Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 09 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :119

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط نو

ثمر خان واپس اپنی حویلی پہنچے تو بیگم ثمر ان کی منتظر تھیں، ان کے پہنچتے ہی سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگیں جبکہ انہوں نے اسی وقت ملازمہ کو زرگل اور اوزگل کو بلانے کے لیے بھیجا۔
”خان صاحب میرا دل بہت گھبرایا ہوا ہے، ایسی ناانصافی مت کریں اوزی کے ساتھ، وہ اپنے رشتے سے خوش نظر آتی تھی۔ اس گھرانے کے بہت قریب بھی ہے جب سے زری نے ضد لگائی ہے اور جب سے علی زئی حویلی سے واپس لوٹی ہے۔ وہ چہکتی پھر رہی ہے اور اوز کمرے میں بند ہو کر رہ گئی ہے۔
جڑواں بیٹیوں میں اتنا فرق نا کریں، یہ تو پھر زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اوزی کیسے زورک کو۔۔“ بیگم ثمر بوکھلاہٹ کے مارے بولتی چلی جا رہی تھیں۔ ثمر خان نے بےاختیار اپنی بیوی کو دیکھا۔ وہ اکثر زر کی ضد پر اوزگل کے ساتھ ناانصافی کر جاتے تھے اور ان کی بیگم ایسے ہی پریشان سی سمجھاتی تھیں۔
”فکر مت کریں، میں ناانصافی کر جاتا ہوں مگر اللہ ناانصاف بالکل نہیں ہے۔“ وہ ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے بولے تو بیگم ثمر نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ انہیں اپنی بات کا مطلب سمجھاتے زر پہنچ گئی۔
ہنسی مسکراتی باپ کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے نخریلی سی، مسلسل مسکرا رہی تھی۔ ثمر خان اسے دیکھ کر لب بھنچ گئے، وہ جانتے تھے یہ خوشی کیوں اس کے چہرے پر رقصاں تھی۔ وہ ہمیشہ سے اپنی پسندیدگی اور خوشی ایسے ہی کھل کر ظاہر کرتی تھی۔
مگر اوزگل آئی تو اس کے لبوں کی مخصوص مدھم مسکراہٹ غائب تھی، سوزش زدہ نم آنکھیں بالکل ویران لگ رہی تھیں۔ وہ کمرے میں آ کر باپ سے کچھ فاصلے پر رک کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی، ثمر خان کا دل کٹ سا گیا تھا۔ انہوں نے بےساختہ بانہیں کھولیں تو اوزگل لب کاٹتی ان کے حصار میں سمٹ گئی۔
”میں شادی کی تاریخ طے کر آیا ہوں، تم دونوں کی وہیں شادی ہو رہی ہے، جہاں طے تھی۔ بچپن کا رشتہ ختم نہیں ہوا۔ سب اس بات کے خلاف تھے کہ رشتے بدلے جائیں۔ مجھے امید ہے تمہیں یہ بات سمجھ آگئی ہو گی کہ اب یہ ممکن نہیں رہا۔“
ثمر خان نے نرمی سے اوزگل کا ماتھا چومتے ہوئے بتایا اور آخری جملہ پر زرگل کو دیکھا تو وہ فق چہرہ لیے باپ کو دیکھنے لگی۔ ایک دم سیدھی ہوئی۔ چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ جبکہ اوزگل بھی ٹھٹک کر باپ کو دیکھنے لگی۔
”نہیں آبا، ایسا نہیں کریں۔۔ اس سے اچھا ہے زندہ دفن کر دیں۔ بیٹیوں کے ساتھ کون ایسی زبردستی کرتا ہے۔ میں وہاں شادی نہیں کروں گی۔ مجھے زورک خان نہیں پسند۔۔ مجھے یافث خان زادہ۔۔“ زرگل بدحواسی سے بول رہی تھی جب ثمر خان نے دھاڑ کر اسے چپ کروایا۔
”باس۔۔ مزید بےشرمی مت دکھاؤ زر، اور کتنا شرمندہ کرواؤ گی اپنے باپ کو۔۔ جس حویلی کی بہو بننا چاہتی ہو وہ لوگ اوزی کو پیار کرتے ہیں۔ کیا ان کے پاؤں پکڑ کر تمہارا رشتہ کروں؟ اور تمہارے ماموں جان کا کیا؟
تمہارے اتنے نخرے، ڈھٹائی اور بدتمیزیوں کے باجود وہ محبت سے تمہیں رخصت کروا کر لے جانے کو تیار ہیں۔ زورک خان بچپن کے رشتے کا احترام کرتا ہے۔ مت گراؤ خود کو اتنا کہ پھر چاہ کر بھی کسی کے سامنے نظر نا اٹھا سکو۔۔ ایسا مت کرو بچے۔۔“ ثمر خان غصہ کرتے کرتے بھی تھک گئے تھے۔
زرگل جامد سی بیٹھی تھی، ایک دم اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ اپنے کمرے میں بند ہوتی چیخ چیخ کر روئی تھی۔ کتنا مشکل تھا اس کے لیے سر جھکانا، بہت اذیت ناک تھا لیکن اب کوئی چارہ نہیں تھا، وہ جان گئی تھی دوسری صورت میں اسے کچھ نہیں ملنے والا اور ثمر خان کا اٹل لہجہ بتا رہا تھا اس بار اس کی بغاوت پر سخت ترین سزا دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

اب اتنی بڑی نہیں تھی کہ بہادری سے مقابلہ کرتی، تھی تو وہی زرگل۔۔ بمشکل سولہ سترہ برس کی لڑکی جسے باپ کے لاڈ پیار نے شیرنی بنا رکھا تھا۔ باپ کا سہارا تھا کہ جو چاہتی تھی پا لیتی تھی لیکن اس بار وہ ہار گئی اتنی چالیں چل کر بھی ناکام ہوئی اور اوزگل بنا لڑے جیت گئی تھی۔

”آبا۔۔ مجھے وہاں شادی نہیں کرنی۔۔“ اوزگل نے زر کے جاتے ہی ڈرتے ڈرتے ثمر خان سے کہا، وہ ایک دم سنجیدہ ہوئے۔ کھوجتی نظروں سے اوزگل کو دیکھا تو وہ گھبرا گئی۔
”زر اگر وہاں شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے کرنے دیں۔ مجھے کوئی نہیں چاہیے، یافث خان کے علاوہ جس سے بھی کہیں گے میں۔۔“ وہ سر جھکائے بول رہی تھی جب ثمر خان سخت لہجے میں اسے ٹوک گئے۔
”اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی اوز، زرگل بھی راضی ہو جائے گی۔ دونوں لڑکوں کو اپنے رشتوں پر اعتراض نہیں ہے اور یہاں تم دونوں کل کی لڑکیاں اپنے باپ کو بتا رہی ہو تمہیں کون چاہیے؟ تم دونوں اتنی بےشرم کب سے ہو گئیں؟
دیکھ لیں خانم اپنی بیٹیوں کو؟ ایسی ہوتی ہیں معصوم بیٹیاں؟“ ثمر خان غصہ ہو گئے تھے۔ اوزگل ڈر کر باپ کو دیکھنے لگی۔ ان کا چہرہ ضبط سے سرخ ہو رہا تھا۔
”آبا جان مجھ پر غصہ نہیں کریں، میں تو زرگل۔۔
”تم اس کی فکر مت کرو، میری غلطی تھی تم دونوں کو اتنی ہمت دی کہ مجھے اپنی مرضی بتا رہی ہو۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں سے کبھی کسی نے اجازت نہیں لی، لڑکے راضی ہیں بات ختم۔۔“ اوزگل نے بہانہ بنانے کی کوشش کی مگر وہ اس کی بات کاٹ گئے۔
”آبا جان۔۔“ اوزگل روہانسی ہو گئی، دل بھاری سا ہو رہا تھا۔ وہ ہاتھ اٹھا کر اسے روک گئے۔ بیگم ثمر نے اس کا بازو دبوچتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔
”میں تاریخ دے آیا ہوں، تیاریاں ہم کر رہے ہیں تم دونوں بس رخصت ہونے تک خدا کا واسطہ ہے میری عزت کا خیال کرو اور اپنی زبانیں بند رکھو۔۔ شادی اپنی تاریخ پر ہو گی چاہے تم جیو یا مرو اب اپنے گھروں میں رخصت ہو جاؤ۔۔“ وہ ناراضگی سے بولتے اٹھ کر چلے گئے۔ اوزگل اداسی سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھی۔
انہوں نے کبھی اس سے اونچی آواز اور سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ وہ کبھی غصے میں بھی ہوتے تو خاص طور پر اوزی کے لیے فوراً لہجہ بدل لیتے تھے، نرمی اور محبت سے بات کرتے تھے کیونکہ انہیں ہمیشہ اس بات کا احساس ستاتا تھا کہ وہ اوزگل کی خواہشات پوری نہیں کر پاتے۔ آج پہلی بار غصہ کیا تھا۔
”اوزی کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟ کیوں ہم دونوں کو ستا رہی ہو۔۔ پہلے ایک کا دماغ خراب تھا، اسے زورک نہیں پسند، اب تم بھی وہی بک بک کر رہی ہو۔ زرگل تو چلو لالا جان کی حویلی کے رسم و رواج سے ڈرتی ہے لیکن اب تمہیں کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟ یافث اتنا خوبصورت، پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا انسان ہے۔
حویلی والے تمہیں اتنا پیار دیتے ہیں، آزادی ہے، سکون ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔۔ خان داد لالا کے ہاں عورتیں حویلی میں کچن کا کام خود کرتی ہیں مگر یہاں تو وہ مشکل بھی نہیں ہے۔ حاذق خان کی بیوی کو دیکھو، شادی کو دوسرا تیسرا مہینہ لگ گیا آج تک میٹھے میں ہاتھ نہیں ڈالا۔۔
جب حاذق شہر جاتا ہے وہ ساتھ جاتی ہے۔ وہیں رہتی ہے۔ ہم زرگل کے اعتراضات پر اسی لیے سختی نہیں کر پا رہے کہ اس کا وہاں رہنا واقعی تھوڑا مشکل ہو گا لیکن تم اتنی ناشکری کب سے ہو گئیں؟“ ثمر خان کے جاتے ہی بیگم ثمر نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
”دوبارہ یہ بات مت کرنا، میرے لیے زر کا غم کافی ہے۔ ابھی تو اس کا رونا چیخنا بھی دیکھنا ہے، تمہارے آبا کو یہی سمجھاتی تھی جس بیٹی کا سخت ماحول میں رشتہ کیا ہے اسی کو سب سے زیادہ آزادی دے کر رکھی ہے۔ بس زورک سے امید ہے شاید وہ پیار سے رکھے۔ تم اب کوئی ضد مت کرنا بچے۔۔“ وہ ماں کے تھکن زدہ لہجے پر سر جھکا گئی۔
اور پھر اسی طرح سر جھکائے اپنے کمرے میں آ گئی۔ زرگل کا غم تو خیر الگ غم تھا مگر اوزگل کا دل بھی بھاری ہو رہا تھا۔ ایسا لگا جیسے کندھوں پر کسی نے برداشت سے بڑا بوجھ ڈال دیا ہے۔ یافث خان کا رویہ اس کے ساتھ بہت پہلے سے خراب تھا، وہ جب دی جان کے کہنے پر اس سے بات کرتی تھی وہ سختی سے انسلٹ کر دیتا تھا۔ وہ تب زیادہ توجہ نہیں دیتی تھی۔ اسے لگا اس کا مزاج ہی ایسا ہے۔
وہ زرگل پر بھی غصہ کرتا رہتا تھا، جب سامنا ہوتا تھا لڑتا تھا۔ وہ یہی سمجھتی رہی یافث خان کا ایسا ہی مزاج ہے۔ اب پتا چلا تھا اسے اوزگل نہیں پسند تھی، شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کال کر کے التجا کی تھی اور وہ اسے صاف الفاظ میں بتا چکا تھا اسے بچپن میں کیے اس رشتے میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ بڑوں کی خاطر بھی خاموش ہونے کو تیار نہیں تھا۔ اسے رشتہ بدلنے پر بھی اعتراض نہیں تھا۔
اتنی بےقدری؟ اتنی الجھن؟ اس بےقدری پر وہ کیسے ہنسی خوشی اسی شخص کے پاس چلی جاتی۔ ناجانے کیسے اس نے حویلی والوں کا مان رکھا ہو گا۔ ساری عمر اوزگل کے دل میں یہ کسک رہتی کہ اسے اس کا شوہر صرف برداشت کر رہا تھا۔
اپنے کمرے میں روتی زرگل کو اس پر رشک آ رہا تھا کہ اسے بن مانگے یافث خان زادہ مل رہا تھا، خاندان کا سب سے قیمتی اور سب کا پسندیدہ لڑکا۔۔ اور اوزگل کو زرگل پر رشک آ رہا تھا جسے اس کا ہمسفر عزت اور چاہت سے اپنا رہا تھا۔ لڑکیاں چاہے محبت کر بیٹھیں مگر سکون تب ملتا ہے جب وہ شوہر کی من چاہی ہو۔

زرگل من چاہی تھی اور وہ؟ اوزگل کا کیا؟

وہ مغرب کی نماز ادا کر رہی تھی جب ڈور بیل کی آواز پر سستی سے جمائیاں لیتی رودابہ دروازے کی سمت بڑھی۔ دروازہ دھاڑ سے کھولا تو سامنے یافث خان کو دیکھ کر گڑبڑا گئی۔
”آپ کو پھر علیزے سے ملنا ہو گا؟“ رودابہ نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔ اس بار بھی اس کے ہاتھ میں گروسری بیگز تھے۔ یعنی وہ پھر سے کھانے پینے کی چیزیں لایا تھا مگر اس بار رودابہ نے آگے بڑھ کر سامان نہیں لیا۔
”آپ کو کوئی اعتراض؟“ وہ بھی ایسے سوال کیے جانے پر ماتھے پر بل ڈال کر سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔ رودابہ نے گڑبڑا کر اسے دیکھا۔
”کون ہے دابہ؟“ خوشنما کی آواز پر رودابہ نے پرجوش نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بھی یافث خان کو دیکھ کر تیزی سے آگے آئی۔
”اس بار ہم سامان نہیں لیں گے، واپس لے جاؤ اور یہ بتائیے خان صاحب ایسے مزے سے ہمارے فلیٹ میں گھسے چلے آتے ہیں، کیا یہ بلڈنگ آپ کے باپ کی ہے؟“ خوشنما نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔ یافث خان کے چہرے پر استہزائیہ تاثرات دیکھ کر دونوں ٹھٹک گئیں۔
”کیا واقعی یہ بلڈنگ آپ کے باپ کی ہے؟ یا خدا۔۔ وہی میں کہوں ایسے کیسے مزے سے آپ۔۔“ خوشنما کو تو صدمہ لگ گیا تھا۔ انہیں آج پتا چلا تھا ان لگژری فلیٹس کی پانچ منزلہ بلڈنگ یافث خان کے باپ کی ملکیت تھی۔ وہ گہرا سانس بھر کر ہاتھ میں پکڑا سامان دروازے پر رکھ گیا۔
”اگر ایسا ہے تب بھی، دیکھیں ہم جانتے ہیں آپ یہ سب علیزے کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ سب نہیں چاہتی، اس نے اب گھر سے کھانا بند کر دیا ہے۔ یونی سے برگر کھا لیتی ہے۔ گھر کے لیے بھی لے لیتی ہے، ان فیکٹ وہ چائے کی عادی لڑکی اب چائے بھی ایک وقت یونی کے کیفے میں پینے لگی ہے۔“ رودابہ نے اس بار تمیز کے دائرے میں بات شروع کی۔
”میں جانتا ہوں، یہ سامان دے دینا۔۔ گیسٹ آ رہے ہیں ا۔ کے لیے یہ سامان ضرورت ہو گا۔“ وہ اس کی ناراضگی کا سن کر مدھم لہجے میں بولتا اپنی بات مکمل کرتے ہوئے پلٹا مگر اس کے جملوں پر وہ دونوں جھٹکا کھا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”اس کے مہمان کی آپ کو کیسے خبر ہوئی؟“ خوشنما نے گھورتے ہوئے شکی نظروں سے اسے دیکھا۔
”علیزے یہ یافث خان پھر سے تمہارے لیے سامان لائے ہیں، ہم نے منع کر دیا ہے مگر کہہ رہے ہیں تمہارے کوئی گیسٹ آنے ہیں آج۔۔“ رودابہ نے پیچھے سے آتی علیزے کو مخاطب کیا۔ اپنے فلیٹ کی طرف بڑھتا یافث رک کر پلٹا اور دروازے کے بالکل سامنے کھڑی علیزے کو دیکھا۔ وہ حیرت سے سامان دیکھ رہی تھی۔
”گیسٹ آپ کے پاس آ رہے ہیں، سامان بھی آپ لے جائیں مجھے ضرورت نہیں ہے۔ خوشی مت اٹھانا کچھ بھی۔۔“ اس نے سامان میں جھانکتی خوشنما کو سختی سے منع کیا۔ یافث دیوار سے ٹیک لگائے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”آپ یہ سامان لے جائیں، آپ کیوں اس بےچاری کے پیچھے پڑ گئے ہیں، ہیں کون آپ؟“ رودابہ نے علیزے کو اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے سختی سے اسے دیکھا۔
”اس سے کیوں نہیں پوچھتیں کون ہوں میں؟“ یافث کی نظریں علیزے کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس کا رنگ سفید پڑنے لگا۔
”کون ہیں؟ علیزے کون ہیں یہ؟“ وہ دونوں اب اس آنکھ مچولی سے تھک چکی تھیں۔ وہ بھیگتی آنکھوں کو چھپاتی غصے سے پلٹ کر کمرے میں چلی گئی۔
”آپ یہ سامان دے کر علیزے کو خرید نہیں سکتے۔۔ یہ سب چیزیں دے کر اس کی عزت نفس مجروح نہیں کریں۔“ رودابہ جذباتی لہجے میں بول رہی تھی۔
”اپنی فرینڈ سے کہنا اتنی ہمت ہے کہ میرے دئیے سامان کو رد کر رہی ہے تو پھر ہمارا رشتہ بھی بتا دے۔“ وہ اپنے فلیٹ میں داخل ہوتا دھاڑ سے دروازہ بند کر گیا۔ ہزاروں کا سامان وہیں باہر پڑا ہوا تھا۔ وہ دونوں دروازے پر کھڑی الجھ رہی تھیں۔

”یار تم یہ سامان اٹھاؤ اور اندر لے چلو، مجھ سے نہیں ہوتی رزق کی بےقدری۔۔ دونوں ہی چلے گئے، لیزے نہیں کھائے گی تو ہم کھا لیں گے۔“ خوشنما نے آہ بھر کر کہا۔ وہ دونوں مل کر وہ سامان کچن میں لے گئیں۔

وہ دونوں بہنیں دلہنیں بنی بیٹھی تھیں۔۔ زیورات سے لدی، سرخ زرتار لباس میں سجی سنوری سوگوار چہرے والی کمسن سی دلہنیں۔۔ ویسے تو ان کے پورے خاندان میں پہلے اسی عمر میں لڑکی بیاہ دی جاتی تھیں مگر اب کچھ عرصہ سے تعلیم کا رجحان بڑھ جانے کی وجہ سے اکثر گھرانے لڑکی کی تعلیم پوری کروا کر ہی شادی کرنے لگے تھے۔ ایسے میں ان دونوں کی شادی بہت کم عمری میں ہو رہی تھی۔
وہ دونوں سہمی ہوئی سی لگ رہی تھیں، دونوں کے کیا خوف اور غم تھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ان کی پریشانی کو کم عمری سے جوڑا جا رہا تھا۔ ان دونوں کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ آنے والے وقت کا سوچ سوچ کر ان کے دماغ خالی ہو رہے تھے، نا رونق دل کو لگ رہی تھی نا کسی خوبصورت خیال کے زیرِ اثر لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ آئی تھی۔
زرگل تو گویا قیامت سے گزر رہی تھی، نکاح نامہ پر دستخط کرتے ہوئے بھی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی مگر اب جوں جوں رخصتی کا وقت قریب آ رہا تھا لگتا تھا نزع کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی سی چھا رہی تھی، وجود بری طرح کانپ رہا تھا یوں جیسے ابھی لرزتی کانپتی بےہوش ہو جائے گی۔
”ہماری زر کو تو خان صاحب نے بہت لاڈ پیار سے پالا ہے، اب ڈری ہوئی ہے۔ کہتی ہے زمہ داری نہیں سنبھال پاؤں گی۔ بچیاں کچھ چھوٹی بھی ہیں کچھ خان صاحب نے بڑا بھی نہیں ہونے دیا۔۔“ بیگم ثمر زرگل کی فکر میں ہلکان اپنی بھابھی کے گرد گھومتی افسردگی سے بولی تھیں۔
”فکر کیوں کرتی ہو، ہم بھی تو اپنے ہیں۔۔ تمہارے لالا کو بہت عزیز ہے زرگل اور زاتی طور پر مجھے بھی کوئی روایتی ساس بننے کا شوق نہیں ہے۔ کام نہیں آتے تو سکھا دوں گی۔ جیسے باقی عورتیں کچن کا اور شوہر کا کام کرتی ہیں ویسے زرگل کو بھی کرنا پڑے گا مگر میں بہت خیال رکھوں گی۔ آخر ہماری حویلی کی پہلی بہو ہے۔۔“ زرگل کی ساس نے چمکتی آنکھوں سے اپنی کم عمر حسین بہو کو دیکھا۔
مہنگے بھاری لباس اور سولہ سنگھار نے ان دونوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے تھے۔ بیگم ثمر نے آہ بھر کر زرگل کو دیکھا اس کے چہرے کے ٹوٹ پھوٹ کے آثار ماں کی آنکھ سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔ وہ اس جگہ پر بمشکل بیٹھی تھی، ان کے دل کو کچھ ہوا۔ اگر زرگل کبھی خوش نہ رہی تو؟ اوزگل کا تو وہ جانتی تھیں یافث خان اور علی زئی حویلی والوں کے محبت بھرے حصار میں جاتے ہی اس کے گلے شکوے دم تور جائیں گے مگر زرگل۔۔۔۔؟
”زورک خان بہت سنجیدہ لڑکا ہے، پہلے شرارتی مزاج ہوا کرتا تھا مگر اب تو بہت بردبار اور کم گو سا لگتا ہے۔ میری طرف سے درخواست کیجیے گا زرگل کا بہت خیال رکھے۔ ایسا نا ہو وہ سختی کرے تو زر دل نا لگا پائے۔۔“ بیگم ثمر نے مدھم نم لہجے میں کہا تو ان کی بھابھی نے چونک کر انہیں دیکھنے لگیں۔
”تم نے اس حویلی میں بچپن گزارا ہے، ان بھائیوں کے سائے میں جوان ہوئی ہو۔ تمہیں تو پتا ہے خان حویلی والوں کے سب مرد اسی مزاج کے ہیں۔ عورت کو گزارا تو کرنا پڑتا ہے ناں۔۔ ہم نے بھی گزار دی، زرگل کو بھی آہستہ آہستہ سمجھ آ جائے گی۔“ ان کی بھابھی نے اطمینان سے کہا تو بیگم ثمر کا دل بیٹھنے لگا۔
اسی وقت خان داد نے رخصتی کا پیغام بھیجا۔ پہلے خان حویلی والوں نے رخصتی کروانی تھی، دی جان، بیگم ثمر اور خان بیگم نے زرگل کو باری باری سینے سے لگا کر دعاؤں اور محبتوں میں رخصت کیا مگر وہ بالکل بےجان ہوتی جا رہی تھی، چند قدم چلتے ہی ڈگمگائی اور لڑکھڑا کر گرنے لگی مگر سامنے کھڑے زورک خان نے بروقت آگے بڑھ کر اسے تھاما، زرگل کا نازک وجود زورک خان کے مضبوط حصار میں آ چکا تھا۔
وہ بےہوش ہو چکی تھی، زورک خان اسے اٹھا کر گاڑی تک لے گیا، بیگم ثمر دل پر ہاتھ رکھے بےآواز رونے لگیں۔ بس ایک خوف سا دل میں بیٹھ گیا تھا اگر زرگل نا سنبھلی؟ اگر اسے قدر اور پیار میں نا رکھا گیا تو؟ وہ ماں تھیں دل میں خوف لیے کھڑی رہ گئیں اور زرگل رخصت ہو گئی۔
اسے رخصت کرنے کے لیے پورا خاندان حویلی کے بیرونی گیٹ کے سامنے پہنچا ہوا تھا، سٹیج پر اکیلی بیٹھی اوزگل سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔ بخار کی حدت سے اس کا وجود جل رہا تھا۔ زرگل سگی بہن تھی، ان میں لاکھ لڑائی جھگڑا رہا مگر اوزی کو وہ پیاری تو تھی۔ آج وہ رخصت ہونے لگی تو اوزگل دل کی شدید خواہش کے باوجود اٹھ کر اس کے سینے سے نہیں لگ پائی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اس وقت زرگل کو سب سے زیادہ نفرت اسی سے ہو رہی تھی۔
”ہم بھی رخصت ہوتے ہیں، اوزی کی طبیعت نہیں ٹھیک لگ رہی، میری معصوم بچی بیٹھے بیٹھے ہی تھک گئی ہو گی۔ اب تیاری کرو تم لوگ بھی۔۔“ دی جان اس کے پاس آ کر بیٹھیں تو اس کا کپکپاتا ہاتھ تھام کر چونک گئیں، اس کا جسم بری طرح تپ رہا تھا۔ انہیں فکر ستانے لگی، اوزگل میں تو ویسے بھی جان تھی ان کی۔۔ فوراً رخصتی کا حکم دیا۔ اوزگل کو یافث خان کے ساتھ رخصت ہونے کا سوچ کر ہی رونا آیا۔
بیگم ثمر نے اسے سینے سے لگا کر چوما تو دل میں اس کے لیے کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ سب سے مل کر گاڑی میں بیٹھی۔ واثق خان کی بارات ایک دن پہلے ہی دلہن لے آئی تھی، اس وقت دونوں بڑے بھائی اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے۔ امروز خان نے ڈرائیور کو ہٹا کر دلہن والی گاڑی خود سنبھال لی۔ بیگم خان ان کے ساتھ والی سیٹ پر جبکہ دی جان پیچھے پرجوش سی اپنی اوزی کو سینے سے لگائے بیٹھی تھیں۔
اسی وقت یافث خان اپنے چچا سے مل کر پوری شان سے چلتا گاڑی تک آیا اور اوزگل کے دوسری جانب بیٹھ گیا۔ بخار میں بھی اسے اپنے ساتھ بیٹھتا محسوس کر کے اوزگل کا دماغ جل اٹھا تھا۔ وہ دی جان کے پہلو میں سمٹنے لگی۔ یافث خان کی پوری حسیات اس پر ٹکی تھیں، اس کا سمٹنا اور دور ہونا محسوس کر کے اس کے لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ پھیلی تھی جسے وہ بہانے سے منہ پر ہاتھ رکھ کر چھپا گیا تھا۔
وہ اسے اوزگل کی چھوٹی موٹی ناراضگی سمجھ رہا تھا، اصل ہوش تو تب اڑے جب کمرے میں پہنچ کر اکیلے میں وہ اس کے بیڈ پر اس کے پاس بیٹھنے سے ہی انکاری ہو گئی تھی۔ چکراتے ہوئے سر کو سنبھال کر ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ صوفے کی جانب بڑھتی اوزگل کا نازک سراپا بھاری لباس اور اس سے بھی زیادہ زیورات کی وجہ سے بری طرح تھکن زدہ ہو رہا تھا۔
”ہمارے درمیان جو غلط فہمی ہوئی تھی میں اس کے لیے معذرت کرتا ہوں، میں نے تمہیں اس روز کال پر جو بھی الفاظ کہے ان کے لیے بھی سوری۔۔ اب تم یہاں آ کر سکون سے لیٹ جاؤ، میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔“ وہ اوزگل کی نڈھال حالت دیکھتے ہوئے نرمی سے بولا۔
”آپ مجھے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، میں اتنی کمزور بھی نہیں ہوں۔“ وہ بولی تو آواز نقاہت بھری تھی لیکن لہجہ بالکل سپاٹ تھا۔ یافث خان اچھا خاصہ حیران ہوا تھا۔ وہ کم عمر، معصوم سی شرماتی ہوئی، گھبرائی ہوئی سی لڑکی آج اس کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی۔
”معذرت کر رہا ہوں ناں اوز۔۔“ وہ اس کو بےآرام دیکھ کر زچ ہوا۔ اس بھاری لباس و زیورات سمیت وہ صوفے پر سمٹ کر سو چکی تھی۔ وہ جانتا تھا اس وقت بخار کی شدت سے وہ کپڑے بدلنے کی حالت میں بھی نہیں ہے مگر وہ زیورات سے چھٹکارا حاصل کروانے میں مدد کر سکتا تھا۔ وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا۔
”تمہیں یہاں کپڑے لا دوں؟ چینج کر لو، جیولری بھی اتار دو، یہ بہت ہیوی ہے اس کے ساتھ تنگی ہو گی۔“ وہ اس کے قریب قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا نرمی سے بول رہا تھا۔
”مجھے آپ کا احسان نہیں چاہیے، آپ کی مدد لینے سے اچھا ہے زلالت والی نیند کر لوں۔ آپ جائیں یہاں سے۔۔“ وہ صوفے میں منہ گھساتی سرد لہجے میں بولی۔ یافث خان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ سجی سنوری دلہن جو انسان سے زیادہ پلاسٹک کی گڑیا لگ رہی تھی، اتنی غصے میں تھی۔ اتنی زیادہ؟
اس نے سنجیدگی سے اس کے شفاف چھوٹے چھوٹے حنائی ہاتھوں کو دیکھا، بازوؤں میں کانچ کی چوڑیاں بھر بھر کر پہنی ہوئی تھیں۔ گلابی سفید پیروں میں بھی مہندی لگی ہوئی تھی، دونوں پیروں میں سونے کی پائل پہنی ہوئی تھیں، وہ یہ وزن اس کے نازک وجود سے الگ کرنے کو بےچین ہوا لیکن وہ اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔
وہ نیند میں گئی تو یافث نے نرم ہلکا سا بلینکٹ اٹھا کر اس پر پھیلایا اور اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا۔ اس سے زیادہ وہ چاہ کر بھی مدد نہیں کر پایا کیونکہ وہ اگلی صبح یہ الزام سننے کو بالکل تیار نہیں تھا کہ یافث خان زادہ نے بیمار سوئی ہوئی بیوی کا فائدہ اٹھایا ہے۔۔
جبکہ دوسری جانب خان حویلی میں زرگل کے ہوش میں آتے ہی اسے ساس نے زبردستی کھلایا پلایا۔ پھر حویلی والوں نے چند ضروری رسمیں کیں، کمرے میں پہنچی تو زورک خان نے سمٹتی گھبراتی زرگل کا ہاتھ تھام کر نرمی سے اسے خاندانی کنگن پہنائے اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
”زرگل میں بہت پریکٹیکل سا انسان ہوں۔ تم کم عمر اور اپنے حویلی کی لاڈلی بیٹی ہو مگر اس حویلی میں تم سب سے بڑی بہو بن کر آئی ہو۔۔ میں تمہیں زمہ داریوں کی لمبی چوری فہرست نہیں تھماؤں گا بس اتنا کہوں گا تم میرا اور میری حویلی کے رسم و رواج کا مان رکھنا اور میں تمہیں کبھی دکھی نہیں ہونے دوں گا۔“
اس نے زرگل کے مہندی سے بھرے شفاف نرم ہاتھوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ وہ لب بھنچ کر سر جھکائے بیٹھی رہی۔ زورک خان کی نظریں اس کے کمسن سجے سنورے سراپا میں الجھنے لگیں اس نے بےاختیار زرگل کو کھینچ کر اپنے قریب کیا تو اس کی جان لبوں پر آئی۔ وہ گھبرا کر زورک کو دیکھنے لگی۔
”مجھے پتا چلا ہے تمہیں شادی پر اعتراض تھا، یہ اعتراض اگر کسی اور وجہ سے تھا تو میں نہیں جاننا چاہتا مگر صاف کہہ دوں تمہارے دماغ میں اب میرے علاوہ کوئی سوچ نا آئے۔۔“ اس نے زرگل کے خوبصورت چہرے کو چھوتے ہوئے اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں وارن کیا تو اپنے باپ کے سامنے چیخنے لڑنے والی زرگل نے سہم کر آنکھیں میچ لیں۔
”اور اگر صرف جلد شادی پر تھا تو پھر فکر مت کرو۔۔ زورک خان کی محبت میں تم سب خوف بھول جاؤ گی۔۔“ زورک نے جذبات سے بوجھل لہجے میں کہتے ہوئے اسے ایک دم اپنے مضبوط حصار میں سمیٹ لیا تھا۔ اسے اجازت درکار نہیں تھی۔ وہ مرد تھا، اس کا مزاج صرف فتح کرنا تھا۔ زرگل نے مارے خوف کے دل کا غم دل میں دبا لیا تھا۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!