Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط انیس
:حال
اوز صبح جاگ کر کمرے سے نکلی تو خالہ اور بھابیوں کو سامنے ناشتے کے لیے بیٹھا دیکھ کر خفت زدہ ہو گئی۔ اتنی دیر وہ کبھی نہیں سوتی تھی، پتا نہیں کیسے رات کی سوئی اب اٹھ رہی تھی۔ یافث خان کمرے میں بھی نہیں تھا اور اب باہر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
”اوز آجاؤ۔۔ میں ابھی آنے والی تھی کہ تمہیں جگاؤں، لڑکے تو ناشتہ کر کے جا چکے ہیں، ہم اب ناشتہ کریں گے۔“ خالہ اسے دیکھ کر نرمی سے مسکرائیں۔ وہ یافث خان کے جانے کا سن کر حواس باختہ ہو گئی۔ آج تو انہیں واپس جانا تھا۔ رات اس نے واپس جانے کا وعدہ لیا تھا اور اب صبح وہ اسے چھوڑ کر خود چلا گیا تھا۔
”ابوبکر تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ اسے اپنی چھوٹی چچی بہت پسند ہے۔“ زیبا نے ہنستے ہوئے اچھل اچھل کر اوزگل کی طرف دیکھتے ابوبکر کو اس کی گود میں دیا۔ وہ اسے خود سے لپٹائے اس کے پھولے پھولے گال چومنے لگی۔
”تمہارے پیپرز ہونے والے ہیں؟ میں نے تو کہا دونوں یہیں رک جاؤ، آؤٹنگ کریں گے۔ تھوڑا گپ شپ بھی ہو جایا کرے گی، ایک دو دن تک حویلی جاؤں گی تو واپس چلی جائے گی۔ لیکن یافث نے کہا تمہارے ایگزامز ہیں اس لیے رک نہیں سکتے۔“ خالہ کے پوچھنے پر اسے پھر سے اپنا غم یاد آیا۔
”جی بس کل کا دن رہ گیا ہے۔ پھر ایگزام سٹارٹ۔۔ میں ضرور یہاں رہتی لیکن بکس نہیں لائی۔ فری ہو کر میں بھی جاؤں گی حویلی، آپ تو ابھی پاکستان میں ہیں ناں؟“ اوزگل نے ان سے پوچھا۔
”ہاں ابھی تو دو ماہ یہیں رہوں گی۔۔“ انہوں نے نرمی سے اوزگل کا رخسار تھپتھپایا تو وہ خوشی سے سر ہلا گئی۔
”میں آپ سے فری ہو کر ملوں گی، آپ پھر ہماری حویلی میں رہنے آئیے گا۔ مجھے آپ کے ساتھ بہت مزہ آیا ہے۔ وہاں گپ شپ لگائیں گے، مجھے بھی ایگزامز کی ٹینشن نہیں ہو گی۔“ اوزگل کے جوش پر وہ ہنسنے لگیں۔
”مزہ تو مجھے آیا ہے۔ یافث خوش نصیب ہے اسے اتنی پیاری لڑکی مل گئی ہے۔“ خالہ نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا۔ اوزگل جھینپ گئی۔ وہ سمجھ نہیں پائی خالہ نے پیاری خوبصورت والا نہیں کہا تھا، انہوں نے اچھے والا کہا تھا۔ اور وہ یہ بات یافث سے بھی کر چکی تھیں۔
وہ ان کے سامنے خوش ہو کر تعریف سنتا تھا، وہ حیران تھیں کہ پہلے دن پہنچ کر جب وہ دیر تک باتیں کرتی رہیں، یافث نے اس کی کوئی برائی نہیں کی، اس نے یہ بھی کہا سب ٹھیک ہے اور وہ خوش تھا۔ اس نے شادی سے انکار کی کوئی اور وجہ دی تھی مگر یہ بھی وہ دیکھ چکی تھیں کہ ان کے درمیان بہت فاصلے تھے۔
ناشتے کے بعد اوزگل کمرے میں جا کر یافث کو کال کرنے لگی، اسے جلدی واپس جانا تھا۔ رودابہ اور خوشی اس سے پوچھ رہی تھیں کہ کب آئے گی، پہلی بار ہوا تھا ایگزامز سے پہلے وہ ایسے لاپروائی سے گھوم رہی تھی۔ کال دوسری بیل پر ہی اٹینڈ ہو گئی تھی۔ وہ شاید اپنی سیکرٹری سے بات کر رہا تھا، کال اٹینڈ کر کے اسے جانے کا کہا اور اس سے مخاطب ہوا۔
”سب خیریت ہے اوز؟ کال کیسے کی۔۔“ وہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔ اس کے سوال پر وہ اپنا غصہ ضبط کر گئی۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا کال کیوں کی ہو گی۔ اس کا یہی ہر بار کام کر کے معصوم بن جانا ہی اوزگل کو غصہ دلاتا تھا۔
”ہم نے آج واپس جانا تھا ناں، پھر آپ مجھے کیوں نہیں لے گئے؟“ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
”کہاں؟ آفس؟ تمہیں میرے آفس آنا ہے؟“ وہ حیرت سے پوچھتا انجان بن رہا تھا۔ اوزگل کو اس کا لہجہ مسکراتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ ناجانے اسے تنگ کر کے وہ کون سی تسکین حاصل کرتا تھا۔
”میں آپ کے آفس کیوں جاؤں، آپ کے لیے تو بالکل نہیں جانا چاہوں گی۔ مجھے گھر جانا ہے۔ آپ جانتے بھی ہیں ایگزامز ہیں میرے۔۔ رات کو آپ کو نے کہا تھا کل چلیں گے۔ صبح آپ چپ چاپ خود چلے گئے۔“ وہ خفگی سے اسے یاد دلا رہی تھی۔
”ہاں میں نے کہا تھا لیکن صبح تم جاگی ہی نہیں، تمہیں تو پتا ہے میرے پاس جب بھی سوتی ہو ہوش حواس نہیں رہتے تمہارے۔۔ میں جاگنے کے بعد تمہیں بھی جگاتا رہا تھا مگر تمہیں میرے حصار میں اتنی اچھی نیند آئی ہوئی تھی کہ مجبوراً میں نے تمہیں سویا رہنے دیا۔۔“ وہ نہایت اطمینان اور تفصیل سے اسے ساتھ نا لے جانے کی وجہ بتا رہا تھا۔
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔“ اوزگل کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔ دوسری طرف یافث خان اس کے لہجے میں دھیما پن محسوس کر کے مسکرایا۔
”اس بار ثبوت ہے میرے پاس، سینڈ کروں؟“ وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا۔ اوزگل کے ہوش اڑنے لگے۔
”آپ میری نیند میں پکچرز بناتے ہیں؟ اس لیے میں آپ کے ساتھ نہیں سوتی۔۔ مجھے آپ پر بالکل یقین نہیں ہے۔ آپ بہت برے ہیں، میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔“ اوزگل کو سوچ کر ہی رونا آیا تھا۔ اس سے لڑتے ہوئے کال کاٹ گئی۔
یافث نے کال بیک کی مگر وہ نمبر پھر سے بلاک کر چکی تھی۔ وہ آہ بھر کر رہ گیا۔ ابھی تو اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ پکچر نہیں بنائی تھی، اس نے نیند میں اپنے سینے میں چھپتی اوزگل کی ویڈیو بنائی تھی۔ یہ سن کر تو شاید وہ رو رو کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی۔ وہ اس کا سرخ چہرہ یاد کر کے آہستگی سے ہنسا۔
”اوزگل جاگ گئی ہے تو اسے کہیں شام کو ریڈی رہے گی، آفس سے واپس پر اسے پک کر لوں گا۔“ یافث نے اسے پیغام بھیجنے کے لیے خالہ کو میسج کیا تھا۔ جواباً انہوں نے کال ملا لی۔
”تم بیوی سے بات کرنے کی بجائے یہاں وہاں سے میسج کیوں بھیج رہے ہو۔۔ تم دونوں کا ابھی تک انگیجمنٹ پیریڈ چل رہا ہے کیا؟ بلاتی ہوں اسے خود بات کرو اپنی بیوی سے۔۔“ خالہ نے اسے ناراضگی ڈانٹا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا، یقیناً خالہ کو لگ رہا تھا وہ اوزگل کو اوائڈ کرتا ہے۔ وہ اوزگل کو آواز دے رہی تھیں۔ کافی دیر بعد وہ کمرے سے باہر آئی۔
”کیا ہوا اوزگل؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے، رو رہی تھیں؟“ خالہ کی فکر بھری آواز نے اسے بھی پریشان کر دیا۔ کیا وہ واقعی رو رہی تھی؟
”ن۔۔ نہیں میں کیوں روؤں گی۔ منہ دھو رہی تھی تو سوپ آنکھوں میں چلا گیا، وہی دھو رہی تھی اس لیے آپ کے بلانے پر لیٹ آئی ہوں۔ آپ کو کوئی کام تھا۔“ وہ انہیں جھوٹی وضاحت دے رہی تھی مگر یافث دور بیٹھا اس کی آواز میں لرزش محسوس کر گیا تھا۔
”اوہ ہاں کام نہیں ہے، یافث نے تم سے بات کرنی ہے۔ کال اٹینڈ کر لیا کرو اس کی، تمہارے شوہر کو کہیں چین نہیں ملتا۔“ انہوں نے موبائل اوزگل کو پکڑاتے ہوئے مسکرا کر شرارت سے کہا تو وہ ان کے سامنے انکار نہیں کر پائی۔ جھینپ کر ان سے موبائل لیتی کان سے لگا گئی۔
”میں آفس سے واپسی پر تمہیں پک کروں گا، صبح واقعی مجھے جلدی تھی اور تم سو رہی تھیں۔ میں نے کوئی پکچر نہیں بنائی تمہاری، مذاق کر رہا تھا تم سے۔۔ اب دوبارہ مت رونا اوز۔۔“ وہ محبت سے بول رہا تھا۔
”میں۔۔ رو تو نہیں رہی تھی۔۔“ وہ مکر گئی، رونا تو بہت آیا تھا۔ وہ محبت نہیں کرتا تو مذاق کیوں بناتا تھا۔ وہ جانتا تھا اوزگل اسے پسند کرتی تھی، اس کی کمزوری کو استعمال کیوں کرتا تھا۔ اسے رونا تو بہت آیا تھا۔
”میں تمہاری آواز پہچانتا ہوں، تم اس وقت ہرٹ ہو اور وجہ میں ہوں اس لیے مجھے شرمندگی ہو رہی ہے۔ میں کوشش کروں گا جلدی آکر لے جاؤں گا۔ میری آج ایک ضروری میٹنگ تھی اس لیے آفس جلدی آیا تھا لیکن بارہ بجے تک فری ہو جاؤں گا، تب آ جاؤں؟“ یافث نے اسے وضاحت دیتے ہوئے سوال کیا۔
”جی تب ہی آ جائیں، مجھے جا کر پڑھنا ہے۔ میری تیاری نہیں ہے۔“ وہ فکر مندی سے بول رہی تھی۔
”اوکے تم کچھ کھا پی لینا تب تک۔۔ اور میرا نمبر بلاک کرنے کا شوق اب تک پورا نہیں ہوا؟ تمہیں غصہ اتارنے کا بس یہی طریقہ آتا ہے؟ میرا نمبر ان بلاک کرو اور آئندہ غصہ آئے تو میرے سامنے آکر مجھے برا بھلا کہہ دینا۔۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”مجھے۔۔ عادت ہو گئی ہے۔“ وہ خفت سے بولی تو یافث نے بےاختیار قہقہہ لگایا۔ اوزگل نے شرمندگی سے کال کاٹ کر موبائل خالہ کو پکڑایا۔ وہ اس کے سرخ پڑتے رخسار دیکھ کر چونک گئیں پھر مسکراہٹ دبا کر رخ موڑ لیا۔ اب اوزگل کمرے میں جانے کی بجائے وہیں سب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ماضی:
یافث خان نے جب سے فلیٹ میں آ کر اسے خوراک کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا وہ ہر وقت اس پر نظر رکھتا ہے۔ وہ کھانے پینے میں پرہیز کرنے لگی، رودابہ اور خوشنما حمزہ نامی لڑکے سے جب فاسٹ فوڈ منگوانے لگتی تھیں، وہ گھبرا جاتی تھی کہیں یافث خان کو پتا نہ چل جائے۔
اور پتا تو اسے خوب تھا، حمزہ کو اس نے روک لیا تھا۔ اوزگل نے نمبر بلاک نہیں کیا تو اس کے میسجز بھی ملتے رہتے تھے۔ وہ بلاناغہ اسے ہدایات دیتا تھا رہتا تھا۔
اوز ناشتہ کر کے جایا کرو۔۔ فروٹس کھایا کرو، پیزا برگر کی جان چھوڑ دو۔۔ موسم بدل گیا ہے، امو جان نے کپڑے بھیجے ہیں، لے لینا مجھ سے۔۔ اوز گرمی بہت ہے گاڑی بھیج دوں؟ جو بھی سامان منگوانا ہو، حمزہ کو لسٹ دے دیا کرو۔۔۔
اس کے یہ میسجز احساس دلاتے تھے وہ اوزگل کی خبر رکھتا ہے مگر وہ کبھی کسی میسج کا نا جواب دیتی تھی نا اثر لیتی تھی۔ اس سے پیسے لینا تو ویسے بھی گناہ سمجھتی تھی۔ وہ جب حویلی جاتی تھی آغا جان اسے پیسے دیتے تھے، ثمر خان بھی دیتے تھے۔ اس پر وہی کافی ہو جاتے تھے۔
اور جس روز گرمی میں وین والا نہیں آیا، اوزگل کو لگا یافث خان کبھی جان نہیں پائے گا اور وہ گرمی سے کھڑے کھڑے بےہوش ہو جائے گی مگر یافث خان نے حمزہ کو بھیج دیا تھا اور بعد میں وہ اچھا خاصہ غصہ ہوا تھا۔
”کیا تمہارا شوق ابھی پورا نہیں ہوا؟ گاڑی پر بیٹھنے سے بھی مسئلہ ہے تمہیں؟ میں میٹنگ میں تھا مجھے وین والے کا میسج لیٹ ملا اور اگر میں پورا دن اس کا میسج نا دیکھ پاتا؟ یہ کیسی پڑھائی ہے اوز۔۔ تم اب مجھے تنگ کر رہی ہو۔۔“ یافث خان کا ناراضگی بھرا میسج پڑھ کر اوزگل نے ہر بار کی طرح نمبر بلاک کر کے جان چھڑوا لی تھی۔
اس کے پاس یافث خان کے سوالات سے، اس کے غصہ اور ناراضگی سے بچنے کا یہی واحد حل تھا کہ وہ رابطہ ہی ختم کر لیتی تھی اور ہر بار جب وہ رابطہ ختم کرتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا یافث خان کس مشکل سے ضبط کرتا تھا، وہ جتنا ہو سکتا تھا تنگ کر رہی تھی اور یافث خان بھی اپنا صبر آخری حد تک آزما رہا تھا۔
اوزگل نہیں جانتی تھی یہ صبر جس دن ختم ہوا یافث خان کی باری ہو گی۔ وہ اپنی مرضی کرے گا اور اوزگل کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اندازہ ہوتا تو کبھی اس کا صبر یوں نا آزماتی۔۔
:حال
”اوزگل واپس کیوں جا رہی ہو بچے، بکس یہیں لے آنی تھیں۔۔ یافث سٹڈیز میں تمہاری ہیلپ کرے گا، گھر میں زیادہ اچھے سے پڑھائی ہوتی ہے۔“ خالہ اس کے جانے کا سن کر سمجھانے لگیں۔ ژالے اور زیبا بھی روکنا چاہ رہی تھیں مگر اوزگل کے جواب دینے سے پہلے یافث خان نے جلدی مچائی۔
”مجھے واپس آفس جانا ہے، میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے اوز۔۔ جلدی باہر آؤ۔۔“ وہ اسے ہدایت دے کر باہر نکل گیا۔۔اوزگل جلدی سے شال اوڑھتی سب سے مل کر باہر بھاگی، گاڑی میں بیٹھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ خوشنما کو میسج کر کے اپنے آنے کا بتایا۔
”سنو آتے ہوئے کچھ کھانے کو لیتی آنا، یقین کرو تھکن سے برا حال ہے۔ کچھ نہیں بنایا صبح سے بس کچن میں جو مل رہا ہے کھا رہے ہیں۔“ اس کے میسج پر اوزگل نے بےچارگی سے باہر کی جانب دیکھا۔ مارکیٹس تو کھلی تھیں مگر اب یافث سے کہتے ہوئے جھجک کا شکار ہو رہی تھی۔
”کوئی مسئلہ ہے؟“ یافث نے اس کی جھجک زدہ نظریں بار بار اپنی جانب اٹھتی محسوس کیں تو سوال کیا۔
”کسی ہوٹل سے کھانا لے سکتے ہیں؟ اصل میں میری فرینڈز نے کچھ کھایا نہیں ہے اور پھر رات کو بھی تو ہم۔۔۔
”لے لیتے ہیں۔“ وہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بولا اور کچھ آگے جا کر ایک ہوٹل پر گاڑی روک لی۔ کھانا لا کر اسے پکڑاتے ہوئے وہ اسے دیکھنے لگا۔
”تم میرا خیال بھی ایسے رکھو گی؟“ وہ مسکرا رہا تھا۔ اوزگل نے چونک کر اسے دیکھا تو اس کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ وہ خفت زدہ ہو گئی۔
”آپ کا خیال میں نے رکھنا ہے، یہ کھانا میری دوستوں کے لیے ہے۔ انہوں نے کھانا نہیں بنایا۔“ وہ خود کو صاف بچا گئی تھی۔ یافث نے محظوظ انداز میں سر ہلایا۔
”دیکھ لیتے ہیں۔۔“ وہ واقعی منتظر تھا، اوزگل اس کی زمہ داری اٹھا رہی تھی۔ وہ یافث خان کو توجہ دینے والی تھی اتنا کافی تھا۔
اسے دروازے پر پہنچا کر وہ واپس لوٹ آیا۔ اوزگل اندر گئی تو رودابہ اور خوشنما اس کی منتظر تھیں۔ وہ ان دونوں سے مل کر خوشنما کی منگنی کا احوال سننے لگی، جوش سے چہرہ چمک رہا تھا جب اپنی منگنی کا بتاتے ہوئے خوشنما ایک دم اس کی طرف مڑی۔
”تم بتاؤ زرا یہ سامنے والے خان صاحب کے ساتھ کیا سین ہے تمہارا؟ چلو کزن ہے، وہاں جا کر رہی ہو مگر تمہارا موبائل اس کے روم میں کیوں تھا؟“ خوشنما نے اسے گھورا۔ اوزگل گڑبڑا گئی۔
”اور تمہاری خالہ تمہیں یافث خان سے اجازت لینے کا کیوں بول رہی تھیں؟ وہ تمہیں اتنے حق سے اوز کیوں بلا رہا تھا۔ سم تھنگ از فشی۔۔ مت کہنا کہ وی آر جسٹ کزنز۔۔“ رودابہ نے بھی ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
”پہلی بات۔۔ میں اپنا چارجر یہیں بھول گئی تھی اس لیے میں نے ان سے چارجر ادھار مانگا اور انہوں نے اپنے چارجر پر میرا موبائل لگا دیا۔ خالہ نے صرف اس لیے ان سے پرمیشن لینے کا کہا کیونکہ میں جب شہر پڑھنے آئی تو آبا نے ان کو میری زمہ داری دی تھی۔ صرف اس لیے۔۔۔“ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔ وہ دونوں شکی نظروں سے اسے گھورتی رہیں۔
”میں اب گزرے وقت کو یاد کرتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں۔ تم نے کتنی چالاکی سے سب چھپایا ہوا تھا۔ ہم یہ تو جانتی تھیں تمہارا ایک کزن شہر میں ہے مگر وہ ہمارے سامنے والے فلیٹ میں رہتا ہے کبھی تم نے نہیں بتایا۔۔ وہ فلیٹ میں مزے سے چلا آتا تھا، تم سے بات کر لیتا تھا مگر تم ایسے بنی رہیں جیسے اجنبی ہو۔۔“
رودابہ خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“اور جب وہ علیزے کے بیمار ہونے پر اتنا پریشان ہوا تھا، ڈاکٹر ہی لے آیا۔ میڈیسن اور فروٹس۔۔ ہر بار وہ اتنا ڈھیروں سامان لا کر دے دیتا تھا۔ ہمیں تو شک تھا اس کا تم پر کرش ہے۔“ خوشنما نے بھی گہرا سانس بھر کر اپنا خیال ظاہر کیا۔ اوزگل گھبرا کر ان دونوں کو دیکھنے لگی۔
”تم دونوں بس فارغ ہو، اتنا آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی تو ایگزامز کی تیاری کرتے ہیں، بہت باتیں کر لیں۔۔“ اس نے محفل برخاست کی اس سے پہلے کہ بات محبت پر جاتی پھر تعلق پر جاتی۔۔ جھوٹ بولنا تو آسان ہوتا ہے مگر اسے ثابت کرنے کے لیے جو سو جھوٹ مزید بولنے پڑتے ہیں، وہ گلے میں پھندا بن جاتے ہیں۔
ابھی پڑھائی کا آغاز تھا، پہلے دن تو اوزگل نے صبح صبح ناشتہ بنا کر یافث خان کو پہنچا دیا۔ اب رودابہ اور خوشنما کو بھی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صبح کو وہ دونوں اٹھتی بھی لیٹ تھیں۔ اس نے یافث کے لیے آملیٹ اور روٹی بنا کر دروازے پر اسے پکڑا دئیے۔
”تمہیں بس یہی آتا ہے؟ چائے میں خود بناؤں کیا؟“ وہ واپس بھاگنے کی تیاری کرتی اوزگل کو روک کر پوچھ رہا تھا۔ وہ ٹھٹک کر پلٹی، پہلے شرمندہ ہوئی پھر ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔
”آپ نے کھانا کہا تھا، چائے تو آپ کو بنانی آتی ہے۔ اور آئلی چیزیں آپ کھاتے نہیں ہیں، اس لیے سادہ سا کھانا بنایا ہے۔“ وہ ناک چڑھا کر بول رہی تھی۔ یافث اس کے انداز پر نرمی سے مسکرایا۔
”ٹھیک ہے ناراض کیوں ہوتی ہو، آؤ تمہیں بھی چائے بنا کر پلاتا ہوں۔“ وہ اسے آفر دے رہا تھا۔ وہ نفی میں سر ہلا کر چلی گئی۔ دن کے وقت تو وہ آفس میں ہی تھا، رات کو خوشنما نے کھانا بنایا تھا۔ اوزگل نے تب بھی خود یافث کے لیے تازہ روٹی بنائی اور اسے کھانا پہنچا دیا۔ مگر بس وہی آخری کھانا تھا۔
یہاں اس کے پیپر شروع ہوئے، اس کا دماغ گھوم گیا اور ساری زمہ داری بھول گئی۔ یہ بھی یاد نہیں رہا وہ کسی کو کھانا دینے کا وعدہ کر کے آئی تھی۔ صبح صبح اٹھ کر یونی بھاگتی تھی، خوشنما ہی ہمیشہ کی طرح اسے کھانا دیتی تھی۔ پھر جو دن فری تھے ان میں بھی پڑھائی کرتی رہی۔
یافث خان نے ایک دو دن ویٹ کیا پھر آہ بھر کر رہ گیا۔ اب حمزہ ہی آخری حل تھا۔ خالہ خاندان والوں سے ملنے جا چکی تھیں اور ان کے ساتھ زیبا اور ژالے بھی حویلی گئی ہوئی تھیں۔ گھر کا کھانا اب کہیں سے نہیں ملنے والا تھا۔ اس نے حمزہ کو کال ملائی۔
”واپسی کب ہے تمہاری؟ شادی تو ہو گئی ہو گی۔ جلدی واپس آؤ، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں باہر کا کھانا نہیں کھا سکتا۔“ اس نے حمزہ کو اپنی مجبوری بتائی۔ جب سے الگ ہوا تھا، اس نے صرف کھانا پکانے کے لیے حمزہ کو اپنے پاس کام پر رکھا تھا، غریب لڑکا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ سائیڈ جاب کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے یہ نوکری نعمت تھی۔
گھر کا سکون، پڑھائی میں آسانی، نا کوئی دھکے نا زلالت۔۔ بس گھر میں کھانا پکانا کر لیتا تھا، تھوڑی بہت صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونا۔۔ یا کبھی یافث خان کو آفس سے لینے یا چھوڑنے کا کام۔۔ سیلری بھاری تھی۔
”سر کچھ دن مزید لگ جائیں گے، گھر میں ابھی مہمان ہیں اور کل بہن کی اس کے سسرال سمیت دعوت ہے ہمارے گھر۔۔ میرے ابا جی کی بھی تھوڑی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو ان کا چیک اپ کرواؤں گا۔ آپ اگر کچھ دن مزید دے دیں پلیز۔۔“ وہ الٹا اس سے درخواست کرنے لگا۔
”اچھا ٹھیک ہے کوئی مسئلہ ہے۔ تمہارا گھر جانا بھی کم ہوتا ہے، آرام سے آنا۔۔“ اس نے اجازت دے دی۔ حمزہ اپنے گھر کا بڑا بیٹا تھا، اپنی پڑھائی اور یافث کی نوکری کی وجہ سے جب گھر جاتا تھا ایک دن، دو دن اور واپس۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ باندھ بھی نہیں سکتا تھا۔
اتنے دن سے بریڈ اور فروٹ پر گزارہ کر رہا تھا، کبھی بہت بھوک لگتی تھی تو پھر وہی ہوٹل کا رخ۔۔ خود کو تو کھانا بنانا بالکل نہیں آتا تھا۔ اکیلا شہر میں رہا تھا مگر پہلے بھائیوں کے گھر ملازمین کا سہارا۔۔ پھر فلیٹ میں حمزہ کا ساتھ۔۔ اب ہوٹلنگ کر کر کے حالت خراب ہو رہی تھی۔
”ٹھیک ہے بھئی، جب میری بےوفا بیوی نے ہی اپنا وعدہ بھلا دیا ہے تو کسی کو کیا گلہ کروں۔۔ تمہارے ایگزامز ہیں تو چپ ہوں لیکن اس بے وفائی کے لیے تمہیں بعد میں پوچھوں گا۔۔ اب تم میرے ہاتھ آؤ بس۔۔“ وہ کچن میں اپنے لیے چائے بناتا خفگی سے بڑبڑا رہا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”میری تو بس ہو گئی ہے، بس کسی طرح پیپرز سے فری ہو جاؤں۔ پہلی فرصت میں گھر بھاگوں گی۔“ وہ تینوں اسی وقت گھر پہنچی تھیں، خوشنما نے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ علیزے ہمیشہ کی طرح صوفے پر سمٹ کر سوئی ہوئی تھی۔
”میں بھی ماموں کے ہاں چلی جاؤں گی۔ بہت تھکن ہو گئی ہے سچی۔۔“ رودابہ جمائی لیتے ہوئے بولی۔ راتوں کو نیند نہیں کر پا رہی تھیں، بھاگتے دوڑتے کھاتی تھیں اور باقی سارا وقت پڑھائی، پڑھائی اور پڑھائی۔۔ ان دونوں سے زیادہ تھکن تو اسے ہو رہی تھی جو راتوں کو جلدی سو جاتی تھی اب جاگنا پڑتا تھا۔
”دو پیپرز رہ گئے ہیں، کل اور پرسوں کا گیپ ہے۔۔ میں تو کچھ دیر سونے کے لیے جا رہی ہوں، آج کھانا نہیں بنا سکتی۔“ خوشنما نے تھکن زدہ لہجے میں کہا۔
”میں بھی سوچ رہی تھی چکن منگوا لیتے آج۔۔ فوڈ پانڈا سے آرڈر کرنا آسان ہے مگر علیزے نہیں مانتی، اس کی فیملی نے پتا نہیں کیوں ہوم ڈلیوری سے منع کیا ہوا ہے۔ یہ حمزہ کا بچہ کہاں غائب ہے؟ وہ تھا تو آسانی ہو جاتی تھی۔۔“ رودابہ نے بےچارگی سے کہا تو وہ جو نیند میں جا رہی تھی، ٹھٹک کر جاگی۔
”اوہ حمزہ بھائی اپنے گھر گئے ہوئے ہیں۔۔ یا اللہ“ وہ سر پر ہاتھ مارتی اٹھ بیٹھی۔ ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جو حمزہ کے زکر پر اتنی گھبرا گئی تھی۔
”تمہیں حمزہ کے جانے پر کیوں غم لگ گیا ہے؟ سب خیریت تو ہے؟“ خوشنما نے رک کر اسے دیکھا۔ جو گھبرائی ہوئی سی صوفے پر پڑے حجاب کے نیچے سے بیگ نکال کر موبائل تلاشنے لگی۔
”مجھے بھول گیا تھا، جب تک حمزہ بھائی نہیں تھے اپنے کزن کو میں نے کھانا بھیجنا تھا۔ میں تو پیپرز کی ٹینشن میں بالکل بھول ہی گئی تھی۔“ وہ موبائل نکال کر یافث کو کال ملا چکی تھی۔ خوشنما تاسف سے سر ہلاتی کمرے میں چلی گئی۔
رودابہ وہیں بیٹھی صبح سے چائے نا ملنے کا غم منا رہی تھی، وہ ٹہلتے ہوئے بار بار کالز کرنے لگی مگر کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ اس نے میسج بھیجا مگر سین نہیں ہوا۔۔ شاید وہ بزی تھا۔ وہ تھک کر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا تمہارے کزن غائب ہو گئے؟“ رودابہ نے ترچھی نظر اس کے پریشان چہرے پر ڈالی۔ وہ اس کے سوال پر رونی صورت بناتی ہاں میں سر ہلانے لگی، رودابہ کو ہنسی آئی۔
”تم ایسے پریشان ہوتے ہوئے اس کی بیوی لگ رہی ہو قسم سے۔۔“ رودابہ نے شرارت سے کہا تو اس کا چہرہ یک لخت سرخ ہوا۔ رودابہ نے ہنسی دبا کر معذرت کی۔
”اچھا سوری میں نے بس ویسے ہی کہہ دیا، کال اٹینڈ نہیں کر رہے تو ویٹ کر لو، شام کو تو موصوف گھر ہی آئیں گے۔ جا کر پوچھ لینا کیسے گزرے ان کے دن۔۔ حمزہ تو ان کی دوسری بیوی ہے اور بیوی میکے گئی ہوئی ہو تو ایسے ہی انسان۔۔“ رودابہ بولتی جا رہی تھی۔
”تمہیں آج کل کچھ زیادہ بیویاں نظر آنے لگی ہیں۔“ اس نے خفگی سے اسے ٹوکا۔
”میں سنگل ہوں، مجھ جیسی سنگل کو یہی سب سوجھے گا۔ جب پڑھائی کا بوجھ کندھوں پر بڑھ جائے اور جب اس تھکن میں کوئی چائے پلانے والا بھی نا ہو تو یہی خیال آتے ہیں کہ کاش میں کسی کی بیوی ہوتی اور وہ مجھے چائے بنا کر پلاتا۔۔
میری فکر کرتا اور کہتا بھاڑ میں جھونکو یہ پڑھائی۔۔ تم بس بیٹھ کر آرام کیا کرو، میں کماؤں گا۔۔ آہ ایسا شوہر۔۔ بس ایک ایسا ہی شوہر۔۔“ رودابہ کی حسرتیں سر اٹھا رہی تھیں۔ وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔ یہ غم تھا جو رودابہ کی جان کو آ گیا تھا۔
وہ اسے نظر انداز کرتی تھک کر پھر صوفے پر سو گئی، تھکن اور نیند سے بری حالت ہو رہی تھی۔ سر اٹھا کر رودابہ کو دیکھا تو وہ ابھی تک ٹھنڈی آہیں بھر رہی تھی۔
”دابہ مجھے کچھ دیر تک اٹھا دینا، شام کو کھانا بنا کر لے جاؤں گی اور۔۔ ان سے معذرت بھی کر لوں گی۔“ وہ اپنا سیاہ بھاری حجاب کھینچ کر خود پر پھیلاتی نیند میں جا چکی تھی۔ رودابہ سر ہلاتی کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔۔
مغرب کے وقت رودابہ نے اسے نیند سے جگایا تو وہ سستی سے اٹھ کر نماز پڑھنے چلی گئی۔ تھوڑی سی نیند نے مزید سستی بڑھا دی تھی۔ نماز کے بعد وہ کچن میں گھس گئی۔ چائے بنا کر خوشنما اور رودابہ کو بھی دی۔ وہ کھانا باہر سے منگوا رہی تھیں، اس نے یافث خان کے لیے کھانا بنایا اور اسے دینے پہنچ گئی۔
ڈور بیل بجاتی رہی مگر وہ دروازے پر نہیں آیا، ابھی وہ کال ملانے لگی تھی کہ اس نے آکر دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر داخل ہوتے ہوئے اسے دیکھ کر ٹھٹک گئی، دیوار کا سہارا لے کر کھڑا وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ رنگت زرد پڑ رہی تھی اور کمزور لگ رہا تھا۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟“ اوزگل نے جلدی سے کھانا ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے سہارا دینا چاہا۔ وہ کمرے میں داخل ہوتا بستر پر گرا۔
”کسی اپنے کی مہربانی ہے، ٹھیک کیسے ہو سکتا ہوں۔ ہوٹلنگ کرتا رہا ہوں مادام، اب صبح سے وومٹنگ ہو رہی ہے۔“ وہ نقاہت بھری آواز میں بول رہا تھا۔ اوزگل شرمندہ ہو گئی۔ اس کا چہرہ نم ہو رہا تھا۔
”آئم سو سوری، میں۔۔ بس ایگزامز نے مجھے گھما دیا تھا۔ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں، میں تو دن ٹائم بھی آپ کا ویٹ کرتی رہی۔ شکر ہے اب تو آ گئی ہوں۔“ وہ خفت زدہ سی بول رہی تھی۔
”ہاں آ تو گئی ہو۔۔“ وہ نڈھال سا آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ ناجانے کب سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اوزگل نے باہر جا کر رودابہ کو کال ملائی، اسے بھی وومٹنگ کی شکایت رہتی تھی۔ اس کے پاس وومٹنگ روکنے کی ٹیبلٹس ہر وقت ہوتی تھیں۔
اس نے دروازے پر اسے ٹیبلٹ لا دیں۔ اوزگل فکرمند سی کچن میں جا کر اس کے لیے ویجیٹبل سوپ تیار کرنے لگی۔۔
جاری ہے۔۔۔