Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط اٹھارہ
”مگر ہم صرف ڈنر کے لیے آئے تھے ناں، ہمیں تو واپس جانا تھا۔“ اوزگل گھبرا کر اس کے پاس گئی، اتنی ہمت نہیں تھی ورنہ دل یہی چاہ رہا تھا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرے اور کہے گھر چلو۔۔
”میں نے کب کہا تھا ہم نے واپس جانا ہے، میں نے یہی کہا تھا ناں کہ دیکھتے ہیں۔ بس دیکھ لیا ہے، اب دیر ہو گئی ہے، سردی بھی بڑھ رہی ہے۔ ہم دونوں تھکے ہوئے ہیں تو واپس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی اپنا گھر ہے۔“ وہ کمفرٹر کھول کر سیٹ کرنے لگا۔
”میں نے کل یونیورسٹی جانا ہے۔ آج رات میری فرینڈز بھی واپس آجائیں گی۔ ہم نے پڑھائی کرنی ہے، دو دن بعد سے ہمارے فائنل سٹارٹ ہونے والے ہیں۔ آپ نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔“ اوزگل رونے والی ہو گئی تھی۔
”ضد نہیں کرتے میری جان ابھی میں تھکا ہوا ہوں۔ کل واپس چلے جائیں گے۔ ایک رات کی ہی تو بات ہے، اس میں کیا دھوکہ ہے۔“ وہ توجہ سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو اس کے طرز تخاطب پر اوزگل کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔
اس نے لب بھنچ کر یافث خان کو دیکھا مگر پھر اسے ضبط کرنا پڑا۔ کیونکہ وہ واقعی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ خود بھی سردی کا سوچ کر خاموش ہو گئی تھی۔ کمرے کا جائزہ لیا، کافی کھلا اور خوبصورت کمرہ تھا۔ حویلی میں ان کا کمرہ بہت زیادہ کھلا اور روشن تھا، فرنیچر بھی شاہانہ تھا۔ جہازی سائز بیڈ اور بڑے اونچے صوفے۔۔
مگر یہاں فرنیچر بہت سٹائلش طرز کا تھا۔ بیڈ بھی نارمل سائز کا تھا اور صوفے بھی سٹائلش اور بہت چھوٹے چھوٹے سے تھے۔ وہ پریشانی سے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ اس جیسی نازک لڑکی اس چھوٹے صوفے پر بھی جیسے تیسے پوری آجاتی مگر ایکسٹرا بلینکٹ کہاں سے لاتی۔
”مجھے الگ بلینکٹ چاہیے۔“ وہ تھک کر یافث خان کو دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ ایک دم محبت سے اس کے لیے اپنی بانہیں پھیلا گیا۔ اوزگل اس کی حرکت پر بوکھلا کر پیچھے ہوئی۔
”میرے پاس سونا پڑے گا آج تو۔۔ ان لوگوں سے کیسے ایکسٹرا بلینکٹ مانگیں اور تمہیں کمفرٹر دے دوں گا تو خود سردی سے مر جاؤں گا۔ آؤ اکٹھے سوتے ہیں۔“ وہ شوخ گہری نگاہیں اس پر جمائے بیٹھا تھا۔ اوزگل نے بےساختہ جھرجھری لی۔
”نہیں۔۔ نہیں۔۔ آپ ان سے کہیں ہمیں بہت ٹھنڈ لگتی ہے اور ہمیں ایکسٹرا بلینکٹ بھی چاہیے۔“ وہ زور زور سے نفی میں سر ہلاتی اسے مشورہ دینے لگی۔ یافث خان کو اس کی بوکھلاہٹ پر ہنسی آئی مگر وہ چھپا کر سنجیدہ ہوا۔
”تم چاہتی ہو سب مجھے بےوقوف سمجھیں؟ ہیٹر آن ہے۔ پھر بھی ایکسٹرا بلینکٹ چاہیے۔۔ جاؤ خود مانگ لو۔۔“ وہ کمفرٹر خود پر پھیلا کر سکون سے لیٹ گیا۔ اوزگل آنکھوں پر بازو رکھے رونے لگی۔ کیا وہ اب ساری رات کھڑی رہے گی۔ وہ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا تھا۔ ایک دم سارے راستے کیوں بند کر رہا تھا۔
”اوز میرے پاس آؤ میں تمہیں کھا تو نہیں جاؤں گا۔ اتنا اعتبار تو ہونا چاہیے تمہیں اپنے شوہر پر، ایسا بےچارہ انسان جس نے ایک سال سے بیوی کو خود سے دور رکھا ہوا ہے، اب بھی اعتبار کے قابل نہیں۔۔“ وہ اس کے رونے پر اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر نرمی سے بولا
”مجھے آپ کے ساتھ نہیں سونا۔۔“ وہ سسکتے ہوئے بولی۔ یافث نے اٹھ کر اس کی کلائی تھامتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس اچانک حرکت پر کب سے غم منانے میں مصروف اوزگل اس پر گرتی بری طرح سٹپٹا گئی۔
”اب تو چھوڑ دو یہ ناراضگی اوز، تمہیں لگتا ہے میں تمہیں پوری رات ایسے کھڑا رہنے دوں گا؟“ وہ اسے اپنے حصار میں لیتا اپنے پہلو میں لیٹا کر کمفرٹر اس پر پھیلا گیا۔ اوزگل کا دل اتنی شدت سے دھڑکنے لگا کہ اسے لگا ابھی سینے سے نکل کر باہر آن پڑے گا۔
”اوز میری گڑیا۔۔ میری طرف دیکھو، تم ٹھیک تو ہو ناں۔۔“ وہ شرم سے نظریں جھکائے اوزگل کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر اسے چھیڑ رہا تھا۔ لبوں کے کناروں پر شوخ مسکراہٹ مچل رہی تھی۔
”م۔۔ مجھے ایسے الفاظ سے۔۔ مت پکاریں۔۔“ اوزگل نے کمزور سی مزاحمت کرتے ہوئے اسے منع کیا۔ وہ اسے اپنے حصار میں سمیٹے دلچسپی سے اس کے گلابی رخساروں پر لرزتی پلکوں کا عکس دیکھ رہا تھا۔
”کیسے الفاظ میری جان؟“ اس کی شوخی پر اوزگل نے اپنے بازو میں چہرہ چھپاتے ہوئے خفگی جتائی۔ یافث خان اس کی معصومانہ حرکت پر بےاختیار ہنس پڑا۔
”اچھا ریلیکس ہو جاؤ، اب کچھ نہیں کہوں گا۔ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ، سردی تو نہیں لگ رہی؟“ وہ اس کی حالت کا خیال کرتے ہوئے قدرے سنجیدہ ہوا۔ اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اس پر کمفرٹر سیٹ کرتا نرمی سے پوچھنے لگا۔
”آپ دور ہو جائیں پھر میں ٹھیک ہوں۔“ اوز نے روہانسی آواز میں درخواست کی۔۔ دل کا شور اب اس کے کانوں میں پہنچ رہا تھا۔ یافث خان کا لمس اسے جی جان سے ہلا کر رکھ گیا تھا۔ وہ سمجھتا ہی نہیں تھا کس مشکل میں آ جاتی تھی وہ۔۔
”ٹھیک ہے۔۔ اور کچھ؟“ وہ اسے آزاد کرتا مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ وہ تیزی سے دور ہوئی اور دوسرے تکیے پر سر رکھ کر کروٹ بدلتی اس کی طرف پشت کر گئی۔
”اتنا دور ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں اب تمہیں کچھ نہیں کہوں گا ایزی ہو کر سو جاؤ۔۔ ایسا نا ہو مجھے کمفرٹر کم پڑنے پر تمہارے قریب ہونا پڑے۔۔“ یافث نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بالوں کو نرمی سے چھوا تو وہ گھبرا کر تھوڑی پیچھے ہوئی۔
”اوز میں کیا سوچ رہا تھا۔“ وہ بھی کروٹ کے بل لیٹ کر آہستگی سے بولا۔ نظریں اس کی نازک کمر اور بکھرے ہوئے بالوں پر ٹکی تھیں، اب ان کے درمیان بس اتنا فاصلہ تھا کہ وہ زرا ہاتھ بڑھاتا اور اس دشمنِ جاں کو چھو لیتا مگر پھر جو اس کی حالت ہوتی۔۔۔ وہ مسکرا کر سر جھٹک گیا۔۔
”اگر ہم کچھ دن یہیں رہ جائیں، میں ہوٹلنگ نہیں کر سکتا۔ حمزہ کی بہن کی شادی ہے وہ تو اب کم سے کم ہفتہ بعد آئے گا۔ میرا کیا ہو گا؟“ وہ بےچارگی بھرے لہجے میں بولا حالانکہ لبوں پر مسکراہٹ بکھری تھی۔ اوزگل کے کان کھڑے ہوئے۔
”میں کل واپس جاؤں گی۔ آپ بےشک رہ جائیں۔“ وہ مدھم لہجے میں خفگی سے بولی۔ یافث کا دل چاہا اس مغرور ناراض حسینہ کو اپنے حصار میں چھپا لے اور بالکل دور نا کرے مگر وہ ضبط کیے پڑا رہا۔
”خالہ سے کیا کہو گی وہاں اکیلے کس کے پاس رہنے جا رہی ہو؟“ وہ جان بوجھ کر خالہ کا زکر کر رہا تھا۔ اوزگل کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئی اور وہ جانتا تھا وہ اچھی خاصی پریشان ہو گئی ہو گی۔ اب شاید حل سوچ رہی تھی۔
”میں کہوں گی میرے ایگزامز ہیں۔“ کچھ توقف کے بعد وہ نہایت کمزور سا بہانہ ڈھونڈ لائی تھی۔ وہ آہستگی سے ہنسا۔ اس کی ہنسی پر اوزگل کا منہ بن گیا۔
”وہ بچی نہیں ہیں اوز۔۔ اگر انہیں شک ہوا تو دیکھ لو امو جان کلاس لیں گی۔ پچھلی بار آغا جان نے سختی سے کہا تھا اب خاندان کا کوئی بھی فرد آئے ہمیں ایک جگہ پر رہ کر ملنا ہو گا۔ وہ مزید کوئی سکینڈل نہیں چاہتے۔۔“ وہ ہاتھ بڑھا کر بیڈ پر پڑے اس کے بالوں کو چھونے لگا۔
”مجھے واپس جانا ہے۔“ اس کی بات پر وہ سیدھی ہوتی گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ رونی صورت اور نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کا یہی انداز یافث خان کی کمزوری تھا۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے اس کے رخسار کو چھوا تو وہ کرنٹ کھا کر دور ہوئی، پھر اسی تیزی سے کروٹ بدلتی دھڑکتے دل اور سرخ پڑتے چہرے کو چھپا گئی۔
”تمہیں میرا خیال کبھی نہیں آتا اوز؟ کبھی فکر نہیں ہوتی میں کس حال میں پڑا ہوں، کیسے گزارا کر رہا ہوں۔۔ کھانا کھاتا ہوں یا نہیں، کبھی بیمار بھی ہو جاؤں تو اکیلا پڑا رہتا ہوں۔ تم نے مجھے اکیلا کر دیا ہے اور خود بھی میری نہیں ہو رہیں۔“ وہ شکوہ کر رہا تھا۔ اوزگل نے آنکھیں سختی سے بند کیں۔
”میں پہلے بھی یہاں رہتا تھا، بعد میں وہاں شفٹ ہوا تھا، حمزہ جاتا تھا تو یہاں آجاتا تھا یا حویلی چلا جاتا تھا۔ اب بھی حمزہ نہیں ہے اوز۔۔ میں اکیلا رہ سکتا ہوں مگر کوئی میرا خیال کرنے والا بھی تو ہو۔۔ میں ہوٹلنگ نہیں کر سکتا، میرا سٹَمَک (معدہ) ویک ہے۔“ یافث خان نے اس کی مسلسل خاموشی پر آہ بھری۔ شاید وہ سو چکی تھی۔
”میں آپ کا خیال رکھوں گی۔“ کچھ دیر کے بعد جب وہ تھک کر سونے لگا تھا۔ اوزگل کی مدھم سی آواز کمرے میں گونجی تھی، یافث نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔
”کیا تم میرے ساتھ رہو گی؟“ وہ خوش فہم ہوا۔
”نہیں میں کھانا بنا کر بھیجوں گی اور۔۔ آپ کی خبر بھی لیتی رہوں گی۔“ اس کی آواز مزید دھیمی ہوئی، وہ ایسا بولتے ہوئے خفیف سی ہو رہی تھی۔ اپنی باتیں اجنبی سی لگ رہی تھیں۔ یافث خان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
”میرے لیے اتنا کافی ہے۔“ اس نے اوزگل کے بالوں کو ہاتھ میں لیتے ہوئے لبوں سے لگایا تھا۔ وہ اس کی حرکت سے بےخبر نیند میں جا چکی تھی۔
باہر بیٹھی خالہ نے جب ان دونوں کے واپس نا آنے کا اطمینان کر لیا تو مسکرا کر اپنے کمرے میں سونے چلی گئیں، عبیرہ اور بلال سو چکے تھے۔ انہوں نے خان بیگم کے نمبر پر کال ملائی۔ حال احوال لے کر انہیں رپورٹ دی۔
”وہ دونوں بھی یہیں رہ گئے ہیں، میں تو سمجھ نہیں پا رہی آپ لوگوں نے اتنا عرصہ انہیں ان کے حال پر چھوڑے رکھا۔ غضب خدا کا سال ہو گیا ہے شادی کو اور وہ دونوں ایسے رہتے ہیں جیسے صرف کزنز ہوں۔
جی ہاں ٹھیک کہہ رہی ہیں، سارا قصور خان زادہ ہے۔ وہ اوزگل کو دور رکھتا ہے۔ معصوم سی بچی ہے، جو سمجھاتی ہوں سمجھ جاتی ہے۔ جب سے آئی ہوں میرے سامنے ہے، میں نے اس میں کوئی چالاکی یا برائی نہیں دیکھی۔۔ اور کیا چاہیے یافث کو۔۔ ایسی بیوی ہر کسی کو نہیں ملتی۔۔
نہیں آپ فکر نا کریں، ایک دو دن رکی ہوئی ہوں یہاں، ان دونوں کو سیدھا کر کے ہی جاؤں گی۔ کم سے کم آپ کے اس خر دماغ خان زادہ کا دماغ تو سیدھا کر دوں گی۔
جی میں نے سمجھایا ہے، یہی کہا ہے بیوی کو دور رکھا ہوا ہے۔ وہ تو کم عمر لڑکی ہے کل کو کسی کے بہکاوے میں آکر راستہ بدل گئی تو روئے گا۔ اس میں جھوٹ بھی تو نہیں ہے۔ اسے احساس تو دلائے وہ اب شادی شدہ ہے۔
جی جی۔۔ باقی سب خیریت؟ ہاں جی ابھی تو کسی کو بتایا ہی نہیں پاکستان آئی ہوں، آپ کو پتا ہے لالا اور بھابھیاں ناراض ہوں گی آگئی ہے لیکن حویلی آنے کی بجائے شہر میں بیٹھی ہے۔ ہاں جی۔۔“
وہ باتوں میں مشغول بستر پر دراز ہو چکی تھیں۔ بڑی بہن سے راز و نیاز کر کے کال کاٹی اور سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔ ان کے آنے کا سن کر خان بیگم نے درخواست کی تھی یافث خان کو سمجھائیں وہ ابھی تک اوزگل کو قبول کیوں نہیں کر رہا۔
یافث خان نے الزام خود پر لیا تھا اس لیے اندر ہی اندر یہ کوشش کی جا رہی تھی۔ اگر وہ اوزگل کی مرضی بتا دیتا تو یہ خاموش کوششیں نا کی جاتیں بلکہ اوزگل کو صاف الفاظ میں ڈانٹ کر کہہ دیا جاتا شوہر کی زمہ داریاں ٹھیک سے اٹھاؤ۔۔ وہ بہو تھی، بھلے بیٹی بنا کر رکھا جاتا تھا بیٹے پر بات آتی تو سختی دکھائی جاتی۔۔
مگر یہاں بیٹے نے رشتے کی کمی اپنے حصے میں رکھ لی تھی تو اسے اب کون ڈانٹتا؟؟
ماضی:
وہ یافث خان سے کنارہ ہوئی تو حیرت انگیز طور پر زندگی پہلے سے زیادہ آسان لگنے لگی تھی۔ رودابہ اور خوشنما کا ساتھ مل گیا تھا۔ بہترین دوستی، انجوائے منٹ اور سٹوڈنٹ لائف کا مزہ۔۔ وہ سب مل رہا تھا جو وہ شادی سے پہلے خواہش کرتی تھی اور اس بات کا کریڈٹ وہ دل میں کبھی کبھی یافث خان کو دے دیا کرتی تھی۔
زرگل کی بھی یہی خواہشات تھیں، مگر زورک خان اور یافث خان زادہ میں یہی فرق تھا۔ زورک شادی کے بعد لڑکی کو آزادی اور غیر شادی شدہ زندگی کی خواہشات سے دور کر دینے والا انسان تھا۔ برا نہیں تھا مگر اس کا ماننا تھا کنواری اور شادی شدہ لڑکی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں، زندگی میں فرق تو آ ہی جاتا ہے۔
یافث خان ایسی سوچ ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس نے اوزگل سے کہہ دیا تھا ہر خواہش پوری کروں گا اور وہ کر رہا تھا۔ ابھی تک اوزگل نے عملی زندگی میں قدم نہیں رکھا تھا اور یہ یافث خان کی مہربانی تھی۔ ورنہ وہ اتنی شیرنی نہیں تھی جتنی یافث خان کے سامنے بن کر رہتی تھی۔ پچھلی باتوں کا غصہ بڑھ جاتا تھا تو نمبر تک بلاک کر دیتی تھی۔ پھر وہ سمجھا بجھا کر نمبر ان بلاک کروا لیتا تھا۔
اوزگل کو یہی بات چونکا دیتی تھی، وہ اسے اتنا برداشت کیوں کر رہا تھا؟ وہ شوہر تھا تو جھکا ہوا کیوں تھا؟ حق جتا سکتا تھا تو رکا ہوا کیوں تھا؟ اوزگل کے نخرے ایسے دیکھتا تھا جیسے بہت مجبور انسان ہو۔ مجبور تو بالکل نہیں تھا۔ اوزگل جتنا بھی غصہ دکھا لیتی اتنا تو اسے بھی اندازہ تھا کہ بازی آج بھی یافث خان کے ہاتھ میں ہے۔ رشتے کی ڈور وہی تھامے بیٹھا تھا، جب چاہتا فاصلے سمیٹ لیتا۔۔
اور وہ یہی تو نہیں کر رہا تھا۔ اور یہی تو اصل سوال تھا کہ کیوں نہیں۔۔۔ اوزگل جب ان باتوں کو سوچتی تھی تو ایک ہی جواب ملتا تھا کہ وہ اوزگل سے محبت نہیں کرتا۔ اسے وہ پسند ہی نہیں، وہ خود بھی مان چکا تھا۔ وہ کہہ چکا تھا اسے ابھی اوزگل کی طلب نہیں ہے۔ اسے یہ جواب اکیلے میں بہت رلاتا تھا۔
حالانکہ جواب اس کے برعکس تھا۔ یافث خان کو اس سے محبت ہی اتنی تھی کہ وہ جبر نہیں کرتا تھا۔ وہ تو سوچتا بھی یہی تھا ناجانے کیوں لڑکوں نے حاصل کو محبت کا نام دے دیا تھا، زبردستی کو عشق کہنے لگے ہیں۔ محبت تو یہی تھی جو وہ اوزگل سے کرتا تھا۔ اس کی زندگی کو ایک دم الٹ کر اسے گھبراہٹ میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اسے جو چاہیے تھا، دیتا جا رہا تھا۔
اوزگل اس روز نہانے کے بعد کمرے میں ہی اپنے سامنے کتابیں کھول کر سوچوں میں گم بیٹھی تھی جب باہر یافث خان کی آواز محسوس کر کے ٹھٹک گئی۔ وہ گھبرا کر اٹھی اور دروازے کی اوٹ سے دیکھا۔ وہ اپنے مخصوص عالیشان انداز میں رودابہ اور خوشنما کے سامنے بیٹھا تھا۔
اوزگل نے گھبرا کر اپنا موبائل اٹھایا اور اس کا نمبر جلدی سے ان بلاک کیا، شاید وہ اس سے کوئی بات کرنے آیا ہو۔ اور ایسا نہ ہو کہ وہ ان دونوں سے کہہ دے علیزے کو بلاؤ۔
”میں آپ کے سامنے والے فلیٹ میں رہتا ہوں، پچھلے دو ہفتوں سے غالباً آپ ہی حمزہ سے اپنا سازو سامان منگواتی ہیں۔۔“ وہ بول رہا تھا، اوزگل جو چادر اوڑھ کر باہر نکلنے کا سوچ رہی تھی، اپنی جگہ جم گئی۔ خوشنما خوشدلی سے اسے سامان منگوا کر دینے کی بات کر رہی تھی۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر وہ کسی کے کام آتا ہے، کسی کا سامان لاتا ہے یا ہیلپ کرتا ہے مگر دو ہفتوں سے حمزہ صاحب کی وجہ سے میرے کام ڈسٹرب ہیں۔۔ نا کپڑے لانڈری پہنچتے ہیں، نا کچن صاف ملتا ہے۔
نا ہی دوسرا پھیلاوا سمٹا ہوا ملتا ہے جبکہ میں نے اسے تنخواہ پر رکھا ہے، ہی از مائی سرونٹ۔۔“ وہ ضبط سے بول رہا تھا۔ اوزگل کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ دروازے کی اوٹ سے یافث خان کو دیکھتی جا رہی تھی۔ وہ خوبصورت تھا، اس کی آواز بہت پیاری تھی، متاثر کن مردانہ آواز۔۔ اس کی شخصیت میں الگ سا ٹھہراؤ تھا۔ اس کا یہی مغرور انداز زرگل کو پاگل کرتا تھا۔
”علیزے تھوڑی ضدی سی لڑکی ہے۔ جب وہ کچھ کھانا چاہے، اسے ہوتا ہے چیز ابھی آ جائے۔ ہم لڑکیاں ہیں اکیلی کہاں بازاروں میں جائیں، تو ہم حمزہ بھائی سے مدد لے لیتی ہیں۔ وہ بتا دیتے تو آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔“ وہ خوشنما کے منہ سے اپنا نام سن کر خیالوں سے باہر آئی تھی۔
خوشنما کے لگائے الزام پر بدک گئی، دل چاہا اسی وقت جا کر اس کی گردن مروڑ دے۔ وہ جانتی نہیں تھی کس سے کیا بات کر رہی ہے۔ وہ علیزے کے شوہر سے اسی کی شکایت لگا رہی تھی۔ اوزگل نے گھبرا کر یافث خان کو دیکھا وہ بھی اس کے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اوز بےساختہ پیچھے ہوئی تھی۔
”اپنی فلیٹ میٹ سے کہیں بےوقت فاسٹ فوڈ کھانے سے پرہیز کریں۔۔“ شاید وہ جان چکا تھا اوزگل اسے سن رہی ہے، شاید وہ اسے دیکھ چکا تھا۔ اسے ڈائریکٹ پیغام دیتا وہاں سے چلا گیا۔ اوزگل دروازہ بند کرتی سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔
اسے خوشنما سے اس جھوٹ کا سوال کرنا تھا، باہر جا کر ان دونوں کو ڈانٹنے کا بھی سوچا کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی فلیٹ میں کیوں آنے دیتی ہیں۔ مگر وہ کچھ نہیں کر پائی تھی۔ یافث نے وہاں آکر اسے باور کروایا تھا کہ وہ اب بھی اس کی دسترس میں ہے۔ وہ جب چاہے اس کے پاس آکر اس سے بات کر سکتا ہے۔
”میری جان اپنی خوراک زرا بہتر کرو، یہ سب تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر تم نے اپنا خیال نا رکھا تو مجھے اپنی قیمتی گڑیا کا خیال خود رکھنا پڑے گا۔“ کچھ توقف کے بعد اس کے نمبر پر یافث خان کا میسج آیا تھا۔ وہ ایسے میسجز اور ایسے طرز تخاطب پر ہمیشہ غصے سے اس کا نمبر بلاک کر دیا کرتی تھی مگر اس بار اس نے نمبر بلاک نہیں کیا، اب وہ گھبرا گئی تھی۔
حال:
زرگل ماں باپ کے گھر رکنے آئی ہوئی تھی، پریگنینسی کی وجہ سے طبیعت میں پہلے سے زیادہ بےزاری چھائی رہتی تھی۔ جن دنوں اس کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا تھا زورک خان اس کو سنبھالنے کی بجائے میکے بھیج دیتا تھا۔ وہ بھی ماں باپ کے گھر آ کر زیادہ سکون محسوس کرتی تھی۔ ملازمین آگے پیچھے گھومتے خدمت میں لگے رہتے تھے۔
روشنا بھی اپنی جگہ موجود تھی مگر اب اس کی باتیں زرگل کو الجھن دیتی تھیں، روشنا کی جب سے حویلی کے ایک ملازم سے شادی ہوئی تھی، اس کا ہر وقت شرمانا لجانا اور اپنے شوہر کی تعریفیں کرنا زرگل کو مزید کوفت میں مبتلا کر دیتا تھا۔
”تمہاری اوزگل سے بات ہوتی رہتی ہے؟ میرا صبح سے رابطہ نہیں ہو رہا، دل میں عجیب سا وہم سر اٹھا رہا ہے اللہ کرے وہ ٹھیک ہو۔۔“ بیگم ثمر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اداسی سے بول رہی تھیں، زرگل نے چونک کر انہیں دیکھا پھر خفگی سے منہ بنایا۔
”مجھ سے بھی آپ کی اکثر دو دن بعد بات ہوتی ہے، ایسی فکر کبھی میرے لیے بھی ہوئی ہے آپ کو؟ یا سارا پیار بس اوزگل پر لٹا دیں گی۔“ زرگل نے منہ بنا کر کہا تو بیگم ثمر نے بےاختیار اسے دیکھا۔ صحت مند سراپا چمکتی جلد اور مہنگا لباس۔۔ زورک خان کی محبت نے اسے سنوار دیا تھا مگر مزاج آج بھی ویسا ہی تھا۔
”تم اپنے گھر میں خوش ہو، شوہر قدر کرتا ہے۔ اب تو خیر سے بچہ بھی ہو جائے گا۔ زورک خان نے تمہیں بہت اچھے سے سنبھال لیا ہے تمہاری فکر نہیں ہوتی۔۔ کیا زورک خان کے ساتھ میں کوئی کمی ہے؟ اور فون تو کرتی رہتی ہوں بس تمہاری مصروفیت کے خیال سے زیادہ تنگ نہیں کرتی۔“ بیگم ثمر نے اس کے چہرے کے گرد بکھرے بالوں کو نرمی سے سمیٹتے ہوئے کہا۔
”تو پھر اوزگل کا کیا غم ہے، مزے میں پڑی ہے۔ ایسی زندگی کے تو ہر لڑکی خواب دیکھتی ہے، نا سسرال کا جھنجھٹ، نا شوہر سر پر سوار رہتا ہے۔ نا کوئی زمہ داری نا پریشانی۔۔“ زرگل کو اس سے جلن محسوس ہو رہی تھی۔ بیگم ثمر نے اس کے الفاظ پر اسے دیکھ کر آہ بھری، ناجانے زرگل کا دل کیوں ایک ہی بات پر اٹکا ہوا تھا۔
”بیٹا جسے تم مزے کہہ رہی ہو یہ شادی شدہ عورت کی تذلیل ہے، جس عورت کو اس کا شوہر دیکھنا گوارا نا کرے۔ وہ کہاں کی خوش نصیب؟ اوزگل کی حالت دیکھ کر مجھے تو کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہیں غلط تو نہیں کر بیٹھے۔ آج تک ویران سی لگتی ہے۔
سہاگن لڑکیوں والا رنگ روپ ہی نہیں ہے، اس دن تمہاری امو جان سے میں نے یہی بات کی تو انہوں نے عجیب بات کی۔ وہ مجھ سے شرمندہ ہو رہی تھیں، کہنے لگیں اوزگل کا کیا قصور یہ رنگ روپ تو شوہر کی محبت سے چہرے پر آتا ہے۔ خان زادہ اتنی لاپروائی دکھا رہا ہے تو اوزگل کیسے خوش رہے۔۔“ بیگم ثمر کی باتوں پر زرگل نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
”مجھے یافث خان نے بہت مایوس کیا ہے، اتنا نرم مزاج سا لڑکا ہے پتا نہیں اوزگل کو کیوں قبول نہیں کر رہا۔۔ اپنی بچی کے لیے دل دکھتا ہے میرا۔۔ پڑھائی کے نام پر اکیلی رہ رہی ہے، کیا زندگی ہے اس کی۔۔“ بیگم ثمر کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
”کیا زندگی ہے اس کی؟ عیش میں پڑی ہے وہ۔۔ اچھا ہی ہے کہ علی زئی حویلی والوں کو اس کے کارنامے نہیں پتا ورنہ یہ جسے آپ اجڑی ویران بےچاری بیٹی سمجھ رہی ہیں۔ اسی بےچاری نے ان کے خان زادے کا برا حال کر رکھا ہے۔ وہ اسے شوہر ہی نا سمجھے تو۔۔۔“ زرگل نے ناک چڑھا کر کہا۔
”کیا بات کر رہی ہو زر؟ کیا مطلب ہے تمہارا؟“ بیگم ثمر بری طرح گھبرا گئیں۔ زرگل کچھ وقت پہلے شہر سے ہو کر آئی تھی، اتنا تو وہ بھی جانتی تھیں کچھ باتوں میں زرگل بہت صاف گو اور منہ پھٹ تھی۔ ماں باپ سے جھوٹ نہیں بولتی تھی۔
”میرا صاف مطلب ہے آپ کی لاڈلی کے تیور دیکھ کر آرہی ہوں۔ پڑھنے کا شوق تو اسے تھا ہی۔۔ وہاں جا کر الگ رہنے لگی ہے۔ وہ سب کو بےوقوف بنا سکتی ہے مگر میں اس کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ خوامخواہ اپنے شوہر کو بدنام کیا ہوا ہے اور نخرے خود شوہر کو دکھا رہی ہے۔“ زرگل بےزار سی بول رہی تھی۔
ملازمہ اس کی فرمائش پر چٹ پٹی سی چنا چاٹ بنا لائی تھی، وہ اوزگل کو بھلائے پیالہ بھر کر کھاتے ہوئے ملازمہ کو چائے بنانے کا بول رہی تھی جبکہ بیگم ثمر اس کے الفاظ پر گنگ بیٹھی تھی۔ ایک دم انہیں اوزگل پر غصہ آیا شادی کے بعد ایسی بچگانہ حرکتیں؟ اور اگر یہ بات خان بیگم یا دی جان کے سامنے آ گئی۔۔؟ وہ سر پکڑ بیٹھیں۔
”میری گڑیا کیسی ہے، زر کچھ چاہیے تو اپنے آبا کو بتاؤ۔۔“ ثمر خان مردان خانے سے اسی وقت وہاں آئے تھے زرگل کے پاس بیٹھتے محبت سے اس کا ماتھا چوم کر اس کی خیریت پوچھنے لگے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں لاڈ سے بولتی باپ سے فرمائشیں کر رہی تھی۔۔
بیگم ثمر اوزگل کو سوچنے لگیں، وہ ماں باپ کے گھر آکر بھی جھجک زدہ سی ایک طرف بیٹھی رہتی تھی اور شوہر کے پاس بھی اکیلی رہ رہی تھی۔ وہ بےوقوف تو تھی مگر اتنی بےوقوفی دکھائے گی انہیں اندازہ نہیں تھا۔ زرگل ہمیشہ ہر جگہ اپنی حیثیت منوا لیتی تھی اور اوزگل ہمیشہ سے ہی اپنی جگہ چھوڑ کر پیچھے ہو جانے والوں میں سے تھی مگر یہاں عمر بھر کا سوال تھا۔ اس بار وہ سوچ چکی تھیں، اوزگل آئے گی تو اس کی کلاس لیں گی۔ شادی شدہ زندگی مذاق نہیں ہوتی۔
وہاں شہر میں اوزگل نیند میں غرق یافث خان کے حصار میں سمٹ کر سوئی ہوئی تھی۔ جاگتے ہوئے دن میں جو بھی احتیاط اور حد رکھتی تھی رات کو جب بھی اس کے پاس سوئی تھی، سب خاک ہو جاتا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر ہی رہتا تھا، اسے حدود بتانے والی اوزگل نیند میں اپنی حد پھلانگ کر مزے سے اس کے پاس چلی آتی تھی۔
اور ایسا اچھا تو وہ بھی نہیں تھا کہ اسے دور دھکیل دیتا۔ ظاہر یہی کرتا تھا کہ اسے اندازہ نہیں ہو پاتا مگر وہ جب بھی اس کے قریب آئی تھی، وہ جاگ جاتا تھا۔ اس کے نازک وجود کو اپنے مضبوط حصار میں سمیٹے اس وقت بھی وہ مسکرا کر آنکھیں بند کرتا نیند میں جا چکا تھا۔
جاری ہے