Ishq Barsar E Peekar Complete Novel By Rafia Sheikh
Book Name:
Ishq Barsar E PeekarAuthor Name:
Rafia SheikhGenre:
Turkish Man, Pakistani Girl, Force Marriage, Child Raped, Hate Turn into Love, Romantic NovelStatus:
Completed
وہ جب پارکنگ میں آئے تو مومن اپنی کار کی جانب بڑھ ہی رہا تھا دیکھا ریاح کی جانب ایک گاڑی تیزی سے آ رہی ہے۔۔ مومن نے فوراً سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ، ریاح پوری طرح اس کے سینے سے ٹکرا گئی تھی۔۔ ہوش میں آتے ہی ریاح نے اسے پوری قوت سے دھکا دیا۔۔
“سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔؟ بار بار چھونے کیوں آ جاتے ہو۔۔؟ گھن آتی ہے مجھے تمہارے لمس سے۔۔ دور رہا کرو مجھ سے۔۔” وہ آنکھوں میں آنسو لئے طیش سے لرزتی ہوئی کہہ رہی تھی۔۔
“ریاح اگر میں وقت پر نہ آتا تو وہ گاڑی تمہیں ہٹ کر دیتی۔۔” وہ سمجھاتے ہوئے بے بسی سے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔
“مر جانے دیتے ، تمہارے لمس سے اچھا ہے مجھے موت آ جائے۔۔” وہ با قاعدہ رو پڑی تھی۔۔ مومن نے اسے شوکڈ نظروں سے دیکھا ۔۔ کیا وہ اتنا گندہ اور برا انسان ہے جس کے چھونے سے زیادہ وہ مرنے کو اہمیت دیتی ہے۔۔؟
“اب رو کیوں رہی ہو۔۔؟ نہیں لگاتا میں تمہیں ہاتھ۔۔” وہ بولتے ہوئے سرینڈر کے انداز سے ہاتھوں کو اٹھائے کہہ رہا تھا ریاح کچھ بھی بولے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔ مومن نے جس کرب سے اس کے آنسو دیکھے تھے وہی جانتا تھا۔۔ واقعی پسندیدہ عورت کے آنسو عورت کی آنکھوں سے گرتے ہیں لیکن وہ آنسو رخساروں پر نہیں مرد کے دل پر گرتے ہیں۔۔ اسے ریاح حق نہیں دے رہی تھی ورنہ یہ قیمتی آنسو کبھی بے مول نہیں ہوتے ۔۔
ریاح گھر آتے ہی بنا اس کی جانب دیکھے روم میں بند ہو گئی تھی۔۔ نینی اپنے گھر جا چکی تھیں۔۔ سب کچھ اچھے سے صاف ستھرا کر کے گئی تھیں۔۔ ریاح نے آتے ہی ہیلز کہیں پھینکیں ، جیولری کہیں ، پرس کہیں ، اور ڈریس سمیت شاور کے نیچے بیٹھ گئی۔۔ اسے مومن کا لمس اب تک خود کے وجود پر محسوس ہو رہا تھا۔۔ وہ رگڑ رگڑ کر خود کو صاف کر رہی تھی۔۔ مومن ابھی تک ریاح کے گھر کے باہر ہی موجود تھا اسے لگ رہا تھا وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ اور پھر بے چینی سے ٹہلنے کے بعد نینی کے گھر پہنچ کر اتنی رات میں تنگ کرنے پر معذرت کرتے ریاح کے گھر کی چابی مانگ لی تھی۔۔ نینی نے پریشانی سے دے دی اور بار بار سوال پوچھتی رہیں جس پر مومن نے بس ریاح کی طبیعت خرابی کا بتا دیا تھا ۔۔
مومن چابی سے لاک کھول کر گھر کے اندر داخل ہوا اسے کہیں بھی ریاح دیکھائی نہیں دی ۔۔ وہ اس کے روم کی جانب آیا روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا چیزیں بکھری پڑی تھیں اور وہ دشمن جاں کمرے میں نہیں تھی۔۔ مومن واش روم کی جانب بڑھا وہاں سے کھلے دروازے کے پار کا منتظر دیکھ کر وہ سچ میں چکرا گیا تھا۔۔ ریاح بھیگتے ہوئے خود کو نوچ رہی تھی ۔۔ “ریاح ۔!” مومن صدمے سے چیختے ہوئے آگے بڑھا۔۔ “مجھے ہاتھ مت لگانا ۔” وہ زور سے چیخی تھی یخ بستہ سردی میں وہ ٹھنڈے پانی کے نیچے بیٹھی سردی سے کانپتے ہوئے اسے دھتکار رہی تھی۔۔ “نہیں لگاؤں گا ہاتھ کھڑی ہو جاؤ شاباش ۔” وہ بچوں کی طرح اسے پچکارتے ہوئے بول رہا تھا قدم اس سے دور ہی رکھے تھے ۔۔ کہیں وہ خود کو کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دے۔۔
“تم نے مجھے چھوا تھا دیکھو میں نے اپنا کیا حال کر لیا ہے۔۔” وہ سسکی بھرتے ہوئے سامنے کھڑے شخص سے مخاطب تھی وہ لب سئیے اس کی غیر ہوتی حالت دیکھتے ہوئے بھی کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔۔
“ریاح میری جان بس ایک بار میری بات مان لو!! چینج کرو پوری طرح بھیگ گئی ہو۔۔” وہ نرمی سے بولتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔ اور پھر ریاح کھڑی ہوئی مومن کے سامنے آئی اسے گریبان سے پکڑ کر مکے اس کے سینے پر برسانے لگی۔۔ “آج تمہاری وجہ سے میں ماضی میں دوبارہ جا چکی ہوں، تمہاری وجہ سے میں خود کو دوبارہ تکلیف دینے لگی ہوں صرف اور صرف تمہاری وجہ سے لفنگے۔۔” وہ اس حالت میں بھی اسے اپنا دیا گیا خطاب دینا نہیں بھولی تھی ۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ بے ہوش ہو کر مومن کی باہوں میں جھول گئی تھی ۔۔ مومن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے اسے گود میں اٹھا لے یا کچھ اور کرے پھر اس کے کپڑوں پر نظر پڑتے ہی مومن نے اسے باہوں میں بھر لیا۔۔ بیڈ پر لیٹا کر جھک کر اس کا ماتھا چیک کیا ہلکی ہلکی حرارت ہونے لگی تھی یعنی شدید بخار ہونے ہی والا تھا۔۔ اس کے گیلے کپڑوں کو پہلے تبدیل کرنا تھا ظاہر سی بات تھی یہ کام مومن نہیں کر سکتا تھا ورنہ ریاح اسے شوٹ کرنے میں ایک منٹ کی دیری نہیں لگاتی کچھ سوچتے ہوئے مومن نے نینی کو کال ملا کر مختصر سی کہانی بتائی اور ان کے آنے کا انتظار کرنے لگا البتہ ریاح کے سر کے پاس ہیٹر آن کر دیا تھا۔۔
نینی کو تمام باتیں سمجھا کر وہ کمرے سے باہر آ گیا جبکہ نینی نے ریاح کے کپڑے تبدیل کئے اور اسے جگانے کی کوشش کرنے لگیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو نینی کو ڈاکٹر کا مومن سے کہنا ہی پڑا۔۔
“ہمارے فیملی ڈاکٹر ہیں ذکاء انہیں میں کال کر کے بلاتی ہوں۔۔” نینی نے مومن کو بولتے ہوئے اپنے فون کی سکرین پر انگلیاں چلائیں ۔۔
“نینی آپ ذکاء ڈاکٹر کو نہ بلائیں میں کسی فی میل ڈاکٹر کو دیکھتا ہوں۔۔” مومن نے کہتے ہی اپنا موبائل نکال لیا جس پر نینی نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا پھر سمجھ کر مسکرا دیں۔۔ وہ ریاح کے مرد سے نفرت اور اپنی بے جا محبت کے پیشِ نظر کسی مرد کا سایہ ریاح پر برداشت کرنے کے حق میں نہیں تھا۔۔
نینی ریاح کے پاس بیٹھی ڈاکٹرنی کا انتظار کرنے لگیں ڈاکٹر کے آ جانے اور سمجھانے پر دوائی لکھ کر بس یہی بتایا گیا تھا وہ ڈپریشن کا شکار ہے۔۔ بخار مزید بڑھ گیا تھا ۔۔ نینی ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھیں مومن ڈاکٹرنی کو سی آف کر کے ریاح کی جانب بڑھا۔۔
“نینی میں آپ کو گھر ڈراپ کر دیتا ہوں اتنی رات میں آپ کو ڈسٹرب کیا اس کے لئے معذرت۔۔” وہ شرمندہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تو نینی نے اس کے سر پر چپت لگائی۔۔
“ریاح میری اپنی بچی ہے اس کے لئے مجھے تم کسی بھی وقت ڈسٹرب کر سکتے ہو۔۔ میں چلی جاتی ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے میرا بچہ ریاح کا بہت اچھے سے خیال رکھے گا۔۔” وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو مومن نے دل پر ہاتھ رکھ کر ان کی بات کو حکم مانا۔۔ نینی پھر چلی گئیں اور مومن ریاح کے پاس بیٹھے اس کی پٹیاں کرنے لگا۔۔ دو گھنٹے تک پٹیاں کرنے کے بعد بخار کچھ کم ہوا تھا۔۔ وہ ریاح کے نقوش کو دیکھتے ہوئے خود پر ضبط کر رہا تھا۔۔ نیلے ہونٹوں کو چھونے کی طلب شدت سے اسے محسوس ہو رہی تھی لیکن اس سے پہلے مومن بھول جاتا ریاح اس سے اور اس کے لمس سے کتنی نفرت کرتی ہے ریاح کی آنکھیں کھل گئیں۔۔
وہ چت لیٹی کمرے کو گھورتی رہی مومن اس کی جانب دیکھتے ہوئے خود کو حملوں کے لئے تیار کرنے لگا ۔۔
“تم ۔۔؟ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔؟” وہ چونکتے ہوئے اتنی رات گئے اسے اپنے سر پر بیٹھے پا کر حیرت زدہ رہ گئی تھی۔۔
“اگر میں نہیں آتا تو شاید کل صبح میرا بھی جنازہ پکا تھا۔۔” وہ بول کر ریاح پر چاہ کر بھی غصہ نہیں کر سکا۔۔
“تم۔۔ تم نے میرے کپڑے تبدیل کئے۔۔؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی۔۔؟” وہ آپے سے باہر ہوتی نقاہت کے باوجود اس پر جھپٹ پڑی تھی۔۔
“میں حق رکھتا ہوں ریاح ، میں شوہر ہوں تمہارا۔۔” وہ ریاح کے دونوں ہاتھ تھامے نرمی سے بولا تو ریاح کا غصہ اور بڑھا۔۔
“شوہر مائی فٹ۔۔!! تم نے میری اجازت کے بنا میرے کپڑے کیسے تبدیل کئے میں تمہیں زندہ زمین میں دفن کر دوں گی۔۔” وہ چیختے ہوئے بولی تو مومن نے لمبی سانس بھر کر اسے دیکھا۔۔
“فکر نہیں کرو ، سب حق رکھنے کے باوجود بھی تمہاری سوچ ، تمہارے جذبات کی مجھے زیادہ فکر تھی نینی کو بلایا تھا اس کام کے لئے۔۔” وہ سینے پر بازو باندھتے ہوئے بولا تو ریاح نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔ پھر پلٹ کر اپنا فون اٹھاتی نینی کو کال کرنے لگی۔۔ مومن اس کی اتنی بے اعتباری پر گونگ سا ہو گیا تھا۔۔ وہ ابھی تک اس کی محبت جان نہیں پائی تھی۔۔
Click on the Link Below to Read the Complete Novel 🔗
Read Complete YT Special Novel