Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 07 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :93

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط سات

”اوزی کو رات سے اتنا تیز بخار ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کچھ۔۔ خان صاحب آپ بات تو کریں امروز لالا سے، اوز نے بس ایک چھوٹی سی خواہش ہی تو کی ہے۔۔ کبھی کچھ نہیں مانگتی، پہلی بار پڑھنے کی خواہش کی ہے وہ بھی ہم پوری نہیں کر رہے۔“
بیگم ثمر گھبرائی ہوئی سی ثمر خان کو بتا رہی تھیں۔ وہ ابھی ابھی مردان خانے سے لوٹے تھے، اوزگل کی حالت کا سن کر پریشانی سے اس کے کمرے کی طرف بڑھے۔ وہ بستر پر نڈھال سی پڑی تھی، چہرے پر آنسوؤں کے نشانات تھے۔
”میری گڑیا اتنا کیوں روتی ہو، تم جانتی ہو میں تمہیں روتا نہیں دیکھ سکتا، میرے لیے تم آج بھی وہی چھوٹی سی اوز ہو جو روتی تھی تو میرا دل بےچین ہو جاتا تھا۔“ ثمر خان نازک سی گڑیا جیسی اوزگل کو سینے سے لگاتے ہوئے محبت سے بولے۔
”آبا میرا دل بہت اداس ہے۔ مجھے بہت رونا آ رہا ہے۔“ وہ ان کے سینے میں سمٹی اپنی محبت کا ماتم کر رہی تھی۔ وہ بتا بھی نہیں پائی اسے غم کیا تھا اور ثمر خان بےتاب سے بیٹی کا چہرہ چومتے ہوئے اس کے کپکپاتے ہاتھ تھام گئے۔
”اوز میں جا کر امروز لالا سے بات کرتا ہوں، میں تمہیں پڑھنے کے لیے شہر بھیج دیتا ہوں۔ یافث خان سے میں خود بات کر لوں گا۔ زرگل کی مجبوری ہے زورک خان اپنی حویلی کے رسم و رواج کی زنجیر نہیں توڑنا چاہتا۔۔ اس کا مزاج بھی ایسا ہی ہے اس لیے زرگل کو برداشت کرنا ہو گا۔
مگر یافث خان کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ اس کی حویلی میں کسی پر پابندی نہیں اور وہ خود بھی سمجھدار انسان ہے، اس سے بات کروں گا۔ تم رونا بند کرو تم جیسا چاہتی ہو ویسا ہی ہو گا۔ “ ثمر خان مضبوط لہجے میں بول رہے تھے۔ اوزگل کو ان کی تسلی پر رونا آیا۔
وہ یافث خان یعنی اپنے منگیتر کو چاہتی تھی، وہ اتنی سی بات نہیں کر پائی۔ اسے اب پڑھائی سے کیا مطلب، یہاں عمر بھر کا ہمسفر جسے تصور کیا تھا وہ ہاتھ چھڑوانے پر بضد تھا۔ وہ راستہ بدلنے کی کوششوں میں تھا۔
”مجھے شہر نہیں جانا آبا، میں واقعی اب شہر نہیں جانا چاہتی۔ میرا دل پڑھائی سے اکتا گیا ہے۔ مجھے بس آپ کے پاس رہنا ہے۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔۔“ وہ روتے ہوئے بچوں کی طرح باپ کے سینے میں سمٹ کر بیٹھی تھی، ثمر خان پریشانی سے اسے تھپکنے لگے۔
اوزگل کو کیا بات پریشان کر رہی تھی؟ وہ کیوں اتنا تڑپ کر رو رہی تھی۔ اس کا لرزتا کانپتا وجود ظاہر کر رہا تھا وہ کسی بات سے ڈری ہوئی ہے۔ ثمر خان کے پوچھنے کے باوجود وہ نہیں بتا پائی اسے کیا ڈر ہے۔ کہہ نہیں پائی اسے اپنے منگیتر کے چھوڑ جانے کا ڈر ہے۔
اس کے چپ ہونے پر اسے سویا ہوا سمجھ کر ثمر خان نے اسے بستر پر ٹھیک سے سلایا اور اس کا ماتھا چوم کر کمرے سے نکل گئے۔ اوزگل آنکھیں کھول کر چھت کو گھورنے لگی۔ پھر موبائل اٹھا کر زرگل کو کال ملائی اور بےدردی سے اپنی بھیگتی آنکھیں مسلیں۔
”ہاں جی کیا ہو گیا ہے، آج کل تمہیں میری کچھ زیادہ یاد آنے لگی ہے۔ حویلی میں تو ہماری کبھی اتنی نہیں بنی پھر اب۔۔ میں ایک دو دن میں آ جاؤں گی اوزگل پلیز مجھے تنگ مت کرو۔۔“ زرگل نے کال اٹینڈ کرتے ہی بےزاری سے کہا تھا۔
”زر۔۔ پلیز میری بات سنو پلیز کال مت کاٹنا، میں تمہیں بار بار تنگ نہیں کروں گی، مجھ پر یہ ظلم مت کرو۔۔“ اوزگل کانپتی آواز میں بول رہی تھی۔ زرگل ٹھٹک گئی۔
”میرے ساتھ ایسا مت کرو زر۔۔ تمہیں اللہ کا واسطہ، میرے حق پر ڈاکا تو مت ڈالو۔۔ ہم دونوں کی قسمت لکھی جا چکی ہے۔ جسے جو ہمسفر ملا وہ ہمارا نصیب۔۔ تم کیوں ناانصافی کرنے پر تلی ہو۔۔“ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”اوز ایک منٹ۔۔ زرا سانس لو، اچانک کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔ کیا گل تم پاگل ہو گئی ہو۔۔ تمہیں کچھ دن پہلے تک تو خبر ہی نہیں تھی تم کس کی منگیتر ہو، تم تو زورک خان کی تعریفیں کرتی تھیں، اسے یاد کرتی تھیں۔۔
پھر کیا ہوا، کیوں یافث خان کے لیے پاگل ہو رہی ہو؟“ زرگل بےیقین سے بول رہی تھی۔
”ہاں میں اس کے لیے پاگل ہوں اور مجھے ہی ہونا چاہیے۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تو کوئی میری زندگی میں نہیں تھا۔ مجھ پر الزام مت لگاؤ کہ میں زورک خان کو پسند کرتی ہوں۔ تم جانتی ہو وہ صرف بچپن میں دوست تھا اور کچھ نہیں۔۔“
اوزگل اس کی باتوں پر گھبرا کر وضاحت دینے لگی۔ زر اکتا سی گئی تھی۔ جسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ آج ایسے رو رو کر لڑ رہی تھی۔ کیسا مذاق تھا۔ اوزگل جیسی بےوقوف لڑکی کو کیسے محبت ہو سکتی تھی۔
”اوزی تمہیں ریسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ تمہیں یافث خان کے نام سے جو انسیت ہو رہی ہے ناں وہ ختم ہو جائے گی۔ تمہیں بچپن کی دوستی یاد ہے تو یہ بھی یاد ہو گا زورک خان ہر وقت تمہاری طرفداری کرتا تھا، تمہیں معصوم کہتا تھا۔ وہ مجھ سے لڑتا تھا اور تمہارا خیال رکھتا تھا۔
تم وہ باتیں یاد کرو، وہ تمہاری پرواہ کرتا ہے۔ وہ اب بھی ہم سے ملا تو تمہاری باتیں کر رہا تھا۔ اسے بھی تم یاد ہو میں نہیں تو بس پھر اچھا ہے ناں۔۔ یافث خان کو بھول جاؤ۔۔“ زرگل اسے بےنیازی سے مشورہ دے رہی تھی۔
”یافث خان میرا منگیتر ہے، میرے ماں باپ نے مجھے یہ حق دیا ہے۔ جب سے پتا چلا ہے اب بس وہی میرے دل میں ہے۔ اسے بڑوں نے میری قسمت بنایا ہے، تمہاری طرح کسی سے چھینا نہیں ہے میں نے۔۔“ وہ دیوانوں کی طرح چیخی۔ زرگل شاکڈ ہوئی۔
”تمہیں خدا کا واسطہ زرگل، تم نے اب تک مجھ سے ہر اچھی چیز چھینی ہے۔ میں خاموش رہی، مگر اب یہ ظلم مت کرو، تمہیں جو چاہئیے لے لو مگر میرا منگیتر نہیں چھینو، وہ میری محبت ہے، تم سگی بہن ہو کر کیسے میرے ساتھ یہ سب کر سکتی ہو۔۔ مجھے مت توڑو میں مر جاؤں گی۔۔“
وہ منتیں کر رہی تھی، اب محبت کر جو بیٹھی تھی تو کیا کرتی۔ سادہ سی لڑکی تھی، دل کی صاف تختی پر جس کام نام درج ہوا وہی سب کچھ ہو گیا۔ اوائل عمری میں ویسے بھی جذبے بےلگام ہوتے ہیں۔ زرگل کو اگر یافث خان سے محبت ہوئی تھی تو اوزگل بھی اپنے مںگیتر کو پسند کرتی تھی۔
”تم پاگل ہو گئی ہو، آج سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا اور اب محبت محبت چیخ رہی ہو۔ کیا تمہارا دل اتنا سستا ہے کسی کے بھی نام پر دھڑک اٹھتا ہے۔ تم زورک کی تعریفیں کرتی رہیں اور اب یافث خان سے محبت کا دعویٰ۔۔۔
مجھے تمہاری بکواس پر یقین نہیں ہے، تم میری ضد میں چیخ رہی ہو۔ تم صرف مجھے یہ دکھانا چاہتی ہو کہ یافث خان پر تمہارا حق ہے تو تم کامیاب ہوئی ہو، دل جل رہا ہے میرا۔۔ کاش تمہیں یہ حق کبھی نا ملا ہوتا۔۔“ زرگل پھٹ پڑی۔
”میں نے اتنی محنت کی، اتنی اداکاری اور جھوٹ بولے۔۔ اتنا ڈرامہ کیا اور اب ہار جاؤں؟ صرف تمہاری بےوقوفی پر یقین کر کے؟ نہیں، اب میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔ اب اگر تمہیں ضد ہے تو مجھے بھی ضد ہے۔“ زر نے بےحسی کی حد کر دی تھی۔ اوز نے توجہ ہی نہیں دی وہ کس اداکاری اور جھوٹ کی بات کر رہی تھی۔
”زر مجھے اپنی محبت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا شوق نہیں ہے کہ میں تمہارے سامنے بار بار کہتی مجھے اپنا منگیتر پسند ہے۔ میں کہتی تھی آبا جس کے ساتھ میری شادی کر دیں مجھے قبول ہو گا۔ میں وہی تو کر رہی ہو۔۔ میں اپنے منگیتر کے علاوہ کسی کو سوچ بھی نہیں سکتی۔۔“ اوزگل نے سسکی کا گلا گھونٹا۔
”تم نہیں سوچ سکتیں تو میں کیا کروں، تمہیں چند روزہ محبت پر رونا آ رہا ہے اور میرا کیا۔ میں اسے بچپن سے چاہتی ہوں اوز۔۔ تمہیں تو شاید وہ یاد بھی نہیں تھا اور مجھے کبھی اس کے علاوہ کوئی یاد نہیں رہا، مجھے معاف کرنا مگر میں اب پیچھے ہٹنے کا بےوقوفانہ عمل نہیں کروں گی۔۔
اور اس کی وجہ بتاؤں کیا ہے؟ جس کے لیے آج تم مجھ سے لڑ رہی ہو وہ انسان تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ ک
اپنی عزت کا خیال کرو اور منہ بند کر لو کیونکہ یافث خان شاید اب تک آغا جان کو انکار کر چکا ہو گا۔“ زرگل پتھریلے لہجے میں بولی۔
اس کے الفاظ پر اوزگل بالکل ساکت رہ گئی تھی۔ اسے یافث خان نے ٹھکرا دیا تھا؟ وہ خاندان کے رسم و رواج سے واقف ہونے کے باوجود۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے ہاں منگنی توڑنا طلاق دینے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔
وہ پھر بھی رشتہ توڑنا چاہتا تھا کیا اسے اوزگل اتنی بری لگتی تھی؟


”لیزے روم سے باہر نہیں آئی ابھی تک؟ ہوا کیا ہے اسے؟“ خوشنما کا تجسس کے مارے برا حال تھا۔ رات وہ رو رو کر نڈھال ہو گئی تھی، ان دونوں نے سنبھال کر اسے کمرے میں پہنچایا تھا۔ تب سے اب تک وہ دروازہ لاک کیے کمرے میں بند تھی۔
”میں بھی ویٹ کر رہی ہوں، صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔ وہ اتنی رات میں گئی کہاں تھی؟“ رودابہ کے دماغ سے یہ بات نہیں جا رہی تھی۔
”علیزے کچھ وقت سے بہت عجیب بی ہیو کر رہی ہے، اللہ کرے سب ٹھیک ہو۔ کوئی تو پریشانی ہو گی اسے لیکن اس بار وہ ہمیں بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں ہے۔ میں اسے ایسے نہیں دیکھ سکتی۔۔“ رودابہ نے آہ بھر کر کہا۔
“اس کی ڈسٹربنس میں کہیں حمزہ کے نواب سر یافث خان کا ہاتھ تو نہیں؟ تم نے نوٹس کیا ناں وہ علیزے میں بہت انٹرسٹ لے رہا تھا۔ وہ بہت پیور لڑکی ہے اس بات سے گھبرا رہی ہو گی۔“ خوشنما پرسوچ لہجے میں بول رہی تھی۔
”وہ تو ٹھیک ہے مگر خوشی۔۔ علیزے رات کے وقت اپنے فلیٹ سے باہر کیوں گئی؟ اور واپس آئی تو اتنی بری حالت تھی۔۔“ رودابہ الجھی ہوئی سی بول رہی تھی جب ٹھٹک کر جملہ ادھورا چھوڑ گئی، خوشنما بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا وہ۔۔ مغرور خان علیزے کو ہراس کر رہا ہے؟“ وہ دونوں اسی ایک نتیجے پر پہنچی تھیں اور یہ سوچ کر ہی ان کے دماغ بھک سے اڑے تھے۔ اپنے کمرے سے نکلتی علیزے ان کے الفاظ پر قدم آگے نہیں بڑھا پائی تھی۔


تیزی سے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوئے وہ رکا اور ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھاتے ہوئے بازو اوپر کی جانب کر کے انگڑائی لی۔ سنہری آنکھوں میں تھکن کی سرخی نمایاں ہوئی۔ بس آخری سمسٹر تھا اور شاید آخری رتجگے۔۔ گہری سانس بھر کر اس نے صوفے سے ٹیک لگائی۔
میسج بپ نے اسے متوجہ کیا، ہاتھ بڑھا کر قدرے دور پڑا موبائل اٹھایا اور میسج چیک کرنے لگا۔ فرینڈز کے گروپ میں اس کے دوست مائر کا میسج تھا اور کچھ تصاویر بھیجی ہوئی تھیں۔
”یار میری جو خالہ باہر کے ملک سے آئی ہوئی تھیں انہوں نے زبردستی مجھے بلیک میل کر کے میری منگنی اپنی خوبصورت بیٹی کے ساتھ کروا دی ہے۔ میں بہت پریشان ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری شادی پر تم آ کر مجھے تسلی دلاسہ دو۔۔“ میسج پڑھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”گھٹیا انسان یہ زبردستی ایک فارن حسین کزن کے ساتھ ہی کیوں ہوئی؟ اور انہیں تم جیسا لنگور ہی ملا تھا؟
ابے زلیل انسان، جھوٹے تیری اسی دن سے نیت خراب تھی جب تیری خالہ نے پاکستان میں لینڈ کیا۔۔
شکر کر شادی کی دعوت دے دی ورنہ تیری منگنی ختم کروا کر تجھے اس ظلم سے آزاد کرواتے۔۔ دعائیں لگی ہیں تجھے کسی کی۔۔“
سب دوست اس کی بےمروتی اور بےشرمی پر اسے باتیں سنا رہے تھے۔ اس نے میسجز انجوائے کرتے ہوئے دوست کی منگنی کی تصاویر دیکھیں جس میں وہ زبردستی جوڑے گئے اس رشتہ پر پورے دانت نکال کر بیٹھا تھا۔
”یہاں میری جان نہیں چھوٹ رہی اور اسے دیکھو کتنا خوش ہو رہا ہے۔ کزن سے منگنی۔۔ فضول رسم اور عجیب رشتے۔۔“ وہ بدمزگی سے موبائل پٹخ گیا، مبارک تک نہیں دے پایا تھا۔ اپنا حال یاد کر کے دماغ کھول رہا تھا۔ اٹھ کر نائٹ ڈریس نکالا اور شاور لینے کے لیے واش روم کی طرف قدم بڑھائے، اچانک اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔
”ہاہ مائر کو اب چین سکون نہیں ملے گا۔ سب سے مبارک لیے بغیر نیند نہیں۔۔“ وہ دوست کی کال سمجھ کر بڑبڑاتے ہوئے موبائل اٹھاتا کال اٹینڈ کرنے لگا مگر انجان نمبر دیکھ کر رک گیا۔ رات کے بارہ بجے انجان نمبر سے کال آنا اسے چونکا گیا تھا۔ ڈریس بیڈ کی طرف اچھال کر اس نے کال اٹینڈ کی۔
”ہیلو۔۔؟“ اس نے سوالیہ انداز میں سنجیدگی سے ہیلو کہا۔
”ہیلو! م۔۔ میں۔۔ میرا مطلب آپ۔۔ یافث خان؟“ باریک مدھم کنفیوز سی آواز پر وہ حیرت سے نمبر دیکھنے لگا۔ اس نے تعارف دینے کی بجائے اس سے سوال کیا تھا۔
”یس! ایم ہئیر۔۔۔“ وہ آواز سے ہی اسے پہچان چکا تھا۔ تبھی آہستگی سے بولا۔ اس بار لہجہ سنجیدہ نہیں متذبذب تھا آخر اس نے اس وقت کیوں کال کی تھی؟
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے، بہت ضروری بات۔۔ آپ نے مجھے پہچانا؟ پلیز آپ غصہ مت ہونا لیکن میں چاہتی ہوں۔۔ مطلب اسے میری درخواست سمجھ لیجیے گا کہ۔۔۔“ وہ ٹوٹے پھوٹے بےترتیب جملے بولتی بری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ صاف لگ رہا تھا، روتی رہی ہے۔
“اوکے؟ کون سی درخواست؟ کیا تم پلیز آرام سے بات کر سکتی ہو، میں سن رہا ہوں۔“ وہ بےاختیار اسے ٹوک کر نرمی سے بولتا متوجہ ہوا تھا۔ دوسری جانب اوزگل کانپتے ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کرتی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔ شرمندگی اور زلت کے مارے اسے خود بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بول رہی ہے۔
”جی میں۔۔ میں نے کہنا تھا کہ آپ۔۔ آپ اپنے رشتے سے انکار مت کیجیے گا پلیز۔۔ پلیز منگنی نہیں توڑیں، شادی سے انکار نہیں کریں۔ جو جیسا ہے اسے رہنے دیں اور یہ شادی۔۔۔“ اس کی درخواست نے یافث کو سچ مچ حیران کیا تھا۔ اس کے جبڑے بھنچ گئے۔
”کیوں؟ کیا تم اپنے رشتے سے خوش ہو؟ تمہیں اپنے منگیتر سے کوئی مسئلہ نہیں؟“ وہ سرد لہجے میں سوال کر رہا تھا۔ وہ اپنی منگیتر اوزگل کو زرگل سمجھ کر اس سے سوال کرتا شدت سے خواہش کر رہا تھا کہ وہ کہہ دے اسے فرق نہیں پڑتا۔ اسے زورک پسند نہیں۔۔ وہ اس غلط فہمی میں کتنے عجیب کام کر رہا تھا اسے اندازہ ہی نہیں ہوا تھا۔
”جی؟ میں۔۔ میں خوش ہوں۔ میں نے اپنے رشتے کو دل سے قبول کیا ہے۔ مجھے۔۔ کیوں مسئلہ ہو گا۔ میری بہن تو پاگل ہو چکی ہے۔۔“ یافث خان کو رات کے اس پہر اپنی آمادگی کا بتاتے ہوئے اسے لگا وہ خود پاگل ہو چکی ہے۔ وہ اتنی بےباکی سے اس کے منہ پر کیسے کہہ رہی تھی اس نے رشتے کو قبول کیا ہے۔
وہ اوزگل تھی، ڈھکے چھپے اظہار کرنے والی، آج اتنی بےبس ہو گئی تھی کہ کھل کر بول رہی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔ اسے لگا اس کا دل بند ہو جائے گا۔ کیا وہ اس سے اظہار سن کر تسکین حاصل کر رہا تھا؟ کیا وہ اتنا بےوقوف تھا جسے یہ بھی خبر نہیں تھی رات کے اس پہر اس کی منگیتر اسے فون کر کے منگنی نا توڑنے کی درخواست کیوں کر رہی تھی؟
جبکہ یافث خان اس کے منہ سے وہ الفاظ سن کر ایک پل کے لیے حیران رہ گیا۔ ایک بہن میں اتنی بغاوت کے بڑوں سے لڑنے کو تیار تھی۔ وہ سب کو چیخ چیخ کر انکار کرنے کے لیے تیار تھی اور ایک بہن میں اتنی حیا کہ وہ لرزتی کانپتی آواز میں اپنے رشتے کو سلامت رکھنے کی کوشش کرتی بری طرح رو رہی تھی۔
”آپ نہیں جانتے انکار کے بعد کیا ہو گا؟ ہمارے رشتے ختم نہیں ہوں گے بس جگہ بدل دی جائے گی۔ میرے ساتھ ایسا ظلم مت کیجیے۔۔ میں نے بڑوں کا فیصلہ قبول کر لیا ہے، میں مذاق نہیں بننا چاہتی ہے۔ میں ایک مرد کے بعد دوسرے مرد کے نام نہیں ہونا چاہتی۔۔ آپ بڑوں کا کیا یہ رشتہ ختم نہیں کریں پلیز۔۔“ وہ التجا کرنے لگی۔ یافث کا دماغ گھوم گیا۔
”تم ریسٹ کرو شاید خواب سے جاگی ہو۔۔ آئی کینٹ انڈرسٹینڈ تم اتنی پاگل کیوں ہو رہی ہو؟ میں بچہ نہیں ہوں جسے اچھا برا سکھا رہی ہو۔۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے کا مجھے بھی حق ہے۔ مجھے کوئی شوق نہیں بڑوں کا کیا فضول سا فیصلہ سر جھکا کر قبول کروں کیونکہ میں اس رشتے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتا۔
میری بلا سے لڑکیاں بدل دی جائیں، اگر تمہیں اتنا اعتراض ہے تو جو کرنا ہے کرو مگر میرا دماغ مت کھاؤ۔۔ جو بھی مسئلہ ہے اپنے گھر والوں سے کہو۔۔ ہم سب کو پاگل سمجھ رکھا ہے تم دونوں بہنوں نے، مجھے دوبارہ کال مت کرنا۔۔“ اس نے غصے سے بولتے ہوئے کال کاٹ دی۔ ناجانے کیوں اسے اس کا رونا اور رشتہ نا توڑنے کی درخواست کرنا شدید غصہ دلا گیا تھا۔ موبائل پاور آف کر کے وہ شاور لینے چلا گیا۔
اور اوزگل موبائل ہاتھ میں لیے ساکت بیٹھی رہ گئی تھی۔ دماغ میں زرگل کے الفاظ ہتھوڑے کی مانند برس رہے تھے۔
(جس کے لیے آج تم مجھ سے لڑ رہی ہو وہ انسان تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔)
اس کی ہمت جواب دے گئی، زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی حد سے باہر قدم رکھا تھا اور جس کی خاطر وہ اپنی عزت نفس روند کر آج اتنا روئی تھی، اس انسان نے اس کی بات سننا ہی گوارا نہیں کیا تھا اور وہ پہلا انسان تھا جس نے اوزگل کے ساتھ اتنی سختی سے بات کی تھی۔


امرو خان نے علی زئی حویلی میں زورک خان کے باپ خان داد اور ثمر خان کو ضروری بات کے لیے بلایا تھا۔ اس وقت مردان خانے میں ملازمین نے اچھے سے صفائی کر دی تھی اور زنان خانے کے کچن میں مہمانوں کے لیے کھانا بن رہا تھا۔ امروز خان سر پکڑ کر بیٹھے تھے جب ملازم نے ثمر خان کے آنے کی اطلاع دی، وہ چونک گئے، ثمر خان وقت سے پہلے پہنچ گئے تھے۔
”آؤ ثمر خان۔۔ کیسے ہو۔۔؟“ وہ اٹھ کر چھوٹے بھائی سے ملے اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ ثمر خان شرمندہ سے نظریں چراتے ان کے پاس بیٹھ گئے۔
”لالا آج اس بلاوے کی وجہ جان سکتا ہوں؟ دراصل مجھے بھی کچھ ضروری بات کرنی تھی تو وقت سے پہلے ہی آ گیا ہوں۔“ ثمر خان بہت گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔ امروز خان نے سر ہلایا۔ وہ سمجھ گئے ان کا بھائی بھی بیٹی کے انکار پر شرمندہ سا ان کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا تھا۔
”تم بیٹی کے باپ ہو شاید بولنا مشکل ہو رہا ہے۔ زرگل ہمیشہ سے ایسا مزاج رکھتی ہے، پسند اور مرضی کے خلاف کچھ قبول نہیں کرتی۔ کچھ وہ مزاجاً باغی تھی کچھ تم نے بھی اوز کو ہر بار سمجھا کر زرگل کی خواہش پوری کر کے اسے اس بغاوت کا عادی کر دیا ہے۔“ امروز خان سنجیدگی اور تاسف سے بول رہے تھے۔
ثمر خان کا شرمندگی سے برا حال ہونے لگا، وہ تو بہت مجبور ہو کر آج بڑے بھائی کو ماجرا بتانے آئے تھے۔ اب آ کر اندازہ ہوا زرگل انہیں بھی انکار کا بتا چکی ہے۔
”لالا میں اسے سمجھاتا رہا ہوں، سختی بھی کی اور ڈانٹا بھی ہے۔ وہ اسی وجہ سے ناراض ہو کر آپ کے پاس آ گئی ہے۔ میں نے ساری عمر بیٹیوں پر سختی نہیں کی آج اس کی بغاوت پر ہاتھ نہیں اٹھا پا رہا۔“ ثمر خان بےبسی سے بولے۔
”ایسا غضب کبھی کرنا بھی مت ثمر خان۔۔ کبھی یہ حرکت مت کرنا، بیٹیاں تو آنگن کا پھول ہوتی ہیں اور یہ دونوں کم عمر ناسمجھ ہیں۔ کیا غلطی ان کی ہے؟ ہم نے وقت سے پہلے رشتے کیے، ہم نے فیصلے کیے تو زمہ داری بھی ہمیں قبول کرنی ہو گی۔“ امرو خان بےساختہ انہیں ٹوک گئے تھے۔
”میں بہت شرمندہ ہوں۔۔ کاش زر نرمی دکھاتی، میری کسی بات کا مان نہیں رکھا اس نے۔۔ آپ سے بات کر لی ہے مگر خان داد لالا سے تو نظر ملانے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی۔۔“ ثمر خان افسردگی سے بول رہے تھے۔
”تمہیں مجھ سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میرا خان زادہ بھی مجھے صاف انکار کہہ چکا ہے۔۔ پڑھا لکھا باشعور لڑکا ہے، اسے میرا فیصلہ پسند نہیں آیا۔“ امروز خان کی بات پر ثمر خان کو جھٹکا لگا۔ انہیں اوزگل کی فکر ہونے لگی۔ وہ زرگل کا کیس لڑنے آئے تھے یہاں اوزگل کو بھی انکار ہو گیا تھا۔
”زرگل تو چلو باغی تھی، ہمیشہ سے بات منوانے کی عادت رہی ہے اس کی۔۔ مگر خان یافث نے تو ہمیشہ میرے سامنے سر جھکایا ہے۔ بس میرا کہا پتھر پر لکیر۔۔ ایسے سر جھکا کر رہا کہ حویلی کے ملازمین تک کو یہ خوش فہمی تھی کہ خان زادہ پر میرا رعب ہی اتنا ہے، ڈرتا بہت ہے کہ میرے کسی فیصلے پر اعتراض نہیں کر پاتا مگر۔۔۔
آہ اب جو اس نے سر اٹھا کر اپنا فیصلہ سنایا ہے، میری منتوں پر بھی فیصلہ نہیں بدلا۔۔ دو ٹوک جملے، اٹل لہجہ۔۔ میرے سامنے بالکل میری طرح اس نے اپنی مرضی بتائی ہے اور صاف کہہ دیا ہے زبردستی کے بعد اوزگل کی زمہ داری میرے سر ہو گی۔۔ میں ایسا کیسے کر لوں؟“ امروز خان بےبسی سے بول رہے تھے۔
”میری اوز۔۔ ہمارے فیصلے پر راضی تھی۔۔“ ثمر خان مدھم شکستہ لہجے میں بولے تو امروز خان کا دل مٹھی میں آ گیا تھا۔ انہیں وہ پیاری بھی تو بہت تھی۔ پیدا ہوئی تھی تو سب سے پہلے انہوں نے اوزگل کو گود میں اٹھایا تھا۔ انہوں نے نام دیا، انہوں نے پہلے پیار دیا اور اپنے سب سے لاڈلے بیٹے کے نام کر دیا تھا۔
اوزگل کو سب پہلے آغا جان سے پیار ملا تھا اور سب سے زیادہ پیار بھی وہی کرتے تھے۔ اس رشتے پر اس مغرور ضدی لڑکے کے علاوہ کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ اوزگل راضی تھی تو علی زئی حویلی والے بھی ہمیشہ سے صرف اسی کو سب سے چھوٹی بہو کے روپ میں دیکھتے آئے تھے۔ ضدی خان نے سب الٹا کر دیا تھا۔
دونوں بھائیوں کو چپ لگی تو خان داد کے آنے پر ہی وہ چپ ٹوٹی تھی۔ خان داد رشتے میں بھی ان کے چچا زاد تھے، غیر تو نہ تھے کہ کوئی تکلف ہوتا۔ اکٹھے کھانا کھایا اور اچھے ماحول میں گفتگو کا آغاز ہوا۔ تب باتوں باتوں میں امروز خان نے رشتوں کی بات چھیڑ دی اور اسی بات میں زرگل کا انکار ان تک پہنچایا۔
”کیا مطلب؟ تاریخ طے ہو گئی، شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اب انکار۔۔؟ یہ سب کیا ہے ثمر خان۔۔؟“ خان داد کا رنگ اڑا تھا۔ پوری برادری کا سامنا کرنا تھا، صرف بات طے نہیں ہوئی تھی شادی بھی طے ہو چکی تھی اب انکار۔۔ وہ مشکل میں آگئے۔۔
”ہم نے اپنی خواہشات کے مطابق رشتے کیے تھے مگر بہرحال زندگی بچوں نے گزارنی ہے تو ان کی خوشی کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ تمہیں اپنا غم ہے اور مجھے دیکھو تم سے پہلے میں نے رشتہ کیا تھا لیکن خان زادے نے انکار کر دیا۔ میں بھی رشتہ ختم کرنے والا ہوں۔“ خان امروز نے سنجیدگی اور صاف گوئی سے کہا۔
”مگر لالا جان خاندان بھر میں مجھے شرمندگی کا سامنا ہو گا، یہ رشتے کوئی چھپے ہوئے تو نہ تھے اور اب شادی کی تاریخ رکھنے میں بھی ساری برادری کے لوگ تھے۔ زورک حویلی کا پہلا لڑکا ہے۔ ہماری حویلی میں تو بہت دھوم دھام سے شادی کی تیاری کی جا رہی ہے۔“ خان داد بوکھلا گئے تھے۔ ثمر خان سر جھکا کر بیٹھے تھے آخر ان کی لاڈلی بیٹی کا کارنامہ تھا۔
”خان داد برادری کے لوگوں کو خوش رکھنے میں بچوں کی زندگی تباہ کرو گے کیا؟ حوصلہ کرو ابھی تو صرف بات کی ہے۔“ خان امروز نے انہیں سمجھانا چاہا۔
”میرا بچہ تو راضی ہے، میرے زورک کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔“ خان داد سنجیدگی سے بولے۔
”لالا میں بیٹی کا باپ ہوں، زبردستی مار پیٹ کر کے اسے رخصت کرنے کا سوچ کر دل رکنے لگتا ہے۔ اگر آپ نے انکار قبول نا کیا اور کوئی حل نہ رہا تو یہی کرنا پڑے گا مگر میں سوچ رہا ہوں ایک بار۔۔ صرف ایک بار دونوں لڑکوں کو بلوا کر ان سے پوچھ لیا جائے اور رشتے بدل لیے جائیں۔۔
میں نے جہاں رشتے کیے ہیں وہاں لڑکیاں دوں گا، اگر زورک کو اوزگل پر اعتراض نا ہو اور اگر یافث خان زرگل سے رشتہ کرنے پر راضی ہو جائے تو گھر کی بات ہے، رشتے اور مان قائم رہ جائیں گے۔“ ثمر خان نے مدھم کمزور لہجے میں حل دیا۔ وہ ایک بار پھر زرگل کی خوشی کے لیے اوزگل سے بنا پوچھے فیصلہ کرنے پر تیار ہوئے تھے۔
”میں بھائی ہوں تمہارا، دونوں میری بھانجیاں ہیں، میں بھی نہیں چاہوں گا کہ ایسے جبر کے ساتھ زرگل کو رخصت کرو اور اوزگل تو بہت پیاری بچی ہے۔ میں زورک کو بلوا لیتا ہوں۔ تاریخ طے ہے، تیاری بھی ہے۔ اوز کے لیے ہاں کہہ دے تو اسی کو مایوں بٹھا دینا۔۔“ خان داد لڑکیوں کے سگے ماموں تھے، اس لیے مان گئے۔
امروز خان بھی سوچ میں مبتلا ہوئے تھے۔ شاید یافث خان زرگل کے لیے سر جھکا دے، شاید وہ ضدی لڑکا اس رشتے پر خاموش ہو جائے تو انہیں بھی کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
دونوں لڑکوں کو اسی وقت بلاوا بھیج دیا گیا تھا اور اب ان کے آنے کا انتظار ہو رہا تھا۔

جاری ہے۔

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!