Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط آٹھ
صبح صبح حاذق خان اور واثق خان کو جب پتا چلا کہ امروز خان نے خان داد اور ثمر خان کو بلوایا ہے تو ٹھٹک گئے۔ ویسے تو ایک ہی خاندان تھا ملنا جلنا رہتا ہی تھا مگر خصوصی دعوت تو خاص بات کرنے کے لیے ہی دی جاتی تھی۔
”کیا بات کرنی ہے آغا جان؟ اچانک دعوت کس سلسلے میں ہو رہی ہے؟“ واثق خان نے تجسس سے پوچھا تھا کیونکہ اس کی منگیتر خان داد کی یتیم بھتیجی تھی۔ اسے لگا یہاں اس کا بھی کوئی معاملہ طے کیا جانے والا ہے۔ اس کے سوال پر امروز خان نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ساتھ بیٹھے یافث خان کو جو سپاٹ چہرہ لیے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔
”میں سوچ رہا تھا خان داد سے بات کروں تمہاری شادی ہونی چاہیے۔ ژالے کی رخصتی بھی کروا لیتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ایک اور ضروری بات کرنی تھی۔ خان زادے نے بتایا نہیں کیا ضد ڈالے بیٹھا ہے؟“ امروز خان خفگی سے یافث خان کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔ وہ دونوں بھائی ٹھٹک کر چھوٹے بھائی کو دیکھنے لگے تھے۔
”ناشکرے پن کی حد کر دی ہے خان صاحب نے، لڑکی اتنی پیاری اور معصوم ہے، قدر نہیں کر رہا۔۔ جب آئے گی ناں دوسری تو پتا چلے گا۔۔ ناکوں چنے چبوائے گی، ماں باپ کا فیصلہ اب فضول لگتا ہے صاحب کو۔۔ نافرمان اولاد۔“ بیگم خان ناراضگی سے بڑبڑا رہی تھیں۔
”مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا۔۔“ وہ مزے لے لے کر چائے کے ساتھ قیمے والا آملیٹ کھاتا بول رہا تھا۔ بیگم خان نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی۔ اس کی سنہری آنکھوں میں گویا سورج چمک رہا تھا۔ بچپن کا رشتہ ختم ہو رہا تھا، لڑکی کو انکار پہنچنے والا تھا مگر اسے نا کوئی فرق پڑ رہا تھا نا کسی کی پرواہ تھی۔
”ابھی دماغ پر جوانی کا خمار چڑھا ہے، ابھی تو ضد لگانی ہے سو لگا لو۔۔ بس ہم یہ بتا دیں شادی کے بعد ہم بھی کچھ نہیں سنیں گے۔ نا گلہ کرنا نا رونا، مرد بن کر جینا اور ہاں میں ہر وقت کا تماشہ بھی برداشت نہیں کروں گی، اپنے جیسی کو لانے کی تیاریوں میں ہو۔۔ سب پتا ہے۔“ دی جان نے اسے باقاعدہ وارننگ دی تھی۔
یافث رک کر انہیں دیکھنے لگا تو اس بار ان چمکتی سنہری آنکھوں میں خفگی تھی، چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔ ایسے دیکھنے لگا جیسے سب نے قرض دینا ہو۔۔ اور وہ بھی ایسے ہی اگنور کر رہے تھے جیسے اس کا ادھار لیا ہوا ہو۔۔ یافث خان گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
امروز خان تو ناشتے کے بعد مردان خانے میں چلے گئے، کچھ علاقے کے معاملات تھے جو دیکھنے تھے۔ پھر صفائی کروائی اور کھانے کا اہتمام کروانے لگے، خان داد اور ثمر خان پہنچنے ہی والے تھے۔ وہ دونوں یافث خان سے پوچھنا چاہتے تھے کہ آخر کیا گل کھلا چکا ہے مگر وہ ناشتہ کرتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔
”یافث دروازہ کھولو، جب تم آغا جان سے اپنی بات منوا چکے ہو اور تمہیں دی جان کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں رہی تو ہم سے کیوں چھپ رہے ہو۔۔ بس تھوڑی بات کرنی ہے، سننے میں حرج کیا ہے۔“ حاذق خان نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے خفگی سے کہا تو اس کی توقع کے مطابق چند لمحوں میں دروازہ کھل چکا تھا۔
”بات سننے میں کوئی حرج نہیں مگر آپ دونوں اس معصوم بےچاری دوشیزہ کی تعریف میں گھنٹوں ضائع کر دیتے ہیں اور میں اس وقت واقعی اس محترمہ کی تعریف سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔“ وہ صاف الفاظ میں دونوں بھائیوں کو اس کی بات کرنے سے روک گیا تھا۔ وہ بےبسی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”بات کیے بنا تم فیصلہ کر رہے ہو، نا کچھ سننے کو تیار ہو نا جواب دینا ہے۔ اندازہ نہیں ہے تمہیں کتنی بڑی بھول کرنے جا رہے ہو۔۔ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا یافث، لڑکیاں بدل جائیں گی اور دوسری لڑکی۔۔۔“ واثق خان نرمی سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”مجھے دوسری لڑکی پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں اسے قبول کرنے کو تیار ہوں۔“ وہ اوزگل کو انکار کر کے اوزگل کو ہی اپنانے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ اور بھائی یہ سن کر شاکڈ ہوئے کہ وہ اوزگل کی بجائے زرگل سے راضی تھا؟ کیا واقعی خان یافث اتنا بےوقوف تھا؟ واقعی؟ وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئے تھے۔
ان دونوں کی باتوں نے علیزے کو گھبراہٹ میں مبتلا کیا تھا۔ وہ بےساختہ آگے بڑھتی انہیں متوجہ کر گئی۔
”تم دونوں کو غلط فہمی ہوئی ہے، ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ مجھے کوئی کیوں ہراس کرے گا۔ رات میری طبیعت اپ سیٹ ہو رہی تھی۔ میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میں نے سوچا میں قریبی پارک تک جا کر تازہ ہوا میں واک کروں گی تو شاید اچھا محسوس ہو گا۔۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ مجھے تم دونوں کو ساتھ لے جانا چاہیے تھا۔
میں پہلی بار اکیلی باہر نکلی تھی اس لیے خوفزدہ ہو گئی، مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے تو ڈر کر میں رونے لگ گئی۔ تم دونوں نے ناجانے کیا سمجھ لیا۔۔“ الٹی سیدھی کہانیاں گھڑتی وہ ناراضگی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
”اوہ تو یہ بات تھی۔ تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا بےوقوف لڑکی، تم تو اپنے سائے سے بھی ڈر جاتی ہو۔۔ اچھا بیٹھو اور بتاؤ اب ٹھیک ہو ناں؟ میں ناشتے کے لیے ویٹ کر رہی تھی، شکر ہے آج یونی نہیں جانا تھا ورنہ تمہیں مشکل ہوتی۔۔“ خوشنما نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔
”ہاں اب بہتر ہوں، نیند کر لی ہے تو ٹھیک ہوں۔ میں چائے بنانے جا رہی ہوں تم دونوں پیو گی؟“ علیزے سستی سے اٹھتے ہوئے بولی۔ دونوں نے ہی اثبات میں سر ہلایا، وہ کچن میں چلی گئی۔ رودابہ لیپ ٹاپ پر مووی دیکھنے لگی اور خوشنما مسکراہٹ دبائے ہونے والے منگیتر سے بات کر رہی تھی۔
”علیزے تمہاری کال آ رہی ہے۔“ اس کے موبائل پر آتی کال نے رودابہ کو متوجہ کیا۔ اس نے علیزے کو پکار کر اطلاع دی مگر وہ کچن میں چائے بناتی بری طرح سوچوں میں الجھی ہوئی تھی، سنا ہی نہیں۔۔
”علیزے۔۔“ رودابہ مسلسل آتی کال پر زچ ہو کر چیخی۔ خوشنما نے اس کے چیخنے پر موبائل اٹھا لیا۔
”چیختی رہو گی، کال اٹینڈ کر کے سن لو۔۔“ خوشنما نے اسے گھور کر کال اٹینڈ کی اور موبائل کان سے لگایا۔
”اوزگل سے بات کرواؤ۔۔“ دوسری طرف کوئی لڑکی تھی جو نہایت سنجیدہ لہجے میں بولی تھی اور اس کی آواز بالکل علیزے جیسی تھی۔ خوشنما ٹھٹک گئی۔
”کون اوزگل؟ یہاں تو کوئی اوزگل نہیں رہتی۔۔“ خوشنما نے حیرت سے کہتے ہوئے رودابہ کو دیکھا وہ بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں علیزے کی بات کر رہی ہوں، کہاں ہے وہ بلاؤ اسے۔۔“ اس لڑکی نے چڑچڑے لہجے میں کہتے ہوئے علیزے کا نام لیا۔ خوشنما کو اس کا نک چڑھا مزاج عجیب لگا تھا۔ ایسے بول رہی تھی جیسے کسی ملازمہ سے بات کر رہی ہو مگر شاید وہ علیزے کی بہن تھی اس لیے اسے کرارا جواب دیتے دیتے رک گئی۔
”اوکے۔۔“ وہ بس اتنا ہی بولی اور اٹھ کر کچن میں گئی، علیزے ابلتی ہوئی چائے کو غائب دماغی سے دیکھ رہی تھی، خوشنما نے اس کا کندھا ہلا کر متوجہ کیا اور موبائل اس کے کان سے لگایا۔ وہ دوسری طرف زرگل کی آواز سن کر ہڑبڑا گئی۔
”کب سے کالز کر رہی ہوں، تمہارے نخرے کچھ زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ابھی تک منہ سوجا ہوا ہے، بلاوجہ کی ناراضگی۔۔ انسان کال ہی اٹینڈ کر لیتا ہے۔“ اس کے ہیلو کے جواب میں زرگل اکتائی ہوئی سی بولتی چلی گئی تھی۔ اس نے آہ بھر کر چور نظروں سے خوشنما کو دیکھا جو وہیں کھڑی کپ دھو رہی تھی۔
”میں کچن میں تھی، کیا بات ہے؟“ اس نے نامحسوس انداز میں خوشنما سے دور ہوتے ہوئے سوال کیا۔
”میں آج شام آرہی ہوں، تمہارے پاس رکوں گی۔ میرے لیے کمرہ سیٹ رکھنا اور براہ مہربانی تم نے اپنے ساتھ جو ملازمائیں رکھی ہوئی ہیں، انہیں کہہ دینا ان میں سے کوئی میرے کمرے میں نا آئے۔۔“ زرگل بےزاری سے بولی۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔
”تم ایسا کرو کسی ہوٹل میں روم بک کروا لو، جب بات کرنے کی تمیز سیکھ لو تو میرے پاس چلی آنا۔۔ اگر آ رہی ہو تو یہاں آ کر ایسی بکواس مت کرنا ورنہ بازو سے پکڑ کر باہر نکالوں گی۔ یہ ہمارے باپ کی حویلی نہیں ہے۔“ وہ تلخ لہجے میں بولی تو خوشنما نے حیرت سے ہمیشہ نرم مدھم لہجے میں بات کرنے والی علیزے کو دیکھا۔
”شٹ اپ تم ہوتی کون ہو مجھے تمیز سکھانے والی۔۔ بہت زیادہ اکڑ آ گئی ہے، لگتا ہے بھول گئی ہو کہ کیسے۔۔“ زرگل نے اس کے زخم ادھیڑنے کی کوشش کی، وہ مٹھیاں بھنچتی اس کی بات درمیان میں کاٹ گئی۔
”مجھے سب یاد ہے، اب تم یہاں آؤ گی تو اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا کیونکہ میرے گھر میں جگہ نہیں ہے۔ اللہ حافظ۔۔“ اس نے ضبط سے بولتے ہوئے کال کاٹ دی۔ موبائل شیلف پر پٹخا تو چائے ڈالتی خوشنما نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
”کس کی کال تھی؟ تم نے ایسے لہجے میں کبھی کسی سے بات نہیں کی۔“ خوشنما کے پوچھنے پر وہ چونک گئی پھر خفت زدہ سی نظریں چرانے لگی۔
”میری ٹوئن سسٹر شانزے کی کال تھی، میں نے بتایا تھا ناں ہم دونوں میں بالکل دوستی نہیں ہے۔ وہ ایسی باتیں کرتی ہے کہ مجھے غصہ آ جاتا ہے۔“ وہ گہرا سانس بھر کر بولی، نیلی آنکھوں میں سرخی صاف نظر آ رہی تھی۔
”تمہارا ایک نام اوزگل بھی ہے؟ تمہارے آئی ڈی کارڈ اور ڈاکیومنٹس پر تو علیزے ثمر خان لکھا ہے۔“ چائے باہر لے جاتے ہوئے خوشنما نے سوال کیا۔
”ہاں ہماری دادی جان نے ہم دونوں کے نام اوزگل اور زرگل رکھے تھے۔ یعنی پیار کے نام ہیں، ہمیں خاندان میں اسی نام سے سب بلاتے ہیں۔ ہمارے اوریجنل نیمز علیزے اور شانزے ہیں۔ آغا جان نے میرا نام علیزے رکھا تھا اور آبا نے زرگل کا نام شانزے رکھا تھا۔“ وہ پہلی بار انہیں اپنے گھرانے کے بارے میں تفصیل بتا رہی تھی۔
رودابہ کچن سے براؤن کیک کا ڈبہ لے آئی۔ وہ دونوں اس کی پیکنگ کھول کر مزے سے چائے کے ساتھ کیک کھانے لگیں۔ اس نے حیرت سے بند ڈبے کو دیکھا۔ پچھلے کچھ وقت سے یہ براؤن کیک کے پیکس وہ مسلسل دیکھ رہی تھی۔ ہر بار چائے دیتے ہوئے وہ دونوں اسے پلیٹ میں کیک بھی دے دیتی تھیں۔
”یہ کہاں سے آیا ہے؟ تم دونوں نے یہ عیاشی کب سے شروع کی؟“ اس نے فورک سے کیک کا پیس کاٹ کر منہ ڈالا۔ لبوں پر مسکراہٹ تھی، اس یہ کیک بہت زیادہ پسند تھا۔ بالکل نرم فوم کی طرح پھولا ہوا سا کسی بھی کریم یا چاکلیٹ کی کوٹنگ کے بغیر۔۔ ہلکے میٹھے والا۔۔
”یہ بس۔۔ اچھا لگتا ہے اس لیے۔۔“ وہ دونوں گڑبڑا کر بولتی نظریں چرانے لگیں۔ وہ کیک کھاتے ہوئے شکی نظروں سے انہیں گھور رہی تھی۔
”یار یہ حمزہ کا سر یافث خان جو ہے ناں بہت دریا دل ہے۔ سچ کہوں تو پچھلے ایک ماہ سے جو بھی کھانے پینے کا سامان آ رہا ہے وہ ہم نہیں لاتیں، وہی بھیجتا ہے حمزہ کے ہاتھ۔۔ تمہارے دئیے پیسے ہم واپس رکھ دیتی ہیں۔ تم اتنی غائب دماغ ہو تمہیں کبھی آئڈیا ہی نہیں ہوا۔“ خوشنما نے گہرا سانس بھر کر اعتراف کیا۔
”ہاں اس لیے ہماری ایک ماہ سے عیاشی چل رہی ہے۔ حمزہ نے کہا ہے ہم جو بھی چاہیں منگوا سکتے ہیں، اس کا مالک پیسے دے گا تو اس لیے ہم تمہاری پسند کی چیزیں۔۔“ رودابہ بتا رہی تھی، وہ صدمے سے منہ کھولے ان دونوں کو دیکھنے لگی۔ کیک کا پیس حلق میں ہی پھنس گیا تھا۔
”تم دونوں کیسے۔۔ کیسے کسی کا احسان لے سکتی ہو، جانتی بھی ہو کون ہے وہ؟ وہ کیوں پیسے لگا رہا ہے۔ کیوں کیا ایسا۔۔“ بولتے بولتے اس کی آواز بھیگ گئی تھی، نیلی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ خوشنما اور رودابہ کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔
”کیاہوا لیزے۔۔ کون ہے وہ؟ ہمیں تو لگا کہ وہ شاید تمہیں پسند کرتا ہے، مخلص لگ رہا تھا اس لیے۔۔ تم جانتی ہو اسے؟“ ان دونوں نے گھبرا کر پوچھا۔
”پسند کرتا ہے تو کیا خرید لیا ہے اس نے مجھے؟ تم دونوں نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے۔ میں۔۔ میں واقعی۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔ تم کیسے۔۔“ وہ روتے ہوئے اٹھ کر کمرے میں بند ہو گئی۔ کیک وہیں پڑا تھا، چائے کو تو منہ بھی نہیں لگایا تھا۔ وہ بیڈ پر پڑی بری طرح رو رہی تھی اور باہر وہ دونوں شرمندہ سی بیٹھی تھیں۔
لڑکے آ چکے تھے، یافث تو بس زنان خانے سے وہاں آیا تھا زورک خان کو آنے میں کچھ وقت لگا تھا۔ وہ خریداری کے سلسلے میں شہر جا رہا تھا جب اسے علیزئی حویلی میں فوری پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ یافث خان نہایت پرسکون لگ رہا تھا۔ ان کے آنے پر خان امروز نے خان زادہ کا مطمئن چہرہ دیکھا تو دل سے دعا کی کہ کم از کم دوسری صورت میں وہ انکار نہ کرے۔۔
اگر اسے اوزگل سے مسئلہ تھا اور اتنی ناپسند تھی تو انہیں امید تھی وہ زرگل کو قبول کر ہی لے گا۔ اگر وہ دوسرے رشتے پر بھی اعتراض کرتا تو وہ مزید کچھ نہیں کر سکتے تھے۔۔ بات وہیں آ رکتی۔۔
”زورک خان تم شاید شہر جا رہے تھے شادی کی شاپنگ کے لیے، تمہیں اچانک بلوانے کے لیے سب سے پہلے تو معذرت کرتا ہوں بچے۔۔ بات بہت ضروری تھی اس لیے بلوانا پڑا۔۔“ زورک کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے امروز خان نرمی سے بولے تو وہ نرمی سے مسکرایا۔
”کوئی بات نہیں میں بعد میں چلا جاؤں گا، آپ بات کریں۔۔“ زورک خان نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے سکون سے کہا۔ یافث نے ایک ترچھی نظر اس پر ڈالی، اس کے چہرے پر خوشی صاف محسوس ہو رہی تھی۔
”دراصل رشتوں میں کچھ مسائل ہو رہے تھے، ہم بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارا رشتہ توڑ کر دوسری کزن سے کر دیا جائے تو تمہیں اعتراض تو نہیں ہو گا؟ ایک ہی گھر کی بچیاں ہیں، ایک جیسی ہی ہیں تو اگر ہم لڑکیاں بدل دیں۔۔“ خان امروز نے سوال کیا۔
زرگل کے انکار کا کوئی زکر نہیں کیا تھا نا وہ ایسی کوئی بات کرنا چاہتے تھے۔ ثمر خان اور خان داد بھی بالکل خاموش رہے۔ ان کے الفاظ پر زورک خان ایک دم سیدھا ہوا۔ ہونق سا سب کے چہرے دیکھنے، چند پل تو کچھ بول ہی نہیں پایا تھا، یافث خان نے پہلو بدلا۔۔
”آئم سوری آغا جان میں نہیں جانتا کیا ایشو ہوا کہ آپ لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا پڑا مگر مجھے اپنے اس رشتے پر کوئی مسئلہ نہیں، میں خوش ہوں اور اب میری شادی ہو رہی ہے۔ ڈیٹس فائنل ہونے کے بعد کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟“ وہ شاک سے نکلتے ہی سنجیدگی سے بولا۔ تینوں بڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”بیٹا اگر۔۔۔“ ثمر خان نے گھبرا کر بولنا چاہا جب یافث خان ان کی بات کاٹ کر بولا۔
”چچا جان مجھے بھی اپنے رشتے پر اعتراض نہیں ہے۔ میں اپنی منگیتر سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ خان یافث کے جملے پر ثمر خان نے بےاختیار بڑے بھائی کو دیکھا جو حیرت زدہ سے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔ پچھلے چند ماہ سے مسلسل ضد اور بحث کر رہا تھا۔ کئی بار ناراض ہو کر شہر گیا تھا اور کئی بار اسے منتیں کر کے حویلی بلایا گیا تھا۔
اسے بس ایک اعتراض تھا کہ اپنی منگیتر نہیں پسند، اسے اپنے بچپن کے رشتے پر اعتراض تھا۔ پورے گھر نے سمجھا لیا، ہمیشہ اس کے لاڈ اٹھانے والی دی جان نے پہلی بار ناراضگی تک دکھا لی مگر وہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ تھک کر انہوں نے یہ بیٹھک سجائی تھی۔ لاڈلے کا نخرہ اور ضد پوری کرنے کے لیے اتنے شرمندہ ہوئے تھے اور وہ اتنے مزے سے بول رہا تھا اسے اعتراض ہی نہیں۔۔
”کیا تمہیں۔۔ اپنے موجودہ رشتے پر کوئی اعتراض نہیں؟“ انہوں نے دیکھا تو دونوں کو تھا مگر سوال درحقیقت اپنے خان زادے سے کیا تھا۔ وہ نفی میں سر ہلاتا مسکرا رہا تھا۔ امروز خان نے اسے غصے سے گھورا۔ گویا باپ کو ہی زلیل کروانا تھا۔ اب سب ٹھیک تھا۔
”کوئی اعتراض نہیں، پلیز اپنے فیصلے کو مت بدلیے۔۔ اگر یہی بات کرنی تھی تو میرے خیال میں بات ختم ہو چکی ہے۔ ہم دونوں لڑکے راضی ہیں اور لڑکیوں سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔“ زورک خان سنجیدگی سے بول رہا تھا۔ یافث خان اطمینان سے سر ہلا رہا تھا۔
”لڑکیوں سے بھی پوچھ لیں، مجھے مسئلہ نہیں ہے۔“ یافث نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ وہ مزاجاً ایسا ہی تھا۔ زورک خان اور اس کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ تنگ زہن نہیں تھا اور زورک خان رواجوں کے ساتھ چلنے والا انسان تھا۔
”اچھا تم دونوں جاؤ، بس یہی پوچھنا تھا ہمیں۔۔ تم نے شہر جانا تھا، ابھی وقت ہے، خیر سے جاؤ۔۔“ خان داد نے دونوں کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے زورک کو تاکید کی تو وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ سب سے مل کر وہ اسی وقت شہر کے لیے روانہ ہو گیا۔ یافث خان بھی اٹھ کر ایک بھرپور انگڑائی لیتا زنان خانے کی طرف بڑھا۔
لبوں پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ رات تک تو وہ اپنی بات پر ہی قائم تھا، بلکہ اوزگل کی کال پر اسے بھی سخت باتیں سنا چکا تھا مگر پھر صبح دونوں بھائیوں نے عقل ٹھکانے لگائی تھی اور اس کی وہ خوامخواہ کی غلط فہمی دور کی تھی۔ حالانکہ وہ بولتے رہے اور خان یافث ڈھٹائی سے کان بند کیے سنتا رہا تھا
”اب بات ہو چکی ہے، سنا نہیں مہمان آنے والے ہیں۔ بس جا کر مجھے سب کے درمیان اپنا فیصلہ سنانا ہے۔ ہو سکتا ہے زورک خان کو بھی مسئلہ ہو پھر تو بات ہی ختم ہو جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں بدل دی جائیں گی اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں تو اپنی زندگی ناپسندیدہ انسان کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔“
یافث خان بےنیازی سے بول رہا تھا، دونوں بڑے بھائیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یافث بہت آرام سے بات سنتا تھا اور جب وہ چاہتے تھے وہ لاڈ کرے، ضد کرے اور اپنی بات منوائے تب وہ ان کی بات مان لیتا تھا۔ آج وہ بات کرنا چاہ رہے تھے تو ضد میں آ گیا تھا۔ وہ نک سک سے تیار ہوتا مردان خانے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا جب واثق خان نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا۔
”یافث آخری بار پوچھوں گا، کیا تم واقعی اپنی منگیتر اوزگل کو ناپسند کرتے ہو؟“ واثق کے سوال پر اس نے شیشے میں پیچھے بیڈ پر بیٹھے بھائی کا عکس دیکھا۔
”جی ہاں مجھے آپ لوگوں کی معصوم اوزگل میں دلچسپی نہیں ہے۔“ وہ بھی سنجیدگی سے بولا اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔
”واقعی؟ وہ دونوں بالکل ایک جیسی ہیں، اوزگل کے چہرے پر نرمی ہوتی ہے جو ظاہر ہے تمہیں نظر نہیں آتی۔ لیکن چلو ٹھیک ہے تم نے اس کا اصل چہرہ دیکھا ہو گا اور کیا تم جانتے ہو تمہاری منگیتر کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے؟“ واثق کا لہجہ اس بار بےچینی بھرا تھا۔ حاذق بھی سوالیہ نظروں سے یافث خان کو دیکھ رہا تھا۔
”ہم دونوں کی آنکھیں ایک جیسی ہی ہیں، آغا جان اور چچا جان جیسی۔۔ سنہری آنکھیں۔۔“ یافث پلٹ کر بڑے بھائی کو دیکھتا ابرو چڑھا کر بول رہا تھا۔ اس کے جملے پر حاذق ایک دم قہقہہ لگا کر ہنسا۔
”بےوقوف، گدھے، بدھو انسان۔۔ واہ پاگل خان زادہ۔۔“ حاذق مسلسل ہنس رہا تھا، واثق بھی مسکراتے ہوئے سر پکڑ بیٹھا۔ اتنی بڑی غلط فہمی کا شکار تھا۔ سنتا ہی نہیں تھا، بات شروع ہوتی تھی اور بدک جاتا تھا۔ بس اتنی سی بات کرنے کی دیر تھی۔ سارا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا تھا۔
”یعنی تمہیں لگتا ہے اس وقت ہماری حویلی میں جو سنہری آنکھوں والی نخریلی گڑیا آئی ہوئی ہے وہ تمہاری منگیتر ہے؟ کیا تم واقعی یہ سمجھتے ہو؟“ حاذق اس پر ہنس رہا تھا۔ یافث نے خفگی سے ابرو چڑھا کر دونوں بھائیوں کو دیکھا۔
”کیا میں غلط ہوں؟ جب زورک خان کو زرگل نے اس کا نام بتایا تو میں نے اسے دیکھا تھا۔ وہ سنہری آنکھوں والی تھی۔۔ ہر بار۔۔ اوزگل کی پکار پر وہی سامنے آئی تھی۔ اس نے ایسا ہی کہا تھا۔ کیا میں غلط ہوں؟“ وہ ناراض ہو رہا تھا۔
”کم عقل انسان ناجانے شہر میں کیا جھک مار رہے ہو تمہیں آج تک یہ بھی نہیں پتا تمہاری اوزگل کی آنکھیں نیلی ہیں۔ پتا نہیں اس شرارتی لڑکی نے کب اور کیوں زورک کو اپنا نام زرگل بتایا۔۔ دی جان نے ہمیشہ کہا ہے اوزی ان پر گئی ہے۔ دی جان کی آنکھیں نیلی ہیں یافث خان۔۔“ واثق اس کی غلط فہمی دور کرتا ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
جبکہ یافث خان تو اپنی جگہ جم سا گیا تھا۔ اسے نیلی آنکھوں والی ہی تو پسند تھی۔ اس کے سامنے آتے ہی جس کا چہرہ گلابی ہوا جاتا تھا۔ جو اسے غصے میں دیکھ کر گھبرا جاتی تھی۔ سامنا ہونے پر بوکھلا کر چھپنے کی جگہ ڈھونڈتی تھی۔ وہ اسے دیکھتا تھا اور دل میں ایک حسرت سی جاگتی تھی اگر وہی ہوتی تو سب اچھا ہوتا۔
اور اب بڑے بھائی کا یہ جملہ اس کا دل دھڑکا گیا تھا۔
تمہاری اوزگل کی آنکھیں نیلی ہیں۔۔۔
بس یہی ایک جملہ سنا تھا اور یافث خان گنگ ہو گیا تھا۔ اتنی بڑی بھول کرنے جا رہا تھا۔ جسے اپنانا چاہ رہا تھا اسی کو انکار کرنے والا تھا۔ اتنی بڑی غلطی۔۔ اور اس نے اسی وقت مردان خانے میں زورک خان سے ہوتے سوال پر اپنی غلطی سدھاری تھی۔ وہ خوش ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے۔
وہ ایک رات پہلے کال پر ہوئی بات بھول گیا جب اس نے اوزگل کے رونے پر اسے باتیں سنائی تھیں۔ اسے یہ تو یاد ہی نہیں رہا وہ اسے کیا بول بیٹھا تھا۔۔۔ اسے تو بس ایک ہی جملہ یاد رہ گیا تھا۔
تمہاری اوزگل کی آنکھیں نیلی ہیں۔۔۔۔
ان کے جانے کے بعد خان داد نے ان دونوں بھائیوں کو دیکھا جو اپنی اپنی جگہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ثمر خان کو یہ پریشانی تھی کہ اب زرگل کا کیا کریں گے؟ اور امروز خان یہ سوچ رہے تھے کہ آخر یافث خان کیا کر رہا تھا۔ کبھی انکار اور کبھی اتنا پرجوش ہاں۔۔
”اب کیا کہتے ہو ثمر خان؟ لڑکے دونوں راضی ہیں، بات خاندان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری حویلی میں شادی کی تیاری مکمل ہے۔ اب کیا کرو گے؟“ خان داد کے سوال پر وہ چونک کر متوجہ ہوئے۔
”اب کوئی مسئلہ نہیں رہا، اگر شادی کی تیاری مکمل ہے تو فکر کی کیا بات ہے۔ ہم نے تاریخ دی ہے، ہم زبان دئیے بیٹھے ہیں اب کیا اپنی بات سے پیچھے ہٹوں گا؟ بالکل نہیں۔۔ بچیاں تو ابھی کم عمر اور ناسمجھ ہیں۔۔ ہم جانتے ہیں ان کے لیے کیا بہتر ہے۔“ ثمر خان نہایت سنجیدگی سے بول رہے تھے۔ اب وہ شادی سے چند روز پہلے بیٹی کے باپ ہو کر انکار کرتے تو پورے خاندان میں زلیل ہوتے۔
”شاید زرگل کو شادی پر اعتراض صرف اس لیے ہے کہ اس کی پہلے شادی ہو رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں وہ جڑواں ہیں، جڑواں بچوں کا کچھ ایسا ہی حساب ہوتا ہے پھر زر تو ہمیشہ سے ہی ضدی ہے، اب رشتے جیسے ہیں ٹھیک ہیں، بس شادی اگر ایک ساتھ ہو جائے تو کوئی پریشانی نہیں رہے گی۔“ خان امروز نے سنجیدگی سے بولتے ہوئے ثمر خان کو دیکھا۔
وہ زرگل کی طرف سے کوئی غلط فہمی نہیں چاہتے تھے جو اس کی زندگی میں پریشانی کھڑی کرتی اور نا ہی وہ اب اپنے بیٹے کو مزید ڈھیل دینا چاہتے تھے۔ اس کا کیا بھروسہ دو دن بعد پھر سے کہہ دیتا اپنی منگیتر نہیں پسند۔۔ انہیں تو اب اس پر بالکل اعتبار نہیں رہا تھا، بہتر ہی تھا اس کی بھی فوری شادی کر دی جاتی۔۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں، اوزی کی تعلیم کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔ وہ تو ویسے بھی نہیں ہو رہی، شادی تو کرنی ہے۔ سب کی ہوتی ہے، زرگل کی ہو رہی ہے اوزگل کی بھی کر دیتا ہوں۔“ ثمر خان اطمینان سے بولے۔
”بس ٹھیک ہے، خان داد تمہاری حویلی آئیں گے ہم، ژالے اور واثق کی بھی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا کرتے ہیں خاندان والوں کے سامنے پھر سے تاریخ طے کر لیتے ہیں، دن تھوڑے بڑھا دیں گے۔ اب کسی کو کوئی اعتراض نہیں رہا ناں؟“ امروز خان نے سوال کیا۔ وہ دونوں مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا گئے۔
امروز خان نے اطمینان کا سانس بھرا، وہاں زنان خانے میں دی جان اور خان بیگم یافث خان کا جواب سن کر خوشی سے بےحال ہو رہی تھیں۔ وہ شرمندگی کے مارے وضاحت تک نہیں دے پا رہا تھا کہ زرگل نے اسے پاگل بنایا تھا اور وہ بن گیا تھا۔
زرگل ایک دن پہلے حویلی پہنچی تھی، روشنا سے ابٹن لگواتی قہقہے لگا رہی تھی۔ چہرے پر رونق چھائی ہوئی تھی، سنہری آنکھوں میں دئیے جل رہے تھے۔ یافث خان اسے مل رہا تھا۔ اس کے بچپن کا خواب۔۔ اس کی ضد اور اس کی کوششوں کا صلہ۔۔
اوزگل اپنے کمرے میں اندھیرا کیے گم صم سی بیٹھی تھی، اب اس کا دل بالکل خالی ہو چکا تھا۔ اب اسے چاہے زورک خان کے ساتھ رخصت کیا جاتا یا پھر کسی بھی اجنبی کے ساتھ۔۔ اب اسے یافث خان بالکل نہیں چاہیے تھا جس نے اس کی التجاؤں پر بےرحمی سے فیصلہ سنایا تھا۔
جاری ہے