Mere Mehrmah Complete Novel By Noor Bano
Book Name:
Mere MehrmahAuthor Name:
Noor BanoGenre:
Arrange Marriage, Cousin Marriage, Small Town Girl, Business Tycoon Boy, Love TriangleStatus:
Complete
Mere Mehrmah is a very famous novel by Noor Bano. Mere Mehrmah story is Based on a romance, thriller, abroad-based, a business tycoon hero, a town Girl, an Arrange marriage, a cousin’s marriage, family drama, and mystery.
Noor Bano is a very famous novelist. She wrote many novels on social and moral issues and romantic Urdu novels. Her novels are very famous on social media and among the young generation. MAere Mehrmah is one of Noor Bano’s most famous novels.
Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels, and don’t forget to give your feedback. Novels in Urdu promote new writers to write online and show their writing abilities and talent. We give a platform to new writers to write and show the power of their words.
give” نکلو میرے کمرے سے ” یہ کہتے ہوئے میر آہل نے ہینڈل نیچے کیا ہی تھا کہ اُسے زور کا جھٹکا لگا۔ کسی نے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کردیا تھا۔ اُس نے یقین دیہانی کرنے کے لئے ہینڈل کو سختی سے ایک بار پھر نیچے کیا مگر دروازہ نہیں کُھلا۔
اُس نے دانت پیستے ہوئے دروازے کو زور سے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور مُٹھی بھنجتے ہوئے ریما کو خون رنگ آنکھوں سے دیکھا۔
” بتاؤں کس مقصد سے آئی تھی یہاں تم ” وہ غصے سے چلایا تھا۔
” و ۔۔۔ و۔۔وہ میں ” ریما ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹی۔
دروازے کے پیچھے سے دبی دبی سی آوازیں ابھریں ۔۔۔ کسی نے ہینڈل نیچے کیا اور ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازہ کُھلا۔
” آئے میر صاحب آپ کو میری بات کا تو اعتبار نہیں تھا نہ تو اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اپنے پیارے بھتیجے کے کرتوت ” زلیخا دندناتے ہوئے کمرے میں ایسے داخل ہوئیں جیسے پولیس چور کو پکڑنے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ چھاپا مارتی ہے۔
” آپ بھی آنکھ کھول کر دیکھ لیں بی جان آپ کا پوتا شادی تو دل آویز سے کر رہا ہے مگر رات کے اس پہر میری بیٹی کو بھی ورغلا رہا ہے ” زلیخا نے کینہ توز نظروں سے بی جان کو دیکھا اور پھر ایک نظر پیچھے کھڑی دل آویز (جو مسلسل ڈوپٹے کے کونے کو مڑوڑ رہی تھی) کو دیکھا اور شیطانی سا مسکرائیں۔
” اور آپ سب چوروں کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں مگر میر صاحب اتنا یاد رکھیں کہ میں اپنی بیٹی کو اس طرح رُسوا نہیں ہونے دوں گی ” بس لمحے لگے تھے بی جان، میر خلیل اور میر آہل کو زلیخا کے ارادے سمجھنے میں میر آہل جو کھنچے ہوئے تاثرات لئے کھڑا تھا یکدم ڈھیلا پڑا اور بے نیازی سے کان کی لو مسلی۔
” تو آپ کیا چاہتی ہیں ؟ ” میر خلیل نے پرسکون انداز میں زلیخا سے استفسار کیا۔
میر آہل نے آئی بروز اچکائیں ۔۔۔ بی جان نے بھی رُخ موڑ کر میر خلیل کے چہرے کو ٹٹولا مگر وہاں ایک نرم سا تاسر تھا۔
” میں ۔۔۔ میر صاحب میں ایک ماں ہونے کی حیثیت سے یہ چاہتی ہوں کہ جو داغ ( نظر موڑ کر میر آہل کو دیکھا جو اب بلکل شانت اور بے نیاز سا نظر آرہا تھا ) آپ کے بھتیجے نے میری بیٹی پر لگایا ہے اُسے صاف بھی یہی کرے ” ڈوپٹے کے پللُو سے آنکھ کے کنارے کو رگڑتے ہوئے انہوں نے مظلومیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔
” داغ؟ “
” how dramatic …. Huhh “
ناخُن سے ٹھوڑی کھجاتے ہوئے آہل نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
” ہمممم ” میر خلیل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گہری سانس لی اور زلیخا کا سر سے لیکر پاؤں تک جائزہ لیا۔
” سہی کہہ رہی ہیں آپ زلیخا غلطی کی ہے تو خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا ” یہ سن کر زلیخا کے چہرے پر ایک دم فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
ریما نے حیرت سے باری باری زلیخا اور پھر میر خلیل کو دیکھا۔ دل آویز کی گرفت ڈوپٹے پر مزید گہری ہوئی اور بی جان ناسمجھی سے میر خلیل کو دیکھنے لگیں جیسے اپنی سماعتوں پر یقین نا آیا ہو۔
خاموش کمرے میں اچانک ” ٹھاں ” کی زور دار آواز گونجی اور ہر شے لمحے میں ویران ہو گئی۔
سب نے بے یقینی سے پہلے میر خلیل کو دیکھا جن کے تاثرات اب برفیلے ہوچُکے تھے۔ زلیخا نے سِسکتے ہوئے اپنے سُرخ ٹمٹماتے ہوئے گال پر ہاتھ رکھا جہاں میر خلیل کی انگلیوں کے نشان ثبت ہو چُکے تھے۔
بی جان نے ایک گہری سانس اندر کی جانب کھینچی جیسے درد میں اچانک کرار آگیا ہو۔
” Wow ! What a shot “
میر آہل نے ہونٹ دباتے ہوئے گردن مسلی جیسے چہرے پر آئی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا ہو۔
یہ تھپڑ کچھ سال پہلے مارا ہوتا تو آج حالات کچھ مختلف ہوتے۔ شادی والا گھر ہے۔ گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے اور آپ…؟ انہوں نے شرمندگی سے الفاظ ادھورے چھوڑ دئیے اور ایک ملامتی نظر زلیخا پر ڈالتے ہوئے کمرے سے فوراً باہر نکل گئے۔
زلیخا نے ندامت سے نظریں نیچے جھکاتے ہوئے چہرے پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور بنا کچھ کہے وہاں سے خاموشی سے چلی گئیں۔ سارا پلین چوپٹ ہوگیا تھا اور بیٹی کی رسوائی الگ۔
انہوں نے تو میر خلیل کی سہی رگ دبائی تھی پھر ایسا کیا تھا جو اس کا نشانہ چُوک گیا تھا۔ اب وہ کیسے گھر میں کسی سے نظریں ملاتی۔
” تمہیں الگ سے انویٹیشن دینا پڑے گا؟ ” میر آہل نے ریما کو گھورتے ہوئے کہا تو ریما بھی فوراً کمرے سے نو دو گیارہ ہوگئ۔
میر آہل نے رُخ بی جان کی جانب موڑا تو نظریں پھسل کر پیچھے دروازے پر کھڑی خاموش اور سہمی ہوئی لڑکی سے ٹکرائیں۔
دل آویز نے فوراً نظریں نیچے کی اور وہاں سے چلی گئی۔ اس خاموش کمرے میں اب بی جان اور میر آہل کے سوا دل آویز کی مہندی کی خوشبو باقی رہہ گئی تھی۔
” آہل پُتر مجھے تجھ سے کچھ بات کرنی ہے ” بی جان نے کندھے سے تھامتے ہوئے کہا۔
Mere Mehrmah Complete PDF Link 🔗
MediaFire Download Link
Direct Download Link