Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 05 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :95

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط پانچ

زرگل پر آج پھر پاگل پن سوار ہو رہا تھا۔ اب تو سب کے سامنے یہ بات آ گئی تھی کہ لڑکیاں اپنے رشتوں کے بارے میں جان چکی ہیں۔
وہ جانتی تھی اس کے بعد ان کی جلد شادی کرنے کی کوشش کی جائے گی اور وہی ہوا تھا۔ اس کے سسرال والوں نے شادی کی بات چھیڑ دی تھی۔
”نہیں نہیں۔۔ میری پوری زندگی کا سوال ہے، میں چپ رہی تو شادی کے بعد کبھی آزادی نہیں ملے گی۔ میں اپنی خواہشات بھول جاؤں گی۔ مجھے کوشش کرنی چاہیے اوز تو ہر فیصلے پر خوش رہے گی۔
اور میں تو آبا کی لاڈلی ہوں، میری بات بھی نہیں مانیں گے کیا؟“ زر بےچینی سے سوچنے لگی۔ روشنا قالین پر بیٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتی بےزاری سے جمائیاں لے رہی تھی۔ آج کل حویلی میں سوگوار سی فضا قائم تھی گھر میں وہی دو رونقیں تھیں، دونوں پریشان تھیں آج کل۔۔
”اوزگل کا کیا ہے وہ تو ویسے ہی آبا پر جان دیتی ہے، ان کا حکم ہوگا تو سر جھکا دے گی اور خوش بھی رہے گی۔ اس جیسی بےوقوف کو پابندیاں بھی تنگ نہیں کریں گی۔“ زرگل اک نئی سوچ کو دماغ میں بسا
رہی تھی۔ اس کی بڑبڑاہٹ پر روشنا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
”اور آبا کو میری بات سننی بھی چاہیے، سب مان جائیں گے، آخر ان سب نے غلط بھی تو کیا ہے، بچپن میں رشتے طے کر دئیے، ہم سے مرضی تک نہیں پوچھی۔۔ ہم لڑکیاں ہیں تو کیا ہماری پسند کو اہمیت نہیں دی جائے گی؟ اور محبت پر کس کا زور۔۔“ وہ باغی ہو رہی تھی۔
”بی بی جی میں نے خان صاحب کو دیکھا تھا اس دن، وہ جو آپ کے منگیتر ہیں زورک خان۔۔ کتنے سرد مزاج سے ہیں، میں سامنے گئی تو ایک دم مجھے ڈانٹنے لگے کہ۔۔“ روشنا رخ موڑ کر زرگل کو بتانے لگی۔
”روشنا میرا موڈ نہیں ہے، تمہاری بکواس سننے کا۔۔ اس لیے چپ رہو اور میرے منگیتر کی بات میرے سامنے مت کیا کرو۔۔“ زرگل غصے سے بولی تو روشنا سہم کر سر ہلا گئی۔ دونوں ایک جیسے تھے، بدتمیز اور غصیلے۔۔ روشنا بڑبڑا کر پھر سے باہر دیکھنے لگی۔
”مجھے جلد بات کرنی چاہیے، یا پھر میں گل سے بات کروں؟ اوزگل تو دونوں پر ہی راضی تھی۔ اسے زورک سے بھی کوئی الجھن نہیں تھی۔ اور اب۔۔۔؟ اب تو اس کا خوش ہونا حق ہے، اسے بن مانگے اتنا زبردست بندہ مل گیا۔۔
یافث خان۔۔ جس کے لیے میں نے خواب دیکھے اور جب پتہ چلا کہ ہمارے رشتے زورک اور یافث کے ساتھ ہوئے ہیں تو کتنا خوش ہوئی تھی میں، یافث خان میرے قابل تھا، اسے میرا ہی ہونا چاہیے تھا مگر وہ اوزگل کا تھا۔ کیوں۔۔۔
اوزگل کیوں؟ آبا ہر اچھی چیز اس سے پہلے مجھے دیتے تھے پھر اس بار کیوں ایسا کیا میرے ساتھ۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے آزادی پسند ہے۔ آغا جان کی حویلی جیسا سکون اور آزادی مجھے کیوں نہیں مل رہی۔۔“ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ روشنا نے چور نظروں سے اسے دیکھا۔
اس کی مالکن ضرور پاگل ہو چکی تھی، کبھی بےچینی سے ٹہلتی تھی، کبھی پلاننگز کرتی تھی اور کبھی بیٹھے بیٹھے رونے لگتی تھی۔ اس نے آہ بھری۔ اوزگل کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ ویسے تو کچھ دن سے وہ بھی پریشان رہی تھی۔
اس نے ایڈمیشن لے لیا تھا، پڑھائی کر رہی تھی پھر اچانک اسے باپ نے گھر بٹھا لیا تھا کہ اب وہ اسے مزید نہیں پڑھائیں گے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔ اوزگل کتنے دن روتی رہی تھی۔ ابھی تو شہر کی آزاد فضاؤں میں ٹھیک سے سانس بھی نہیں لیا تھا۔
پھر سے اسے حویلی میں بٹھا لیا گیا تھا، اس پر زرگل آتے جاتے ہنستی تھی کہ پڑھائی کا خواب کیسا رہا۔۔ اوزگل اور اس کی دو تین مرتبہ لڑائی ہو چکی تھی۔ نا زرگل چپ رہتی تھی نا اوزگل اسے معاف کرتی تھی۔
”اوزگل سادہ ہے بہت، اسے فیشن اچھے بھی نہیں لگتے، ایسے پابند روایتی خاندان میں وہی سوٹ کرے گی۔ میں میں ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی، اوزگل رو کر چپ ہو گئی میں ایسے نہیں بیٹھوں گی۔ اب آر یا پار۔۔ کچھ کرنا پڑے گا۔“ وہ فیصلہ کر چکی تھی۔
بغاوت اس کی فطرت میں شامل تھی، اسے احترام میں فیصلے قبول کرنا نہیں آتا تھا۔ وہ ہمیشہ اچھی چیز اوزگل سے چھنتی آئی تھی، اور اب بھی وہی کرنے جا رہی تھی۔ اس بار وہ پسندیدہ انسان کو پانے کے لیے اچھا برا سب بھولنے لگی تھی۔
اوزگل اپنے کمرے میں بند رہی اور زرگل اپنے کمرے میں پاگل ہو رہی تھی۔ ان کی بڑی پھپھو ان کے گھر آئی تھیں تو تھوڑی دیر دونوں کمروں سے نکل کر ان سے ملیں اس کے بعد پھر سے بند ہو گئیں۔
”زرگل کی اب جلد شادی ہو جائے گی، اس کے سسرالیوں کو جلدی ہے۔ پڑھائی کی اجازت تو زورک خان نے دی نہیں، اسے اچھا نہیں لگتا لڑکیوں کا کالجوں میں پڑھنا۔۔ اس حویلی میں پہلے کون سی عورت پڑھی لکھی ہے۔“
ان کی بڑی پھپھو زورک خان کی چچی تھیں اس لیے حویلی والوں کے ارادے بتا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے یہ بات سن کر زرگل کو چھیڑ چھاڑ سب بھول گئی۔
”پتہ نہیں آبا نے کیا جواب دیا ہو گا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں میں پڑھنا چاہتی ہوں۔“ وہ اک نئی فکر میں مبتلا ہوئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا اوزگل کو بھی اس کی وجہ سے بٹھایا گیا تھا۔ زرگل نہیں پڑھ سکتی تھی تو اوزگل کو بھی نہیں پڑھایا جا رہا تھا۔
لیکن وہ غلط تھی، اوزگل تو اپنی شرارت کی وجہ سے یافت خان کے دل میں جو غلط فہمی پیدا کر چکی اس کی وجہ سے اب وہ اسے زرگل سمجھ کر پڑھنے سے صاف منع کر چکا تھا۔ ان کی شکل و صورت بھی بالکل ایک تھی وہ غلط فہمی کا شکار ہو چکا تھا۔
زرگل باپ سے بات کرنے کے لیے کمرے سے نکلی تو ماں سے سامنا ہوا، وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔
”ایسے سر جھاڑ منہ پہاڑ کہاں جا رہی ہو؟ جلدی سے جاؤ، نہا دھو کر صاف کپڑے پہنو، تمہارے سسرال والے آ رہے ہیں۔۔“ بیگم ثمر کے اس خاص انداز پر وہ ٹھٹکی مگر ان سے سوال نہیں کر پائی۔
وہ مصروف لگ رہی تھیں اور کچن میں ملازماؤں کے سر پر کھڑی کھانے بنوا رہی تھیں۔ زرگل کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ کہیں یہ آمد شادی کے سلسلے میں تو نہیں تھی۔ اوزگل نے چند لمحوں بعد اس کا خوف سچ بھی کر دیا تھا۔
”اف زرگل میں اکیلی کیسے رہوں گی، شادی کی تیاری بھی اکیلی کروں گی۔۔ آبا نے ابھی سے ہاں کیوں کر دی تمہارے لیے۔۔ ہماری تو ساتھ شادی ہونے والی تھی۔“ اوزگل رونے والی ہو رہی تھی اور رونا اسے بھی تو بہت آ رہا تھا۔۔


”رودابہ کچھ بتاؤ تو سہی، تمہاری ماما نے کیا کہا؟ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟“ موبائل ہاتھ میں لے کر بیٹھی گم صم سی دابہ کو دیکھ کر دونوں کا دل ہول رہا تھا۔ کال بند ہونے کے بعد سے وہ مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔
”ماما آؤٹ آف کنٹری جا رہی ہیں اپنی نئی فیملی کے ساتھ۔۔ یہی انفارم کرنے کے لیے کال کی تھی۔“ اس کی بات پر وہ دونوں حیرت زدہ سی تکنے لگیں۔
”نئی فیملی؟ یہ کب ہوا؟“ یہ بات ان دونوں کے لیے نئی تھی، آج سے پہلے تو اس نے کسی فیملی کی بات نہیں کی تھی۔ اس کے باپ کا سنا تھا دوسری شادی کر چکا تھا۔ یعنی اب ماں بھی۔۔
”جی ہاں! نئی فیملی جو تین ماہ پہلے بنی تھی اور مجھے کسی نے بتایا تک نہیں۔۔ جب گھر جانے کا کہتی تھی مجھے ماموں روکتے تھے ابھی مت آؤ، پیپرز دے کر آنا۔۔ ان لوگوں نے مجھ سے یہ بات چھپائی ہوئی تھی۔“ وہ صدمے کی سی کیفیت میں بیٹھی تھی۔
”تو اب کیوں بتایا، تمہاری فیملی پر کبھی کبھی مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ کیسے بےحس لوگ ہیں۔“ خوشنما کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔ علیزے افسردگی سے اس کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”اب بھی میں نے کال کی تھی۔ ماما اچانک کہنے لگیں کوئی لڑکا پسند ہے تو بتاؤ، اس کے ساتھ تمہاری شادی کر دوں۔ وہ میری زمہ داری سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔ میرے انکار پر انہوں نے بتایا کہ وہ شادی کر چکی ہیں اور اب آؤٹ آف کنٹری جا رہی ہیں۔“ دابہ کی بات پر وہ شاکڈ رہ گئیں۔
”مجھے بتاؤ کیا میں ان حالات میں لڑکا پسند کر سکتی تھی؟ کیا مجھ جیسی بروکن فیملی سے بی لانگ کرنے والی لڑکی کو کوئی پسند کر سکتا ہے؟ انہوں نے آج یہ بات بتا کر مجھے بہت ہرٹ کیا ہے۔“ رودابہ بری طرح رو رہی تھی۔
”دابہ یہ سب تو ہونا تھا، ایمانداری سے دیکھا جائے تو ان کا بھی حق ہے۔ انہوں نے جوانی ساری تمہارے لیے ضائع کی، تم اب کامیاب ہو جاؤ گی، شادی بھی ہو جائے گی تو وہ اکیلی رہ جاتیں ناں۔۔“ خوشنما اسے نرمی سے سمجھانے لگی۔
”میں جانتی ہوں خوشی۔۔ میں بھی انہیں یہی سمجھاتی تھی، مجھے شادی پر اعتراض نہیں، مجھے تو افسوس ہے کہ مجھے بتایا بھی نہیں۔۔ اب جاتے ہوئے ایسے اطلاع دی جیسے ہمارا دور پرے کا رشتہ ہو۔۔“ وہ دکھ بھری کیفیت میں تھی۔
”مجھے کوئی مسئلہ نہیں، ماموں مجھے پیار کرتے ہیں، میرے خرچ بھی اٹھائے، میرے ہاسٹل کے ڈیوز کلئیر نہیں کر پا رہے تھے تو اتنے پریشان تھے، وہ تو علیزے نے میری مشکل حل کر دی۔۔“ وہ احسان مند نظروں سے علیزے کو دیکھنے لگی۔
”ہم فرینڈز ہیں، یہ میرا فرض تھا، تم یہ بات مت کیا کرو۔۔“ وہ نرمی سے بولی، وہ دونوں ہاسٹل کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی تھیں اور وہ اکیلی تھی، اس نے انہیں رہائش دے دی۔ ضرورت تو اس کی تھی۔
خوشی اور دابہ کے ساتھ سکون سے رہ رہی تھی لیکن وہ دونوں اس کی بہت شکر گزار رہتی تھیں۔ ڈور بیل پر خوشنما نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے یافث خان سنجیدہ سا کھڑا تھا۔
”علیزے ہے؟ مجھے اس سے کچھ بات کرنی ہے۔“ پہلی بار وہ دروازے میں ہی کھڑے کھڑے بولا تھا۔ چہرے پر ازحد سنجیدگی تھی۔
”جی ہاں! علیزے نے کہاں جانا ہے۔ آپ آ جائیے۔۔“ حیران سی خوشنما نے بمشکل حیرت پر قابو پا کر کچھ عجیب نظروں سے اسے دیکھا، وہ علیزے کے لیے بار بار کیوں آنے لگا تھا جبکہ وہ بےنیاز سا آگے بڑھ گیا۔
رودابہ بھی ان کی بات سن چکی تھی، وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی، علیزے اپنے چادر جما ڈوپٹے میں ہمیشہ کی طرح بوکھلائی ہوئی سی بیٹھی تھی۔ وہ اس کے سامنے آ کر رکا۔
”مجھے کچھ پرسنل بات کرنی ہے، اف یو ڈونٹ مائنڈ۔۔“ وہ خوشنما کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تو وہ سمجھ کر سر ہلاتی ایک نظر علیزے پر ڈال کر کمرے میں چلی گئیں۔ وہ سنجیدگی سے علیزے کو گھور رہا تھا۔
”آپ یہاں کیوں آ گئے، بات کرنی تھی تو کال کر دیتے۔۔“ وہ مدھم متذبذب لہجے میں بولتی کمرے کی سمت دیکھنے لگی۔ اسے دابہ اور خوشی کی نیچر کا پتا تھا۔ کوئی بعید نہ تھی وہ دونوں دروازے کے پار کھڑی ان کی بات سننے کی کوشش کر رہی ہوں۔
”ضرور کر لیتا کال بلکہ یہاں آنے بہتر تھا کال کرتا اگر تم کال اٹینڈ کرنے کی زحمت کرتیں، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بار بار تمہارے در پر حاضری دوں۔“ وہ اپنا موبائل اس کے سامنے کر کے بول رہا تھا۔
علیزے کے نمبر پر کال جا رہی تھی مگر نمبر بزی تھا۔ وہ اس کی سخت نظروں سے خائف ہونے لگی۔ وہ اس کا نمبر بلاک کر چکی تھی اور ظاہر ہے وہ یہ بات جان چکا تھا اس لیے اس کے پاس آیا تھا۔
”ہاں شاید نمبر ڈیلیٹ ہو گیا ہو یا پھر۔۔“ وہ جھوٹی وضاحتیں دیتی موبائل اٹھا کر نمبر ان بلاک کر رہی تھی، یافث خان نے ایک دم اس کی طرف جھکتے ہوئے اس سے موبائل چھین کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”میرا نمبر دوبارہ بلاک مت کرنا ورنہ تمہاری یہ آزادی سلب کر لوں گا اور تم گلہ بھی نہیں کر سکو گی کیونکہ وجہ تم خود ہو جو ایسی حرکتیں کر کے مجھے خاموشی توڑنے پر اکسا رہی ہو۔۔“ وہ سختی سے بولتا علیزے کو سہما گیا تھا۔
اس نے سیدھے ہو کر اپنا نمبر ان بلاک کیا۔ وہ سر جھکا کر بیٹھی لب کاٹ رہی تھی۔ نیلی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا تھا۔ یافث نے گہرا سانس بھر کر ضبط کیا اور علیزے کی طرف دیکھا، وہ سمجھ گیا محترمہ آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
”سوری میں کل رات سے کالز کر رہا ہوں، تم جانتی ہو ضروری بات کے علاوہ کبھی تمہیں کال نہیں کرتا پھر بھی تم نے میرا نمبر بلاک کر دیا تو مجھے غصہ آ گیا۔“ وہ معذرت کرنے لگا۔ علیزے ایک دم اٹھی اور اس کے ہاتھ سے اپنا موبائل جھپٹ کر لیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ یافث لب بھینچے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔
اس بار کمرے میں بیٹھی رودابہ اور خوشنما نے ان دونوں کی گفتگو نہیں سنی تھی کیونکہ دابہ کے گھر سے ایک بار پھر کال آ چکی تھی اور خوشنما اس کے پاس بیٹھی اسے جذباتی ہونے سے روک رہی تھی۔


مہمان ہو کر جا چکے تھے اور زرگل کی توقع کے مطابق جلد شادی کی تاریخ طے کرنے کا کہا گیا تھا۔ زرگل کا دماغ خالی ہونے لگا۔ بےچینی سے کمرے میں چکراتی رہی پھر اپنے باپ ثمر خان کے پاس پہنچ گئی۔
”آبا مجھے یہاں شادی نہیں کرنی، مجھے یہ رشتہ نہیں قبول۔۔ مجھ سے کسی نے اجازت نہیں لی۔۔“ وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ اس سے مسکرا کر بات کرنے والے ثمر خان نے سنجیدہ ہو کر اسے دیکھا۔
”تمہاری اجازت؟ اب ہمیں فیصلہ کرتے ہوئے تم سے اجازت لینی پڑے گی؟ اتنی بڑی ہو گئی ہو؟“ وہ سنجیدگی سے بول رہے تھے، وہ گڑبڑا گئی۔
”آبا مگر میں۔۔۔“ اس نے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”بس زرگل۔۔ ایک لفظ اور مت کہنا۔۔“ اس کی بات ثمر خان کی سخت تیز آواز میں دب کر رہ گئی۔
”اب تک میں نے تمہاری ہر فرمائش پوری کی ہے، ہر جائز ناجائز ضد مانی ہے۔ اس کوشش میں کئی مرتبہ میں اوزگل کے ساتھ زیادتی کر بیٹھا ہوں مگر اس نے کبھی سر اٹھا کر مجھ سے بات نہیں کی۔۔۔
میں نے سب سے زیادہ تمہارے لاڈ اٹھائے اور آج تم میرے سامنے کھڑی اپنا فیصلہ سنا رہی ہو۔۔ تمہاری ہر خواہش سر آنکھوں پر مگر یہ فیصلے ہم بڑوں کے ہیں، ان میں تمہیں بولنے کا حق نہیں دوں گا۔۔“
اس نے پہلی بار اپنے آبا کا اتنا سخت اور دو ٹوک انداز دیکھا تھا۔ وہ جو اپنی مرضی اور پسندیدگی کے بارے میں بتانے کا سوچ کر آئی تھی خاموشی سے اٹھی اور ان کے کمرے سے نکل گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے بیگ میں سامان ڈالنا شروع کیا۔
روشنا اس کے لیے چائے کباب لائی تھی، اسے ہیکنگ کرتا دیکھ کر گھبرا گئی۔ ناجانے اب کیا سوچ رہی تھی وہ۔۔ زرگل اسے دیکھے بغیر بیگ اٹھا کر باہر نکلی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھی بیگم ثمر کے سر پر سوار ہو گئی۔
”مورے مجھے آغا جان کے گھر جانا ہے، ایک دو دن کے لیے۔۔ آبا سے کہیں ڈرائیور کو بلائیں۔“ وہ ہٹیلے پن سے بولی۔
”کیا؟ کیوں جانا ہے، تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ اب یہ آنے جانے زرا کم کرو، شادی ہونے والی ہے تمہاری۔۔“ وہ حیرت سے اسے تکنے لگیں پھر غصے سے کہا۔
”مورے آپ ہر وقت مجھے بس یہی سب کہتی رہتی ہیں۔ اوزگل کو آزادی سے جینے کا حق ہے تو مجھے کیوں نہیں۔۔ آپ کچھ بھی کہیں مجھے بس ابھی جانا ہے۔۔“ وہ ضدی پن سے بولی، ضدی تو شروع سے ہی تھی مگر اب اس کی ضد نے اس کی ماں کو بھی بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا تھا۔
”زرگل کل سب خاندان والے حویلی میں آ رہے ہیں، تمہاری شادی کی تاریخ طے ہونی ہے اور تم آج وہاں جانا چاہ رہی ہو۔ تمہارے آبا ناراض ہوں گے۔“ انہوں نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی
”مجھے جانا ہے، مجھے مت روکیں ورنہ میں شادی نہیں کروں گی۔“ وہ ماں کی بات کاٹ کر بغاوت بھرے لہجے میں بولی تو ان کو جھٹکا لگا۔
”زر اچھی بیٹیاں ایسی دھمکیاں نہیں دیتیں، تمہیں اندازہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟“ ثمر خان کی اونچی آواز پر وہ ڈر کر انہیں دیکھنے لگی، وہ اپنے کمرے سے نکل کر اس کے سامنے آ چکے تھے۔
”خان صاحب آپ غصہ مت کریں، میں اسے سمجھا دوں گی۔“ بیگم ثمر پریشان سی شوہر کا سرخ چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ زرگل ناراضگی سے رخ موڑ کر کھڑی تھی۔
”جانے دو اسے، میں ڈرائیور سے کہوں گا اسے چھوڑ آئے، بلکہ اوزگل سے پوچھو وہ جانا چاہے تو، مورے کے پاس جا کر اس کا مزاج اچھا ہو جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں وہ بھی مجھ سے ناراض ہے۔“ وہ سنجیدگی سے بولے۔
”لیکن ہمارے ہاں لڑکی تاریخ کے بعد مایوں بیٹھ جاتی ہے، غیر محرم کے سامنے نہیں جاتی اور یہ وہاں جا رہی ہے تو۔۔“ مورے پریشان ہوئیں۔ وہ ماں کی فکر سے بےنیاز اکڑ کر کھڑی رہی۔
”فکر مت کرو، جانے دو اسے۔۔ اس کا سسرال نہیں ہے وہ، اس کے آغا جان کا گھر ہے۔ مورے کے پاس بیٹھی رہے گی۔ اپنوں سے کیا ڈرنا، تم اپنے میکے والوں سے زکر مت کرنا زرگل حویلی میں نہیں ہے۔“ ثمر خان نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی تو وہ لب بھینچ گئی۔
”آپ کو جیسے مناسب لگے۔ مینے جا کر اوزگل سے پوچھو اپنی دی جان کے پاس جانا چاہتی ہے تو فوراً آ جائے۔ زرگل جا رہی ہے۔ “ مورے نے ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ زرگل ماں باپ سے منہ بنا کر کھڑی تھی۔
”شاید وہ انکار کر دے، پڑھائی کرنے سے روکا ہے میں نے۔۔ وہ بہت پریشان لگ رہی تھی۔ کیا موڈ اچھا نہیں ہوا اس کا؟“ ثمر خان پریشانی سے پوچھ رہے تھے، اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتیں ملازمہ آ گئی۔
”اوز بی بی نے منع کر دیا ہے۔“ ملازمہ کی اطلاع پر وہ دونوں بےساختہ چپ سے ہو گئے تھے۔ ڈرائیور کو بلوا کر زرگل کو بڑے بھائی امروز کی حویلی بھیجا۔ وہ حویلی زیادہ دور نہیں تھی، اس لیے زرگل کو روکا نہیں گیا تھا۔
”خان صاحب زرگل کی ہر اچھی بری بات سن لیتے ہیں، اسے مناتے بھی ہیں۔ اوزگل سے بھی بات کرنے کی کوشش کریں، جب سے اسے واپس بلایا ہے کمرے میں بند پڑی رہتی ہے۔ بہت شوق سے گئی تھی شہر۔۔
امروز لالا سے بات کریں، اگر ابھی شادی نہیں کرنی تو اوزگل کو پڑھائی کرنے دیں، اس کا شوق پورا ہو جائے گا۔“ بیگم ثمر نے شوہر کو دیکھتے ہوئے خفگی سے کہا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔
”اوز سے کیا بات کروں، شرمندہ ہوں اس سے تو۔۔۔ اس کا ہر شوق کسی نا کسی وجہ سے ادھورا رہ جاتا ہے، میں نے بات کی تھی امروز لالا سے۔۔ وہ خود اوز کے لیے پریشان ہیں، یافث خان بالکل کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔“
ثمر خان بےبسی سے بول رہے تھے۔ وہ آہ بھر کر رہ گئیں۔ امروز خان کی حویلی میں ویسے تو کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں تھی۔ عورتیں بھی اپنی مرضی اور آزادی سے رہتی تھیں۔ مگر داماد دونوں ایک جیسے ملے تھے۔
زورک خان بھی سختی سے منع کر چکا تھا کہ زرگل اب مزید شہر جا کر پڑھنے کا بالکل نہیں سوچے، اس کی تو حویلی کا یہی رواج تھا، وہ اسی روایت کو لے کر چلنے والا تھا مگر حیرت انہیں یافث خان پر ہوئی تھی۔
اس کی حویلی میں ایسی کوئی سختی نہیں تھی، امروز خان کی دونوں بہوئیں شہر سے پڑھی تھیں۔ شہر جا کر ان کی عورتیں اپنی مرضی سے خریداری کرتی تھیں مگر یافث خان کا رویہ عجیب لگ رہا تھا۔
”اوزی میری بہت پیاری بیٹی ہے، زرگل کی وجہ سے یہاں وہ بہت پریشانی دیکھتی ہے۔ میں خوش تھا اسے شادی کے بعد سکھ کی زندگی ملے گی لیکن اب یافث خان مجھے اپنے روئیے سے پریشان کر رہا ہے۔“ ثمر خان فکرمندی سے بول رہے تھے۔
وہاں زرگل گاڑی میں بیٹھ کر بڑی حویلی جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ وہ دی جان اور تائی جان کو ساتھ ملا لے گی۔ اسے ہر حال میں یافث خان چاہیے تھا چاہے اس کے لیے اسے کوئی بھی چال چلنا پڑتی۔
یافث خان حویلی والوں کی سننے کے لیے تیار نہیں تھی، وہ کسی کی بات کو توجہ نہیں دے رہا تھا۔ وہ اوزگل کی وجہ سے جس غلط فہمی کا شکار تھا، زرگل اسی کا فائدہ اٹھا کر اسے متنفر کرتی جا رہی تھی۔


”تو ناراض ہو کر کیوں آئی ہے زر، کچھ بتا تو سہی۔۔“ دی جان گھبرائی ہوئی سی پوچھ رہی تھی جبکہ وہ ان کی گود میں سر رکھے مسلسل رونے میں مصروف تھی۔ بیگم خان بھی پریشان سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
”خدا خیر کرے، ایک دن بعد تمہاری تاریخ طے ہو گی۔ تمہیں ماں باپ نے ناراض کر کے بھیج دیا۔ ثمر خان اور زرقا کا تو لگتا ہے دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔“ خان بیگم نے خفگی سے بولتے ہوئے زرگل کو دیکھا جو رو رو کر بےحال تھی۔
”دی جان مجھے شادی نہیں کرنی، آبا میری بات نہیں سن رہے۔۔ اوزگل کی بھی تو شادی نہیں کر رہے، آغا جان نے کہا اوزی ابھی اٹھارہ کی نہیں ہوئی، اس لیے شادی نہیں کرنی تو ہم دونوں جڑواں ہیں، ہم دونوں کی عمر برابر ہے۔“ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”ہاں برابر ہو لیکن سب کی اس عمر میں ہو جاتی ہے
تیرے سسرال والوں کو تیری عمر سے مسئلہ نہیں۔۔ اور اٹھارہ کی ہونے ہی والی ہو، یہاں امروز کو اچھا نہیں لگتا بچی اتنی چھوٹی ہو، تو نے الگ حویلی میں جانا ہے، اوز کا الگ سسرال ہے۔“ دی جان نے نرمی سے سمجھایا۔
”مجھے وہ لوگ نہیں پسند، وہ حویلی والے اور وہ سسرال۔۔ دی جان مجھے وہاں شادی نہیں کرنی۔“ زرگل نے آخر سچ اگل دیا تھا۔ دی جان اور خان بیگم کو جھٹکا لگا تھا۔
زرگل کو سمجھانے کی کوشش کی، ان کے ہاں رشتے نہیں توڑے جاتے تھے۔ منگنی ختم کرنا طلاق کے برابر سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کی اسی عمر میں ہی شادی کر دی جاتی تھی مگر زرگل نے صاف الفاظ میں کہہ دیا وہ اپنے ماں باپ سے اسی لیے ناراض ہو کر آئی تھی۔
دی جان گھبرا گئیں، شادی سے عین پہلے زرگل کیا ضد لگا بیٹھی تھی۔ خان بیگم خاموش رہیں اور پھر کمرے سے نکل آئیں۔ زرگل کی ضد بالکل ویسی تھی جیسی آج کل یافث خان کر رہا تھا۔ اسے بھی اپنی منگیتر سے مسئلہ تھا، زرگل بھی لحاظ میں سسرال کا بول رہی تھی۔
یافث خان لڑکا تھا، باغی تھا لیکن سمجھا رہے تھے۔ زرگل تو لڑکی تھی وہ کیسے یہ بات کر رہی تھی۔ خان بیگم سوچوں میں الجھی ہوئی تھیں۔ یافث خان بھی حویلی میں آیا تھا۔ اپنی کافی بنا کر کمرے میں جانے لگا تو ماں کو سوچوں میں گم دیکھ کر ان کے پاس آیا۔
”آج حویلی میں اتنی خاموشی کیوں ہے امو جان؟ ڈب خیریت تو ہے۔۔“ وہ کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔
”کوئی خیریت نہیں رہی، پہلے تمہارا دماغ خراب تھا اب اور لاڈلی بھی نکل آئی بغاوت کرنے۔۔ سب عقل سے پیدل ہوئے پھر رہے ہیں، ماں باپ کے فیصلے انہیں قبول نہیں، آزادی چاہیے۔۔“ بیگم خان ناراض لگ رہی تھیں۔
”کیوں؟ کیا ہوا؟ کس کی بات کر رہی ہیں آپ؟“ وہ کافی کا مگ اٹھانا بھول گیا۔ حیرت سے بیگم خان کو دیکھنے لگا۔
”کسی کی بات نہیں، میں تو ان معاملات سے دور ہی بھلی ہوں۔۔ تم بھی خوش ہو جاؤ تمہارے چچا بھی تم جیسی اولاد سے محروم نہیں ہیں۔ اب دونوں بھائی ایک دوسرے سے شرمندہ نہیں ہوں گے۔“ وہ خفگی کے اظہار کے طور پر اٹھ کر چلی گئیں، وہ حیران رہ گیا۔
جب وہ اپنی طرف سے رشتہ توڑ کر گیا تھا تب تو وہ اتنا ناراض نہیں ہوئی تھیں تو اب کیا ہوا تھا۔ کس نے بغاوت کی تھی؟ وہ ابھی سوچ میں مبتلا تھا کہ سامنے سے زرگل کو آتا دیکھ کر الجھ گیا۔
وہ اس کے ساتھ والے صوفے پر آ کر بیٹھی۔ مگر وہ اسے ان دیکھا کیے نے مگ اٹھا کر کافی کا تلخ گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے لگا۔ زرگل اسے دیکھ رہی تھی۔
”اپ کب آئے؟“ وہ اسی سے ہم کلام تھی، اس کی ڈھٹائی کو داد دیتا یافث اس کی طرف رخ کر کے اسے گھورنے لگا۔
”یہ سوال مجھے تم سے کرنا چاہیے، تم کب آئیں، بلکہ کیوں آئی ہو؟ کچھ زیادہ مزہ نہیں آنے لگا ہماری حویلی میں؟“ اس کے لہجے میں اس کی تلخ کافی کا زائقہ گھل گیا تھا۔
”یہ میرے آغا جان کی حویلی ہے اور میں آغا جان سے بات کرنے آئی تھی، میری شادی میری مرضی کے بغیر طے کر دی گئی ہے اور مجھے اس شادی سے صاف انکار ہے۔۔“ وہ سنجیدگی سے بول رہی تھی۔
”تمہاری شادی؟ مطلب شادی۔۔۔ کب؟“ یافث کا سکون پل بھر میں تباہ ہوا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا۔
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!