Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 20 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :179

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Hum safar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط بیس

وہ سوپ بنا کر کمرے میں گئی تو یافث اسی وقت واش روم سے باہر آ رہا تھا۔ نم آنکھیں، نم چہرہ لیے کمزوری کی وجہ سے دیوار کے سہارے چلتا ہوا بیڈ تک آیا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر اوزگل کو شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔
اسے سہارا دے کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بٹھایا، سوپ کا پیالہ اس کے سامنے رکھ گئی۔ یافث نے زائقہ دار لائٹ سا سوپ پیتے ہوئے سکون سے آنکھیں بند کیں۔ وہ پانی لے آئی۔ سوپ پینے کے کچھ دیر بعد ٹیبلٹ اسے دی تاکہ دوبارہ وومٹنگ نا ہو۔
وہ بستر پر لیٹا تو اوزگل نیم گرم پانی میں ٹاول بھگو کر نچوڑتی اس کے چہرے کی نمی صاف کرنے لگی۔ چہرے کے بعد وہ اس کے ہاتھوں کو نم ٹاول سے صاف کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کر کے سوتے یافث نے بےاختیار آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
وہ گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کی فکر میں پریشان۔۔ رونی صورت لیے۔۔ جو لاپروائی کی تھی، اس کا مداوا کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ یافث خان اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر نرمی سے اس کا کانپتا ہاتھ تھام لیا۔ اوزگل نے چونک کر اسے دیکھا۔
”آپ کو کچھ چاہیے؟“ وہ ٹاول ایک طرف اس کے قریب جھکتے ہوئے فکرمندی سے پوچھ رہی تھی۔ یافث نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم نے کھانا کھایا؟ کچھ کھا لو، میں نے میڈیسن لے لی ہے تو اب سوؤں گا۔“ وہ نرمی سے بول رہا تھا۔
”جی میں ابھی کھاتی ہوں۔ آپ سونا چاہتے ہیں تو لائٹ آف کر دوں؟“ وہ اٹھ کر اس پر بلینکٹ سیٹ کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ یافث نے آنکھیں بند کر کے اثبات میں سر ہلایا۔ اوزگل نے پانی کا برتن اور ٹاول اٹھا کر سائیڈ پر رکھے۔ برتن اٹھا کر کمرے سے نکلتے ہوئے لائٹ بند کی۔
”اوز۔۔۔“ وہ کمرے سے نکلنے لگی، جب یافث نے بےتابی سے اسے پکارا۔ وہ رک گئی۔
”آج رک جاؤ میرے پاس پلیز۔۔“ وہ کھلے دروازے میں کھڑی اوزگل کو تکتا آہستگی سے درخواست کر رہا تھا۔
”جی میں یہیں رکوں گی۔ کھانا کھا رہی ہوں باہر، آپ کو کچھ چاہیے ہو تو بلا لیجیے گا۔“ اس نے تسلی دی اور کمرے سے نکل گئی۔
یافث سکون سے آنکھیں بند کر گیا۔ صبح سے بےآرام پڑا تکلیف جھیل رہا تھا، اسے اوزگل پر غصہ نہیں آیا تھا مگر دل برا ضرور ہوا تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی، اس کے ہوتے ہوئے وہ تکلیف میں اکیلا پڑا رہتا تھا اور وہ کبھی اس کی خبر ہی نہیں لیتی تھی۔
اس بار اوزگل نے اس کا خیال رکھنے کا وعدہ کر کے بھلا دیا تھا اور پہلی بار یافث خان یہ سوچنے پر مجبور ہوا تھا کہ شاید واقعی اوزگل اور اس کے درمیان اب اس تعلق کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
مگر اس نے آ کر اس کی ساری شکایات دور کر دی تھیں، نیند میں جاتے یافث خان کو سکون تھا کہ وہ اس کے پاس ہے اور وہ چاہے چھوٹی تھی، ناراض تھی، اجنبی بنی رہتی تھی مگر بیماری میں اس نے بہت بڑا سہارا دیا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°
اوزگل جو کھانا یافث کے لیے لائی تھی، وہ اوون میں گرم کر کے خود کھا لیا۔ خوشنما اور رودابہ کھانے کے بعد اس کی بکس وغیرہ لے آئیں۔
”تم یہیں رکو گی؟ اکیلی؟“ رودابہ حیران ہو رہی تھی، خوشنما بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہاں یہاں دوسرا روم بھی تو ہے، مجبوری ہے میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔ میری غلطی ہے، مجھے خیال رکھنا تھا مگر بھول گئی۔ صبح سے وومٹنگ کر کے حالت خراب ہو رہی ہے۔ امو جان کو پتا چلا ناں کہ ان کے خان زادہ کی طبیعت خراب ہے اور میں اپنے فلیٹ میں بیٹھی رہی۔۔
میری خیر نہیں ہو گی۔ یہاں ہم دونوں ہی ہیں، ایک دوسرے کی زمہ داری ہیں۔ میں انہیں اگنور نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی میں نے تو رات کو بیٹھ کر پڑھنا ہے، خیال بھی رکھوں گی کچھ چاہیے نا ہو۔۔“ وہ فکرمندی سے بول رہی تھی۔ اس کی باتیں انہیں شک میں مبتلا کر رہی تھیں مگر ہاں وہ بیمار تھا اور اکیلا پڑا تھا۔
”تم پریشان مت ہو علیزے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور ہم دونوں جاگ رہی ہیں، کچھ بھی چاہیے ہو ہمیں کال کر دینا۔۔ ہمارا مشورہ مانو تو صبح اگر تمہارے کزن کی کنڈیشن کچھ سٹیبل ہو تو ہاسپٹل جا کر چیک کروا لینا۔“ خوشنما نے اسے تسلی دی، وہ اتنی ہراساں ہو رہی تھی۔
”تھینک یو، ابھی تو میں بھی جاگ رہی ہوں۔ ہاں میں بھی سوچ رہی تھی صبح کہوں گی چیک اپ کروا لیں۔“ اس نے آہستگی سے کہا۔ وہ دونوں سر ہلا کر چلی گئیں، اوزگل اپنے لیے چائے بنا کر باہر صوفے پر بیٹھ کر پڑھنے لگی۔ وقتاً فوقتاً جا کر یافث خان کو بھی ایک نظر دیکھ لیتی تھی، ٹیبلٹ کی وجہ سے وہ اب سکون میں آ چکا تھا۔
وہ اپنی پڑھائی کرنے لگی، رات کو یافث کی آنکھ کھلی تو اوزگل کو نا پا کر وہ بےقرار سا بستر سے اٹھ کر باہر آیا، وہ صوفے پر بیٹھی شال میں سکڑی سمٹی پڑھنے میں مصروف تھی۔
”اوز باہر کیوں بیٹھی ہو، سردی ہے اندر آ جاؤ۔۔“ وہ نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا، وہ ٹھٹک کر سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔ اتنی سردی میں وہ بستر سے نکل کر صرف شرٹ ٹراؤزر میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”آپ ٹھیک ہیں، بستر سے کیوں نکل آئے؟ کچھ چاہیے تھا؟“ اوزگل گھبرا کر اٹھی۔
”میں ٹھیک ہوں، کچھ نہیں چاہیے۔۔ تم بکس اٹھاؤ اور اندر چل کر بستر میں بیٹھو، ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔“ وہ اس کا سر تھپتھپا کر بولا۔ اوزگل جھینپ کر اپنی شال سیٹ کرنے لگی۔
”لائٹس آن ہوں گی تو آپ کیسے سو پائیں گے۔ آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ فکر مندی سے بول رہی تھی۔ وہ کچھ سنبھل گیا تھا مگر کمزوری تو اب بھی باقی تھی۔ مگر اس کی فکر کے جواب میں وہ جھک کر اس کی بکس اٹھانے لگا، اوزگل ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اندر آؤ۔۔ مجھے لائٹس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔“ وہ اس کا سامان اٹھائے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے کی لائٹ آن کر کے بیڈ پر اس کی بکس رکھیں اور اپنی جگہ پر بیٹھا۔ اوزگل بھی سرد پڑتے ہاتھ پیر لیے جلدی سے بیڈ پر بیٹھی، یافث خان نے اس پر بلینکٹ پھیلا کر اس کا سرد ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔ اوزگل کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔
”تم نے آج آکر مجھے بھی بچا لیا اور خود کو بھی۔۔ ورنہ آج جو میری حالت تھی، میں اگر زندہ بچ بھی جاتا ناں تو تمہاری خیر نہیں تھی۔“ وہ اپنی جگہ پر لیٹتے ہوئے بولا۔ اوزگل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔
”میں واقعی بھول گئی تھی۔ میں نے جان بوجھ کر آپ کو اگنور نہیں کیا۔ آپ بھی تو کال کر سکتے تھے۔“ وہ اس کی بات پر اچھی خاصی بوکھلا گئی تھی۔ وضاحت دینے لگی۔
”ریلیکس میری جان، میں جانتا ہوں تمہارے ایگزامز ہیں اس لیے تمہیں کال نہیں کی تھی۔ تم پڑھو، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔۔“ وہ نرمی سے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر گیا۔ اوزگل چور نظروں سے اسے دیکھتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا گئی۔ وہ ناجانے کیسا مزاج رکھتا تھا، غصہ تو کرتا ہی نہیں تھا۔
ہر بار، ہر بات پر نرمی، مسکراہٹ اور اتنا محبت بھرا انداز۔۔ کوئی انسان زبردستی کے تعلق پر اتنی اپنائیت کیسے دکھا سکتا ہے۔ وہ اتنا اچھا تو نہیں تھا۔ اس کی نظریں بار بار بھٹک کر یافث خان پر جانے لگیں، پڑھنا مشکل ہو گیا۔ وہ اس کے بالکل قریب آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔
اوزگل نے جھجک کر اس کے بالوں کو چھوا، اس کی سفید رنگت میں شہابی پن نمایاں ہوتا تھا۔ اس وقت رنگت زرد سی ہو رہی تھی، اس کے نقوش تیکھے تھے۔ وہ جب جاگا ہوا ہوتا تھا تو بہت مغرور لگتا تھا مگر اس وقت سوتے ہوئے وہ بہت بےضرر اور سادہ سا لگ رہا تھا۔
اوزگل نے سر جھٹک کر اپنی توجہ کتاب کی طرف کی، نرم گرم بستر میں سکون سے سوتے یافث خان کو دیکھ کر اب اس کی بھی نیت خراب ہو رہی تھی۔ تھکن بھی تھی اور نیند کی کمی تو ان دنوں ویسے بھی بہت ہو رہی تھی، منہ کھول کر جمائی لیتی وہ بار بار بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کچھ دیر بعد یافث نے لائٹ سے تنگ ہو کر کروٹ بدلی تو ہاتھ اوزگل سے ٹکرایا۔ وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا، بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ گہری نیند میں تھی۔ بال کندھوں سے آگے کو بکھرے تھے، شال کندھوں سے ڈھلک کر بیڈ پر پڑی تھی۔ کتابیں سامنے پھیلی پڑی تھیں۔ گردن ایک طرف ڈھلکی ہوئی تھی۔ وہ بےاختیار اٹھ بیٹھا۔
اس کی کتابیں سمیٹ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھیں، شال اٹھا کر تکیے کے پاس رکھ کر اٹھا اور لائٹس آف کر دیں، بیڈ پر اپنی جگہ بیٹھ کر نیند کرتی اوزگل کے دونوں ہاتھ تھام کر اپنے قریب کرتے ہوئے ٹھیک سے سلا گیا۔ بلینکٹ اس پر سیٹ کیا تو وہ سکون سے نیند کرتی اس کے حصار میں سمٹ آئی۔
یافث اس کے سرد ہاتھوں کو تھام کر اپنے سینے پر رکھتا آنکھیں موند گیا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ماضی:
وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے حویلی واپس آئی ہوئی تھی۔ شدید گرمیوں میں یونیورسٹی جانا اور آنا اس کی نازک مزاجی پر بھاری پڑا تھا۔ بخار اور کمزوری ختم نہیں ہو رہی تھی، خان بیگم اور دی جان اس کا خیال رکھتی پریشان ہو رہی تھیں، ابھی تو پڑھائی شروع کیے چند ماہ ہوئے تھے اور وہ بیمار ہو کر آ گئی تھی۔ اس دن وہ ایسے ہی بےزار سی کمرے میں پڑی تھی جب زرگل کی کال آئی۔
”کیسی ہو؟“ زرگل کی کال اور پھر اس کا حال احوال لینا اوزگل کو ٹھٹکا گیا۔ وہ حیرت کے مارے کچھ دیر بول نہیں پائی تھی پھر زرگل کے پکارنے پر ہوش میں آئی۔
”ہاں بہتر ہوں، اب تو ٹھیک ہوں پہلے بہت طبعیت خراب تھی۔“ اوزگل کو لگا وہ طبیعت کی خرابی کا سن کر اسے کال کیے بیٹھی تھی۔ مگر دوسری جانب زرگل منہ بنا رہی تھی۔ ایک روز پہلے رات کے وقت زورک خان نے اس سے بات کرتے ہوئے اچانک اس کی اور اوزگل کی دوری کی وجہ پوچھی تھی۔
”تم دونوں میں کیا لڑائی چل رہی ہے؟ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، تم دونوں لڑتی جھگڑتی تھیں مگر ہمیشہ ساتھ رہتی تھیں۔ پھپھو نے تم دونوں کا ایک روم سیٹ کیا ہوا تھا کہ تم الگ نہیں ہو سکتیں۔ پھر اب کیا ہوا؟“ زورک کا سوال بہت اچانک تھا، زرگل گڑبڑا گئی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا، اب ہم میریڈ ہیں۔ اپنے اپنے گھر ہیں۔ ایک ساتھ تو نہیں رہ سکتے ناں اب۔۔“ زرگل نے بات بدلنے کی کوشش کی مگر زورک خان کوئی بچہ نہیں تھا جو اس کی بات سے بہل جاتا۔
”زرگل بات نہیں بدلو۔۔ تم دونوں کا ملنا جلنا اور بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے تمہارے درمیان سب ٹھیک نہیں ہے اور مجھے بالکل فرق نہیں پڑتا تم دونوں بہنیں ایک دوسرے سے ملنا پسند کرتی ہو یا نہیں، یہ تمہارا زاتی مسئلہ ہے۔ مگر اوزگل نے یہاں آنا چھوڑ دیا ہے۔ بابا جان بھی پریشان ہو رہے تھے کہ کیا وجہ ہے۔
ہم نے دو تین بار اسے انوائٹ کیا ہے مگر اس نے ہر بار کوئی نا کوئی بہانہ بنا کر منع کر دیا۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرتی تھی۔ یہاں بہت شوق سے آتی تھی، سب سے ملتی تھی، ہمارے ولیمہ پر بھی آئی اس کے بعد کیوں منع کر رہی ہے۔“ زورک خان کے سوال پر زرگل نے نظریں چرائیں۔ وہ اوزگل کو خود منع کر چکی تھی، اس کے بعد وہ کیسے آ سکتی تھی۔
”ہو سکتا ہے خان زادہ نے منع کر دیا ہو۔ اس کا یہاں نا آنا اس کی مرضی ہے یا شاید اس کے شوہر نے منع کیا ہو۔۔“ وہ الزام یافث خان پر ڈال گئی تھی مگر وہ اس کی بات پر ابرو چڑھا گیا۔
”میری اس سے بات ہوتی رہتی ہے، شاید تم بھول گئی ہو، ہمارا ایک خاندان ہے، ہم کزنز ہیں۔ وہ مجھے صاف کہہ چکا ہے اوزگل منع کر دیتی ہے۔ میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں تم نے اسے کچھ کہا تو نہیں؟ صرف ہاں یا ناں میں جواب دو۔۔“ زورک سنجیدہ ہوا۔
”میں کیوں کچھ کہوں گی۔“ وہ رونی صورت بنا گئی، کبھی کبھی ایسا لگتا تھا زورک خان اس کے اندر تک جھانک لیتا ہے۔ کم عمری سے ہی وہ دونوں زورک خان کے قریب تھیں اور وہ ہمیشہ ان دونوں کو ایسے ہی اوبزرو کرتا رہتا تھا۔ وہ آج بھی ویسا ہی تھا کھوجتی نظروں سے زرگل کو دیکھتا گویا وہ جانتا تھا قصور اسی کا ہو گا۔
”اچھا ٹھیک ہے، اوزگل حویلی آئی ہوئی ہے۔ اسے کال کر کے آج کھانے پر انوائٹ کر لو، تم بہن ہو تمہارا بلانا اسے بھی اچھا لگے۔ آج یافث خان آ رہا ہے اس بہانے دونوں کی دعوت ہو جائے گی۔“ زورک نے اس کی روہانسی صورت پر مسکراتے ہوئے اسے خود سے لگایا۔
”آپ خود کال کر لیں، مرد اگر کھانے کی دعوت دیں تو زیادہ اچھے لگتے ہیں۔“ وہ اس کے سینے پر سر رکھے بہانے بنا رہی تھی۔ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے زورک نے رک کر اسے دیکھا۔
”زر تمہیں ہمیشہ سے باتیں بنانے میں مہارت حاصل تھی مگر اب زرا اپنی چالاکیاں کم کر دو۔۔ صبح کال کر کے اس کی طبیعت بھی پوچھ لینا اور انوائٹ بھی کر لینا۔۔“ زورک نے اس کا چہرہ اپنے سامنے کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر خان صاحب۔۔“ زرگل نے بہانہ بنانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کرواتا اپنے حصار میں سمیٹ گیا۔ اس کے بعد اس نے زرگل کو بہانہ بنانے کی مہلت نہیں دی تھی اور اب صبح وہ اوزگل کو کال کیے حال احوال لیتی اچھی خاصی مشکل میں آ گئی تھی، خود منع کر کے خود بلاتے انا آڑے آ رہی تھی۔
”تو ہوا کیا تھا تمہیں؟ کیوں طبیعت خراب ہوئی؟ کہیں تمہیں پریگنینسی تو نہیں؟“ زرگل نے چونک کر پوچھا تو اوزگل کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے، صرف بخار ہوا تھا۔ شادی سے پہلے بھی تو ہم بیمار ہوتے تھے اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔“ اوزگل نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ مگر زرگل کا چہرہ کسی خیال کے تحت چمک اٹھا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے پھر تم اپنا خیال رکھو، میں نے تو بس یہی پوچھنا تھا۔ میں زرا کچن میں جاتی ہوں، دی جان اور باقی سب کو سلام دینا اللہ حافظ“ زرگل جلدی سے بات ختم کرتی کال کاٹ گئی۔ اوزگل کو اس کی خیریت پوچھنے کا بھی موقع نہیں ملا۔
وہ آہ بھر کر موبائل ایک طرف رکھتی تکیے پر سر رکھ گئی۔ وہاں زرگل نے باہر نکل کر ان کی دعوت کا اہتمام کرنے سے روک دیا تھا۔ زورک خان نے سنا تو مردانے سے آ کر اس سے سوال کرنے لگا۔
”کیا ہوا، وہ پھر سے نہیں آ رہے؟ اوزگل کو مسئلہ کیا ہے۔ سب خیریت تو ہے ناں؟“ وہ پریشان ہونے لگا۔ وہ بہنوئی سے پہلے کزن تھا، اوزگل سے تو اسے خاص لگاؤ تھا پھر یہ اوزگل کا ننھیال تھا۔ خان داد کو یہ بات پریشان کرتی تھی کہ اوزگل نے شادی کے بعد ان کے ہاں آنا چھوڑ دیا تھا۔
”اوزگل کی طبیعت کی وجہ سے اس کا سفر کرنا مشکل ہے۔ وہ پریگنینٹ ہے، کہہ رہی تھی کھانے پینے میں احتیاط کرنی ہے اور اسے پڑھائی کی وجہ سے واپس شہر بھی جانا ہے۔ اس لیے معذرت کر لی۔“ زرگل نے اطمینان سے جھوٹ بول دیا۔
”اوہ ما شااللہ یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ میں یافث خان سے بات کرتا ہوں، مبارک بھی دے دوں گا اور۔۔“ زورک مسکراتے ہوئے موبائل اٹھا رہا تھا۔ زرگل نے گھبرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”رہنے دیں مجھے تو اوزگل نے باتوں باتوں میں بتا دیا۔ پتا نہیں وہ لوگ ابھی بتانا چاہیں یا نہیں، وہ خود بتائیں تو مبارک دے دیجیے گا۔ خان صاحب آپ شہر کب جائیں گے؟ میں نے کچھ سامان منگوانا ہے۔“ وہ اسے روک کر بات بدل گئی۔

”کیسا سامان۔۔ زر میں لاسٹ ویک تمہاری ضرورت کا ہر سامان لایا ہوں، بلکہ ضرورت ہو یا نہیں تم اتنی بڑی بڑی لسٹ بنا کر پکڑا دیتی ہو۔۔ بس کر جاؤ لڑکی، اتنی شاہ خرچ کیوں ہو۔۔“ وہ خفا ہونے لگا۔ زرگل منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔

یافث خان گھر پہنچا تو حویلی میں سب جوش و خروش سے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ اس کے آتے ہی دی جان نے اسے سینے سے لگا لیا۔ پھر آغا جان، پھر امو جان۔۔ ایک کے بعد ایک۔۔ پرجوش اور جذباتی سے۔۔ وہ حیران ہوا۔
”کیا ہوا آپ سب کو؟ اتنی مبارک، اتنی خوشی۔۔ خدا خیر کرے، میں شہر سے آیا ہوں عمرہ کر کے تو نہیں آیا۔۔“ یافث خان نے ہنستے ہوئے مذاقاً کہا تو دی جان نے جوش سے کپکپاتی آواز میں اس پر دھماکہ کیا۔
”یا تمہیں پتا نہیں یا تم جان بوجھ کر بھولے بن رہے ہو۔۔ اوزی نے بتایا نہیں تمہیں کہ تم باپ بننے والے ہو؟“ ان کی بات پر یافث کی مسکراہٹ سمٹی۔ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”دی جان یہ کیا کہہ رہی ہیں؟ آپ کو کس نے کہہ دیا ایسا؟“ وہ بوکھلا گیا۔ وہ تو بیمار بیوی کو دیکھنے آیا تھا، یہ کیا نئی کہانی بن گئی تھی۔
”اس پاگل لڑکی نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں اور شاید تمہیں بھی نہیں بتایا۔ خان داد کا فون آیا تھا آج دعوت تھی مگر اوزگل نے معذرت کی کہ وہ سفر کرنے کے قابل نہیں۔۔۔ بہن کو اپنا بتایا تو ہمیں پتا چلا۔۔“ آغا جان خفگی سے بول رہے تھے۔ یافث خان کا سر چکرایا۔
”میں دیکھتا ہوں۔۔“ وہ خفت زرہ سا اپنے کمرے میں گیا۔ اوزگل بیڈ پر لیٹی بوریت سے موبائل پر سکرولنگ کر رہی تھی۔ یافث خان کو دیکھ کر جلدی سے اٹھتی ڈوپٹہ خود پر پھیلا گئی۔
”یہ کیا چکر چلایا ہوا ہے بھئی؟ باہر سب مجھے مبارک دے رہے ہیں کہ میں باپ بننے والا ہوں۔“ یافث اس کے سامنے رکتا بغور اس کا سرخ کمزور چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی بات پر اوزگل ہونق سی اسے دیکھنے لگی۔
”تم نے زرگل سے کہا تم پریگنینٹ ہو؟ سیرئیسلی اوز۔۔ اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے تمہیں یہاں سب کا خیال بھی نہیں آیا۔۔ کتنے خوش ہو رہے ہیں سب، دی جان نے تو یہ دعا بھی شروع کر دی کہ ہماری بیٹی ہو۔۔ کچھ تو خیال کرنا تھا اوز۔۔“ وہ ناراض ہو رہا تھا۔
”میں نے کسی کو ایسا نہیں کہا۔۔ میں کیوں جھوٹ بولوں گی۔۔ زرگل نے شاید مذاق کیا ہو۔۔“ اوزگل بری طرح گھبرا گئی، چہرہ پہلے ہی ٹمپریچر سے سرخ ہو رہا تھا اب شرم سے مزید سرخ ہو گیا گویا کسی نے سرخ رنگ گھول دیا ہو۔ اس کی بات پر یافث نے لب بھنچ کر اسی وقت زورک خان کو کال ملائی۔
”ہاں زورک خان۔۔ یار زرا اپنی بیوی کو عقل دلاؤ، اتنا بیہودہ مذاق کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ ہمیں خبر ہی نہیں اور یہاں تمہاری بیوی کی مہربانی سے پوری حویلی خوشیاں منا رہی ہے کہ میں باپ بننے والا ہوں۔ میں اب سب کو کلئیر کرتے ہوئے بھی آکورڈ ہو رہا ہوں۔
کچھ بھی منہ میں آئے بول دیتی ہے، اس کا مجھ سے ایسا کوئی مذاق نہیں، بہنوں سے بھی ایسا مذاق نہیں کیا جاتا، انسان سامنے والے کا بھی خیال کرتا ہے۔“ یافث کو اچھا خاصہ غصہ آیا ہوا تھا۔
زورک خان اس کی بات پر شرمندگی سے معذرت کر رہا تھا۔ اوزگل پریشان ہو گئی، یافث خان کا غصہ تو چلو زورک خان پر اترا تھا مگر زورک خان کو غصہ آ گیا تو زرگل کی خیر نہیں۔۔ اوزگل سر پکڑ بیٹھی، زر ہمیشہ ایسی الٹی حرکتیں کر جاتی تھی۔
بنا سوچے سمجھے، جو منہ میں آتا تھا بول دیتی تھی۔ گھر میں بھی اس پر کوئی نا کوئی بات کر جاتی تھی اور پھر اچھی خاصی لڑائی کے بعد ثمر خان ان کی صلح کرواتے تھے۔ مگر اب حالات بدل چکے تھے، اب ان کا باپ درمیان میں نہیں تھا۔ اب یافث خان اور زورک خان درمیان میں آ چکے تھے۔
یافث خان نے اس کا مذاق برداشت نہیں کیا تھا اور جیسے اس نے زورک خان کو سنائی تھیں یقیناً وہ بھی اب برداشت نہیں کرنے والا تھا۔ یافث خان نے کال بند کر کے موبائل بیڈ پر پٹخا اور بنا کچھ بولے واپس کمرے سے نکلا۔ اوزگل نے اپنا موبائل اٹھایا اور زرگل کو میسج کیا۔
”زرگل تم نے اپنی عادت نہیں بدلی اب بھگت لینا۔۔ جب میں نے تمہیں کہہ دیا تھا ایسا ویسا کچھ نہیں تو کیوں تم نے جھوٹ بول دیا۔ اب زورک خان کو وضاحت دیتی رہنا۔۔“ اوزگل نے ناراضگی بھرا میسج لکھ کر بھیجا تو زرگل کا فون آ گیا۔
”تم کچھ دن یہ بات پیٹ میں رکھ لیتیں تو کیا ہو جاتا۔۔ سیچوئشن ایسی بن گئی تھی، زورک خان نے دعوت کی ہوئی تھی تم دونوں کی۔ ہم بلاتے تو کیا تم چلی آتیں؟“ زرگل اس پر چیخ رہی تھی۔
”اب مجھ پر چیخنے کی بجائے کوئی بہانہ ڈھونڈ لو کیونکہ زورک خان آبا کی طرح تمہارے رونے پر اپنی شرمندگی نہیں بھلائے گا۔ تم شکر کرو یہاں نہیں تھیں ورنہ آج یافث خان تمہیں اس جھوٹ کا اچھے سے جواب دیتا۔۔“ اوزگل نے نہایت اطمینان سے کہا اور زرگل کے چیخنے کی پرواہ کیے بغیر کال کاٹ دی۔
باہر یافث سب کو وضاحتیں دیتا ان کی مایوسی پر مزید غصہ ہو گیا تھا۔ زرگل کی حرکت اس کا دماغ خراب کر گئی تھی۔ وہ اوزگل کو نرمی سے ڈیل کر رہا تھا تو اس کی وجہ محبت تھی، وہ اس کی بیوی تھی اور اس کی وجہ سے کم از کم وہ ایسے شرمندہ نہیں ہوتا تھا لیکن زرگل اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ نا وہ اسے برداشت کر سکتا تھا نا اسے معاف کیا تھا۔
دوسری طرف خان حویلی میں زورک خان پہلی بار غصے میں زرگل ہر ہاتھ اٹھا چکا تھا، اس کے رخسار پر پڑنے سے پہلے اس نے وہ تھپڑ فضا میں روک لیا تھا مگر سرخ چہرے کے ساتھ اسے یہ وارننگ دینا نہیں بھولا تھا کہ اگلی بار یہ تھپڑ تمہارے منہ پر پڑے گا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
حال:
”آپ کی طبیعت کچھ بہتر ہے، اگر ڈرائیو کر سکتے ہیں تو پلیز ہاسپٹل چلے جائیں، آپ کو پانی کی کمی ہو جائے گی۔“ اوزگل تیسری بار سوپ گرم کر کے یافث خان کے لیے لاتے ہوئے فکرمندی سے بول رہی تھی۔ اس کی صبح سے پھر وہی حالت تھی۔ جو کھاتا تھا وومٹنگ ہو جاتی تھی۔
”ہاں ہاسپٹل جانا پڑے گا۔ تم ساتھ چلو گی؟“ وہ بیڈ پر لیٹا ہانپتے ہوئے اوزگل کو دیکھنے لگا۔ اس نے سوپ دینا چاہا مگر وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
”جی میں بھی جاؤں گی، وہاں آپ کو میں ہی سنبھالوں گی ظاہر ہے۔۔“ اس کی بات پر وہ اس حال میں بھی مسکرا دیا۔
”تمہارے منہ سے یہ بات سن کر عجیب لگ رہا ہے۔ تم مجھے سنبھالو گی؟“ وہ ہنسی دبا رہا تھا، اوزگل اس کی مسکراہٹ سے انجان کمرہ سمیٹ رہی تھی۔
”جی میں سنبھال لوں گی، رات کو بھی تو سنبھالا تھا۔“ اس نے تسلی دی۔ یافث خان یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ اوزگل کی موجودگی میں اس کا کمرہ رونق سے بھرپور لگتا تھا، ورنہ وہی تاریکی اور خاموشی اور وہی بےزار تھکن زدہ سا یافث خان۔۔
وہ کپڑے اٹھا کر چینج کرنے چلا گیا، اوزگل اپنے فلیٹ میں پہنچی۔ رودابہ اور خوشما ابھی تک سو رہی تھیں۔ وہ اپنا ایک صاف سوٹ اور عبایا اٹھا کر واپس آ گئی۔ کچن میں پڑے چند برتنوں کو دھو کر رکھا اور یافث کے تیار ہونے تک عبایا پہن کر اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
وہ پہلی بار اپنی طبیعت کی وجہ سے ہلکی سپیڈ میں ڈرائیور کر رہا تھا، اوزگل اس کے ساتھ بیٹھی یہ سوچنے میں مگن تھی کہ اسے جلد از جلد ڈرائیونگ سیکھنی چاہیے۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں تھا۔ یافث خان اتنی نقاہت کے باوجود گاڑی خود چلا رہا تھا اور اوزگل فارغ ترین خوامخواہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔ وہ متاسف ہو رہی تھی۔
”اوز میرے علاج کے لیے ڈاکٹر جو بھی کہے گا مانو گی؟“ یافث نے اسے سوچوں میں گم دیکھ کر مخاطب کیا۔ وہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو سنجیدہ سا ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
”جی ہاں، یہی ضروری ہے۔ آپ ڈاکٹر سے یہ بھی پوچھیے گا کہ آپ کے لیے اس کنڈیشن میں کون سی خوراک بہتر ہو گی۔ مجھے اگر طریقہ نا آیا تو اپنی دوست سے سیکھ لوں گی اور میں وعدہ کرتی ہوں اس بار آپ کا واقعی خیال رکھوں گی۔“ اس نے ندامت سے کہا۔
”اگر ڈاکٹر نے کہا مجھے بیوی کی ضرورت ہے۔۔ تب بھی؟“ اس کے جملہ پر وہ بےساختہ چپ ہوتی یافث کو دیکھنے لگی۔ اسے بھی یافث خان کی ضرورت تھی، ایک سال سے الگ تھلگ رہتے رہتے تھک گئی تھی۔ وہ تو بہت پہلے اس کی بیوی بن کر آگئی تھی لیکن کیا اسے اوزگل کی ضرورت تھی؟ کیا وہ چاہتا تھا اوزگل اس کے ساتھ رہے؟
یہ وہ سوال تھے جو اوزگل پوچھنا چاہتی تھی مگر جواب سننے سے ڈرتی تھی۔ ڈرتی تھی وہ یہ نا کہہ دے حویلی والوں کی خاطر رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہوں۔۔ اور اوزگل کو تو اس کی محبت کی چاہ تھی۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Comment (1)

  • January 25, 2025

    Alina Anwer

    Amazing Mobil outstanding

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!