Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 11 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :130

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط گیارہ

زرگل اور زورک خان کے ولیمہ والے دن صبح صبح یافث خان شہر جا چکا تھا۔ ناشتے کی ٹیبل پر اسے غیر موجود دیکھ کر جب آغا جان نے اوزگل سے اس کا پوچھا تو وہ گڑبڑا گئی۔ وہ نہیں جانتی تھی یافث خان کہاں ہے جب وہ سو کر اٹھی تو وہ حویلی میں نہیں تھا اور اوزگل کو فرق بھی نہیں پڑتا تھا وہ کہاں ہے کہاں نہیں۔۔
”وہ شہر گیا ہے، کل اس کے فائنل ایگزام سٹارٹ ہو رہے ہیں اور وہ یہاں شادی کر کے گھوم رہا تھا اس لیے اپنا ولیمہ کرواتے ہی شہر بھاگا ہے۔“ حاذق خان نے ہنستے ہوئے اس کا کارنامہ بتایا تو سب حیران ہوئے۔
”نہیں یہ کیسے ہو گیا، یافث خان اور اپنی پڑھائی سے زیادہ کسی شے کو عزیز رکھے؟ ناممکن۔۔ یاد نہیں اس نے میرے سگے بھائی کی موت کا افسوس بھی ہفتے بعد آ کر کیا تھا۔ جنازے میں شریک ہی نہیں ہوا کیونکہ ان دنوں اس کے امتحانات ہونے والے تھے۔“ دی جان نے بےیقینی سے کہا۔
”اور وہ اتنی بڑی لاپروائی کیسے کر گیا۔ اگر اس کے پیپر ہوتے تو شادی کبھی نا کرتا، سچ سچ بتاؤ کیوں گیا ہے وہ؟“ خان بیگم بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھی اور اوزگل تو اس کے جانے کا سن کر ہی گہری سوچ میں مبتلا ہو چکی تھی۔ ایک دن پہلے زرگل ان کے ولیمہ پر نہیں آئی تھی، آج اس کا ولیمہ تھا تو یافث خان شہر چلا گیا تھا۔
ورنہ اسے ایک دن پہلے اس طرح بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ ولیمہ رک بھی تو سکتا تھا۔ اسے اتنی جلدی کیا تھی اور ایسے چوروں کی طرح چپ چاپ کیوں شہر چلا گیا۔ کیا وہ بھی زرگل کے ولیمہ پر نہیں جانا چاہتا تھا؟ یہ چل کیا رہا تھا۔ اسے تو اب یافث خان پر بالکل اعتبار نہیں تھا۔
”امو جان یقین کریں، وہ پاگل لڑکا فجر کے فوری بعد ایسے تو نہیں بھاگا۔۔ پہلے اس شادی کے مسئلہ میں الجھا رہا، اب تو کوئی وجہ نہیں تھی رکنے کی۔۔“ حازق خان نے سب کو یقین دلایا، اوزگل سوچوں میں ڈوبی کسی کو سن ہی نہیں رہی تھی۔
”اس لڑکے کا تو دماغ ہل گیا ہے، اگر اس کے پیپر تھے تو بتایا کیوں نہیں، ہم شادی آگے کر دیتے۔۔“ آغا جان سر پکڑ کر بولے۔
”وہ یہی تو نہیں چاہتا تھا۔“ واثق خان بڑبڑایا۔ آغا جان ناراض ہونے لگے، فکر سے یافث کو کال ملائی۔ ملے بغیر چلا گیا تھا انہیں ایسے لگا جیسے لمبے سفر پر گیا ہو۔ مل کر تو جاتا، بتا تو دیتا۔۔ جو اولاد پیاری ہو وہی بگڑی ہوئی ہوتی ہے۔ انہیں بھی یہی لگتا تھا۔
یافث خان انہیں ہر وقت حیران کر دیتا تھا۔ اب وہ اوزگل کے سامنے زکر نہیں کرنا چاہتے تھے ورنہ جو تماشے وہ شادی سے پہلے کرتا رہا تھا وہ بھی تو سب جانتے تھے۔ اب انہیں کیا پتا وہ کارنامہ بھی اوزگل کو اسی کی مہربانی سے پتا چل چکا تھا۔
”کبھی نہیں سدھرے گا یہ، اچھا خاصہ سلجھا ہوا لڑکا تھا اب تو ہمیں گھما کر رکھ دیا ہے۔ دیکھو تو فکر ہو رہی ہے مجھے۔۔ پوچھو اس سے پہنچ گیا خیریت سے؟“ دی جان پریشان ہو رہی تھیں جیسے وہ کوئی بچہ ہو جو گاڑی لے کر نکل گیا ہو۔
”پتا نہیں ناشتہ کیا یا نہیں، اس نے کام پر جو لڑکا رکھا ہے وہ چھٹیوں پر گھر تو نہیں گیا ہوا؟“ خان بیگم بھی فکرمندی ظاہر کر رہی تھیں، اوزگل کا دل اکتانے لگا۔ وہ انسان اتنی توجہ کے قابل ہی کب تھا۔ اسے پورا یقین تھا امتحانات کا جھوٹ بولا ہے۔ وہ صرف زرگل کے ولیمہ سے بچ کر بھاگا ہے۔ پڑھائی تھی تو شادی ہی نا کرتا۔۔
وہ تیاری کے بہانے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ موبائل پر آتے میسجز پر موبائل اٹھایا تو چونک گئی۔ پورا گھر اس کی فکر میں ہلکان ہو رہا تھا اور وہ وہاں بیٹھا اوزگل کو میسج کر رہا تھا۔
“میرے فائنل سٹارٹ ہو رہے ہیں، اس کے بعد مجھے ڈگری ملنی ہے۔ میں نے اب تک ہمیشہ پڑھائی کو امپورٹنٹ رکھا ہے اور ایگزامز سے مہینہ پہلے سب بھول جاتا تھا لیکن اس بار تم سے شادی کرنے کے لیے اتنے دن برباد کرتا رہا۔ تم اب چاہے برا مناؤ یا کچھ بھی کہو۔۔


You are the first hurdle in my study obsession۔۔”


(تم میری پڑھائی کے جنون میں پہلی رکاوٹ ہو۔۔)
اوزگل تو اس کا میسج پڑھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ کیا وہ اسے الزام دے رہا تھا۔ وہ اپنے الفاظ کا سیاق و سباق بتائے بغیر غائب ہو چکا تھا۔ اس نے یہ بھی نہیں بتایا اس کی بات کا کیا مطلب ہے۔

وہ جانتا تھا مطلب بتا بھی دے تو اوزگل یقین نہیں کرے گی کہ اوزگل کو پہچانتے ہی وہ اس سے شادی کے لیے مچل اٹھا تھا۔ حالانکہ اسے پتا تھا بنا مطلب جانے وہ اس سے بدظن ہو گی اور اگر بدظن ہو بھی جائے تو کیا کر سکتی ہے، وہ اسے اپنے نام کر چکا تھا۔ وہ اس کی بیوی بن چکی تھی۔ یافث خان کے لیے اتنا کافی تھا۔

وہ تینوں یونیورسٹی سے واپس آئیں تو تھکن سے بےحال وہیں باہر صوفوں پر گر گئیں۔ یونیورسٹی میں بی ایس کا پہلا سال اور اتنے دھکے کہ الامان۔۔ انہیں لگا تھا عادت ہو جائے گی مگر تینوں ہی ایسی کام چور تھیں کہ عادت بگڑتی ہی جا رہی تھی، تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔
”چائے کون بنائے گا؟“ خوشنما نے تھکن زدہ لہجے میں بولتے ہوئے ان دو کو دیکھا۔ رودابہ نے صاف صاف نفی میں سر ہلا دیا، اس نے علیزے کو دیکھا تو وہ آنکھیں بند کر گئی۔
”تم دونوں کو شرم آنی چاہیے، کیا مجھے باورچن سمجھ رکھا ہے۔ ہمیشہ میں ہی کچن کا کام کروں۔ چائے کی طلب ہو رہی ہے اب بھی میں ہی جا کر بناؤں۔۔ چلو گرمیوں میں بہانہ تھا گرمی لگتی ہے اب تو اچھی خاصی ٹھنڈ آچکی ہے، چولہے کے پاس جاؤ سکون ملے گا۔“ خوشنما نے شرم دلاتے ہوئے آخر میں دونوں کو لالچ دیا۔
”علیزے کو ٹھنڈ زیادہ لگتی ہے، راستے میں بھی اس کے ہاتھ سردی سے برف ہو رہے تھے، اسے بھیجو۔۔“ رودابہ نے بس اتنا ہی اثر لیا کہ علیزے کی فکر کرنے لگی۔
”مجھے واقعی چائے چاہیے، یا اللہ کوئی بنا دو چائے۔۔ میں سردی سے مر جاؤں گی، اس وقت میری ایسی حالت ہے کہ شوگر مکس کرو تو آئسکریم بن جاؤں۔۔“ علیزے لیٹی ہوئی تھی، صوفے کی بیک میں گھستی روہانسی ہو کر بولی۔
”ارے تو جا کر چائے بناؤ تاکہ اس برف کو پگھلنے کا موقع ملے۔۔“ خوشنما نے اسے صوفے میں گھستا دیکھ کر مشورہ دیا۔ وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بےبسی سے حجاب اتارنے لگی۔ اب واقعی اسے جانا تھا۔ ان تینوں میں سب سے زیادہ کچن کا کام خوشنما کرتی تھی اور سب سے کم وہ خود کرتی تھی۔
رودابہ تو ابھی ضرورت پڑنے پر کچن میں چلی ہی جاتی تھی۔ آج اسے اٹھنا پڑا۔ وہ دونوں اب سکون سے ٹانگیں لمبی کیے صوفوں پر پڑی تھی۔ وہ اٹھ کر کچن میں داخل ہوئی، چائے کے لیے برتن اٹھانے لگی جب فلیٹ کا دروازہ کھول کر زرگل اندر آئی۔ رودابہ اور خوشنما سیدھی ہو کر بیٹھتی اسے دیکھنے لگیں۔
”اوزگل کہاں ہے؟“ اس نے اپنی عادت کے مطابق کھڑے کھڑے سیدھا سوال کیا۔ چادر اور حلیہ بتا رہا تھا وہ بھی ابھی باہر سے آئی ہے۔ اس کی آواز پر وہ بھی کچن سے نکل آئی۔
”کیا ہوا؟“ اس نے زرگل کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی چیک اپ ہوا یا نہیں، ڈاکٹر نے کیا کہا مگر پوچھ نہیں پائی۔
”تمہیں وہاں بلا رہے ہیں، زورک کو تم سے ملنے کا شوق ہو رہا ہے۔“ زرگل نے بےزاری سے کہا تو وہ چونک گئی۔ گردن گھما کر خوشنما اور رودابہ کو دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”میرے بہنوئی آئے ہوئے ہیں ناں، کزن بھی ہیں تو۔۔“ علیزے انہیں وضاحت دے رہی تھی، زرگل کے ماتھے پر بل پڑے۔
”اوہ تم جاؤ، تمہیں خود جانا چاہیے تھا پاگل۔۔“ خوشنما نے جلدی سے کہا۔ مگر وہ کچن کی طرف دیکھنے لگی، اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اس طرح چائے بنائے بغیر ان دونوں کو چھوڑ کر چلی جاتی۔
”تمہیں نہیں ملنا تو بتا دو، اس سے کہہ دیتی ہوں۔ ہم نے کچھ دیر میں ویسے بھی واپسی کے لیے نکل جانا ہے۔ زورک تم سے نہیں ملے گا تو قیامت نہیں آ جائے گی۔“ زرگل اسے متذبذب دیکھ کر تلخی سے بولی اور فلیٹ سے نکل گئی۔ وہ گھبرا گئی۔
”علیزے کیا سوچ رہی ہو، جاؤ ہم چائے بنا لیں گی۔ کپڑے تو تمہارے صاف ہیں، بلکہ یہ سوٹ پیارا ہے۔ چادر اٹھاؤ اور جاؤ۔۔“ رودابہ اور خوشنما نے اسے کہا تو وہ جلدی سے سفید چادر اٹھا کر اوڑھتی وہاں سے نکلی۔
”مجھے لگتا ہے تم نے اوزگل کو آنے کا کہا ہی نہیں ہو گا ورنہ وہ مجھ سے ملنے ضرور آتی۔“ وہ وہاں پہنچی تو زورک اپنے ساتھ بیٹھی زرگل سے کہہ رہا تھا۔
”میں جھوٹ کیوں بولوں گی خان صاحب، آپ کے آنے کا بھی اسے پتا ہے اور۔۔ لیں آ گئی ہے اوزگل۔۔“ زر نے وضاحت دیتے ہوئے اوزگل کو آتے دیکھا تو اطمینان سے بولی۔ زورک نے چونک کر سر اٹھایا۔
”السلام علیکم لالا، میں پہلے ہی سوچ رہی تھی ملنے آؤں گی، ابھی یونیورسٹی سے آئی ہوں ورنہ آپ کو بلوانا نہ پڑتا۔۔“ وہ اسے سلام کرتی خفت زدہ سی وضاحت دے رہی تھی۔
”وعلیکم السلام، میں جانتا ہوں۔۔ تم اس تکلف کو چھوڑو اور یہاں آ کر بیٹھو، سناؤ کیسی ہو اور کیسی گزر رہی ہے زندگی۔۔؟“ زورک خان نرمی اور اپنائیت سے کہتے ہوئے اسے اپنے سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ دے رہا تھا۔ زرگل اکتائی ہوئی سی بیٹھی تھی۔
”زندگی اچھی ہے۔“ وہ صوفے پر اطمینان سے بیٹھتے ہوئے بولی۔ زورک کو مل کر اس کے لبوں پر خوشگوار سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی، کچن سے نکلتے یافث خان نے اس کی مسکراہٹ پوری توجہ سے دیکھی تھی۔ وہ ٹیبل پر لوازمات سجا رہا تھا، گرم چائے بھی لے آیا۔
”یار تم نے اتنا تکلف کیوں کیا، خوامخواہ مشکل اٹھائی۔۔ ہم مردوں کے لیے یوں کچن میں کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں نے تو ملنے کے لیے بلوایا تھا۔“ زورک اسے چائے لاتا دیکھ کر بےساختہ ہمدردی سے بولا۔
جبکہ اوزگل یافث کو دیکھ کر بےچینی سے پہلو بدلنے لگی۔ بلیو ڈریس پینٹ پر پر وائٹ ڈریس شرٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح دراز قدر اور وجیہہ لگ رہا تھا۔ سنہری مائل بال جیل سے سر پر ٹکائے ہوئے تھے۔ سفید بےداغ چہرے پر براؤن گولڈن سی ہلکی ہلکی شیو تھی، سنہری ذہین آنکھیں چمک رہی تھی۔ اس کا حلیہ بتا رہا تھا وہ آفس سے ابھی آیا ہے۔
”میں نے کچھ نہیں کیا، تم لوگوں نے آنے کا بتایا تو میرے پاس جو لڑکا کام کرتا ہے اس نے یہ سب تیار کر دیا تھا۔ میں صرف ٹیبل پر رکھنے کا کام کر رہا ہوں اور میرے خیال میں مرد اتنا تو کر ہی سکتا ہے۔“ یافث اطمینان سے بولتے ہوئے ان کی چائے کے کپ وہیں ٹیبل پر ان کے سامنے کرتا ایک کپ اٹھا کر اس کی طرف آیا۔
”یونیورسٹی سے ابھی آئی ہو تو کھانا بھی نہیں کھایا ہو گا، خالی چائے مت پینا۔۔ ساتھ کچھ لے لو۔۔“ یافث نے اوزگل کے سرد ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے اسے نرمی سے ہدایت دی۔ وہ خاموشی سے سر ہلا گئی مگر وہ اپنا کپ اٹھا کر اسی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اوزگل کے لیے اپنی جگہ سے ہلنا مشکل ہو گیا۔
اس نے نظر اٹھائی تو زرگل کو دیکھ کر چونک گئی۔ وہ چائے لبوں سے لگائے سنجیدگی سے اوزگل کو دیکھ رہی تھی، اس کے دیکھنے پر جتاتے ہوئے انداز میں مسکرائی۔ اوزگل کے پسینے چھوٹ گئے، کیا وہ ان کے رشتے کی نوعیت پہچان گئی تھی؟
”میں تو حیران ہوں جب تم دونوں یہاں رہ رہے ہو تو الگ الگ فلیٹس میں رہنے کی کیا ضرورت ہے، بیوی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھتے۔ وہ وہاں ہے اور تم یہاں۔۔“ زورک وہی بات کر رہا تھا جو ہر ملنے والا حیرت سے سوچتا تھا۔ اوزگل جواب کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈنے لگی تاکہ یافث خان کچھ نہ بولے۔ کیونکہ وہ بولتا تھا تو شرم لحاظ نہیں رکھتا تھا۔
”تم پڑھائی کر چکے ہو، پھر اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔ یہ میرے پاس ہو گی پڑھائی ٹھیک سے نہیں کر پائے۔ ساتھ رہنے والی بیوی کو ہم مرد اتنی سہولت کبھی نہیں دے سکتے کہ وہ صرف پڑھائی کو توجہ دے۔۔“ یافث خان صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے اطمینان سے بولا تو اوزگل کا چہرہ خفت کے مارے سرخ ہوا، اس نے چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے چہرہ چھپایا۔
”تم بات بہت وزنی کرتے ہو۔۔“ زورک خان محظوظ سا قہقہہ لگا کر بولا۔ یافث نے ایک ترچھی نظر پہلو میں بیٹھی اوزگل پر ڈالی۔ سفید چادر میں چھپے ان نرم رخساروں کی سرخی اس کی نظر سے چھپی نہیں رہی تھی۔ زرگل کے لیے اس ماحول میں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا وہ نظر جھکائے چائے کو گھورنے لگی۔
”اوزگل سچ کہوں تو مجھے اب تک سمجھ نہیں آتی تم پڑھ کر کیا کرو گی۔ شادی شدہ لڑکی کی یہ زندگی نہیں ہوتی۔ زرگل کو دیکھو۔۔ اس کے چہرے پر کتنی رونق ہے اور اب تو یہ ماں بننے والی ہے۔“ زورک خان نے زرگل کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیا۔
”تم دونوں کی ایک ساتھ شادی ہوئی ہے اور تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے، اتنی سادہ اور بےرونق تو تم شادی سے پہلے بھی نہیں لگتی تھیں۔ یافث تم نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے، پڑھا کر کیا کرو گے؟ نوکری کرواؤ گے؟“ زورک خان سنجیدگی سے بول رہا تھا۔
اس کے لہجے میں خلوص تھا، اس نے جو بہتر سمجھا بول دیا۔ زر کی نظر بھی اوزگل پر ٹکی تھیں۔ کیا بس یہی وجہ تھی کہ وہ یافث خان کے لیے روتی تڑپتی رہی تھی؟ بس یہی تعلیم چاہتی تھی اور کچھ نہیں؟ خاندان کا بہترین مرد لے کر وہ بس یونیورسٹی کے دھکے کھا رہی تھی عجیب تھی۔ اوزگل تو جیسے اپنی جگہ پر جم گئی تھی۔
”زورک خان ہر انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں۔ میں اپنی بیوی کو پڑھانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے پڑھی لکھی لڑکی بچوں کی پرورش زیادہ اچھے سے کر سکتی ہے۔ تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔ میری ماں پڑھی لکھی ہے، میری بھابھیاں بھی۔۔
پڑھی لکھی عورت نے میری پرورش کی ہے تو مجھے یہ ناانصافی لگتی ہے کہ میں ایسے گھر میں تمام پڑھی لکھی عورتوں میں اپنی بیوی کو ایسے رکھوں کہ وہ صرف ملازمین سے ہی بات کرنے کے قابل رہ جائے۔
اوز تم یہ کھاؤ پھر چائے پی لینا، دوبارہ بن جائے گی۔ “ یافث چائے کا کپ فارغ کر کے رکھتے ہوئے سکون سے بولا اور براؤن کیک کا پیس پلیٹ میں رکھ کر اوزگل کو پکڑاتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کپ لے لیا۔ وہ ساکت سی بیٹھی تھی، اس کے ہاتھ تھامنے پر گڑبڑا کر پلیٹ پکڑ گئی۔
”ہاں سہی ہے، تم لوگوں کی زندگی ہے۔ اپنی مرضی سے گزارو۔۔ زرگل تمہیں ریسٹ کرنا ہے یا جلدی نکلیں؟ سفر سے مسئلہ تو نہیں ہو گا ناں؟“ زورک سر ہلا کر اتفاق کرتا زرگل سے بولا۔ وہ جو یافث کے الفاظ پر ساکن سی بیٹھی تھی، چونک کر زورک کو دیکھنے لگی۔
”مجھے مسئلہ نہیں ہو گا۔ ابھی چلیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے، گاڑی تو آپ نے چلانی ہے۔“ زرگل مسکرا کر بولی۔ زورک مطمئن ہوا۔ یافث صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا فرصت سے اوزگل کو دیکھ رہا تھا جو بہن بہنوئی کی وجہ سے اس کے ہاتھ آئی تھی ورنہ اس نے موقع ملتے ہی بھاگ جانا تھا۔
”پھر ہم ابھی نکلتے ہیں، تم سے پھر ملاقات ہو گی۔ یار تم آتے ہو تو ہماری حویلی کبھی چکر ہی نہیں لگاتے، کبھی آیا کرو، اوز کو اس دن بھی ابا جان یاد کر رہے تھے۔ کبھی ملنے آؤ ناں۔۔“ زورک نے اٹھتے ہوئے ان دونوں سے کہا۔ اوزگل پھیکا سا مسکرائی۔
”کھانا کھا کر چلے جاتے؟“ یافث نے اٹھ کر ملتے ہوئے کہا۔ وہ تو خیر اوزگل کو روکنا چاہتا تھا اور اس کا یہی حل تھا کہ مہمان رکتے۔
”تمہیں پتا ہے راستہ لمبا ہے، اپنے علاقے میں پہنچ کر تو اچھا خاصہ وقت لگ جاتا ہے۔ ہماری حویلی کا پھر جنگل سے راستہ ہے۔ زرگل کے ساتھ ہوتا ہوں تو زرا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دشمنوں کا تمہیں بھی اندازہ ہے۔“ زورک نے آہستگی سے کہا تو یافث سر ہلا گیا۔
”ویسے تو بہت وقت ہے پہنچ ہی جاؤ گے، لیکن کسی وجہ سے شام ہو جائے تو ہماری حویلی چلے جانا، وہ تو نزدیک ہے، رسک مت لینا۔ تمہیں واقعی احتیاط کرنی چاہیے۔“ یافث نے اس کے ساتھ فلیٹ سے نکلتے ہوئے مشورہ دیا۔
”اب چلتی ہوں۔ ویسے تمہارے شوہر نے بہت چالاکی سے بات بدل دی حالانکہ نا میں پاگل ہوں نا زورک خان۔۔ تم دونوں اگر الگ رہ رہے ہو تو کم سے کم آنے جانے والوں کے سامنے ہی میاں بیوی جیسا ڈرامہ کر لیا کرو۔ تمہیں ہمیشہ سے اپنا تماشہ بنوانے کا شوق تھا۔ اللہ حافظ۔۔“ زر نے اوزگل سے ملتے ہوئے تمسخر سے کہا۔
وہ ٹک ٹک کرتی فلیٹ سے نکل گئی۔ اوزگل پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار اسے لگا تھا زرگل نے اسے مخلصی سے سمجھایا تھا۔۔ اس کا لہجہ تمسخر بھرا تھا مگر اس کے الفاظ اوزگل کو باور کروا گئے وہ کتنی بڑی غلطی کر رہی ہے۔ اسے خان بیگم کے الفاظ یاد آئے جو انہوں نے ایک بار یافث کے فلیٹ میں رک کر اوزگل سے ملتے ہوئے کہے۔
(تم دونوں صرف حویلی میں آکر میاں بیوی لگتے ہو شاید اس لیے صرف ایک دن کے لیے ہی آتے ہو۔ تمہاری دی جان کہتی ہیں ابھی ہمیں صرف حاذق اور واثق کے بچوں سے دل بہلانا پڑے گا۔)
انہوں نے سرد آہ بھر کر یہ بات کی تھی، وہ تب بہت شرمندہ ہوئی تھی۔ اب اور بھی زیادہ شرمندہ ہونے لگی۔ سر پکڑ کر غائب دماغ سی وہاں بیٹھی تھی۔ یافث واپس آیا تو اسے بدستور وہیں بیٹھا دیکھ کر چونک گیا۔ اسے لگا تھا وہ جا چکی ہو گی۔
وہ کچن میں گیا اور چکن پلاؤ کی بڑی سی پلیٹ بھر کر اوون میں رکھی، سلاد کا سامان پڑا تھا وہ سلاد تیار کرتا بار بار کچن سے باہر جھانک رہا تھا۔ اوزگل ناجانے کن سوچوں میں گھری ہوئی تھی، سر جھکا ہوا تھا، بال مٹھیوں میں جکڑ کر بیٹھی تھی۔ وہ گرم پلاؤ، رائتہ اور سلاد لے کر باہر آیا۔
”کھانا کھاؤ گی اوز؟ میں نے بھی ابھی نہیں کھایا، زورک کی کال پر چائے کا اہتمام کروانے آفس سے آنا پڑا۔“ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے بولا تو وہ اسی طرح جھکا ہوا سر لیے چادر میں اپنا چہرہ چھپاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ یافث نے اسے پکارا۔
”رکو، یہاں نہیں کھانا تو ساتھ لے جاؤ۔۔ اوز سنا نہیں۔۔“ وہ بولتے ہوئے پلیٹ اس کی طرف بڑھا گیا مگر اس کے نا رکنے پر بےساختہ اس کی کلائی تھام کر روکا اور چونک گیا۔ اس کا ہاتھ لرز رہا تھا۔ یافث نے پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اوزگل کو پکڑ کر واپس صوفے پر بٹھایا۔ اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تو دھک سے رہ گیا، وہ بےآواز آنسو بہا رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے؟ کیوں رو رہی ہو؟“ یافث نرمی سے پوچھنے لگا۔ وہ سر جھکائے روتی رہی۔ اس نے پانی کا گلاس بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پانی کو دیکھ ہی نہیں رہی تھی، ابھی رونا زیادہ ضروری تھا۔
”ڈونٹ ٹیل می تمہیں یہاں آنے پر تو رونا نہیں آ رہا؟“ یافث نے کچھ چونک کر حیرت سے کہا تو وہ اسے سر اٹھا کر گھورنے لگی، کانچ جیسی نیلی آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا۔
”یہ سب آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے، مجھ سب سے باتیں سننی پڑتی ہیں۔ آج تک مجھے اس رشتے سے سکون نہیں ملا۔“ وہ روتے ہوئے مٹھیاں بھنچے اسے باتیں سنا رہی تھی۔ یافث نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
”تمہیں اس رشتے سے سکون حاصل کرنے کے لیے پہلے مجھے قبول کرنا ہو گا۔ تم سے شوہر برداشت نہیں ہوتا لیکن اس سے سکون چاہیے۔“ وہ اپنے مخصوص انداز میں صاف بات بولتا اوزگل کو شرم سے سرخ کر گیا۔
”میرا وہ مطلب نہیں تھا۔“ وہ غصے سے چیخی۔
”اوہ سوری مجھے ہر بات کا ایک ہی مطلب لگتا ہے۔ خیر اس سے بڑا کیا سکون چاہیے، تم تھکی ہوئی ہو۔ کھانا نہیں کھایا۔ سردی لگ رہی ہے تو میں حاضر ہوں۔ چائے تو پلا چکا ہوں، یہ لو کھانا کھاؤ۔۔ مزید نخرہ مت کرنا یہ ٹھنڈے ہو جائیں گے۔“ وہ چاولوں کی پلیٹ اس کی طرف بڑھا گیا۔ اوزگل پلیٹ تھامے غائب دماغ سی چاولوں کو دیکھنے لگی۔
”اور رہی بات تمہاری سردی اور تھکن کی تو میرے کمرے میں ہیٹر آن ہے، بستر بنا ہوا ہے۔ مجھے اب آفس جانا ہے اور حمزہ کو میں پہلے ہی بھیج چکا ہوں۔ کھانے کے بعد جا کر سو جاؤ اور جتنا چاہو آرام کر لو۔۔“ وہ اسے چاول دے کر واقعی اٹھ کھڑا ہوا۔ ہینڈ واچ پر ٹائم دیکھتا اپنا کوٹ اٹھا کر وہاں سے نکل گیا۔

اوزگل ہکا بکا سی بیٹھی رہ گئی تھی۔ کیا اسے لگتا تھا اوزگل کی زندگی میں بس یہی مسائل ہیں؟ کیا وہ بےخبر تھا پورا خاندان ان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟ یا وہ جان کر انجان بن رہا تھا۔ کیوں؟ صرف اس کے ایک وعدے کے لیے؟ اوزگل حیرت زدہ سی بیٹھی تھی۔

ان دونوں بہنوں کا سسرال سمیت اپنے باپ کے پاس کھانا تھا، اوزگل یافث خان کے بغیر ہی آئی تھی، جیسے اس کے بغیر زرگل کے ولیمہ پر گئی تھی۔ باقی سب بھی وہاں موجود تھے۔ وہ اور زرگل ایک طرف صوفے پر خاموش بیٹھی تھیں۔
ایک دن پہلے ہی زرگل کے ولیمہ پر دونوں مل چکی تھیں، چمکتے دمکتے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ سجائے سب سسرال والوں میں گھری زرگل اکیلی ہوئی تو اوزگل اس سے ملی تھی۔ ہلکے پھلکے کام والے لباس میں نہایت لائٹ سا میک اپ کیے وہ ہمیشہ کی طرح لوگوں کی توجہ سمیٹ رہی تھی، زرگل نے بغور اسے دیکھا تھا۔
”کیا تم خوش ہو؟“ اوزگل نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔
”کیوں تمہیں نظر نہیں آرہا؟ میں خوش نہیں لگ رہی؟ اپنا پھیکا چہرہ دیکھو اور مجھے دیکھو۔۔ کیا تم خوش ہو؟“ زرگل نے بولتے ہوئے طنزیہ لہجے میں سوال دہرایا۔ اوزگل نے بےاختیار اس کا چہرہ دیکھا۔
”ہاں خوش ہوں۔ اب ضروری تو نہیں تمہاری طرح بےشرمی سے سب کو شرما کر مسکراتا دکھاؤں کہ لوگوں کو یقین ہو میری بھی شادی ہوئی ہے۔“ اوزگل نے اس کے طنز پر منہ بنا کر جواب دیا۔
”چوری پکڑے جانے پر تم ہمیشہ ایسے ہی بھڑکتے ہوئے جملے بول کر مجھے چپ کروانے کی ناکام کوشش کرتی ہو۔ جیسے میں تمہیں جانتی نہیں۔“ زرگل اسے واقعی جانتی تھی اس لیے اس کے جملے پر ضبط کر کے بولی۔
”تم کچھ بھی کہو، خیر منہ دکھائی میں کیا ملا؟“ اوزگل نے اکتا کر بات بدلی۔ یافث خان پر شدید غصہ آیا تھا جو شادی کے اگلے دن شہر چلا گیا تھا۔
”یہ کنگن پہنے ہوئے ہیں۔۔ آنکھیں استعمال کرو۔۔“ زرگل نے نخوت سے اپنا مہندی بھرا ہاتھ جھٹکا جس میں کنگن پہنے ہوئے تھے۔
”وہ تو مجھے بھی پہنائے گئے ہیں، خاندانی کنگن، خاندانی زیور اور سسرال والوں کا تحفہ الگ ہوتا ہے، شوہر کا دیا تحفہ الگ بات ہے۔“ اوزگل کو بہت دیر کے بعد ایک چیز مل گئی تھی جس پر وہ نخرہ دکھا سکتی تھی۔ زرگل ٹھٹک گئی۔ اوزگل نے اپنے گلے میں پہنا نفیس سا ڈائمنڈ لاکٹ اس کے سامنے کیا۔
”چلو شوہر کی محبت نہیں ملی تو منہ دکھائی سہی۔۔“ زرگل نے ناک چڑھا کر کہا۔ اوز کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ کسی رشتہ دار عورت سے مل کر فارغ ہوتی ان کی ماں متوجہ ہوئی۔
”تم دونوں کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا، یہ کیسی باتیں کر رہی ہو دونوں۔۔ شادی ہو گئی ہے دونوں کی لیکن ابھی تک بچوں کی طرح لڑائی اور طنز۔۔ زرگل چپ کر کے بیٹھو اور اوزی تم یہاں آکر بیٹھو۔۔ بےشرم لڑکیاں۔۔“ بیگم ثمر نے دانت کچکچا کر دونوں بیٹیوں کو گھورا۔
”اسے کہہ دیں مجھے سسرال میں ایڈجسٹ ہونے دے، اگر یہ اور اس کا شوہر مجھے نظر آئے تو ان دونوں کی خیر نہیں ہو گی۔ میں کل اس کے ولیمہ پر نہیں گئی پھر بھی یہ آ گئی ہے۔“ زرگل نے ماں کے دوسری طرف بیٹھتی اوزگل کو دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔
”زرگل، تمہیں شرم نہیں آرہی؟“ بیگم ثمر کو اس کا انداز پریشان کر گیا۔ انہوں نے بےساختہ اوزگل کو دیکھا جو سر جھکائے لب کاٹ رہی تھی، آنکھوں میں پانی تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں۔ شاید انہیں پہلے ان دونوں کو بیس اکیس سال کی عمر تک پہنچنے دینا چاہیے تھا۔ شاید دونوں میچور ہو جاتیں۔
اس کے اگلے ہی دن آج وہ دونوں پھر سے اپنے باپ کی حویلی میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھی تھیں مگر اس بار دونوں خاموش رہیں۔ حال احوال بھی نہیں لیا تھا۔
زرگل نے چور نظروں سے اوز کو دیکھا۔ اسے خوف تھا کسی روز اگر یافث خان زادہ یا اوزگل نے زورک خان کے سامنے اس کے کرتوت کھول دئیے۔
اگر بتا دیا کہ زرگل تو یافث خان کے لیے روتی رہی تھی تو اس کی فینسٹی جیسی زندگی کا دی اینڈ ہو جائے گا کیونکہ فی الحال زورک خان بہت کھلے دل کا لگ رہا تھا مگر وہ کھلے ظرف کا بالکل نہ تھا۔ اسے وہ پہلے دن ہی وارن کر چکا تھا اس کے علاوہ زرگل کسی کو نا سوچے اور ایسا تب ہی ممکن تھا جب وہ یافث خان کا سامنا نہ کرتی۔۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Comment (1)

  • January 2, 2025

    Kinza Arif

    Wow nice epi to ye sb kuch krne wali zrgul hai zrgul abhi bhi sch nehi bta rahi kitni burri hai na ozgul ko abhi bhi bdguman rkha hua hai wese epi zbrdst hai

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!