Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط سولہ
ماضی:
وہ یونیورسٹی سے آتے ہی عبایا اتار کر منہ ہاتھ دھوتی ٹھنڈا پانی پینے لگی، شدید گرمیوں کا موسم تھا۔ یافث خان دو دن سے اسے ملنے نہیں آیا تھا۔ اوزگل کو فکر ہوئی تھی، آخری بار جب وہ آیا تھا تو اسے ٹمپریچر ہو رہا تھا۔ اوزگل نے اگلے دن نا آنے پر کال کر کے خیریت پوچھی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں، بس بزی تھا۔ ملنے آؤں گا تمہیں۔۔“ وہ کال کاٹ کر میسج میں اسے تسلی دے رہا تھا۔ اوزگل کی ضروری کلاسز تھیں، وہ ملنے نہیں جا پائی اور مصروف ہو گئی۔ آج زرا فرصت ملی تھی، وہ فریش ہونے کے لیے استری شدہ لباس اٹھا کر نہانے چلی گئی۔
وہاں یافث کے فلیٹ میں خان بیگم اسے ملنے آئی ہوئی تھیں، دو دن سے وہ شدید بیمار تھا۔ انہیں خبر ملی تو ملنے چلی آئیں۔ یہاں آکر پتا چلا تھا اس بیماری میں بھی اوزگل اپنے فلیٹ میں ہی تھی۔ یافث خان ان کے سامنے بیٹھا تھا اور اچھا خاصہ کمزور لگ رہا تھا۔
”تم اس حال میں تھے پھر بھی اوزگل کو پڑھائی کی فکر تھی؟ مجھے اوزگل سے بہت امیدیں تھیں مگر اس نے بہت مایوس کیا ہے۔ اس سے محبت اپنی جگہ مگر اسے زمہ داری کا احساس ہونا چاہیے، تم شادی شدہ ہو کر بھی بیماری میں ایسے اکیلے پڑے رہو تو فائدہ کیا ہوا۔۔
اس سے تو اچھا تھا بھائیوں کے پاس چلے جاتے۔۔ میں زرگل کو لاپرواہ اور بےحس سمجھتی تھی، مجھے اندازہ نہیں تھا اوزگل بھی ویسی ہی ہے۔ اسے بس اپنی خوشی چاہیے، پڑھائی کروا رہے ہو تو قدر بھی کرے ناں۔۔“ خان بیگم سخت ناراض ہو رہی تھیں۔ یافث پریشان ہوا۔
”امو جان اسے میری طبیعت کا نہیں پتا، پڑھائی کروا رہا ہوں تو کیا احسان جتا کر قیمت وصول کروں؟ آپ خود تو کہتی ہیں کم عمر اور ناسمجھ ہے۔ وہ اب بھی وہی اوزگل ہے۔ میں نے اسے مصروفیات کا جھوٹ بول دیا تھا۔ آپ خوامخواہ بات اس کی طرف مت لے جائیں۔“ وہ خفگی سے بولا۔
”مجھے بھی تم نے یہی کہا تھا مصروف ہو لیکن اتنے دور سے ملنے چلی آئی ہوں۔ رابطہ تھا تو تمہاری آواز سے تمہاری کمزوری پہچان لی۔ ہاں ٹھیک ہے بیوی اور ماں میں فرق ہوتا ہے مگر وہ احساس کر سکتی تھی۔ اس نے تم سے رابطہ بھی نہیں رکھا ہوا؟ یہیں سامنے فلیٹ میں رہتی ہے۔
کیا ایک نظر دیکھنے بھی نہیں آ سکتی تھی؟ تم دونوں میاں بیوی ہو کر ایسے دور دور رہتے ہو جیسے اجنبی ہوں۔ یہ سب کیا تماشہ ہے خان زادہ؟ یہ بھی اوزگل کی فرمائش ہو گی۔ وہ لڑکی اتنی بےوقوف ہو گی مجھے یقین نہیں آ رہا، تم ناحق اس کی طرفداری مت کرو۔۔“ وہ غصے سے سرخ ہو گئیں۔
یافث سر پکڑ بیٹھا۔ اوزگل سے اس کا تعلق اچھا ہو رہا تھا۔ راتوں کو دیر تک وہ اس کے پاس رکتا تھا۔ وہ ویسی ہی تھی جیسے سب بتاتے تھے۔ معصوم اور بےضرر سی۔۔ پڑھائی اس کا جنون تھا مگر وہ یافث کا خیال کرتی تھی، قدر کرنے لگی تھی۔ طبیعت کی خرابی یافث خان خود چھپا گیا تھا۔ خان بیگم اسے کچھ کہتیں تو وہ ہرٹ ہوتی۔
”امو جان آپ کچھ نہیں جانتیں اس لیے پلیز اس بات کو رہنے دیں۔ دی جان اور آغا جان ٹھیک تھے؟ واپسی کب ہے آپ کی؟ اب تو میں ٹھیک ہوں پریشان مت ہوں۔“ وہ بات بدل گیا مگر بات بڑھ چکی تھی۔
”میں آج واپس جاؤں گی مگر اس سے مل کر جاؤں گی اور پوچھوں گی اسے آخر کیا چاہیے، میں مزید اس کے ساتھ نرمی نہیں برتوں گی۔ اگر اسے احساس نہیں تو ٹھیک ہے۔ اب میں بھی ساس بن کر سکھاؤں گی کہ اسے کیسے شوہر کی خدمت کرنی ہے۔ اس سے تو زرگل اچھی نکلی۔۔
اتنی سی عمر میں وہ اپنے شوہر اور حویلی کی تمام زمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔ ژالے اور زیبا بھی تو ہیں، شوہروں کے ساتھ رہتی ہیں مگر گھر سنبھال رکھے ہیں۔ تم نے اوزگل کو خوامخواہ سر پر چڑھا رکھا ہے۔“ خان بیگم کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ شادی کو اتنے ماہ گزر گئے تھے، خاندان میں اب چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔
شادی سے انکار زرگل نے کیا تھا مگر افواہیں اوزگل پر پھیل چکی تھیں کہ وہ شادی پر راضی نہیں تھی۔ کیونکہ زرگل خان حویلی کے سخت اصولوں کی وجہ سے ہر زمہ داری پوری کر رہی تھی۔ چاہے اس کا دل تھا یا نہیں، زورک خان نے اس معاملہ میں بالکل نرمی نہیں دکھائی تھی۔
یہاں یافث خان کی نرمی اور بےجا آزادی کی وجہ سے اوزگل آج تک وہی کنواری ناسمجھ لڑکی لگتی تھی۔ کم عمر تو دونوں بہنیں تھیں مگر یافث خان کی محبت اوزگل کو بڑا نہیں ہونے دے رہی تھی۔ خان بیگم اب مزید برداشت نہیں کر پا رہی تھیں اور یافث یہ سوچ کر ہی گھبرا گیا کہ اب وہ اوزگل پر سختی کرنے والی ہیں۔
”امو جان اگر آپ کو ہماری دوری کی وجہ جاننی ہے تو پھر میں سچ بتا دیتا ہوں کہ اوزگل میری وجہ سے وہاں اکیلی رہ رہی ہے۔ میں اسے بیوی نہیں سمجھتا، میں اسے ابھی یہ حق دینا ہی نہیں چاہتا۔“ یافث خان سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ وہ ٹھٹک گئیں۔
”تم بیوی کی طرفداری میں اب جھوٹ۔۔۔
”جھوٹ نہیں بول رہا امو جان۔۔“ وہ ان کی بات درمیان میں کاٹ گیا تھا۔ وہ پریشان ہوئیں۔ اور عین اسی وقت نہائی دھوئی فریش سی اوزگل اس کی خیریت پوچھنے اس کے فلیٹ میں داخل ہو رہی تھی۔ یافث کے الفاظ پر رک گئی۔
”آپ شاید بھول رہی ہیں میں نے اس شادی سے انکار کر دیا تھا اور اگر میں چاہتا تو حویلی کی روایات سے بھی لڑ جاتا اور اس رسم کو توڑ دیتا کہ منگنی کی نکاح جیسی حیثیت ہے۔ اور جب راستہ بدل لیتا تو مجھے فرق نا پڑتا لڑکی پر کیا گزرے گی لیکن آپ سب کی پریشانی دیکھ کر چپ ہوا تھا۔
مجھے رسم و رواج ناپسند تھے مگر آپ لوگوں سے محبت ہے۔ میں نے اوزگل سے آپ سب کی خاطر شادی کی ہے اور اب اسے قبول کرنے کے لیے پہلے اسے اپنے قابل بناؤں گا۔ اسے پڑھنے دیں تاکہ وہ یافث خان کی بیوی بننے کے قابل ہو۔ ابھی میں اسے بیوی کی حیثیت نہیں دے سکتا۔ نا میں اسے قبول کروں گا۔“
وہ سختی سے بول رہا تھا۔ خان بیگم گھبرا گئیں، باہر کھڑی اوزگل اس کے الفاظ پر ساکت کھڑی رہ گئی تھی۔ وہ محبت، توجہ سب دھوکہ کیسے ہو سکتا تھا۔ زرگل کہتی تھی یافث خان اتنی آسانی سے اپنی بیوی کو خود سے دور کیسے رکھ سکتا ہے۔ اوز کو لگتا تھا محبت ہے مگر وہ کچھ اور بتا رہا تھا۔
”یافث خان تم ایسا کیسے۔۔“ خان بیگم پریشانی سے کچھ بول نہیں پائی تھیں۔
”میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اوزگل مجھ سے بہت چھوٹی ہے اور بےوقوف بھی۔۔ مگر آپ لوگوں کی خوشی تھی تو ٹھیک ہے۔ اوزگل میں کوئی عیب نہیں ہاں بس وہ میرے برابر نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اسے پڑھا رہا ہوں، حویلی کی باقی عورتوں کے برابر لانا چاہتا ہوں۔ وہ ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ اسے اپنی بیوی کی حیثیت سے متعارف کروا سکوں۔۔
بچپن کے اس رشتے کو ختم کرنا دو گھروں کو توڑ دیتا اس لیے سر جھکا دیا مگر مجھے وقت دیں اور اگر سمجھانا ہے تو اوزگل کو یہی سمجھا دیں شوہر جیسا بھی رکھے وہ صبر سے رہے، ہو سکتا ہے آپ بات کریں تو وہ بھی شکوہ کر لے۔ یا پھر جو جیسے چل رہا ہے چلنے دیں۔۔“
یافث اطمینان سے بولتا ماں کو چپ کروا گیا تھا۔ اوزگل پلٹ کر اپنے فلیٹ میں چلی گئی، زلت کے مارے اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ آنکھوں سے بہتے آنسو اس کا چہرہ بھگو گئے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں بند ہوتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، یافث خان اتنا ظالم کیوں تھا۔ وہ محبت کر لیتا تو کیا جاتا۔۔
اوزگل کو تب یاد آیا اس نے فون کر کے منتیں کی تھیں، شاید وہی ترس کھایا گیا تھا۔ اس نے ایسے مرد سے محبت کی تھی جو اسے اپنے قابل ہی نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے خول میں سمٹ گئی، یافث خان نے اس کی طرف سے ماں کا دل صاف کیا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا اوزگل بھی اسے سن چکی ہے۔
اس کے بعد خان بیگم کا رویہ اوزگل سے مزید نرمی بھرا ہو گیا، وہ اس سے شرمندہ سی رہتی تھیں۔ مگر حیرت تو یافث خان کو ہوئی تھی جب اوزگل اچانک دور دور رہنے لگی۔ پھر آغا جان سے اجازت لے کر اس نے اپنی دو دوستوں کو اپنے ساتھ رہائش دی اور یافث خان کے آزادی سے آنے جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔
وہ فون پر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر اوزگل نے نمبر بھی بلاک کر دیا۔ وہ وجہ نہیں سمجھ پایا تھا مگر ان کے درمیان جو تعلق اچھا ہو رہا تھا، وہ پہلے سے زیادہ اجنبیت میں ڈھل گیا۔ اوزگل نے یافث خان سے ملنا یا بات کرنا بالکل ترک کر دیا تھا اور وجہ بتانا گوارا نہیں کیا تھا۔
حال:
یافث خان گھر پہنچتے ہی بھاگتے ہوئے کمرے میں پہنچا، اوزگل سر سے پاؤں تک بلینکٹ میں چھپی سیدھی پڑی تھی۔ وہ حواس باختہ سا اس کے پاس پہنچا اور اس کے منہ سے بلینکٹ ہٹا کر اسے دیکھا۔
”اوز میری جان تم ٹھیک ہو ناں؟ اوز سنو۔۔ اوزی۔۔“ وہ پریشانی سے اس کا رخسار تھپتھپا کر اسے پکار رہا تھا۔ اوزگل نیند سے جاگتی کسمسا کر غائب دماغی سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، یافث نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے اس کی کلائی ٹٹول کر نبض بھی چیک کر ڈالی۔
”کیا ٹائم ہوا ہے، مجھے نیند آ گئی تھی۔“ اوزگل بند آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتی کسمسا کر بولی۔ اسی وقت خالہ بھی پریشان سی دستک دیتی ان کے کمرے میں آئیں۔
”اوزگل ٹھیک ہے ناں؟“ وہ بھی فکرمندی سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ ہونق سی خالہ کو دیکھنے لگی۔
”ٹھیک ہے محترمہ، سو رہی تھی۔“ وہ بولتے ہوئے وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خالہ ہنستے ہوئے باہر چلی گئیں۔ اوزگل نے انگڑائی لے کر یافث خان کو دیکھا۔
”کیا ہوا؟“ اس کے حواس اب جاگ رہے تھے، جیسے خالہ اور وہ بھاگتے ہوئے آئے تھے۔ وہ اب کچھ گھبراہٹ کا شکار ہوئی۔
”کچھ نہیں، سو جاؤ تم۔۔“ وہ خفگی سے بلینکٹ کا پلو اس کے منہ پر ڈالتا اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔ کچن میں جا کر پانی کا گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں حلق سے اتار گیا۔ واپس آنے تک ناجانے کیسی کیسی سوچیں اس کے دماغ میں ابھری تھیں۔
صرف کال اٹینڈ نہیں ہوئی تھی اور وہ کیا کیا سوچ بیٹھا تھا، یہاں وہ مزے سے نیند کر رہی تھی۔ سامنے خالہ شاپنگ کا سامان سمیٹتی اس پر بری طرح ہنس رہی تھیں۔ اندر اوزگل منہ پر کمبل آتے ہی پھر سے نیند میں غرق ہو چکی تھی۔
”آپ نے دیکھا کتنی بےوقوف لڑکی ہے؟ سونا منع نہیں ہے مگر انسان موبائل تو سائلنٹ پر نا لگائے۔۔ میں گھبرا گیا کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ تم دونوں بتاؤ لنچ میں کیا لو گے؟ باہر سے آرڈر کر لیتے ہیں۔“ یافث خان کچن سے باہر آ کر خالہ سے بولتا ان بہن بھائی کی طرف مڑا۔ جو کب سے بےزار صورت لیے بیٹھے تھے۔
”میں نے آپ کو آتے ہوئے ہی کہا تھا پیزا کھلا دیں، ہمیں بھوک لگ رہی تھی لیکن آپ پھر بھی گھر لے آئے۔“ بلال کا منہ پھولا ہوا تھا۔ خالہ مسکراتے ہوئے گفٹس الگ کر رہی تھیں۔
”یار گھر میں جو مصیبت سو رہی ہے ناں، اس نے میرے حواس اڑا دئیے تھے، میں کیا کرتا۔ اچھا سوری میں اب منگوا دیتا ہوں۔ اچھے بچے ناراض نہیں ہوتے۔“ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے اس کا گال چومتے ہوئے بولا۔
”تو آپ مصیبت کو ساتھ لے جاتے، گھر چھوڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اچھے بچے ناراض بھی ہوتے ہیں اور انہیں بھوک بھی لگتی ہے۔“ بلال نے ناک چڑھا کر کہا۔ یافث حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”شٹ اپ بلال۔۔ تم سے بڑی ہیں، ایسا نہیں کہتے۔“ خالہ نے مسکراہٹ دبا کر بیٹے کو گھورتے ہوئے ٹوکا۔
”واٹ؟“ وہ کندھے اچکا کر حیرت سے بولا۔
”یہ آپ کا ہمپٹی ڈمپٹی کچھ زیادہ تیز نہیں ہے۔ جوان ہو جاؤ بیٹا، پھر دیکھوں گا ان مسائل سے کیسے نمٹو گے۔“ یافث نے اس کے پھولے ہوئے گال پکڑ کر ہنستے ہوئے کہا۔
”پلیز اب کچھ منگوا لیں، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔“ عبیرہ کا صبر بھی جواب دے چکا تھا۔ یافث نے آہ بھری اور باہر سے پیزا آرڈر کرنے لگا۔
”ان دونوں کو اصل پریشانی باہر سے کھا کر نا آنے کی ہے۔ ویٹ کر لو۔ فروٹ پڑا ہے وہ کھا لو۔۔ یافث تم کوئی ایک چیز آرڈر کرنا، میرے لیے الگ سے تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کھا لیتی ہوں۔“ خالہ نے بچوں کو ڈپٹ کر اس کی مشکل آسان کی۔
وہ پیزا آرڈر کر کے بھی دونوں کزنز کو منانے میں لگا ہوا تھا۔ پھر معافی اگلے دن آؤٹنگ کروانے کی شرط پر ملی تھی۔ پیزا آ گیا تھا۔ خالہ اٹھ کر کچن سے پلیٹس اٹھا لائیں، یافث اوزگل کو بلانے چلا گیا۔
”اوز اٹھو کھانا نہیں کھاؤ گی کیا۔۔“ وہ اسے پھر سے نیند میں گم دیکھ کر حیران ہوا۔ اس کے جگانے پر وہ نیند میں ہی ناک چڑھا کر کروٹ بدل گئی۔
”تم اٹھ رہی ہو یا میں خود اٹھا کر باہر لے جاؤں؟“ یافث نے اسے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کرتے ہوئے گھور کر دھمکی دی۔ اوزگل کی آنکھ کھل گئی۔
”مجھے کچھ نہیں کھانا، ابھی نیند آرہی ہے۔ میں رات کو دیر تک جاگتی رہی ہوں تو۔۔“ وہ پھر سے کروٹ کے بل ہوتی بازو میں اپنا منہ چھپاتے ہوئے نیند کی وجہ بتا رہی تھی جب یافث نے ٹوک دیا۔
”کتنی دیر تک؟ گیارہ بجے تو میں روم میں آگیا تھا اور تم تب آدھی نیند کر چکی تھیں۔ تم تو کہتی تھیں رات کو دو بجے تک پڑھتی ہو۔۔ تمہارے یہ رات کے دو، دس بجے ہو جاتے ہیں؟“ یافث خان نے اسے جتایا۔ اوزگل نے آنکھیں زور سے بند کیں۔
دو بجے تک تو خوشنما اور رودابہ پڑھتی تھیں۔ وہ تو نماز پڑھتے ہی بستر پر چلی جاتی تھی۔ اب یہ بات یافث خان کو بتاتی تو پڑھائی کا سارا جنون ختم کروا دیتا۔ وہ خود ایسا پڑھاکو رہا تھا۔ اوزگل سے تو راتوں کو نہیں جاگا جاتا تھا۔
”نہیں جاگے گی وہ آج کے دن۔۔ ہم کھا لیتے ہیں۔“ وہ مایوس ہو کر باہر چلا گیا۔ وہ لوگ پیزا کھا کر فارغ ہوئے تو خالہ اٹھ کر چائے بنانے لگیں۔ وہ تیار ہو کر کچھ دیر کے لیے آفس چلا گیا تاکہ ضروری کام کر سکے جو آف کرنے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°
واثق اور حازق شام کے وقت خالہ کو ملنے آئے تو محفل جم گئی، اوزگل نا خود جاگی نا خالہ نے جگایا۔ یافث بھی بھائیوں کی وجہ سے واپس آچکا تھا۔ اوزگل کو ابھی تک نیند کرتا دیکھ کر اس کا دماغ ہل گیا تھا۔ اتنا کون سو سکتا ہے۔ اسے نہیں پتا تھا غم میں اوزگل ایسے ہی سوئی رہتی تھی۔
دو دو دن کمرے میں بند ہو جاتی تھی اور خوشنما، رودابہ بےچاری باہر سے سوچتی رہتی تھیں کہ شاید اوزگل کے گھر میں کوئی پریشانی ہو گی یا کسی نے کچھ کہہ دیا ہو گا۔ انہیں یہ نہیں پتا تھا اوزگل شادی شدہ تھی اور اسے اکثر یافث خان کی نظر میں اپنی بےقدری رلاتی تھی اور وہ یہ غم لیے کمرے میں بند ہو جاتی تھی۔
”ہم تو تم سب کو لینے آئے ہیں، تمہاری بھابھیوں نے ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے خالہ کو بھی اور تم دونوں کو بھی۔۔ خالہ تو رکیں گی، تم دونوں رکو تو مرضی ہے ورنہ واپس آنا چاہو تو دیکھ لینا۔۔ گھر بھی آجایا کرو یار۔۔ تم تو اوزگل کو لے کر بالکل ہی الگ ہو گئے ہو۔۔“ بڑے بھائی یافث سے ناراض ہو رہے تھے۔
جس شہر والے گھر میں وہ رہتے تھے وہاں یافث خان کا بھی الگ روم تھا۔ بڑے بھائیوں کی شادی سے پہلے وہ وہیں ان کے ساتھ رہتا تھا۔ مگر زیبا آئی تو یافث الگ ہو گیا۔ اب تو ژالے بھی شہر آگئی تھی۔ اوزگل کو پڑھائی کرنی تھی، یافث اب اس کی وجہ سے یہیں تھا۔
”ہاں تو چلتے ہیں، کھانا ساتھ کھا لیں گے، بچوں سے بھی مل لوں گا۔ خالہ آپ تیار ہو گئی ہیں تو آپ لوگ چلیں میں اوزگل کو جگاتا ہوں۔ ہم پیچھے آجائیں گے۔“ یافث مان گیا۔ اب وہ اوزگل کے مزید نخرے اٹھانے کے بالکل موڈ میں نہیں تھا۔
وہ دونوں بھائی خوش ہو کر خالہ اور ان کے بچوں کو لے کر روانہ ہو گئے اور یافث سوچ چکا تھا آج رکنا بھی پڑا تو وہاں رک جائے گا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو اوزگل فریش سی ٹی پنک کھدر کے کرتا اور کھلے ٹراؤزر میں ملبوس شیشے کے سامنے کھڑی لپ اسٹکس کے کلرز چیک کر رہی تھی۔
سٹائلش لباس کی جدید تراش خراش میں اس کا نازک گداز سراپا نمایاں ہو رہا تھا۔ شرٹ کے گھیرے اور ٹراؤزر کے نیچے بھاری کڑھائی کے بارڈر بنے ہوئے تھے۔ نم سنہری مائل بال پشت پر پھیلے تھے۔ میرون شال اچھے سے سر پر اوڑھ کر وہ سیدھی ہوئی۔ یافث دروازے کے پاس رکا فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”کہاں جا رہی ہو؟“ وہ اس کے سائیڈ سے ہو کر کمرے سے نکلنے لگی تو یافث نے اپنا بازو اس کے سامنے کر کے اس کا راستہ روکتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ نرم لبوں پر گلابی لپ اسٹک لگائے وہ اس کے سامنے پزل ہو رہی تھی۔
”حازق لالا اور واثق لالا آئے ہوئے ہیں ناں، میں نے آواز سنی تھی۔“ وہ بار بار شال سیٹ کرتی خود کو اس سے چھپا رہی تھی جو اسے شال کے بغیر بھی دیکھ چکا تھا۔ شاید حاذق اور واثق کی آوازیں سن کر فریش ہونے گئی تھی اور تیار ہو کر اب باہر آ رہی تھی جب وہ لوگ جا چکے تھے۔
”ان سے ملنے تو اب ان کے گھر جائیں گے۔ کیونکہ وہ خالہ اور بچوں کو لے کر جا چکے ہیں۔۔ میں تمہیں جگانے آیا تھا، اتنی بار آواز دیں مگر میں دنیا کا آخری انسان بچ جاؤ اور تمہیں بالکل سامنے کھڑے ہو کر آواز دوں تب بھی تم مجھے تو سننا گوارا نہیں کرو گی۔
حاذق لالا کہہ رہے تھے اوزگل شہر میں رہ کر اتنی بدتہذیب ہو گئی ہے کہ اب کوئی بڑا گھر آئے تو ملنا بھی پسند نہیں کرتی۔“ وہ اپنی ناراضگی میں بڑے بھائی کا خود سے گھڑا جملہ ایڈ کر کے اسے شرمندہ کر رہا تھا اور اوزگل اچھی خاصی شرمندہ ہو گئی تھی۔
”میں سو کر اٹھ چکی تھی، حلیہ رف ہو رہا تھا اس لیے۔۔“ وہ خفت زدہ سی وضاحت دینے لگی۔ یافث نے گہری نظروں سے اس کا شفاف نم چہرہ دیکھا۔ اس کی پلکوں پر اب بھی نمی موجود تھی۔ یافث نے ہاتھ بڑھا کر انگلیوں پر اس کی پلکوں کی نمی سمیٹی۔ اوزگل سمٹ کر پیچھے ہوئی۔
”میں ابھی چینج کر کے آتا ہوں پھر چلتے ہیں، وہاں جا کر بتا دینا تمہیں پورا دن سونے کی بیماری لگ گئی ہے ع
ورنہ بدتہذیب نہیں ہو، ہمیں ڈنر پر انوائٹ کیا ہے لالا نے۔۔“ وہ نرمی سے بولتا الماری سے اپنا ڈریس نکالنے لگا۔ اوزگل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔
”لیکن ہم کیوں۔۔“ اس نے کچھ بولنا چاہا مگر وہ رک کر اسے سختی سے دیکھتا چپ کروا گیا۔
”ہم جائیں گے اور میں تمہیں راستے میں اس غلط فہمی کی وضاحت بھی دوں گا جو تمہیں اتنے عرصہ سے ہے۔ تاکہ تم غصے میں پوری بات سنے بنا واک آؤٹ نا کر سکو۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولا اور اپنے کپڑوں سمیت واش روم میں بند ہو گیا۔
اوزگل مٹھیاں بھنچے بےبس بیٹھی رہی۔۔ یقیناً وہ ایک بار پھر اسے کوئی جھوٹی کہانی سنا کر بہلانے کی کوشش کرے گا، پھر سے محبت کے دعوے کرے گا مگر وہ ٹھان چکی تھی، اس کی باتوں میں نہیں آئے گی۔ اس بار اس پر یقین نہیں کرے گی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ماضی:
زرگل کا مزاج عجیب چڑچڑاہٹ کا شکار ہو رہا تھا، شادی کو کچھ مہینے گزر گئے تھے۔ زورک خان نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ہوا تھا مگر اسے ہر وقت یہی خیال ستاتا تھا وہ خان حویلی میں بند ہے، باقی سب کی طرح کچن میں کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ زورک خان جتنا بھی پیار محبت سے رکھ لیتا، اپنے کام پھر بھی اسی سے ہی کرواتا تھا۔۔
شہر جانے کی اجازت نہیں تھی، شروع میں اس نے بات بات پر رونے کی کوشش کی تو زورک خان نے اس پر بھی دو سے تین بار ہی پیار سے منایا تھا۔ اس کے بعد سختی سے کہہ دیا کہ اب وہ شادی شدہ ہے، بچوں کی طرح بات بات پر رونا چھوڑ دے۔ وہ محبت کرتا تھا مگر بلاوجہ لاڈ نہیں اٹھاتا تھا۔
وہ چڑچڑی ہو رہی تھی اور یہ چڑچڑاہٹ و غصہ اکثر اوزگل سے الٹی سیدھی باتیں کر کے اتار لیتی تھی۔ اوزگل پہلے چپ رہا کرتی تھی مگر کچھ وقت سے وہ یافث خان کی سائیڈ لینے لگی تھی۔ اس کی محبت کا غرور اس کے لہجے میں نمایاں ہونے لگا تھا۔ وہ کیسے اس کی پرواہ کرتا تھا، مرضی کرنے دیتا تھا۔ سختی تو بالکل کرتا ہی نہیں تھا۔
اپنی قسمت سے نالاں زرگل اکثر اس کی باتوں کو سوچتی اپنی اور اس کی زندگی کا موازنہ کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ اسے ہر لحاظ سے اوزگل کی زندگی آئیڈیل لگتی تھی۔ یعنی کمی کیا تھی اسے؟
پڑھائی کر رہی تھی۔ شہر میں گھوم رہی تھی۔ مرضی سے سوتی جاگتی تھی اور کام بھی اپنے شوق سے کرتی تھی پھر ہمسفر یافث خان جیسا تھا جسے دیکھ کر لوگ متاثر ہو جاتے تھے۔ جسے جاننے والے اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔
”میں اس اتوار آؤں گی تو آبا اور مورے سے بھی ملنے جاؤں گی، تمہیں آنا ہو تو چلی آنا ورنہ وہاں آکر میرا دماغ مت خراب کرنا۔ پھر تمہیں ہر بار لگتا ہے میں تمہارے لیے جان بوجھ کر آتی ہوں۔“ اوزگل اسے فون کر کے بتا رہی تھی۔ زرگل کو حازق خان کے بیٹے کے عقیقہ پر ہنستی مسکراتی اوزگل یاد آئی۔
”میں ہر وقت نہیں جاتی، تمہیں جانا ہے تو چلی جانا۔۔ تمہارے شوہر کی ہی عجیب عادت ہے، بیوی کو سر سے اتارے رکھتا ہے۔ یہاں تو زورک خان کا بس نہیں چلتا دن رات اپنے سامنے رکھے مجھے۔۔“ اس نے ناک چڑھا کر جتایا تو اوزگل کو ہمیشہ کی طرح غصہ آگیا۔
”ہاں جانتی ہوں زورک خان اچھا ہے، وہ ہمیشہ سے ہی ایسا اچھا تھا۔ یافث خان شروع سے مغرور انسان تھا، حیرت تو یہ ہے کہ تمہیں اس اچھے زورک خان سے شادی کرنے پر اعتراض تھا اور یہی برا یافث خان چاہیے تھا۔ اب مجھے کیا جتانے کی کوشش کرتی رہتی ہو۔۔“ اوزگل بھڑک اٹھی تھی۔
”مجھے کسی سے کوئی لینا دینا نہیں، میں صرف اپنی خوشی چاہتی تھی۔ زورک خان کے ساتھ شادی کرنے سے بھی اسی لیے انکار کرتی رہی ہوں، کیونکہ مجھے آزادی چاہیے تھی جو یہاں نہیں مل رہی۔ میں اس محبت کا کیا کروں جس میں مجھے حویلی میں قید کر کے رکھا ہوا ہے۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کتنے عجیب ان کے رسم و رواج ہیں؟
پہلے ہمیں اتنی سمجھ نہیں تھی، اب پتا چل رہا ہے
شادی شدہ لڑکی کو تو یہاں اس کا شوہر ملازمہ ہی سمجھ لیتا ہے۔ مرو یا جیو شوہر کا ہر کام خود کرو، ملازمین کی فوج تو ان لوگوں نے ڈیکوریشن کے لیے اکٹھی کر رکھی ہے۔ اس لیے مجھے زورک خان نہیں پسند۔۔“ زرگل غصے سے پھٹ پڑی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے زورک خان نے اس کے الفاظ سنے تو اس کے چہرے پر پتھریلے تاثرات چھا گئے تھے۔۔ زرگل کی بولتے ہوئے اس پر نظر پڑی، اس کے ہوش اڑ گئے۔ ہاتھوں سے موبائل چھوٹ گیا تھا۔ زورک سرد نظروں سے اسے گھورتا اس کی طرف بڑھا۔
”زورک میں تو بس اوزگل۔۔“ زر نے ہکلا کر وضاحت دینے کی کوشش کی۔ مگر وہ موبائل اٹھا کر اوزگل کی کال کاٹتا سخت نظروں سے اسے گھونے لگا۔
”زورک نہیں، خان صاحب۔۔ آج سے تم مجھے اس حویلی کی باقی عورتوں کی طرح خان صاحب کہو گی۔ اور ابھی تمہیں یہاں کے رواجوں کا پتا ہی کیا ہے۔ میں نے تمہیں سختیوں سے دور رکھا ہوا تھا لیکن اب نہیں۔۔ اب تم بھی ویسے رہو گی جیسے یہاں کی باقی عورتیں۔۔
تمہیں میں پسند نہیں تھا تو اس کی اب وجہ بھی دوں گا۔“ وہ خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ زرگل کی سانسیں سینے میں اٹک گئیں۔۔ شادی کے یہ کچھ ماہ اچھی خاصی عیش میں گزرے تھے، ہاں وہ اپنے کام کرواتا تھا مگر بہت چھوٹے موٹے کام۔۔ لیکن اب۔۔۔
”تمہیں ابھی تو میرے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں، تم زورک خان سے واقف نہیں ہو۔ میں کتنا سخت مزاج اور اصول پرست ہوں۔ اب تمہیں میرے حقیقی روپ کے ساتھ رہنا ہو گا زرگل۔۔ بہت لاڈ پیار ہو گیا۔“ وہ واقعی بدلا ہوا لگ رہا تھا۔ زرگل کو اتنی محبت دینے کے بعد بھی وہی سب سننے کو ملا تھا۔ زورک خان کا دل بھر گیا۔
زرگل کی عیش بھری زندگی کا وہیں اختتام ہوا تھا۔ اس روز کے بعد بھی کھانا پینا، پہننا اوڑھنا سب اچھا ملا۔ ملنے والوں نے زرگل کی صحت اچھی ہوتی بھی دیکھی تھی۔ اسے زمہ داری سے حویلی سنبھالتے بھی دیکھا تھا۔ سب بہتر تھا مگر کمرے میں ان دونوں کے رشتے کی نوعیت بدل گئی تھی۔
اب زورک خان اسے بیوی سمجھتا تھا، محبت نہیں۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے
Hira
16 17 saal ki larki ki akar torna kaha ki mardangi... the tonwoh bachi he na agar uski khwahish the k wlh shehar me rahy parhy aur is basis par usny apaana ideal bana he lia tha to kuch bura nae... such kahonto mjhy wakai lagta hai k zulm zargul k sath hoa ozgul to har haal me khush reh y wali larki the uski apni koi khawahish nae the but zargul eik zinda dil khwahisho say bhari larki the jis ko itni kam ymri me shadi kar k eik aisi ghar me beyah dia jahan aurat ki zindagi bedroom say kitchen tak me he guzar jati hai
Kinza Arif
Kmall epi acha hua zrgul ke sath baaz hi nehi a rahi thi ab ap next epi kb post krre gi ye to kb ki perh li kb ki abhi ke mere final the phr bho ab ap next jld post kr de