Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط 15
یافث نے اسے شہر لا کر خود اس کا بہترین یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروایا۔ مارکیٹ لے جا کر ضرورت کی ہر چیز لے دی تھی۔ اسے یونیورسٹی میں تو صرف عبایا ہی پہننے تھے، وہ شاپنگ کروانے گیا تو اوزگل نے جھجکتے ہوئے اسے پسندیدہ حجاب لینے کی فرمائش کی تھی۔
Flary kaftan abaya, butterfly poncho abaya, cape abaya..
اسے ہر سٹائل میں بالکل سادہ اور بالکل سیاہ یا بالکل سفید ڈھیروں عبایا چاہیے تھے اور یافث خان نے اسے وہ سب لے کر دئیے کیونکہ اوزگل کے بتائے سب عبایا ایسے تھے جن میں مکمل پردہ ہوتا تھا، بےپردگی نہیں تھی۔ مگر اس نے عبایا کا سٹاک جمع کر لیا تھا۔
یافث نے اپنے فلیٹ کے بالکل سامنے والا فلیٹ اس کے لیے سیٹ کروا لیا تھا۔ اس کی شرائط عجیب تھی، آئی ڈی کارڈ سے بڑی بنی ہوئی تھی مگر بچگانہ باتیں بتا دیتی تھیں عمر کیا ہے۔ یعنی اسے پڑھنا بھی تھا، یافث سے دور رہنا تھا اور دور بھی ایسے کہ الگ فلیٹ چاہیے تھا۔
وہ جانتا تھا اس کی شرائط، اس کے وعدے بچگانہ تھے مگر وہ سب مان رہا تھا۔ صرف اوزگل کو احساس دلانے کے لیے کہ وہ اس سے جو چاہے مانگ سکتی ہے اور وہ سب دے گا۔ وہ پہلے اس سے کچھ کہتے ہوئے جھجک کا شکار ہوتی تھی پھر اسے یہی اعتماد ہونے لگا، وہ کچھ بھی کہے یافث خان کرے گا۔
حازق کا بیٹا ہوا تو وہ اسے پہلی فرصت میں لے گیا تھا، اس کی خوشی اپنی جگہ مگر حاذق نے جب اپنے بیٹے کو یافث خان کی گود میں دیا تو اس نے پہلے اوزگل کی گود میں دیا بعد میں خود پیار کیا تھا۔ وہ ایک دن رکے تھے اور تمام وقت اوزگل کا جوش دیکھ کر وہ اس پر ہنستا رہا۔
”اوز سوچ لو، اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ کیا پتا ہماری بیٹی اس سے زیادہ پیاری ہو۔“ وہ شوخ نظروں سے اسے دیکھ کر شرارت سے بولا تو اوزگل کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ وہ شرمائی ہوئی سی نظریں جھکا گئی تھی اور پہلی بار تب یافث کو لگا وہ اس کے قریب ہو چکی ہے۔ اس کی محبت کو سمجھنے لگی ہے۔
وہ یونیورسٹی سے آتی تھی تو وہ کھانا لے کر اس کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ اوزگل کھانے کے دوران اپنی یونیورسٹی کا پورا حال اسے سناتی تھی۔ اس کے پاس واحد دوست، واحد ہمراز اور اب اکلوتا ساتھی یافث خان ہی تھا۔ وہ اس کا کمفرٹ زون بن گیا تھا۔ ہر پریشانی میں وہ اس کے پاس آنے لگی تھی۔
پھر ایک دن وہ زرا لیٹ اس کے پاس آیا تو اوزگل کو بہن سے فون پر بات کرتے سن کر یافث خان کی روح تک سیراب ہو گئی تھی، وہ اطمینان سے مسکراتے ہوئے اسے سن رہا تھا جو کچن میں مصروف کھڑی تھی۔
“زرگل مجھے سبق مت پڑھاؤ، ہاں زورک خان کی محبت کا انداز الگ ہے۔ وہ تمہیں پاس رکھ کر حق جتا کر محبت کا احساس دلاتا ہو گا لیکن تم نے یافث خان کو کبھی پہچانا ہی نہیں۔۔ انہیں حق جتانے سے پہلے حق دینا اچھا لگتا ہے۔ مجھے آزادی دے کر خود سے باندھ رہے ہیں۔
میں سارا دن ہزاروں لوگوں میں رہتی ہوں لیکن واپس آتے ہی یافث خان کو دیکھتی ہوں تو لگتا ہے محفوظ ہوں اور میرے پاس کوئی ٹھکانہ، کوئی پناہ ہے جہاں میں سکون حاصل کر سکتی ہوں۔۔ ہونہہ جو بھی سمجھو۔۔ یافث خان کی محبت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، نا تم نا تمہارے زورک خان۔۔“
وہ بات کرتے کرتے پلٹی تو یافث کو سامنے دیکھ کر بڑی طرح گڑبڑا گئی، جلدی سے کال کاٹ کر نظریں چراتی موبائل دور رکھ گئی۔ وہ ہنستے ہوئے اس کے عین سامنے شیلف سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا۔
”سوری میں آج لیٹ آیا ہوں، کیا تم نے لنچ کیا تھا؟“ وہ نرم نگاہوں سے اس کا خفت زدہ چہرہ دیکھ رہا تھا۔ چائے کے نیچے خوامخواہ آنچ تیز کرتی وہ خود کو مصروف ظاہر کر رہی تھی۔
”جی کر لیا تھا۔ کیا آپ بزی تھے؟“ اس کے بتانے پر وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔ یافث نے سر ہلاتے ہوئے اس کے خوبصورت نازک ہاتھوں کو دلچسپی دیکھا جہاں مہندی لگی ہوئی تھی۔
”آفس کا کام وائنڈ اپ کرنے میں دیر ہو گئی، ویسے تو پرسوں ابوبکر (حاذق کا بیٹا) کا عقیقہ ہے مگر ہمیں کل جانا ہے۔ سب کہہ رہے تھے جلدی آنا۔۔“ وہ اوزگل کے مومی شفاف ہاتھوں پر سجی سرخ مہندی دیکھنے میں مگن تھا۔
”یہ مہندی میری فرینڈ رودابہ نے لگائی ہے۔ میں نے یونہی بتایا تھا کہ مجھے بھتیجے کے عقیقہ میں جانا ہے تو وہ آج مہندی لے آئی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا وہ اتنی اچھی مہندی لگا سکتی ہے۔“ وہ اس کی توجہ اپنے ہاتھوں پر محسوس کرتی جھجک کر بتانے لگی۔
”بیوٹیفل۔۔ تمہاری فرینڈز جانتی ہیں تم میریڈ ہو؟“ وہ ایسے سوال اکثر پوچھتا تھا۔ ناجانے لوگوں کا جاننا چاہتا تھا یا اوزگل کو یاد دلاتا رہتا تھا۔
”میں نے نہیں بتایا ورنہ۔۔ میں آکورڈ سی ہو جاتی۔ انہیں پتا چلا تو الٹا سیدھا بولیں گی۔ ہم فرینڈز میں کسی کی انگیجمنٹ بھی ہو جائے تو سب اتنا چھیڑتی ہیں اور اتنے شیم لیس کوئسچن کرتی ہیں، میں ان باتوں کو انجوائے نہیں کر سکتی۔۔
میں یہاں کسی کو نہیں بتاؤں گی کہ میں میریڈ ہوں۔ جب فری ہو کر جانے لگوں گی تو بتا دوں گی۔“ وہ اپنی بات پر قائم تھی۔ اس کا سارا مسئلہ یہی تھا کہ دوستیں چھیڑیں گی اور اسے بہت شرم آتی تھی۔
”ٹھیک ہے مت بتاؤ۔۔ کیا میرے لیے بھی چائے بنا رہی ہو؟“ وہ سر ہلا کر بولتا اس سے پوچھ رہا تھا۔ اوزگل نے سر پر ہاتھ مارا۔ اس کی موجودگی میں وہ آج بھی بوکھلا سی جاتی تھی۔
”اوہ میں بھول گئی، ابھی بناتی ہوں۔“ وہ مسکرا کر اسے دیکھتا کچن سے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ چائے لائی تو وہ چائے کے سپ بھرتا اس سے یونیورسٹی کا حال سنتا رہا پھر تھکاوٹ کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ریسٹ کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے اسے اوزگل کے فلیٹ میں رکنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔
”صبح جلدی جائیں گے، تیار رہنا۔۔ اب اللہ حافظ۔۔“ وہ دروازے کے پاس رک کر بولا اور اوزگل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی، پھر جھجک کر ہاتھ ملایا۔ یافث نے ایک دم اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر الٹتے ہوئے اپنا ہاتھ نیچے کیا اور اس کا ہاتھ سامنے کرتا اپنے چہرے کے قریب لے گیا اور ہاتھ کی پشت پر نرمی سے لب رکھ دئیے۔
اس کی اچانک حرکت پر اوزگل کے پورے وجود کا خون گویا چہرے پر سمٹ آیا تھا، اس کا ہاتھ یافث خان کے ہاتھ میں کپکپا سا گیا تھا۔
”تمہاری مہندی بہت اچھی لگ رہی ہے۔“ وہ اس کے ہاتھوں کی تعریف کرتا ہاتھ چھوڑ کر چلا گیا۔ کس مشکل سے ہاتھ چھوڑا تھا اور ہاتھ چھوڑ کر جانا کتنا مشکل تھا یہ وہی جانتا تھا۔ اوزگل دروازے کے پاس کھڑی اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی۔ پھر اس ہاتھ کو سینے سے لگائے وہ بری طرح شرما گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
یافث کے کمرے سے جانے کے کتنی دیر بعد وہ منہ ہاتھ دھو کر کمرے سے باہر آئی تو یافث اور اس کی خالہ ناشتہ تیار کیے ٹیبل پر لگا رہے تھے، اوزگل کو شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے مدد تک نہیں کروائی اور اب کھانے آگئی تھی۔
”آجاؤ اوز۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟“ خالہ کی نظر اس پر پڑی تو چونک گئیں، اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، چہرہ بھی اتنا سرخ ہو رہا تھا۔ یافث اسے دیکھے بغیر کچن میں جا چکا تھا۔
”جی میں بالکل ٹھیک ہوں، چائے نہیں بنائی تو میں بنا لیتی ہوں۔ آپ نے سب خود کیوں کر لیا۔۔“ اوزگل نے ٹیبل پر چائے کے کپ نا دیکھ کر آہستگی سے کہا۔
”تم آؤ، چائے میں نے یافث سے بنوا لی ہے۔ صرف چائے بنائی ہے اس نے اور طریقہ بھی نہیں آرہا تھا۔ بہت ناکارہ شوہر ہے تمہارا۔۔ اسے زرا کوکنگ میں ٹرینڈ کرو تاکہ تمہاری ہیلپ کروا سکے۔۔“ خالہ شرارت سے اوزگل کو سمجھا رہی تھیں۔
”میں اگر پورا گھر سنبھال لوں تب بھی میری بیوی کو میری ہیلپ نظر نہیں آئے گی، آپ غلط جگہ پر نصیحت کر رہی ہیں۔“ یافث چائے کے کپ ٹرے میں رکھے وہاں پہنچا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اوزگل سر جھکائے خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھی۔
”حسین بیویوں کی یہی نشانی ہے، وہ شوہر کو سر پر نہیں چڑھاتیں۔“ خالہ بھی اطمینان سے بولتی اپنے بچوں کو ناشتہ ڈال کر دینے لگیں۔ اوزگل چائے کی طرف دیکھ رہی تھی، طلب بھی ہو رہی تھی اور شرمندگی بھی۔۔
”خالہ آپ پلیز اپنے یہ اقوالِ زریں سنبھال کر رکھیں۔ ہر الٹی بات آپ کو پتا ہوتی ہے۔“ وہ جھنجھلا کر بولا۔
”تمہیں کیوں مسئلہ ہو رہا ہے، مشکل سے سال ہوا ہے اور بیوی کی تعریف برداشت نہیں ہو رہی۔۔ اوزگل تم کسی کام کی نہیں ہو، ایسے سر جھکا کر بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔ تمہارے انکل بھی ایسے ہی اکڑ دکھاتے تھے۔ مجھے لینے آئیں گے تو دیکھنا اب کیسے سیدھا کر دیا ہے۔ کچھ سیکھو مجھ سے۔۔“
خالہ نے یافث کو گھور کر ایک بار پھر اوزگل کو اپنی مدد پیش کی۔ وہ بےساختہ انہیں دلچسپی سے دیکھنے لگی۔ یافث جتنا چڑ رہا تھا وہ اتنا زیادہ بول رہی تھیں۔ کچھ باتوں پر اوزگل کو ہنسی بھی آئی تھی، اس کی کچھ وقت پہلے والی عجیب اداس کیفیت دور ہو گئی۔
”صرف چائے مت پیو، تمہیں بیمار ہونے کا بہت شوق ہے لیکن تیمارداری کسی کی برداشت نہیں ہو گی۔“ اوزگل کو صرف چائے پیتا دیکھ کر یافث نے خالہ کے تیار کیے پراٹھے اس کے سامنے کرتے ہوئے ناراضگی سے جتایا۔ اس کی آواز سرگوشی نما تھی مگر بعید نہیں تھی اگلی بار یہی بات اونچی آواز میں بھی بول دیتا۔
وہ جلدی سے انڈہ اور بریڈ لینے لگی، طبیعت عجیب ہو رہی تھی، پراٹھا کھانے کا سوچ کر ہی کچھ ہونے لگا۔ خالہ اس سے باتیں کر رہی تھیں، اوزگل پہلی بار جب ان سے ملی تھی تو بہت چھوٹی تھی مگر اب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ جوان تھیں اور بہت دوستانہ انداز تھا۔ ڈور بیل پر یافث اٹھ کر دروازے پر گیا۔
”تمہاری فرینڈز آئی ہیں، شاید کوئی بات کرنی ہے۔ اندر بلانا چاہو تو بلا سکتی ہو۔“ یافث نے اس کے پاس آکر سنجیدگی سے کہا تو وہ ٹھٹک کر اٹھی۔
”ضرور بلاؤ اندر۔۔ ہمیں ناشتے میں جوائن کر لیں گی وہ بھی۔۔ کہاں سے آئی ہیں؟“ خالہ نے اسے ہدایت دیتے ہوئے یافث سے سوال کیا۔ وہ سر ہلا کر جلدی سے دروازے پر گئی۔ رودابہ اور خوشنما بیگز لیے نک سک سے تیار کھڑی تھیں۔
”یار سوری تمہیں ڈسٹرب کیا بٹ تمہارا یہ اے ٹی ایم کارڈ میرے پرس میں رہ گیا تھا۔ میں یہی دینے آئی ہوں۔“ خوشنما نے اس سے معذرت کرتے ہوئے جلدی سے اے ٹی ایم کارڈ اسے پکڑایا۔
سٹائلش سے سرخ و سیاہ ویلوٹ کے سوٹ میں ملبوس وہ ان دونوں کو چونکا گئی تھی۔ سلکی بالوں کے جوڑے سے نکلتی لٹیں، لبوں پر مٹی مٹی سی سرخ لپ سٹک اور خوشبوؤں میں بسا نازک سراپا۔۔ وہ سادہ سی علیزے تو بالکل نہیں لگ رہی تھی۔
”اٹس اوکے، کس ٹائم جانا ہے؟ اندر آؤ، خالہ سے ملواتی ہوں۔“ وہ ان کی نظروں سے جھینپ کر شال خود پر پھیلاتی انہیں اندر بلاتے ہوئے راستے سے ہٹی۔
”ہم نے ویسے گیارہ بجے روانہ ہونا ہے لیکن ابھی جا رہے تھے کہ کسی جگہ سے ناشتہ کر لیں۔ تم انجوائے کرو، ہمارا یوں اچانک آنا اچھا نہیں لگے گا۔“ وہ دونوں منع کرنے لگیں۔
”تم ناشتہ بھی یہیں کر لینا، آجاؤ۔۔ کسی کو برا نہیں لگے گا۔ خالہ بھی ملنا چاہتی ہیں۔“ وہ انہیں زبردستی اندر لے آئی۔ یافث ان دونوں کو دیکھ کر چائے کا کپ اٹھاتا کمرے میں چلا گیا۔ خالہ بہت پیار سے ملی تھی اور انہیں بٹھا کر ناشتہ پیش کیا۔
”آنٹی تکلف نہیں کریں، ہمارے لیے یہی اینف ہے۔“ وہ دونوں خفت زدہ سی بریڈ لے کر بیٹھ گئیں۔ خالہ نے زبردستی پراٹھے پکڑائے۔ ان کے بچے ناشتہ کر کے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے تھے۔
”گھر جا رہی ہو؟ سٹڈی کے لیے یہاں رہتی ہو دونوں؟“ خالہ ان سے باتیں کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”ہم علیزے کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ یہاں سامنے۔۔۔“ خوشنما بتا رہی تھی جب اوزگل نے گھبرا کر خالہ کو دیکھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے اوزگل کو دیکھنے لگیں، شکر تھا کہ انہیں علیزے نام سے اوزگل کا خیال نہیں آیا ورنہ اتنی محنت ضائع جاتی۔
”یہ سامنے والے فلیٹ میں رہتی ہیں، اس فرینڈ کی انگیجمنٹ ہے۔ ہم دونوں انوائیٹڈ تھیں۔ میں تو نہیں جا رہی، رودابہ جا رہی ہے۔“ اس نے جلدی سے بات بدل لی۔ خالہ خوشنما کو بیسٹ وشز دینے لگیں۔
”اوزگل یہ تمہاری بیسٹ فرینڈ ہے، تم یافث سے پرمیشن لے لو، اکیلے نہیں بھیجنا چاہتا تو خود لے جائے گا۔ وہ اتنا بھی سخت مزاج نہیں ہے جتنا بنا رہتا ہے۔“ خالہ نے ایک بار پھر سے اوزگل کے چھکے چھڑائے۔ اس کے حلق میں نوالہ پھنس گیا۔ رودابہ اور خوشنما ہونق سی خالہ کو دیکھ رہی تھیں۔
”میں۔۔ میں بس خود ہی۔۔“ وہ کھانستے ہوئے گلاس میں پانی ڈالنے لگی، دوستوں کی سوالیہ نظریں خود پر محسوس ہو رہی تھیں مگر اس نے دیکھنے سے پرہیز کیا۔۔ رودابہ اور خوشنما ناشتہ کر کے اٹھیں تو وہ بھی انہیں روکنے کی بجائے جھٹکے سے اٹھی۔
”اوز تمہارے موبائل پر کب سے کال آ رہی ہے۔ بات کر لو، چچا جان کی کال ہے۔“ وہ دونوں خالہ سے مل کر جانے ہی والی تھیں کہ یافث کمرے سے نکلا۔ سنجیدگی سے بولتا وہ اوزگل کا دماغ گھما گیا۔
”جی سن لوں گی۔“ وہ دانت کچکچاتی رخ پھیر گئی۔ وہ دونوں باہر کی طرف بڑھتی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ساتھ کھینچ رہی تھیں۔ وہ سمجھ گئی انہیں اپنا شک دور کرنے کی جلدی تھی۔ یہاں کیا چل رہا تھا سوال تو بنتا تھا۔
”ابھی سن لو، میں نے موبائل چارجنگ سے نہیں اتارا پھر تم ناراض ہو جاتی ہو۔۔“ وہ اطمینان سے بولتا خالہ کے پاس آرہا تھا۔ صاف ظاہر تھا وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ اوزگل ضبط سے لب بھنچ گئی۔
”اچھا ٹھیک ہے اللہ حافظ، وہاں جا کر کال ضرور کرنا اور مجھے پکچرز بھی بھیجنا اپنی۔۔“ وہ جلدی جلدی ان دونوں سے ملتی انہیں رخصت کرنے لگی۔
”کال تو ہم کریں گے، تم زرا صبر کرو، گھنی لڑکی یہاں چپ چاپ جو چکر چلائے ہوئے ہیں ناں۔۔ ہمیں واپس آنے دو۔۔“ وہ دونوں اسے دھمکاتی گھورتی وہاں سے روانہ ہو گئیں۔ وہ پلٹ کر تیزی سے کمرے میں چلی گئی۔
”میں نے پہلی لڑکی دیکھی ہے جو کلوز فرینڈز کے سامنے بھی نروس ہوتی ہے۔ اوزگل سب سے اتنی کیوں گھبراتی ہے؟“ خالہ حیرت سے یافث کو دیکھ رہی تھیں۔
”اوز بہت بےوقوف لڑکی ہے۔ اسے چھوڑیں آپ بتائیں مارکیٹ کب جائیں؟ لنچ کے بعد واثق لالا اور حازق لالا آئیں گے۔ اس کے بعد شام ہو گئی تو ٹھنڈ بڑھ جائے گی اور پھر اوز بھی اکیلی ہو گی۔ تو ابھی چلیں؟“ وہ ان سے مشورہ کرنے لگا۔
”ہاں اب بھی فری ہوں، اوز اکیلی کیوں ہو گی۔ ہمارے ساتھ چلے ناں۔۔ اسے بھی گفٹ دینا ہے، ژالے، زیبا کے لیے بھی لینے ہیں گفٹ اور ان کے بچوں کے بھی۔۔ اوزگل میری ہیلپ بھی کر دے گی۔“ وہ برتن سمیٹتے ہوئے بولیں۔
”مشکل ہے، وہ بالکل نہیں جائے گی۔ آپ پوچھ کر دیکھ لیں۔۔“ وہ کندھے اچکا کر بولا۔ اب تو جانتا تھا اوزگل کا منہ بنا ہوا ہو گا۔ کبھی ساتھ نہیں جائے گی۔۔
”عبیرہ بلال اٹھو ریڈی ہو جاؤ، شاپنگ پر چلتے ہیں۔ یہ ٹیب رکھ دو خدا کا واسطہ ہے۔۔ آنکھیں نکل آئیں گی تم دونوں کی۔۔“ خالہ دونوں بچوں کے سر پر پہنچیں، وہ کمرے کی طرف بڑھا۔ سامنے اوزگل بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی تھی۔
”آپ نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ناں؟ رودابہ اور خوشنما کے سامنے ایسے کیوں ظاہر کیا جیسے۔۔“ وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے بول رہی تھی۔ وہ سنجیدگی سے ابرو چڑھائے اسے دیکھتا عین اس کے سامنے رک کر اس کی طرف جھکا۔
”جیسے؟“ وہ اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کر رہا تھا۔ اوزگل نے لب بھینچ کر پیچھے ہوتے ہوئے رخ پھیرا۔
”آپ جانتے ہیں میں کیا کہہ رہی ہوں۔“ وہ اسے مزید قریب آتا دیکھ کر پیچھے ہوتی بیڈ پر گری۔ یافث ایک گھٹنا بیڈ پر ٹیکتا اس کے اطراف میں بازو رکھے اس پر جھک آیا۔
”اور میں تمہاری بات کیوں مانوں؟“ وہ پہلی بار ایسی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اوزگل کو اس کے تیور گھبراہٹ میں مبتلا کرنے لگے۔ گھبرا کر چہرہ سیدھا کرتی وہ بےساختہ اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
”میں کیوں تمہاری فضول باتوں کو مانوں؟ تمہیں شادی کے بعد ہماری شادی چھپانی تھی، میں مان گیا۔ تمہیں پڑھائی کے دوران ڈسٹربنس نہیں چاہیے تھی۔ اوکے میں نے وہ بھی مان لیا لیکن یہ سب کیا ہے اوزگل؟ میرے قریب آنے پر تمہارا گریز کیوں بڑھ گیا ہے۔“
وہ سختی سے بول رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی غصہ تھا۔ نرمی دکھا کر تھک چکا تھا۔ وہ پریشان ہوئی۔ چہرہ دائیں بائیں کرتی اس سے نظر چرانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
”میری ایک چھوٹی سی حرکت پر تم نے ایسے رو دھو کر غم منایا جیسے میں نے گناہ کر دیا ہو۔۔ کیا چاہتی ہو؟ تمہیں یاد تو ہے ناں کہ میری بیوی ہو؟ ہمارا نکاح ہوا تھا یاد ہے یا باقی سب کے سامنے اجنبی بنے بنے اب تمہیں خود کو بھی یہی لگنے لگا ہے؟“
وہ اوزگل کا چہرہ پکڑ کر اپنے سامنے کرتا اس کی سہمی ہوئی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کر رہا تھا۔ نیلی آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا، اس نے بولنے کی کوشش کی تو یافث اپنا ہاتھ ہٹا گیا۔
”آپ کو کیا پریشانی ہے؟ آپ بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ آپ کو بھی تو اوزگل قبول نہیں تھی، اسے اپنے قابل بنا رہے ہیں۔ مجھے علی زئی حویلی والوں کی خاطر قبول کیا تھا۔ میں تو آپ کے قابل ہی نہیں پھر کیوں چاہتے ہیں سب نارمل ہو جائے؟“ وہ روتے ہوئے بولی۔
”کیا بول رہی ہو؟ دماغ خراب ہے کیا؟“ یافث اس کے اوپر سے ہٹ گیا، سائیڈ پر نیم دراز ہوتا ایک کہنی بیڈ پر ٹکا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔ وہ روتے ہوئے اٹھ کر جانے لگی تو اس نے بازو اس کے اوپر سے گزارتے ہوئے دوسری جانب ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے سے روک دیا۔
”جواب دے کر جاؤ اوز۔۔ تمہارے دماغ میں یہ خناس کس نے بھرا ہے۔ تم ابھی تک اس پرانی بات کو لے کر گھوم رہی ہو؟ میں تمہیں کلئیر کر چکا ہوں مجھے غلط فہمی تھی۔ میں تمہیں نہیں پہچانا تھا، اس لیے شادی سے انکار کیا۔ جب تمہارا پتا چلا خود آغا جان سے کہہ کر شادی کی تھی۔
تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ میں۔۔“ یافث اسے وہی وضاحت دیتا خفگی سے پوچھ رہا تھا، وہ رخ پھیرے سسکیوں سے رو رہی تھی۔ اس کی بات پر غصے سے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے نہیں لگتا، آپ نے خود ایسا کہا تھا۔ آپ نے امو جان سے یہ سب کہا تھا اور میں سن چکی تھی۔ اس دن میں نے آپ کی حقیقت جان لی تھی۔ مجھ پر احسان لگا رہے ہیں آپ اور مجھے یہ احسان نہیں چاہیے۔۔“ وہ غصے سے بولتی اسے دھکا دے کر پیچھے کرتی اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گئی۔
یافث خان اس کے دھکا دینے پر پیچھے کی جانب گرتا ہکا بکا سا پڑا رہ گیا۔ اتنی پرانی بات۔۔ اتنی پرانی اور ادھوری بات لیے گھوم رہی تھی؟ امو جان نے پہلے کیا باتیں کیں شاید وہ نہیں سنی گئی تھیں، اس دن یافث خان نے اوزگل پر سے نافرمان لاپرواہ بیوی کا ٹیگ ہٹانے کے لیے اپنی ماں سے وہ سب کہہ دیا تھا۔
اسے اندازہ نہیں تھا ان کے دل سے اوزگل کے لیے بدگمانی ختم کرنے کے چکر میں وہ اوزگل کو خود سے بدگمان کر بیٹھا تھا۔ وہ ہر بار اپنے لیے ایسے الفاظ کیسے برداشت کرتی۔۔ اس کا گریز، اچانک بدلنا اور اپنے خول میں بند ہونا۔۔ وہ اب راز جان رہا تھا۔ سر پکڑ کر رہ گیا۔
”یافث آجاؤ اب۔۔“ خالہ کے بلانے پر وہ اٹھ کر باہر نکلا۔
”اوزگل کہاں ہے، جائے گی ساتھ؟“ ان کے پوچھنے پر وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
”وہ ریسٹ کرے گی، رات کو دیر تک پڑھتی رہی ہے۔“ وہ آہستگی سے کمرے کا دروازہ بند کر گیا۔
”ہاں اس کی آنکھیں دیکھی تھیں میں نے۔۔“ خالہ نے تاسف سے کہتے ہوئے قدم آگے بڑھائے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”شادی کی پکچرز میں کتنی فریش سکن تھی، کلر اتنا اچھا تھا۔ پڑھ پڑھ کر حالت بگاڑ دی ہے اس نے۔۔ اتنی ویک ہو گئی ہے، تم بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ کر خوش ہو۔۔ میں نہیں جانتی تم دونوں کا کیا مسئلہ ہے لیکن میں نے تم دونوں میں بہت فاصلے محسوس کیے ہیں۔“
شاپنگ کے دوران خالہ نے یافث کو آہستگی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا تو وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا۔ سمجھ گیا امو جان نے بہن کو زمہ داری سونپی ہے۔
”ایسا کچھ نہیں، سب ٹھیک ہے۔ اسے پڑھنا ہے تو ٹھیک ہے پڑھے۔۔ پڑھائی کرنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔“ وہ اپنے دل میں سر اٹھاتی فکر کو ان سے چھپاتا لاپروائی کا مظاہرہ کرنے لگا۔
”تمہیں فرق ہی نہیں پڑتا تمہاری اتنی خوبصورت بیوی کی حالت خراب ہو چکی ہے۔ شوہر ایسے لاپرواہ ہو جائیں تو بیویاں بھی اکیلے رہنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔ وہ کم عمر ہے، کل کو تم سے بالکل اکتا گئی تو۔۔۔“ ان کے سمجھانے پر وہ گھبرا گیا۔
”خالہ عجیب باتیں مت کریں پلیز۔۔ وہ کیسے اکتا سکتی ہے، میں اس کی اتنی کئیر کرتا ہوں۔“ وہ بےچین ہوا۔ وہ رک کر ابرو چڑھائے اسے دیکھنے لگیں۔
”یہ کیسی فکر ہے جو اوزگل کے چہرے پر کہیں نظر نہیں آتی، ہزبینڈ کی محبت اور فکر بیوی کی خوشحال حالت میں نظر آجاتی ہے۔ تمہیں فکر ہوتی تو اوزگل کی آنکھیں ویران نا ہوتیں۔ تمہاری محبت اس کے چہرے پر چمک لے آتی۔۔
ایسا تو کچھ نظر نہیں آیا مجھے، وہ تمہیں دیکھنے سے ہی پرہیز کرتی ہے۔ تمہارے دیکھنے پر جھجک جاتی ہے۔ ایک سال پرانا شادی شدہ جوڑا ایسا نہیں ہوتا۔ کیا تم دونوں صرف میرے آنے پر ایک فلیٹ میں اکٹھے ہوئے ہو؟“ وہ ابرو چڑھا کر پوچھ رہی تھیں۔
”یار بیوی ہے میری، میرے ساتھ رہتی ہے۔ کمال کر رہی ہیں، آپ کو کیا لگتا ہے آپ سے پہلے وہ کہاں رہتی تھی۔۔ خالہ آپ بھی ناں۔۔“ وہ نظریں چرانے لگا۔ پریشانی چہرے پر واضح ہوتی جا رہی تھی۔
”بچہ عمر میں بڑی ہوں، تجربہ بھی بہت ہے اور میرے کان بھی ٹھیک سے کام کرتے ہیں۔ اوزگل کی فرینڈز بتا رہی تھیں وہ علیزے کے ساتھ رہتی ہیں۔ میرے سامنے وہی تینوں بیٹھی تھیں، کسی چوتھی کا زکر نہیں آیا۔ علیزے تمہاری بیوی ہی ہے ناں؟ یا تمہیں اس کا کاغذی نام نہیں پتا؟
اب ایسا تو ممکن نہیں تم ان غیر لڑکیوں کے ساتھ فلیٹ شئیر کر رہے ہو۔۔ ہم بڑوں کو پاگل بنانا چھوڑ دو۔۔ تم دونوں کے فاصلے سب کو نظر آتے ہیں۔ میاں بیوی میں ایک دوستانہ سا تعلق ہوتا ہے۔ تم دونوں ساتھ بیٹھے اجنبی لگتے ہو۔“ وہ بولنے پر آئیں تو سب کھول کر رکھ دیا۔
یافث خان بےبس ہو گیا، اب مزید بول کر اپنا مذاق نہیں بنوا سکتا تھا۔ وہ اپنی خالہ کو ان سنا کیے اوزگل کے لیے ڈریس دیکھنے لگا۔ وہ بھی ایک بار سمجھا کر چپ ہو گئی تھیں۔ اب اوزگل کی پسند پوچھ رہی تھیں۔
”اسے پرفیومز بہت پسند ہیں۔ کوئی ابھی اچھا سا پرفیوم لے لیں، بس کلون ہو۔۔ وہ خوش ہو جائے گی۔“ خالہ کے پوچھنے پر وہ بتانے لگا۔ اوزگل کو سوچتے ہوئے لبوں پر بےاختیار سی مسکراہٹ پھیلی۔ اس نے کچھ سوچ کر اوزگل کو کال ملائی۔ نمبر ان بلاک کر چکا تھا۔
مگر اس کی کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ شاید وہ ناراض تھی، یافث نے خالہ کا موبائل لے کر اسے کال کی۔ مگر وہاں سے بھی کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ اوزگل گھر پر اکیلی تھی اور کال اٹینڈ نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ایک دم گھبرا گیا۔
”خالہ جلدی گھر چلیں، بس باقی شاپنگ بعد میں کر لیں گے۔“ وہ پریشانی سے بولا تو وہ جو زیبا اور ژالے کے لیے گفٹس پسند کرنے کے بعد ان کے بچوں کے کپڑے دیکھ رہی تھیں، چونک گئیں۔
”کیا ہوا سب خیریت تو ہے یافث؟ بچوں کے کپڑے لینے دو، سوچ رہی ہوں آج رات زیبا اور ژالے کو ملنے چلے جائیں گے۔ مل بھی لوں گی اور گفٹس بھی۔۔“ وہ اسے بتا رہی تھیں۔ یافث نے پریشانی سے موبائل دیکھا۔ اوزگل نے میسج بھی سین نہیں کیا تھا۔
”اچھا جلدی کریں پلیز، مجھے فکر ہو رہی ہے، اوز گھر پر اکیلی ہے۔“ وہ اپنی پریشانی چھپا نہیں پایا تھا۔ خالہ نے جلدی میں ہی کپڑے اور کھلونے پیک کروائے۔ بچوں کو لے کر گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے یافث کو دیکھا۔
”واہ بچے واہ۔۔ ایک سال سے اکیلا شہر میں رکھا ہوا ہے، لیکن گھبراہٹ دیکھو جیسے دو سال کے بچے کو گھر چھوڑ آئے ہو۔۔ یہ فکر اس کے سامنے بھی ظاہر کیا کرو، اسے بھی تو پتا چلے اس کا شوہر کتنا پاگل ہے۔“ خالہ اس کی بےچینی پر مسکراہٹ دبا کر بولیں۔
”آپ اڑا لیں میرا مذاق، دو سال کی بچی نہیں ہے مگر وہ بےوقوف اتنی بڑی بھی نہیں ہوئی۔۔ اسے بیمار ہونے کی اتنی عادت ہے کہ مجھے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔ آپ کو اس محترمہ کی خاصیتوں کا ابھی اندازہ ہی نہیں ہے۔“ یافث گاڑی کی سپیڈ بڑھاتا انہیں بتا رہا تھا۔
”یا اللہ خیر۔۔ پھر تو تمہاری اوزگل واقعی خطرناک ہے۔“ خالہ اس کی جلد بازی اور گھبراہٹ دیکھ کر خود بھی پریشان ہو گئی تھیں۔
جاری ہے
Kinza Arif
Nice ozgul abhi bhi bdguman hai ab to maaf kr de yafis khan ko