Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 21 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :2128

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Hum safar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط اکیس
اوزگل نے اسے جواب نہیں دیا تھا، یافث خان بھی خاموش ہو گیا۔ ایک پرائیویٹ کلینک میں پہنچ کر اس نے چیک اپ کروایا، اسے روم میں ایڈمٹ کر کے ڈرپ لگانے کا کہا تو وہ انکار کر گیا۔
”منع کیوں کر رہے ہیں؟“ اوزگل پریشان ہوئی۔
”تم اتنی دیر کیسے بیٹھو گی، تمہارے پیپرز ہیں اور میں یہاں لے کر بیٹھا رہوں۔“ وہ واپس جانے پر بضد ہوا۔
”میں بیٹھ سکتی ہوں، آپ رکیں یہاں۔۔“ وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھاتی نرس کو بلانے لگی، یافث اس کا استحقاق محسوس کرتا مسکراتے ہوئے بیٹھ گیا۔ اوزگل نے سائیڈ پر ہونا چاہا تو یافث نے بےساختہ اس کا ہاتھ تھاما۔
”میرے پاس رکو، ایسا نا ہو مجھے کچھ ہو جائے۔“ وہ ٹانگیں لٹکا کر بیٹھا اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتا اسے اپنے قریب کر گیا۔ اوزگل خفت زدہ سی روم میں آئی نرس کو دیکھنے لگی۔ ڈاکٹر نے ڈرپ بتا دی تھی، نرس نے ڈرپ لگانے کے لیے لیٹنے کا کہا تو وہ لیٹ کر اپنے پاس اوزگل کے بیٹھنے کی جگہ بنا گیا۔
”اوز میرے پاس بیٹھو، یہیں رکو۔۔“ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر اسے اپنے قریب بٹھا کر وہ دوسرے بازو پر نیڈل لگوانے لگا۔ نرس اس انوکھے مریض پر حیران ہو رہی تھی۔ اونچا لمبا، اتنا مغرور شان دار سا مریض اس چھوٹی سی حجابی لڑکی کو مسلسل اپنے پاس بٹھانے کے لیے بضد تھا۔
”سر آپ کے علاج کے لیے ڈرپ ضروری ہے، یہ نہیں۔۔“ نرس نے نیڈل لگوانے کے دوران بھی اس کی اوزگل پر توجہ مرکوز دیکھ کر بےساختہ ٹوک دیا۔ اوزگل گڑبڑا کر اسے ہاتھ سیدھا کر کے رکھنے کا بول رہی تھی۔ یافث خان ہاتھ ٹھیک سے رکھتا نچلا لب دانتوں تلے دبا کر آنکھیں بند کر گیا۔ نرس ڈرپ لگا کر گئی تو اوزگل نے خفگی سے اسے دیکھا۔
”آپ عجیب حرکتیں کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے اتنا ایمبیریس کر دیا ہے۔“ وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی نقاب کے اندر بھی سرخ ہوئی جا رہی تھی۔ یافث نے بےاختیار آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
”تم نے یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہے اوز، تم وہ بیوی ہو جو شادی کر کے اجنبی بن گئیں اور پھر میرا خیال رکھنے کا وعدہ کر کے مکر گئیں۔ ایسی بیوی ملی ہے تو اب یہی حرکتیں کروں گا، میرے پاس ہو تو پاس رکھوں گا۔ میرے لیے میڈیسن ضروری نہیں ہے، تم زیادہ ضروری ہو۔۔“ وہ آنکھیں بند کیے اطمینان سے بول رہا تھا۔
اوزگل اسے دیکھ کر رہ گئی۔ کیا وہ واقعی بھول گیا تھا شادی سے انکار وہ کرتا رہا تھا، اوزگل کو اپنے قابل بنانے سے پہلے قبول نا کرنے کی بات بھی اسی کی تھی۔ کیا وہ انجان بن رہا تھا یا پھر اب یہ رشتہ اس کی ضرورت بن گیا تھا؟ یا پھر اس کی نیت۔۔۔
”کیا سوچ رہی ہو؟“ یافث خان نے اس کی خاموشی پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو وہ اس بار نظریں چرانے یا گڑبڑانے کی بجائے اسے دیکھتی رہی۔ یافث بھی اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
”آپ نے خود یہ بات قبول کی ہے کہ آپ امو جان کو میرے بارے میں وہ باتیں کرتے رہے تھے۔ کیا آپ کی اب نیت خراب ہو گئی ہے؟“ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔ یافث خان کو اس کی بات پر ایک دم ہنسی آئی۔ وہ آنکھوں پر بازو رکھے بےآواز ہنسنے لگا۔
”ہاں میری تم پر نیت خراب ہو گئی ہے، اپنی بیوی کو دیکھ کر نیت میں فتور آ گیا ہے میرے۔۔“ وہ ہنس ہنس کر چہرہ سرخ کر چکا تھا۔ اوزگل اپنی بےوقوفی پر خود بھی خجل زدہ سی ہو گئی۔ ایک دم اٹھ کر اس سے دور ہوئی۔ یافث آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اتنی ذہین کیوں ہو؟ کیسے پہچان لیا تم نے مجھے؟ تم نے غلط وقت پر یہ سوال کیا ہے مجھے ڈرپ بھی لگی ہوئی ہے اور ہم گھر سے باہر ہیں۔ یہ سوال گھر جا کر پوچھنا تمہیں پوری وضاحت کے ساتھ جواب دوں گا۔“ وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔ اوزگل منہ بنا کر سائیڈ پر بیٹھ گئی۔
”اوز تھکن ہو تو میرے پاس آ جانا۔“ وہ نرم نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ منہ بگاڑ کر بیٹھی رہی۔ ڈرپ ختم ہونے تک اس نے دوبارہ یافث خان سے بات نہیں کی تھی۔ ڈرپ ختم ہونے سے پہلے یافث کا کوئی جاننے والا ڈاکٹر آیا تو اس نے چیک اپ کر کے اچھا خاصہ اسے ڈانٹ دیا۔
”تمہیں اپنی صحت کا اچھے سے پتا ہے، یار شادی شدہ انسان ہو پھر کیوں ہوٹلنگ کر رہے ہو۔۔ ینگ ہو، اپنی ڈائٹ کا خیال رکھو۔ ہر وقت اس حالت میں پڑے رہے تو ہیلتھ ایشوز بڑھ جائیں گے۔ وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاؤ گے، اور معدہ ایک بار ایکسپائر ہو گیا تو کچھ کھا پی نہیں سکو گے۔ انجام سوچا ہے اپنا؟“ ڈاکٹر کی باتوں پر اوزگل بوکھلا گئی۔
”ہولڈ آن۔۔ کچھ ایشوز کی وجہ سے میرا کک گھر گیا ہوا تھا تو مجھے ہوٹلنگ کرنی پڑے۔۔ میں کب چاہتا ہوں ایسا ہو۔۔ کل سے آفس نہیں گیا، افکورس میرا بھی تو لاس ہوا ہے۔“ یافث خان نے دبی دبی آواز میں کہتے ہوئے ڈاکٹر کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
”یار کک کو کب تک چپکے رہو گے، بیوی کو لاؤ۔۔ تمہیں آفس کے لاس کی پڑی ہے، یہاں تمہاری اپنی صحت خراب ہو رہی ہے۔“ ڈاکٹر نے خفگی سے کہا۔ یافث نے آہ بھری۔ وہ ڈاکٹر اس کا دوست تھا، اس لیے اس کی کنڈیشن اچھے سے جانتا تھا۔
”میں خیال رکھوں گا۔“ یافث نے جان چھڑوائی۔ گردن گھما کر دور بیٹھی اوزگل کو دیکھا تو وہ حجاب کے آستین سے آنسو صاف کرتی رونے میں مصروف تھی۔ وہ فکرمند ہو گیا۔ ڈرپ ختم کروا کر واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں اس نے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اس کی بھیگی آنکھوں کو صاف کیا۔
”اوز۔۔“ اس نے پکارا تو وہ ایک دم اس کا ہاتھ تھام گئی۔
”میں اب آپ کا خیال رکھوں گی، آئی پرامس۔۔ ایک بار پیپرز ہو جائیں تو۔۔۔ میں آپ کو بیمار نہیں ہونے دوں گی۔“ وہ سسکتے ہوئے اسے یقین دلا رہی تھی۔ یافث خان کو اس پر بےساختہ پیار آیا تھا۔

”پریشان کیوں ہوتی ہو اوز، تم میرے پاس ہو گی تو مجھے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتا محبت سے بولا۔ اوزگل نے سٹپٹا کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ وہ مسکرا کر گاڑی کی رفتار بڑھا گیا۔

یافث خان کے غصہ کرنے پر زورک خان نے معذرت کر کے انہیں کھانے پر دعوت دی تھی، اس بار اس نے یافث خان سے بات کی۔ خان حویلی والے اوزگل کے نا آنے پر اب پریشان ہو رہے تھے۔ اس کا ننھیال تھا، غیر تو نہیں تھے کہ اس کا آنا یا نا آنا انہیں محسوس ہی نا ہوتا۔
”اوزگل نہیں آتی یہاں، شاید زرگل سے کوئی ان بن ہوئی ہے مگر اسے سمجھاؤ یہ اس کے ماموں کی حویلی ہے زرگل سے جو بھی اختلاف ہے۔ وہ یہاں آنے سے کیوں رکتی ہے۔“ زورک خان کی بات پر یافث کے ماتھے پر بل پڑے۔ اسے اندازہ نہیں تھا اوزگل کے وہاں نا جانے کی وجہ زرگل تھی۔
”ہم ضرور آئیں گے۔ تم کھانا تیار کرواؤ، ہم نے کل صبح واپس نکلنا ہے، آج رات تمہاری طرف کھائیں گے۔“ یافث خان نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی۔
کمرے میں اوزگل اپنی پیکنگ کرنے میں مصروف تھی۔ دی جان وہیں بیٹھی اسے سمجھا رہی تھیں کہ وہ ایک شادی شدہ لڑکی ہے اور اسے اتنے سادہ کپڑے نہیں رکھنے چاہئیں۔
خان بیگم اس کے لیے نئے جوڑے بنواتی رہتی تھیں اور ہر بار اسے شوخ رنگوں کے بہترین لباس ساتھ دیتی تھیں۔ یافث کمرے میں پہنچتا سیدھا اوزگل کے پاس گیا۔
”تم یہ پیکنگ رات کو کرنا، پہلے تیاری کرو خان حویلی میں ہمارا رات کا کھانا ہے۔“ یافث خان سنجیدگی سے بولتا فریش ہونے چلا گیا، خان بیگم نے اسی وقت نئے کپڑوں میں سے میرون رنگ کا سوٹ الگ کر کے اسے پکڑا دیا۔
دی جان بھی اسے اچھے سے تیار ہونے کی ہدایت دے رہی تھیں جبکہ اوزگل گھبرا کر اپنا سامان سمیٹنے لگی۔ دی جان اور خان بیگم کے جانے کے بعد وہ نہائے دھوئے فریش سے یافث خان کو دیکھنے لگی۔ وہ مرر کے سامنے کھڑا نم بال برش کر رہا تھا، کرتا کے بٹن ابھی تک کھلے تھے۔
”ہم نے کل صبح جانا ہے، رات کو واپس آتے دیر ہو جائے گی۔ اگر ہم اگلی بار۔۔۔“ اوزگل نے ہچکچا کر بہانہ بنانا چاہا، خود پر پرفیوم سپرے کرتے یافث خان نے پلٹ کرتا اسے دیکھا تو وہ بےساختہ چپ ہو گئی۔
”تمہیں تیار ہونا ہے یا ایسے ہی جاؤ گی؟“ اس کے سنجیدہ سوال پر اوزگل کا منہ اتر گیا۔ یافث گہرا سانس بھرتا کرتے کے بٹن بند کرتے ہوئے اس کے قریب آیا۔
”چھپے وہ جس نے کوئی گناہ کیا ہے، تمہارے یوں چھپنے کی کیا وجہ ہے۔ میں تمہارا کزن یا دوست نہیں ہوں اوز۔۔ دوست بن سکتا تھا لیکن تمہیں مجھ سے کوئی تعلق نہیں چاہیے اس لیے میں تمہارا شوہر ہوں اور شوہر کا ظرف اتنا بڑا نہیں ہوتا جتنا تم ڈیمانڈ کر رہی ہو۔۔
آج کے بعد بغیر وجہ دئیے تم مجھ سے کوئی بات نہیں منواؤ گی۔ وہاں نہیں جانا تو وجہ بتاؤ یا پھر چپ چاپ تیاری کرو، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔“ وہ بےلچک لہجے میں بول رہا تھا۔ اوزگل لب کاٹتے ہوئے سر جھکا گئی۔
اس کے بعد وہ پانچ منٹ میں ہی تیار ہو گئی، میرون رنگ کے لباس میں ہم رنگ لپ اسٹک لگائے وہ سادہ سی تیاری میں اس کے سامنے سفید چادر اوڑھ کر کھڑی تھی۔ یافث خان نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔
”لپ سٹک لائٹ کرو، یہ کلرز اپنے شوہر کے لیے اکیلے میں یوز کر لیا کرو، میں تو ویسے بھی پاگل ہوں، مزید دیوانہ ہو جاؤں گا تو خیر ہے۔۔ کنگن کہاں گئے؟ وہ بھی پہنو۔۔ اور رکو زرا۔۔“ یافث تفصیل سے جائزہ لیتا اسے استحقاق سے ٹوکتا اس کی چادر ہٹا گیا۔ وہ گڑبڑا گئی۔
”لاکٹ کہاں ہے تمہارا؟“ یافث نے اس کی گردن سے لاکٹ غائب پایا تو گھور کر اسے دیکھا۔ اس کے سوال پر اوزگل نے ٹھٹک کر گردن پر ہاتھ رکھا، لاکٹ غائب تھا۔
”وہ چینج کرتے ہوئے شاید۔۔ گر گیا ہو۔“ وہ گھبرا کر فوراً ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی۔ لائٹ آن کر کے اپنے کپڑے جھاڑنے لگی، لاکٹ وہیں موجود تھا۔ اٹھا کر پہنتے ہوئے باہر نکلی، لپ سٹک صاف کر کے پیچ رنگ کی ہلکی سی لپ اسٹک لگائی۔
یافث خان نے اس بار اسے دیکھ کر اطمینان سے سر ہلایا۔ وہ دونوں خان حویلی پہنچے تو سب اوزگل سے مل کر خوش ہوئے، ان کے لیے دعوت میں بہت اہتمام کیا ہوا تھا۔ وہ شرمندہ ہو گئی، زرگل کے کہنے پر اس نے اتنی محبتوں کو نظر انداز کر رکھا تھا۔
زرگل ایک طرف صوفے پر سپاٹ چہرہ لیے بیٹھی رہی تھی۔ اسے اوزگل پر غصہ آ رہا تھا اور یہ غصہ اس کے اگنور کرنے پر مزید بڑھ رہا تھا۔ اس کی وجہ سے زورک خان نے اس پر اتنی سختی کی تھی، اسے وارن کیا تھا اور یہاں وہ یافث خان کے پہلو میں بیٹھی مزے سے باتیں کر رہی تھی۔
وہ سر درد کے بہانے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی، واپس جاتے ہوئے اوزگل کی متلاشی نظروں نے زرگل کو تلاش کیا تو اس کی ممانی نے اسے کمرے میں جانے کا کہا۔ وہ کچھ سوچ کر زرگل کے کمرے میں چلی گئی۔
”تماشہ دیکھنے آئی ہو؟ دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے، زورک خان نے تمہاری وجہ سے مجھے ڈانٹا ہے، تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ناں؟“ زرگل اسے دیکھ کر بھڑک گئی۔
”تم نے وہ جھوٹ کیوں بولا؟ کیوں کہا کہ میں پریگننٹ ہوں۔ اپنی غلطی کا تمہیں کبھی احساس نہیں ہوتا، بس مجھ پر چیخنے کا شوق ہے۔ میری وجہ سے کیوں، زورک خان نے تم پر تمہاری وجہ سے ہی غصہ کیا ہے۔ تم یہ تماشے ختم کیوں نہیں کر دیتیں۔۔“ اوزگل نے بےزاری سے کہا۔
”میں تمہیں اور تمہارے شوہر کو برداشت نہیں کر سکتی، اتنی سی بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی۔۔“ زرگل دبا دبا چلائی۔ ”تم دونوں میری نظروں سے دور ہو جاؤ تو میری زندگی آسان ہو جائے گی۔ کیوں آ جاتی ہو بار بار۔۔“ وہ اسے دھکے دیتی پاگل ہونے لگی۔
”زر ہم بہنیں ہیں، تم کب تک مجھ سے دور رہو گی، یہ میرے ماموں کی حویلی ہے۔ کیا میں ان سب سے ملنا چھوڑ دوں؟“ اوزگل اس کی حالت سے گھبرا گئی، اس کے دھکا دینے پر لڑکھڑا کر سنبھلی تھی۔
”چھوڑ دو، تم اگر یافث خان کو نہیں چھوڑ سکتیں تو ان سب کو چھوڑ دو۔۔ مجھے ازیت کیوں دے رہی ہو اوزی، مجھے سنبھلنے کا موقع تو دو۔۔ تمہاری وجہ سے آج زورک خان نے آج مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے، وہ سختی کرتا ہے مجھ پر۔۔
کل کو وہ مجھے مار کر حویلی سے نکال دے گا۔ تمہارا کیا جائے گا، تباہ تو زرگل ہو گی۔“ زرگل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، اوزگل اس کے الفاظ پر ساکت رہ گئی تھی۔ اسی وقت زورک خان اسے بلانے آیا تو زرگل کو روتا دیکھ کر رک گیا، اوزگل کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا۔
”کیا ہوا ہے؟ زرگل کیا کر رہی ہو، کیا تم نے اوزگل کو پھر سے کچھ کہا ہے؟“ زورک خان ضبط سے پوچھ رہا تھا۔ زرگل نے سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ اوزگل کو زورک خان کا رویہ شدت سے محسوس ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی معاملہ سمجھ لیا تھا، آتے ہی زرگل سے سوال کیا تھا۔
”ہم بہت وقت کے بعد ملی ہیں، زرگل اس لیے ایموشنل ہو رہی ہے۔ میں اپنی پڑھائی کی وجہ سے سب کو اگنور کر رہی تھی، زرگل کو میری یہ حرکت ہرٹ کر گئی ہے۔ ہم دونوں نے بچپن ساتھ گزارا ہے، وہ اپنی بہن سے دور ہو کر پریشان ہے زورک خان۔۔
تم اس سے ایسے سوال کیوں کر رہے ہو جیسے وہ میری دشمن ہے؟“ اوزگل بولتے بولتے رو پڑی۔ زورک خان گھبرا گیا۔
”میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا، یافث خان تمہارا انتظار کر رہا ہے، تم جاؤ اور پریشان مت ہو۔۔ زرگل کا ناراض ہونا بنتا ہے، تم نے یہاں آنا کیوں چھوڑ دیا۔ اب اس سے ملنے آتی رہنا۔۔“ زورک نے نرمی سے کہا تو وہ روتے ہوئے باہر نکل گئی۔

”اس میں رونے والی کیا بات ہے، تم جب کہو گی میں تمہیں اوزگل سے ملوانے لے جایا کروں گا۔ تم کہو گی تو شہر بھی لے جاؤں گا۔ اب رونا بند کرو۔۔“ زورک خان نے آگے بڑھ کر زرگل کو سینے سے لگا لیا۔ وہ اس کے سینے میں سمٹتی بری طرح سسک رہی تھی۔

اوزگل گاڑی میں جا کر بیٹھی تو یافث خان اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ وہ چادر میں چہرہ چھپائے بےآواز رو رہی تھی۔ وہ ایک دم سنجیدہ ہوا۔
”تم زرگل سے ملنے گئی تھیں؟ اس نے کچھ کہا ہے؟“ یافث خان کے غصیلے سوال پر وہ دھک سے رہ گئی۔ سب زرگل کا مزاج سمجھنے لگے تھے؟ وہ سب کے سامنے اپنا غصہ ظاہر کر چکی تھی۔
”وہ مجھے کیوں کچھ کہے گی، ہم بہنیں ہیں۔“ اوزگل چیخ اٹھی۔ یافث خان نے گہرا سانس بھرا۔
”تو پھر ایسے کیوں رو رہی ہو، آج تمہاری رخصتی تو نہیں ہو رہی۔۔ پہلی بار دیکھا ہے بہن سے مل کر کوئی اس طرح رو رہا ہے۔ تم مجھے پاگل کر دو گی اوز۔۔“ وہ گاڑی سٹارٹ کرتا خفگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل آواز سے رونے لگی۔ زرگل کی حالت اس کا دل دکھا رہی تھی۔
”اوز چپ ہو جاؤ، کیا ہو گیا ہے۔ پاگل تو نہیں ہو۔۔۔“ یافث اسے اتنی بری طرح کانپتا روتا دیکھ کر بےاختیار اسے ٹوک گیا۔
”ہاں میں پاگل ہوں۔ کاش میں آپ سے شادی ہی نا کرتی۔۔ کاش ہماری شادی نا ہوتی تو آج سب ٹھیک ہوتا۔“ وہ غصے سے بھر گئی تھی۔ تماشہ کیا تھا، زرگل یافث خان کو چاہتی تھی اور پہلے وہ بھی یہی چاہ رہا تھا۔ اس نے پہلے زرگل کو اپنی محبت میں دیوانہ بنایا اور پھر اوزگل سے شادی کر لی۔
آج زرگل بھی اس کی وجہ سے بےآرام تھی اور اوزگل بھی۔۔ اور یہاں وہ اس سے سوال کر رہا تھا کیا ہوا ہے۔ اوزگل کے الفاظ پر یافث خان کے ماتھے پر بل پڑے۔ اس نے گردن موڑ کر اوزگل کو دیکھا، اپنی بھیگی آنکھوں کو بری طرح مسلتی وہ اپنے چہرے کی حالت بگاڑ چکی تھی۔
”شادی تو ہماری ہونی تھی تو ٹھیک کیا نہیں ہے، زرا یہ بتاؤ؟ ٹھیک تو میں نہیں ہوں جو تمہاری خواہش پوری کرنے کے باوجود تم سے باتیں سن رہا ہوں۔ ویسے ایک بات بتاؤ، مجھ سے بدتمیزی کیوں کرنے لگی ہو؟ میں تمہارا ایج فیلو نہیں ہوں اور پہلے بتا چکا ہوں ہم دوست بھی نہیں ہیں۔
اپنی اس چھوٹی سی کھوپڑی میں فضول کی فکریں پالنا چھوڑ دو، اپنی پڑھائی کو توجہ دو کیونکہ اس کے بعد ان نخروں کی بالکل مہلت نہیں ملے گی۔“ وہ اسے صاف الفاظ میں جتاتا گاڑی کی رفتار بڑھا گیا۔ اوزگل نے اپنی آواز دبا لی۔
اس سے پہلے کہ یافث خان بھی اس کا وہی حال کرتا جو زورک خان نے زرگل کا کیا ہوا تھا، اچھا تھا وہ پہلے ہی سدھر جائے۔ وہ سہمی ہوئی سی منہ چھپائے آنسو بہاتی رہی۔ اس نے آج زرگل سے ایک سبق تو لے لیا تھا۔
کہ شوہر نامی شخص بہت خطرناک ہوتے ہیں، جہاں ان کی مرضی کے خلاف بات ہو جائے روپ بدل جاتے ہیں، محبت کہیں نہیں رہتی پھر صرف سختی ہوتی ہے۔ وہ ایسا وقت آنے سے پہلے سہم گئی تھی۔
اس رات وہ صوفے پر روتے روتے سوئی تو یافث خان اس پر چادر ڈالتا رک کر اسے دیکھنے لگا۔ پلکوں پر آنسوؤں کی نمی اب بھی موجود تھی۔ وہ اس پر جھکتا اس کی نم پلکوں کو نرمی سے چومنے لگا۔
وہ زورک خان نہیں تھا، نا ویسا بن سکتا تھا۔ وہ یافث خان تھا اسے اپنی اوز سے اتنی محبت تھی کہ اسے اپنا قتل بھی معاف کر سکتا تھا پھر یہاں تو صرف حق کی بات تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل اسے واپس لا کر بستر پر سہارے سے بٹھاتی اس کی فکر میں ہلکان ہونے لگی۔ اس سے پوچھ کر اس کی مرضی کا کھانا بنایا۔ وہ میڈیسن لے کر ریسٹ کر رہا ہوتا تھا تب بھی اوزگل کی موجودگی کو محسوس کرتا تھا۔ وہ اب مسلسل اس پر نظر رکھتی تھی۔
”میں بس ایک بار پیپر ہو جائیں۔۔ بس فارغ ہو جاؤں تو پھر آپ کا اچھے سے خیال رکھوں گی۔ بس دو پیپر رہ گئے ہیں، بس کچھ تھوڑے سے دن۔۔۔“ وہ راتوں کو دیر تک اور سارا دن پڑھتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ تسلی دیتی تھی۔
یافث خان اس کے دلاسوں پر اکیلا پڑا ہنستا رہتا تھا۔ وہ اسے بتا نہیں سکتا تھا اس کی ان باتوں سے اسے کتنا سہارا ملتا تھا۔ اس کی طبیعت کی خرابی کا سن کر حویلی والوں نے فون کر کے اس کی خیریت پوچھی تو اس نے انہیں بھی وہی تسلی دی۔
”میں اکیلا نہیں ہوں میری بیوی میرے پاس ہے اور میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ اوز نے مجھے ایک منٹ کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا، ابھی تو اس کے پیپرز بھی ہیں۔ بس ایک بار وہ فارغ ہو جائے تو مجھے بالکل بیمار نہیں ہونے دے گی۔“ اس کے کمزور لہجے میں شریر مسکراہٹ محسوس کر کے سب کو اطمینان ہوا۔
وہ خالہ اور ماں سے بات کرتا اوزگل پر ہنس رہا تھا، وہ اس وقت دوستوں کے پاس گئی ہوئی تھی۔ بکس سامنے رکھے بیٹھے بیٹھے نیند کر رہی تھی۔
”علیزے یا جا کر سو جاؤ یا بیٹھ کر پڑھ لو۔ عجیب سستی پھیلائے رکھتی ہو۔۔ بیمار تمہارا کزن ہے اور تھکن تمہیں ہو رہی ہے۔“ رودابہ نے بار بار نیند سے جھٹکے کھاتی اوز کو جھنجھوڑ کر کہا تو وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔
”ان کا خیال بھی تو رکھنا پڑتا ہے، تمہیں کیا پتا ڈاکٹر نے انہیں اتنا ڈانٹا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ان کی اکثر یہی کنڈیشن ہوتی ہے اور اگر ایسا رہا تو یہ فوڈ پوائزننگ پرمننٹ ہو جائے گی۔ ہر وقت وومٹنگ کریں گے۔ میری تو نیند اڑ گئی ہے۔“ وہ جمائی لیتی بند آنکھوں کو کھولنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے روہانسے لہجے میں بولی۔
”بہن آج تو مجھے بتا ہی دو تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ کہیں تم اپنے اس کزن کو پسند تو نہیں کرتیں؟ خیر پسند تو ہمیں بھی ہے پھر تمہارا کیا قصور۔۔ لیکن پھر بھی علیزے ایک انگیجڈ کزن سے اتنی اٹیچمنٹ اچھی بات تو نہیں ہے۔“ خوشنما نے حواس باختگی سے اسے سمجھایا۔
”کس کی اٹیچمنٹ؟ بیمار انسان کی فکر کون نہیں کرتا۔ میں تو ایسی ہی ہوں۔“ اس کی نیند بھک سے اڑی تھی۔ اس کے جملوں پر ان دونوں نے جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے بھی سفر سے آ کر وومٹنگ ہوتی ہے، بیمار ہو جاتی ہوں۔ نہیں یہ نیندیں میرے لیے کیوں نہیں اڑیں؟ دوست سے بڑھ کر کزن عزیز ہو گا تو اسے محبت ہی کہیں گے۔“ رودابہ نے ناک چڑھا کر کہا تو وہ توبہ توبہ کرتی ان دونوں کی طرف پشت کر کے بیٹھ گئی۔
”ہم نے تمہارے جیسی بےایمان لڑکی اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ توبہ اللہ ایسی دیدہ دلیری۔۔ اچھا اپنے اس کزن کی منگیتر تو دکھاؤ۔۔ کیا وہ بھی تمہاری کزن ہے؟ کیسی ہے؟ کیا یہ مغرور خان صاحب اپنی منگیتر کو پسند کرتے ہیں؟“ خوشنما کے پرشوق سوالات پر اوزگل کو بہت کچھ یاد آیا تھا۔
”ہاں وہ ان کی کزن ہے، وہ پسند کرتی تھی مگر ان کو اچھی نہیں لگتی۔۔ انہوں نے آغا جان کو صاف کہہ دیا کہ اس سے شادی نہیں کریں گے، اس کی جگہ اس کی بہن مل جائے تو خیر ہے۔ ان کی منگیتر نے انہیں ایک بار فون کر کے بھی ریکوئسٹ کی تھی۔
وہ چاہتی تھی اس کا منگیتر رشتہ ختم نا کرے، وہ ان سے شادی کرنا چاہتی تھی مطلب۔۔ کون نہیں چاہے گا؟“ اوزگل سر جھکائے بول رہی تھی۔ پیچھے بیٹھی رودابہ اور خوشنما ٹھٹک کر اس کی پشت دیکھنے لگیں۔
”لیکن انہوں نے اسے بھی ڈانٹ دیا اور کہا انہیں دوبارہ تنگ نا کرے۔ پھر۔۔ پتا نہیں کیا ہوا۔۔ اب ان دونوں کے درمیان کیا چل رہا ہے کچھ نہیں پتا۔۔ پھر میں نے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔“ اوزگل نے اپنے آنسوؤں کو کتاب پر گرتا محسوس کر کے آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔
”یہ تو ظلم ہے، مجھے۔۔ دیکھ کر ہی لگتا تھا یہ انسان بہت مغرور اور ظالم ہے۔ اس کی فیانسی، اوہ اس بےچاری پر ایسا صاف کورا انکار سن کر کیسی قیامت گزری ہو گی۔“ رودابہ نے افسردگی سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
”اس کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ یہ صاحب اپنی منگیتر کی بہن کو پسند کرتے ہیں، کون لڑکا ایسا ہوتا ہے جو کہے منگیتر نہیں اس کی بہن چلے گی۔ ایک عام انسان تو اس منگیتر کو انکار کرنے کے بعد پورے گھرانے کو اوائڈ کرے گا۔ انہوں نے اس کی بہن کا کہہ دیا۔ وہ کیسی لڑکی ہے؟ اس نے تو انکار کر دیا ہو گا؟“
خوشنما پرسوچ لہجے میں بولتی سوال کر رہی تھی۔ اوزگل کو بری طرح رونا آیا۔ وہ وقت یاد کر کے اسے ہمیشہ تکلیف دہ احساس ہوتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں جب اچھا وقت آئے تو انسان ماضی بھول جاتا ہے۔ اوزگل تو آج تک ان الفاظ کو نہیں بھول پاتی تھی جو خان زادہ نے فون پر کہے تھے، اسے تو وہ بےزار لہجہ بھی نہیں بھولتا تھا۔
”اس نے۔۔ اس کی بہن نے تو۔۔ انکار نہیں کیا، وہ تو مان گئی تھی لیکن۔۔“ اوزگل اس سے آگے نہیں بول پائی۔ وہ بتا نہیں سکی جب زرگل اس سے شادی کے لیے تیار تھی تب اس نے اوزگل سے شادی کر لی تھی۔ اور زرگل اپنی شادی کے اتنے ماہ بعد تک گھٹ گھٹ کر روتی رہی تھی۔
”وہ مان گئی؟ یا اللہ کیسے بےشرم لوگ ہیں، اتنی بےشرم بہن۔۔ اپنی بہن کے منگیتر سے ہی۔۔ استغفار۔۔“ رودابہ کے بولنے پر اوزگل سناٹوں میں گھر گئی۔ ایک دم ہوش آیا وہ کیا بول رہی تھی۔ کیا بتا رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں رگڑ کر آنسو صاف کرنے کی کوشش کی مگر آنسوؤں کا بند ٹوٹ گیا تھا۔
”اوز میرے کچھ گیسٹ آ رہے ہیں۔ کیا تم چائے بنا دو گی؟ باقی سامان میں باہر سے لے آتا ہوں۔“ یافث خان کا میسج پڑھ کر وہ تیزی سے اٹھی۔ رودابہ اور خوشنما چونک گئیں۔
”میرے کزن کا میسج ہے، میں اب جاتی ہوں۔“ وہ نظریں چراتی کتابیں اٹھا کر وہاں سے نکل گئی جبکہ وہ دونوں اس کے آنسو دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
”علیزے رو کیوں رہی تھی؟“ رودابہ گھبرائی۔
”کہیں وہ کزن۔۔ اس خان کے منگیتر کی بہن علیزے تو نہیں؟“ خوشنما کے دماغ میں جھماکہ ہوا۔

”اوہ گاڈ۔۔ تو کیا یافث خان اس کی بہن شانزے کا منگیتر تھا؟ اس لیے اس کی بہن کا رویہ علیزے سے ایسا تھا۔ اس لیے تو۔۔ یعنی یہ دونوں۔۔ اوہ ہم نے علیزے کو اس کے سامنے برا بھلا کہہ دیا۔“ رودابہ بھی سر پکڑ بیٹھی۔

وہ وہاں پہنچی تو یافث خان اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ روئی روئی سی صورت اور نیلی آنکھوں میں بھیگا پن۔۔ یافث کے دیکھنے پر وہ نظریں چرا رہی تھی۔
”اوز تم ٹھیک ہو؟ اگر طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو رہنے دو، چائے ضروری نہیں ہے۔ میں باہر سے کچھ نا کچھ لے آتا ہوں۔۔“ فکر بھری آواز پر اوزگل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!