Tuesday, January 7, 2025
HomeEpisodic NovelsWo Humsafar ThaWo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 13 Complete

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 13 Complete

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط تیرہ

”تم آئے ہوئے ہو، اوزگل پھر بھی اداس اور چپ چپ رہتی ہے۔ سچ بتاؤ خان زادہ تم اسے پریشان تو نہیں کرتے؟“ خان امروز کے سوال پر یافث خان خفت زدہ ہو گیا۔ بڑے دونوں بھائی بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ تو شکر تھا وہ لوگ مردان خانے میں بیٹھے تھے۔
”آغا جان میری بیوی ہے وہ، پریشان کیوں کروں گا۔ اب اسے کسی بات سے خوشی ہی نا ملے تو کیا کروں میں اور آپ اتنے پرسنل سوال کیوں کرنے لگے ہیں۔“ وضاحت دیتے ہوئے اس نے آخری جملہ کافی ناراضگی سے کہا تھا۔ بڑے بھائیوں کے لیے ہنسی روکنا مشکل ہو گیا۔
”حد ادب خان زادہ۔۔ صرف ایک بات پوچھی ہے۔“ آغا جان خجل زدہ سے ہو گئے تھے۔ اور اس سے پہلے کہ وہ مزید ایسی باتیں پوچھتے، یافث خان اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ اوزگل ہمیشہ کی طرح غائب تھی اور پہلی بار یافث کا دماغ گھوم گیا تھا۔
”اوزگل کو کمرے میں بھیجو۔۔“ اس نے ملازمہ کو بلا کر سنجیدگی سے کہا تو وہ سر ہلا کر دور پڑی۔ چھوٹے خان زادے کا مزاج اچھا ہی رہتا تھا مگر جب بگڑتا تھا تو علی زئی حویلی کی بنیادیں ہلا دیتا تھا اور آج اس کی سنہری آنکھوں میں جو غصہ نظر آیا تھا لگ رہا تھا اوزگل بی بی کی خیر نہیں۔۔
ملازمہ نے اوزگل کو بلا کر لاتے ہوئے راستے میں ایسی باتیں بھی کر ڈالی تھیں جو اوزگل کو گھبراہٹ میں مبتلا کر گئی تھیں۔ وہ کمرے کی طرف بڑھی حالانکہ دل کہہ رہا تھا بیرونی گیٹ کی طرف جائے اور حویلی سے ہی بھاگ جائے۔ اس کا ننھا سا دل کانپ رہا تھا۔ ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے یافث خان صوفے پر بیٹھا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
”میں دی جان کے پاس تھی، ان کی طبیعت صبح سے ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے سر میں بہت درد ہو۔۔“ وہ اسے دیکھتے ہی وضاحت دینے لگی تاکہ وہ ڈانٹنے کی کوشش نا کرے۔ اسے یہ بھی خیال نہیں آیا پوچھ لے کیا غلطی کر دی ہے کہ وہ ناراض ہو رہا ہے۔
”دی جان کی فکر مت کرو، ان کے کمرے میں تمہاری سوچ سے زیادہ انتظامات موجود ہیں۔ وہ اپنی بیماری کا علاج آج بھی خود کرتی ہیں۔۔ تم اپنا بتاؤ تمہاری اس طویل ناراضگی کا کیا علاج کیا جائے؟“ یافث خان نے سنجیدگی سے سوال کرتے ہوئے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ دیا مگر وہ اس کا اشارہ صفائی سے ان دیکھا کر گئی۔
”میں ناراض نہیں ہوں۔ آپ سے تو بالکل نہیں۔۔“ وہ سختی سے نفی میں سر ہلا گئی۔
”تمہیں مجھ سے تو بالکل کوئی تعلق نہیں چاہیے، میرے ساتھ کہیں نہیں جانا، مجھ سے بات نہیں کرنی، مجھے دیکھنا نہیں ہے، بات نہیں ماننی اور ناراض بھی مجھ سے تو بالکل نہیں ہونا۔ اسی کو ناراضگی کہتے ہیں۔“ وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھا تو وہ گھبرا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔
”تمہاری ناراضگی میں انجوائے کر رہا تھا مگر اب بہت ہو گئی انجوائے منٹ۔۔ کیونکہ اب حویلی والے بھی اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ کیا تم سے نارمل نہیں رہا جاتا؟ مجھے دیکھتے ہی بھاگنے کیوں لگ جاتی ہو؟“ وہ بھی اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔ اوزگل سر جھکا کر بیٹھی رہی۔
”ہماری شادی ہو چکی ہے اوز۔۔ بیوی بن چکی ہوں، حالانکہ تمہاری، ایج اور سائز کے ساتھ ساتھ حرکتوں سے نہیں لگتا کہ تم شادی شدہ ہو سکتی ہو مگر اب اس کے بارے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ اس کے سامنے بیٹھنے کے بعد سے اوزگل کا چہرہ گلابی ہوا جا رہا تھا۔ ہاتھوں میں لرزش تھی، وہ گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔
”آپ کا مطلب کیا ہے؟“ وہ اس کے الفاظ پر نظر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ یافث خان کی سنہری آنکھوں میں وہی تاثرات تھے جو اوزگل کو گھبراہٹ اور جھجک میں مبتلا کرتے تھے۔ چمکتی سنہری آنکھیں، اس کے اندر تک جھانکتی ہوئی، کچھ بولتی ہوئی، کچھ شوخ سی۔۔۔
”تم مطلب کو چھوڑو، تم پر غصہ کرنا فضول ہے۔ غصہ کرنے کے لیے تمہارا اس قابل ہونا ضروری ہے کہ تم سختی سہہ سکو۔ تم یہ بتاؤ کیا تم آگے پڑھنا چاہتی ہو؟“ یافث نے بات بدل دی۔ اس کے الفاظ پر اوزگل ہونق سی ہو گئی۔ اس نے پہلے کیا کہا؟ اور اس کے بعد کیا کہا؟ یعنی وہ کہہ کیا رہا تھا؟
”پڑھنا چاہتی تھی بلکہ پڑھ رہی تھی۔ آپ کی وجہ سے آبا نے روک دیا۔“ وہ اسے اس کی غلطی بتاتے ہوئے رخ پھیر کر تلخی سے بولی۔ وہ اس کے انداز کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
”مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، میں تمہیں نہیں پہچانا اور میں جانتا ہوں تم اس بات کا یقین نہیں کرو گی۔“ یافث خان نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ اس کے آخری جملہ پر سر جھٹک گئی۔ یعنی وہ واقعی یقین نہیں کرے گی۔
”کیا تم جانتی ہو اوز، میں تمہاری اتنی لمبی ناراضگی کیوں برداشت کر رہا ہوں۔ ان فیکٹ دل سے برداشت کر رہا ہوں۔ مجھے تمہارا یہ روٹھنا اور ناراض ہونا بےضرر لگ رہا ہے۔“ وہ بول رہا تھا۔ اوزگل نے بےاختیار اسے دیکھا۔
”کیونکہ آپ کو فرق نہیں پڑتا۔“ اس نے بولتے ہوئے ایک بار پھر سے رخ موڑ لیا اور ناک چڑھا لیا۔
”فرق کی بات نا کرو، اپنا حق چھوڑ کر بیٹھا ہوں۔ تمہاری اس لمبی ناراضگی کی ایسی کی تیسی کر دینی تھی اگر مجھے زرا برابر تم پر شک ہوتا کہ تم بلاوجہ یہ سب کر رہی ہو۔ ہاتھ تک نہیں لگایا، تمہاری نیند کا بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ ہو گا دنیا میں ایسا کوئی شوہر؟“ یافث خان نے ابرو چڑھا کر اسے جتاتی نظروں سے دیکھا۔
”مجھ سے ایسی باتیں نہیں کریں۔“ وہ سرخ چہرہ لیے پہلو بدل کر بولی۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ اور جب وہ دیکھتا تھا تو کچھ دیر دیکھتا ہی رہتا تھا اور وہ نظریں۔۔ بہت زیادہ گہری ہوتی تھیں۔ انہیں سہنا اوزگل کے بس کی بات نہیں تھی۔
”چلو ٹھیک ہے یہ باتیں نہیں کرتا، اصل بات کر لیتا ہوں۔ میں نے تمہارے کال کرنے پر تم سے جو روڈلی بات کی تھی، میں جانتا ہوں تم اس سے بہت زیادہ ہرٹ ہوئی ہو۔۔ تم زرگل نہیں ہو جو غلطیاں کرتی ہو اور ایسی روڈنیس کو اپنا قصور مانتے ہوئے ہضم کر لے۔ تم نے ہمیشہ ڈانٹ اور سختی سے بچنے کے لیے بڑوں کی بات مانی ہے۔“
وہ اب نرمی سے بول رہا تھا، اوزگل کی نیلی آنکھوں میں حیرت بھر آئی تھی۔ وہ یافث خان کو دیکھنے لگی۔ کیا وہ اس کی بات کر رہا تھا؟ وہ اس کا زکر ایسے بھی کر سکتا تھا۔ حیرت تھی اور حد سے سوا تھی۔۔
”ایسے مت دیکھو، اتنا تو جانتا ہوں۔ دی جان سب بتاتی تھیں بس میں یقین نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتی تھیں تم انوسنٹ اور پیور ہو، بہت سوفٹ نیچر کی ہو، تمہیں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈر لگتا ہے۔ تم سے کبھی کسی نے سختی سے بات نہیں کی۔ مجھے سب بتایا جاتا تھا۔ اور میں پھر بھی ہر بار تم سے روڈ ہوا۔ تمہیں ہرٹ کیا۔۔
میں جانتا ہوں میری ہی غلطی ہے اس لیے تمہاری ناراضگی بےضرر لگتی ہے۔ آئی تھنک جو روڈنیس میرے لہجے میں تھی تمہارا اتنا رائٹ تو بنتا ہے کہ اب مجھے نخرہ دکھاؤ۔ میں تم سے پراپر سوری کرنا چاہتا ہوں، میرا سوری کرنے کا طریقہ کچھ الگ ہو سکتا ہے اور تم سے وہ بھی برداشت نہیں ہو گا۔“
وہ بولتے گہرا سانس بھر کر اپنے بال سنوارنے لگا۔ اوزگل کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔ وہ اس کی جانب جھک کر اس کا ہاتھ تھامنا چاہ رہا تھا وہ ایک دم اٹھ کر دور ہوئی۔ یافث چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ نظریں چراتی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہوا؟ میں بات کر رہا ہوں تمہیں کیوں کرنٹ لگ گیا۔ میں نے کہا ناں تم سے میرا سوری برداشت نہیں ہو گا اس لیے میں نہیں کر رہا۔ بیٹھو میری بات ابھی باقی ہے۔“ یافث نے اسے بیٹھنے کا کہا۔
”آپ پڑھائی کی بات کر رہے تھے، کیا میں اب پڑھ سکتی ہوں؟“ وہ کھڑے کھڑے سوال کر رہی تھی۔ یوں جیسے کہتی ہو اگر بات میرے کام کی ہوئی تو ضرور بیٹھوں گی ورنہ مجھے بٹھا کر دکھاؤ۔۔
”ہاں تم پڑھ سکتی ہو۔۔ میں اسی طرف آ رہا تھا۔ تمہارے سبجیکٹس کیا ہیں، کس کالج میں ایڈمیشن لینا ہے۔“ وہ سوال کر رہا تھا۔ اوزگل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
”میں بی ایس انگلش کرنا چاہتی ہوں، بی ایس کے لیے مجھے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا ہو گا۔“ اس کے بولنے پر یافث نے سر ہلایا پھر کچھ سوچتے ہوئے رکا۔
”تم نے ایف ایس سی کر لیا؟ بی ایس کے ایڈمیشن کے لیے تمہارا آئی ڈی کارڈ ہونا چاہیے اوز اور تمہاری ایج ابھی چھوٹی۔۔“ وہ بات کر رہا تھا، اوزگل اٹھ کر تیزی سے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی۔ یافث حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ واپس آئی تو ہاتھ آئی ڈی کارڈ تھا۔
”میرا آئی ڈی کارڈ بنا ہوا ہے، جب میں نے سکولنگ جلدی ختم کی تھی تو آبا نے ایج چینج کروا دی تھی اور آئی ڈی کارڈ بھی ابھی بنوایا تھا۔ اس کے مطابق میں ایٹین ہوں اور بی ایس کے لیے یونیورسٹی میں ایڈمیشن بھی ہو جائے گا۔“ وہ اس کے سامنے ٹیبل پر اپنا آئی ڈی کارڈ رکھ چکی تھی۔
”ویل ڈن۔۔ میں نے سنا تھا لڑکیاں ایج کم کرواتی ہیں، عمر سے چھوٹی بن جاتی ہیں، تمہارا الٹا حساب ہے۔ خیر اٹس گڈ۔۔ ایٹ لیسٹ تم اپنی مرضی سے ایڈمیشن لے سکتی ہو۔ اپنے ڈاکیومنٹس ریڈی رکھنا، اس بار شہر جا کر ایڈمیشن بھی کروا لیتے ہیں۔“ وہ آئی ڈی کارڈ پر اس کی تصویر کو توجہ سے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔
”میری ایک شرط ہے۔“ وہ کچھ توقف کے بعد ہچکچا کر بولتی یافث کو چونکا گئی۔
”تم اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے مجھ سے شرط رکھ رہی ہو؟“ وہ مسکراہٹ دبائے ابرو اچکا کر پوچھ رہا تھا۔
”یہ شرط الگ سے ہے۔“ وہ اس کے جملے پر گڑبڑا گئی، یافث بےاختیار ہنسا۔ اوزگل شرمندہ ہو گئی۔
”بتاؤ کیا شرط ہے۔“ وہ اس کا آئی ڈی کارڈ واپس رکھنے کی بجائے ابھی تک ہاتھ میں لے کر بیٹھا تھا۔
”میں وہاں الگ رہوں گی، سٹی میں۔۔ جہاں میں پہلے رہتی تھی۔ آغا جان کے دئیے فلیٹ میں۔۔ الگ سے رہ کر سٹڈی کروں گی۔“ وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔ اسے خود بھی اندازہ تھا یہ بات ناقابلِ قبول ہے۔
”میرے ساتھ رہنے میں کیا برائی ہے؟ میں تو تمہاری ہیلپ بھی کر سکتا ہوں، یو نو واٹ میں نے بھی بی ایس انگلش کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے مینیجمینٹ کی ڈگری لی کیونکہ مجھے اپنے بزنس کو سنبھالنا ہے۔ مگر میں تمہیں آج بھی ہیلپ آؤٹ کر سکتا ہوں۔“ یافث نے اسے مشورہ دیا۔
”نہیں میں بریلئنٹ سٹوڈنٹ ہوں۔“ اوزگل نے انکار کیا۔
”پھر گھر بیٹھ کر پڑھ لو۔۔“ وہ اسے گھورنے لگا۔
”اگر آپ مجھے پڑھائیں گے، میری پڑھائی میں دخل نا دیں اور مجھے سکون سے پڑھائی مکمل کرنے دیں تو میں اس کے بعد آپ کی ہر بات مانوں گی۔ یعنی ہر بات۔۔ ہر حکم۔۔ ہر ہدایت اور۔۔“ وہ اسے بات مان لینے کے فوائد بتا رہی تھی۔
”ٹھیک ہے۔“ یافث خان نے اس کا آئی ڈی کارڈ میز پر رکھتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”کیونکہ تمہیں لگتا ہے میں بہت مجبور ہوں، جب تک تم نہیں مانو گی میں ایسے ہی ادھورا رہوں گا اور میری کبھی ہمت نہیں ہو گی تمہیں ہاتھ لگاؤں، حق جتاؤں اور تم سے اپنی بات منوا سکوں۔۔ تو ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط قبول ہے۔“ وہ اس پر ہنس رہا تھا اور اوزگل سمجھ نہیں پائی وہ اس بات پر ہنس کیوں رہا تھا۔
”آپ وعدہ کریں، ایسا ہی ہو گا۔ آپ کچھ دن بعد اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس بار مجھے پڑھائی سے کبھی نہیں روکیں گے۔ وعدہ کریں۔“ وہ اس سے وعدہ چاہتی تھی۔ ایک بار یافث خان زادہ کی وجہ سے اوزگل کی پڑھائی کا خواب ادھورا چھوٹا تھا، اب اس پر کیسے یقین کرتی۔
”وعدہ کرتا ہوں، فکر مت کرو یہ خان زادہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ لیکن ایک شرط میری بھی ہے۔“ وہ اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔ اوزگل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”تم آج کے بعد کسی پر ظاہر نہیں کرو گی ہمارے درمیان کیسا تعلق ہے۔ یہاں حویلی میں مجھ سے بھاگنے یا چھپنے کی کوشش نہیں کرو گی۔ یہاں سب کے سامنے سب اچھا ہونا چاہیے۔ اگر تم اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئیں اور ہمارے رشتے کی حقیقت سب کے سامنے کھلی تو یاد رکھنا اوز۔۔۔
میں تمہاری پڑھائی نہیں چھڑواؤں گا مگر دخل نا دینے کی گارنٹی ایکسپائر ہو جائے گی۔ پھر میری مرضی ہو گی کہ تمہارے ساتھ کیا کرنا ہے۔“ وہ نہایت سنجیدگی سے وارن کر رہا تھا۔ اوزگل نے سر ہلا دیا۔۔

اس روز پہلی بار اس نے یافث خان سے اتنی دیر اس کے سامنے بیٹھ کر بات کی تھی۔

”میری آنٹی آ رہی ہیں۔ وہ سامنے فلیٹ میں رہیں گی۔ حمزہ بھائی کو بھی کسی کام سے گھر جانا ہے تو میں وہاں جا رہی ہوں تاکہ آنٹی کا سٹے تھوڑا کمفرٹیبل ہو۔ روم کی صفائی اور کوکنگ وغیرہ کرنی ہو گی۔“ وہ اپنے ہینڈ کیری میں اپنی ضرورت کی چیزیں رکھتی ان دونوں کو بتا رہی تھی۔
”ہاں کوئی ایشو نہیں۔ ہم نے بھی تو کل صبح نکل جانا ہے۔ ٹکٹ کروا لی ہیں۔ تمہاری فکر تھی اکیلی ڈرتی ہو۔ تو یہ اچھا ہی ہے تم وہاں رہ لو گی اپنی آنٹی کے ساتھ۔۔“ خوشنما نے اطمینان سے سر ہلایا۔
”کوئی ڈریسز بھی رکھ لو، وہاں رکو گی ناں؟ یا ایک ایک سوٹ کے لیے یہاں آتی رہو گی۔“ رودابہ نے اسے دھیان دلایا وہ نفی میں سر ہلا گئی۔ نم بال پشت پر کھلے چھوڑے ہوئے تھے، دن کے وقت نہائی تھی۔ دھلا ہوا شفاف چہرہ میک اپ سے پاک تھا۔
”ہاں اٹھا لوں گی۔ آنٹی آج رات آ رہی ہیں تو ابھی صاف سوٹ پہن لیتی ہوں پھر ایک ہی دن کی بات ہے۔ کل تو وہ گھر چلی جائیں گی۔“ وہ نظریں چراتی خوامخواہ جھوٹ بولنے لگی۔ دل میں چور تھا اس لیے بلاوجہ ہر بات کی وضاحت دیتی تھی۔
”ٹھیک ہے۔ تم جاؤ چینج کرو، شام تو ہو رہی ہے۔“ ان کے کہنے پر وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ پیچھے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”اس کا کزن یافث خان بھی تو ہو گا۔ یعنی ایک دن دونوں ساتھ رہیں گے۔ اب تو مجھے وجہ بھی سمجھ آگئی۔ علیزے اس کی کزن ہے اس لیے تو پسند کرتا ہے، ایسی خوبصورت کزن ہو، اتنی پیاری اور اتنی۔۔۔“ خوشنما کا اتنی درمیان میں رہ گیا وہ سوٹ لے کر باہر آئی۔
”ان دونوں میں سے کون سا پہنوں؟“ وہ ان سے مشورہ مانگ رہی تھی۔ دونوں کا ہی موڈ خراب ہوا۔
”اتنے پھیکے رنگ۔۔ اتنے لائٹ اور سمپل ڈریس علیزے۔۔ پلیز ڈارک کلرز کے ڈریسز لے لو اب، کچھ سٹائلش سے۔۔ ہمیں پتا ہوتا تمہارے گیسٹ آ رہے ہیں تو تمہارے لیے بھی ڈریسز لے لیتے۔“ خوشنما ناراضگی سے بول رہی تھی۔
”ابھی تو بتاؤ ناں، میں نے ہمیشہ ایسے ہی ڈریسز پہنے ہیں۔۔“ وہ زچ ہوئی۔ پہلے ہی پریشان تھی۔ یہاں آکر کنواری لڑکی بنی گھوم رہی تھی۔ اب یافث کی خالہ بھی اسے اس حلیہ میں دیکھ لیتیں تو ناجانے کیا سمجھتیں۔
”یہ آف وائٹ ڈریس بہت پیارا ہے۔ پہن لو۔“ رودابہ نے اس کی مشکل آسان کی۔ وہ سر ہلا کر پلٹ گئی۔ وہ دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”اتنی پھیکی اور بد ذوق لڑکی کو وہ کیسے پسند کر سکتا ہے؟ اس کی اپنی ڈریسنگ دیکھی ہے ناں۔۔ اس کی پرسنیلٹی اتنی سٹرونگ اور رومینٹک سی وائبز دیتی ہے، اسے ڈریسنگ سینس بھی ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ علیزے ثمر خان میں انٹرسٹ لے رہا ہے۔ نیور۔۔“ رودابہ نے نفی میں سر ہلایا، خوشنما کو اس سے اتفاق بھی ہوا اور افسوس بھی۔۔

”اگر علیزے ایسی ہی رہی تو کون ہینڈسم متوجہ ہو گا۔ ہاں البتہ کوئی حسن پرست ہو تو ضرور لٹو ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کو صرف بیوٹی چاہیے۔ یعنی ایکسٹرا بیوٹی ود نو ڈریسنگ سینس، نو سٹائل اینڈ نو چارم۔۔ اوکے تو تم نے ٹھیک کہا۔ وہ کوئی بھی ہو یافث خان نہیں ہو سکتا، اس کی ایسی پرسنیلٹی نہیں لگتی۔“ خوشنما نے آہ بھری تھی۔

وہ جب اپنا سامان لے کر فلیٹ سے نکلی، حمزہ اسی وقت وہاں سے نکل کر گیا تھا۔ وہ وہاں پہنچی تو یافث ائیرپورٹ سے اپنی خالہ کو ریسیو کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر چونک گیا۔
”اوہ مجھے لگا تمہیں جا کر لانا پڑے گا۔“ اسے دیکھ کر وہ اطمینان سے مسکرایا۔ اوزگل نے اپنا بیگ صوفے پر رکھا۔
”رات کا کھانا کیا بنانا ہے؟ کیا آنٹی کے لیے روم سیٹ کرنا ہے ابھی؟“ وہ جلدبازی میں پوچھنے لگی۔
”تم یہ سب کرنے کے لیے بہت لیٹ آئی ہو۔ حمزہ سے روم سیٹ کروا لیا تھا۔ وہ کھانا بھی بنا گیا ہے۔ تم یہاں آؤ۔۔“ یافث نے صوفے سے اس کا بیگ اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کی طرف بڑھا۔ اوزگل کا دل گویا اس کے ہاتھ میں دھڑک اٹھا تھا۔
”یہ ڈریسز لایا ہوں، یہاں تمہاری ضرورت کا ہر سامان موجود ہے۔ امو جان نے تمہاری جیولری بھیجی تھی۔ کنگن پہن کر رکھنا اب۔۔“ وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اسے سمجھا رہا تھا۔ گہرے کھلتے رنگوں کے سٹائلش ڈریسز، ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے لیڈیز پرفیوم اور میک اپ کا سامان، دی جان کے دئیے کنگن۔۔ سب کچھ سامنے پڑا تھا۔
”مجھے میک اپ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“ وہ حیرت زدہ سی ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔ یعنی وہاں اس کے سجنے سنورنے کا ہر سامان موجود تھا۔
”جیسے سب کو ہوتی ہے، زیادہ کچھ مت کرو۔۔ یہ ویسے ہی پڑا رہے۔ تھوڑا بہت کچھ نا کچھ یوز کر لینا اور جا کر چینج کرو۔۔ باقی سب ریڈی ہے، میں اب جا رہا ہوں اور ہاں۔۔“ وہ اسے ہدایت دے کر جانے لگا پھر دروازے کے قریب رک کر اسے دیکھا۔
”اب تم نے مجھے خالہ کے سامنے اوائڈ کیا یا دور ہوئیں تو بہت برا ہو گا اوز۔۔ تمہیں میرے سامنے صرف بلش کرنے کی پرمیشن ہے، جتنا چاہو شرما لینا لیکن اوائڈ کر کے اپنا اور میرا مذاق مت بنانا۔“ وہ اسے سختی سے ہدایت دے کر جا چکا تھا۔ اوزگل اس کے الفاظ پر بوکھلائی ہوئی سی سارا سامان سمیٹنے لگی۔
اپنا بیگ الماری میں چھپایا، ریڈ اور بلیک کلر کا ویلوٹ کا ڈریس اٹھا کر پہنا۔ میک اپ کے نام پر باریک سا آئی لائنر، ریڈ لپ اسٹک اور بلش آن لگا لیا۔ بالوں کو برش کر کے ڈھیلا سا جوڑا بنایا۔ اپنے بیگ سے سونے کے ٹاپس نکال کر کانوں میں پہنے، منہ دکھائی والا لاکٹ تو پہن کر ہی رکھتی تھی۔ بھاری کنگن بھی پہن لیے۔
شیشے میں اپنا عکس دیکھ کر سٹپٹا گئی، اتنی سی توجہ اور تیاری میں اس کا رنگ روپ نکھر گیا تھا۔ شفاف دودھیا رنگت اس گہرے رنگ کے سوٹ میں کچھ زیادہ دمک اٹھی تھی۔ وہ اس حلیہ میں یافث خان کا سامنا کرنے کا سوچ کر ہی شرم سے سرخ ہونے لگی۔
دل چاہا جا کر خوشنما اور رودابہ سے پوچھے کہ وہ اوور تو نہیں لگ رہی۔ مگر ان سے پوچھتی تو وہ شک میں مبتلا ہو جاتیں کہ صرف خالہ کو ملنے کے لیے ایسے شادی شدہ لوگوں کی طرح کیوں تیار ہوئی ہے۔ اس نے اپنا خیال خود رد کر دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے اور زور زور سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔
اوزگل نے سیاہ اور میرون رنگ کی دو شالوں میں سے اس بار سیاہ شال اٹھا کر اوڑھ لی۔ مزید بھڑکتے رنگوں میں وہ خود کو دلہن نہیں بنانا چاہتی تھی۔ جھجک زدہ سی کمرے سے باہر نکلی تو سامنے یافث کی چھوٹی خالہ اپنے دو بچوں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ رہی تھیں، اوزگل کو دیکھ کر رک گئیں۔
”اوئی ما شاءاللہ۔۔ ہماری دلہن بھی یہیں آئی ہوئی ہے۔“ خالہ پرجوش سی بولتے ہوئے اسے محبت سے گلے لگا گئیں۔ ان کا سامان رکھ کر یافث سیدھا ہوا تو شرمائی ہوئی سی اوزگل کا رنگ روپ دیکھ کر ایک لمحے کے لیے تو بالکل گنگ ہو گیا۔
”اوزگل اتنی پیاری۔۔ اتنی بڑی ہو گئیں، میں تو تمہاری دلہن والی تصویریں دیکھ کر شاکڈ ہوئی تھی۔ تمہیں پہلے تب دیکھا تھا جب تم دس سال کی تھیں، بہت چھوٹی سی گڑیا لگتی تھیں، اتنی ڈیلیکیٹ۔۔ اب تو ما شاءاللہ اتنی بڑی بڑی لگ رہی ہو۔۔“ خالہ اسے اپنے پاس بٹھا کر بول رہی تھیں۔ ان کی دس سالہ بیٹی اور اس سے دو سال چھوٹا بیٹا اوزگل کو یک ٹک دیکھ رہے تھے۔
”خالہ ظاہر ہے اب اوزگل کی شادی ہو چکی ہے، آپ کو لگا یہ اب بھی بچی لگے گی۔ تم دونوں بھی مل لو، اتنے شاکڈ کیوں ہو گئے ہو۔۔“ یافث مسکراتے ہوئے سامنے والے صوفہ پر بیٹھ چکا تھا۔ اوزگل سے نظریں ہٹا لیں تاکہ وہ بھی ریلیکس رہے اور خود اس کے ہوش بھی سلامت رہیں۔
”میرے بچے وہاں کی پھیکی بےرونق لڑکیاں دیکھنے کے عادی ہیں، ان سے اتنی اٹریکٹو بیوٹی برداشت نہیں ہوئی اس لیے شاک میں چلے گئے ہیں۔“ خالہ اپنے بچوں کو اپنے قریب کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر بولیں تو ان دونوں کے ساتھ ساتھ اوزگل بھی جھینپ گئی تھی۔
”آپ کے لیے پانی لاؤں؟ یا چائے بناؤں؟“ اوزگل کو مہمان نوازی کا خیال آیا تو ان سے پوچھنے لگیں۔
”کچھ بھی نہیں، میں فریش ہوتی ہوں تو کھانا کھاتے ہیں۔ میں نے فلائٹ کے دوران کچھ بھی نہیں کھایا اب بھوک سے برا حال ہے۔“ وہ اسے روک کر نرمی سے بولیں۔ اوزگل نے سر ہلا دیا۔ انہیں یافث نے روم دکھایا، ان کے بچے اپنے اپنے ٹیب لے کر بیٹھ گئے۔
”تم سالن گرم کرو، میں چاول اوون میں گرم کر لیتا ہوں۔“ اوزگل کچن میں گئی تو یافث بھی اس کی مدد کے خیال سے اس کے پیچھے گیا۔ اسے ہدایت دے کر چاول ڈالنے لگا۔ اوزگل نے سالن کی کڑاہی چولہے پر رکھی۔ نان وہ ابھی لایا تھا اس لیے گرم ہی تھے۔
”سلاد کہاں ہے؟“ رائتے کا باؤل دیکھنے کے بعد اوزگل نے سوالیہ نظروں سے یافث کو دیکھا۔
”شاید وہ نہیں بنا، ایک بندہ تھا بےچارہ کیا کیا کرتا۔۔ جلدی جانا بھی تھا۔ میری مدد کا تو اسے فائدہ ہی نہیں ہوتا۔“ وہ آہستہ آواز میں بتاتے ہوئے سلاد کا سامان شاپر سے نکالنے لگا۔
”میں بنا لیتی ہوں۔“ اوزگل نے اس سے سلاد کا سامان لے لیا۔ سلاد کے پتے، گاجر، کھیرا اور ہری مرچ دھونے اور کاٹنے کے دوران اس کے ہاتھ ٹھنڈے برف ہو گئے تھے۔ وہ بار بار ٹشو سے ہاتھ صاف کرتی آپس میں رگڑتی سردی سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تم رہنے دو اوز، یہ کھانا اور برتن باہر رکھو، میں سلاد بنا لیتا ہوں۔“ وہ اسے روک گیا۔ اس بار اس نے ضد نہیں کی۔ تیزی سے سارا سامان ٹیبل پر لگایا۔ خالہ بھی آچکی تھیں اب بچوں کو ٹیب اٹھانے پر گھورتے ہوئے ڈانٹ رہی تھیں۔
”بلال، عبیرہ آ جاؤ دونوں، واہ کھانا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کوکنگ تم نے کی ہے؟“ خالہ بچوں کو آواز لگاتی کھانے کی خوشبو سے متاثر ہوتے ہوئے اوزگل کو دیکھ کر پوچھنے لگیں۔ وہ نفی میں سر ہلاتی خفت زدہ ہوئی۔
”میں اتنا اچھا کھانا نہیں بنا سکتی، بس گزارہ ہی ہے میرا۔۔“ اوزگل نے شرمندگی سے بتایا تو سلاد لا کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے یافث مسکرایا۔ بچے آکر بیٹھ چکے تھے۔
”اوز کا دماغ پڑھائی میں بہت چلتا ہے، کوکنگ ابھی سیکھ رہی ہے اور آپ کھانے کی بہت شوقین ہیں اس لیے کھانے کے لیے آج کک ارینج کیا ہے۔“ یافث نے چئیر کھینچ کر اوزگل کو بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ وہ بیٹھی تو اس کے ساتھ والی کرسی پر وہ بھی بیٹھ گیا۔
”ہاں پتا چلا کہ اوزگل پڑھائی کر رہی ہے۔۔ بہت اچھی بات ہے، تعلیم بہت ضروری ہے۔“ خالہ نے اسے شاباش دی۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ لوگ حال احوال لیتے رہے۔ یافث کا اوزگل پر خاص دھیان تھا۔ پہلے اس کی خوراک بہت کم ہوتی تھی مگر اب وہ اچھے سے کھا رہی تھی۔
شاید نہیں یقیناً کمپنی کا اثر تھا۔ اس کی دونوں فرینڈز سارا دن حمزہ سے کھانے پینے کی چیزیں منگواتی تھیں۔ یافث کو اتنا مسلسل فاسٹ فوڈ دیکھ کر ہی فکر ہوئی تھی کہ اوزگل بیمار ہو جائے گی۔ اسے جا کر منع کرنا پڑا تھا۔ ورنہ حمزہ رکتا تھا نا وہ دونوں۔۔
کھانے کے بعد اوزگل نے چائے بنا لی، ایک طرف خالہ اپنے بچوں کو لیے صوفے پر بیٹھی تھیں، سامنے صوفے پر اوزگل بیٹھ گئی، یافث کمرے سے باہر آیا تو دو ہلکے سے بلینکٹ اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک بلینکٹ خالہ پر پھیلایا اور دوسرا اوزگل پر پھیلا دیا۔
”اووو میرا بچہ۔۔ تمہیں آج تک یاد ہے خالہ کو ٹھنڈ لگتی ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بلینکٹ اچھی طرح اپنی ٹانگوں پر پھیلانے لگیں۔ اوزگل بھی ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھتی بلینکٹ میں دبک گئی۔
”جی یاد ہے کیونکہ مجھے بیوی آپ کے جیسی مل گئی ہے۔ اوز کو بھی آپ کی طرح کچھ زیادہ سردی لگتی ہے۔ آپ دونوں کو ہیٹر تو بالکل ہی بےکار لگتا ہے۔“ وہ چائے کپ لیے اوزگل سے کچھ فاصلے پر بیٹھا اطمینان سے بول رہا تھا۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ایسے بیٹھا تھا جیسے ٹھنڈا میٹھا موسم ہو۔
”ارے پاگل خوبصورت اور نازک لڑکیوں کو ایسے ہی زیادہ ٹھنڈ لگتی ہے۔ یہ تو لڑکیوں کا چارم ہے اور میں بھی ابھی جوان ہوں۔“ خالہ کی انوکھی منطق پر یافث قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اوزگل حیرت سے خالہ کو دیکھ رہی تھی۔
”آپ بالکل نہیں بدلیں، مجھے لگتا ہے خالو کے حصے کی تعریف بھی خود کر لیتی ہیں۔ آپ کو اپنے اتنے حسن سے تھکاوٹ نہیں ہوتی؟“ یافث شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ خالہ نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا۔۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments