Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 17 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :170

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط سترہ

ماضی:
”تمہارے ساتھ کیا ایشو ہے اوز؟ میرا نمبر بلاک کر دیا ہے۔ بات نہیں کر رہیں، تمہارے ساتھ فرینڈز رہتی ہیں تو تم مجھے ملنے میرے فلیٹ میں بھی آسکتی ہو۔۔ کیا ناراضگی ہے؟“ یافث خان نے حویلی پہنچ کر اوزگل کو گھیرا۔ وہاں تو وہ میسر نہیں تھی، حویلی میں اس سے بھاگ نہیں سکتی تھی۔
”کوئی ایشو نہیں، ہمارے درمیان یہی تو طے ہوا تھا۔ میں سٹڈیز پر فوکس کروں گی اور آپ۔۔“ اوزگل نے اطمینان سے کہا تو وہ اس کی بات درمیان میں کاٹ گیا۔
”اوز بات مت بدلو، ہمارے درمیان یہ طے نہیں ہوا تھا کہ تم اجنبی بن کر رہو گی۔ ہم روزانہ ملتے تھے، بات کرتے تھے۔ تمہاری پڑھائی میں پہلے کب رکاوٹ بن رہا تھا مگر ہمارے درمیان جو تعلق ہے وہ کسی فارمیلٹی کا محتاج نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں مل سکتے ہیں۔“
یافث خان سنجیدہ تھا۔ وہ اسے دیکھنے لگی۔ کہنا چاہتی تھی نہیں مل رہے تو اسے کیا مسئلہ ہے، وہ تو خود اپنی ماں سے کہہ چکا تھا اسے اوزگل اپنے قابل نہیں لگتی پھر یہ فکر کیوں۔۔ مگر وہ اب اس کی مزید کوئی جھوٹی وضاحت نہیں سننا چاہتی تھی۔
”آپ کو مجھ سے کیوں بات کرنی ہے؟ میں نے یہی سوچا ہمیں روزانہ ملنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ تو فارمیلٹی ہی پوری کرتے تھے، آپ بزی ہوتے ہیں۔ ہمیشہ سے اکیلے رہے ہیں تو اکیلے ہی رہیں۔۔“ وہ خفگی سے ناک چڑھا کر بولی۔ یافث نے بمشکل اس کا لب و لہجہ برداشت کیا تھا۔
وہ اوزگل کے الفاظ سے ہی سمجھ گیا نازک مزاجی پر پھر سے کوئی بات گراں گزری ہے اب یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بولے وہ سخت الفاظ اوزگل سن چکی تھی۔ جس بات پر عام لڑکی توہین کے مارے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کرتی، اوزگل اس بات کو پی گئی تھی، پھر ناراضگی تو برحق تھی۔
مگر ان کی بات ملازمہ کی آمد پر درمیان میں ہی رہ گئی۔
”خان حویلی والے آئے ہیں، بڑی بیگم آپ دونوں کو بلوا رہی ہیں۔“ ملازمہ کے بتانے پر یافث نے سر ہلایا۔ اوزگل نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ حویلی آکر وہ ویسے بھی صاف لباس میں نہائی دھوئی رہتی تھی۔ دی جان کی فرمائش پر زیور بھی پہن کر رکھتی تھی اور میک اپ بھی ہلکا پھلکا کر لیتی تھی۔
خان حویلی والے ژالے کا میکہ تھے، ان کا آنا کوئی تعجب نہیں تھا۔ اوزگل جانتی تھی زرگل تو یہاں آتی ہی نہیں تھی اس لیے یافث کے ساتھ بددلی سے باہر گئی مگر زورک خان کے پہلو میں سجی سنوری سر جھکا کر بیٹھی زرگل کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔
یافث سب سے ملتا مسکراتے ہوئے ایک طرف ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ اوزگل حیرت سے گنگ سب سے ملنے کے بعد زرگل کے پاس آئی تو زورک کے متوجہ کرنے پر زرگل چونک کر اسے دیکھتی اٹھ کر ملنے لگی۔ اوزگل کو ایک اور جھٹکا لگا تھا۔ وہ حیرت زدہ سی بے خیالی میں یافث خان کے پاس بیٹھ گئی۔
”زر تم نے تو ترسا دیا تھا، آتی ہی نہیں ہو۔۔ جب تک میں زندہ ہوں مجھے ملنے چلی آیا کرو اور پھر اوزگل بھی تو یہاں ہے۔ اوزی ہر وقت تمہاری باتیں کرتی ہے۔“ دی جان جذباتی سے لہجے میں بولتے ہوئے زرگل کو دیکھ رہی تھیں، اوزگل کی نظریں بھی اسی پر ٹکی تھیں مگر وہ اس کی جانب دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی۔
”بس مصروفیت اتنی بڑھ گئی ہے، مورے بھی شکوہ کر رہی تھیں۔ آج تو خان صاحب نے کہا ساتھ چلو، اوزگل آئی ہے مل لینا۔۔“ زرگل مدھم لہجے میں بول رہی تھی۔ اکیلے میں نخرے سے زورک خان کہنے والی زرگل کے لہجے میں سب کے سامنے زورک خان کے لیے ادب کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
اوزگل اس کی تبدیلی پر خوش ہوئی تھی۔ شاید وہ زورک خان سے محبت کرنے لگی تھی۔ وہ دونوں بہت قریب لگ رہے تھے۔ زرگل کا جھینپا ہوا انداز، زورک خان کے لیے عزت اور زورک کی مسکراتی آنکھیں۔۔ زرگل جتنا بھی اکڑ لیتی، تھی تو چھوٹی لڑکی جو شوہر کے رعب اور غصہ کے خوف سے ایک دم سیدھی ہو گئی تھی۔ مگر یہ راز کوئی جانتا نہیں تھا۔
اس روز خان حویلی والوں کا ان کے ہاں کھانا تھا، ثمر خان اور بیگم ثمر بھی آگئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد سب بیٹھے تو اوزگل نے زرگل سے بات کرنے کی کوشش کی اور وہ سنجیدگی سے جواب دیتی رہی۔ اوزگل کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا۔ ان کی واپسی کی تیاری پر وہ زرگل کو گلے لگاتی محبت سے مسکرائی۔
”زر تم شاید یقین نا کرو مگر تمہیں زورک خان کے ساتھ خوش دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ تمہیں زورک سے محبت ہو گئی ہے ناں۔۔“ اوزگل نے سرگوشی میں کہا تو زرگل سپاٹ نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔ پھر کچھ فاصلے پر یافث خان سے بات کرتے زورک خان کو دیکھا۔
”محبت؟ شادی کے بعد محبت نہیں ہوتی، مرد صرف شوہر ہوتا ہے اور عورت کو فرمانبردار بیوی بن کر رہنا پڑتا ہے۔ کیا تمہیں یافث خان نے ابھی تک اس رشتے کی حقیقت نہیں دکھائی؟“ زرگل کی نظریں یافث خان کے وجیہہ مسکراتے چہرے پر جا رکیں۔
اوزگل پھٹی پھٹی نظروں سے بہن کو دیکھ رہی تھی۔ جو زورک خان کے آتے ہی مسکراتے ہوئے سر جھکاتی اس کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ سب مل کر وہاں سے چلے گئے، حویلی والے واپس اپنی جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، ملازمین ٹیبل پر رکھے برتن سمیٹ رہے تھے مگر اوزگل اپنی جگہ جم کر کھڑی تھی۔
”اندر آجاؤ، گرمی میں کیوں کھڑی ہو۔۔“ یافث اس کے قریب آکر مخاطب ہوا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ ہاں یافث خان نے اسے شادی شدہ زندگی کا کوئی تجربہ ہی نہیں کروایا تھا۔ وہ دور ہوئی تو وہ بھی دور ہو گیا۔ نا غصہ، نا زبردستی اور نا حق جتایا تھا۔ وہ سر جھٹک کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔
یافث اسے جاتا دیکھ رہا تھا، اسے اوزگل کی دماغی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ ایسا کیا کرے کہ وہ خوش ہو جائے؟ آخر لڑکیوں کو کیا بات خوش کرتی ہے۔ زبردستی کرنے والے شوہر بھی نہیں پسند، غصہ کرنے والے بھی نہیں پسند، نرمی جتانے والا بھی نہیں اور خواہشات پوری کرنے والا بھی نہیں چاہیے تھا۔
”میں تو اوزگل کو خوش رکھنے کی ہر کوشش کر چکا ہوں۔ اسے پڑھنا تھا تو پڑھا رہا ہوں بلکہ میں خود بھی پڑھانا چاہتا ہوں، اس پر کوئی زمہ داری نہیں ڈالی۔ کبھی سختی نہیں کرتا۔ کئیر کرتا ہوں، اتنی پیاری ہے وہ مجھے۔ لیکن اسے خوش کرنا بہت مشکل ہے۔“ وہ مردان خانے میں بھائیوں کے سامنے سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔
”اوزگل کو خوش کرنا مشکل ہے؟ اتنی سمپل سی ہے۔ تم دونوں کے درمیان ضرور کوئی مس انڈرسٹینڈنگ بڑھ رہی ہے، سب کلئیر کرو۔۔ اپنی فیلنگز ہمیں بتا رہے ہو، اوزگل کو بتایا کرو ناں۔۔“ واثق نے نرمی سے سمجھایا۔ وہ اسی رات اوزگل کے سامنے بیٹھا وہی سب بول گیا۔
”اوز میں تمہیں خوش رکھنا چاہتا ہوں، تمہاری مہربانی ہو گی بس ایک احسان کرو اور مجھے بتاؤ آخر تمہیں کیا چاہیے، کیا ناراضگی ہے؟“ اس کے پوچھنے پر اوزگل نے خفگی سے اسے دیکھا۔ وہ اس کی پیٹھ پیچھے بول کر اتنا اچھا کیوں بن جاتا تھا۔
”میں آپ کو بہت اچھا انسان سمجھتی تھی، جب آپ مجھ پر سختی کرتے تھے تب بھی۔۔ لیکن اب مجھے حیرت ہوتی ہے آپ کتنے جھوٹے انسان ہیں۔“ اوزگل نے ناراضگی میں صاف کہہ دیا۔
”اوز یہ پڑھائی تمہیں بہت بدتمیز نہیں بنا رہی؟ تم اپنے شوہر سے کیسی بات کر رہی ہو۔۔ کون سا جھوٹ بولتے دیکھا ہے مجھے؟“ یافث خان کو غصہ آیا۔ وہ اپنی ہمت پر خود بھی گھبرا گئی۔
”آپ نے خود پوچھا تھا۔۔“ وہ بوکھلا کر پیچھے ہوئی۔
”سو جاؤ تم، میں اب تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ تم اکیلے رہ کر دیکھ لو کتنی ہمت ہے تم میں اور میں بھی دیکھ لیتا ہوں کب تک اکیلی رہ سکتی ہو، کب تک خاندان والوں کی سوالیہ نظروں کا سامنا کر سکتی ہو۔
مگر ایک بات یاد رکھنا تمہیں آنا تو میرے ہی پاس ہے۔ تم میری ہو چکی ہو، شوق سے چھپتی رہو۔۔“ وہ خفگی سے بڑبڑاتا بیڈ کے دوسرے کنارے پر سو گیا مگر اس کی یہ احتیاط بےوجہ تھی۔

اوزگل دبے پاؤں صوفے تک گئی اور وہیں سمٹ کر سو گئی۔ یافث خان نے واقعی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس نے اوزگل سے ناراضگی جتائی، بات نہیں کی، اگلی بار وہ آنے لگی تو ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیا۔ اسے یقین تھا وہ اس کی بے رخی پر تھک جائے گی مگر وہ تو اس دوری کی عادی ہو رہی تھی۔

حال:
گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ شال سے چہرہ اچھی طرح چھپائے سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔ یافث نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا اور گاڑی روڈ پر لاتا سپیڈ کم کر گیا۔ ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھتا اس کا سر اپنی جانب موڑ گیا۔ اوزگل نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا۔
”ڈرامہ بند کرو اور میری بات سنو اوز۔۔ میں تمہیں اب تک بہت زیادہ ڈھیل دے چکا ہوں، سمجھ لو جتنی نرمی کر سکتا تھا اس ایک سال میں کر لی۔ اب نا نرمی دکھاؤں گا نا تمہیں بھاگنے کا موقع دوں گا۔“ وہ سنجیدگی سے بولتا اسے گھور رہا تھا۔
”آپ نے نرمی دکھائی ہے؟“ وہ ناک چڑھا کر اسے دیکھنے لگی، انداز ایسا تھا جیسے کہتی ہو واقعی؟
”اوز مجھے غصہ نہیں دلاؤ، تم پر اپنا حق مسلط نہیں کیا، تمہیں مرضی سے رہنے دیا۔ اسی بات کا پچھتاوا ہے مجھے۔۔ تمہاری نظر میں نرمی اور کیا ہے؟“ یافث نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ اوزگل خاموش رہی۔
”جب تم نے میری وہ باتیں سنیں، تمہیں یاد ہو گا تب میں تم سے دو دن ملنے نہیں جا سکا تھا کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ امو جان مجھے ملنے آئیں تو تم سے ناراض ہو رہی تھیں کہ تمہیں میرا احساس نہیں، میرے پاس نہیں ہو وغیرہ۔۔ وہ تم سے بدگمان ہو رہی تھیں اور میں نہیں چاہتا تھا وہ تمہیں غلط سمجھیں اس لیے میں نے وہ سب کہہ دیا۔
اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ تم وہاں آئی ہوئی تھیں اور مجھے سن رہی تھیں تو میں۔۔“ وہ نرمی سے وضاحت دیتا بول رہا تھا جب اوزگل نے اس کی بات کاٹی۔
”تو آپ وہ سب نا کہتے؟“ وہ اسے دیکھنے لگی۔
”ہاں میں ایسا نہ کہتا۔۔“ وہ گہرا سانس بھر کر بولا۔ وہ بدگمانی کسی اور طریقے سے دور کر لیتا مگر وہ سب نا کہتا۔ وہ الفاظ بہت سخت تھے، اسے بھی پشیمانی ہو رہی تھی۔
”کیوں؟ آپ تو بدگمانی دور کر رہے تھے، میرے ہونے نا ہونے سے کیا فرق پڑتا۔۔ “ وہ جتاتے لہجے میں بولی۔ انداز بتا رہا تھا اس نے یافث خان کا یقین نہیں کیا۔
”اوز۔۔ بات کیوں بڑھا رہی ہو، غلط فہمی دور کر رہا ہوں تو یہ تمہارا رویہ ہے۔ میں اپنی کرنے پر آیا تو پھر رونا مت۔۔ تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟“ وہ ناراض ہوا۔
”جی ہاں آپ جھوٹ بول رہے ہیں، پہلے بھی آپ کا رویہ اچھا نہیں تھا، آپ نے مجھ سے ہارش باتیں کیں، مجھے ہرٹ کیا اور شادی سے بھی انکار کر دیا۔ شادی کر کے آپ نے کہہ دیا وہ سب غلط فہمی میں ہوا تھا۔۔ اب آپ وہی سب دہرا کر کہہ رہے ہیں امو جان کی بدگمانی دور کر رہے تھے۔ تو کیا بدگمانی دور کرنے کا یہی طریقہ ہے، مجھے کمتر کہہ رہے تھے؟
اور سب سے اہم بات یہ کہ امو جان مجھ سے بدگمان ہو ہی نہیں سکتیں۔۔ وہ مجھے ہمیشہ سے بیٹی کہتی ہیں اور وہ مجھے آپ سے بھی زیادہ چاہتی ہیں۔ مجھے کبھی غلط نہیں سمجھتیں وہ۔۔“ اوزگل مٹھیاں بھنچے غصے سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہاں سہی کہا۔۔ امو جان تم سے کبھی بدگمان نہیں ہو سکتیں، میں نے ہی جھوٹ بول دیا۔۔“ وہ اس کا خان بیگم پر اعتماد دیکھ کر بات بدل گیا۔ ایک دم اسے خیال آیا تھا خان بیگم کی بدگمانی بتا دیتا تو وہ ان سے دور ہو جاتی۔ ابھی تو انہیں ماں کا درجہ دیتی تھی، اتنے غرور سے بول رہی تھی کہ وہ اسے چاہتی ہیں۔
مگر خان بیگم اس کی ساس بن چکی تھیں اور یہ حقیقت سمجھانے کا سوچ کر ہی یافث خان جھجک گیا تھا۔ اگر بتا دیتا تو جیسے وہ اس سے اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھی، شاید خان بیگم سے بھی بدظن ہو جاتی۔ ان کی محبت پر ایسے غرور نا کر پاتی۔ وہ لب بھنچ گیا۔۔
”اچھا ہوا آپ نے سچ مان لیا میں تو پہلے ہی جانتی تھی ۔“ وہ اس کے مان جانے پر فاتح انداز میں مسکرائی تھی۔ گویا اسے بہت بڑے میدان میں شکست دے دی ہو۔
”ہاں مان لیا، میں جھوٹا ہوں لیکن میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے اور میں اب تمہارے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتوں گا۔“ وہ اطمینان سے بولتا گاڑی کی رفتار بڑھا گیا۔ اوزگل کا دل گھبراہٹ کے مارے بےترتیبی سے دھڑکا۔
”ہم آج واپس آئیں گے ناں؟“ وہاں پہنچے تو اندر جاتے ہوئے اس نے گھبرا کر یافث خان کو دیکھا۔ وہ اس کے انداز پر رک کر اسے دیکھنے لگا، یہی معصوم صورت بنا کر وہ یافث خان کی نرمی سمیٹتی تھی۔ اسے اوزگل پر خوامخواہ غصہ آیا تھا۔

”ابھی تو چلو، بعد میں دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔۔“ وہ بےنیازی سے بولتا آگے بڑھ گیا تھا۔

ماضی:
زورک خان مردانے سے اندر کی طرف بڑھتا کسی کام کے لیے یافث کو کال کر رہا تھا مگر وہ ناجانے کہاں گم تھا، کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ اس نے اوزگل کو فون کیا۔
”کیسی ہو اوزگل، ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔ یہ تمہارے خان زادہ کہاں گم ہیں، کام تھا اس سے۔۔ کال کر رہا ہوں مگر صبح سے کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔“ زورک نے نرمی سے حال احوال لے کر سوال کیا۔ اپنے فلیٹ میں سکون سے بیٹھی اوزگل اس کے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”آفس میں بزی ہوں گے۔ کیا کام تھا۔۔“ اس نے اندازے سے اس کی مصروفیت بتائی۔
”اس کے آفس فون کیا تھا وہ آفس میں بھی نہیں تھا۔ تم پتا نہیں رکھتیں وہ کہاں ہے؟“ زورک خان حیران ہوا تھا۔
”اب مردوں کو تو باہر بھی جانا ہوتا ہے، میں بار بار سوال کر کے پریشان نہیں کر سکتی ناں۔۔“ اوزگل نے نہایت تہذیب کا مظاہرہ کیا۔
”مجھے لگا تھا صرف زرگل ہی ایسی لاپرواہ ہے لیکن تم دونوں واقعی جڑواں ہو۔۔ شوہر کی کوئی فکر نہیں، وہ کب کہاں گیا ہوا ہے۔ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔۔ میں بھی جتنے دن غائب رہوں زرگل پتا نہیں کرتی، تم بھی خان زادہ کا وہی حال کر رہی ہو۔۔
کبھی کبھی پتا کر لیا کرو، خیر خیریت پوچھا کرو۔ صبح سے وہ غائب ہے تمہیں پتا تو ہونا چاہیے تھا وہ کہاں ہے، کیسا ہے۔“ زورک خان نے آہ بھرتے ہوئے سمجھایا۔ اوزگل بہن کے زکر پر ٹھٹک گئی۔ اسے زرگل کے الفاظ یاد آئے تو بےاختیار بول پڑی۔
” مردوں کو سارے شکوے بس بیوی سے ہی ہوتے ہیں، کیا خود کبھی پتا رکھا ہے بیوی کیا چاہتی ہے۔ اس کی خوشی کیا ہے، وہ کب سکون میں ہے، کب وہ زمہ داری کا بوجھ اٹھائے خود پر جبر کر رہی ہے۔ قدر کرنے سے قدر ملتی ہے ناں۔۔ ورنہ صرف نام کا رشتہ ہی رہ جاتا ہے۔“ اوزگل کے دل میں جانے کیا سمائی کہ وہ زورک خان پر دل کی بھڑاس نکال گئی۔
“تم تو ناراض ہی ہو گئی ہو، ہم خبر بھی رکھ لیں اگر بیوی کا مزاج ملے۔۔ جب بیوی ہی نا چاہتی ہوں کہ شوہر قدر کرے تو ہم کیا کریں پھر۔۔“ زورک خان نے چائے اپنے سامنے رکھتی زرگل کو دیکھتے ہوئے گہرے لہجے میں کہا۔ زرگل چونک کر اسے دیکھنے لگی جبکہ دوسری جانب اوزگل گڑبڑا گئی تھی۔
”ایسی کوئی بیوی نہیں ہوتی جو قدر نا چاہتی ہو۔۔ مجھے ابھی سمجھا رہے تھے خبر رکھا کرو، خود بھی وہی کریں ناں۔۔ اب رکھتی ہوں، بات ہوئی تو خان زادہ صاحب کو پیغام دے دوں گی۔ اللہ حافظ“ اوزگل خفگی سے بولتی کال کاٹ گئی تھی۔ زورک خان نے پلٹ کر جاتی زرگل کی کلائی تھام کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔
”کچھ دیر بیٹھ جاؤ میرے پاس، بیوی ہو میری۔۔ ملازمہ کیوں بنا لیا ہے خود کو۔۔“ وہ نرمی سے بولا۔ شاید اوزگل کی باتوں کا اثر تھا یا پھر اسے زرگل کی چپ کچھ زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔
”آپ کو یاد ہے میں بیوی ہوں؟ مجھے لگا آپ نے ملازمہ سمجھ لیا ہے۔“ زرگل نے منہ پھلا کر شکوہ کیا۔ کام کر کے تھک چکی تھی، وہ تو ویسے بھی انتظار میں تھی زورک خان توجہ دے اور وہ کام سے چھٹی مانگ لے۔
”زرگل میں نے پہلے دن صاف بات کی تھی، میرے علاوہ کسی کو مت سوچنا اور آج پھر سے سمجھا رہا ہوں کہ اپنے اعتراضات ختم کر لو اور اگر اپنی وفا ثابت کرو تو سر آنکھوں پر بٹھاؤں گا۔ تمہیں میرے مان محبت کی پرواہ نہیں تو پھر میں بھی ایسا ہی ہوں۔
مجھ سے یک طرفہ محبت نہیں ہو گی۔ تمہیں محبت چاہیے تو تمہیں بھی مجھ سے محبت کرنی ہو گی۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر سنجیدگی سے بولا تو زرگل نے گھبرا کر اس کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھا۔
”میں کسی کو نہیں سوچتی خان صاحب، میرا مزاج ایسا ہے۔ مجھے بدلنے میں کچھ وقت تو لگے گا ناں۔۔ آپ غصہ نہیں ہوا کریں۔۔“ وہ معصوم صورت بنا کر زورک خان کو دیکھنے لگی۔ وہ اسے سینے سے لگاتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا۔
”میں انتظار کر لیتا ہوں مگر مجھے بدلاؤ نظر آنا چاہیے۔ محبت ظاہر ہونی چاہیے اور انتظار بھی زیادہ عرصہ نہیں کروں گا۔“ زورک خان نے اسے صاف الفاظ میں وارن کیا تھا۔ زرگل نے آنکھیں میچ لیں۔ وہ آزادی جس کی وہ خواہش کرتی تھی، مل ہی نہیں رہی تھی۔ زورک خان محبت جتاتا تھا مگر اس کی ایک حد تھی۔۔
لیکن اب زرگل کو اس کے حساب سے ہی جینا تھا، وہ ہار مان گئی۔ اب جو چاہتی تھی وہ مل نہیں سکتا تھا۔ یافث خان زادہ تو پرایا ہو گیا تھا، زورک خان اس کا اپنا بن رہا تھا تو وہ اسے غصہ دلانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
چائے پیتے زورک خان نے پرسوچ نظروں سے اپنے سینے میں سمٹی زرگل کو دیکھا۔ وہ پہلے روز سے ہی اسے ڈھیل دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ محبت میں سختی شامل رکھی تھی۔ وہ بیوی سے برابر محبت چاہنے والا مرد تھا۔ اس سے ناز نخرے اٹھائے بھی نہیں جاتے تھے اور اب زرگل دھیرے دھیرے اس کے مزاج میں ڈھل رہی تھی۔
اس کے لبوں پر مغرور فاتحانہ سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جبکہ دوسری جانب اس کی باتیں سوچتی اوزگل نے یافث کا نمبر ان بلاک کر کے ہچکچاتے ہوئے اسے کال ملائی۔ فکر ہونے لگی تھی ناجانے وہ صبح سے غائب کیوں تھا۔ وہ یافث خان سے جتنا بھی دور بھاگتی، دل سے اس کی محبت ختم تو نہیں کر پاتی تھی۔
کال جاتی رہی مگر یافث نے اٹینڈ نہیں کی، وہ خوشنما اور رودابہ کو مصروف دیکھ کر چادر اوڑھتی دبے پاؤں اپنے فلیٹ سے نکلی۔ سامنے ہی یافث خان کسی ماڈرن سی لڑکی کے ساتھ مسکرا مسکرا کر باتیں کرتا اپنے فلیٹ کی طرف آرہا تھا، اوزگل کے ماتھے پر بل پڑے۔
”تم چاہتے تو نہیں تھے مگر اس دعوت کے لیے بھی مجھے منہ سے کہنا پڑا۔۔“ وہ لڑکی شرارت سے بولی تو یافث خان آہستگی سے ہنستا سر ہلا کر دروازہ کھول گیا۔ عادتاً سامنے فلیٹ کی جانب دیکھا تو تب اس کی اوزگل پر نظر پڑی۔
”اوز۔۔“ وہ حیرت سے اس کی طرف پلٹا تھا مگر وہ دروازہ بند کر کے اندر چلی گئی۔ یہاں پورا خاندان اس کی فکر میں پاگل ہو رہا تھا اور وہ یہاں ناجانے کس لڑکی کے ساتھ شوخیاں کرتا اسے اپنے فلیٹ میں لا رہا تھا۔ اوزگل کو شدید غصہ آیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کی طرف سے وضاحت بھرا میسج اوزگل کے نمبر پر آیا۔
”میں آج صبح ایک بزنس ڈیل میں بزی تھا، وہ لڑکی میری کلاس فیلو اور ہماری کمپنی کے ساتھ ڈیل کرنے والے بزنس مین کی وائف ہے، میں نے ان ہزبینڈ وائف کو اپنے پاس ڈنر کے لیے انوائٹ کیا تھا۔ اس کا ہزبینڈ اندر حمزہ کے ساتھ موجود تھا، وہ میرے ساتھ آئی تھی۔
تم نے کال کیوں کی تھی، سب خیریت ہے ناں؟“ پوری وضاحت دے کر اس نے کال کرنے کی وجہ پوچھی تھی اور جواب میں اوزگل نے اپنا پسندیدہ کام دہرایا تھا یعنی اس کا نمبر بلاک کر دیا تھا۔

”جھوٹے انسان۔۔“ وہ خفگی سے بڑبڑائی۔ مہمانوں کے ساتھ بیٹھا یافث اس کی حرکت پر مسکراہٹ دبا گیا۔ یعنی اس کی نخریلی بیوی کو اس کے ساتھ دوسری لڑکی دیکھ کر جیلسی ہوئی تھی اور پھر وہ کہتی تھی اسے فرق نہیں پڑتا۔

حال:
وہاں پہنچ کر اوزگل نے کچن میں ملازماؤں کے ساتھ مصروف زیبا کی مدد کروائی۔ ژالے کا بیٹا چند ماہ کا تھا، اس لیے وہ بیٹے کو لے کر بیٹھی تھی۔ خالہ کے آدم بیزار بیٹی بیٹا بھی یہاں دونوں بچوں کو دیکھ کر بہل گئے تھے۔ اوزگل ان بچوں کو پیار کرنے کے لیے مچل رہی تھی، ابوبکر کی قلقاریاں ڈرائنگ روم میں گونج رہی تھیں۔
جبکہ واثق خان کا بیٹا خیام ماں کی گود میں نیند کر رہا تھا۔ اوزگل تو ہمیشہ سے بچوں کی دیوانی تھی۔ خیام کو صرف ایک دو بار دیکھا تھا، زیبا نے اوزگل کی بےچینی دیکھی تو بےاختیار مسکرا دی۔
”بس ہو گیا، باقی کام یہ خود سنبھال لیں گی۔ آؤ ہم بھی اندر جا کر بیٹھتے ہیں۔“ زیبا اسے لیے باہر آگئی، اوزگل نے باہر آتے ہی ژالے سے خیام کو لے لیا۔ وہ کسمسا کر پھر سے سو گیا تھا۔ اوزگل چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔
کھانے کے دوران بھی اسے اپنی گود میں سلائے رہی تھی۔ وہ مزے سے نیند کرتا رہا۔ بہت دیر بعد وہ جاگ کر رویا تو ژالے کو پکڑا کر زیبا سے ابوبکر کو لے کیا۔ خالہ اس کی بچوں کے لیے دیوانگی دیکھ کر ہنسنے لگیں۔
”اوزگل کو بچے اتنے پسند ہیں، اس کے بچوں کو تو کوئی اٹھا بھی نہیں پائے گا۔ یہ خود انہیں آزاد نہیں کرے گی۔“ خالہ نے شرارت سے کہا تو سب ہنسنے لگے، اوزگل جھینپ گئی۔ یافث خان اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”اللہ ان کو اولاد دے، حویلی میں پہلے بھی کوئی بیٹی نہیں تھی، اب ہم دونوں کے بھی پہلے بیٹے ہیں۔ اب سب کی نظریں اوزگل پر ہی ہیں، اللہ کرے ان کی بیٹی ہو۔۔ تمہیں بیٹیاں پسند ہیں ناں اوزگل؟“ زیبا نے دعا دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔ اوزگل اس کے سوال پر شرم کے مارے سرخ ہوئی۔
”اوزگل کو بیٹیاں بہت پسند ہیں، یہ دعا بھی یہی کرتی ہے ہماری پہلی بیٹی ہو اور وہ اوزگل جیسی گڑیا ہو۔“ یافث خان نے اپنی خواہش اوزگل پر تھوپتے ہوئے نہایت اطمینان سے بتایا۔ اوزگل نے یافث کو گھورنا چاہا مگر وہ گہری نظروں سے اس کا شرماتا روپ دیکھ رہا تھا، وہ نروس ہو گئی۔
”اللہ ضرور بیٹی دے گا ان شاءاللہ“ خالہ دعا دینے لگیں، اوزگل نیند میں جاتے ابوبکر کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگی۔ وہ عام بچوں سے زیادہ صحت مند تھا، اوزگل کے بازو میں ہی گردن ڈھلکائے نیند کرنے میں مصروف تھا۔ اس کے بازو شل ہونے لگے۔ یافث نے اس کے چہرے پر تھکن کے تاثرات محسوس کر کے ابوبکر کو اس کی گود سے لے لیا۔
”خالہ چائے پئیں گی ناں؟ میں خیام کو سلا کر بناتی ہوں ابھی۔۔“ ژالے اٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”میں بنا لیتی ہوں چائے، آپ اسے سلائیں۔“ اوزگل کھڑی ہو گئی۔ زیبا نے ملازمہ کو ساتھ گاجر کا حلوہ گرم کرنے کا کہہ دیا۔ وہ سر ہلا کر کچن میں چلی گئی۔ سب کے ساتھ چائے پینے اور باتیں کرنے میں ہی رات کے نو بج گئے تھے۔ سردی بڑھ رہی تھی۔
اوزگل کو واپسی کا خیال آیا تو اس نے یافث کی تلاش میں نظر دوڑائی۔ وہ محفل سے جانے کب کا غائب ہو چکا تھا۔ اس نے بےچینی سے پہلو بدلتے ہوئے یافث کے نمبر پر میسج کیا۔ ایک۔۔۔ پھر دوسرا۔۔ پھر تیسرا۔۔ بار بار پوچھا واپس کب جائیں گے۔ جواب نہیں آیا۔
”بھابھی یافث کہاں ہیں؟“ اوزگل نے آہستگی سے ساتھ بیٹھی ژالے سے پوچھا۔ اتنی سردی میں واپس جانے کا سوچ کر ہی اسے ٹھنڈ لگنے لگی تھی۔ ژالے اس کے سوال پر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”وہ اپنے روم میں ہے، بتا رہا تھا آج آفس میں بزی رہا تو تھک گیا ہے۔“ ژالے اسے بتا کر خالہ سے بات کرنے لگی جبکہ اوزگل اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی، یافث خان کے کمرے میں پہنچی تو وہ سامنے بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کیے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا موبائل پر مصروف تھا، کمرے میں سوفٹ لائٹس آن تھیں۔
”ہم واپس کب جائیں گے؟“ اوزگل کے سوال پر وہ سیدھا ہوا۔
”اوہ میں نے تمہارے میسجز اب دیکھے ہیں۔ آفس سے ای میل آئی ہوئی تھی تو وہی چیک کر رہا تھا۔“ وہ موبائل بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھتا نرمی سے بول رہا تھا۔
”واپس نہیں جانا؟ بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے پلیز اب واپس چلتے ہیں، مزید نہیں بیٹھ سکتی میں۔۔“ اس نے پریشانی سے کہا تو وہ اسے دیکھنے لگا۔ شال کندھوں پر بار بار سیٹ کرتی وہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔
”تھک گئی ہو تو آکر سو جاؤ، ہم آج واپس نہیں جائیں گے۔ میں تو اس وقت ڈرائیونگ کرنے کی حالت میں نہیں ہوں، بہت تھکن ہو رہی ہے۔“ وہ نیم دراز ہوتے ہوئے اطمینان سے بولا۔ اس کی بات پر اوزگل کو جھٹکا لگا تھا۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!