Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
Wo Humsafar Tha by Yaman Eva
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط 14
یافث اپنی خالہ کے ساتھ رات کو دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتا رہا تھا۔ خالہ کے دونوں بچے عبیرہ، بلال جا کر کمرے میں سو چکے تھے۔ اوزگل کو بھی بےچینی سے پہلو بدلتا دیکھ کر یافث نے پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ اب خالہ بھانجا بار بار چائے کے کپ پیتے باتیں کرنے میں مگن تھے۔
”اوزگل کے ساتھ کیسی گزر رہی ہے؟ میں نے سنا تھا تم شادی سے انکار کرتے رہے ہو۔۔ تمہارے پاگل پن پر مجھے یقین نہیں آتا تھا۔ کیوں انکار کرتے تھے؟“ وہ رازداری سے پوچھتے ہوئے اسے خفگی سے گھور رہی تھیں۔ یافث نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
”غلط فہمی ہو گئی تھی، میں زرگل کو اوزگل سمجھتا رہا تھا۔ اب آپ مجھے پاگل سمجھیں گی مگر ایسا ہی ہے۔ لمبی کہانی ہے کیا بتاؤں، بس چھوڑیں۔“ وہ سر جھٹک کر بولا۔
”لمبی کہانی ہے تو سنا دو، میرے پاس بہت فرصت ہے۔“ خالہ اطمینان سے بیٹھتے ہوئے بولیں۔ یافث کے بار بار اپنے کمرے کی طرف دیکھنے پر شرارت سے مسکرائیں۔
”بس کر جاؤ مجنوں، تمہاری شادی کو سال ہو گیا ہے۔ اس عرصے میں دلہن پرانی ہو جاتی ہے، اب ایسے بار بار کمرے کی طرف دیکھنا بند کرو اور مجھے بتاؤ کیا غلط فہمی تھی جو اتنا پریشان کیا سب کو۔۔“ خالہ نے تجسس سے پوچھتے ہوئے اس کے بال بگاڑے۔
”ہماری شادی کو ایک سال ہو بھی گیا؟ مجھے تو لگتا ہے کل کی بات ہے۔ میرا تو دل ہی نہیں بھرا۔“ وہ مظلومیت سے بولتا ٹھنڈی آہ بھر گیا۔ اسے وہ میسر ہی نہیں تھی، پرانی کیسے ہوتی۔
”بےشرم انسان۔۔ پہلے انکار اور اب ایسی بےتابی۔۔“ اس کی خالہ سچائی سے بےخبر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگیں۔
”آپ کو پتا ہے میری اس غلط فہمی میں سب سے بڑا ہاتھ اسی محترمہ کا تھا جو اب اس بات پر مجھے اتنی باتیں سناتی ہے۔ آپ جانتی ہیں میں کم عمری سے سٹڈیز کے لیے حاذق لالا کے ساتھ شہر میں رہا ہوں۔ میرا بچپن بھی دونوں بھائیوں کے ساتھ گزرا ہے۔ میری ان دونوں سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔
زورک خان سے دوستی تھی ان کی، میرا تو کبھی کبھی سامنا ہوتا تھا۔ پھر اچانک مجھے پتا چلا اوزگل میری منگیتر ہے۔ ان سب کو چاہیے تھا دکھا کر اور ملوا کر بتاتے یہ ہے اوزگل اور یہ تمہاری منگیتر ہے۔ مجھے تو ان دونوں میں فرق کرنا ہی نہیں آتا تھا اوزگل کون ہے اور زرگل کون ہے۔“ یافث خان خفگی سے بول رہا تھا۔
”اوہ ہاں دونوں میں خطرناک حد تک مشابہت ہے مگر آنکھوں کا رنگ تو ایک بڑا فرق ہے۔۔“ خالہ نے افسوس سے کہا۔
”میں آنکھوں کے رنگ نہیں جانتا تھا۔ میں زیادہ تر شہر ہوتا تھا، حاذق لالا کی شادی پر میں پہلی بار اوزگل سے بات کرنے گیا تھا۔ زورک خان بھی تب جرمنی سے آیا تھا۔ میں وہاں پہنچا تو اوزگل اس سے ملتے ہوئے خود کو زرگل کہہ رہی تھی۔ اور ظاہر ہے زرگل کو میں نے اوزگل سمجھا۔۔
سنہری آنکھوں والی زرگل۔۔ وہ بہت روڈ اور عجیب ضدی نیچر کی ہے، ملازمین سے اس کا تذلیل آمیز رویہ، بات بات پر منہ بنانا اور لاڈ کے نام پر وہ اونچی آواز میں اکثر بڑوں سے بدتمیزی کر جاتی تھی۔ میں اسے اوزگل سمجھ کر پاگل ہوتا رہا، مجھے اس جیسی بیوی نہیں چاہیے تھی۔ صرف آنکھوں کے فرق سے کیا فرق پڑتا ہے خالہ۔۔
میں بھی نہیں پہچان سکا، یہ لوگ بھی تو اس سے نہیں ملواتے تھے۔ دونوں ساتھ ہی ہماری حویلی آتی تھیں، ساتھ رہتی تھیں۔ میں اسی کو منگیتر سمجھ کر غصہ ہوتا رہا۔“ یافث نے زرگل کی چالاکی چھپا لی۔ اسے بار بار اس کی حرکتوں کو کھولنا اچھا نہیں لگا تھا مگر اس کا غصہ اور الجھن اتنے عرصے بعد بھی قائم تھی۔
”تمہیں غلط فہمی تھی اور باقی سب سمجھ نہیں پا رہے تھے وجہ کیا ہے۔ تمہاری امو جان مجھے کال کر کے بتاتے ہوئے اتنی پریشان ہوتی تھیں کہ یافث کا دماغ ہل گیا ہے۔ اوزگل جیسی معصوم لڑکی کو انکار کر رہا ہے۔ اچھا یہ ہوا کہ شادی سے پہلے غلط فہمی دور ہو گئی۔“ وہ اپنی خالہ کی بات پر بےاختیار دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔
”یہ بہت چھوٹی سی غلط فہمی تھی جس کا مجھے خود یقین نہیں آتا۔ میری بیوی کو لگتا ہے میں جھوٹ بولتا ہوں۔ اب میرا سچ تو یہی ہے ورنہ مجھے اوزگل تو دل و جان سے قبول ہے۔“ وہ آواز اونچی کر چکا تھا۔ ارادتاً اوزگل کو اپنی باتیں سنانا چاہ رہا تھا۔
ویسے تو ان کے درمیان صرف اس کی پڑھائی مکمل ہونے تک فاصلہ رکھنے کی بات طے ہوئی تھی۔ اوزگل کبھی کبھی ناراضگی میں پرانی بات کر جاتی تھی مگر اب وجہ وہ نہیں رہی تھی۔ رہی بات تعلیم کی تو بی ایس کا ابھی پہلا سال پورا ہوا تھا اور شادی کو بھی سال ہو گیا تھا۔ اتنا لمبا انتظار۔۔۔ یافث اس عرصہ میں ایسے اجنبی بن کر نہیں رہ سکتا تھا۔
”اب تو سب ٹھیک ہے ناں؟“ خالہ نے پوچھا تو چونک کر سر ہلا گیا۔ کاش وہ انہیں بتائے سب ٹھیک ہو گیا تھا لیکن اسے اچھا بننے کا شوق ہوا، اس نے اپنی پسندیدہ بیوی کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہیرو بن کر وعدہ کر لیا اور اب اپنے ہی وعدے سے پیچھے ہٹنے کا دل چاہتا تھا۔
”آپ یہ بتائیں اب کیا پروگرام ہے؟ امو جان بتا رہی تھیں شاپنگ کرنی ہے۔ ایک دو دن رکیں گی؟“ یافث نے محفل ختم کرنے سے پہلے سوال کیا۔
”ہاں میں نے کسی کے لیے گفٹس ہی نہیں لیے، یہاں کی تیاری کر لی تھی لیکن بچوں کے ایگزامز ختم ہوئے تو تمہارے انکل بیمار ہو گئے، پھر ہماری فلائٹ کا وقت آ گیا۔ مجھے شاپنگ کا موقع نہیں ملا۔ اوزگل کو بھی شادی کا گفٹ دینا ہے۔ میرے بچوں کو آؤٹنگ بھی کرنی ہے۔
اگر تم ٹائم دے سکو تو اچھا ہے ورنہ کل حاذق اور واثق ملنے آئیں گے، واثق کہہ رہا تھا وہ مجھے شاپنگ بھی کروا دے گا۔“ وہ اسے تفصیل سے بتانے لگیں۔
”ڈونٹ وری میں خود لے جاؤں گا، شاپنگ بھی ہو جائے گی اور آؤٹنگ بھی۔۔ دو تین دن میرے پاس سٹے کریں پھر ایزی ہو کر چلی جانا۔۔“ وہ اطمینان سے بولتے ہوئے اٹھا۔ وہ بھی سر ہلا کر اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلی گئیں۔
یافث کمرے میں آیا تو سامنے اوزگل کو کتابوں سمیت نیند میں غرق دیکھ کر بےاختیار ہنسا۔ وہ کیا سوچ بیٹھا تھا۔ وہ اسے سنا رہا تھا کہ اسے محبت ہے، اسے لگا وہ اندر سے سن رہی ہو گی۔ کتنا پاگل تھا۔ وہ تو آدھی نیند بھی کر چکی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے سینے پر الٹی رکھی کتاب اٹھا کر بند کی۔
نوٹس، پین، بکس اور فائلز۔۔ سارا سامان بیڈ پر پھیلا ہوا تھا اور وہ بلینکٹ ٹانگوں پر ڈالے سو رہی تھی۔ وہ سارا سامان سمیٹ کر ٹیبل پر رکھ گیا۔ نائٹ بلب آن کر کے اپنی طرف لیٹا تو اوزگل کی تنگی کا خیال آیا۔ اس کی نازک کلائیوں کو ان بھاری کنگن سے آزاد کیا اور اس پر بلینکٹ ٹھیک کر کے سکون سے سو گیا۔
”ہم کل شہر جائیں گے، اپنا سامان پیک کر لو۔۔ چچا جان سے ملنے چلیں گے رات کو تو اپنی بکس اور ڈاکیومنٹس بھی لے لینا وہاں سے۔۔“ یافث نے آغا جان سے بات کر لی تھی۔ پڑھائی سے تو کسی کو مسئلہ نہیں تھا۔ پھر اوزگل کی خوشی بھی شامل تھی۔
”ٹھیک ہے، تھینک یو۔۔ میں جا کر لے آؤں گی اور۔۔ اوہ۔۔“ اوزگل خوش ہوئی، پھر پرجوش اور پھر ایک دم پریشانی سے سر پر ہاتھ مارا۔ یافث خان نے سوالیہ انداز میں ابرو چڑھائے۔
”میں حاذق لالا کا بیبی دیکھ کر جاؤں گی۔“ وہ پریشان ہوئی، حاذق کی بیوی ان دنوں حویلی آئی ہوئی تھی۔ ان کا بچہ ہونے والا تھا اور اوزگل بچوں کی بہت شوقین تھی۔ اس نے زیبا سے پہلے ہی بکنگ کروا لی تھی، دن کے تین چار گھنٹے بچہ صرف اس کے پاس ہو گا اور کوئی نہیں مانگے گا۔
”میں تو کہتا ہوں تم ہی رکھ لینا۔۔“ حاذق ہنستا رہا تھا اور یہاں اس کی تیاری ہو گئی تھی۔ دیکھے بغیر چلی جاتی اور ایڈمیشن ہو جاتا تو پھر مہمانوں کی طرح آکر دیکھتے ہی واپسی کرنی پڑتی۔۔
”تم ہر بار بچوں کے لیے حویلی میں رکو گی؟ پڑھائی کرنی ہے یا نہیں۔۔؟ حاذق لالا کے بعد تمہیں واثق لالا کے بچے دیکھنے ہوں گے۔“ یافث نے سینے پر بازو لپیٹے ہوئے اسے گھور کر دیکھا۔ اوزگل نے آنکھیں گھمائیں۔
”ہاں ہر بار آؤں گی، مجھے بچے پسند ہیں۔“ وہ اسے جتا رہی تھی۔ یافث اس کی بات پر بےاختیار اس کی جانب جھکتا اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا، اوزگل بوکھلا گئی۔
”بچے تو مجھے بھی برے نہیں لگتے، پھر کیا خیال ہے؟“ وہ ذومعنی انداز میں پوچھتا اوزگل کے چھکے چھڑا گیا۔ وہ سٹپٹا کر پیچھے ہوئی۔
”میں تیار ہوتی ہوں، آبا کی حویلی کب جائیں گے۔“ وہ کھڑی ہوتے ہوئے دور ہوتی بوکھلائی ہوئی سی بول رہی تھی۔ یافث اس کے چہرے پر پھیلی سرخی اور حواس باختگی پر نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے شوخی سے مسکرایا۔
”کیا ہوا، میرا مشورہ اچھا نہیں لگا؟ ان لوگوں کے بچے زیادہ وقت تو تمہارے پاس نہیں رہیں گے۔ میں آفر دے رہا ہوں، پوری کی پوری اونرشپ ہو گی۔ جیسے چاہو رکھو، جیسے اٹھاؤ۔۔ جیسے اور جتنی دیر سنبھالو، تمہاری مرضی۔۔ ہو سکتا ہے تمہارے جیسی گڑیا ہو، نیلی آنکھوں والی۔۔ پھر ہم اسے۔۔۔“ وہ بیڈ پر بیٹھتا اسے فرصت سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں کے بدلتے رنگ بتا رہے تھے اس کی نیت خراب ہو رہی ہے۔
”آپ جھوٹے انسان ہیں، ہمارے درمیان سٹڈیز پر بات ہوئی تھی۔ آپ کی نیت بدل گئی ہے۔“ اوزگل اس کی بات کاٹتے ہوئے صدمے سے چیخی۔
”ششش۔۔۔ چیخو نہیں مذاق کر رہا ہوں، ویسے مذاق کر تو نہیں رہا تھا لیکن تم یہی سمجھ لو۔۔“ وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر گیا۔ اوزگل تیزی سے ڈریسنگ روم میں غائب ہوئی۔
وہ لوگ ثمر خان کی حویلی پہنچے تو زرگل بھی آئی ہوئی تھی۔ یافث کو تو اس کے ہونے یا نا ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا مگر اوزگل اچھی خاصی پریشان ہو گئی تھی۔ بیگم ثمر نے بتایا زورک خان اسی صبح اسے دو دن کے لیے چھوڑ گیا تھا۔
ایک طرف یافث کے ساتھ بیگم ثمر اور ثمر خان بیٹھے تھے، ان سے کچھ دور دوسرے سٹنگ ایریا میں وہ دونوں بہنیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ اوزگل مہمانوں کی طرح بےآرام سی بیٹھی پہلو بدل رہی تھی۔ زرگل ٹیبل پر ٹانگیں رکھے مزے سے بیٹھی بڑے سے پیالے میں فروٹ چاٹ کھا رہی تھی۔
اوزگل کی ملازمہ کی بھی شادی ہو چکی تھی، روشنا اب بھی حویلی میں ہوتی تھی۔ زرگل کے آگے پیچھے گھومتی اس کی خدمت میں لگی ہوئی تھی۔ اوزگل نے چور نظروں سے بہن کو دیکھا۔ نا اس کے نخروں میں فرق آیا تھا نا شاہانہ مزاج میں۔۔ بس اوزگل ہی بدل گئی تھی۔ پہلے کی نسبت چپ چپ سی ہو گئی تھی۔
”یافث بتا رہا ہے تمہاری پڑھائی مکمل کروانا چاہتا ہے۔ کتنی پرواہ کرتا ہے ما شاءاللہ۔۔ اللہ کا شکر ہے دونوں داماد ہیرے ملے ہیں۔“ بیگم ثمر نے کچھ دیر اوزگل کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تو زرگل چونک گئی۔
”دونوں داماد؟ آپ بھول رہی ہیں میں یہاں کیوں آئی ہوں۔ میرے پیر میں موچ زورک خان کی وجہ سے آئی ہے۔ وہ اپنا ہر کام مجھ سے کرواتا ہے۔ رات کے دوسرے پہر حویلی پہنچا اور مجھے نیند سے جگا کر اس نے چائے کی فرمائش کر دی۔ میں نیند میں تھی اس لیے پیر مڑنے سے موچ آ گئی۔
مورے یا تو آپ کو اندازہ نہیں ہوتا یا آپ جان بوجھ کر مجھے احساس دلاتی ہیں کہ مجھے زورک خان نے بالکل ویسے رکھا ہوا ہے جیسے آپ دونوں چاہتے تھے۔ اسے بیوی ضرورت کے وقت ضرورت اور کام کے وقت ملازمہ لگتی ہے۔“ زرگل منہ پھٹ انداز میں بولی تو بیگم ثمر کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔ اوزگل بھی ہکا بکا رہ گئی تھی۔ یہ تو شکر تھا ثمر خان اور یافث دور بیٹھے تھے۔
”بہت بےشرمی دکھانے لگی ہو، شوہر کے بارے میں ایسی باتیں کون کرتا ہے۔ کیا وہ تمہیں مان اور عزت نہیں دیتا زر؟ ان کی حویلی میں ہمیشہ سے سب کام کرتے ہیں لیکن تم ایک چائے بنانے گئیں، پیر میں موچ پڑوا لی۔ وہ اتنی فکر کر رہا تھا، تمہیں کام سے بچانے کے لیے یہاں لے آیا۔۔“
بیگم ثمر نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ خفگی سے ناک چڑھا کر انہیں دیکھنے لگی۔ اوزگل بےیقینی سے زرگل کو دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ آج بھی وہیں کھڑی تھی؟ کیا اسے اب بھی زورک خان کی قدر نہیں ہوئی اور یہ غصہ یافث خان کو دیکھ کر کیوں امڈ آتا تھا۔ سامنے اس کی بہن تھی مگر شوہر پر ایسی نظر اوزگل سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
”میری ایک بات تم دونوں یاد رکھنا شوہر جب پرواہ کرے تو اس کی دل سے قدر کرنا، اسے احساس دلایا کرو کہ اس کا پرواہ کرنا تمہیں اچھا لگا ہے۔ اگر ایسے منہ بنا کر رکھو گی تو شوہر کے دل سے اپنی عزت ختم کر بیٹھو گی اور بےقدری کے بعد لوٹ کر یہاں بھی مت آنا۔۔“ بیگم ثمر دونوں سے کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔ زرگل بےزاری سے بڑبڑا رہی تھی۔
”یہ نصیحت خیر میرے لیے تھی، میں غصہ ہو جاتی ہوں مگر یہ بھی سچ ہے زورک خان کو مجھ سے بہت محبت ہے۔ حویلی آنے کے بعد اس کا بس نہیں چلتا بس مجھے اپنے سامنے بٹھائے رکھے۔۔ دیوانے ہوں تو ایسے۔۔ شادی کے بعد سے اس نے مجھے دور ہونے یا اداس رہنے کی مہلت نہیں دی۔ محبت کی یہی خاص بات ہے۔“ زرگل نخرے سے بولتی ترچھی نظروں سے اوزگل کو دیکھ رہی تھی۔
اوزگل کی نظریں یافث خان پر ٹکی تھیں، اگر محبت ایسی ہوتی ہے تو وہ کیوں اوزگل کے کہنے پر دور رہتا تھا۔ یوں جیسے موقع ہی مل گیا ہو۔۔ زبردستی تو دور حق بھی نہیں جتاتا تھا۔ وہ شرم سے پیچھے ہوتی تو وہ بھی دور ہو جاتا تھا۔ اس نے اوزگل کو اپنے قریب کیوں نہیں کیا۔۔۔؟ وہ سوچوں میں الجھی تھی۔
”ویسے ہماری شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا ہے، یافث خان تو تم سے جان چھڑوانے کی تیاریوں میں ہے۔ مجھے بھی شوق تھا لیکن ظاہر ہے شوہر کہاں برداشت کرتے ہیں بیوی ان کو چھوڑ کر کتابوں کو توجہ دے۔۔ زورک خان تو۔۔“ زرگل کچھ اور بھی بول رہی تھی، وہ یافث کو دیکھ کر چونک گئی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”اوز آؤ چلیں، نہیں چچا رک نہیں سکتا۔۔ میں مختصر سے وقت کے لیے آتا ہوں تو بس دل نہیں کرتا کہیں اور سٹے کروں۔“ وہ اوزگل کو پکارتے ہوئے ثمر خان سے رکنے کی درخواست پر معذرت کر رہا تھا۔ اوزگل اٹھ کر اس کے پاس گئی۔
”چلو ٹھیک ہے، تم نے دل خوش کر دیا ہے۔۔ ہماری اوزی تو پڑھائی کے لیے پاگل ہے۔ اب تو خوش ہو ناں؟“ ثمر خان تشکر بھرے لہجے میں بولتے ہوئے اوزگل کو اپنے حصار میں لے کر اس سے پوچھنے لگے۔ وہ جھینپ کر اثبات میں سر ہلا گئی۔ یافث مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
زرگل نے جلتی نظروں سے یافث خان کے پہلو میں کھڑی اوزگل کو دیکھا تھا۔ دراز قد یافث خان نے مردانہ شال کندھوں پر رکھی ہوئی تھی، شہابی رنگت اور وجاہت سے بھرپور۔۔ اوزگل کو لے کر وہاں سے جانے لگا تو نازک سی اوزگل اس کے پیچھے چلتی ہوئی زرگل کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی لگی تھی۔
یافث کی آنکھ کھلی تو سینے پر وزن سا محسوس ہوا، اس نے سر اٹھا کر نیم وا آنکھوں سے دیکھا۔ اوزگل مزے سے اس کے سینے پر سو رہی تھی۔ اس کی نیند اڑی تو احساسات جاگے، تب محسوس ہوا پوری رات اوزگل کے وزن تلے دبا اس کا بازو شل ہو رہا تھا۔ وہ شاید سردی لگنے کی وجہ سے اس کے حصار میں سمٹ آئی تھی یا پھر نیند میں ایسے ہی سونے کی عادت تھی۔
یافث خان کا دوسرا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ نیند میں ایسے ہی سونے کی عادی تھی اس لیے ہمیشہ یافث کے ساتھ ایک بیڈ پر سونے سے پرہیز کرتی تھی۔ وہ دونوں جب بھی حویلی جاتے تھے، اوزگل ہر بار صوفے پر قابض ہو جاتی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے ہٹا کر اسے دیکھنے لگا۔ نیند میں سرخ پڑتا چہرہ، بند آنکھیں اور ننھی سی ناک۔۔
اس کے ہونٹوں کا رنگ گلابی مائل تھا، یافث دلچسپی اور شوق سے اس کے نقوش کو دیکھتا جا رہا تھا۔ اچانک اوزگل کسمسا کر سر اٹھاتی چہرہ دوسری طرف کر گئی۔ پھر آنکھیں رگڑتے ہوئے مزید اس کے حصار میں سمٹ آئی۔ اب شاید اس کی آنکھ بھی کھل چکی تھی۔ وہ اطمینان سے اس کی حرکتیں دیکھتا رہا۔
اوزگل نے حواس جاگتے ہی اپنی پوزیشن دیکھی اور پھر گھبرا کر سر اٹھاتی یافث کو دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملیں تو اوزگل کا چہرہ تیزی سے شرم کی زیادتی سے سرخ ہوا۔ پورا وجود ایک دم سنسنا اٹھا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھتی گھبرا کر دور ہونے لگی جب یافث خان اس کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے اسے خود میں سمیٹتا دوسری طرف کروٹ بدل کر اسے اپنے پہلو میں لیٹا گیا۔
”مجھے جانے دیں، چھوڑیں۔۔“ وہ گھبرائی ہوئی سی اسے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ یافث نے مسکراتے ہوئے گھیرا مزید تنگ کرتے ہوئے اسے خود میں بھنچ لیا۔ اوزگل پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ دل سینے میں اتنا شور کر رہا تھا کہ اس کے پورے وجود میں ارتعاش پھیل گیا اور یہ لرزش، یہ دھڑکنوں کا شور یافث خان نے صاف محسوس کیا تھا۔
”ایسے کیسے جانے دوں، ہاں میں نے کہا تھا تمہاری اجازت کے بغیر تنگ نہیں کروں گا۔ مگر یہاں تمہاری مرضی اور تمہاری اجازت شامل تھی۔ تم نے میری نیند کا فائدہ اٹھایا ہے۔۔ میرے سینے پر سر رکھے سکون سے رات گزار چکی ہو اور اب مجھ سے چاہتی ہو تمہیں چھوڑ دوں؟“ یافث نے اس کی نیلی آنکھوں کو گھورا۔
”میں نیند میں تھی، میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔ ایسا نہیں کیا۔ میں تو نیند میں۔۔“ وہ صفائی دیتی شرم کی زیادتی سے سرتاپا سرخ ہو چکی تھی۔ وہ اسے پرشوق نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہی گہری بولتی آنکھیں۔۔
”تم نیند میں تھیں یا جاگی ہوئی۔۔ میرے جذبات تو جگا چکی ہو۔ اگر جانا ہے تو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔“ یافث اسے دھمکاتے دھمکاتے اس کی رونی صورت دیکھ کر رک گیا۔ اسے اس وقت اتنی شرم آ رہی تھی کہ یافث خان کے حصار میں پڑی بےجان ہو رہی تھی۔
”کیسے۔۔ کیا جرمانہ؟“ وہ خشک پڑتے لبوں پر زبان پھیرتی بمشکل اٹک اٹک کر بول پائی تھی۔ یافث خان کا جان لیوا حصار مزید تنگ پڑتا جا رہا تھا۔ انداز بتا رہا تھا سزا کے بغیر رہائی ناممکن ہے۔
”ایک کس دو۔۔ بس صرف ایک۔۔ دیکھ لو بہت شریف ہوں، تمہاری نیند میں تمہارے قریب آنے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔۔ اب بھی پوچھ رہا ہوں ورنہ اس وقت جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ اس لیے تم خود اجازت دے دو۔۔“ وہ اس سے اجازت مانگتا اپنی شرافت جتا رہا تھا۔
”چھوڑیں مجھے۔۔“ اوزگل تو اس کے مطالبے پر مچل اٹھی، اس کے حصار میں پر کٹے پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگی۔ یافث نے اس کے رخسار پر لب رکھے۔ اوزگل کو جیسے کسی نے جادو کی چھڑی سے ساکت کر دیا تھا۔ وہ اس کے لمس پر بالکل ساکت ہو گئی۔ وہ دور ہوا تو اسی کے حصار میں چہرہ چھپاتی روہانسی ہو گئی۔
”میری طرف دیکھو اوز۔۔ اچھا بات تو سنو۔۔“ وہ ہنسی دبائے نرمی سے اس کا سر سہلانے لگا۔ اوزگل کی آنکھیں تیزی سے بھیگتی جا رہی تھیں اور اگلے ہی لمحے وہ آواز دبائے بری طرح رو رہی تھی۔ یافث سٹپٹا گیا۔
”اوز میری بات سنو۔۔ ہوا کیا ہے، اس میں کون سی رونے والی بات ہے۔ میں نے ایسا بھی کیا کر دیا ہے اوز۔۔ تم نے تو مجھے بالکل ہی غیر سمجھ لیا ہے۔“ یافث خان پریشانی سے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اس کے سینے میں سمٹتی جا رہی تھی۔
”ٹھیک ہے میں اپنی اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔ مجھے حیرت ہے میں تمہیں اتنی آسانیاں دے رہا ہوں اور تم مجھے موقع دینے کی بجائے دور ہوتی جا رہی ہو۔۔ تم مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہو کہ تمہاری خواہش پوری کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔“ تھک کر وہ اس کا سر تھپتھپاتا معذرت کرنے لگا۔
سنجیدگی سے بولتا وہ پہلی بار اوزگل سے ناراض ہوا تھا، جواب نا ملنے پر ایک دم اس سے دور ہوتا اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھا، دروازے پر رک کر فکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بلینکٹ میں سمٹ کر پڑی چہرہ چھپائے بری طرح رو رہی تھی۔
یافث خفت زدہ سا واش روم میں بند ہو گیا۔ اوزگل کا رویہ اس کے اعصاب کو تھکانے لگا۔ وہ ایسے کیوں کرتی تھی جیسے وہ کوئی غیر ہو، جیسے وہ حق ہی نا رکھتا ہو۔۔ وہ اتنی چھوٹی سی حرکت پر ایسے ری ایکٹ کر کے اسے شرمندہ کر گئی تھی۔ یافث خان کو اب واقعی پچھتاوا ہونے لگا تھا۔
شاید فاصلے بڑھا کر وہ غلط کر بیٹھا تھا۔ اوزگل کم عمر لڑکی تھی، پہلے وہ ناراض تھی، جھجک کا شکار تھی۔ اس کے کچے ذہن پر اپنا نقش ثبت کرنے کی بجائے وہ اس سے دور رہا کیونکہ اسے ڈر تھا اس کے دماغ پر اس بات کا الٹا اثر نا پڑے، اس کی زبردستی اسے خوفزدہ نا کر دے۔
لیکن شاید وہ اسی چیز کی عادی ہو چکی تھی، اسی دوری کی، ان فاصلوں کی۔ شاید اسے عادت ہو چکی تھی۔ یافث کو یاد تھا شادی کے بعد جب وہ شہر آئی تھی، ان کے درمیان سب ٹھیک ہو رہا تھا۔ کیونکہ وہ نرمی اور سکون سے دوستی بڑھاتا اس کے قریب ہونا چاہتا تھا اور وہ یہی کر رہا تھا۔
جب ژالے کو ماں بننے کی خبر ملی تو دی جان اور خان بیگم کو اوزگل کی فکر ہونے لگی تھی۔ ژالے اور اوزگل ایک ساتھ رخصت ہو کر آئی تھیں۔ وہ ماں بننے والی تھی اور اوزگل سہاگن ہی نہیں لگتی تھی۔ خاندان میں بھی اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں پھیلنے لگی تھیں جس کی وجہ سے اوزگل پر دباؤ بڑھنے لگا تھا۔
مگر یافث خان نے سب کے درمیان سب اچھا دکھا کر ان افواہوں کو غلط ثابت کیا۔ اوزگل کو اس کے بعد دوبارہ کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی پڑھائی کے شوق کا احترام کیا گیا۔ دی جان بھی ان دونوں کی اولاد دیکھنے کی خواہش کو دل میں دبا گئی تھیں۔ اس دوران اوزگل اور زیادہ یافث پر انحصار کرنے لگی تھی۔
مگر اچانک وہ اپنے خول میں سمٹتی چلی گئی، پہلے ضرورت پڑنے پر اس سے رابطہ کر لیتی تھی پھر وہ رابطہ بند کر دیا اور یافث خان نے رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کا نمبر بلاک کر گئی۔ ناجانے کتنی بار دھمکا کر وہ نمبر ان بلاک کرواتا تھا اور اوزگل پھر سے بلاک کر دیتی تھی۔
کیا اوزگل کے دل میں اب اس کی محبت نہیں رہی یا اسے یہ رشتہ بوجھ لگنے لگا تھا؟ کیا وہ کسی اور کو پسند کرنے لگی تھی؟ یافث کے دماغ میں شک سر اٹھانے لگا۔ وہ بےبسی سے سر پکڑے شاور کے نیچے کھڑا رہا۔
باہر کمبل میں چہرہ چھپا کر پاگلوں کی طرح روتی اوزگل کی سماعت میں یافث خان کے جملے گونج رہے تھے۔
(میں نے اس شادی سے انکار کر دیا تھا اور اگر میں چاہتا تو حویلی کی روایات سے بھی لڑ جاتا اور اس رسم کو توڑ دیتا کہ منگنی کی نکاح جیسی حیثیت ہے۔ اور جب راستہ بدل لیتا تو مجھے فرق نا پڑتا لڑکی پر کیا گزرے گی لیکن آپ سب کی پریشانی دیکھ کر چپ ہوا تھا۔
مجھے رسم و رواج ناپسند تھے مگر آپ لوگوں سے محبت ہے۔ میں نے اوزگل سے آپ سب کی خاطر شادی کی ہے اور اب اسے قبول کرنے کے لیے پہلے اسے اپنے قابل بناؤں گا۔ اسے پڑھنے دیں تاکہ وہ یافث خان کی بیوی بننے کے قابل ہو۔ ابھی میں اسے بیوی کی حیثیت نہیں دے سکتا۔ نا میں اسے قبول کروں گا۔)
یافث خان کے یہ جملے اسے لہولہان کرتے تھے، کیا وہ اتنی ناکارہ تھی کہ یافث خان اسے اپنے قابل بنا کر قبول کرے گا۔ اسے لگا وہ اپنا شوق پورا کر رہی ہے۔ مگر وہ اس کے شوق کی آڑ میں اس کی تراش خراش کر رہا تھا۔
اوزگل کے دماغ پر یہ باتیں بہت اثر کرتی تھیں۔ اسے اتنا حق حاصل ہوتا تو طلاق لے لیتی اور یافث خان پر ثابت کر دیتی کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی جو اس کا اصل قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
زرگل کہتی تھی محبت کرتا ہو گا تو دور نہیں رہ پائے گا، دور رہتا ہے تو سمجھ جاؤ محبت ہی نہیں ہے۔ اسے بھی اب یہی لگتا تھا۔ محبت تو بس وہی تھی جو زرگل نے یافث خان سے کی تھی۔ جو اسے دیکھ کر آج بھی بےچین ہو جاتی تھی۔ یا پھر محبت وہ تھی جو زورک خان زرگل سے کرتا تھا۔
اوزگل کی محبت تو بہت پہلے مر گئی تھی اور یافث خان؟؟ وہ خود پسند مغرور انسان محبت کب کرتا تھا، وہ صرف دکھاوا کرتا تھا۔ اوزگل کو اس دکھاوے سے اب چڑ ہونے لگی تھی۔ وہ اس کی محبت چاہتی تھی، مگر اب وہ خواہش بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔
جاری ہے