Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Age Difference Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 02 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :93

Genre: haveli based, Agr difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط دو
”کیا ہوا، حمزہ اتنی جلدی آ گیا؟“ وہ بوکھلائی ہوئی سی دروازہ بند کر کے اندر آئی تو خوشنما نے حیرت سے پوچھا۔ علیزے نظریں چراتی اثبات میں سر ہلا گئی۔
”دیکھ رہی ہو اس بندے کی چالاکی، ہمارے بلانے پر نہیں آیا۔۔ اتنی جلدی تو گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا جتنی جلدی اس نے رنگ بدلا ہے۔۔“ دابہ نے منہ بنایا۔
”دفع کرو، ہم نے ہی غلط انسان پر اعتبار کیا۔ وہ اس قابل کہاں تھا۔“ خوشی نے آہ بھری۔ دونوں یوں افسوس کر رہی تھیں جیسے دھوکے سے اپنی جائداد گنوا بیٹھی ہوں۔
علیزے سر جھکا کر بیٹھی رہی۔ مٹھی میں پیسے دبے ہوئے تھے جو ناشتہ منگوانے کے لیے دینے تھے۔ خوشی اٹھ کر چائے بنانے چلی گئی، دابہ موبائل پر لگی بڑبڑا رہی تھی۔ ڈور بیل بجی تو علیزے کو کرنٹ لگا۔
”جاؤ دابہ ناشتہ آ گیا ہو گا۔ چائے بھی بن چکی۔“ خوشی نے دابہ کو آواز لگائی کیونکہ علیزے دروازے پر کبھی نہیں جاتی تھی۔ لیکن اب دابہ کے اٹھنے سے بھی پہلے وہ اٹھی۔
”میں دیکھ لیتی ہوں۔“ وہ گڑبڑا کر بولتے ہوئے تیزی سے دروازے پر گئی۔ دابہ نے حیرت سے اسے دیکھا، خوشی بھی حیرت کے مارے کچن سے باہر نکل آئی۔ علیزے نے دروازہ ایسے کھولا کہ سامنے کھڑا انسان اندر موجود دونوں لڑکیوں کو نظر نہ آئے۔
”تھینکس دراصل ناشتے کا سارا سامان۔۔“ وہ ناشتے کا سامان لینے پوری کی پوری باہر نکل چکی تھی۔ خفت سے شکریہ ادا کرنے لگی جب اس نے ٹوک دیا۔
”اٹس اوکے۔۔“ وہ اسے شاپرز پکڑا کر واپس جا چکا تھا، ڈھیروں پیکٹس لیے علیزے الجھی ہوئی سی اندر آئی۔ منگوائے تو صرف حلوہ پوری اور چنے تھے مگر شاپر کھولے تو ان دونوں کا منہ کھل گیا تھا۔
حلوہ پوری، چنے نان، بریڈ، انڈے، بٹر، جیم، براؤن کیک کا پورا پیک تھا۔ دودھ کے ڈبے بھی تھے۔۔ خوشی اور دابہ نے خفگی سے علیزے کو دیکھا۔ وہ خاموشی سے دابہ کے لائے برتنوں میں چنے اور حلوہ نکال رہی تھی۔
”تم اتنی فضول خرچ کیوں ہو۔۔ ہمیں پتا ہے تمہارے پاس بہت پیسہ ہے مگر پھر بھی تم۔۔“ خوشی نے خفگی سے بولتے ہوئے اس کے ہاتھ سے خالی شاپر لے لیے مگر اس کا جملہ علیزے کی گلابی ہتھیلی پر رکھے نوٹ دیکھ کر ادھورا رہ گیا۔
”تم نے پیسے نہیں دئیے؟ یا یہ بقیہ ہیں؟ حمزہ تو اتنا اچھا نہیں کہ اتنا سامان مفت لا دے۔۔“ دابہ پانچ ہزار کا نوٹ دیکھ کر حیرت سے پوچھ رہی تھی۔ علیزے گڑبڑا گئی۔

”یہ تو۔۔۔ جو باقی بچے وہ ہیں۔“ وہ ہکلا کر بولی اور جلدی سے باقی سامان اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔ خوشی اور دابہ نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔

”چھوٹے خان آپ کو خان صاحب بلا رہے ہیں۔“ ملازمہ نے دروازے پر دستک دے کر کہا تو بال برش کرتا وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ ملازمہ اسی کو دیکھ رہی تھی۔
”تم چلو میں آ رہا ہوں۔۔“ وہ بددلی سے بولتے ہوئے اپنے کرتے کے بٹن بند کر کے پرفیوم سپرے کرنے لگا۔ اس کی غصے میں کہی بات کو اتنا سر پر سوار کر لیا تھا سب نے۔۔
اور وہ ابھی اسی غصے غصے میں ہی اپنی بات منوانے کی ٹھان چکا تھا۔ اچھا ہی تھا بات ختم ہو جاتی کیونکہ وہ بچپن کے اس رشتے سے پہلے بھی خوش نہیں تھا پھر اب تو وجہ بھی مل گئی تھی۔
وہ خان یافث تھا۔۔ علیزئی حویلی کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، ویسے تو اسے لاڈ پیار یا ضد کرنے کی کوئی عادت نہیں تھی مگر بڑے دونوں بھائیوں اور باپ کی اس میں جان بستی تھی۔
ماں کی نظر میں تو وہ بھرپور اونچا لمبا جوان ہونے کے باوجود ابھی تک بچہ تھا۔ دادی کو تو خیر تینوں ہی بہت پیارے تھے مگر یافث کا حساب لاڈلوں میں آ جاتا تھا۔
وہ غصیلا نہیں تھا مگر جب سے اپنی منگیتر کو دیکھا تھا، بات بات پر غصہ کرنے لگا تھا۔ پہلے تو بھائیوں نے سمجھانے کی کوشش کی پھر پریشان ہونے لگے۔ یافث خان کا ٹھنڈا نرم رویہ منگیتر کے زکر پر ہی بدل جاتا تھا۔
”اگر آج مجھے آغا جان نے یہ کہا کہ تمہارا رشتہ ہو گیا ہے یا منگنی کر رہے ہیں تو بالکل لحاظ نہیں رکھوں گا، اس لڑکی سے بہتر ہے شادی ہی نا کروں۔۔
زندگی اکیلے میں زیادہ اچھی کٹ رہی ہے۔“ وہ زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے دل میں مضبوط ارادہ کر چکا تھا۔ مگر آغا جان سے سامنا ہونے پر جب ان کا مسکراتا چہرہ دیکھا تو دل پر بوجھ سا آن پڑا۔
”آ گیا میرا خان بیٹا۔۔ دیکھو جب بھی ملتا ہے منہ پھولا ہوا ہوتا ہے۔ بڑے ہو جاؤ یافث خاناں۔۔“ آغا جان نے ہنس کر اسے سینے سے لگایا، وہ خفت زدہ ہو گیا۔
آغا جان سے الگ ہو کر سوالیہ نظروں سے بڑے بھائی کو دیکھنے لگا، اس بلاوے کا مقصد جاننا چاہتا تھا۔ واثق خان نے مسکرا کر وکٹری کا نشان بنایا تو وہ الجھ کر سیدھا ہوا اور باپ کا مسکراتا چہرہ دیکھا۔
اس کی بات تو گھبرانے والی تھی پھر یہاں سب خوش اور مطمئن کیوں لگ رہے تھے۔ اسے پریشانی ہوئی۔ خان بیگم کا کیا بھروسہ الٹی سیدھی بات پہنچا دی ہو۔
”کیوں پریشان ہو رہا ہے میرا شیر؟ بیٹھو تو سہی، ایک تو باپ کو کچھ بتاتے نہیں ہو۔۔ باہر ہی باہر بھائیوں سے اور ماں، دادی سے بات کر کے پیغام بھجوا دیتے ہو۔۔
کیا کبھی تمہاری بات ٹالی ہے جو اتنا چھپتے ہو۔“ اس کا ہاتھ پکڑ کر آغا جان ایک صوفے پر بیٹھے، وہ بھی خاموشی سے ساتھ ٹکا اور گہری سانس لی۔
”خاناں اتنی سرد آہیں نہ بھرو اور فکر پریشانی بھلا دو۔۔ خان واثق نے مجھے بتا دیا ہے تم ابھی منگنی نکاح کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ بس یہی ناں؟“ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔
اس نے ٹھٹک کر واثق خان کو دیکھا، وہ یہاں وہاں دیکھنے لگا۔ یافث نے جبڑے بھنچے۔ واثق نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدہ کرنا تو نہیں چاہتا تھا مگر یافث نے زبردستی وعدہ لیا تھا کہ وہ شادی رکوائے گا اب ناجانے وہ کیا سوچ رہا تھا۔
”جی آغا جان! میری سٹڈیز کے لاسٹ ائیرز ہیں، میں ابھی کوئی ڈسٹربنس نہیں چاہتا۔ منگنی، نکاح کچھ نہیں۔۔ ابھی تو حاذق لالا کی شادی گزارنے دیں آرام سے۔۔“ اس نے پہلے سے ہی انہیں منگنی نکاح جیسا قدم اٹھانے سے منع کیا تھا۔
ابھی تو جان چھوٹے پھر کونسا وہ میرے لیے بیٹھی رہے گی۔ اس کا یہی خیال تھا۔ اسے لگا وہ انکار کرے گا، دیر کرے گا۔ بہانے کرے گا تو تنگ آ کر سب لڑکی کی شادی کر دیں گے۔
”چلو ٹھیک ہے، خان واثق بھی یہی بتا رہا تھا مجھے کہ تم ابھی کچھ وقت چاہتے ہو۔۔ تم فکر مت کرو، اطمینان سے پڑھائی پوری کرو پھر دیکھتے ہیں۔“ آغا جان نے نرمی سے کہا تو وہ چونک گیا۔
سنہری آنکھیں چمک اٹھی تھیں یعنی آغا جان کو ٹالنا بہت آسان تھا۔ وہ فرط جذبات سے لب کاٹنے لگا، تشکر بھری نظروں سے بھائی کو دیکھا تو وہ تھوڑا سا مسکرا کر نظر چرا گیا تھا۔
”اب تم دونوں جاؤ اور فی الحال بھائی کی شادی انجوائے کرو۔۔ خان حازق تمہیں ڈھونڈ رہا ہو گا۔ حازق تمہاری منگنی اب ہونی ہے یاد رہے۔۔“ آغا جان نے حاذق خان کو یاد دلایا کہیں وہ بھی بعد میں کچھ وقت نا مانگ لے، اس نے سر ہلا دیا۔
”میں اب زنان خانے میں جاتا ہوں، تمہاری ماں مجھے کئی بار پیغام بھجوا چکی ہے۔۔“ وہ بات ختم کر کے اٹھے، چونکہ شادی والا گھر تھا اور دلہا کے علاوہ تینوں مرد یہاں جمع تھے۔
یافث خان بھی تیزی سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ بیگم خان کے کمرے میں جانے لگا تو وہ سامنے ہی موجود تھی ہمیشہ کی طرح لڑتی جھگڑتی، پیلے فراک میں وہ بہت نازک اور خوبصورت لگ رہی تھی۔
یافث خان کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔ اب بھی اسے دیکھ کر اس کا مغرور نخریلا انداز اسے شدید برا لگا تھا۔ وہ یکدم ریلیکس ہوا تھا کہ اس نے بروقت جان چھڑوا لی تھی۔
وہ اس کے پاس سے گزرنے لگا کہ وہ اچانک اس کی طرف پلٹ کر چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
”ابھی تک چوروں کی طرح خاموشی سے کٹ مار کر نکل جانا آپ نے نہیں چھوڑا، اب تو آپ کو میری عادت ہو جانی چاہیے۔“ وہ شوخی سے آنکھیں مٹکا کر بولی۔ اس کی بات پر وہ جھٹکے سے رکا۔
”راستے میں آ کر توجہ حاصل کرنا تمہارا پرانا شوق لگتا ہے۔۔ مگر تم بھول رہی ہو کہ میں یافث خان ہوں، مجھے ایسی حرکتیں سخت زہر لگتی ہیں۔“ وہ بڑے ضبط سے بولا تھا۔ ورنہ اس کا یوں راستے میں آنا اسے اتنا برا لگا تھا کہ حد نہیں۔۔۔
”آپ کو تو میرا بات کرنا ہی برا لگتا ہے، آپ کا بس چلے تو مجھے دنیا سے ہی غائب کر دیں۔ آپ کے راستے میں کیا آپ تو مجھے اپنی حویلی میں بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔۔“ وہ بےاختیار ہنسی تھی۔
”میں نے اسی لیے آپ کا نام آگ کی آندھی رکھا ہے۔ ہواؤں کی طرح آتے، جلاتے اور چلے جاتے ہیں۔“ زرگل شرارت سے بولی۔ یافث کا موڈ آف ہوا۔
اگر گھر میں مہمانوں کی موجودگی کا احساس نہ ہوتا تو وہ اس کا منہ توڑ چکا ہوتا۔ پیچھے کھڑی دو ملازماؤں کے سرخ خفت زدہ چہرے بتا رہے تھے وہ اس کے آنے سے پہلے ان پر غصہ کر رہی تھی۔
اس کا دل چاہا سب حویلی والوں کو جمع کر کے اس کی اصلیت دکھائے۔ اسے اس کی وہ حسین صورت کتنی بری لگتی تھی۔ وہ ناحق غریب ملازمین پر چیختی تھی۔
اسے یہی سب ناگواری میں مبتلا کرتا تھا اور حازق خان کہتا تھا وجہ ہوتی ہے تو بےچاری تھوڑا ڈانٹ دیتی ہے۔ غصہ اسے آتا کب ہے۔
”تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو، جاؤ اور اپنا کام کرو آئندہ غیر ضروری لوگوں کے سامنے سر جھکا کر وقت ضائع مت کرنا۔۔ اور تم میری حویلی کے ملازمین پر دوبارہ غصہ مت کرنا ورنہ۔۔“
وہ غصے کی شدت سے سرخ چہرہ لیے سخت اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ ملازمائیں شکر کا کلمہ پڑھتی وہاں سے جا چکی تھیں۔ زرگل لب بھنچے تپتی نظروں سے یافث کا سخت رویہ دیکھ رہی تھی۔
جبکہ یافث خان کی اونچی آواز پر قریب والے کمرے میں بیٹھی اوزگل بھاگتے ہوئے باہر آئی تھی۔
”گل یہاں سے چلو۔۔“ یافث کا سرخ چہرہ اور زرگل کی جلتی آنکھیں دیکھ کر اوزگل کا حلق خشک ہو گیا تھا۔ دونوں ہی آگ تھے سامنا ہونے پر ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔
”نہیں ایک منٹ مجھے ان سے پوچھنے دو کہ کس حق سے انہوں نے مجھے ان ملازماؤں کے سامنے ڈانٹا ہے۔ میں اس حویلی کے ملازمین کو غلط بات پر ٹوکنے کا بھی حق نہیں رکھتی کیا۔۔
اور بھئی آپ ہوتے کون ہیں، کبھی کبھی حویلی میں آ کر گھرانے کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔“ زرگل کی ملازماؤں کے سامنے کی گئی اس تذلیل پر آنکھیں سرخ ہوئی تھیں۔ اوزگل پریشان ہو گئی۔
”اپنی اوقات میں رہنا سیکھو۔۔ ورنہ جس روز میں نے اوقات یاد دلائی تو تمام عمر نہیں بھولو گی کون اس حویلی کا مالک ہے اور کون بن بلایا مہمان۔۔“ وہ آگ اگل رہا تھا۔ زرگل تھم سی گئی تھی۔
یافث خان جھٹکے سے آگے بڑھا اور جاتے ہوئے راستے میں کھڑی اوزگل سے اس زور سے ٹکرایا کہ وہ بےساختہ لڑکھڑائی۔
”ووئی۔۔“ وہ چیخ کر دیوار سے جا لگی، وہ پلٹنے کی بجائے مٹھیاں بھینچتا اپنے کمرے میں جا چکا تھا جبکہ زرگل سرخ بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہی تھی۔
”تم انہیں دیکھ کر رکتی کیوں ہو، ہر بار بحث اور لڑائی۔۔ میرا کندھا ہلا دیا۔۔ یا اللہ۔۔“ اوزگل کندھا پکڑے دیوار کے پاس کھڑی بول رہی تھی۔
”اوزگل آبا نے ایک ساتھ ہم دونوں کے رشتے کیے تو میرے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کیوں کر گئے۔۔ ہر بار، ہر چیز تمہیں اچھی دی گئی۔ مرد بھی تمہیں ہی اچھا ملا اور میرا کیا۔۔۔“
زرگل ضبط سے مٹھیاں بھینچتی بھیگی آواز میں بول رہی تھی۔ اس کی بات پر اوزگل کا منہ کھلا رہ گیا، یہ اچانک کیا بات لے آئی تھی۔
وہ اپنے کندھے کی تکلیف بھولے اسے دیکھ رہی تھی۔ کیا کمی تھی اس کے منگیتر میں، جو وہ یہ شکوہ کر رہی تھی۔
”میں اچھی رہی؟ صرف میں؟ تمہیں اب بھی لگتا ہے تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔۔؟ تم ہمیشہ سے ہی ناشکری ہو بہت۔۔“ اوزگل صدمے سے بول رہی تھی۔
زرگل جھٹکے سے پلٹ کر کمرے میں جا چکی تھی۔


”بس کر جاؤ یار تمہیں گرمی نہیں لگتی؟ اتنا خود کو کور کر لیتی ہو۔۔ مجھے تو کچھ ہونے لگتا ہے۔“ اسے حجاب کے اوپر سٹالر سے نقاب سیٹ کرتا دیکھ کر خوشنما کی حالت خراب ہونے لگی۔
”مجبوری ہے۔۔ ورنہ میں ہلکی پھلکی چادر سے پردہ کر کے بھی جا سکتی تھی لیکن۔۔“ وہ منہ بسور کر بولتی آہ بھر گئی۔ ریشمی حجاب میں اس کا کبھی کبھی پورا جسم پسینے سے بھیگ جاتا تھا۔
”اچھا کرتی ہو، ایک ہم دونوں کم ہیں کہ تم بھی ہمارے ساتھ لڑکوں کے دلوں پر بجلی گرا کر تباہی کرو۔۔ یقین مانو ہمارے حسین چہرے دیکھ کر کئی ایکسیڈنٹس ہوئے ہیں۔“ دابہ نے کمال بےنیازی سے چہرے پر آیا پسینہ صاف کیا۔
”کئی ایکسیڈنٹ؟ سچ میں؟“ اس کے لیے یہ بات کافی حیرت انگیز تھی۔ مرعوب نظروں سے دابہ کو دیکھا۔
”کئی ایکسیڈنٹ نہیں۔۔ بس ایک بار ایک موٹا آدمی اسے دیکھتے ہوئے سائیکل سے گر گیا تھا۔۔“ خوشنما نے بےزاری سے غلط فہمی دور کی تھی۔ دابہ نے اسے گھورا۔
جبکہ علیزے بےاختیار کھلکھلا کر ہنسی۔ ناجانے کتنی دیر سے وہ بس اسٹاپ تک پہنچ چکی تھیں۔ ان کی وین والا بنا بتائے چھٹی کر چکا تھا۔ سب لڑکیاں ایسے ہی دھکے کھا رہی تھیں۔
گرمی کی شدت سے ان دونوں کے چہرے سرخ ہو رہے تھے پھر حجاب میں کھڑی علیزے کی ناجانے کیا حالت تھی۔ وہ تو لوکل بسوں میں سفر کرنے کی عادی بھی نہیں تھی۔
”یار تمہارے فادر تمہیں ایک گاڑی نہیں دے سکتے تھے؟ کوئی ڈرائیور ہی رکھ لیتے، فلیٹ ارینج کر لیا ہے تو گاڑی دینے میں کتنے پیسے لگتے۔“ بس کا انتظار کرتی گرمی سے بےحال دابہ اس پر چڑھ دوڑی۔
”کیا کہا؟ گرمی چڑھ گئی ہے کیا؟“ وہ حیران ہوئی۔
”تم تو صرف رہنے اور کھانے پینے کا سوچتی ہو۔۔ اتنی ضرورت تھی تو خود خرید لو گاڑی۔۔ اور ڈرائیور بھی رکھ لو۔۔“ گرمی سے حال اس کا بھی خراب تھا۔
دابہ کو جھاڑ کر رکھ دیا، نیلی آنکھوں میں گرمی کی شدت کی وجہ سے سرخی پھیلی ہوئی تھی۔
”واہ! کیا خوب کہی تم نے، میرے بابا مجھے ایک پنکچر سائیکل خرید کر بھی نہ دیں اور تم گاڑی کہتی ہو، یہ سب جو کھا پی رہی ہوں یہ بھی میری ماں کی مہربانی ہے۔
بلکہ ان کی دی خیرات سمجھ لو جو مجھے ہر ماہ دی جاتی ہے۔“ دابہ نے برا منائے بغیر پھیکا سا ہنس کر کہا تو علیزے شرمندگی اور تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔
رودابہ بروکن فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ ماں باپ میں طلاق ہونے کے بعد باپ نے اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، البتہ اس کی ماں دوسری شادی کر چکی تھی اور ہر ماہ اسے خرچ بھیج دیتی تھی۔
”ایم سوری دابہ میں تو بس غصے میں بول گئی۔ گرمی نے میرا دماغ خالی کر دیا ہے۔ وین والے نے آج ہی چھٹی کرنی تھی۔“ وہ معذرت خواہانہ انداز سے بولی۔
”تم دونوں اس گرمی میں کھڑی باتیں کرتی رہو۔۔ جبکہ مجھے کسی نے بتایا ایک بجے والی بس آج ذرا جلدی آ گئی تھی اور جا بھی چکی ہے۔
اب تین گھنٹوں کے انتظار کے بعد چار بجے جو بس آئے گی اس میں جائیں گے۔ کیونکہ تینوں کے پاس آٹو، ٹیکسی کرنے کے پیسے نہیں۔۔ میرا والٹ تو خیر بالکل خالی ہے۔
اب کون مانے گا کہ گھر پہنچا دیں پیسے بعد میں، بلڈنگ میں ہی نہیں گھسنے دیں گے، لوکل بس ہی آخری حل ہے۔“ خوشی نے آ کر انہیں دھماکہ خیز اطلاع دی تھی۔ دابہ کا رنگ اڑا۔
”اس گرمی میں اتنا لمبا انتظار۔۔ میں تو بےہوش ہو جاؤں گی، ہائے میرا سر چکرا رہا ہے۔ کوئی ٹیکسی روک لو میں وہاں پہنچ کر دے دوں گی پیسے۔۔“ علیزے کے سانس اکھڑنے لگے۔
”اسی لیے کہا تھا، گاڑی ہوتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔۔ وین والے کا حال دیکھ لو، یونی پہنچا دیا لیکن لینے نہیں آیا۔ وہاں پہنچ کر کوئی نہیں رکے گا۔ آج کل تو اِن ڈرائیور والوں کے اتنے برے کیسز نکلے ہیں۔۔“ دابہ کے اپنے غم تھے، علیزے جل کر اسے دیکھنے لگی۔
”علیزے تم نے بتایا تھا تمہارا کزن یہیں قریب جاب کرتا ہے، اسے کہو ہمیں ریسیو کر کے بلڈنگ تک چھوڑ دے، آگے فلیٹ میں خود چلے جائیں گے۔“ خوشی کی بات پر وہ چکراتا ہوا سر پکڑ کر رہ گئی۔
”میں صدقے جاؤں تمہاری مہربانیوں پر۔۔ بلڈنگ کے بعد ظاہر ہے ہم خود جائیں گے اب وہ ہمیں ہاتھ پکڑ کر فلیٹ تک لے جانے سے رہا۔“ دابہ نے ہنس کر کہا۔
”علیزے جلدی کال کرو اسے۔۔“ خوشی نے اسے ہلایا۔
”میں نہیں بلا سکتی، اس نے کھا جانا ہے مجھے کہ اتنی گرمی میں کیوں بلایا۔۔“ وہ آنکھیں پھیلا کر بولی۔
”بس کر جاؤ یار۔۔ سب تمہیں کھاتے ہیں، پھر بھی تم صحیح سالم کھڑی ہو۔۔“ خوشنما کا موڈ آف ہو گیا مگر اسی وقت سامنے سے آتی گاڑی دیکھ کر دابہ اور خوشنما کے چہرے روشن ہو گئے۔
”آہا وہ دیکھو آ گیا فرشتہ۔۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔۔“ دابہ جوش سے چیخی۔ گاڑی ان کے قریب آ کر رکی تھی۔ علیزے حیران کھڑی ان کا جوش ملاحظہ کر رہی تھی۔
”چلیے آپ لوگوں کو گھر چھوڑ دوں۔۔“ حمزہ کی مودبانہ آفر پر ان دونوں نے فخر سے اسے دیکھا۔ حمزہ بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔
“آؤ علیزے ڈونٹ وری، حمزہ تو جان پہچان کا بندہ ہے بہت اچھا لڑکا ہے حفاظت سے پہنچا دے گا۔“ وہ دونوں ڈور کھول کر اطمینان سے بیٹھ چکی تھیں۔ علیزے بھی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی۔ اےسی کی کولنگ میں سکون سا ملا تھا۔
”سر کا آج کام تھا سائٹ پر، انہیں وہاں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔۔ مجھے بھی گھر ہی جانا ہے۔ سر نے کہا آج رات کا کھانا وقت پر چاہیے۔۔ ان کا جب گھر کا کھانا کھانے کا موڈ ہو یہی کرتے ہیں۔
اور میں تو ویسے بھی کوکنگ میں ماہر ہوں، پچھلے ہفتے جو بریانی دی تھی، کھائی تھی ناں آپ نے؟“ وہ حال احوال دیتے ہوئے بول رہا تھا۔ دابہ اور خوشی اس بریانی کی تعریف کرتی اگلی بار بھی بھیجنے کی خواہش کر رہی تھیں۔
علیزے موبائل پر آیا کزن کا میسج چیک کر رہی تھی۔
”وین والے کا میسج آیا تھا، وہ نہیں آئے گا۔ گھر پہنچ کر میسج کر دینا، ورنہ مجھے فکر رہے گی۔۔“ اس نے گہرا سانس بھر کر موبائل واپس بیگ میں رکھ دیا۔
حمزہ باتوں کا شوقین تھا اور گاڑی کی رفتار بہت مدھم رکھی ہوئی تھی۔ باقی دونوں تو مطمئن تھیں مگر علیزے اڑ کر فلیٹ پر پہنچنا چاہتی تھی۔
بس سٹاپ تک چل کر آنے اور وہاں کھڑے رہنے سے ہی اس کی حالت خراب ہو چکی تھی۔ پہلے یونیورسٹی کی تھکن اس پر یہ زلالت اور شدید گرمی۔۔


وہ کمرے میں پہنچ کر دھاڑ سے دروازہ بند کر چکا تھا۔ بیڈ پر سر پکڑ کر بیٹھتے ہوئے اسے دوسری بہن کا خیال آیا۔۔ وہ تو ہر بار خوامخواہ ہی ان دونوں کے عتاب کا نشانہ بن جاتی تھی۔
وہ جانتا تھا ٹکر شدید تھی، وہ دیوار سے ٹکرائی تھی۔ مگر رک کر اس کا حال دیکھنے نہیں رکا تھا۔ گل کو برداشت کرنا اب مشکل ترین ہوتا جا رہا تھا۔ وہ بےبسی سے بیڈ پر لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد اس کی تلاش میں واثق اور حازق اس کے کمرے میں پہنچے تو وہ بیڈ پر آڑھا ترچھا ٹانگیں لٹکا کر پڑا گہری نیند میں جا چکا تھا۔ واثق نے گہرا سانس بھر کر اس کی ٹانگیں بیڈ پر رکھتے ہوئے اسے سیدھا کیا۔
”موڈ ٹھیک نہیں ہوا ابھی اس کا؟ آغا جان سے کیا بات کی تم نے؟“ حازق نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے آہستگی سے سوال کیا۔
”ابھی تو یہی کہا ہے کہ پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتا۔ اور کیا کہوں، بچپن سے بات طے ہے۔۔ آغا جان انکار کرنے پر راضی نہیں ہوں گے۔“ واثق بےچارگی سے بولتے ہوئے یافث کو دیکھ رہا تھا۔
”یار دونوں بہنوں کے رشتے ہو چکے ہیں۔ ایک کا رشتہ سلامت رہے، منگنی نکاح ہو رہے ہوں اور دوسری کا ختم ہو جائے تو کیا گزرے گی اس پر۔۔ داؤد خان پڑھائی مکمل کر کے پاکستان آ چکا ہے۔
کیا پتا وہ لوگ جلدی شادی کا ہی کہہ دیں تو چچا دونوں بیٹیوں کی شادی ایک ساتھ کرنا چاہیں گے اور یہاں یافث رشتہ ختم کرنے کی ضد کر رہا ہے۔ ایک گھر والی بات ہے، انکار کیسے کریں۔“ حازق خان سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔
”لیکن زبردستی بھی نہیں کرنی چاہیے، میں اس چیز کے سخت خلاف ہوں۔ ہم اپنی محبت میں اسے اس حویلی میں لانا چاہتے ہیں، ہمیں وہ عزیز ہے لیکن یافث کو نہیں پسند تو کیسے قبول کرے۔
اسے تو ایز اے کزن بھی نہیں پسند، نام سن کر ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ عمر بھر کی بات ہے لالا، آپ آغا جان کو سمجھائیں۔“ واثق خان نے صاف الفاظ میں یافث کا ساتھ دیا تھا۔
”واثق زبردستی کوئی نہیں کرنا چاہتا، ہاں غلط ہے مگر مجبوری ہے کہ بچپن میں بات طے ہو چکی۔۔ آغا جان کا انکار ان دو گھروں کو دور نا کر دے، یہاں پورے گھر کی بات ہے۔
میں تو نہیں سمجھ پا رہا آخر یافث کو اس سے کیا الجھن ہے۔ اس کا لہجہ، اس کا انداز اور مزاج۔۔ کچھ بھی نہیں پسند۔۔ ہر وقت غصہ میں رہنے لگا ہے۔ کسی اور کو پسند تو نہیں کرتا؟“
حاذق خان اس خیال پر خود بھی ٹھٹک گیا۔ واثق نے بھی چونک کر نیند پڑے یافث کو دیکھا۔ اسے بھی اب بات کچھ ایسی ہی لگ رہی تھی۔
”اگر ایسا ہوا تو۔۔۔؟ یافث چاہے گا ہم اس کی پسندیدہ لڑکی کو ہی قبول کریں۔“ واثق بوکھلا گیا تھا۔
”مجھے تو اب اس کی پسند پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ ناجانے کیسی لڑکی پسند کر بیٹھے۔۔ یا اللہ کس مشکل میں ڈال دیا ہے اس لڑکے نے۔۔“ حازق سر پکڑ بیٹھا۔
دونوں بھائی پریشان ہو رہے تھے۔ حل سوچ رہے تھے اور وہ گہری نیند میں سکون سے پڑا تھا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا اور فیصلہ بھی دن بہ دن مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔
دوسری جانب کمرے میں بیٹھی زرگل بھی چادر اوڑھے منہ چھپا کر بیڈ پر پڑی تھی، اوزگل جانتی تھی وہ رو رہی ہے۔ وہ پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اتنی خوشی سے یہاں آئی تھی لیکن شادی کا مزہ ہی خراب ہو گیا ہے۔ ضروری تو نہیں تھا آبا ہمارا رشتہ طے کر دیتے۔۔ ہم دونوں سے پوچھا تک نہیں اور۔۔۔“ زرگل سسکیاں بھرتی بول رہی تھی۔
”مگر مجھے تو آبا کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں، میں تو راضی اور خوش ہوں۔“ اوزگل اپنے خیال میں بیٹھی تھی، چہک کر بولی۔ زرگل نے منہ سے چادر ہٹا کر اسے دیکھا تو اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔
”میرا مطلب آبا نے ہمارے لیے اچھا ہی سوچا ہو گا۔“ وہ زرگل کی بھیگی آنکھیں دیکھ کر خفت سے بولی۔
”ہمارے لیے نہیں صرف تمہارے لیے۔۔ تمہیں تو ظاہر ہے کیوں اعتراض ہو گا۔ آزاد خیال اور اتنا خوبصورت منگیتر مل گیا ہے۔ شاید تم تو شہر میں ہی رہو اور عیش کرو۔۔ قید تو مجھے ملے گی۔۔
قلعہ نما حویلی میں عمر بھر کے لیے بند رہوں گی، مورے کہتی ہیں اتنا پڑھا لکھا شاندار مرد ہے۔ میں ایسے انسان کا کیا کروں جو پڑھ لکھ کر خود شہر میں عیاشیاں کرے اور مجھے گھر میں پابند رکھے۔“
زرگل کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔ اوزگل لب کاٹتی تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔ اسے زرگل کے خیال سے بالکل اتفاق نہیں تھا مگر اب بولتی تو زرگل شاید اس کا گلہ دبا دیتی۔
وہ چپ چاپ لب سیے زرگل کے صدمے سنتی رہی اور جمائیاں لیتی رہی۔ آنکھوں میں نیند بھر آئی تھی اس نے بیڈ پر زرگل کے قریب بیٹھے بیٹھے لیٹنے کی کوشش کی تو اس نے سرد نظروں سے گھورا۔
”تم یہ سب باتیں آبا اور مورے کو بتانا پلیز، میں اب سونا چاہتی ہوں اور ویسے بھی فیصلہ کرنے کا اختیار میرے پاس تو بالکل نہیں ہے ورنہ تمہاری مرضی دیکھ کر یہ رشتہ ختم کر دیتی۔“
اوزگل نے جمائی لیتے ہوئے تکیے پر سر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں جبکہ اس کے آخری جملہ پر زرگل ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ پھر کسی خیال کے تحت اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
اس کا شیطانی دماغ تیزی سے کھیل بننے میں لگا ہوا تھا جبکہ اوزگل بازو میں چہرہ چھپائے نیند میں جا چکی تھی۔
”گڈ۔۔ ویری گڈ اوزگل۔۔ تمہاری یہی بےوقوفی تمہارا کام بگاڑے گی اور میں اسی بےوقوفی کا فائدہ اٹھا کر اپنا کام نکلوا سکتی ہوں۔“ زرگل نے اپنے رخساروں پر چمکتے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے اوزگل کو دیکھا۔

جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!