Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چھ
”جی ہاں میری شادی اور مجھے ہرگز نہیں قبول، میں شروع سے ہی اس رشتے کے خلاف تھی۔۔“ وہ بولی تو لہجہ ایسا باغی تھا جیسے ابھی سب تہس نہس کر دے گی۔ خان یافث نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
”کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟“ وہ شک بھری نظروں سے اسے گھورنے لگا۔ اسے لگتا تو نہیں تھا وہ راضی نہیں ہے۔ بار بار اس کے سامنے آتی تھی، اس سے ٹکراتی تھی اور وہ اتنا بےوقوف نہیں تھا۔ اس کا جان بوجھ کر اپنے سامنے آنا محسوس کرتا تھا۔
”سب جانتے ہیں اوزگل جھوٹ نہیں بولتی۔۔“ وہ الٹا اسے گھورنے لگی۔ اگر وہ سب سمجھتا ہے تب بھی زرگل کو اطمینان تھا کہ وہ ابھی تک حقیقت سے ناواقف ہے۔ وہ زرگل کو اوزگل سمجھتا ہے اور صرف اسی وجہ اس سے شادی کرنے پر راضی نہیں تھا۔
”گڈ! اگر یہ بات ہے تو تم فکر مت کرو، مجھے بھی بچپن میں کیے جانے والے اس رشتے میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں۔۔ بلکہ میں تو بچپن میں رشتے کرنے کے ہی خلاف ہوں۔۔ تمہاری حقیقت دیکھنے کے بعد تو اب علیزئی حویلی کا مان رکھنے کا بھی دل نہیں چاہ رہا۔۔“
وہ گہرا سانس بھرتے ہوئے صاف گوئی سے بولا۔ زرگل اطمینان سے مسکرائی، یہ الفاظ اس کے لیے نہیں اوزگل کے لیے تھے۔ وہ ایسے ہی واضح ناپسندیدگی ظاہر کرتا تھا۔ لحاظ مروت اس میں بالکل نہیں تھے۔
”اب تک مجھے خاموش کروا دیا جاتا تھا کہ لڑکی کو انکار کر کے اس کی تضحیک نہ کروں مگر یہاں تو ماشاء الله لڑکیاں بھی اتنی بہادری سے اپنے حق لے رہی ہیں پھر میں کیوں قربانی دوں۔۔“ وہ طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔
”میں آغا جان سے بات کر لوں گا، نا میرے ساتھ ناانصافی ہو گی نا تمہارے ساتھ، تم فکر مت کرو۔۔“ وہ ایک پل میں دوست بن گیا تھا۔ اس موقع پر بات کرنا بھی گوارا تھا اور زرگل کا جوش دیدنی تھا۔
”احسان ہو گا تمہارا، میرا نام نہیں لینا۔۔ میں اپنے حصے کا انکار پہنچا چکی لیکن میرا نام آئے تو سب غیرت مند بن جاتے ہیں اور مجھے گستاخ کا لقب دے دیتے ہیں۔۔
سنا ہے تم اپنی بات رکھتے ہو تو میرا مت بتانا کہ ابھی بات کی ہے۔ ورنہ آغا جان یہیں میری قبر بنا دیں گے۔“ وہ جھرجھری لے کر بولی، اس کے انداز پر خان یافث نے نہایت ناگواری سے اسے دیکھا اور اٹھ کر تیزی سے چلا گیا۔
زرگل ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی۔ اس کا کام اب خان یافث پورا کر دینے والا تھا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ اسے وہ دن یاد آیا جب چھوٹی پھپھو کی شادی پر وہ دونوں بہنیں باہر کھڑی تھیں، جب زورک خان ان سے ملنے آیا تھا۔
اوزگل نے شرارت سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے خود کو زرگل کہا تھا زورک خان اس کا جھوٹ پہچان گیا تھا کیونکہ وہ زرگل کا منگیتر تھا اور وہ اوزگل کو بہت اچھے سے پہچانتا تھا مگر اسی لمحے مردان خانے سے خان یافث بھی اس طرف آیا تھا۔ زورک مسکراتی نظروں سے اوزگل کو دیکھ رہا تھا۔
اور زرگل کی نظریں خان یافث پر ٹکی تھیں جو زرگل کو اپنی منگیتر اوزگل سمجھ کر وہاں سے واپس جا چکا تھا۔ اس روز کے بعد سے زرگل نے اوزگل کے مذاق کو خان یافث کے سامنے قائم رکھا تھا۔ وہ اس کے سامنے ہر بار اوزگل کے طور پر آئی تھی اور اسے خود سے متنفر کرتی تھی۔
خان یافث کی فطرت ایسی تھی وہ غلط فہمی ہونے کے بعد پورے گھرانے کی کوئی وضاحت سننے کو تیار نہیں ہوا تھا۔ اسے یہ پتا تھا اوزگل اس کی منگیتر ہے، اسے سب نے کہا اوزگل اچھی ہے۔ اس نے اوزگل کے منہ سے اسی کا غلط نام سن کر زرگل کو اوزگل مان لیا تھا۔
ان کی حویلی میں وہ دونوں جب بھی آئیں، ایک ساتھ آئی تھیں۔ جب اوزگل کو پکارا گیا، زرگل نے بھی ساتھ جواب دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی خان یافث اسی غلط فہمی کا شکار رہے۔ وہ اسی کو اپنی منگیتر سمجھتا رہے اور شادی سے انکار کر دے۔
کیونکہ ان کے خاندان میں پرانا رواج تھا، جس گھر میں بات ہو جاتی تھی اس گھر کی لڑکی دینا ضروری ہوتا تھا۔ اگر زرگل انکار کر دیتی اور اگر خان یافث بھی اپنی منگیتر کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیتا تو اسے چچا کی دوسری بیٹی سے شادی کرنی تھی۔
وہ دونوں اس رواج سے واقف تھے۔ زرگل اس رواج اور خان یافث کی غلط فہمی کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ خان یافث رشتے سے انکار کرے گا، تو اوزگل کو زورک خان کے حوالے کیا جائے گا اور زرگل کی شادی خان یافث کے ساتھ کر دی جائے گی۔
وہ مغرور، نک چڑھی اور ضدی لڑکی جو خان یافث سے محبت کر بیٹھی تھی۔ وہ اسی کی مدد سے اسے پانا چاہتی تھی۔
وہ زرگل سے بات کرنے کے بعد سیدھا امو جان اور آغا جان کے کمرے میں پہنچا تھا، اب رشتہ سلامت رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ جب لڑکی لڑکا دونوں راضی نہیں تھے، پھر کیوں زبردستی کی جا رہی تھی۔
”آپ سے بات کرنی ہے آغا جان۔۔“ وہ ان کے سامنے جا کر ڈھیلا ہو گیا تھا۔ صاف انکار کرنے پر جو ان کی حالت ہونے والی تھی یافث خان اس بات سے ڈر رہا تھا۔
”ہاں آؤ، بیٹھو میرے پاس۔۔ پریشان کیوں لگ رہے ہو خان۔۔“ اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ وہ لاڈلا بیٹا تھا اور ان کے کیے رشتے کی وجہ سے ہر وقت ڈپریسڈ رہتا تھا۔
”میں صاف بات کروں گا خان یافث۔۔۔ کیا واقعی تمہیں اس رشتہ سے انکار ہے؟ تمہیں اپنی منگیتر اوزگل سے انکار ہے؟“ وہ اب مزید ٹال مٹول نہیں چاہتے تھے۔ صاف الفاظ میں سوال کیا۔ یافث خان ہاں میں سر ہلا گیا۔
”جواب دینے سے پہلے ایک بار سوچ لینا خان زادے کہ وہ لڑکی تمہارے نام پر بیٹھی ہے، اس کی جڑواں بہن کی شادی ہونے والی ہے اور اس کا بچپن میں کیا گیا رشتہ ختم کیا جا رہا ہے۔ ایک بار سوچ لینا اس معصوم پر کیا گزرے گی۔“ بیگم خان نے سنجیدگی سے کہا تو آغا جان نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”لڑکی میرے نام پر بیٹھنا ہی تو نہیں چاہتی امو جان۔۔ کیا ہماری روایات اتنی سخت ہیں کہ لڑکی لڑکا دونوں راضی نہیں مگر شادی کر دی جائے گی؟ آخر آپ سب بڑے صرف اپنی زبان کا پاس رکھنے کے لیے اتنے بےرحم کیوں ہو جاتے ہیں۔“ اس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔
”تمہیں کس نے کہا لڑکی راضی نہیں ہے۔۔“ بیگم خان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ وہ تو خود اوزگل کا خان یافث کے زکر پر گل رنگ ہوتا چہرہ دیکھ چکی تھیں۔ سب کے چھیڑنے پر وہ چھوئی موئی سی ہو جاتی تھی، گھر کے ہر فرد کو اوزگل کی پسندیدگی کا علم ہو چکا تھا پھر وہ کیوں ایسی بات کر رہا تھا۔
”کیا تمہیں اوزگل نے خود ایسا کہا ہے؟“ بیگم خان حیرت زدہ سی سوال کر رہی تھیں۔
”جی ہاں اسی نے کہا ہے۔ میں جانتا ہوں ہمارے خاندان میں اس بات کا رواج نہیں اور لڑکی لڑکا چاہے منگیتر ہوں ایسے کھل کر ملنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر اسے اس بات پر کوئی نا ڈانٹے۔۔ کیونکہ یہ بات کرنا ضروری تھا۔
ہماری پوری زندگی کا سوال ہے ہمیں فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے اور اس نے خود اپنے منہ سے کہا ہے کہ وہ بھی اس رشتے سے راضی نہیں ہے۔ وہ بھی آپ سب کے فیصلے پر سر جھکانے کے لیے مجبور ہو گئی ہے اور آغا جان آپ۔۔۔
مجھے بہلاتے رہے اور یہاں چپ چاپ میری شادی طے کر دی۔۔ مجھے بتایا تک نہیں، حاذق لالا اور واثق لالا بھی اس بات سے مُکر گئے ہیں۔ گھر میں کوئی میرا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔۔“ بےبسی اس کی آواز بوجھل ہو گئی۔
”یہ کیا کہہ رہے ہو خان؟ ہم نے ابھی کوئی بات نہیں طے کی، ثمر خان نے بات کی تھی کہ اگر ہم شادی کرنے کا سوچ لیں تو اچھا ہو گا کیونکہ وہ دونوں کی ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن میں نے اسے ابھی جواب نہیں دیا۔ تم سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کروں گا بچے۔۔ اپنے آغا جان پر شک کیوں کرتے ہو۔“
امروز خان نے بےاختیار اسے صفائی دی تھی۔ وہ اپنے فیصلوں پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور ڈٹ کر اپنی بات منوانے والے انسان تھے مگر یافث خان کا معاملہ الگ تھا۔ وہ اسے ناراض کرنے سے بھی ڈر جاتے تھے۔
”اور کیا واقعی تمہیں لڑکی نے خود کہا کہ وہ اس شادی پر راضی نہیں ہے؟ تم اوزگل سے ملنے کب گئے تھے؟“ آغا جان ناسمجھی سے اسے تکنے لگے۔
”میں ملنے نہیں گیا، وہ یہاں آئی تب بات ہوئی تھی اور اس کی بات کیوں کر رہے ہیں کیا مجھ پر یقین نہیں ہے؟“ وہ خفگی سے بولتا اس کی حرکت چھپا گیا۔ زرگل اس سے اوزگل بن کر بات کرتی تھی، اوزگل بن کر ہی مل رہی تھی۔
اور اگر وہ اس پل یہ بتا دیتا کہ اوزگل حویلی میں آئی ہوئی ہے تو زرگل کی ساری چال الٹ جاتی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی یافث خان اپنی بات سے پھِرتا نہیں تھا۔ اس نے کہا تھا وہ اس کا زکر نہیں لائے گا، وہ وہی کر رہا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا ہماری اوز اتنی باغی ہو گئی ہے۔ مجھ سے یا اپنے باپ سے کہنے کی بجائے یہ سب خان زادے کے منہ پر کہنے کی جرأت کیسے ہوئی اس کی۔۔ اوزگل یہ حرکت کیسے کر سکتی ہے۔“ آغا جان کو اچھا خاصہ صدمہ پہنچا تھا۔
”اوزگل نے ایسا کچھ نہیں کہا نا وہ ایسا کچھ کہہ سکتی ہے، یافث خان پاگل ہو گیا ہے۔ کسی غلط فہمی کا شکار ہو رہا ہے۔“ بیگم خان نے خفگی سے کہا۔
”آپ اس کی بغاوت سامنے نہیں لانا چاہتیں یا میں جھوٹا لگ رہا ہوں؟ امو جان آپ کو مجھ پر شک ہے؟ کس غلط فہمی کی بات کر رہی ہیں؟“ وہ بےیقینی اور افسوس سے ماں کو دیکھ رہا تھا۔ بیگم خان نے اپنا سر پکڑ لیا۔
”یافث خان میں ثمر سے بات کرتا ہوں، میں ایک بار اوزگل سے بھی پوچھ لوں گا اگر وہ واقعی چاہے گی تو۔۔۔“ امروز خان کا دل غمزدہ ہو رہا تھا۔
”خان صاحب آپ سن لیں یہ پاگل ہو چکا ہے۔۔ میں یہ رشتہ ٹوٹنے نہیں دوں گی، میں اوزگل کی جگہ کسی کو بہو نہیں بنا سکتی، اوزگل کو بلا کر پوچھنے کی بجائے میں چاہتی ہوں یافث خان اپنے فیصلے پر غور کرے۔“ بیگم خان نے سنجیدگی سے کہا۔
انہیں گڑبڑ کا احساس ہو رہا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ اوزگل کے چہرے کی شرمیلی مسکان جھوٹی نہیں تھی۔ اس کا یافث خان کو چھپ چھپ کر دیکھنا جھوٹ نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ سب جانتی تھیں۔ کسی کا دھیان زرگل کی طرف نہیں گیا تھا۔ یافث شاکڈ سا اپنی ماں کو دیکھنے لگا جو اوزگل کا ساتھ دے رہی تھیں، اس کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔ کیا وہ اوزگل کو یافث سے زیادہ چاہتی تھیں؟
”میں سو بار سوچ کر بھی یہی جواب دوں گا۔ مجھے اس سے نفرت ہے پھر بھی آپ شادی کریں گے تو یہ سر جھکا ہوا ہے، میں آپ کو خاندان کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دوں گا لیکن یاد رکھیے گا امو جان۔۔
میرا دل ہمیشہ خالی رہے گا، آپ کا خان زادہ کبھی خوش نہیں رہے گا اور اس کی زمہ دار آپ ہوں گی۔“ وہ مدھم لہجے میں بولتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ بیگم خان ساکت سی اسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔
”میں صرف اپنے بیٹے کی خوشی چاہتا ہوں۔ میں یافث کو ساری زندگی اداس نہیں دیکھ سکتا۔۔ میں ثمر خان اور اسد خان کو بلوا لیتا ہوں۔ ہم۔۔ اوزگل کا زورک خان کے ساتھ اور۔۔ یافث کا زرگل کے ساتھ رشتہ کر دیتا ہوں۔“ امروز خان رک رک کر بولے۔
ان کے لیے وہ فیصلہ بہت مشکل تھا۔ انہیں دونوں بھتیجیاں عزیز تھیں لیکن علی زئی حویلی میں سب کو اوزگل سے الگ ہی محبت تھی۔ وہ اس حویلی کی جان تھی لیکن۔۔ یافث خان سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیٹے کے حق میں فیصلہ کر لیا۔
”تمہاری شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے زرگل، واپس کب آؤ گی، آبا اور مورے بھی یاد کرتے ہیں تمہیں، ماموں جان کو اتنے جھوٹ بولے، سب مہمان تمہارا پوچھ رہے تھے۔ تمہیں آبا کی عزت کا بالکل خیال نہیں۔۔“ اوزگل فون پر اس سے ناراض ہو رہی تھی۔
”آبا کو بھی تو میری خواہش کا خیال نہیں ہے۔ میں اب نہیں آؤں گی۔ حویلی میں بھلا رکھا ہی کیا ہے۔“ زرگل باغی لہجے میں بول رہی تھی۔
”حویلی میں آبا اور مورے ہیں، اب تمہیں یہاں آنا بھی اچھا نہیں لگ رہا؟ اپنے گھر کا سکون تمہارے نصیب میں ہے ہی کہاں۔۔ اچھا ہے شادی ہو رہی ہے تمہاری، جان چھوٹے گی، کچھ عرصہ تو سکون سے گزار لوں گی میں۔۔“ اوزگل کو شدید غصہ آیا تھا، وہ بولنا شروع ہوئی تو زرگل کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔
”اوزی تمہاری پتا ہے کیا مسئلہ ہے؟ تمہیں کوئی توجہ نہیں دیتا اور تم اٹینشن کے لیے ایسے ہی اچھی بچی بنی تقریر کرتی ہو اور واہ واہ سمیٹتی ہو۔۔ مجھے تم سے جلنے کی صاف بو آ رہی ہے، سب مجھے پیار دیتے ہیں تم تو جلو گی۔۔ تمہیں گھر والوں کے علاوہ کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔۔“ زرگل نے تمسخر سے کہا۔
”الحمد اللہ جن کی توجہ اور محبت کی ضرورت ہے ان سب سے پھرپور توجہ ملتی ہے، ایرے غیروں کی مجھے ضرورت بھی نہیں ہے نا میں تمہاری طرح لاڈ سمیٹنے کے لیے کسی کے پاس جاتی ہوں۔“ اوزگل بھی باز نہیں آئی تھی۔ ان کی لڑائی ہمیشہ شدید قسم کی ہوتی تھی۔
” وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے، آبا کی لاڈلی تو میں ہوں۔ مورے بھی میری ناراضگی سے پریشان ہوتی ہیں۔ دی جان اور آغا جان کے علاوہ خانم مورے بھی یہاں مجھے اتنی توجہ دے رہے ہیں۔۔
یہاں سب میری خوشی چاہتے ہیں، میں یہاں جس کام کے لیے آئی تھی وہ بس ہو چکا، اب میں بھی آ جاؤں گی۔۔ شادی تو اپنے وقت پر ہی ہو گی۔“ زرگل کے لہجے میں فتح کا جوش تھا، اوزگل ٹھٹک گئی۔
”کیسا کام؟ کیا کام؟ تم کیا کرنے گئی ہو وہاں؟“ وہ حیران ہوئی۔ اسے تو خبر ملی تھی کہ وہ ضد کر کے آغا جان سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ روشنا نے بھی یہی کہا کہ زرگل بی بی شادی طے ہونے کے غم میں لڑ کر بڑی حویلی گئی ہیں۔
”انجان مت بنو اوز۔۔ تم جانتی ہو مجھے اپنے رشتے سے انکار تھا اور اب تک ہے۔۔ مجھے زورک خان سے شادی نہیں کرنی، وہ مجھے اچھا نہیں لگتا، ماموں جان کی حویلی میں عورتوں پر جو بےجا پابندی لگائی جاتی ہے، میں وہ برداشت نہیں کر سکتی۔۔
مجھے آغا جان کی حویلی میں سکون ملتا ہے، مجھے یافث خان پسند ہے اور میں یہی بات منوانے یہاں آئی تھی۔ میں نے سوچا تھا آغا جان سے خود بات کروں گی مگر پھر میرا یافث خان سے سامنا ہوا اور وہ میرا ہی ہم خیال نکلا۔۔
میرا منگیتر زورک خان مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن تمہارا منگیتر یافث تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا اوز۔۔“ زرگل مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔ تو کیا واقعی یافث خان کو اوزگل پسند نہیں تھی؟ اس لیے آغا جان ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے؟
پہلے نکاح کرنے سے منع کیا اور اب شادی روک دی تھی۔ اوزگل ساکت سی اپنی بہن کی باتیں سن رہی تھی۔
(میری بیٹیاں اتنی بےلگام نہیں ہوئیں کہ میرے فیصلوں سے انکار کریں، بس بچی جلدی شادی سے گھبرا گئی ہے اس لیے انکار کر رہی ہے، امید ہے وہ جلد سنبھل جائے گی)
بیگم ثمر اپنے میکے والوں کے جانے کے بعد جب زرگل کی ضد پر گھبراہٹ کے مارے رو رہی تھیں تو ثمر خان نے بہت مان سے کہا تھا۔ اوزگل نے تب توجہ نہیں دی تھی مگر اب اس کے ہوش اڑ رہے تھے، زرگل ان کو بھی اپنا انکار پہنچا چکی تھی۔۔
”تم جھوٹ بول رہی ہو، ایسا نہیں ہو سکتا زر۔۔ آغا جان رشتے ختم نہیں کریں گے۔ ہمارے ہاں رشتے ختم نہیں کیے جاتے۔ کوئی تمہارے انکار کو قبول نہیں کرے گا۔“ اوز گھبرائی ہوئی سی بول رہی تھی۔
”کون قبول نہیں کرے گا؟ آغا جان میری بات نہیں مانیں گے تو کیا اپنے بیٹے کی بات بھی نہیں مانیں گے؟ خان یافث بھی انکار کر چکا ہے۔ وہ بھی اس رشتے کو توڑنا چاہتا ہے، اس نے خود کہا ہے وہ میری ہیلپ کرے گا اور آغا جان سے بات بھی خود کرے گا۔“
زرگل جھوٹ نہیں بول رہی تھی، اس کا پرجوش لہجہ بتا رہا تھا یہ خبر سچی تھی۔ جو بات وہ اتنا چہک کر بول رہی تھی، اسے سن کر اوزگل کا جسم بےجان ہو رہا تھا۔
”اور تم نے ٹھیک کہا ہمارے ہاں رشتے نہیں توڑے جاتے لیکن جب دونوں طرف سے انکار ہو گا تو رشتے بدل دئیے جائیں گے، لڑکیاں بدل جائیں گی۔ ہمارے ہاں یہی رواج ہے، جس گھر میں زبان دی جائے وہاں لڑکی ضرور دیتے ہیں۔“ زر خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔
”تمہیں ایسا کس نے کہا؟ تم پاگل ہو زرگل، تم صرف پاگل ہو۔۔ ایسا نہیں ہوا کرتا۔۔ ہم بیٹیاں ہیں کھلونا نہیں جو بدل دیا جائے گا۔ آبا جان اور آغا جان کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔“ اوزگل چیخ اٹھی تھی۔
”تمہیں لگتا ہے ہم دونوں باقی سب سے الگ ہیں؟ تمہیں نہیں پتا بڑی بڑی پھوپھو کی شادی کیوں ان سے بیس سال بڑے مرد کے ساتھ ہوئی تھی؟ ان کی شادی ان کی خالہ کے منگیتر سے ہوئی تھی کیونکہ یہی ہمارا رواج ہے۔ ان کی خالہ نے نکاح پر انکار کیا تو بڑی پھپھو کو ان کی جگہ رخصت کر دیا گیا تھا۔
لیکن دیکھو کچھ بھی برا نہیں ہوا، پورا خاندان ان کی قسمت پر رشک کرتا ہے، بڑی پھوپھو خوش ہیں۔ ان کے ہزبینڈ نے ساری زندگی انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ ہم بھی خوش رہیں گی، ان فیکٹ میں تو بہت خوش رہوں گی، اپنی محبت جو پا لوں گی۔۔“
زرگل کی بےباک باتوں پر اوزگل کا دماغ بھک سے اڑ گیا، وہ کیا بول رہی تھی، کون سی رسوم بتا رہی تھی۔ اپنی دنیا میں مست رہنے والی اوز کے حواس جواب دے رہے تھے۔ اسے سنائی نہیں دے رہا تھا، موبائل ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر گرا اور وہ ڈر کر رونے لگی۔
”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، ایسا کبھی نہیں ہو گا، اللہ میری دعاؤں اور تشکر کو نظر انداز کبھی نہیں کرے گا، اللہ مجھے ویران نہیں کرے گا۔“ وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتی روتی جا رہی تھی۔ اس نے تو بس اپنے منگیتر کو قبول کیا تھا۔
چاہے وہ زورک خان ہوتا یا یافث خان۔۔ زورک خان نے بھی اپنی منگیتر کو دل سے قبول کیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اس رشتے کے بارے میں جانتا تھا لیکن زرگل کو یافث خان سے محبت تھی اور کیا یافث خان کو بھی؟ وہ جو زرگل کو دیکھتے ہی غصہ ہو جاتا تھا۔
اس کا اور زرگل کا جب بھی سامنا ہوا، لڑائی ہوئی تھی۔ اسے وہ پسند کیسے آ گئی؟ اسے اوزگل میں کیا کمی نظر آئی تھی؟ اسے وہ اچھی کیوں نہیں لگی؟ اسے اب یاد آیا تھا جب دی جان کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اس نے یافث خان کو کال کی تھی۔
اس نے بہت روڈ لہجے میں بات کی تھی، تب اوزگل کو لگا تھا وہ اسے پہچانا نہیں ہو گا۔ وہ اسے زرگل سمجھا ہو گا۔ ایسا ہی تھا۔ یہی سچ تھا لیکن زرگل کی باتوں کے بعد اسے لگا وہ پہچان گیا تھا بس اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے پسند نہیں کرتا تھا۔
غلط فہمی جو یافث خان سے شروع ہوئی تھی، اوزگل تک پہنچ چکی تھی۔ اور ایسا کرنے والی زرگل تھی جسے لگتا تھا وہ کامیاب ہو چکی ہے۔ وہ قسمتوں سے لڑنے چلی تھی۔
”تمہارے پاس ٹمپریچر کے لیے کوئی ٹیبلٹ پڑی ہے؟“ علیزے عشاء کی نماز کے بعد ڈوپٹہ کھول کر بستر پر آئی تو موبائل پر آیا میسج پڑھ کر ٹھٹک گئی۔ اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے یافث خان کی لائی میڈیسنز کے پیکٹ کھول کر چیک کیے۔
”جی ہاں۔۔ کیوں؟“ وہ میڈیسن ہاتھ میں لیے جوابی میسج کر رہی تھی۔ رپلائی نہیں آیا تو موبائل اور میڈیسن سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گئی، ابھی بلینکٹ کھولا تھا کہ پھر سے میسج آیا۔
”پلیز لا دو۔۔“ علیزے اس کا میسج پڑھ کر بےچینی سے پہلو بدل کر رہ گئی۔ اسی وجہ سے اس نے نمبر بلاک کیا ہوا تھا۔ وہ ڈرا دھمکا کر نمبر ان بلاک کروا چکا تھا اور اب آرڈر کر رہا تھا دوا لا دے۔
”آپ اپنے سرونٹ کو بھیجیں، میں ڈور پر دے دوں گی۔“ اس نے جواباً میسج بھیج کر سر جھٹکا۔
”حمزہ اپنے گھر جا چکا ہے۔“ اس میسج پر اس کا دل چاہا صاف انکار کر دے۔ کہہ دے کہ رات کے وقت وہ اس کے پاس نہیں آئے گی لیکن وہ انجام جانتی تھی اس لیے بےبسی سے موبائل پٹخا۔
گھڑی پر وقت دیکھا اور چادر اٹھا کر کمرے سے نکلی، رودابہ اور خوشنما کے کمرے کی لائٹ آن تھی، وہ رات کو دیر تک بیٹھ کر پڑھنے کی عادی تھیں اور علیزے جلدی سو جاتی تھی۔
وہ تیزی سے آگے بڑھتی دروازہ کھول کر سامنے والے دروازے پر پہنچی۔ دروازے پر دستک دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ لب بھنچتی اندر کی طرف بڑھی۔ وہ اپنے کمرے میں نیم اندھیرا کیے پڑا تھا۔وہ قریبی ٹیبل پر میڈیسن رکھ کر پلٹی۔
”کیا تم چائے کا ایک کپ بنا کر دے سکتی ہو؟ یہاں تک آ ہی گئی ہو تو یہ مہربانی بھی کر دو۔ میں میڈیسن پانی کے ساتھ نہیں لے سکتا اور چائے بنانے کی ہمت نہیں ہے۔“ وہ بھاری مدھم آواز میں بولتا اسے روک گیا۔ اس کے کمزور لہجے پر وہ بےساختہ گردن موڑ کر بستر کی طرف دیکھنے لگی۔
پھر خاموشی سے نکل کر کچن میں پہنچی۔ وہ پہلی بار اس جگہ آئی تھی۔ کیتلی تو سامنے پڑی تھی، دودھ بھی فریج میں موجود تھا لیکن چینی پتی کو ڈھونڈنے میں اچھی خاصی دیر لگی۔ اس نے زچ ہو کر ہر کیبنیٹ چھان لیا مگر الائچی کا پیکٹ کہیں نہیں ملا۔
اس کے بغیر چائے بنا کر ایک چھوٹے سے ٹرے میں چائے کا کپ اور پانی کا گلاس رکھا، پھر کچھ سوچ کر فریج کھولا۔ فروٹ پڑا ہوا تھا۔ اس نے سیب اور چھری دھو کر وہ بھی ساتھ رکھ لیے۔ کمرے میں پہنچ کر سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھا۔
میڈیسن بھی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ پلٹنے لگی تو ایک دم اس کا ہاتھ نرمی سے تھام لیا۔ اس کے بھاری مردانہ ہاتھ کے جلتے ہوئے لمس پر علیزے کے پورے وجود کو کرنٹ لگا تھا۔ وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر پیچھے ہوئی۔
”آئم سوری۔۔ میری مجبوری تھی اس لیے بلایا ہے، تمہارا احسان مند رہوں گا۔“ وہ نرمی سے بولتا ان حیران نیلی آنکھوں سے نظریں چرا گیا۔
”آپ کو احسان مند رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے مجھے فیور دی، میری طبیعت خراب ہونے پر چیک اپ کروایا، میڈیسن منگوا کر دی۔ بس یہ اسی احسان کا بدلہ چکایا ہے میں نے۔۔“ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
”ایسی باتیں مت کرو، میں نے کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ مجھے ضرورت تھی اس لیے بلایا ہے تمہیں، ورنہ میں کبھی ایسے میسج نا کرتا۔“ وہ بےساختہ اسے ٹوک گیا۔ بخار کی حدت سے سرخ ہوتا چہرہ اور سرخ آنکھیں بتا رہی تھیں وہ اچھا خاصہ بیمار ہے۔
”آپ اب تک مجھ پر صرف احسان ہی کرتے آئے ہیں۔ میں بھی کوشش کروں گی ان احسانات کا بدلہ اتار دیا کروں تاکہ مجھ پر کوئی بوجھ نا رہے۔“ وہ تلخی سے بولتے ہوئے واپسی کے لیے پلٹی۔
”اس مہربانی کے لیے شکریہ، آئندہ تمہیں میری طرف سے ایسا کوئی میسج نہیں آئے گا۔ آئندہ تمہیں اپنا کوئی کام نہیں کہوں گا۔“ وہ مدھم سنجیدہ لہجے میں بولا۔ کمرے سے نکلتی علیزے کی آنکھیں ناجانے کس احساس کے تحت تیزی سے بھیگتی چلی گئی تھیں۔
وہ کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ اس فلیٹ سے نکل کر اپنے فلیٹ میں پہنچی۔ کچن سے چائے بنا کر باہر نکلتی خوشنما نے اسے رات کے اس پہر باہر سے آتے دیکھا تو بری طرح ٹھٹک گئی۔ جبکہ وہ دروازے سے اندر آتے ہی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
”علیزے۔۔۔ کیا ہوا تمہیں؟ کہاں گئی تھیں تم؟“ خوشنما گھبرائی ہوئی سی اس کی جانب بڑھی، رودابہ بھی آوازوں پر باہر نکل آئی تھی۔ وہ گہرے گہرے سانس بھرتی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
وہی ہاتھ جسے یافث خان نے بےاختیاری میں نرمی سے تھاما تھا اور پھر چھوڑ دیا تھا۔ وہ نرم گرم سا لمس۔۔ وہ بےتابی بھرا مردانہ لمس۔۔ علیزے کو لگا اس کا ہاتھ ابھی تک جل رہا ہے۔ وہ اس ہاتھ کو سینے پر رکھتی بری طرح رونے لگی۔
وہاں یافث خان اپنے کمرے میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا بےچین نظروں سے ٹرے کو دیکھتا جا رہا تھا۔ سلیقے سے رکھا چائے کا کپ، پانی سے بھرا کانچ کا گلاس اور دھلا ہوا سیب۔۔
اس کا بس چلتا تو ان چیزوں کو ہمیشہ کے لیے اس سائیڈ ٹیبل پر سجا رہنے دیتا۔ تاکہ اپنائیت اور احسان کا وہ چھوٹا سا احساس اسے اپنے کمرے کے اس ایک حصے میں محسوس ہوتا رہے۔
جاری ہے