Wednesday, January 8, 2025
HomeEpisodic NovelsWo Humsafar ThaWo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 12 Complete

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 12 Complete

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط بارہ

شادی کو تقریباً ایک ماہ ہونے والا تھا، اوزگل دو تین مرتبہ ماں باپ کی حویلی میں ایک دو دن کے لیے رہنے گئی تھی اور ہر بار کوشش کی کہ زرگل کا ان دنوں چکر نہ لگے۔ ثمر خان نے اوزگل کے آنے پر ایک دو بار زرگل کو بلوایا بھی تھا کہ دونوں بہنیں مل لینا مگر وہ اوزگل کا سن کر آنے سے انکار کر دیتی تھی۔
یافث خان تو تب کا گیا واپس نہیں آیا تھا، خان بیگم نے بتایا کہ وہ ایگزامز میں ایسا ہی کرتا تھا، نا ملنے آتا تھا نا کالز کرتا تھا۔ گھر کے کسی ایک فرد سے چند منٹ بات کر کے سب کی خیریت پوچھ لیتا اور پھر غائب۔۔ وہ ایسا چاہتی تو نہیں تھی مگر اسے یافث کا یوں جانا اور پھر رابطہ نا کرنا اداس کر گیا تھا۔ اس کا آخری میسج بھی تو عجیب تھا۔
اوزگل تو جب وہ میسج دیکھتی تھی اسے غصہ آتا تھا، کئی بار سوچا اسے جواب دے۔ کہہ دے کہ شادی کرنے پر مجبور کس نے کیا، وہ اسے الزام کیوں دے رہا تھا۔ اس کی التجا تو رد کر چکا تھا، اتنی ہمت تھی تو آغا جان کو بھی بتا دیتا۔ ابھی وہ یافث خان کی ہمت جانتی نہیں تھی۔ الٹا سیدھا سوچتی اور پھر موبائل رکھ دیتی تھی کیونکہ وہ اس میسج کا جواب بہت دن بعد دے کر اسے خود پر ہنسنے کا موقع نہیں دے سکتی تھی۔
سارا دن دی جان کے کمرے میں پڑی رہتی تھی۔ حاذق خان اور واثق خان زیادہ تر شہر ہوتے تھے اور ان کی بیویاں بھی اکثر چلی جاتی تھیں ورنہ حویلی میں ہنستی مسکراتی باتیں کرتی نظر آتی تھیں۔ بس اوزگل ہی تھی جس کی چپ اور کم گوئی علی زئی حویلی والوں کو پریشان کر رہی تھی۔ انہیں یقین تھا یافث کے جانے کی اداسی ہے۔
پھر ایک دن یافث خان اچانک رات کے وقت واپس آگیا۔ وہ سب کھانا کھا رہے تھے، کھایا بھی کہاں تھا۔ ابھی بس شروع ہی کیا تھا۔ ابھی تو اوزگل سستی سے کرسی پر بیٹھی تھی، فارغ رہنے کی وجہ سے اسے نیند کچھ زیادہ ہی آتی رہتی تھی۔ اب بھی وہ بھوک مٹانے آئی تھی، بند آنکھوں کے ساتھ ابھی نوالہ منہ میں ڈال رہی تھی جب یافث خان کا سلام کانوں سے ٹکرایا۔
اس نے حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ بھی آغا جان سے ملتا اسی کو دیکھ رہا تھا، وہ گڑبڑا گئی۔ وہ خان بیگم اور دی جان سے مل کر اس کی طرف آیا۔ اوزگل نے پہلو بدلا۔ کیا اسے بیٹھے بیٹھے سلام کرنا چاہیے؟ یا اٹھ کر سلام کرے یا پھر سلام ہی نا کرے۔ ابھی فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ یافث خان نرمی سے اس کا سر تھپتھپا کر ہٹ گیا۔
”تمہارے ایگزامز تھے تو بتا کر کیوں نہیں گئے؟ شادی کی بڑی جلدی تھی نالائق انسان۔۔ شادی کرتے ہی چوروں کی طرح بھاگ گئے، بیوی کو بھی خبر نہیں تھی، کہاں گئے ہو۔۔“ آغا جان یافث کے واپس آتے ہی اسے مل کر سختی سے گھورنے لگے۔ وہ اپنا سفری بیگ دور صوفے پر پھینکتا ڈائریکٹ ٹیبل پر آیا۔
”کیا ہوا آغا جان؟ کہیں خوش قسمتی سے میری بیوی نے میرے جانے کی شکایت تو نہیں لگا دی۔۔؟“ اوزگل کے بالکل سامنے سیٹ سنبھالتا وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا۔ اوزگل نے چور نظروں سے دیکھا تو وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا، اس کی نظریں تیزی سے جائزہ لے رہی تھیں کہ کھانے میں کیا بنا ہے۔
”شکایت لگانے والی ہوتی تو پھر تم ایسے لاپروائی بھی نا کرتے۔۔ بےچاری چپ چپ سی میرے کمرے میں پڑی رہتی تھی۔“ دی جان نے خفگی سے کہا تو یافث نے بےاختیار سر اٹھا کر اوزگل کو دیکھا جو سر پر ہاتھ مارتی دی جان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ مسکرایا۔
”اب کیا کر سکتا ہوں، ہے ہی اتنی بےچاری سی۔۔ بولنا نہیں آتا اسے، میری بات کا بھی ٹھیک سے جواب نہیں دے سکتی۔۔ سوچتی رہ جاتی ہے کیا بولے۔۔“ وہ سالن کا باؤل اٹھا کر پلیٹ میں ڈالتے ہوئے آہستگی سے بول رہا تھا۔ اوزگل سر جھکائے جلدی جلدی اپنا کھانا کھا رہی تھی اس کی بات پر ٹھٹک گئی۔
ناجانے کیوں اسے لگا وہ اسے دیکھ کر مسکرایا ہے، وہ اسی میسج کا حوالہ دے رہا ہے جو اس نے بھیجا تھا اور ناجانے کیوں اوزگل کو شک سا گزرا کہ وہ جو اتنی بار ٹائپنگ کر کے پھر بیک کر دیتی تھی، یافث خان شاید دیکھ لیتا تھا۔ مگر ایسا کیسے ممکن تھا، وہ سر جھٹک گئی۔ حالانکہ یہی سچ تھا۔
”اب تو فارغ ہو ناں؟ اب رکنا۔۔ تم اچانک چلے گئے بچے، زورک خان کا ولیمہ تھا۔ تمہارے چچا کے گھر دعوت ہوئی اور پھر اوزگل کے ماموں نے بھی تم دونوں کی دعوت کی۔ بےچاری پہلے ولیمہ پر پھر باپ کے گھر دعوت پر اکیلی گئی اور پھر خان داد کو دعوت سے ہی منع کر دیا۔۔ اب تم آ گئے ہو تو اسے لے جانا اور معذرت بھی کر لینا۔“
امروز خان سنجیدگی سے بول رہے تھے۔ یافث کھانا کھاتے ہوئے سر ہلاتا رہا جبکہ اوزگل اپنی روٹی ختم کرتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ یافث کی موجودگی میں وہاں نہیں بیٹھ سکتی تھی، اسے بنا دیکھے اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہو رہی تھی۔
”اوز تم ٹھیک سے کھانا کیوں نہیں کھاتیں، بیٹھ جاؤ۔۔ سلاد کھایا کرو اور میٹھا بھی لو۔۔ خوراک ایسی ہے اس لیے بڑی نہیں ہو رہیں۔“ خان بیگم نے اسے ٹوک کر نرمی سے بیٹھنے کا کہا۔
”مجھے نیند آرہی ہے۔“ وہ بےچارگی سے بولی۔ سچ بھی یہی تھا۔ وہ جلد از جلد سو جانا چاہتی تھی تاکہ یافث سے کمرے میں اس کا سامنا نا ہو۔
”پتا نہیں اتنی نیند کہاں سے لائی ہو اوزی، سارا دن نیند اور رات کو بھی نیند میں ہی کھانا کھا کر بھاگتی ہو۔۔“ دی جان نے رک کر اسے دیکھا، نیلی کانچ سی آنکھوں میں نیند بھرے وہ ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
”اب سونے پر کیا پابندی ہے، کوئی کام نہیں تو نیند آنا نیچرل ہے۔ سونا ہے تو سو جائے۔ کھانا تو کھا چکی ہے وہ۔۔“ یافث نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا۔ خان بیگم گہرا سانس بھر کر سر ہلا گئیں، اوزگل وہاں سے چلی گئی۔
”تم اب کچھ دن رک جانا میرا بچہ۔۔ اسے وقت دو یا پھر اسے شہر لے جاؤ، گھماؤ پھراؤ۔۔ فراغت بھی ہے اور بور بھی ہوتی ہے۔ دیکھو زیبا اور ژالے شادی کے بعد ناجانے کتنی بار گھومنے گئی ہیں۔ اوز اپنی حویلی سے نکل کر بس ماں باپ تک ہی گئی ہے وہ بھی اکیلی۔۔“ خان بیگم نے اس کے جاتے ہی یافث سے کہا۔
”گھومنا چھوڑیں، شادی سے پہلے جو پڑھائی چھڑوائی تھی وہ پوری کرواتا ہوں پھر وہ بھی مصروف اور خوش رہے گی۔ یہ اس کا بھی خواب ہے اور میں بھی بیوی پڑھی لکھی چاہتا ہوں۔“ یافث کو اس کی خواہش کا اندازہ تھا۔
”شکر ہے خان زادہ کی عقل تو جگہ پر آئی۔۔“ امروز خان نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔ وہ ہنس کر سر ہلا گیا۔ کچھ دیر سب سے باتیں کیں، چائے پی اور جب اٹھ کر کمرے میں گیا تو وہ صوفے پر سمٹ کر سوئی ہوئی تھی۔
یافث چینج کر کے بستر پر لیٹا، کروٹ بدل کر سامنے صوفے پر سوئی اوزگل کو دیکھنے لگا۔ لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی ناراضگی، گریز اور یوں دور دور بھاگنا بھی اسے مزہ دے رہا تھا۔ اسے اوزگل پر حق جتانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
اسے تو وہ اپنے کمرے میں سوئی ہوئی بھی اچھی لگ رہی تھی۔ اسے یہ احساس ہی اچھا لگتا تھا کہ وہ اس کی بن چکی ہے۔ اب چاہے ناراض ہو، منہ بنائے، دور بھاگے یا جھگڑا کرے۔۔ وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔
وہ اسے سویا ہوا دیکھ رہا تھا، سوتے ہوئے تو وہ بالکل چھوٹی سی بچی لگتی تھی۔ اسے دیکھتے دیکھتے نیند میں جا چکا تھا۔


”تمہاری بہن چلی گئی کیا؟“ خوشنما کے پوچھنے پر اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ وہ دونوں نوڈلز کھا رہی تھیں، بےوقت کھانے کی انہیں عادت تھی۔ وہ نظریں چراتی وہیں بیٹھ گئی۔ کچھ شرمندہ سی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور وہ اب آئی تھی۔
یافث کے جانے کے بعد وہ پریشانی پریشانی میں بیٹھ کر چاول کھاتی رہی تھی۔ ایک تو اسے بھوک بہت لگی ہوئی تھی، پھر حمزہ کی کوکنگ بھی بہت زبردست تھی۔ پیٹ بھر کر وہ پلیٹ کچن میں رکھ آئی۔ واپس نکلتے ہوئے یونہی یافث کے کمرے میں جھانکا۔
اس کا کمرہ بالکل صاف اور سمٹا ہوا تھا۔ کوئی پھیلاوا یا بےترتیبی نہیں تھی۔ بیڈ پر صاف گرے رنگ کی بیڈ شیٹ اور سلیقے سے پیروں کی جگہ سمیٹ کر رکھی نرم پھولی ہوئی سی رضائی۔۔ اس کا دل بےایمان ہو گیا تھا۔ ایسی صفائی تو اس کی کمزوری تھی۔ اپنے کمرے میں تو صبح جاتے ہوئے سب الٹ پلٹ کر دیتی تھی۔
واپس آ کر پہلے صفائی اور پھیلاوا سمیٹنا پڑتا پھر جا کر لیٹنا نصیب ہوتا تھا اور اسی میں اکثر مغرب کی اذان ہو جاتی تھی پھر نیند وہی رات کو کر سکتی تھی۔ وہ بستر پر تھوڑی دیر آرام کرنے کا سوچ کر لیٹی تھی اور شام کو آنکھ کھلی تھی۔ ہڑبڑا کر کمرے سے نکلی تو اور بھی زیادہ شرمندہ ہو گئی۔
یافث خان ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا، صوفے پر آرام دہ حالت میں بیٹھ کر سامنے ٹیبل پر ٹانگیں لمبی کی ہوئی تھیں۔ بڑی سی ایل ای ڈی پر کوئی کامیڈی شو لگا ہوا تھا۔ شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے ہوئے تھے، جیل سے بنے بال بےترتیب ہو رہے تھے، شرٹ کے دو بٹن کھلے تھے اور ہاتھ میں چائے کا بڑا سا مگ تھا۔
”چائے پیو گی؟ میں ابھی آیا ہوں آفس سے، چینج کرنے روم میں نہیں گیا۔ جیسے تم یہاں آنے سے بچتی ہو اور آتے ہی بھاگنے کی کوشش کرتی ہو مجھے لگا شاید تم میری موجودگی میں ان سیکیور (غیر محفوظ) فیل کرتی ہو۔“ وہ ترچھی نظر اس پر ڈال کر سرسری لہجے میں بولا۔
اوزگل تو شرمندگی کے مارے زمین میں گڑھ گئی تھی، اس کی بات کا جواب دینا تو دور اسے دیکھا بھی نہیں اور بجلی کی رفتار سے وہاں سے نکلتی اپنے فلیٹ میں واپس آئی تھی اور اب ان کے سامنے لیٹ آنے پر شرمندہ ہو رہی تھی یوں جیسے وہ جانتی ہوں اوزگل اپنے شوہر کے پاس اس کے فلیٹ میں اکیلی رہی تھی۔
”تمہیں اپنی بہن سے ڈر نہیں لگتا؟ اتنی روڈ ہے، توبہ میرا تو سامنا ہوتا تھا اور مجھے ایسا لگتا تھا اس کی آنکھوں میں جو آگ ہے وہ مجھے جلا دے گی۔“ رودابہ نے جھرجھری لیتے ہوئے تبصرہ کیا تو اوزگل بےساختہ اسے دیکھنے لگی۔
ہاں زرگل سخت مزاج اور سرد سی تھی مگر جب لوگ اس پر بولتے تھے تو اسے تکلیف ہوتی تھی۔ وہ رودابہ کے تبصرے پر خاموشی سے سر جھکاتی لب کاٹنے لگی۔ خوشنما نے رودابہ کو پیر مار کر گھورتے ہوئے احساس دلایا کہ وہ اس کی بہن کی بات کر رہی ہے۔۔
”سوری علیزے میں۔۔ تمہیں تو پتا ہے میں ایسے ہی کچھ بھی بول دیتی ہوں۔“ رودابہ نے معذرت کی تو وہ گہرا سانس بھر کر نفی میں سر ہلانے لگی۔
”اٹس اوکے دراصل ہم ٹوئنز ہیں، ہماری برتھ پر مورے ہمیں سنبھال نہیں سکتی تھیں۔ ہمارے ہاں شادیاں بھی جلدی ہو جایا کرتی ہیں تو وہ کافی ینگ تھیں۔ ان کی آسانی کے لیے آبا جان نے ہمیشہ زرگل کو خود سنبھالا اور مجھے مورے سنبھالتی تھیں۔ آبا جان مرد تھے انہیں عورت جیسا طریقہ نہیں آیا، وہ بس کوشش کرتے تھے زرگل روئے نہیں، خوش رہے۔
اسی کوشش میں انہوں نے زر کو بہت زیادہ پیار دیا ہے، اتنا لاڈ کہ وہ کچھ غلط بھی بول دیتی تھی تو وہ ہنس کر منع کرتے تھے اور ایسا ٹوکنا اولاد پر اثر نہیں کرتا۔ زر کو بھی یہی لگتا تھا وہ جو بولتی ہے، جیسے کرتی ہے سب ٹھیک ہے۔ وہ جوان ہو گئی تب بھی اس کا وہی مزاج رہا۔ مگر وہ دل کی بری نہیں ہے۔“
وہ بہن کی طرف سے صفائی دیتی آخر میں وہی جملہ بول رہی تھی جو اکثر کسی اپنے کی بگڑی ہوئی حرکتوں پر وضاحت دیتے ہوئے بولا جاتا ہے۔ اسے تو خود بھی اندازہ نہیں تھا آخر زرگل کے دل میں چلتا کیا تھا۔ وہ سوچتی کیا تھی، چاہتی کیا تھی۔ اسے شاید زندگی میں آبا کے علاوہ سب سے زیادہ یافث خان اچھا لگتا تھا۔
”اوہ پھر اس کا کیا قصور، اسے ماحول ہی ایسا ملا ہے۔ ایج بھی تو تم دونوں کی ابھی چھوٹی ہے۔ میچور ہونے کے بعد وہ سنبھل جائے گی۔ کیا اس نے بھی تمہاری طرح پڑھائی کی ہے؟“ خوشنما نے بات بدلنے کے لیے سوال کیا۔ وہ ہنس کر اثبات میں سر ہلا گئی۔
”ہم دونوں کو پڑھنے کا شوق تھا، ہم امو جان کے پاس جاتی تھیں تو وہ ہمیں ہر وقت پڑھاتی رہتی تھیں۔ ہم نے تھری تک ریگولر پڑھا، پھر فور میں ففتھ کا کورس اور ففتھ کے ایگزامز دیتے ہی ایٹتھ کلاس میں آگئے۔ ہمارے علاقے میں سکول ہمارے ہی دادا کا بنا ہوا ہے، کوئی ٹیچر رکاوٹ نہیں بنی۔
ہمیں عام بچوں کی طرح حویلی سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارا صرف ایک ہی دوست تھا، زورک خان جو اب میرا بہنوئی ہے۔ وہ بھی ہم سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ وہ پڑھتا رہتا تھا اور اس کے ساتھ ہمارا یہی کھیل ہوتا تھا وہ ہمیں اپنی بکس پڑھنے دیتا تھا، خود سمجھنے اور یاد کرنے کے لیے ہمیں پڑھاتا تھا۔ ہم نے بھاگتے دوڑتے پڑھائی کی۔“
وہ گزرا ہوا وقت یاد کرتی آخر میں آہ بھر کر رہ گئی۔ ان دونوں کو یونیورسٹی جانے کا شوق تھا۔ دونوں شہر میں آنا چاہتی تھیں اور زرگل کو تو شوق سے زیادہ جنون تھا لیکن اس کا خواب زورک خان نے کبھی پورا نہیں ہونے دیا۔ اوزگل آج یافث خان کی مہربانی سے اپنا شوق پورا کر رہی تھی۔
”اتنے روبوٹ بچے۔۔ ہمیں تو مار مار کر پڑھایا جاتا تھا اور رو رو کر پڑھتے تھے۔“ رودابہ نے کان پکڑتے ہوئے توبہ کی۔ خوشنما بھی اتفاق میں سر ہلاتی اٹھ کر کچن کی طرف گئی تاکہ رات کے کھانے کا انتظام کرے۔
”آہاں مجھے یاد آیا، نیکسٹ ویک اینڈ میری انگیجمنٹ پر تم دونوں نے ضرور آنا ہے۔ میری اماں تو ضد کر رہی تھیں کہ تم دونوں کو ساتھ لے جاؤں۔ میں نے کہا پوچھوں گی دونوں سے۔۔“ خوشنما نے یاد آنے پر کچن سے منہ نکال کر دونوں کو مخاطب کیا۔
”واہ۔۔ گریٹ، میری طرف سے ڈن۔۔ میں ماموں کو ایک بار بتا دوں گی بٹ آئی نو وہ انکار نہیں کریں گے۔ علیزے تم بھی چلو گی ناں؟“ رودابہ نے پرجوش لہجے میں پوچھا۔
”سوری میں تو نہیں جا سکتی، مجھے کبھی پرمیشن نہیں ملے گی۔“ انکار کرتے ہوئے اس کا منہ لٹک گیا۔ خوشنما اور رودابہ مایوس ہوئیں۔
”ہمارے ہاں اتنی دھوم دھام سے منگنی، نکاح ہوتے ہیں کہ مزہ آجاتا ہے۔ دو دن پہلے لڑکیاں جمع ہو کر راتوں کو شغل میلا کرتی ہیں، انتاکشری کھیلتے ہیں، ڈانس وغیرہ ہوتے ہیں۔ میں تمہارے پردے کا بھی خیال رکھوں گی، گھر والوں سے بات تو کرو، تم تو کہیں بھی نہیں جاتیں۔“ خوشنما نے اسے لالچ دیا۔
”میں اسی لیے نہیں جاتی، پرمیشن لینے پر بھی نہیں جانے دیتے کہیں۔۔ پھر تمہارے گھر کے بارے میں تو کچھ جانتے نہیں ہیں، اب تو پاسیبل ہی نہیں ہے۔“ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ اسے پتا تھا اس معاملے میں یافث شہر لاتے ہوئے ہی وارن کر چکا تھا، سٹڈی کے علاوہ کوئی ایکسٹرا ایکٹیویٹی نہیں کرنی۔ آؤٹنگ کے لیے صرف میرے پاس آنا۔ وہ گھر پر بیٹھی رہتی تھی۔
”ہم تمہارے فادر سے بات کر لیں گے، انہیں خوشنما کے گھر کا ایڈریس اور اس کے فادر کا نمبر بھی دے دیں گے۔ وہ چاہیں تو خود بات کر لیں گے۔ پھر تو مان جائیں گے ناں؟“ رودابہ نے سوال کیا۔
”تم بات کر لو تب بھی فائدہ نہیں۔۔“ وہ گہرا سانس بھر کر بولی۔ آبا کا کیا کام۔۔ اجازت تو یافث خان کو دینی تھی اور وہ کبھی نہیں دینے والا تھا۔

”تم دونوں انجوائے کرنا اور میرے لیے ویڈیوز بنا کر ضرور لانا۔۔“ وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بات ختم کر چکی تھی۔ خوشنما کچن میں چلی گئی، رودابہ بھی افسوس سے سر ہلانے لگی۔

یافث بیڈ پر نم دراز موبائل پر دوستوں سے بات کر رہا تھا۔ فرصت میں ایک دو دن تو وہ دوست بالکل لڑکیوں کی طرح مسلسل باتیں کرتے تھے۔ پھر مصروفیت آتے ہی صرف مختصر سے میسج اور بس۔۔ اب تو پھر وہ پڑھائی سے ہی فارغ ہو چکا تھا بس کچھ تھیسز رہتے تھے۔
اوزگل صبح سے غائب تھی، پہلے دی جان کے پاس رہی، پھر خان بیگم کے پاس اور پھر حویلی کے پائیں باغ میں ٹہلتی رہی۔۔ اب دن ڈھلنے پر موسم سرد ہو رہا تھا، وہ شال اٹھانے کے لیے کمرے میں آئی۔ یافث کال بند کر کے فارغ ہوا اور اسے دیکھنے لگا۔
”آغا جان کا حکم ہے تمہیں چچا کے گھر لے جاؤں۔ ان سے ملوا کر پھر چچا خان داد۔۔۔“ وہ ابھی بتا رہا تھا کہ اوزگل نے اس کی بات کاٹی۔
”میں وہاں نہیں جاؤں گی، آپ کے ساتھ تو بالکل نہیں۔۔ آبا جان اور مورے سے ملنے جانا ہے تو ٹھیک ہے۔“ وہ اس کے انکار پر حیرت سے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ اوزگل شال اٹھا کر اوڑھتی کمرے سے نکلنے لگی۔
”رک جاؤ اوز، مجھے زرا اس شدید انکار کی وجہ بتا کر جاؤ۔۔ میں آغا جان سے کیا کہوں؟ اور وہ لوگ بھی انوائٹ کر رہے ہیں۔ زورک خان کی مجھے دو تین مرتبہ کال آچکی ہے۔“ اس کے سنجیدگی سے بولنے پر وہ رک کر پلٹی۔
”کچھ بھی کہہ دیں لیکن مجھے نہیں جانا۔ آپ کے ساتھ تو بالکل نہیں جانا۔۔“ وہ اپنے الفاظ دہراتی بات پر زور دے کر بولی۔ یافث کی جانب دیکھنے سے پرہیز کر رہی تھی۔ وہ بغور اس کا بےچینی بھرا انداز دیکھتا رہا۔
”یعنی اگر صاف کہہ دوں میری بیوی کو نہیں آنا اور میرے ساتھ تو بالکل نہیں آنا۔ تم اعتراض تو نہیں کرو گی؟“ اس کے پوچھنے پر اوزگل کو جھٹکا لگا، گھبرا کر چند قدم آگے آتی اس کے سامنے کھڑی ہوئی۔
”م۔۔ میرا کیوں، صاف بتانا ہے تو اپنا بتائیں ناں کہ آپ نہیں جا سکتے۔“ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولتی یافث کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔ ایسے بات کرتی تھی تو بہت پیاری سی لگتی تھی اور اسے اور بھی زیادہ معصوم لگنے لگتی تھی۔
”میں تو جا سکتا ہوں، تمہارے لیے جھوٹ کیوں بولوں۔“ وہ سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے اطمینان سے بولا۔
”پھر ولیمہ پر کیوں نہیں گئے۔“ وہ ننھی سی ناک چڑھا کر اسے جتاتی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ یافث کو اس کی ادا پر بےساختہ پیار آیا تھا۔
”میرے ایگزامز تھے۔“ وہ آہستگی سے ہنسا، پھر اس کے ٹھٹک کر دیکھنے پر فوراً سنجیدہ ہو گیا۔
”یہ صرف بہانہ تھا، اس دن تو فری تھے، اگلے دن پیپر تھا۔ آپ زرگل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔“ وہ اس کے ہنسنے پر پیچھے ہوتی مدھم لہجے میں بولی۔
”ہاں یہ بھی سچ ہے، میں زرگل کا بالکل سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ مجھے بالکل نہیں پسند۔۔“ یافث خان زرگل کی حرکتیں اور دھوکہ یاد کر کے سنجیدہ ہوا۔ اوزگل حیرت زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔ وہ زرگل کو ناپسند کرتا تھا؟ تو کیا واقعی ان دونوں میں اسے غلطی فہمی ہوئی تھی؟ یعنی وہ اوزگل کو پسند کرتا تھا؟
اس خیال پر ہی اس کا چہرہ سرخ ہوا۔ وہ ایک دم پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ دل میں دبی محبت سر اٹھانے لگی۔ جھوٹ بولتی تھی اسے فرق نہیں پڑتا، اسے تو یافث خان کے ایک جملے سے دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
جب وہ یافث خان کے ساتھ ثمر خان کی حویلی پہنچی۔ بیگم ثمر نے اسے مل کر فوراً زرگل کو فون ملایا۔ اوزگل تب اپنی ماں کے ساتھ ہی بیٹھی تھی جبکہ یافث اپنے چچا ثمر خان کے ساتھ بیٹھا تھا۔
”زر تم بھی زورک خان کے ساتھ آ جاتیں۔ اتنے وقت سے چکر نہیں لگایا۔ بہن سے بھی مل لینا۔ آئی ہوئی ہے یافث خان کے ساتھ۔۔ وہ کل ہی آیا ہے ناں تو۔۔۔“ بیگم ثمر سادگی سے بتا رہی تھیں۔
”میں نہیں آؤں گی، ان لوگوں کی موجودگی میں مجھے نہیں بلایا کریں مورے۔۔ مجھے یافث خان بالکل نہیں پسند۔۔“ موبائل سپیکر سے ابھرتی زرگل کی آواز اور اس کے جملے اوزگل کی ساری خوش فہمی اور جوش چکنا چور کر گئے۔ وہ ساکن سی بیٹھی رہ گئی۔
یافث نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور اب زرگل بھی وہی بول رہی تھی۔ ان دونوں کے الفاظ بالکل ایک جیسے تھے۔ فرق اتنا تھا کہ یافث نے صرف سچ بولا تھا اور زرگل اپنے جذبوں کی نفی کرتی تھی۔ لیکن یہ فرق سمجھنے کے لیے اوزگل کا دماغ چھوٹا پڑ گیا تھا۔
ماں باپ کے گھر آتے ہوئے سارے راستے وہ یافث خان کے برابر بیٹھنے پر ہی سمٹی رہی، چہروں پر گلال بکھرا ہوا تھا۔ لرزتے ہاتھوں سے بار بار چہرہ چھپاتی دل کی بےقابو ہوتی دھڑکن سے گھبرا رہی تھی۔ مگر جاتے ہوئے پھر سے گم صم اور بےرنگ چہرہ لیے بیٹھی تھی۔۔

یافث اس ایک چہرے پر اتنے رنگ دیکھتا رہ گیا تھا۔ اس نے بات کرنے کی بھی کوشش کی، پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ پہلے بلاوجہ خوش کیوں تھی اور اب اتنی زیادہ اداس کیوں ہے۔۔ لیکن اوزگل پھر سے اپنے خول میں بند ہو چکی تھی۔

ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے یونی کا آف تھا۔ وہ دن کے وقت دیر تک پڑی رہی۔ بارہ بجے سست سی جمائیاں لیتی کمرے سے نکلی تو رودابہ اور خوشنما اسی وقت نک سک سے تیار کہیں جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔
”تم دونوں کہاں جا رہی ہو؟ منگنی تو آگلے ہفتے تھی ناں۔۔ ابھی سے جا رہی ہو؟“ وہ حیران ہوئی۔
”خوشنما کے ساتھ جانا ہے ناں میں نے، کل ماموں کو بتایا تو آج صبح میری ماما نے مجھے پیسے بھیج دئیے کہ میں اچھا سا ڈریس اور گفٹ لے لوں۔ جس محترمہ کے لیے گفٹ لینا ہے وہ اپنا گفٹ لینے کے لیے ساتھ جا رہی ہے۔“ رودابہ نے ہنس کر بتایا۔
”تم گفٹ دے رہی ہو تو فائدہ بھی دو۔۔ مجھے جو ضرورت ہو گا وہی لے لوں گی ناں۔۔“ خوشنما نے اس کے ہنسنے پر اس کی کمر پر زور سے دھپ رسید کی۔ وہ اس کی بات پر مسکرائی۔
”اچھا رکو میں نے بھی تمہیں انگیجمنٹ گفٹ دینا ہے، تو میری بھی ہیلپ کرو اور خود لے لو جو لینا ہے ورنہ کوئی اچھا سا ڈریس لینا۔ میں وہی دینے والی تھی۔“ وہ انہیں روک کر کمرے میں گئی اور اپنے والٹ سے یافث کا دیا اے ٹی ایم کارڈ لے آئی۔ خود تو یوز نہیں کرتی تھی، چلو خوشنما کے کام آجاتا۔
”یہ ہوئی نا بات۔۔ اب ہم جاتے ہیں اور تم سونا مت، ناشتہ کر لو۔۔“ وہ دونوں ہنستی مسکراتی اسے نصیحت کر کے وہاں سے چلی گئیں۔ وہ کچن میں جا کر آملیٹ، بریڈ اور چائے بنا کر لے آئی۔ ابھی ناشتہ کر کے فارغ ہوئی تھی کہ خان بیگم کی کال آگئی۔
”کیسی ہو میرا بچہ؟ پڑھائی اچھی ہو رہی ہے؟“ وہ محبت سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ ٹانگیں سمیٹ کر صوفے پر بیٹھتی ان سے حال احوال لینے لگی۔
”اوزی بچے تمہاری پڑھائی کا حرج تو ہو گا مگر تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی تمہیں۔ خان زادہ کی چھوٹی خالہ کویت سے آرہی ہے۔ وہ یافث کے پاس ہی رکے گی ایک دو دن۔۔ اسے کچھ خریداری وغیرہ کرنی ہے۔ پھر میرے پاس آئے گی۔ تم ان دنوں یافث کے پاس رہ جانا ورنہ بہت عجیب لگے گا۔“
خان بیگم نے اسے بتاتے ہوئے درخواست کی تو وہ گھبرا گئی۔ اب ناجانے یافث کی چھوٹی خالہ کب آ رہی تھیں۔۔پھر ایک نئی مصیبت اور دو تین دن یافث خان کے پاس۔۔۔ وہ بےچینی سے پہلو بدلنے لگی۔
”امو جان میرے دراصل بہت ضروری پیپر۔۔ ہوں گے تو۔۔ آپ کو پتا ہے پہلا سال ہے۔ اگر رزلٹ برا آیا۔۔“ وہ بہانہ نہیں سوچ پا رہی تھی۔ بوکھلا کر جھوٹ بولنے لگی۔
”بچہ مجبوری ہے ناں۔ وہ کیا کہے گی الگ کیوں پڑے ہو، یافث کی دی وجہ کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ خود پڑھا رہا ہے تو ساتھ رکھ کر پڑھائے۔ واثق اور حازق کے گھر تو ان کے سسرال نے جانا ہے، مری سنو فال دیکھنے۔۔ ورنہ وہ وہیں جاتی، یافث کے پاس نا رکتی۔۔
بس ایک دو دن، تھوڑی خریداری کرے گی اور یہاں آجائے گی۔ صرف تب تک۔۔ اور حرج نہیں ہو گا، یافث سے پڑھائی میں مدد لے لینا۔“ خان بیگم نرمی سے اسے سمجھا رہی تھیں۔ وہ بےچارگی سے انہیں سننے لگی۔ اس مجبوری میں جب وہ بڑی ہو کر درخواست کر رہی تھیں تو کیسے کہتی کہ اسے نہیں جانا وہ بھی اپنے شوہر کے پاس۔۔
”جی ٹھیک ہے امو جان۔ میں چلی جاؤں گی فکر نہیں کریں “ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ وہ دعائیں دیتی کال کاٹ گئیں۔ وہ سر پکڑ بیٹھی۔ اس کی چھٹیاں ہونے والی تھیں اور وہ نیت خراب کر کے بیٹھی تھی کہ حویلی نہیں جائے گی ورنہ یافث خان کے ساتھ جانا پڑے گا۔ شاید اسی بدنیتی کی سزا ملی تھی۔ اسے یافث خان کے پاس ہی جانا پڑ رہا تھا۔
دوسری جانب یافث خان اپنی خالہ کے آنے کا سن کر بےاختیار مسکرایا۔ ویسے اسے مہمانوں سے بہت الجھن ہوتی تھی مگر اب ان کے رہنے کا سن کر دل جھوم اٹھا تھا۔ اوزگل اس کے پاس آکر رکنے والی تھی، اس کا ناک چڑھانا، لڑنا اور چھوٹی چھوٹی بات پر گھبرا جانا یافث خان کو الگ سا سکون دیتا تھا۔ وہ خالہ سے زیادہ اوزگل کی رہائش کا اہتمام کرنے لگا۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

  1. Nice epi bhtttttttttttttttt kmal next epi to bht achi hone wali hai
    Is liye Khte hai zyada nehi sochna chahiye ozgul ne overthinking ki aur ab dekho yafis khan se bdguman ho kr bheti hai

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments