Soulmate Vampire Based Novel By Yaman Eva
Book Name: Soulmate
Author Name: Yaman Eva
Genre: Rude hero, younger vampire girl, Vampire king, Thrilling and Fantasy Romance, Long novel
Status: Completed
Soulmate is a Story of a cruel Vampire king who fell in love with her soulmate on the very first meeting but later she was accused for killing the brother of vampire king, they punished her in the palace where she destined to live as a queen, This is an interesting Long Novel. to read how their misunderstanding resolved and they become one, please read the complete novel.
Yaman Eva is a Social Media Writer, She has written many novels in a unique and interesting writing style. Soulmate is a romantic vampire based novel.
Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, so please visit our website to read your favorite novels, and don’t forget to give your feedback. Novels in Urdu also promote new writers to write online and show their writing abilities and talent. We give a platform to new writers to write and show the power of their words.
کیا تم جانتی ہو آج یہاں کنگ البان آئیں گے۔۔
ہم نے سنا ہے اس پارٹی میں وہ آدھے گھنٹہ کے لیے آنے والے ہیں۔۔“ ایک شہزادی نے پرجوش لہجے میں بتاتے ہوئے باقی سب کو چونکایا تھا۔۔
”کیا واقعی۔۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بال روم میں ساری زندگی رکنا پڑے، رک جاؤں گی۔۔“ دوسری نے کھلکھلا کر کہا تھا۔ میکا سر جھکائے ان کی خوشی محسوس کر رہی تھی۔
وہ جانتی تھی کنگ البان جیسے ظالم اور نہایت سخت بادشاہ پر سب لڑکیاں کیوں دیوانی تھیں۔۔ کیونکہ وہ بہت خوبصورت اور دلکش تھا۔ اس کی نیلی آسمانی سی آنکھوں پر جیسے سرد برفیلی تہہ جمی رہتی تھی۔ اسے دیکھنا ہی سب کے لیے انعام تھا۔۔
اسے پانے کی حسرت تو آج تک کوئی شہزادی بھی رکھ نہیں پائی تھی تو عام لڑکیوں کا تو حساب ہی الگ تھا، وہ نا دیکھ سکتی تھیں نا پا سکتی تھیں۔۔
میکا ڈفین ایک نہایت عام ویمپائر ڈفین خاندان کی لڑکی تھی اور اس نے بھی کنگ البان کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔ اس نے بس اس کے بارے میں سنا تھا۔
کنگ البان پر شاعری کی جاتی تھی اور گیت بنائے جاتے تھے، اس جیسی عام لڑکیاں ان گیتوں میں تصور کی آنکھوں سے کنگ البان کو دیکھتی اور سوچتی تھیں۔۔
وہ سوچتی تھیں کہ کنگ البان دیکھنے میں کیسا ہو گا۔۔ ایک ظالم اور حسین بادشاہ۔۔
اور میکا کے تصور میں کبھی کنگ البان کا خوبصورت چہرہ نہیں ابھرا تھا۔۔ ایک خرانٹ اور خوفناک سا چہرہ تھا جس کی آنکھیں سرخ آگ جیسی تھیں اور یہ تصور اتنا خوفناک تھا کہ اس نے کبھی کنگ البان کو دیکھنے یا ملنے کی خواہش نہیں کی تھی۔
آج پہلی بار وہ ایسی جگہ موجود تھی جہاں کنگ البان جیسے نہایت اونچی ناک والے مغرور بادشاہ کا آنا ہو رہا تھا اور بس اتنا ہی ہو سکتا تھا۔
سامنا ہو گا؟ وہ اس سے ملے گا؟ نہیں یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔۔ یہ سوال تو بنتے ہی نہیں تھے۔۔
اسے بال روم سے نکال دیا گیا تھا جہاں عام شاہی گھرانے تھے۔ کنگ البان کے آنے پر تو شاید اسے زمین میں ہی دفن کر دیا جاتا کہ سامنا نا ہو جائے۔۔
”آؤ بال روم میں چلتے ہیں اور دروازے کے پاس رک جاتے ہیں۔۔ جو کچھ دیر کنگ البان رکیں گے وہ وقت ہمارا ضائع نہیں ہونا چاہئیے۔۔“
شہزادیاں ارادے باندھتی اس کے پاس سے گزر کر آگے بڑھتی ہوئی بال روم کے دروازے تک پہنچ چکی تھیں۔ میکا نے ان کے گزر جانے کے بعد گردن گھما کر ان شہزادیوں کو ایک نظر دیکھا تھا۔
وہ ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکیاں تھیں۔ جن کے چہرے چاند کی طرح دمکتے ہوئے سے تھے، ان کی جلد شفاف اور نرم تھی۔ ان کے لباس قیمتی تھے اور زیوارت نہایت مہنگے۔۔ اس نے گہرا سانس بھرا۔۔
ہاں ظاہر ہے۔۔ آخر وہ شہزادیاں تھیں جنہیں بچپن سے ہی دودھ اور پھولوں کے عطر سے غسل دیا جاتا ہو گا۔۔ ایسے میں ان کی شفاف جلد اور تازگی کا اس جیسی عام لڑکی سے مقابلہ ہی کہاں تھا۔۔
اس نے اپنے گاؤن کے پیروں کو چھوتے گھیرے کو مٹھیوں میں دبوچ کر تھوڑا اوپر اٹھایا اور تیزی سے چلتی راہداری کے کنارے پر پہنچی۔۔ سامنے نہایت بڑا ہال تھا اور ہال کے درمیان بیرونی دروازہ۔۔
وہ دروازے کی سمت بڑھتی جا رہی تھی اور دل اداس ہوتا جا رہا تھا۔
آتے ہوئے وہ صرف جھجک کا شکار تھی، اسے پرنسز رائنا نے زبردستی بلایا تھا، وہ جانتی تھی یہ جگہ اس کی نہیں مگر وہ خوش تھی اس کی دوست نے اسے اس قابل سمجھا تھا اور بہت زیادہ ریکوئسٹ کر کے بلایا تھا۔۔
اس کی سوچ تھی کہ جب وہ بال روم کے دروازے پر پہنچے گی تو دربان جھک کر اس کے لیے راستہ چھوڑ دیں گے کیونکہ اس چھوٹے سے محل کی شہزادی رائنا مرین انہیں ہدایت دے چکی ہو گی مگر اس کی سوچ غلط ثابت ہوئی۔۔ اسے آج زندگی کی بد ترین زلت کا سامنا ہوا تھا جب اسے بال روم کے دروازے سے لفظی دھکے ملے تھے۔۔
یعنی پرنسز رائنا صرف اس اس کی حیثیت جتانا چاہتی تھی؟ اسے آج شدت سے احساس ہوا یہ شاہی لوگ کتنے سنگدل اور بےرحم ہوتے ہیں۔۔
دروازے پر پہنچ کر اس نے فضا میں گہرا سانس خارج کیا اور دروازے سے نکل کر وسیع کھلی جگہ عبور کرتی سیڑھیوں تک پہنچی۔ سامنے سیڑھیوں سے نیچے کھلے لان کے بالکل درمیان میں بنے سڑک پر نما راستہ پر شاہی بگھیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ ہر رنگ کی اونچی شاہی بگھیاں اور ان کے ساتھ کھڑے بگھی بان۔۔ یہ یقیناً اندر موجود مہمان شاہی گھرانوں کی سواریاں تھیں۔
وہ سر جھکائے سیڑھیاں اترتی جا رہی تھی۔ پیروں میں پھنسے سینڈلز اب پاؤں میں درد کی وجہ بن رہے تھے۔ اس کے پاس جوتوں کا مہنگا اور صاف بس یہی ایک جوڑا تھا جو کئی سال پرانا تھا اور اب کافی تنگ بھی ہو چکا تھا۔۔
سامنے سیاہ و سرخ بگھی لان کے درمیانی راستہ پر تیزی سے چلتی عین ان سیڑھیوں کے سامنے آ کر رکی تھی۔ سر اٹھا کر بگھی کو دیکھنے کے چکر میں میکا نے بے دھیانی میں سٹیپ کے کنارے پر سینڈل رکھا اور یکدم لڑکھڑا گئی۔
خود کو سنبھال کر سیدھے ہونے کی پوری کوشش کرتی وہ بازو فضا میں چلاتی رہی مگر ناکام ہو کر دھڑام سے گری اور بل کھاتی ہوئی بگھی سے پیر نکال کر اس سرخ روش پر قدم جماتے کنگ البان کے عین پیروں کے پاس جا کر سجدہ ریز ہوئی تھی۔ اس کا سر اتنا گھوم کر نیچے آنے پر بری طرح چکرانے لگا۔
اٹھنے کی کوشش میں پھر سے کراہ کر گر گئی، کنگ البان نے ماتھے پر بل ڈال کر اپنے قدموں میں مزے سے منہ کے بل سوتی اس عجیب لڑکی کو گھورا تھا۔ جھکنا اس کی شان نا تھی نا وہ ایسا مہربان تھا۔
اگر کوئی اسے اس وقت کہہ دیتا کہ اسے اس لڑکی کے اوپر سے گزرنا ہے تو وہ اس کے سر پر پیر رکھ کر بھی گزر جاتا۔ کچھ ایسا سنگدل سا تھا وہ۔۔
کنگ البان کے ماتھے پر بلوں کے اضافہ پر اور اس چھوٹی لڑکی کے سامنے پڑے رہنے پر بگھی بان پریشانی سے اس لڑکی کو دیکھنے لگا، دربانوں نے تیزی سے آگے بڑھ کر میکا کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تو اس کے بالوں کو جوڑے کی شکل میں سنبھالتی پرانی پن بھی ساتھ چھوڑتی دو حصوں میں بٹ کر زمین پر گر گئی اور اس کے سیاہ بال کھل کر چہرے کے گرد بکھر گئے، وہ پیروں میں پھنستے، اٹکتے گاؤن کو سنبھالتی ہلکان ہو رہی تھی۔
“معاف کیجیے گا میرا پیر۔۔ میرا مطلب یہ سینڈل۔۔ اوہ۔۔“ معذرت کے لیے الفاظ جوڑ توڑ کرتی میکا نے گاؤن ہٹا کر سینڈل سامنے کیا تو ٹھٹک گئی۔ ایک سینڈل ٹوٹ چکا تھا۔ اسے صدمہ لگا۔۔
”یہ ٹوٹ گیا۔۔ اوہ اوہ۔۔ یہ کیا ہو گیا۔۔“ وہ حواس باختہ سی اپنی اکلوتی نئی سینڈل ہاتھ میں لیے اس کا معائنہ کر رہی تھی۔ کنگ البان کی سرسری نظر اس کے بکھرے بالوں میں ادھ چھپے چہرے پر پڑی، تھمی اور پھر جمی رہ گئی۔۔
دربان میکا کو متوجہ کرنے کی کوشش میں دانت پیس رہے تھے اور وہ اپنی سلطنت کے مغرور بادشاہ کے سامنے کھڑی اپنی پرانی سینڈل کو رو رہی تھی۔
اس کی طرف بڑھتے دربان کو کنگ البان نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ احتراماً جھک کر پیچھے ہو گئے۔
البان نے ہاتھ بڑھا کر میکا کے چہرے سے بال ہٹائے اور اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ وہ اس حرکت پر چونک گئی۔ اس عرصہ میں نظر اٹھا کر پہلی بار سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھا۔
سفید چمکتی جلد اور دلکش نقوش کا مالک وہ اونچا چوڑا نہایت خوبصورت مرد تھا۔ آنکھوں میں آسمان جیسا نیلا رنگ چمک رہا تھا اور بالکل سیاہ چمکتے بال بکھرے ہوئے تھے۔۔ میکا نہیں جان پائی کہ وہ کِنگ البان ہے۔۔ ہاں مگر اسے شاہانہ مہنگے لباس اور اس کی خوبصورتی سے یہ اندازہ بخوبی ہو گیا تھا کہ وہ کسی شاہی گھرانے کا لڑکا ہے۔۔
”معاف کیجیے گا میں۔۔“ وہ جلدی سے سینڈل والا ہاتھ اپنی پشت کی طرف لے جا کر چھپاتی تھوڑا جھک کر بولنے لگی مگر البان نے ہاتھ میں سمٹے اس کے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے سر ہلا دیا۔
وہ جو غلطیوں پر سزائیں دینے کا عادی تھا، آج معذرت پوری ہونے سے پہلے معذرت قبول کر لی تھی۔
“Soulmate.. (سولمیٹ)
اس نے قدرے جھک کر اس چھوٹی لڑکی کے قریب ہو کر سرگوشی کی، میکا کی آنکھیں اس کے لفظ پر پوری سے زیادہ پھیل گئی تھیں۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑے ویمپائر پرنس کو تکنے لگی۔۔