Wednesday, January 8, 2025
HomeEpisodic NovelsWo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 03 Complete

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 03 Complete

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط تین
نوٹ (اس ناول کو کاپی کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے، میرا اپنا یوٹیوب چینل ہے اور پی ڈی ایف کے لیے بھی اپنی ویب سائٹ ہے۔ چوری کرنے والوں کو رپورٹ کیا جائے گا اس لیے چوری سے پرہیز کریں شکریہ🙂)

”کہاں جا رہے ہو یافث خان؟“ حازق نے اسے جلدی میں گاڑی کی جانب بڑھتے دیکھا تو حیرت سے سوال کیا۔
”شہر جا رہا ہوں۔“ وہ رک کر سنجیدہ لہجے میں بولا۔
”کیا۔۔ پاگل ہو، تمہارے بڑے بھائی کی شادی سر پر ہے۔ تین چار دن پہلے اس لیے بلوایا تھا کہ کوئی کام کاج کروا لو لیکن تم تو آتے ہی واپس جا رہے ہو۔“ حاذق پریشان ہوا۔
”لالا میں ضرور رکتا، اسی لیے آیا تھا لیکن شادی کے لیے جو آپ لوگوں نے مہینہ پہلے مہمان خصوصی بلا کر بٹھا دئیے ہیں میں ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میرا بس چلتا تو شادی بھی چھوڑ دیتا لیکن۔۔
فکر نہیں کریں، سنگیت پر واپس آ جاؤں گا۔ اس سے پہلے کی توقع نہیں کریں تو اچھا ہے۔ مجھ سے اب اس حویلی میں نہیں رکا جائے گا۔“ وہ کس کا اشارہ دے رہا تھا، حاذق سمجھ گیا۔
”میں تو سمجھ نہیں پا رہا یافث، تمہیں اس سے کیا مسائل ہیں۔ آخر کب تم دونوں کے درمیان اتنی ان بن ہوئی اور کیوں تم اس سے اتنی نفرت کرتے ہو۔۔“ حازق کو واقعی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
”لمبی بات ہے پھر کبھی بتاؤں گا، ابھی دیر ہو رہی ہے۔“ وہ بات بدل چکا تھا۔ گاری میں بیٹھنے لگا جب حاذق خان نے بےساختہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔

”یافث خان کسی اور سے محبت تو نہیں کر بیٹھے؟“ حاذق کے لہجے میں ان دیکھا سا خوف تھا۔ یافث اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ جواب نہیں دے پایا تھا۔

اوزگل اور زر کو ناشتے کے دوران پتا چلا یافث خان واپس جا چکا ہے۔ اوزگل نے گھبرا کر زر کو دیکھا جس کے لب سختی سے بھنچے تھے اور چہرے پر سپاٹ تاثرات تھے جبکہ اوزگل ناشتے کے دوران بھی سب کے چہرے دیکھتی رہی۔
یافث کا مزاج بدلتا جا رہا تھا وہ اچانک ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا اور ہر بار ایسے حادثہ سے پہلے زر اور اس کا جھگڑا ہوا ہوتا تھا۔ اوزگل کو گھبراہٹ ہونے لگی اگر حویلی والوں کو اندازہ ہوا کہ یافث خان کا غصہ برحق تھا اور وجہ زرگل تھی تو کیا ہو گا؟
زرگل ناشتے کے بعد قہقہے لگاتی ہنستی مسکراتی سب کے درمیان بیٹھی تھی، اوزگل سر درد کی وجہ سے کمرے میں چلی گئی۔ انہیں یہاں بھیجتے ہوئے ہمیشہ کی طرح مورے نے تاکید کی تھی بہت سنبھل کر رہنا۔
زرگل ہر بار اس ہدایت کو خصوصی طور پر بھلا دیتی تھی۔ ایسا تب سے ہو رہا تھا جب ان دونوں نے سولہ برس کی عمر میں پہلی بار اپنے منگیتروں کو دیکھا تھا۔ان کے ہاں لڑکے اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر باہر رہتے تھے۔
اور وہ دونوں کم عمر ہونے کی وجہ سے حویلی کے باہر زیادہ نہیں گئی تھیں۔ یہ وہ عرصہ تھا جب تصاویر کے زیادہ رواج نہیں ہوتے تھے اور ان کے خاندان میں تو خاص طور پر فوٹو شوٹ والے کام سے گریز کیا جاتا تھا۔
پھر ایک/دو سال کے بعد تھوڑی بہت رسم و رواج میں نرمی آئی، کچھ لڑکیوں نے ضد کر کے شہر سے پڑھائی بھی کر لی تو لڑکیوں کو بھی راستہ مل گیا۔ مگر جب وہ دونوں پندرہ برس کی تھیں، تب سختی بھی زیادہ تھی اور ماحول بھی ایسا تھا۔
ان کی سب سے چھوٹی پھپھو کی شادی تھی، مایوں میں بیٹھی پھپھو نے اپنے اطراف میں بیٹھی کم عمر شرماتی بھتیجیوں کو سینے سے لگا کر آہستگی سے سرگوشی کی تھی۔
”اچھے سے تیار ہونا، اس بار تم دونوں کے منگیتر آئیں گے، زر کے منگیتر کی ابھی افواہ سنی ہے مگر اوزگل کا منگیتر تو حویلی میں پہنچا چکا ہے۔ مردانے میں سب کے پاس ہے۔“
پھپھو کے بتانے پر وہ دونوں بری طرح شرما گئی تھیں، پھر یہاں وہاں کی باتیں ہونے لگیں اور اگلے روز نکاح سے پہلے اپنے کمرے میں تیاری کرتے ہوئے وہ دونوں خوب سج سنور رہی تھیں۔
”زرگل مجھے اتنی ایکسائٹمنٹ ہو رہی ہے کہ حد نہیں، میں یہ بات کسی کے سامنے ظاہر بھی نہیں کر سکتی مگر میں جانتی ہوں تمہاری حالت بھی میرے والی ہو گی۔“ اوزگل کی باچھیں خوشی سے چر رہی تھیں۔
”شرم کرو اوزگل، ایسے مر رہی ہو جیسے ابھی تمہاری رخصتی ہونی ہے۔ بس منگیتر ہی ہیں سر پر اتنا سوار کیوں کر رہی ہو۔۔“ لبوں کو لپ لائنر سے شیپ دیتی زرگل نے ناک چڑھا کر نخرے سے کہا۔
”اب ایسے مت بنو جیسے تمہیں پرواہ نہیں، پوری زندگی کا سوال ہے۔ ہمیں تو اشارہ تک نہیں دیا گیا کہ کہاں رشتہ ہوا ہے کہاں عمر گزارنی ہو گی، جیون ساتھی کیسا ہے۔ بس ایک بات سمجھا دی کہ ہم کسی کے نام ہیں۔۔
اس لیے دل کو اور خود کو قابو میں رکھیں، پھپھو کی مہربانی سے ہمیں تھوڑا بہت پتا چلا ہے۔ میں تو پرجوش ہوں کیونکہ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ آخر میرا رشتہ ہوا کس سے ہے، کہاں ہوا ہے۔ خود کو تیار کرنا چاہتی ہوں۔
تم جانتی ہو میرا دل کمزور ہے، میں اچانک ملنے والی خوشی اور اچانک ملنے والا غم، دونوں برداشت نہیں کر پاتی۔۔ اس لیے میں تو تم سے نہیں چھپاؤں گی، میں بہت خوش ہوں۔۔“ اوزگل نے ایمانداری سے اسے بتایا۔
”تم خوش ہو اور میں یہ دیکھیے کے لیے بےتاب ہوں کہ اپنے منگیتر سے مل کر بھی یہ خوشی قائم رہے گی یا نہیں۔۔“ زرگل نے معنی خیزی سے کہا تو وہ گھبرا گئی۔
”میں صرف اس کی شکل اور نام جاننا چاہتی ہوں، پھر وہ جو بھی ہوا مجھے قبول ہے کیونکہ خاندان کا ہر لڑکا اچھا ہی ہے۔“ اس نے آہستگی سے کہا مگر دل ڈرا ہوا تھا، ہر لڑکا اچھا تھا مگر ہر لڑکا دیکھا بھی نہیں تھا۔
زرگل سوچوں میں گم بیٹھی تھی، وہ دونوں متجسس تھیں فرق اتنا تھا کہ اوزگل جسے دیکھنے والی تھی اسی کو دل میں بسانے کا سوچ چکی تھی اور زرگل کے دماغ میں پہلے ہی ایک خاکہ تیار تھا۔
وہ چاہتی تھی جو اس کا منگیتر ہو اسی خاکہ پر پورا اترتا ہو، بالکل اس کا آئڈیل ٹائپ۔۔ ایسا جسے دیکھنے والے دیکھ کر بھول نہ پاتے ہوں اور ایسا جسے زرگل کے ساتھ دیکھ کر لڑکیوں کے دلوں میں رشک کی جگہ جلن پیدا ہو۔۔
وہ بےچین ہو رہی تھی، اگر اس کا منگیتر ویسا ہوا، اگر وہ وہی ہوا جیسا وہ سوچتی تھی تو پھر زرگل کی خوشی پوری حویلی دیکھنے والی تھی اور اگر۔۔ اس سے آگے وہ نہیں سوچ پائی تھی کچھ۔۔
اوزگل اپنے ہاتھوں سے خشک ہو چکی مہندی اتارنے لگی، سب لڑکیوں نے رات کو بیٹھ کر مہندی لگوائی تھی مگر اوزگل نیند کی وجہ سے اکثر اپنا چہرہ خراب کر بیٹھتی تھی۔
دو تین بار ایسا ہونے کی وجہ سے اب مورے اس کو رات کے وقت مہندی نہیں لگانے دیتی تھیں۔ دن کے وقت مہندی لگوانے کی وجہ سے وہ سارا دن ہاتھ لیے گھومتی رہی، اب خشک مہندی اتار رہی تھی۔
”زر میں نے ابھی کچھ دیر پہلے مورے کے منہ سے سنا ہے کہ زورَک خان بھی جرمنی سے آ گیا ہے، شہر میں رہتا ہو گا۔ کیا پتا شادی پر بھی آئے۔ اب تو وہ پورا انگریز بن گیا ہو گا۔
یاد ہے کیسے بچپن میں ہم اسی کے گرد چکراتی رہتی تھیں۔ کیا اسے ہم یاد ہوں گی؟ ہمیشہ اپنی حویلی سے دور جانے کی باتیں کرتا تھا۔ مجھے وہ بہت عرصہ یاد آتا رہا تھا۔
کبھی کبھی تو چھپ کر اسے یاد کر کے روتی بھی تھی۔ اب وہ وقت یاد کر کے ہنسی آتی ہے۔ کیا تمہیں بھی وہ یاد آتا تھا؟ ہمیں کتنی عادت تھی اس کی۔۔“ اوزگل ہاتھ کے ساتھ زبان کو بھی مسلسل حرکت دئیے ہوئی تھی۔
”یہ حساسیت صرف تم میں ہے، ہم اتنی بھی عادی نہیں تھیں اس کی۔۔ تمہیں صرف یہ یاد ہے ہم اس کے گرد چکراتی تھیں، یہ بھول گیا وہ اکثر غصے میں ہمیں دور جھٹک دیتا تھا۔“ زرگل توجہ سے میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔
”ہاں مگر۔۔ وہ وقت تو چلا گیا، کیا پتا زورَک اسی بات کو یاد کر کے اب پچھتاتا ہو۔۔ وہ جب جانے لگا تب بھی کافی ہینڈسم تھا اب تو اور بھی پیارا ہو گیا ہو گا۔۔ کاش وہ شادی پر آ جائے تو۔۔“ اوزگل کا شوق ختم نہیں ہو عہا تھا۔
”اوز تم پانچ منٹ کے لیے چپ ہو سکتی ہو؟ زورَک خان کے قصیدے ایسے پڑھ رہی ہو جیسے وہ تمہارا منگیتر ہو۔۔ شرم کرو، ہم اب جوان ہیں۔ اب بچپن نہیں رہا۔“ زرگل نے اسے غصے جھاڑا تو وہ شرمندہ ہو گئی۔
”میں نے تو سوچا یہاں بس ہم دو ہیں۔۔“ وہ صفائی دینے لگی، زرگل نے میک اپ کٹ پٹخی۔
”ہم دو ہیں تو تم کسی کی بھی تعریفیں کرتی رہو گی۔ زورک خان کزن ہے، بھائی نہیں۔۔ ہم جوان ہیں اور منگنی شدہ ہیں۔ وہ بھی منگنی شدہ ہو گا۔ آئندہ ایسے نام مت لینا اس کا۔۔“ زرگل کو خوامخواہ غصہ آ رہا تھا۔
”ہم بھی منگنی شدہ ہیں اور وہ بھی۔۔“ اوزگل کی مہندی اتر چکی تھی، ہاتھ جھاڑتے ہوئے بڑبڑائی پھر اچانک چونک کر زرگل کو دیکھنے دیکھنے لگی۔
”کہیں ایسا تو نہیں کہ زورَک خان۔۔“ ابھی وہ جوش سے اتنا ہی بولی تھی کہ زر نے نیل پالش کی خالی شیشی پوری قوت سے اسے دے ماری۔ اوزگل نے گھبرا کر خود کو بچایا تھا۔
”دوبارہ بنا سوچے سمجھے بکواس مت کرنا، اتنا مر رہی ہو تو کچھ دیر صبر کرو، ہمیں پتا چل جائے گا کون ہے تمہارا منگیتر۔۔ کسی کے بھی ساتھ اپنا نام مت جوڑو۔۔“ زرگل کا چہرہ تپ رہا تھا۔ لائٹ سے میک اپ میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔
اوزگل نے ندامت سے سر جھکایا، وہ زورک کو زرگل کے ساتھ جوڑنے والی تھی مگر وہ جانتی تھی وضاحت دینے پر تو زرگل اس کی گردن دبا دے گی۔ اس لیے نظریں چراتی ہاتھ دھونے چلی گئی۔
پیچھے زرگل غصے سے چیزیں اٹھاتی ایک دم رک گئی، زورک خان کی شبیہہ آنکھوں میں لہرائی۔ وہ نوعمری میں واقعی بہت پیارا تھا۔ شاید واقعی اب اس عمر میں جرمنی میں رہنے والا زورک خان واقعی ہینڈسم۔۔
”لاحول ولا قوہ۔۔ یہ سب اوز کی بکواس کا نتیجہ ہے میں ایسی بات سوچ رہی ہوں۔“ زرگل نے سر زور زور سے نفی میں ہلاتے ہوئے خود کو کچھ بھی الٹا سیدھا سوچنے سے باز رکھا تھا۔
اوزگل نے فریش ہو کر چینج کیا تھا اور پھر تیزی سے جیسے تیسے چہرے پر میک اپ تھوپتی تیار ہوئی کیونکہ زرگل مسلسل اسے دیر کرنے پر باتیں سنا رہی تھی۔ وہ دونوں تیار ہو کر باہر نکلیں۔
حویلی کے لان میں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ وہیں ایک طرف مردانے کا دروازہ تھا جس میں سے ایک سائیڈ سے ہو کر گھر کے لڑکے زنان خانے میں اندر بھی آ جا رہے تھے۔
رخصتی تک وہ دونوں مورے کے گرد چکراتی رہیں مگر رشتوں کا کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ دلہن بنی پھپھو کے پاس بیٹھیں تو وہ ان کی بےچینی سے محظوظ ہونے لگی۔
”کل اپنے ولیمہ پر تم دونوں کو بتاؤں گی کہ کس کی منگنی کس کے ساتھ ہے کیونکہ اب میں شادی شدہ اور بڑوں میں شامل ہوں، بڑوں کا یہ راز مجھے بھی پتا ہے۔“ پھپھو نے ان دونوں کی بےچینی بڑھا دی اور خود رخصت ہو گئی تھی۔
رات کو دیر سے جب صرف قریبی رشتہ دار رہ گئے، سب گرمیوں کی اس ٹھنڈی رات میں لان میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے مگر اوزگل افسردہ سی منہ بسورے لان کے آخر میں رکھے جھولے پر بیٹھی تھی۔
کمرے میں اسے حیا اور تمیز کا درس دینے والی زرگل بھی اس کے ساتھ بیٹھی جھول رہی تھی۔ اندر ہی اندر انتظار تو تھا اس پر تیاری ضائع ہونے کا غم الگ۔۔ وہ دونوں مٹھائی کی پلیٹ خالی کرنے میں مصروف تھیں۔
”واہ تم دونوں تو بالکل نہیں بدلیں۔۔ آج بھی ساتھ ساتھ بندھی ہو۔۔“ مردانہ مسکراتی آواز پر اوزگل کو جھٹکا لگا ہاتھ سے پلیٹ گرتے گرتے بچی تھی۔
”میں زورَک ہوں۔ پہچانا نہیں۔۔“ سامنے روایتی لباس میں مسکراتے چہرے والا زورک خان کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شوخ سی مسکراہٹ تھی۔ چہرے پر دوستانہ تاثرات تھے۔ اوزگل اور زرگل ایک جھٹکے سے اٹھیں۔
اس کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر اوزگل جذباتی ہو گئی، یہ خوشی تو اور زیادہ بڑھ گئی کہ زورَک نے انہیں پہچان لیا اور ملنے آیا تھا۔ یعنی وہ انہیں بھولا نہیں تھا۔
”اوہ ہائے۔۔ ہم نے تو پہچان لیا ہے۔۔ تم نے ہمیں پہچانا؟ یہ اوزگل ہے اور میں زرگل۔۔“ اوزگل نے شرارت سے اپنا نام زرگل بتایا جبکہ ساتھ کھڑی زر کو اوزگل کہا تھا۔ زر نے تپ کر اوزگل کو دیکھا۔
جبکہ وہ شرارتی نظروں سے زورَک کو دیکھ رہی تھی گویا اس کی یاداشت کا امتحان لینا چاہ رہی ہو۔ اپنے جھوٹ سے وہ خود محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہاں پہچانتا ہوں کیونکہ تم میری منگیتر ہو۔۔“ زورَک نے زرا جھک کر اوزگل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شوخی سے کہا تھا۔ اس کا دماغ بھک سے اڑا۔ زرگل بھی شاکڈ سی زورک خان کو دیکھ رہی تھی۔
”میں منگیتر ہوں؟ تمہاری منگیتر؟ میں تو اوزگل ہوں۔۔“ گھبراہٹ کے مارے اوز سمجھ نہیں پائی وہ کیا کہے۔ اس کا دل عجیب سے انداز میں دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ زورَک خان نے بےساختہ قہقہہ لگایا۔
”آئی ہو ناں لائن پر۔۔ ہاں مجھے پتہ ہے تم ہی اوزگل ہو۔۔“ زورَک نے ہنستے ہوئے اس کا سر تھپک کر کہا۔
”تم کیسی ہو زر۔۔ بچپن سے ہی ایسی سڑو ہو، کب سے بات کر رہا ہوں، تم بولی ہی نہیں ہو۔ دیکھو اوز نے کتنا وارم ویلکم کیا ہے مجھے اور تم۔۔ لگتا ہے تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔“
وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بول رہا تھا، زرگل اس کی بات پر نا ہنس پائی نا جواب دے پائی تھی۔ وہ رخ موڑے دوسری جانب دیکھ رہی تھی۔
زورَک خان نے اپنا تعارف خود کروا دیا تھا اور ولیمہ کے روز دوسرے کا نام بھی ان کی پھپھو نے بتا دیا۔ شادی کے بعد مہمان اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ زرگل گم صم سی رہنے لگی تھی اور ازگل شرمائی لجائی سی۔۔
”پھر تم بتاؤ اپنے منگیتر سے مل کر کیسا لگا؟ جوش خوشی میں بدلا یا مایوسی ہوئی۔۔ خیر تمہیں مایوسی ہونی تو نہیں چاہیے۔ میں تو بہت خوش ہوں۔“ اوزگل نے ایک روز پرجوش لہجے میں زر سے سوال کیا تھا۔
”ہاں تم خوش ہو، تمہیں ہونا بھی چاہیے کیونکہ تمہیں ایسا انسان ملا ہے جس میں کوئی خامی، کوئی کمی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ وہ شاندار ہے، خاندان کا سب سے پیارا لڑکا۔۔
میں کیسے خوش ہو جاؤں، میں ہمیشہ سے آزادی پسند تھی اور میرا ہی رشتہ اس حویلی میں کیا گیا ہے جہاں عورت کو کوئی آزادی نہیں۔۔ بس حویلی میں رہ کر زندگی جیو اور وہیں مر جاؤ۔۔
میرے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کیوں ہوئی۔۔“ زرگل چیخ اٹھی تھی۔ اوز ساکت سی اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی مگر اس کا وجود خوف کی وجہ سے ساکن ہو گیا تھا۔
پھر وہ دن تھا اور آج کا دن۔۔ زرگل کا رویہ عجیب ہوتا چلا گیا تھا۔ اس نے کبھی اپنی منگنی کا فیصلہ قبول نہیں کیا اور وہ کبھی اپنے منگیتر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی تھی۔
اوزگل سر پکڑے کمرے میں بیٹھی رہی اور یافث خان کی موجودگی میں ناک بھوں چڑھائے غصہ کرتی زرگل اب سب کے درمیان کھلکھلا رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا، کیوں وہ یافث خان کو زچ کر رہی تھی۔
اوزگل کی ناقص عقل وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔


خوشنما اور رودابہ بھاگتی دوڑتی یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی تھیں، علیزے ابھی تک کمرے میں بند تھی۔ خوشی بریڈ پر جیم لگا کر اسے کھاتے ہوئے علیزے کے کمرے میں پہنچی۔
پچھلے دو دن سے علیزے یونیورسٹی نہیں جا رہی تھی، کمرے میں بند پڑی رہتی تھی اور آج بھی کمرے میں بالکل اندھیرا اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
”علیزے مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ، تمہارے گھر میں کوئی مسئلہ ہوا ہے یا کسی نے کچھ کہا ہے؟ ہمیں پتا تو چلے کمرے میں بند کیوں ہو۔“
خوشنما نے جلدی جلدی بریڈ کھاتے ہوئے اس سے سوال کیا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ خوش نے زچ ہو کر بریڈ ختم کیا اور بیڈ کے قریب پہنچی۔
”ڈونٹ ٹیل می۔۔ تمہارا آج بھی چھٹی کرنے کا ارادہ ہے کیا؟“ خوشنما نے اس کی چادر کھینچی۔
”مجھے کوئی ٹیبلٹ دے دو خوشنما، میرا سر درد سے پھٹ جائے گا۔“ وہ کمزور التجائیہ لہجے میں بولتے ہوئے سسک پڑی تھی۔ خوشنما گھبرا کر اس کے قریب ہوئی۔
”اوہ خدا تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔۔“ اس کے ماتھے کو چھو کر اس نے چیخ ماری۔
”کیا؟ کب بخار ہوا تمہیں علیزے۔۔“ دابہ بھی کمرے میں داخل ہوئی اور جلدی سے اس کے قریب آئی۔
”مجھے نہیں پتا، پتا نہیں کب ہوئی طبیعت خراب۔۔ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے، مجھے کچھ دو پلیز۔۔“ وہ سر درد سے تڑپ رہی تھی۔
”ہمارے پاس تو کچھ نہیں، کوئی میڈیسن تو کبھی لے کر رکھتے نہیں ہیں ہم۔۔ اُف خدایا! کیا کروں؟“ خوشنما سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ دابہ تیزی سے اٹھی اور باہر نکلی۔
اور کسی سے تو جان پہچان تھی ہی نہیں، وہ حواس باختہ سی سامنے والے فلیٹ کا دروازہ دھڑا دھڑ بجانے لگی۔
اتنی مسلسل اور زوردار دستک پر حمزہ دروازہ کھول کر غصے سے باہر نکلا اور چونک کر دابہ کو دیکھا۔
”حمزہ پلیز ہیلپ می! تمہارے پاس کوئی سر درد کی دوا ہے تو دے دو، میری فرینڈ علیزے کے سر میں بہت شدید درد ہے، وہ بیمار ہے اور ابھی تو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جا سکتے۔۔“ وہ رو دینے والی ہو گئی تھی۔
”اوہ میڈیسن باکس ہے مگر وہ سر کے روم میں ہو گا مگر سر تو دو تین دن سے اپنے گھر گئے ہوئے ہیں۔“ حمزہ کی وضاحت پر دابہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔ ثابت ہوا حمزہ انتہائی بےوقوف انسان تھا، وہ بل کھا کر رہ گئی۔
”وہ گھر گئے ہوئے ہیں اور ایک گھاس چرنے والا گدھا یہاں چھوڑ گئے ہیں۔“ وہ دانت پیس کر بولی، حمزہ اس کے جارحانہ تیور پر ہکا بکا رہ گیا۔
”اگر تمہارے سر کے کمرے میں ہے تو وہیں سے اٹھا دو، کیا میڈیسن باکس اٹھانے کے لیے ان کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ٹیبلٹ دینے سے تمہارے سر کا کتنے لاکھ کا لاس ہو جائے گا۔“ وہ ضبط کر کے بولی۔
”میڈم پریشانی اپنی جگہ، مجھ پر چیخ کیوں رہی ہو۔۔ ان کا روم لاکڈ ہے تو وہ کی بھی اپنے پاس رکھیں گے ناں۔۔ میں کیسے روم میں چلا جاؤں۔۔“ وہ اس کی بات پر بےچین ہوئی۔
”پھر گاڑی تو ہو گی؟ ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ ہمیں۔۔“ اس نے آس سے پوچھا مگر اس کے نفی میں سر ہلانے پر وہ مایوس ہوئی۔
”اچھا سنو گھبراؤ نہیں۔۔ تم جا کر اسے دودھ گرم کر کے دو، میں سر جی سے رابطہ کرتا ہوں۔۔ انہوں نے آج آنا تھا، وہ اگر پہچنے والے ہوں گے تو ٹھیک ورنہ ٹیکسی کر کے لے جائیں گے ڈاکٹر پاس۔۔“ حمزہ کا مشورہ اسے معقول لگا، وہ پلٹ آئی۔
کچن میں جا کر دودھ گرم کیا اور گلاس میں ڈالنے لگی۔ علیزے کے باپ نے اسے پڑھائی کرنے کے لیے ہاسٹل کی بجائے فلیٹ لے دیا تھا اور اس کی مہربانی سے وہ دونوں بھی مفت میں اس کے ساتھ رہتی تھیں۔
اتنا حق تو بنتا تھا وہ علیزے کا خیال رکھتیں، وہ حساس اور نازک مزاج لڑکی تھی۔ نجانے کس پریشانی میں دو دن سے کمرے میں بند تھی اور وہ دونوں اسے کھانا پہنچا کر فارغ ہو جاتی تھیں۔ دودھ کا گلاس اٹھا کر کمرے میں لے جاتی دابہ تاسف سے سوچ رہی تھی۔
علیزے کو دودھ کا گلاس دینا چاہا لیکن وہ اتنی نڈھال پڑی تھی کہ نا اٹھ سکتی تھی نا رونا بند کر رہی تھی۔ ان دونوں نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور دودھ کا گلاس پلایا۔ وہ مسلسل سر پٹخ رہی تھی۔
”تف ہے ہم پر۔۔ پڑھی لکھی جاہلوں کی طرح رہتی ہیں۔۔ اس انسان کے پاس میڈیسن باکس ہے اور ہمارے پاس ایمرجنسی کے لیے ایک بخار کی ٹیبلٹ بھی نہیں۔۔ ویسے ہم آخری بار کب ہوئیں؟“
رودابہ نے بڑبڑاتے ہوئے ایک دن خوشنما سے سوال کیا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی پھر سوچ میں گم ہوئی۔
”مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، چھوٹے موٹے سر درد اور ہلکے پھلکے بخار کے علاوہ ایسی بیمار ہم کبھی نہیں ہوئیں۔“ خوشنما نے علیزے کا سر آہستگی سے دباتے ہوئے اسے بتایا۔ دابہ کو صدمہ ہوا۔
”ہائیں یہ کیا مطلب ہوا، ہم تینوں میں پہلی بار کوئی بیمار ہوا ہے۔ یا اللہ خیر ہم انسان نہیں ہیں کیا۔۔ علیزے کو ہی تھکن ہوتی ہے، اسی کو گھبراہٹ ہوتی ہے اور بیمار بھی یہی ہوئی ہے۔۔“
دابہ کی بوکھلاہٹ پر خوشی نے اسے گھور کر چپ کروایا۔ اسی وقت ڈور بیل کی آواز آئی۔ خوشنما نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے حمزہ اپنے سر صاحب کے ہمراہ تھا۔
”حمزہ بتا رہا تھا آپ کی فرینڈ علیزے کی طبیعت خراب ہے، ایوری تھنگ از او۔کے؟ کہاں ہے وہ؟“ وہ سوال کرتا اندر گھستا چلا آیا۔ خوشنما اس کی اس حرکت پر آج دوسری بار حیران ہوئی تھی۔
کمال ہے یوں بےتکلفی سے آتا ہے جیسے باپ کا فلیٹ ہو۔۔ اس نے تپتی نظروں سے اسے گھورا وہ ہینڈسم یا ہیرو ٹائپ تھا تو اپنی جگہ۔۔ مگر یوں لڑکیوں کے فلیٹ میں اس کا گھسنا بھی اچھا نہیں تھا۔
”جی دو دن سے تھوڑی اپ سیٹ تھی، آج صبح سے تو اسے تیز بخار اور سر درد ہے۔“ مگر وہ بولی تو بہت تمیز بھرا لہجہ تھا۔ وہ اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔
”اچھا فکر نہیں کریں، میں نے ڈاکٹر کو کال کر دی ہے۔ وہ ابھی آ جائے گا۔ کیا اس نے کچھ کھایا پیا ہے؟“ وہ اب سوال کر رہا تھا۔ حمزہ خاموشی سے دروازے کے پاس سر جھکا کر کھڑا تھا۔
”نہیں بس ابھی دودھ پلایا ہے۔ وہ اٹھنے کی حالت میں ہی نہیں تو کیا کھلاتے۔۔ میں اب سوپ بنانے والی ہوں اس کے لیے۔۔“ خوشی نے آہ بھر کر بتایا۔ وہ سر ہلا کر کال ملاتا ونڈو کے پاس جا کھڑا ہوا۔
خوشنما نے پلٹ کر حمزہ کو دیکھا تو اس نے اشارہ کیا۔
”سر ابھی ابھی پہنچے ہیں، چیک اپ کروا لیں گے فکر کی بات نہیں۔۔ جا کر اپنی دوست کو سنبھالو۔۔ وہ شاید پردہ کرتی ہے اور ڈاکٹر میل ہو گا۔“ حمزہ کے کہنے پر خوشی نے چونک کر سر ہلایا۔
وہ دونوں تو پردہ نہیں کرتی تھیں، پردہ دور جینز شرٹ پر ہلکا سا سٹالر لیے رکھتی تھیں مگر یہ سچ تھا علیزے بغیر پردے کے باہر کبھی نہیں گئی تھی اس لیے حمزہ کو بھی اندازہ تھا۔ اس نے اندر جا کر علیزے کو بڑی سی چادر سے اچھی طرح ڈھانپ دیا۔
”ابھی ڈاکٹر آ جائے گا، چیک اپ ہونے تک میں سوپ بنانا شروع کر دیتی ہوں، وہی پلا کر میڈیسن دے دیں گے۔ تم یہیں رکنا۔“ خوشی نے دابہ کو ہدایت دی اور کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آ گیا۔
”ڈاکٹر آ گیا ہے، آپ زرا ایک سائیڈ پر ہو جائیں۔“ اس نے دروازے پر دستک دے کر اطلاع دی تو دابہ نے حیرت سے اسے دیکھا جس کا انداز کافی استحقاق بھرا تھا۔ جیسے علیزے کا وارث وہی ہو۔
”ایسے کیسے سائیڈ پر ہو جاؤں؟ ہمیں کیا پتہ آنے والا ہے ڈاکٹر ہے یا آپ کا کوئی دوست اور نیت چیک کرنے کی ہے یا نہیں۔۔ میری دوست پردہ کرتی ہے اور بہت شریف لڑکی ہے۔
میں پاگل نہیں ہوں اسے دو مردوں کے پاس اکیلا چھوڑ دوں۔“ دابہ بات سمجھے بنا بھڑک اٹھی تھی۔
”شٹ اپ میں نے دروازے سے ہٹنے سے کا کہا ہے۔ کمرے سے نکلنے کا نہیں۔۔“ اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر وہ غصے سے بولا۔
دابہ اس کے ٹوکنے پر شرمندگی سے دروازہ کھلا چھوڑ کر علیزے کے پاس جا بیٹھی۔ وہ دروازے سے باہر کھڑا رہا تھا۔
”حمزہ ڈاکٹر کو بلاؤ اندر اور اس سے سامان لے لینا۔“ حمزہ کو ہدایت دے کر وہ اپنی کنپٹی سہلانے لگا، رودابہ کی منہ پھٹ بات پر اسے بہت غصہ آیا تھا۔
حمزہ نے پھرتی سے ڈاکٹر کو کمرے تک پہنچایا اور اس سے سامان لے کر خوشنما کو پکڑا دیا۔ وہ ڈھیروں شاپر دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ کھول کر دیکھا تو ریڈی میڈ گرم گرم سوپ، فروٹس وغیرہ تھے۔
وہ سوچ میں گم ہوئی تھی۔ حمزہ کا سر ہر بار علیزے کے معاملے میں اتنی فراخدلی کا مظاہرہ کیوں کرتا تھا۔ ہر بار۔۔۔ صرف تب جب علیزے انوالو ہوتی تھی۔
اندر ڈاکٹر کے سر پر کھڑے ہو کر وہ چیک اپ کروا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے نبض چیک کی، بخار نوٹ کیا اور میڈیسن لکھنے لگا۔ ڈاکٹر نے علیزے کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی۔
دابہ نے اطمینان سے نظر اٹھائی تو ٹھٹک گئی، وہ فکر سے چادر میں چہرہ چھپا کر پڑی علیزے کو دیکھ رہا تھا۔ وجیہہ چہرے پر پریشانی اور بےچینی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments