Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 01 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :110

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط ایک
نوٹ (اس ناول کو کاپی کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے، میرا اپنا یوٹیوب چینل ہے اور پی ڈی ایف کے لیے بھی اپنی ویب سائٹ ہے۔ چوری کرنے والوں کو رپورٹ کیا جائے گا اس لیے چوری سے پرہیز کریں شکری🙂)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گاڑی تیز رفتار سے کچی سڑک پر سے گزری اور مٹی کا غبار سا اڑ کر ہر طرف پھیل گیا۔ ارد گرد کچی سڑک پر چلنے والے لوگ ٹھٹھک کر رکنے لگے۔
اس گرد میں کچھ دکھائی ہی کہاں دے رہا تھا کہ مزید قدم بڑھاتے اور دکھائی تو اسے بھی کچھ نہیں دے رہا تھا۔ جو گاڑی کو چلانے کی بجائے اڑائے جا رہا تھا، آنکھوں میں شدید غصہ تھا۔
وجیہہ چہرے پر سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی، اس کے خوبصورت نقوش میں ہر وقت غصہ نمایاں ہوتا تھا مگر اس وقت اعصاب کچھ زیادہ تنے ہوئے تھے، حویلی کا پھاٹک سامنے آیا تو اس کے جبڑے بھینچ گئے۔
”اب یہ سب بھی چلے گا حویلی میں؟“ وہ غصے سے بڑبڑایا، گاڑی کے تیز اور مسلسل ہارن پر پھاٹک کھل چکا تھا، وہ بنا بریک لگائے اندر داخل ہو گیا۔
ڈرائیو وے پر گاڑی ایک جھٹکے سے روکی اور اتر کر ڈور اس زور سے بند کیا کہ ارد گرد کھڑے ملازم اچھل کر سیدھے ہوئے تھے۔


Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

اندر پہنچ کر وہ ٹھیک سے کسی کو مل بھی نہیں پایا، حویلی کے اس عالیشان ڈرائنگ روم میں غصے سے ٹہلنے لگا۔ سفید چہرہ غصے کی وجہ سے سرخی میں ڈوبا ہوا تھا۔
”مطلب کہ حد ہو گئی، اس کی شکل ہے کالج جانے کی؟ اسے پڑھانے سے پیسہ ضائع ہو گا اور اپنا وقت بھی برباد کرے گی۔ یہی وقت زرا تمیز سیکھنے میں لگائے تو شاید برداشت کے قابل ہو جائے۔
کیونکہ اسے آج تک اٹھنے بیٹھنے کا ڈھنگ بھی نہیں آیا۔“ وہ غصے سے بھرا سختی سے بول رہا تھا۔ چوڑی پیشانی پر لاتعداد بل پڑے ہوئے تھے۔ بیگم خان نے نظر اٹھا کر اپنے مغرور بیٹے کو مسکرا کر دیکھا۔
”تو چلو وہی اٹھنے بیٹھنے کا ڈھنگ ہی سیکھ لے گی۔۔ اس کا شوق ہے تو جانے دو۔ کچھ تو سیکھ لے گی۔۔“ بیگم خان پر سکون تھیں۔
”جو سیکھنا تھا، سیکھ لیا۔۔ اب مزید نہیں، آپ پھپھو جان سے کہہ دیں، مجھے اس کا یونیورسٹی جانا پسند نہیں۔۔ یونیورسٹی بھی کو ایجوکیشن ہے۔۔ مائی فٹ۔۔“ وہ تپا ہوا سا پیر پٹخ رہا تھا۔ دانت کچکچا رہا تھا۔ یوں جیسے ابھی وہ سامنے آئے گی اور وہ اس کی گردن توڑ ڈالے گا۔ بیگم خان نے ابرو چڑھا کر اسے ایک نظر دیکھا۔
”اس لیے اتنا بھاگے چلے آئے ہو؟ مجھے لگا خان صاحب کو ہماری یاد آئی ہو گی۔“ بیگم خان نے شکوہ کیا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
”مورے اب ایسی باتیں مت کریں، آپ جانتی ہیں میں کیوں ایسا ہو رہا ہوں۔ آپ نے اسے دیکھا نہیں ہے، کتنی نک چڑھی ہے۔ ہر ایک سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔۔
اس نے وہاں بھی یہی کام ہی کرنا ہے اور پھر خوب عزت لے کر آ بیٹھے گی پھر نا کہنا مسئلہ ہو گیا ہے۔“ وہ قدرے دھیما ہوا۔
”آج تمہارے لیے کیا بنواؤں میرا بچہ؟“ وہ ساری بات ان سنی کیے پیار سے بولیں۔
کچھ ایسا بنوائیں کہ کھاتے ہی میری غیرت مر جائے۔” وہ لڑ پڑا۔
”مطلب تیرے باپ، دادا سب بے غیرت ہیں؟“ ایک اور اعتراض۔۔ بیگم خان اب ناراض ہو رہی تھیں۔ وہ تھک کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ صاف نظر آ رہا تھا وہ بات بدل رہی ہیں۔ یعنی وہ بات سننا ہی نہیں چاہتی تھیں۔
”نہیں مورے۔۔ سب با غیرت ہیں، ایک میں ہی پاگل ہوں۔ میں ہی ناسمجھ ہوں جو سب چھوڑ چھاڑ کر یہاں بھاگ آیا ہوں۔ غلطی کر دی ہے۔ پھر ایسا ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔
لیکن ہاں۔۔ یا وہ یونیورسٹی جائے گی، یا میرے ساتھ منگنی رہے گی۔۔ اب خود فیصلہ کر لیں آپ لوگ۔۔“ وہ انگلی اٹھا کر بولا اور دھپ دھپ کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
”پاگل بچہ ہے میرا۔۔“ وہ مسکرا کر اٹھیں۔ وہ غصہ بہت دکھاتا تھا مگر ان کے خلاف کبھی نہیں جاتا تھا۔ وہ کچن کی طرف بڑھ گئیں، آخر اس کے کھانے کے انتظام بھی تو کرنا تھا۔۔


Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

”ووئی مجھے تو یقین نہیں آ رہا، آپ اب وہ ٹی۔وی والے کالج میں جائیں گی بی بی جی؟ یہ بڑا سا کالج اور بڑی سی عمارت جہاں اتنے پیارے پیارے لڑکے اور لڑکیاں ہاتھ، کمر تھامے گھوم رہے ہوتے ہیں بڑے مزے سے۔۔“
کم عمر سی ملازمہ روشنا نے آنکھیں پٹپٹا کر اس سے پوچھا۔ زرگل کی آنکھیں حیرت سے پھٹی پڑیں تھیں۔
”روشنا تمہاری باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ ٹی وی والا کالج یعنی واقعی؟ ہاہ۔۔ اور ہاتھ تھامنے کی تو سمجھ آتی ہے، کمر تھامنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟“ زرگل دانت کچکچاتی غصے سے بولنے لگی۔
”آپ سب سمجھ تو جاتی ہو بی بی جی، اب میں کیا مطلب بتاؤں۔۔“ روشنا نے شرماتے ہوئے منہ چھپا کر کہا۔ زرگل کا پارہ ہائی ہوا جبکہ روشنا اب منہ بنا رہی تھی۔
سارا جوش ضائع ہو گیا تھا، ایک تو یہ زرگل بی بی بڑی ہی غصیلی تھی۔ کون سی بات اسے مزاج کے خلاف لگے پتا نہیں چلتا تھا۔
”ہاں میں جاؤں گی مگر ابھی میں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے، ابھی اوزگل جائے گی، میں اس کے ساتھ تو کبھی نہیں جانے والی۔ فضول روندھی صورت۔۔ میں اگلے سال جاؤں گی۔“ وہ بے نیازی سے بولیں۔
”ہائے بی بی جی ایسا تو نہ کہیں، اوزگل بی بی بہت اچھی ہیں۔ ان کے ساتھ بات کر کے مزہ آتا ہے۔ میں جب ان کے ساتھ پچھلی بار شہر گئی تھی تو میرا اتنا خیال رکھا۔
کہتی تھیں روشنے تم ابھی چھوٹی ہو کہیں کھو ہی نہ جاؤں اور پھر خود بازار میں کھو گئی تھیں۔ وہ بھی تو چھوٹی سی ہیں۔“ روشنا اس کے بارے میں بتاتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی۔ زرگل کا موڈ آف ہوا۔
”تم جیسی احسان فراموش لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی، میری ملازمہ ہو۔ مجھ سے جوتی کپڑے لیتی رہتی ہو اور تعریف ہر وقت اوزگل کی کرتی ہو۔۔ “ وہ تنفر سے بولی، اور ابھی مزید کچھ کہتی کہ اوزگل آ گئی۔
”زر، تمہیں اماں جان بلا رہی ہیں۔“ وہ پیغام دیتے ہوئے دھپ سے وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ روشنا اسی وقت زرگل کی باتیں سن کر پریشان سی بیٹھی تھی۔۔ اوزگل کے آنے پر نظریں چراتی یہاں وہاں دیکھنے لگی۔
”زر تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل دیا؟ کتنا مزہ آتا ایک ساتھ پڑھتے، یونیورسٹی لائف انجوائے کرتے اور اکیلا پن بھی نہ رہتا ہم ایک دوسرے کا خیال رکھ سکتی تھیں۔“
اوزگل اداسی سے بولتے ہوئے زر کے سامنے پڑا ہوا باؤل اٹھا کر نوڈلز کھانے لگی۔
”پہلی بات۔۔۔“ زر نے اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر اسے گھورا۔
”میری چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو۔۔ میری اجازت کے بغیر تو بالکل نہیں اور میں ضرور جاتی، مزہ بھی کرتی اور انجوائے بھی لیکن تمہارے ساتھ میں نے اپنا مزہ خراب نہیں کرنا۔۔
آبا جان صرف مجھے بھیج رہے تھے تم کیوں درمیان میں آن ٹپکیں۔۔ پہلے تو کبھی شہر جا کر پڑھنے کا خیال نہیں آیا تمہیں۔۔ جوان ہو گئے ہیں لیکن تمہاری مجھے کاپی کرنے کی عادت نہیں گئی۔ ناجانے کب جان چھوٹے گی تم سے میری۔۔“
زرگل سرد پن سے بولتی کانٹے سے نوڈلز کھانے لگی، اوزگل کا منہ اتر گیا۔ زر کبھی کبھی بہت بےرحم لگتی تھی۔
”ابھی تم جاؤ۔۔ اکیلی رہو، مزہ کرو اور مجھے پورا یقین ہے تم جلد واپس آؤ گی، تمہارے بعد میں جاؤں گی۔“ وہ بولتے بولتے یکدم مسکرائی تھی۔ اس کی بات کا مطلب کیا تھا اوزگل بھی سمجھ چکی تھی تبھی چڑ گئی۔
”تم اور تمہارا یقین۔۔ بھاڑ میں جاؤ۔۔ میں اپنی پڑھائی پوری کیے بغیر کبھی واپس نہیں آؤں گی، تم اپنی خوش فہمی کے ساتھ یہاں بیٹھی رہو۔۔“ اوزگل نے اٹھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اور اس کے کانوں میں لگے ہینڈز فری اتار لیے۔
”یہ ہینڈز فری میرے ہیں، تمہارے ٹوٹ چکے ہیں اگر یاد ہو تو۔۔ تم بھی میری چیزوں کو دوبارہ ہاتھ مت لگانا۔۔“ وہ جتاتے ہوئے مڑ کر چلی گئی۔ روشنا چور نظروں سے اپنی پسندیدہ بی بی کو جاتا دیکھ رہی تھی۔
زرگل نے پیالہ زور سے ٹیبل پر پٹخ کر رکھا تو روشنا کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ وہ گھبرا کر زرگل کو دیکھنے لگی جس کا خوبصورت چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ پڑ رہا تھا۔
”نہ جانے کب اس سے جان چھوٹے گی، میری برداشت جواب دے رہی ہے۔“ وہ نفرت سے بڑبڑا رہی تھی، روشنا حیرت اور افسوس سے اسے دیکھنے لگی۔
وہ بمشکل پندرہ برس کی چھوٹی سی لڑکی تھی۔ اسے ان دونوں کے درمیان موجود اس دیوار کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اسے ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا حویلی میں زرگل کی کل وقتی ملازمہ بن کر رہنے لگی تھی۔
پہلے روز سے اس نے زرگل کو اوزگل سے چڑتے دیکھا تھا حالانکہ وہ دونوں جڑواں بہنیں تھیں، شکل و صورت میں بہت مشابہت تھی، قد کاٹھ بھی سیم تھی۔
مگر ان کی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی اور “اب ” تو بالکل بھی نہیں۔۔ جب سے ان دونوں نے اپنے اپنے منگیتر دیکھے تھے۔ اس روز سے سرد دیوار مزید اونچی ہو گئی تھی۔
وہاں اوزگل اپنے کمرے میں سامان پیک کرتی اداس ہو رہی تھی۔ اس کی ملازمہ اس کی مدد کروا رہی تھی۔


Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

”میری زندگی عذاب ہو گئی ہے، پہلے ہی اس لڑکی کا مزاج برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے اس پر اب یہ الٹی سیدھی خواہشات کا لمبا چکر۔۔۔ آج یونیورسٹی پڑھنے جا رہی ہے کل کہے گی نوکری کرنی ہے۔“
اس کا دماغ گھوم رہا تھا۔ کوئی اس کی بات سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ علیزئی حویلی میں تو سب ایسے مزے سے گھوم رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”یا اللہ۔۔ خاناں پلیز اتنے ہائپر مت ہو جایا کرو، وہ بہت پیاری بچی ہے۔ تمہاری زندگی اچھی ہو جائے گی، تمہاری پرواہ ہے اس لیے اتنی اچھی لڑکی تمہاری زندگی میں شامل کی جا رہی ہے۔ شی از نائس۔۔“
خان حاذق اسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔ اس کی غلط فہمی دور کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی جا رہی تھی گھر کے ہر فرد نے اس کو وضاحتیں دی تھیں۔ مگر اس کی بات پر وہ رو دینے والا ہو گیا۔
”شی از نائس؟ یا خدا آپ لوگ کس بات کی سزا دے رہے ہیں، کیا میں اندھا ہوں؟ میں اسے نہیں پہچانتا؟ وہ خاندان کی سب سے سرد مزاج اور بدتمیز لڑکی ہے جس کا رویہ ملازماؤں سے بھی اتنا بدتر ہوتا ہے۔
وہ چیختی چلاتی بدتہذیب لڑکی آپ سب کو نائس اور اچھی لگتی ہے؟“ اس اس کا دل چاہا اپنے بال نوچے۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا ایسی لڑکی کے ساتھ گزارہ کیسے کرے گا جبکہ حاذق خان اس کی بات پر حیران ہوا۔
”ارے بھئی کیسی باتیں کر رہے ہو؟ وہ ایسی بالکل نہیں ہے۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے تم یہاں رہے ہی کتنا ہو۔ تم نے تو اسے ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں، ملے کب ہو اس سے۔۔ خوامخواہ تم اتنا غصہ ہو اس پر۔۔“
حاذق خان نے لاپروائی سے کہا، وہ بھڑک گیا۔
”یعنی آپ اس بات کو کیش کر رہے ہیں کہ میں جانتا نہیں، دیکھا نہیں تو مجھے کچھ پتا نہیں ہو گا۔ اور آپ لوگ مجھے پاگل بنا لیں گے۔“ اس کا چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ ہوا۔
”دیکھو شاید تم۔۔۔“ وہ بات کرنا چاہ رہے تھے۔
”ایک منٹ حازق لالا۔۔“ اس نے بیچ میں ٹوکا۔
”میری طرف سے۔۔۔ انکار انکار انکار ہے۔“ وہ لفظ چبا کر بولا۔ حاذق کو جھٹکا لگا۔
”انکار اور طلاق لفظ میں فرق ہوتا ہے بچے، تین بار ہر لفظ بھی دہرانے سے رشتہ نہیں ختم کیا جاتا۔۔“ حازق خان نے اتنی سنجیدہ گفتگو میں بھی بمشکل اپنی ہنسی دبائی تھی۔
”آپ سے واثق لالا بہتر جانتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اور میں نے ایک ساتھ اس محترمہ کا مزاج ملاحظہ کیا تھا۔“ اس کے ذکر پر ہی وہ زہر جیسا ہو جاتا تھا۔
”تم دونوں تو پاگل ہو، پتا نہیں کیا دیکھ لیا۔۔ اچھا میری شادی پر دوبارہ اسے دیکھنا، زرا غور کرنا۔ اس کا رویہ دیکھنا کتنی شائے اور سویٹ سی ہے۔“ حاذق خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یعنی وہ سب کو ایسے پاگل بنا کر رکھتی ہے، اس کی اصلیت شاید صرف میں نے ہی دیکھی ہے۔“ بھائی کی بات پر وہ منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔
”غور کرتی ہے میری جوتی، آپ تو لالا تماشے کا انتظار کریں اب۔۔“ وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔ حاذق اس کے جملے پر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
”کیونکہ آغا جان زبان سے نہیں پھرنا چاہتے اور میں بھی زبان دے رہا ہوں کہ اس سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔“ وہ اپنی بات پر مسکرایا گویا خود ہی محفوظ ہوا ہو۔ حاذق پریشان ہو گیا۔
”دیکھ لو! ایسا نہ ہو۔ ہم اتنی اچھی لڑکی کو انکار کر بیٹھیں، تو تم بعد میں پچھتاؤ۔“ اس بار اس نے نہایت سنجیدگی سے حازق کو دیکھا۔
”اور میں جانتا ہوں میں ہاں کر کے پچھتاؤں گا۔“ وہ خطرناک حد تک سنجیدہ ہو چکا تھا۔


Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

”بس اب تو کچھ کر ہی ڈالنا ہے۔ یا خود مرنا ہے یا کسی کو مار ڈالنا ہے، بہت جی لی شرافت کی زندگی۔ یعنی دل نہیں تو جان لیں گے، اب ہم ایسے نہیں رہیں گے۔۔“ یہ جارحانہ تیور کی حامل محترمہ خوشنما تھی۔
جس کے ارادے خطرناک ترین ہو چکے تھے۔
”بس اب مجھے ایک انتہا کے باکمال بندے کی ضرورت ہے۔ بس ایک ہی ہو۔۔ وہی ایک تو ہو ناں۔۔“ یہ رودابہ تھی جو نہایت ترسی ہوئی سی رونے والی صورت بنا کر بول رہی تھی۔
”بس اور اب بکواس کی حد ختم ہو گئی ہے۔“ علیزے کا ضبط ان دونوں کی گھنٹے سے کی جانے والی بکواس بازی پر جواب دے گیا تھا۔ ان دونوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”میں کب سے ویٹ کر رہی ہوں ، تم دونوں بک بک کیے جا رہی ہو، اس ترسی ہوئی محفل کو ختم کرو۔۔ جب میں نہانے جاؤں گی تو کسی نا کسی کو نہانا یاد آجائے گا، ہمیشہ کی طرح۔۔“ وہ بگڑے بگڑے لہجے میں دانت چبا کر بولی تھی۔
”تو تم نہانے میں دیر مت لگانا ناں ہمیشہ کی طرح۔۔“ دابہ نے اس کی نقل اتاری۔
”دیر؟ میں دیر کرتی ہوں؟ او۔کے آج دیر سے نکلوں گی تو سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ “دیر” کسے کہتے ہیں۔“ اس نے جتاتے لہجے میں کہا تو وہ دونوں ہاتھ جھلاتی “اچھا” جیسا انداز اپنائے باتوں میں لگ گئیں۔
موضوع پھر سے وہی تھا، وہی خود ترسی اور تنہائی اور وہی کسی ساتھی کے ساتھ نا ہونے کا غم۔۔ وہی شدید کنوارا پن۔۔ علیزے سر جھٹک کر باتھ روم میں جا چکی تھی۔
”میں تو جب سے آئی ہوں، نظریں آتے جاتے ارد گرد لوگوں میں گھماتی ہوں۔۔ ہمارے باہر آنے جانے کی ٹائمنگ میں فی الحال تو اکتائے ہوئے انکل، موٹی آنٹیاں اور بدتمیز بچوں کی رونی بیزار صورتیں ہی نظر آتی ہیں۔۔
کوئی خوش شکل، خوش لباس، خوش اخلاق۔۔“ خوشنما کے خوش خوش کی گردان پر رودابہ نے ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھری اور افسوس سے سر ہلایا۔
”اور کوئی خوش اخلاق نوجوان نظر نہیں آیا۔“ بات کے آخر میں وہ دلگیر سی ہو گئی تھی۔
”ارے! تم حمزہ کو بھول گئیں؟ پچھلے دو ہفتوں سے تو وہ نوجوان ہمارے کام آ رہا ہے۔“ دابہ نے اچانک تالی بجا کر بلڈنگ میں رہنے والے لڑکے کا نام یاد دلایا۔
“اوہ! تم کہنا چاہتی ہو کہ حمزہ صاحب کے ساتھ اتنے خوش میچ کرتے ہیں؟“ خوشنما کا موڈ آف ہو گیا۔ اسے تو کچھ اور چاہیے تھا۔
اونچا لمبا کوئی گورا سا۔۔ کشش ہو، دلکشی ہو اور شخصیت میں ایسا سحر ہو کہ نظر اس پر پڑے تو ہٹے نہیں۔ اس نے سوچتے سوچتے بھی آخر میں حسرت سے ٹھنڈی آہ بھری۔
“ارے نہیں میں تو۔۔۔“ گھنٹی کی آواز پر دابہ کی بات ادھوری رہ گئی۔ خوشنما نے بھی چونک کر دروازے کی سمت دیکھا۔
”ارے آج حمزہ اتنے جلدی آ گیا؟“ رودابہ نے حیرت سے بولتے ہوئے اٹھ کر دروازہ کھولا مگر سامنے کھڑے موصوف کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ شاندار اور ہر خوش پر پورا اترنے والا نہایت خوش شکل۔۔
(واہ! اللہ تو کیسے دلوں کے راز جان لیتا ہے، کیا بندہ بھیجا ہے۔۔ کیا شان ہے بنانے والے کی، کیا خوب بنایا ہے۔۔
بےشک تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)
یک ٹک اسے چمکتی نظروں سے گھورتی خوشنما نے بڑے غلط موقع پر آیت یاد کی تھی۔ وہ بنا جھجکے پوری شان سے گھر کے اندر گھسا چلا آیا تھا۔
“ایکسکیوزمی! سوری فار ڈسٹربنس، مجھے کچھ بات کرنی تھی۔“ وہ بولتے ہوئے آگے بڑھ کر بےتکلفی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ چہرے پر سنجیدگی تھی، ان دونوں کے چہرے کی جانب نہیں دیکھا تھا۔
مگر اس کا یہ مالکانہ انداز کچھ عجیب سا تھا۔ حیران سی خوشنما نے اس کے سامنے والے صوفے پر پریشان سی دابہ کو دھکیل کر اپنے لیے جگہ بنائی اور بیٹھ گئی۔
”دیکھیے۔۔“ وہ گلا کھنکار کر مخاطب ہوا پھر رک گیا۔ احساس ہوا کہ وہ دونوں کب سے یہی شغل فرما رہی تھیں یعنی اسے دیکھنے کا۔۔
”میں آپ کے سامنے والے فلیٹ میں رہتا ہوں، پچھلے دو ہفتوں سے غالباً آپ ہی حمزہ سے اپنا سازو سامان منگواتی ہیں۔۔“ ان کے کھانے پینے کی اشیاء کا اشارہ دیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا۔
رودابہ اور خوشنما نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
(اوہ! تو یہ مجھے دیکھتا تھا، ضرور آج دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آیا ہو گا)
خوشنما کی خوش فہمی عروج پر تھی۔ اس کے لبوں پر ترچھی سی مسکراہٹ پھیلی، کیونکہ حمزہ کو پکار کر زیادہ تر وہی سامان منگواتی تھی۔
”جی ہاں بالکل! اگر آپ نے بھی کچھ منگوانا ہو تو بتا دیجیے گا، حمزہ اچھا لڑکا ہے ہم اس سے منگوا دیں گے۔“ دابہ نے خوشدلی سے آفر کی تو وہ ابرو چڑھا کر تمسخر سے مسکرایا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر وہ کسی کے کام آتا ہے، کسی کا سامان لاتا ہے یا ہیلپ کرتا ہے مگر دو ہفتوں سے حمزہ صاحب کی وجہ سے میرے کام ڈسٹرب ہیں۔۔
نا کپڑے لانڈری پہنچتے ہیں، نا کچن صاف ملتا ہے، نا ہی دوسرا پھیلاوا سمٹا ہوا ملتا ہے جبکہ میں نے اسے تنخواہ پر رکھا ہے، ہی از مائی سرونٹ۔۔“ وہ بڑے ضبط سے بولا تھا۔
دابہ کی خوشدلی خاک ہو گئی اور خوشنما کی خوش فہمیوں کی پتنگ جو نجانے کہاں کہاں محو پرواز تھی کٹ کر نیچے آ گری۔ دونوں ہونق سی ہو گئیں۔
”ویسے تو میں نے اسے کہا تھا کہ آپ کی ہیلپ کر دیا کرے مگر کبھی کبھی ضرورت پر کی جانے والی ہیلپ اور ہر وقت اپنی سروس چھوڑ کر پہلی پکار پر بھاگنا الگ بات ہے۔۔“
اس نے جتایا نہیں تھا مگر ایسا لگا جیسے اس نے جتایا ہی تھا کہ زرا ہوش کے ناخن لیں اور اپنی پکاروں کو کچھ مختصر کریں۔
”ویسے تو بلا کا کاہل ہے مگر لڑکیوں کو دیکھ کر تو اس میں بجلی بھر جاتی ہے۔ پھر میرے کام یاد نہیں رہتے صرف خدمت خلق یاد رہتی ہے۔“ وہ مسکرایا تو بڑی زہریلی مسکراہٹ تھی اس کی۔۔
حمزہ کے ساتھ انہیں بھی بھگو بھگو کر مار رہا تھا۔
”میں نے اسے بھی کہا ہے کہ ایک ٹائم رکھے اور دن رات کی بھاگ دوڑ سے معذرت کرے مگر شاید وہ آپ لوگوں کا دل توڑنا نہیں چاہتا۔۔
سو پلیز اف یو ڈونٹ مائنڈ۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بات ختم ہو چکی تھی۔ بس وہی لگام ڈالنے آیا تھا ورنہ خوشنما تو جب دل چاہتا تھا دروازے پر کھڑی ہو کر بڑے انداز سے حمزہ کہہ کر بلاتی تھی۔
اور اگلے پل حمزہ بوتل کے جن کی طرح ان کے گھر کے باہر ہوتا تھا۔ ان کے تو مزے تھے۔ رات بھی ہوتی تو کہہ دیتی تھیں حمزہ ہے ناں لا دے گا۔ علیزے پہلو بدلتی رہ جاتی تھی۔
لیکن آج مالک یاد دلانے آ گیا تھا کہ حمزہ کو انہوں نے کام پر نہیں رکھا۔ وہ اٹھ کر رکا۔ ایک نظر دونوں کے حیران کھلے منہ دیکھے۔
”اوکے۔۔“ وہ جانے کے لیے مڑا تو ان دونوں کا سکتہ ٹوٹا۔ خوشنما جھٹ سے کھڑی ہوئی اور ہمت کر کے بولی۔
”اوہ! ویل وی آر سو سوری! ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ آپ کا سرونٹ ہے، ہماری فلیٹ میٹ علیزے تھوڑی ضدی سی لڑکی ہے۔ جب وہ کچھ کھانا چاہے اسے ہوتا ہے چیز ابھی آ جائے۔
ہم لڑکیاں ہیں اکیلی کہاں بازاروں میں جائیں، تو ہم حمزہ بھائی سے مدد لے لیتی ہیں۔ وہ بتا دیتے تو آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔“
وہ ایک سیکنڈ میں علیزے پر الزام ڈالتی حمزہ کو بھائی بنا کر خود کو خوشدل ثابت کر گئی۔ رودابہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”اوہ! شیور اٹس اوکے اپنی فلیٹ میٹ سے کہیں بےوقت فاسٹ فوڈ کھانے سے پرہیز کریں۔۔“ وہ بڑے باکمال انداز میں بولا اور تیزی سے نکل کر چلا گیا۔
وہ دونوں لوفر پن سے دل پر ہاتھ رکھتی دروازے کے ساتھ جا لگیں پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور اگلے پل مسکرا دیں۔ یہ فضول سی بلڈنگ اتنی بھی فضول نہیں تھی۔
ان سب بیزار لوگوں میں اتنا شاندار بندہ بھی رہتا تھا انہیں اتنی دیر سے خبر ہوئی تھی۔ اب تو حمزہ حمزہ ہونے والی تھی۔


Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

اتوار کا دن تھا، وہ تینوں گھر پر تھیں۔ علیزے نے صبح صبح جاگ کر فجر پڑھ کر تلاوت کی تھی پھر سے سو گئی تھی۔ دوبارہ آنکھ دس بجے کھلی تھی۔ وہ جمائی لیتی کمرے سے نکلی تو وہ دونوں سر جوڑے بیٹھی تھیں۔
مگر اس بار باتیں سرگوشیوں میں ہو رہی تھیں۔ بالوں کا جوڑا بناتی ان کے قریب جا کر بیٹھی تو دونوں بات بدلتی یہاں وہاں دیکھنے لگیں۔
”تم دونوں کو کیا ہوا؟“ اس نے حیرت سے سوال کیا۔
”فریج میں انڈے ختم ہیں، چیز بٹر بریڈ سب کچھ۔۔ آٹا پڑا ہے لیکن سالن رات ہی ختم ہو گیا تھا۔ اب ناشتہ کرنا ہے سوچا انڈے اور نان چنے منگوا لیتے ہیں لیکن۔۔“
رودابہ بتاتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر رک گئی۔
”لیکن کیا، ہمیشہ حمزہ کے سر پر سوار رہتی ہو، اسی سے کہنا تھا لا دیتا۔۔“ اس نے لاپروائی سے کہتے ہوئے کچن کی طرف دیکھا۔ بھوک اسے بھی لگ رہی تھی۔
”وہی تو حمزہ بھائی کو نہیں بلا سکتے، اس کے مالک نے منع کر دیا ہے۔“ خوشنما افسردگی سے بولی۔
”حمزہ بھائی کب سے ہوا؟ اور کون سا مالک۔۔“ علیزے حیران ہونے لگی۔ خوشنما اس کی طرف کھسکی۔
”سب چھوڑو، میں نے بہت بلا کر دیکھا۔ حمزہ نہیں آیا۔۔ پیٹ میں اب چوہے دوڑ رہے ہیں کھانا بنانے کی اوقات تمہاری بھی نہیں۔۔ دابہ کی اوقات تو پتا ہے صرف کھانا جانتی ہے۔۔
بھوکے پیٹ میں بھی کچھ نہیں بناؤں گی تو جا کر آج تم حمزہ سے کھانا منگواؤ۔۔“ خوشنما نے سب کی اوقات تفصیل سے جتا کر اسے ہدایت دی وہ بدک کر نفی میں سر ہلانے لگی۔
”میں بالکل نہیں بلاؤں گی اسے۔۔ پتا نہیں کون ہے۔“ وہ انکار کر گئی۔ رودابہ اور خوشنما اسے دیکھنے لگیں۔ نظروں میں ہی لکھا تھا اچھا بیٹھی رہو ہم بھی بیٹھے ہیں اور وہ تینوں تقریباً آدھا گھنٹہ ڈھیٹ بن کر بیٹھی رہیں۔
”اچھا میں جاتی ہوں، صرف بلاؤں گی بات نہیں کروں گی۔“ آخر علیزے نے تھک کر ہار مان لی۔
”پرچی پر سودا لکھ لو، پکڑا دینا۔ وہ سمجھ جائے گا۔“ رودابہ نے مشورہ دیا۔ وہ سر ہلا کر کمرے میں گئی۔ کچھ دیر بعد ہاتھ میں پرچی لیے باہر نکلی۔ نیلی چادر بھی پہنی ہوئی تھی۔
دروازہ کھول کر ڈرتے ڈرتے باہر جھانکا، وہ دونوں اطمینان سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے آہستگی سے حمزہ کو آواز لگائی۔ آواز مدھم تھی ڈرپوک اتنی جیسے ابھی اس آواز پر حمزہ کی بجائے اس کا باپ آ جائے گا۔
”حمزہ بھا۔۔“ ابھی وہ بلا رہی تھی کہ سامنے والے فلیٹ کا دروازہ کھول کر کوئی باہر نکلا۔ اس کی پکار منہ میں ہی رہ گئی۔ بوکھلا کر سیدھی ہوئی، پریشانی میں سمجھ نہیں پائی اندر جائے یا باہر۔۔
”کیا چاہیے، حمزہ بزی ہے۔“ وہ اس کی طرف بڑھتا سنجیدگی سے بولا۔ وہ چادر میں سمٹی گردن موڑے رونی صورت بنا کر خوشنما اور رودابہ کو دیکھنے لگی۔
وہ اس کے ہاتھ سے پرچی لے چکا تھا۔ علیزے نے گھبرا کر اسے دیکھا، نیلی آنکھوں میں پریشانی سمٹ آئی۔
”میں لا دیتا ہوں سامان، اندر جاؤ اور آئندہ حمزہ کو بلانے دروازے پر مت آنا۔۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
علیزے جلدی سے اندر ہوتی دروازہ بند کر گئی۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!