Genre:
haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based
وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط چار
(یہ ناول لینے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ میری اپنی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل ہیں۔ پی ڈی ایف بنانے اور یوٹیوب پر ڈالنے سے پرہیز کریں 😡)
”تم دونوں مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟“ علیزے مسلسل ان دونوں کی نظریں خود پر جمی محسوس کر چکی تھی، اس لیے چونک کر سوال کیا۔
”کچھ نہیں، ہم خوش ہیں کہ تمہاری طبیعت سنبھل گئی۔ تمہیں اتنا تیز بخار تھا کہ ہم ڈر گئی تھیں۔ رات تو تمہارے سر پر بخار چڑھ گیا تھا شاید، اتنی عجیب باتیں کر رہی تھیں، بےمقصد سی۔۔
کبھی تم رونے لگتی تھیں، کبھی تم کہتی تھیں تمہیں واپس گھر جانا ہے۔ مت پوچھو ہمارا خوف سے برا حال تھا ہمیں لگا تمہارے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ شکر ہے اب تم ٹھیک ہو۔۔“
دابہ نے بتاتے ہوئے جھرجھری لی۔ خوشی بھی فکرمندی سے علیزے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ ندامت کا شکار ہوئی۔ ان دونوں نے اچھی خاصی پریشانی اٹھائی تھی۔
”میرے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا مگر مجھے کبھی کبھی ایسے ہی تیز بخار ہو جاتا ہے اور میں الٹا سیدھا بولتی ہوں۔ مجھے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔“ وہ شرمندگی سے بتا رہی تھی۔
”اگر سامنے والا اکڑو انسان، ڈاکٹر کو لا کر چیک اپ نا کرواتا تو ناجانے تمہاری حالت کب سنبھلتی۔ ہم تو کچھ کر ہی نہ پاتیں، بوکھلا گئی تھیں۔“ خوشنما کے بتانے پر علیزے نے چونک کر اسے دیکھا۔
”سامنے والا اکڑو؟ کون حمزہ؟“ علیزے سمجھ نہیں پائی۔
”حمزہ کا سر۔۔ یافث خان آیا تھا۔ تمہیں پتا ہے علیزے اس نے فوراً اپنے دوست ڈاکٹر کو بلا لیا۔ تمہارے لیے کھانے پینے کا اتنا سامان منگوایا اور میڈیسن بھی فوراً حمزہ سے منگوا کر دی۔۔“ دابہ کے بتانے پر وہ حیران ہوئی۔
”اور وہ تمہارے لیے کچھ زیادہ پریشان تھا۔ مطلب ہمدردی سے کہیں زیادہ۔۔ بار بار ماتھا مسلتا ایسے بےچین ہو رہا تھا جیسے تمہیں کچھ ہوا تو وہ برداشت نہیں کر پائے گا۔“ خوشی کا لہجہ پُرسوچ تھا۔
”ایسا کچھ نہیں ہے، تم دونوں کا دماغ خراب ہے۔ انسانیت کے ناطے کیا ہو گا۔ وہ کیوں میری فکر کرے گا۔“ علیزے بوکھلا گئی تھی۔ وہ دونوں کندھے اچکا گئیں۔ یعنی علیزے کچھ بھی کہتی مگر وہ دیکھ چکی تھیں۔
چائے کے گھونٹ بھرتی علیزے کا چہرہ سرخی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ اس کی فکر میں ہلکان ہوا تھا واقعی؟
وہ اس کا خیال رکھ رہا تھا؟ کیا وہ اس سے۔۔۔ وہ اس کے بعد مزید نہیں سوچ پائی، جلدی سے سر جھٹکا۔
نہیں۔۔ یہ یقیناً دابہ اور خوشی کو غلط فہمی ہوئی تھی۔
علیزے کی بیماری کا سن کر اگلے ہی دن اس کے گھر والے اسے لینے چلے آئے تھے۔ اس کے باپ کی علیزے کے لیے فکر اور پریشانی دابہ اور خوشی کو حیران کرتی تھی۔
وہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے تھی، جن کو سب چاہتے ہیں۔۔ نیلی آنکھوں والی حسین گڑیا۔۔ جس کے والدین بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے، دوستیں اور ہر وہ انسان جو اس سے ملتا تھا۔
انہیں حیرت کا جھٹکا تو تب لگا جب حمزہ کا سر علیزے کے باپ کے آنے کا سن کر باقاعدہ انہیں ملنے آیا تھا۔ ویسے تو وہ وہیں باہر کھڑے کھڑے ملا تھا۔ مگر اس کے لہجے میں ادب اور اپنائیت تھی۔
دابہ اور خوشی کی حیرت بڑھ چکی تھی۔ وہ چاہتا کیا تھا، اتنا واضح اظہار۔۔ علیزے کی فکر، اس کا خیال اور اس کے باپ سے ملنا۔ یہ سب انسانیت کیسے ہو سکتی تھی؟ ایسی ہمدردی انہوں نے پہلی بار دیکھی تھی۔
”یار یہ مزہ تو کچھ نہیں، سب اچھا ہے مگر میرا مشورہ سنو گے تو پاگل ہو جاؤ گے۔“ گاڑی پوری رفتار سے چلاتے نہایت بداحتیاطی سے موڑ کاٹتے ہوئے اس نے دوستوں کو مخاطب کیا۔
”او بھائی زندہ رہیں گے، تب ہی مشورہ سنیں گے۔۔ مارنے کے لیے لائے ہو کیا۔ گاڑی تمیز سے چلاؤ۔۔“ راحیل اس کی ریش ڈرائیونگ پر غصے سے چیخا۔ اس کی حالت پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔
”سچ میں یافث اس جگہ سے بھی زیادہ کہیں مزہ ہے تو لے چلو یار۔۔ پیپرز سے فری ہو کر بہت مستی کرنے کا موڈ ہے، میرا دماغ تو ایگزامز کی وجہ سے دہی بنا ہوا ہے۔ اب میں صرف سیر کرنا چاہتا ہوں۔“
مائر نے سر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر گاڑی کی تیز سپیڈ سے بےنیاز ہو کر ٹیک لگائی۔ یعنی اسے تو آج وہ اپنی بداحتیاطی سے مار بھی ڈالتا تو خیر تھی۔
”ایک جگہ ہے ناں! میری حویلی چلو، ہمارا علاقہ دیکھو گے تو تمہیں پتہ چلے گا نیچر اور بیوٹی کیا ہے۔ بہت سکون ہے وہاں، تم سب فریش ہو جاؤ گے۔“
اس نے یکدم گاڑی کو بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر دیکھا، خود کو بمشکل سنبھال کر سیٹ پر بیٹھے راحیل نے اسے زیرِ لب گالی سے نوازا جس پر اس کی مسکراہٹ بےساختہ تھی۔۔ البتہ مائر پرجوش سا آگے ہوا۔
”ارے! تو نے آج پہلی بار اپنی حویلی کی دعوت دی ہے، ہم تو ترس گئے تھے تو کب ہمیں مہمان نوازی کا شرف بخشے گا۔ ابھی لے چلو۔۔“ وہ جوشیلے لہجے میں بولا۔
”لے جاؤ، میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں۔ سر چکرا رہا ہے۔ بہت ایڈونچر کر لیا اگلی بار اکیلے میں ایسی مستی کرنا، گاڑی کو بائک کی طرح اڑا رہے ہو۔“ راحیل ابھی تک بھڑکا ہوا تھا۔ وہ ہنسنے لگا۔
”تو پھر کل تک اپنی پیکنگ کر لو، ہم کل صبح آٹھ بجے حویلی کی طرف نکل رہے ہیں۔۔ ایک ویک کا سٹے ہے کوئی جلدی نا مچائے۔ کیونکہ میرے لالا کی شادی ہے اور تم دونوں بھی انوائیٹڈ ہو۔“ اس نے باقاعدہ اعلان کیا۔
”خبیث انسان۔۔ شادی کے بلاوے ایسے دئیے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا تو ایک دن پہلے لے جا رہے ہو۔۔ تم جیسا بدسلوک انسان کبھی کسی لڑکی کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے گا۔“ مائر نے اس کی گردن دبوچی۔
”اور اگر کل بھی ایسی ڈرائیونگ کرنے کا ارادہ ہے تو میری طرف سے سوری، ایسی شادی کا کیا فائدہ جس میں میری لاش پہنچ رہی ہو۔۔“ راحیل نے گاڑی رکتے ہی ڈور کھولا اور اترتے ہوئے خفگی سے کہا۔
”اچھا نیکسٹ ٹائم ایسے گاڑی نہیں چلاؤں گا۔ بلکہ کل بہت احتیاط سے لے جاؤں گا، انکار مت کرنا۔۔ راحیل سنو تو سہی۔۔“ اس نے دوست کو پکارتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
”مرے گا بچہ، دل کا بہت چھوٹا ہے۔۔“ مائر بھی گاڑی سے اتر کر ہنس رہا تھا۔ یافث نے مسکرا کر راحیل سے معذرت کی اور انہیں تیار رہنے کا بول کر گاڑی میں بیٹھتا آگے بڑھا تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔
دی جان کا نمبر دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کال اٹینڈ کی اور سیل کان سے لگایا اس سے پہلے کہ وہ بولتا سپیکر سے نسوانی باریک آواز ابھری، وہ ٹھٹک گیا۔
”ہیلو السلام علیکم۔۔“ کافی چہکتی ہوئی آواز تھی۔ یکدم اس کا پیر بریک پر پڑا۔ جبڑے بھنچ گئے۔
”کیا ہوا، آپ ٹھیک تو ہیں؟“ گاڑی کے ٹائر چرچرانے کی آواز پر وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔ اس کے سوال پر اس نے لب بھینچے۔ وہ پہچان چکا تھا کہ دی جان کے نمبر پر کون ہو سکتا ہے۔
”میں ٹھیک، فرمائیے۔۔؟“ اس نے خود کو نارمل رکھا مگر لہجے میں خاص تکلف اور سرد پن تھا۔
”دی جان کہہ رہی ہیں، آپ نے شادی کے لیے واپس آنا ہے تو ایک چکر بازار کا لگا لیں، انہوں نے شہر سے کچھ سامان منگوانا تھا۔ میں آپ کو بتاتی جاؤں گی، آپ نوٹ کرتے جائیں۔“
وہ استحقاق سے بول رہی تھی، اس کے لہجے کا سرد پن بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ یافث کا خون کھول اٹھا۔ اس نے بےاختیار سختی سے اسے ٹوکا۔
”دی جان خود کہاں ہیں؟ تم کیوں میسنجر بنی ہوئی ہو۔۔“ اس کے سخت استفسار پر وہ یکدم چپ ہوئی۔
”آئم سوری۔۔ ایک منٹ۔۔“ اس نے معذرت کی تو اس بار اس کا لہجہ مدھم تھا مگر یافث نے توجہ نہیں دی۔
”دی جان! یہ لیں خود بات کریں، ان خان صاحب کو اچھا نہیں لگ رہا میرا بات کرنا۔۔“ وہ دوسری طرف دی جان سے بول رہی تھی، وہ اسے سن کر دانت کچکچا گیا۔
”تم بتا دو بچہ، بس سامان ہی تو بتانا ہے۔ یافث کیوں بگڑ رہا ہے۔“ دی جان کی نڈھال آواز پر وہ بےچین ہوا۔
”ہیلو ہیلو! دی جان کو کیا ہوا ہے؟ دی جان؟“ وہ بےتابی سے بولا۔ دی جان میں تو اس کی جان بستی تھی۔
”دی جان وہ آپ کا پوچھ رہے ہیں، انہیں خود ہی بتا دیں کہ آپ کو بہت بخار ہے، آپ ٹھیک ہو کر بات کر لیں گی۔ میری آواز سن کر تو بھڑک جاتے ہیں خان صاحب۔۔“ اس کی نخریلی آواز سپیکر سے ابھری۔
پھر غالباً وہ موبائل دی جان کے پاس رکھ کر چلی گئی تھی۔ انہوں نے جیسے تیسے تھوڑی بات کی اور کال کاٹ دی۔ اُس پل اُسے، اُس محترمہ پر اتنا شدید غصہ آیا تھا کہ وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
ذرا سی بات پر اتنی اکڑ اور نخرہ؟ کیا جان بوجھ کر ایسا کر رہی تھی یا وہ تھی ہی ایسی۔۔ وہ اس کے دل سے ہر دن اترتی چلی جا رہی تھی۔ وہ سٹیرنگ پر ہاتھ مارتا غصہ ضبط کرتا رہ گیا۔
“سارا غرور اور اکڑ پن ختم کر دوں گا تمہارا، روؤ گی پوری زندگی۔۔ اگر تم میری زندگی میں شامل ہوئی تو کہیں کی نہیں رہو گی۔“ وہ غصے سے بڑبڑاتا جا رہا تھا۔
ارادے باندھتا وہ اسے زلیل کرنے کا سوچ چکا تھا۔
سنگیت کا فنگشن چل رہا تھا، حاذق نے ایک ترچھی نظر چھوٹے بھائی پر ڈالی۔ اس کے دوست پورے زوق و شوق سے انجوائے کر رہے تھے مگر خان یافث اس وقت بھی سنجیدہ گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔ مزاج بری طرح بگڑا ہوا تھا۔
شادی کے لیے آئے سب رشتہ داروں نے حیرت ظاہر کی تھی کہ آخر یافث خان جیسے شوخ مزاج انسان کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ تو زندہ دل انسان تھا، ہر ایک سے ملتا قہقہے لگاتا تھا۔ دوست تو اس کے اب بھی ویسے تھے۔
”یافث کیوں موڈ آف کیا ہوا ہے۔ انجوائے کرو یار۔۔“ حازق خان نے اس کے کندھے تھپتھپا کر کہا تو وہ منہ بنا گیا۔
”حویلی میں اندر جانے کا دل نہیں چاہتا اب۔۔ وہ پوری حویلی میں دندناتی پھرتی ہے۔ بہت بدتمیز ہے۔ میرے گھر والوں پر قابض ہو چکی ہے۔“ یافث بےزار ہو رہا تھا۔ حازق نے بےبسی سے اسے دیکھا۔
”فکر مت کرو، فی الحال تو منگنی ٹل گئی۔۔ اسی لیے آغا جان کو روکا ہے کہ تم شادی کو انجوائے کر سکو۔۔ دوستوں کو لے آئے ہو اب منہ بنا کر بیٹھے ہو۔
اچھا نہیں لگتا یافث خان، تم اتنے برے مہمان نواز تو کبھی نہیں تھے۔ اپنی سوچوں کو دفع کرو۔۔“ حازق کے سمجھانے پر وہ سر ہلا گیا اور گہرا سانس بھر کر چہرے پر بشاشت طاری کرتا دوستوں کے پاس چلا گیا۔
باقی شادی وہ دوستوں کے ساتھ ہی رہا تھا۔ زنان خانے میں بلاوے پر ہی جاتا تھا اور فوری لوٹ آتا تھا۔ اس کے برعکس زورک خان شادی کو بھی بھرپور انجوائے کر رہا تھا اور خوش بھی بہت تھا۔
یافث کو اس پر رشک آتا تھا۔ خوش نصیب تھا جس کی منگیتر اس قابل تھی کہ اسے چاہا جائے اور زورک کی زندگی میں رونق بھر دینے والی تھی۔ وہ کیسے خوش نا ہوتا، وہ اپنی منگیتر سے محبت جو کرتا تھا۔
علیزے ایک ہفتہ لگا کر واپس آ چکی تھی، اس کی صحت بھی کافی بہتر لگ رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ شاید پورے گھرانے نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اس لیے اتنی تازہ دم تھی۔
”علیزے اب کیسی ہو؟“ دابہ نے اس سے ملتے ہی پہلا سوال کیا۔
”میں ٹھیک ہوں اب۔۔ تمہارے سامنے ہوں۔“ وہ مسکرا کر بازو پھیلاتے ہوئے بولی۔
”پورا ہفتہ لگا کر آئی ہو اپنے گھر، اب تو ٹھیک ہونا بنتا ہے۔۔ کیا تم گھر کی چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہو؟ تمہارے بابا کا بس نہیں چل رہا تھا تمہیں بچوں کی طرح اٹھا کر لے جائیں۔“ خوشنما نے اس کا بھر پور جائزہ لے کر ایسے انداز سے کہا کہ وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”ہاں وہ کہتے ہیں میں ان کے لیے آج بھی وہی چھوٹی سی بچی ہوں۔ جو چھوٹی چھوٹی بات پر روتے ہوئے ان کی گود میں چڑھ کر بیٹھ جاتی تھی۔ بچے تو سب لاڈلے ہوتے ہیں۔ شاید میں بھی ہوں۔
میں اپنے چچا کی لاڈلی ہوں، اپنی مدر کی لاڈلی ہوں۔ سب پیار کرتے ہیں۔ لاڈ کیا ہوتا ہے۔“ علیزے اپنا سامان کھولتے ہوئے بتا رہی تھی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی گھر سے اسے ڈھیروں سامان کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔
”تم نے تو مزے کیے اور یہاں ہم تمہارے بغیر اداس ہو گئی تھیں۔ چپ رہتی ہو لیکن رونق سی رہتی ہے۔ ہم نے بہت مس کیا تمہیں ان دنوں۔۔“
دابہ اس کے گرد بازو پھیلاتی اس کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی۔ علیزے نے مسکراتے ہوئے نرمی سے دابہ کا سر تھپکا۔ خوشی بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں نے بھی مس کیا تم دونوں کو۔۔ میں ٹھیک تو ہو گئی تھی بٹ میرے پیرنٹس نے نہیں آنے نہیں دیا۔ جب تک میں نے ہاتھ نہیں جوڑ دئیے، میرے فادر تو کہتے تھے بس پڑھائی چھوڑو، گھر میں رہو۔۔“
وہ ہنستے ہوئے بتا رہی تھی۔ دابہ نے گہرا سانس بھر کر خوشنما کو دیکھا جو چمکتی آنکھوں سے موبائل پر آیا میسج پڑھ رہی تھی۔ لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ بکھری تھی۔
”تمہارے جانے کے بعد خوشنما ہر وقت اپنے کزن کے ساتھ لگی رہتی تھی، جس سے اس کی منگنی ایک ماہ بعد ہونے والی ہے مگر محبت تو ابھی سے امڈ رہی ہے۔ اور میں ٹھہری شدید کنواری۔۔“ دابہ نے مظلومیت کی حد کر دی، خوشی چیخ اٹھی۔
”واٹ؟ دابہ، جھوٹی لڑکی۔۔ میں تمام وقت تمہارے ساتھ بیٹھی رہتی تھی، اس بیچارے کو تو صرف رات کو ایک گھنٹہ دیتی تھی، ناراض ہو رہا تھا آج بھی کہ اکتاتی جا رہی ہو مجھ سے۔۔“ اس کے خفگی بھرے انداز پر دابہ اور علیزے قہقہہ لگا کر ہنسیں۔
”میں اور علیزے ابھی تک سنگل ہیں۔ لیزے کو فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے اب نہیں رہنا سنگل۔۔ میں اکیلی نہیں وہ سکتی۔“ دابہ نے احتجاج کیا۔
”تو چلو پھر دابہ کا بھی منگیتر ڈھونڈتے ہیں تاکہ نیکسٹ ٹائم جب میں جاؤں تو دونوں خوش اور مصروف رہو گی۔۔“ علیزے ہمدردی بھرے لہجے میں بولی۔
”ایک ہینڈسم ہیرو نظر میں تو آیا ہے۔ واہ کیا گڈ لُک اور ویل ڈریسڈ تھا پر وہ بھی تم پہ فدا ہوتا لگا مجھے تو۔۔ اتنا اچھا ہے لیکن آہ۔۔“ دابہ کی بات پر وہ ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی۔
”کون؟ کس کا کہہ رہی ہو تم؟“ علیزے نے پریشانی سے سوال کیا۔ خوشنما نے لاپروائی سے سر جھٹک دیا۔
”ہاں اس نے میرے ساتھ بھی شئیر کیا، یہ جو سامنے فلیٹ میں اکڑو صاحب رہتے ہیں۔۔ حمزہ کا سر جو اس روز کافی پریشان لگ رہا تھا تمہارے لیے۔۔ کیسے فوری ڈاکٹر بلایا۔
اسی وقت ڈاکٹر کی بتائی میڈیسن فوراً حمزہ کو بھیج کر منگوائی اور جب تمہارے فادر آئے، ان سے بھی ملا اور سچ تمہاری فیملی کو کس نے بتایا کہ تم بیمار ہو؟ تم نے تو کال پر چھپا لیا تھا۔“
یافث خان کا زکر کرتے کرتے خوشنما کو اچانک خیال آیا تو شک بھری نظروں سے علیزے کو دیکھنے لگی جیسے اس کا خفیہ جاسوس ڈھونڈنا چاہتی ہو۔
”میں نے خود بعد میں کال کی تھی، میں اپ سیٹ ہو جاتی ہوں بیماری میں۔۔“ علیزے گھبرائی ہوئی سی بولی۔ نجانے وہ لوگ کیا سمجھ رہی تھیں۔ ہر وقت یافث خان کا زکر۔۔ کیا اتنی فکر کر رہا تھا وہ؟
”خوشنما، رودابہ۔۔ دیکھو میں ایک بار کلئیر کر دوں، وہ اچھا انسان لگتا ہے۔ ہم تینوں اکیلی لڑکیاں ہیں تو یہ سب اس نے انسانیت کے ناطے کیا ہو گا، حمزہ بھی تو تم دونوں کا ایسے خیال رکھتا ہے۔“ وہ ان دونوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتی تھی۔
”اوہ ہاں! اس کا انداز تو نارمل تھا بٹ انسانیت کے ناطے اتنا کچھ؟ حمز کو تو بلاتے بلاتے گلا بیٹھ جاتا ہے پھر سامان لاتا ہے۔ وہ بھی ایک دن میں ایک بار۔۔“ دابہ کی سوئی اٹکی ہوئی تھی۔
”افوہ دابہ! اس نے کون سا میلوں بھاگ دوڑ کی یا رونا دھونا مچایا، کھڑے کھڑے سب کالز پر تو کیا تھا۔ اتنا تو کر سکتا تھا۔ پیسے والا ہے پیسے لگانے سے کیوں جھجک ہوتی۔۔“ خوشنما نے دابہ کو بےزاری سے ٹوکا-
”او۔کے چھوڑو یہ بات، بندہ اچھا ہے۔۔ ویسے لفٹ نہیں کرواتا لیکن مشکل کے وقت کام تو آیا، یہ الگ بات ہے مشکل علیزے کی تھی، ناجانے ہماری تکلیف پر اس کا ری ایکشن نجانے کیا ہو گا۔۔
مجھے تو اچھا لگا، ہائے زرا مسکرا کر کسی دن دیکھے، میں تو پرپوز کر دوں گی موقع پر ہی۔۔“ دابہ کی بات پر دونوں نے سر ہاتھوں پر گرا لیے، اب بھلا رودابہ اتنی آسانی سے ماننے والی تھی۔
”السلام علیکم! آغا جان۔۔“ وہ آ کر باپ کے سامنے جھکا۔ انہوں نے بےاختیار اس کا چہرہ تھام لیا۔
”وعلیکم السلام! میں کل سے انتظار کر رہا تھا تمہارا۔۔ شادی کے بعد جو گئے تو بلانا پڑا، اب آئے ہو۔۔“ اس کی فراخ پیشانی پر بوسہ دے کر وہ خفگی سے بولے۔
”معذرت خواہ ہوں آغا جان کل کچھ کام تھا۔ اسی مصروفیت میں نہیں آ سکا، مجھے دادا ماموں کی موت کا بہت افسوس ہے، دی جان کے پاس آیا تھا۔ اداس ہوں گی وہ بہت۔۔“ وہ افسردگی سے بولا۔
”اوہ! ہاں، ابھی تو زرگل اور اوز اپنی کچھ دوستوں کے ہمراہ ان کے پاس بیٹھی ہیں۔۔ تمہیں اپنی دی جان کا پتا ہے وہ بہت مضبوط ہیں۔“ وہ جو اٹھنے کا سوچ رہا تھا، ڈھیلا ہو کر بیٹھ گیا۔
”یہ لوگ پہلے ایک ہفتے سے کہاں سوئی ہوئی تھیں؟ جب حویلی آتا ہوں ان کی محفل سجی ہوتی ہے۔“ وہ بےزار ہوا، نمبر ملاتے آغا جان اس کے لہجے پر چونک کر اسے دیکھنے لگے۔
”بچیاں کبھی کبھی آتی ہیں، ہر وقت تو نہیں آئی ہوتیں۔ ان کی دوستیں آج آنا چاہتی تھیں تو آج لے آئیں، ہر کوئی اپنی سہولت دیکھتا ہے۔“ وہ نرمی سے بولے۔
”جی کیوں نہیں۔۔ میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا۔“ وہ سنبھل کر بیٹھا۔ اپنے بےزار لہجے کا اسے خود بھی اندازہ ہو گیا تھا۔
”آرام سے بات کیا کرو میرے بچے، ایک تو وہ دونوں کزنز بھی ہیں تمہاری اور پھر جلد دوسرا رشتہ بھی قائم ہو جائے گا۔ اپنوں سے ایسا رویہ کون رکھتا ہے خان۔۔“ انہوں نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے گویا جتایا تھا۔ وہ بری طرح ٹھٹکا۔
”دوسرا رشتہ؟ آغا جان آپ کیا بات کر رہے ہیں۔“ اس نے سوالیہ نظروں سے باپ کو دیکھا اور وہ جو اس کے مسلسل انکار پر گھبرائے ہوئے تھے، اس کی ناسمجھی دیکھی تو بےچین ہو گئے۔
”خان اس میں نا سمجھنے والی کیا بات ہے؟ ایسے کیوں ظاہر کر رہے ہو جیسے انوکھی بات کر دی ہو، تم جانتے ہو ان میں سے ایک تمہاری ہونے والی بیوی بھی ہے۔ لڑکیوں سے یہ رشتے اور بات چھپائی گئی ہے۔
وہ نہیں جانتی تھیں اور نا ہم چاہتے تھے ان کے معصوم زہن پر کوئی برا اثر پڑے۔ انہیں اب پتا چلا ہے مگر تم لڑکوں کو تو شروع دن سے پتا تھا۔ اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لو۔۔“ آغا جان کی بات پر اسے جھٹکا لگا تھا۔
”آغا جان آپ نے کہا تھا کہ آپ منگنی نکاح وغیرہ نہیں کر رہے ابھی۔۔ اب اچانک کیوں۔۔“ وہ ضبط کر گیا، ورنہ اپنے بال کھینچنے کا جی چاہ رہا تھا۔ چار دن سکون سے نہیں گزرے تھے کہ پھر سے وہی بات آ گئی تھی۔
”ہاں تو باقاعدہ منگنی یا نکاح نہیں کیا۔ تم نہیں چاہتے تھے اس لیے چپ ہو گیا لیکن خاندانوں میں بات طے ہوئی ہے۔ زبان دئیے بیٹھا ہوں۔
اور یہ رشتہ تو جوڑا بھی میں نے تھا، میری خوشی تھی اور میرے کہنے پر بات ہوئی۔ جب کہوں گا شادی بھی ہو جائے گی۔ تم کیا سمجھ بیٹھے؟ اپنی زبان سے کہہ کر مُکر جاؤں گا؟“
وہ بغور اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہے تھے اور اس بات پر یافث خان کی بےچینی کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔ ان کا دل پریشان ہونے لگا۔ وہ لاڈلا اور ضدی تھا، اس پر جبر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
”آغا جان پلیز۔۔ مجھے وہ نہیں پسند، بالکل نہیں پسند۔۔ آپ کو رشتہ کرتے ہوئے سوچنا تو چاہیے تھا بڑے ہو کر وہ مجھے اچھی لگتی بھی ہے یا نہیں، اسے میں پسند آتا ہوں یا نہیں۔۔
ایسے کیوں بات طے کر دی، اور میں نافرمان نہیں ہوں۔ آج بھی آپ کو حق دے رہا ہوں آپ جہاں بھی چاہیں میرا رشتہ کر دیں۔ لیکن وہاں انکار کر دیں پلیز۔۔“ وہ جو اتنے دنوں سے ہلکا پھلکا ہو گیا تھا یکدم اس کا دل بوجھل ہو گیا تھا۔
”دیکھو خان زادہ! آج ایک بات غور سے سن لو اور اپنے دماغ میں بٹھا لو۔۔ میں پھر سے بتا رہا ہوں اس رشتے کا میں نے خود اپنے بھائی سے کہا تھا، وہ بھی تب جب پہلی بار میری گود میں آئی تھی۔
میں نے تب اس گڑیا کو تمہارے نام کر دیا تھا، میرے کہنے پر اس کے ماں باپ نے سر جھکایا، دوسری کا رشتہ تو بعد میں ہوا۔ پیدا ہوئی بچی کو اپنی حویلی کی رونق بنانے کا بولا تھا۔
آج وہ جوان ہوئی ہے تو انکار کر دوں؟ پورا خاندان جانتا ہے وہ تمہارے نام ہے۔ کون اس کا رشتہ مانگے گا۔ میں کیسے انکار کروں گا، مجھے تو وہ آج بھی پیاری ہے۔ ان کے ماموں نے بھی تب ہی رشتہ کیا تھا۔
وہ آج تک اپنی بات پر قائم ہیں، زورک خان کے آتے ہی انہوں نے بات کر دی کہ جب ارادہ بنے وہ رخصتی کریں گے۔ میرا بھائی اب میری طرف دیکھ رہا ہے اور میں تمہاری وجہ سے چپ بیٹھا ہوں۔
کبھی وقت مانگتا ہوں، کبھی نکاح سے انکار کرتا ہوں۔ مجھے اس عمر میں بےعزت مت کرواؤ، تم انوکھے نہیں جس کا پہلے سے رشتہ ہوا، سب کے ایسے بچپن میں ہوتے ہیں اور سب دل سے قبول کرتے ہیں۔“ وہ بہت نرم مگر دو ٹوک لہجے میں بول رہے تھے۔
”آغا جان مجھے بتائیں کیا کروں، دل نہیں مان رہا۔ پوری زندگی کا سوال ہے۔ اسے شادی کے بعد توجہ نا دوں تو کیا ہو گا؟ آپ اب مناسب الفاظ میں بات کر لیں۔“ اس نے آہستگی سے کہنا چاہا۔ وہ ٹوک گئے۔
”نہیں خان ایسا نہیں ہو گا۔ ہو ہی نہیں سکتا، تمہیں دل کو منانا ہو گا۔ تمہیں خود کو سمجھانا ہو گا۔ میں خود کہہ کر اپنی بات سے پھِر جانے کی بےغیرتی نہیں کر سکتا جبکہ بچیاں بھی اپنے رشتے ہو جانے کا جان چکی ہیں۔
اور اگر یہ رشتہ ان کے ماموں کی طرف سے سلامت رہے اور میری طرف سے ٹوٹ گیا تو میرے بھائی کا سر جھک جائے گا، بچی کو بھی زلت محسوس ہو گی۔ ایسا ظلم مت کرو بچے۔۔“ وہ بہت سنجیدگی سے بول رہے تھے۔
”یافث خان تم یہ بات ذہن سے نکال دو کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری لڑکی تمہاری بیوی بن سکتی ہے۔ شہر میں کوئی پسند آ گئی ہے تو وہ بالکل ناممکن ہے۔ میں خاندان کی لڑکی پر کسی کو فوقیت نہیں دینے دوں گا۔“
ان کا لہجہ اتنا اٹل تھا، الفاظ اتنے سختی بھرے تھے کہ اس کے بعد وہ کچھ بول ہی نہیں سکا۔ جھکے سر کے ساتھ اٹھا اور بھاری قدموں سے چلتا باہر نکلا۔ آغا جان تاسف سے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔
یافث خان دی جان کے کمرے سے گزرا تو ہنسنے کی آواز پر رک گیا۔ وہ قہقہے لگا رہی تھی، جوش سے باتیں کر رہی تھی۔ اس کی زندگی عذاب کر کے وہ اتنی خوش تھی۔ کیا اسے فرق نہیں پڑتا تھا؟
ہاں وہ تو خوش تھی، یافث نے اس کی چمکتی آنکھوں میں اپنے لیے صاف پسندیدگی دیکھی تھی۔ اس کا اٹھلانا اور غرور کرنا فتح کی علامت تھا۔ وہ جانتی تھی یافث خان کے انکار کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔
وہ اپنے کمرے میں جا کر دھاڑ سے دروازہ بند کر گیا۔ بےبسی سے لب کچلنے لگا۔ کیا حل نکالے؟ کیسے جان چھڑوائے؟ کیا بھاگ جائے حویلی سے؟ چھوڑ دے سب کو؟ وہ پاگل ہو رہا تھا۔
ڈریسنگ کے شیشے پر پورے زور سے مکا دے مارا، کمرے میں چھناکے کی آواز گونجی اور ساری کرچیاں اطراف میں پھیل گئیں۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔ وہی کیوں؟ ایک وہی کیوں اس کے نصیب میں لکھی گئی تھی۔
جاری ہے