون سے بھائی؟ جو تمہاری منگنی پر ہمارے لیے گجرے لائے تھے؟“ رودابہ نے دلچسپی سے پوچھا تو خوشنما قہقہہ لگاتی اثبات میں سر ہلا گئی۔ رودابہ شرمانے لگی۔
”مجھے کیوں لگ رہا ہے یہاں رشتہ طے ہونے والا ہے، مٹھائی لے آنا اگلی بار۔۔“ اوزگل کے کہنے پر وہ دونوں ہنسنے لگیں۔
”میرا دوسرا بھائی یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہے، تم بتاؤ کیا کہتی ہو۔۔؟ ہم تینوں فیملی بن جائیں گی۔“ خوشنما نے شرارت سے اسے دیکھا تو وہ گڑبڑا گئی۔
”میں انگیجڈ ہوں۔“ اوز نے بےساختگی میں کہہ دیا۔ وہ دونوں ٹھٹک گئیں۔ وہ اپنے جملے پر خود بھی خفت زدہ ہو گئی۔ اب جھوٹ سے آہستہ آہستہ پردے ہٹانا چاہ رہی تھی۔
”علیزے کی بچی، تم نے اتنی بڑی بات ہم سے چھپائی۔۔ کون ہے وہ؟ کزن؟ کیا نام ہے؟“ وہ دونوں اسے گھورتی سوال پر سوال کرنے لگیں۔ چائے کا کپ اٹھاتی اوزگل نے رک کر ان دونوں کو دیکھا۔
”کزن ہیں۔“ اس نے چائے کو دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔ رودابہ اور خوشنما نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آنکھوں میں اشارے کیے۔ ایک دن پہلے جو وہ سوچ رہی تھیں شاید وہی سچ تھا۔
”کیا وہ کزن یہی ہے جو سامنے۔۔۔“ اس سے پہلے کہ رودابہ اپنا سوال پورا کرتی اوزگل کے ہاتھ سے کپ پھسلا اور فرش پر جا گرا۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی۔
”جلی تو نہیں ہو علیزے۔۔“ وہ دونوں گھبرا کر اٹھیں۔
”شکر ہے چائے ٹھنڈی تھی، مجھے کچھ نہیں ہوا۔“ وہ انہیں تسلی دیتی اٹھ کھڑی ہوئی، کپڑوں پر چائے کے چھینٹے پڑ چکے تھے۔
”چینج کر لو اتنا پیارا ڈریس ہے، داغ رہ جائے گا۔“ خوشنما نے اسے تاسف سے ہدایت دی۔ وہ سر ہلا کر کمرے میں چلی گئی۔ خوشنما نے کانچ سمیٹا اور رودابہ نے فرش پر گری چائے صاف کی۔ وہ چینج کرنے باتھ روم میں گئی تو گیزر آن تھا، گرم پانی سے شاور لے کر فریش ہونے لگی۔
نہا کر آئی تو وہ دونوں تیار کھڑی تھیں، وہ تینوں جذباتی سی ایک دوسرے سے ملنے لگیں۔ پھر وہ دونوں بس ٹرمینل کی طرف روانہ ہو گئیں اور اوزگل اداس سی یافث کے پاس آ گئی۔ شام ہونے والی تھی، یافث سو رہا تھا، وہ باہر صوفے پر لیٹتی نیند میں چلی گئی۔ عشاء کے وقت یافث نے اسے جگایا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
”زیبا بھابھی نے کھانا بھیج دیا ہے۔ ابھی کھا لو گرم ہے۔ اور تم کمرے میں آ کر سو جاتیں۔ یہ سونے کی جگہ ہے؟“ وہ اس کے باہر سونے پر ناراض ہو رہا تھا۔ وہ خفت زدہ سی ڈوپٹہ سر پر پھیلاتی منہ دھو کر کچن میں چلی گئی۔ کھانا ٹیبل پر لگا کر یافث خان کو بلایا۔
پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور میٹھے میں کھیر مکس تھی۔ اوزگل نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا مگر یافث نے تھوڑی سی کھیر لی، کسی اور چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔
”آئی تھنک ناشتہ بنانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، یہ سب بہت زیادہ ہے۔ آپ کو کچھ چاہیے؟“ اوزگل نے اپنے برتن سمیٹتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔ اس کی طبیعت ابھی سنبھلی نہیں تھی۔ پھر سے کمرے میں چلا گیا۔
اوزگل کچن سمیٹ کر کھانا فریج میں رکھ گئی۔ یافث خان کے لیے چائے بنا کر لائی تاکہ وہ میڈیسن لے سکے۔ اسے چائے پکڑاتی ٹیبلٹ اٹھا کر دینے لگی۔ وہ یافث خان کی توجہ کھینچ رہی تھی۔
وول کے سادہ سیاہ رنگ کے کپڑوں میں بہت معصوم لگ رہی تھی۔ نرم نقوش، شفاف رنگت میں گلابی پن گھلا ہوا تھا۔ نم چمکتے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنایا ہوا تھا۔
”اوز میں چاہتا ہوں اب تم میرے پاس رہو۔۔ تم پڑھنا چاہو تو مزید پڑھ سکتی ہو مگر اب میں تم سے دور نہیں رہ سکتا۔ تم سمجھ رہی ہو ناں؟“ وہ اسے دیکھتا آہستگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔ پھر خفت سے سر جھکا گئی، اس نے جواب نہیں دیا مگر اس نے انکار بھی نہیں کیا تھا۔
”نیکسٹ منتھ میرے فرینڈ کی شادی ہے۔ وہ چاہتا ہے میں تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں، تم جاؤ گی میرے ساتھ؟“ یافث نے نرمی سے پوچھتے ہوئے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔ گہری نظریں اوزگل کے چہرے پر جمی تھیں۔
”میں کسی کو جانتی نہیں ہوں، مجھے عجیب لگے گا۔“ وہ شادی پر جانے کا سن کر پریشان ہوئی۔
”ڈونٹ وری تم آکورڈ نہیں ہو گی، وہ لوگ تمہارا خیال رکھیں گے۔ ہم ایک دن جا کر دیکھ لیں گے، اگر تم انکمفرٹیبل ہوئیں تو مجھے میسج کر دینا۔ میں کوئی بہانہ بنا کر اسی وقت واپس لے آؤں گا۔“ یافث نے اسے اطمینان دلایا۔
”میں حجاب میں جاؤں گی؟“ وہ بیڈ کے کنارے ٹک گئی۔
”تمہاری مرضی ہے، تم چاہو تو کوئی اچھا سا ڈریس پہن لینا اور پردے کا خیال رکھنا۔ یا تم چاہو تو حجاب بھی پہن کر جا سکتی ہو جیسے تمہیں آسانی ہو۔۔“ یافث نے شادی کی تیاری اس کی مرضی پر چھوڑ دی۔
”اور میں میک اپ نہیں کروں گی۔ کنگن پہن لوں گی، باقی زیور نہیں پہنوں گی۔ مجھے پرائی شادی میں اتنا تیار ہونے سے شرم آئے گی۔“ وہ ہمیشہ کی طرح اس کی بات ماننے سے پہلے اپنی شرائط منوا رہی تھی۔
”تم جیسے بیٹھی ہو، اسی حال میں بھی چلی جاؤ تو مسئلہ نہیں ہو گا۔ تم اپنے شوہر کے لیے تیار نہیں ہوتیں تو دوسروں کے لیے سنگھار کرنے بھی نہیں دوں گا۔“ وہ چائے کا کپ لبوں سے لگائے اسے خفگی سے دیکھ رہا تھا۔ اوزگل نے رک کر حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا میں دلہن نہیں بنی تھی؟“ وہ ناک چڑھا کر بولی۔
”میں ایسی دلہن کا کیا کرتا جس نے میرا انتظار تک نہیں کیا تھا۔ جب میں آیا دلہن صاحبہ اپنی الگ جگہ پر سو چکی تھی۔“ یافث نے اس کے ناک چڑھانے پر مسکراہٹ دبائی۔
”آپ کو اس دلہن کی ضرورت ہی کب تھی۔“ اوزگل خفگی سے جتا کر بولی اور خالی کپ اس سے لے کر کمرے سے نکل گئی۔ یافث اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ کچن میں برتنوں پر غصہ اتارتی اٹھا پٹخ کر رہی تھی۔ یافث نے تھک کر تکیے پر سر ٹکایا۔
پھر وہ شاید عشاء پڑھنے لگی تھی، کمرے میں بہت دیر سے آئی۔ یافث آنکھیں بند کیے اس کا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد اوزگل کی نرم آواز اس کے کانوں میں پہنچی۔
”ابھی تک آپ کو آرام نہیں آیا۔۔ آپ نے آج صبح میڈیسن لی تھی؟“ وہ کچھ دیر بعد کمرے میں داخل ہوتی سوال کر رہی تھی۔
”اوز یہاں آؤ۔۔“ یافث نے ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر سنجیدگی سے اسے بلایا۔ وہ فکرمند ہوتی اس کے پاس آئی۔
”کچھ چاہیے؟“ اس نے قریب آ کر پوچھا، یافث خان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ اوزگل اس پر گرتی بری طرح گھبرا گئی۔
”تم سے کس نے کہہ دیا مجھے دلہن کی ضرورت نہیں تھی؟ دونوں دن تم نے سولہ سنگھار کر کے پورے خاندان کو دکھا دیا بس شوہر کے سامنے آتے ہی تم پرانی باتیں نکال کر روتی دھوتی رہی ہو۔۔ شرم نہیں آئی مجھ پر الزام لگا کر؟“ یافث نے خفگی سے پوچھا۔
وہ ہکا بکا رہ گئی، اتنی دیر سے وہ اسی بات پر اٹکا ہوا تھا۔ اوزگل بات کرتے ہی کمرے سے نکل گئی تھی تاکہ اس کا جواب نا سننا پڑے مگر اس بار یافث خان نے بات جانے نہیں دی۔ اس بار وضاحت مانگ رہا تھا۔
”میں نے کوئی الزام نہیں لگایا۔“ وہ خود کو اس سے دور کرنے کی کوشش کرتی حواس باختہ سی بول رہی تھی۔ یافث نے اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اوزگل کا دل پوری شدت سے دھڑکتا اسے ساکن کر گیا۔ اس کے دل کا شور یافث کو صاف محسوس ہو رہا تھا۔
”تم بہت الزام لگا چکی ہو اور میں بہت وضاحتیں دے چکا ہوں۔ اب تمہاری مہلت ختم ہو چکی ہے اوز۔۔ میں تم سے دور رہا ہوں، اس لیے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔“ وہ اسے سینے سے لگائے بول رہا تھا۔ اس کے نازک کندھے میں چہرہ چھپاتا سکون بھرا سانس لیا۔
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ آپ اپنی باتوں پر پردہ نہیں ڈالیں اور پلیز مجھے چھوڑیں میں تھکی ہوئی ہوں۔ سونا چاہتی ہوں۔ ہم صبح بات کر لیں گے۔“ وہ کپکپاتی آواز میں بولتے ہوئے اس کے کندھوں پر ہاتھ ٹکا کر اسے دور کرنے لگی۔
”کس بات پر پردہ ڈالا ہے؟ تم مجھ سے اتنے سوال کرتی ہو کبھی زرگل سے پوچھا ہے وہ میرے سامنے میری منگیتر کیوں بنی رہی؟ میں اسے اوزگل سمجھ کر غصہ ہوتا رہا تو اس نے کیوں نہیں بتایا میری منگیتر وہ نہیں تم ہو۔۔“ یافث خان کے سنجیدہ سوالات پر اوزگل دھک سے رہ گئی۔ بےیقینی سے یافث خان کو دیکھا۔
”مجھے کیا دیکھ رہی ہو، یقین نہیں آتا تو اپنی بہن سے پوچھو۔۔ جب میں نے اسے کہا کہ اس کا مزاج مجھے نہیں پسند، جب میں نے کہا مجھے اس سے شادی نہیں کرنی تو اس نے میری غلط فہمی دور کیوں نہیں کی۔۔“ وہ اسے خود میں سمیٹے اس کی حیرت سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتا سوال کر رہا تھا۔
”زرگل نے؟ نہیں وہ ایسی نہیں ہے۔“ اوزگل نے کپکپاتے لبوں کو دانتوں تلے دبا کر نظریں چرائیں۔ یافث خان نے اسے تاسف سے دیکھتے ہوئے اس پر بلینکٹ پھیلایا۔ اوزگل مچل کر اس سے دور ہونے لگی۔ چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔
”وہ ایسی نہیں ہے تو پھر تم ہی بتا دو چھوٹی پھپھو کی شادی پر تم نے زورک خان سے ملتے ہوئے اسے اپنا نام زرگل کیوں بتایا تھا؟“ یافث نے اس بار اسے ابرو چڑھا کر دیکھا تو اوزگل بوکھلا گئی۔
”میں نے تو۔۔ شرارت کی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی وہ زرگل کا منگیتر ہے، میں قسم کھا رہی ہوں میں نہیں جانتی تھی۔“ اوزگل گھبرائی ہوئی سی اسے وضاحت دینے لگی۔
”اور میں تمہارا یقین کیوں کروں؟ میں کیوں مانوں کہ تم اپنی بہن کے منگیتر کو نہیں جانتی تھیں؟ تو کیا تم جانتی تھیں میں تمہارا منگیتر ہوں اور جس وقت تم زورک خان کو اپنا نام زرگل بتا رہی تھیں تب میں بھی وہیں موجود تھا۔“ اس بار اوزگل کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑا۔
”میں۔۔ واقعی میں نہیں جانتی تھی۔۔“ وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔
”اسی طرح میں بھی نہیں جانتا تھا اوز۔۔ زورک خان سے تم دونوں کی دوستی تھی مگر میں نے کم عمری سے شہر میں وقت گزارا ہے۔ میں تب پہلی بار اپنی منگیتر کو ملنے آیا تھا اور مجھے میری منگیتر کی وجہ سے غلط فہمی ہو گئی۔
مجھے زرگل نہیں پسند، اس کا مزاج، غرور اور اس کا نخریلا پن۔۔ میں ایسی بیوی نہیں چاہتا تھا اس لیے انکار کرتا رہا اور جب مجھے پتا چلا میری منگیتر کی آنکھیں نیلی ہیں۔ میں نے تب اپنا فیصلہ بدل لیا۔ آغا جان تو مان چکے تھے۔۔
اس دن ہمارے رشتے ختم ہو رہے تھے جب میں نے تم سے شادی کرنے کا کہا۔۔“ یافت خان نے نرمی سے اس کا رخسار سہلاتے ہوئے اسے سچ بتایا تو وہ بےاختیار اسے دیکھتی چلی گئی۔
”تو کیا واقعی۔۔ آپ نہیں جانتے تھے؟“ وہ حیران ہوئی۔
”میں واقعی نہیں جانتا تھا اور میں تمہیں تو شروع سے پسند کرتا تھا۔۔ اس لیے میں زرگل سے جان چھڑوا کر تمہیں اپنا بنانے کی تیاری میں تھا۔۔“ یافث خان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اوزگل تو اس بار حیرت کے مارے پتھرا گئی تھی۔
جاری ہے۔۔۔