Wednesday, January 8, 2025
HomeEpisodic NovelsWo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 10 Complete

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 10 Complete

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط دس

صبح کا اجالا پھیلا تو یافث خان کروٹ بدلتا آنکھیں کھول گیا۔ گلاس وال سے آتی تیزی روشنی پر اٹھ کر بیٹھ گیا، سنہری مائل بکھرے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے سیٹ کیا تو سرخی میں ڈوبی سنہری آنکھیں بےاختیار صوفے کی جانب گئیں۔ پوری رات جب اس کی آنکھ کھلی اس نے صوفے کی جانب دیکھا تھا اور ہر بار دیکھ کر اس کا دل الگ طرز سے دھڑکتا تھا۔ وہ اس کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی، اس کے کمرے کی مکین بن چکی تھی۔ وہ نرمی سے مسکرایا۔
وہ سجا سنورا نازک وجود بےترتیبی کا شکار ہو رہا تھا۔وہ اٹھ کر اس کے سر پر پہنچا اور اسے دیکھنے لگا۔ وہ رات والے حلیہ میں تھی، وہی میک اپ میں نمایاں ہوتے نرم دلکش سے نقوش، لانبی پلکیں، سرخ نیم وا لب اور ننھی سی ناک۔۔ سلکی بال اب کچھ بےترتیب ہو رہے تھے۔ ایک بازو زمین کی طرف لٹکا ہوا تھا، ایک بازو آنکھوں پر رکھا تھا۔ بلینکٹ سینے سے بس پیٹ تک ہی ٹکا ہوا تھا باقی حصہ نیچے پڑا تھا۔
اس کی حالت اتنی بےآرامی بھری تھی کہ یافث کا دیکھ کر ہی سر چکرانے لگا۔ کانچ کی چوڑیاں بھی کچھ ٹوٹی ہوئی صوفے کے قریب نیچے پڑی تھیں۔ اب ناجانے ان چوڑیوں سے وہ بھی زخمی ہوئی تھی یا نہیں۔۔ دروازے پر اچانک دستک ہوئی تو یافث سٹپٹا گیا۔ ملازمہ ہو یا حویلی کا کوئی فرد۔۔ اندر آ کر بیمار دلہن کو صوفے پر آڑھا ترچھا سویا دیکھ لیتے تو یافث خان کی عزت خاک میں مل جاتی۔
”اوزگل اٹھ کر بیڈ پر سو جاؤ۔۔ اوزگل۔۔“ یافث نے جھک کر سرگوشی میں پکارا، اس کے بازو کو تھام کر سینے پر رکھتے ہوئے چونک گیا۔ وہ آگ کی طرح تپ رہی تھی۔ یافث نے مسلسل ہوتی دستک پر ایک نظر دروازے کی سمت دیکھا اور پھر ایک دم اوزگل کے بےترتیب نازک وجود کو اپنی بانہوں میں بھر کر اٹھاتے ہوئے بیڈ کی جانب بڑھا۔ اسے اپنی جگہ پر سلا کر اس پر بلینکٹ سیٹ کیا۔
”آتا ہوں پلیز ویٹ۔۔“ اس نے دروازے کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا تو ایک دم خاموشی چھا گئی اور اس کے بعد دوبارہ کوئی دستک نہیں ہوئی۔ اس نے گہرا سانس بھر کر کمرے میں نظر دوڑائی۔ سرخ گلابوں سے کمرہ پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ بیڈ تو ایک طرف اس کے قریب نیچے قالین پر اور ڈریسنگ ٹیبل پر بھی سرخ گلابوں سے سجاوٹ کی ہوئی تھی۔ اس کی سیج بھی گلابوں سے بنائی گئی تھی۔ مگر آنے والی پر کچھ اثرانداز ہی نہیں ہوا تھا۔
نظر گھماتے ہوئے اس نے صوفے پر بکھری چوڑیاں دیکھیں تو خجل زدہ سا ہو گیا۔ جھک کر وہ چوڑیاں اپنی ہتھیلی پر سمیٹ کر ڈسٹ بن میں ڈالیں اور پھر اوزگل کو دیکھا۔ وہ جانتا تھا دروازہ کھولا تو سب پہلے اوزگل کو دیکھنے آئیں گے۔ جتنی علی زئی حویلی کو اس سے محبت تھی، حویلی کے بڑوں کی تو رات بھی مشکل سے گزری ہو گی۔ وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اپنا سادہ سا لباس اٹھاتا واش روم میں گھس گیا۔
فریش ہو کر آیا تو اس کی توقع کے عین مطابق اوزگل جاگی ہوئی تھی۔ خان بیگم اور دی جان اس کے ارد گرد بیٹھی تھیں۔ حاذق کی بیوی زیبا اور واثق کی بیوی ژالے بھی کمرے میں آئی ہوئی تھی۔ ان دونوں نے ہی اوزگل کو سنبھال کر اسے بھاری زیورات اور کانچ کی چوڑیوں سے آزاد کیا تھا۔ وہ نڈھال سی بخار سے سرخ چہرہ لیے پڑی تھی۔ یافث ان کو سب کو سلام کرتا کمرے سے نکل گیا۔ اسی وقت ثمر خان اور بیگم ثمر پہنچ گئے۔
”لالا نے منع کیا تھا ناشتہ وغیرہ لانے جیسی کوئی رسم نہیں کرنی، اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، یہ اوزی کے آغا جان کی حویلی ہے۔ ہم خان حویلی گئے تھے، زرگل سے ملنے۔۔ واپسی پر سوچا اوزی کا حال احوال لے لیں، کل اسے بخار ہو رہا تھا۔ اب ٹھیک ہے ناں؟“ ثمر خان نے ان سے ملتے ہوئے وضاحت دی اور پھر یافث سے پوچھا۔
”طبیعت تو ٹھیک نہیں ہوئی کیونکہ رات سب کے کہنے پر بھی اس نے نا کچھ کھایا پیا نا میڈیسن لی۔“ یافث صاف گوئی سے بولا۔ ثمر خان پریشان ہوئے۔
”اوزگل کبھی اتنی ضدی نہیں تھی، اب تو کچھ سمجھاتے رہو کان بند کر لیتی ہے۔“ ثمر خان نے بےچارگی سے بڑے بھائی کو دیکھا تو وہ ہنس پڑے۔
”فکر کیوں کرتے ہو، تھکن سے بیمار ہو رہی ہے۔ شادی کی مصروفیت ختم ہو گی تو آرام آ جائے گا۔“ امروز خان نے تسلی دی اور ثمر خان کو ساتھ لے کر یافث کے کمرے میں گئے۔ اوزگل میک اپ صاف کر کے سادہ لباس پہن چکی تھی۔ بیگم ثمر بچے کی طرح اسے سینے سے لگائے بیٹھی تھیں۔
”خان حویلی سے ہو کر آ رہے ہو ناں؟ زرگل ٹھیک تھی؟“ دی جان آہستگی سے پوچھنے لگیں۔ خان بیگم بھی وہیں بیٹھی پھل کاٹ کر اوزگل کو کھلا رہی تھیں۔
”ہاں زورک نے سنبھال لیا ہے۔ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ ہم گئے تو سب کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی۔ مزاج تو ظاہر ہے نہیں بدلا، میں نے کہا پہلے تمہارے پاس آئے ہیں ابھی اوزی کو دیکھا ہی نہیں تو منہ بنا کر مجھے کہتی ہے آپ لوگوں نے تو رخصت بھی پہلے مجھے کیا تھا تاکہ بعد میں اطمینان سے اپنی اوزگل کو ملتے رہیں۔“ بیگم ثمر مسکراتے ہوئے بتا رہی تھیں۔
”چلو اچھا ہی ہے، زورک خان سلجھا ہوا مرد ہے۔ بیوی کو پیار دے گا تو ناز نخرہ دکھائے گی۔ جہاں تک بات ہے بلاوجہ غصہ کرنے کی تو مرد اپنے طریقے سمجھا لیتے ہیں۔“ دی جان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ اوزگل سائیں سائیں ہوتے سر کے ساتھ ان کے درمیان چپ کر کے پڑی تھی۔ بیگم ثمر جلدی واپس چلی گئیں، پھر ولیمہ پر بھی آنا تھا۔ یافث اور اوزگل کا تو اسی روز ولیمہ تھا جبکہ خان حویلی والوں نے اگلے دن ولیمہ رکھا تھا۔
جب تک ژالے کو بیوٹیشن تیار کر رہی تھی، تب تک خان بیگم اوزگل کو سلا کر کمرہ بند کر کے چلی گئیں۔ تاکہ ولیمہ کے لیے تیار ہونے سے پہلے وہ کچھ دیر آرام کر لے۔ یافث خان اپنا موبائل اٹھانے کے لیے کمرے میں آیا تو بیڈ پر سکڑی سمٹی اوزگل کو سوتا دیکھ کر رک گیا۔ رات کی نسبت وہ بہت آرام دہ حلیہ میں بیڈ پر سکون سے سوئی ہوئی تھی۔ اس نے گٹھڑی بنا دیکھ کر آہستگی سے اس پر بلینکٹ سیٹ کیا۔

اس کے رخسار کو آہستگی سے چھوا تو بخار جوں کا توں تھا۔ یافث نے سائیڈ ٹیبل کے ڈرار سے مخملیں کیس نکالا اور اوزگل کے سرہانے رکھ دیا۔ وہ لاکٹ اس نے خود شہر جا کر اس کے لیے پسند کیا تھا، سونے کی نہایت نفیس باریک چین میں ننھا سا ہیرا ڈالا ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا اس کے دینے پر وہ کبھی قبول نہیں کرے گی۔ شاید اکیلے میں دیکھ کر اپنی عزت رکھنے کے لیے پہن لے۔

وہ تینوں ہنستی مسکراتی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر رات کا کھانا کھا رہی تھیں۔ اچانک ڈور بیل پر خوشنما اور رودابہ نے بےساختہ علیزے کو دیکھا تو وہ لب کاٹتی دروازے کو دیکھنے لگی۔ ان کے فلیٹ میں علیزے کے خاندان کے علاوہ تو کوئی نہیں آتا تھا۔ پہلے یافث کا کام کرنے والا لڑکا حمزہ آتا رہتا تھا اب تو کچھ ٹائم سے اسے یافث خان نے روک دیا تھا۔
”میں دیکھتی ہوں۔“ خوشنما دروازے پر جانے لگی تو کچھ سوچ کر علیزے نے اسے روکا اور اٹھ کر خود دروازے پر گئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے زرگل شیشوں والی نفیس سی چادر اوڑھے بےزار سی کھڑی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اسے سائیڈ پر ہٹا کر اندر داخل ہوئی۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔
”تم یہاں کیوں آ رہی ہو، میں نے تمہیں کہا تھا ناں اپنے شوہر کے پاس رہنا۔۔“ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے جتاتے ہوئے لہجے میں بولی تو زرگل کے رک کر پلٹتے ہوئے بغور اسے دیکھا اور پھر اس کے عین سامنے آ کر رکی۔
”اوزگل میرا ضبط آزمانے کی کوشش مت کیا کرو۔۔ تم اچھے سے جانتی ہو زورک خان یہاں تمہارے شوہر کے فلیٹ میں رکے گا۔ میں اس کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ میں تمہارے شوہر کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔“ زرگل لفظ چبا چبا کر تنفر سے بولی تو وہ اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔
”میرا کمرہ کون سا ہو گا؟“ وہ آگے بڑھتے ہوئے گردن اکڑائے پوچھ رہی تھی۔ خوشنما اور رودابہ ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگیں۔ وہ بالکل علیزے جیسی تھی، وہی شفاف دودھیا رنگت، ویسے ہی نازک نقوش مگر اس کے چہرے پر تیکھا پن تھا اور علیزے کی نسبت اس کی آنکھیں سنہری تھیں۔ وہ سجی سنوری ان کے سامنے تھی، اس کے بالکل ساتھ کھڑی علیزے کا سادہ رف سے حلیہ میں تھی اور چہرہ کسی بھی آرائش سے پاک تھا۔
”یہ روم ہے۔“ علیزے اپنی دونوں دوستوں کی حیرت کے دوران ہی زرگل کو کمرے میں بھیج دینا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ دونوں ملنا چاہیں گی اور زرگل صاف نظر انداز کر جائے گی۔ اس کے بتانے پر زرگل اس کے کمرے کی طرف بڑھی پھر دروازے کے قریب رک کر علیزے کو دیکھا۔
”کچھ کھانے پینے کا ہے تو لا دو، زورک خان تو ہوٹل میں کھانا کھانے کو حرام سمجھتا ہے۔ پچھلے دنوں بارشوں کی وجہ سے علاقے کا راستہ خراب ہو رہا تھا آتے آتے اتنی رات ہو گئی ہے۔ اب بھوک سے میرا برا حال ہے۔“ وہ چادر اتار چکی تھی۔ اپنے سلکی سنہری بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اکتا کر بولی اور کمرے میں چلی گئی۔
اس نے گہرا سانس بھر کر ان دونوں کو دیکھا جو زرگل سے اچھی خاصی مرعوب لگ رہی تھیں۔
”ہمیں تو لگا تھا تم ون اینڈ اونلی ہو مگر تمہاری بہن بھی تمہاری جیسی حسین ہے۔ کیا گھول کر پیتے ہو تم لوگ۔۔ اتنا حسن بھرا پڑا ہے۔ تم پٹھان لوگ سارے ایسے ہوتے ہو؟ ایک وہ سامنے والا یافث خان ہے افف۔۔“ رودابہ نے افف پر بریک لگاتے ہوئے یافث خان کا نام لینے پر گڑبڑا کر علیزے کو دیکھا جو بےچینی سے لب کاٹتی کسی اور سوچ میں گم تھی۔
”سنو وہ جو۔۔ سامنے والے حمزہ کے سر نے۔۔ وہ جو آج سامان لا کر دیا تھا، واپس کر دیا تھا کیا؟“ علیزے نے ان کے قریب ہو کر رازداری سے پوچھا تو چہرہ خفت زدہ ہو رہا تھا۔
”نہیں، ہم نے کچن میں رکھ دیا تھا۔ دیکھو تم پھر سے ناراض مت ہونا لیکن ہم سے نہیں ہوئی رزق کی بےقدری اور فکر مت کرو جب وہ چلا گیا تب ہم نے سامان اٹھایا۔۔ اسے یہی لگے گا کسی اور نے چرا لیا ہے۔“ خوشنما نے صاف گوئی سے کہا تو وہ ایک دم مطمئن ہوئی۔
”دکھاؤ زرا اس میں کیا کیا ہے۔۔ میری بہن ناجانے کب تک رہے گی۔ وہ بہت نخریلی ہے، مہنگا کھاتی ہے اور گھر کا کھانا اسے زرا کم ہی اچھا لگتا ہے۔ اس کا پیٹ بھرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔“ علیزے کے کہنے پر وہ دونوں پرجوش سی کچھ کی طرف بھاگیں۔ شام سے سامان چھپا رکھا تھا کھول کر دیکھا ہی نہیں تھا اس میں ہے کیا کیا۔۔
تینوں کچن بند کر کے سامان کے لدے شاپرز اٹھا کر کچن کے وسط میں رکھ گئیں اور پھر کھول کر دیکھنے لگیں۔ سب سے پہلے تو وہی دودھ کے بڑے بڑے پیکس نکلے، براؤن کیک کے ڈبے تھے۔ انڈوں کا کریٹ، چیز، بریڈ، جیم، بٹر۔۔ پیک کیا ہوا قیمہ، گوشت اور فریز کیے ہوئے کباب۔۔ نوڈلز اور میکرونی کے علاوہ بھی ایسی بہت سی اشیاء جو ان کے کام آ سکتی تھیں۔
”اوہ۔۔ کام بن گیا۔ خوشنما تم لوگوں نے بھی اگر کچھ کھانا ہے تو اچھا سا بنا لو پلیز۔۔ میری بہن بھی کھا لے گی۔“ علیزے نے خوشنما سے درخواست کی کیونکہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ کوکنگ کی شوقین اور ماہر بھی تھی۔ آس نے سر ہلا کر قیمے کا ایک پیک اور میکرونی کا پیکٹ اٹھا لیا۔
”علیزے سچ سچ بتاؤ، یافث خان کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟ وہ پہلے سے جانتا تھا تمہاری بہن آ رہی ہے اور اس نے ضرورت کا ہر وہی سامان پہنچا دیا جو آج تمہارے کام آ رہا ہے۔ سچ بتاؤ کیا لگتا ہے وہ تمہارا؟“ رودابہ نے سنجیدگی سے سوال کیا تو خوشنما بھی تجسس سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ براؤن کیک کے ڈبے دیکھ رہی تھی۔
”وہ فسٹ کزن ہیں۔ میرے آغا جان کے بیٹے۔۔“ وہ آہستگی سے بولی تو وہ دونوں حیران ہوئیں۔
”اوہ مائی گاڈ۔۔ یعنی تم دونوں کزنز۔۔ اسی لیے وہ بےچارا تمہارا خیال رکھتا ہے۔ ایک تو بلڈنگ اس کے باپ کی، فلیٹ اس کا اور فلیٹ میں رہنے والی بھی اس کی کزن۔۔ ہم اس سے خوامخواہ الجھتی رہیں کہ وہ فلیٹ میں کیوں آتا ہے۔ ہم دونوں کو تو یہ شک بھی ہو گیا تھا کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے۔“ خوشنما سر پکڑ کر بول رہی تھی۔ وہ خاموشی سے بیٹھی رہی۔
”سنو کیا وہ انگیجڈ ہے؟ یا میریڈ ہے؟“ رودابہ نے تجسس سے پوچھا تو وہ بےساختہ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”وہ میریڈ ہے رودابہ۔۔“ اس کا لہجہ سنجیدہ ہو گیا۔ رودابہ نے آہ بھر کر سامان سمیٹنا شروع کر دیا، فریج میں رکھنے کا سامان فریج میں رکھا اور باقی سب چیزیں کیبنیٹس میں۔۔ وہ خود کھانا بننے تک عشاء کی نماز پڑھ آئی۔ زرگل کے لیے گرم گرم میکرونی لے کر گئی تو وہ اسی کا انتظار کر رہی تھی۔
اسے ٹرے پکڑا کر وہ بےاختیاری میں اسے دیکھنے لگی۔زرگل ہر گزرتے دن کے ساتھ خوبصورت ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا سجا سنورا دبلا سا سراپا صاف ظاہر کرتا تھا کہ زورک خان نے اسے بہت چاہ سے رکھا ہوا تھا۔
”سر پر کھڑی گھور کیوں رہی ہو؟“ زرگل نے لذیذ قیمے والی میکرونی کھاتے ہوئے اوزگل کو دیکھا۔
”تم شہر کیوں آئی ہو؟ اور کتنے دن رہو گی؟ زورک پہلے تو کبھی نہیں لایا تمہیں شہر۔۔“ اس نے سنجیدگی سے سوال کیا۔ زرگل نے ان کے درمیان بہنوں جیسا تعلق تو رہنے ہی نہیں دیا تھا کہ وہ اچھے ماحول میں بیٹھ کر اس کی خیر خیریت پوچھتی۔ وہ سرد مزاج سی تھی تو اوزگل بھی اجنبی بن گئی تھی۔
”کیوں مجھے دیکھ کر تکلیف ہو رہی ہے؟ تمہیں بہت اطمینان ملتا ہو گا زورک خان مجھے اپنی حویلی میں بند رکھتا ہے اور تم یہاں عیش کر رہی ہو۔۔ یہی سب تو تم چاہتی تھیں۔“ زرگل تلخ لہجے میں بولی تو وہ لب بھنچ گئی۔
”میں نے زورک خان سے کہا بھی تھا ہوٹل میں رہ لیتے ہیں یا ان کا شہر والا گھر بھی ہے لیکن نہیں، شہر والے گھر میں اس کے اور کزن بھی رہتے ہیں اس لیے صاف انکار کر دیا۔ اور اسے یہ بھی غلط فہمی ہے کہ ہم دونوں بہنیں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ترس رہے ہوں گی، اس لیے یہاں لے آیا۔۔
اب اسے کیا پتا میری بہن تو۔۔۔ خیر فکر مت کرو ہم شاید دو دن رہیں، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ چیک کروانے آئی ہوں، پھر واپس ہی چلے جانا ہے۔“ زرگل طنزیہ بولتے بولتے رک گئی تھی۔ وہ اس کے آخری جملوں پر چونک گئی۔ ناچاہتے ہوئے بھی فکر ستائی تھی۔
”کیا ہوا تمہاری طبیعت کو؟“ اس نے بےاختیار سوال کیا تو زرگل نے رک کر اسے دیکھا پھر تمسخر سے مسکرائی۔
”تمہیں میں بیمار لگ رہی ہوں؟ نہیں ناں؟ شادی شدہ ہوں، ظاہر ہے میں ماں بننے والی ہوں اور زورک اسی لیے احتیاطی طور پر چیک اپ کے لیے مجھے لایا ہے۔“ زرگل کے الفاظ پر وہ اسے دیکھنے لگی۔ چمکتا دمکتا چہرہ لیے زرگل طمانیت اور تفاخر سے بول رہی تھی۔ اس کا دل خالی ہونے لگا۔
”تم سناؤ، شادی تو تمہاری بھی ہوئی تھی لیکن تم دونوں جسے الگ الگ رہتے ہو اور پھر تمہارا یہ حلیہ۔۔ تم تو وہی سترہ سال کی اوزگل لگتی ہو جسے پڑھنے کا شوق تھا۔ شادی کے ایک سال بعد بھی وہیں کھڑی ہو۔۔ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے تم دونوں میں طلاق ہو گئی ہے۔“ زرگل اپنے مذاق پر قہقہہ لگا کر ہنسی۔ اوزگل کا چہرہ سرخ ہوا۔
”میں نے تمہیں بتایا تھا اوز۔۔ یافث خان شادی پر راضی نہیں تھا۔ اس نے میرے سامنے خود اعتراف کیا تھا، اسے آغا جان نے مجبور کیا ہو گا اس لیے شادی کر لی۔ اگر وہ راضی ہوتا تو آج تم ایسے اجڑی ہوئی نا لگتیں۔۔ مجھے ہی دیکھ لو پہلے دن سے زورک خان نے مجھے کسی اور کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ اس کا بس نہیں چلتا مجھے خود سے دور نا کرے۔
مرد کی محبت تو ایسی ہی ہے، حق جتاتے ہیں، اپنے نام کی مہر لگاتے ہیں اور اپنے علاوہ کسی خیال یا شوق میں پڑنے نہیں دیتے۔ اور یہاں تمہیں پڑھایا جا رہا ہے، وہ بھی خود سے دور رکھ کر۔۔ عجیب رشتہ ہے۔ خیر تم دونوں کی مرضی۔۔“
زرگل بولتی چلی جا رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ جم گئی۔ کمرے سے نکلنا چاہتی تھی، زرگل جو چپ کروانا چاہتی تھی مگر نا ہل سکی نا بول سکی، زبان گنگ ہو گئی تھی اور جسم سے جان تو جیسے نکل چکی تھی۔
”کیا تم۔۔ تم آج بھی یافث خان کو چاہتی ہو؟ اور کیا وہ بھی؟“ اس کے لبوں سے بےساختہ سوال نکلا تھا۔ زرگل چونک کر اسے دیکھنے لگیں پھر تنفر سے سر جھٹکا۔
”میں اب زورک کے علاوہ کسی کو نہیں سوچتی اور تمہارا شوہر کیا سوچتا ہے میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں ہے۔ زرگل اتنی گری پڑی نہیں ہے کہ ساری عمر کسی کے پیچھے بھاگے۔۔“ اس کے زخمی لہجے میں ہی ہار کا رنگ نمایاں ہو گیا تھا۔ اوزگل نے اسے دیکھا اور اس کی غصیلی آنکھوں میں سب پڑھ لیا۔
پہلی محبت اور وہ بھی چھوٹی عمر کی محبت اور پھر وہ محبت لڑکی کرے۔۔ ساری عمر وہ اپنے گھر بار میں گم ہونے کے بعد بھی دل میں کہیں اس محبت کو یاد ضرور رکھتی ہے۔ زرگل بھی واقعی خوش تھی، بناؤ سنگھار کیے۔۔ صحت مند اور مسکراتی دمکتی صورت لیے۔۔ زورک خان کے سنگ خوش رہتی تھی۔

مگر جب یافث خان کا زکر ہوتا تھا، زرگل کی مسکراہٹ رنگ بدل لیتی تھی۔ اس کا دمکتا چہرہ غصے سے سرخ ہو جاتا تھا۔ اگر اوزگل اس لمحے پوچھ لیتی تمہیں غصہ کس بات پر ہے؟ خوش ہو تو یافث خان پر غصہ کیوں رہتا ہے۔ اسے یقین تھا زرگل کبھی کچھ بول نہ پاتی مگر وہ پوچھ نہیں پائی اور پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔

ولیمہ میں اوزگل تمام وقت سست اور خاموش رہی تھی مگر یافث نے اس کی ہنس جیسی لمبی شفاف گردن میں چمکتی ہوئی نفیس سنہری چین دیکھ لی تھی، وہ سکون سے مسکرایا۔ یعنی وہ قیمتی تحفہ اپنے مالک کے پاس پہنچ چکا تھا۔ دی جان نے اپنے کنگن اتار کر اسے پہنائے۔
”خاندانی کنگن تو زیبا کے حصے میں آئے، ژالے کو بہو نے اپنا ہار پہنایا تھا۔ میں یہ بھاری کنگن چھپا کر رکھتی تھی، یہ مجھے میری ماں نے دئیے تھے۔ میں اپنی شادی کے بعد پہن کر رکھتی تھی تو سب رشک سے دیکھتے تھے۔ خالص سونے کے بنے اتنے بھاری کنگن ہیں۔ پھر جب تمہارا رشتہ یافث خان زادہ سے ہوا تو میں نے تمہارے لیے رکھ دئیے تھے۔“
دی جان اسے اپنے بھاری کنگن پہناتے ہوئے بتا رہی تھیں، اوزگل کو اپنی نازک کلائیوں میں ان کا وزن صاف محسوس ہوا تھا، ایسا لگا جیسے ہتھکڑی پہنا دی ہو۔ دی جان کی خاطر اس نے خاموشی سے پہن لیے، کمرے میں جا کر یقیناً اتار دیتی لیکن۔۔۔
”اب یہ اتارنا نہیں، تمہاری کلائیاں سونی نظر نا آئیں مجھے۔۔“ وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر بولیں تو اوزگل بوکھلا گئی۔ پھر سارا وقت ان کنگن کی وجہ سے گود میں ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی تھی۔
زرگل ان کے ولیمے پر نہیں آئی۔ خان حویلی کے باقی افراد آئے تھے۔ خاندان تو ایک ہی تھا، قریبی رشتے داری تھی مگر زرگل کو شاید اپنی عزت سے بڑھ کر کچھ عزیز نہیں تھا۔ ان کی ممانی سٹیج پر اوزگل کے پاس آکر باقاعدہ معذرت کرنے لگیں۔
”زرگل بھی ضرور آتی لیکن اچانک سر میں درد پڑ گیا، وہ دوا لے کر سو گئی۔ زورک خان نے خاص طور پر تمہیں معذرت بھیجی ہے۔ کہہ رہا تھا مورے اوزی کو ضرور بتانا زرگل کی مجبوری تھی ورنہ اسے بہت افسوس ہو گا اس کی اکلوتی بہن ولیمہ پر نہیں آئی۔“ اوزگل نے لبوں پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر معذرت قبول کی۔
وہ زرگل کی بہن تھی، اسے خوب جانتی تھی کہ اس نے علی زئی حویلی میں ولیمہ پر آنا گوارا نہیں کیا۔ وہ عمر میں چھوٹی تھی مگر اس کی انا بڑی عمر کے لوگوں سے بھی کہیں زیادہ بلند تھی۔ اسے افسوس تو واقعی ہوا تھا یعنی شادی کے بعد بھی زرگل وہ ازلی دشمنی برقرار رکھنے والی تھی۔ ایک دم اس کا دل ہر شے سے اکتا گیا تھا۔
اس کی طبیعت کی وجہ سے زیادہ دیر کسی نے بیٹھنے نہیں دیا، خان بیگم نے کچھ دیر میں اسے ملازماؤں کے ساتھ کمرے میں بھیج دیا۔ وہ کمرے میں جاتے ہی تھکن زدہ سی بیڈ پر گر گئی۔ ملازماؤں نے اسے بستر پر ٹھیک سے سلایا۔
”زرا ان زیورات کو اتارنے میں مدد کرو اور میرے بالوں کو کھول دو، جوڑے میں لگی پنیں چبھ رہی ہیں مجھے۔۔“ اس نے نقاہت بھری آواز میں کہا تو ملازمائیں ہونق سی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں۔ ولیمہ تو ابھی باقی تھا۔ اسے کچھ دیر آرام کے لیے بھیجا گیا تھا مگر دور سے آئے خاص مہمانوں نے ابھی اس سے ملنا تھا اور وہ ہار سنگھار سے جان چھڑوانے کی کوشش میں تھی۔
”سنا نہیں ہے کیا۔۔۔ میں نے کہا یہ زیورات۔۔“ اوزگل ان کو بت بنا دیکھ کر چڑچڑے لہجے میں بول رہی تھی جب یافث خان کمرے میں آیا۔ ملازمائیں تو اسے دیکھتے ہی رفو چکر ہو گئیں۔ اوزگل مٹھیاں بھنچ کر کروٹ بدلتی بازو میں چہرہ چھپا گئی۔ ملازماؤں پر شدید غصہ آیا تھا جو اس کے کہنے کے باوجود مدد کیے بنا بھاگ گئی تھیں۔
”تم جیولری کی وجہ سے انکمفرٹیبل ہو تو میں مدد کر دیتا ہوں، چینج کر کے ریلیکس ہو جاؤ۔۔“ یافث نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرمی سے کہا تو وہ کھسک کر دور ہوتی مزید تکیے میں منہ چھپانے لگی۔ وہ اس کے چھپنے پر اس کی طرف جھکا۔
”تم مجھ سے چھپ کیوں رہی ہو؟ تمہیں ڈر ہے تمہیں دیکھ کر میری نیت بدل جائے گی؟“ وہ مسکراہٹ دبا کر سوال کر رہا تھا۔ اسے اپنے قریب محسوس کر کے اوزگل کی سانسیں حلق میں اٹکنے لگیں۔ یافث نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ جھٹکے سے دور ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ اس کے حسین سراپا کو دیکھتی ان سنہری آنکھوں میں خمار سا اترا تھا۔
”مجھے ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ میرا حسن کسی پتھر کو موم کر سکتا ہے، ہاں میرا مذاق اڑانا چاہتے ہیں تو شوق سے۔۔“ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔ یافث بیڈ پر ہاتھ ٹکائے فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ رخ پھیر گئی۔ اس وقت تھکن اور بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا ورنہ اٹھ کر دور ہو جاتی۔
”اپنے حسن کی بات رہنے دو، تمہیں اندازہ ہی کیا ہے اس وقت تمہیں دیکھ کر اس دل پر کیسی قیامت گزر رہی ہے اور میں تمہارا مذاق کیوں اڑاؤں گا؟“ یافث اس کے رخ پھیرنے پر آہ بھر کر رہ گیا۔
”آپ یہاں سے جائیں میں سونا چاہتی ہوں۔“ وہ اس کی بات نظر انداز کر کے بولی تو یافث نے فکر سے اسے دیکھتے ہوئے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔
”میں تمہارا پتا کرنے ہی آیا تھا، تم پہلے کھانا کھاؤ اور پھر میڈیسن لے کر سو جانا۔۔ ورنہ ایسے ہی بیمار رہو گی۔“ یافث کے کہنے پر وہ گم صم سی اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے آپ کا ہاتھ لگانا اچھا نہیں لگ رہا۔ آپ کے قریب آنے سے الجھن ہو رہی ہے مجھے، ایسا لگتا ہے آپ میرا تمسخر اڑا رہے ہیں لیکن میں آپ کو منع نہیں کر سکتی، ہے ناں؟ کیونکہ آپ مرد ہیں جب چاہیں زبردستی کر سکتے ہیں۔“ وہ بھیگی آنکھوں کو بچوں کی طرح مسلتے ہوئے بولی تو وہ ساکت سا اسے دیکھنے لگا۔
”میں صرف مرد نہیں ہوں، تمہارا شوہر ہوں۔ تم پر حق رکھتا ہوں، محبت اور نرمی سے بھی اپنے قریب کر سکتا ہوں۔ مجھے زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں برا لگتا ہے تو ٹھیک ہے اب میں تمہیں ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ تمہیں ناجانے کیوں لگ رہا ہے میں تمسخر اڑا رہا ہوں، محبت بھی تو ہو سکتی ہے اوز۔۔“ وہ اس سے دور ہو گیا۔ ہاتھ بھی ہٹا لیا۔
”جو لڑکی رات کے دوسرے پہر بےشرمی سے فون کر کے شادی کرنے کے لیے منتیں کرے اس کا مان صرف وہی رکھ سکتا ہے جسے محبت کا احساس ہو۔۔ آپ جیسے مرد سے مجھے تمسخر کے علاوہ کوئی امید نہیں، جس انسان نے مجھے بےزاری سے جھٹک دیا تھا وہ آج مجھے ایوارڈ سے تو نہیں نوازے گا۔۔“ وہ کروٹ کے بل لیٹی نم لہجے میں بولی رہی تھی۔ یافث اس کی پشت دیکھ کر رہ گیا۔
”مجھے تب بہت بڑی غلط فہمی تھی، میں زرگل کو اوزگل سمجھتا رہا ہوں۔ میں تمہیں صرف چہرے سے پہچانتا تھا، تمہاری آنکھوں سے پہچانتا تھا۔ نیلی آنکھوں والی نرم دل معصوم سی لڑکی سے مجھے کوئی الجھن نہیں تھی اوز۔۔ میں تب تم پر اس لیے غصہ ہوا کیونکہ مجھے لگا تم زورک خان کے لیے رو رہی ہو۔۔“ وہ نرمی سے وضاحت دے رہا تھا۔
”آپ کو لگتا ہے میں بےوقوف ہوں مگر ایسا نہیں ہے۔ ہر بار جب بھی میں نے آپ سے بات کی آپ نے مجھے سختی سے جھٹک دیا۔ مجھے اب جھوٹ سے مت بہلائیں میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔ اپنے منگیتر کو پسند کرنے والی اوزگل اس رات مر گئی تھی جب وہ آپ کو کال کر کے روئی تھی اور آپ نے باتیں سنائی تھیں۔“
وہ تنفر سے بولتی اٹھ کر لڑکھڑاتے ہوئے ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی۔ یافث خان بےبسی سے اپنی جگہ بیٹھا رہ گیا۔
جاری ہے

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

  1. Wow kmal ki epi ye kia baat hoi azguleko man jana chahiye tha jb wo mana raha hai to wese qsm se dil brra dukhta hai jb koi apna apko brra bhlla khta hai koi nehi agge sb theek ho ga next epi bhi jldi post kr de wese ye epi bhi kmal thi 2 epi ikathi post ki ap ne is liye phr kr mzza aya aur to aur zrgul abhi bhi wese ki wese hai ab to ozgul ko khush rhne de nehi abhi bhi apni anaa ko k2 ke jitna oncha rkha hua hai

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments