Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Wo Humsafar Tha

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 32 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :84

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط بتيس

وہ فرح نامی لڑکی کے ساتھ اندر گئی تو ایک بڑے سے روم میں لڑکیوں نے سارا سامان پھیلایا ہوا تھا اور اپنا میک اپ سیٹ کرتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں۔ فرح سے اوزگل کو پتا چلا کہ ابھی کچھ دیر میں قوالی پروگرام شروع ہو گا، اس لیے ابھی سب لوگ موجود تھے۔
فرح نے ایک طرف صوفے سے کپڑے وغیرہ ہٹا کر اسے بیٹھنے کی جگہ دی۔ اوزگل اشتیاق سے سب لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔ شوخیاں کرتی ہنستی مسکراتی لڑکیوں کے نازک وجود ان کے نامکمل لباس میں عیاں ہو رہے تھے اور اوزگل نے کھلے دروازے کے باہر سے ملازم لڑکوں اور شادی میں آئے کچھ لڑکے جو کہ یقیناً رشتہ دار تھے۔
ان کو وہاں سے کئی بار گزرتے دیکھا، وہ اندر بھی جھانکتے تھے۔ کچھ رک بھی جاتے تھے۔ کسی کو کوئی نا کوئی لڑکی بلا لیتی تھی۔ ملازم لڑکے بھی ان کے بلاوے پر وہاں آ رہے تھے۔ اسے یہ سب افسوس میں مبتلا کر رہا تھا۔ ایسی خوبصورتی کا کیا فائدہ جسے ہر نظر دیکھے اور سراہے۔ حسن تو وہ ہے جو ایک کے لیے مخصوص ہو۔۔
”آپ کو آج مزہ آیا؟ کیا آپ نے ہمارا ڈانس انجوائے کیا تھا؟ ہم نے فل منتھ پریکٹس کی تب جا کر ایسے ڈانس کر سکے ہیں۔“ فرح اپنا سامان لے کر اس کے پاس آ بیٹھی تھی۔ اپنا میک اپ سیٹ کرتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔ اوزگل گڑبڑا گئی، اس نے ڈانس کو خاص توجہ نہیں دی تھی۔
”جی بہت اچھا ڈانس تھا۔“ اس نے مروتاً مسکرا کر تعریف کی تو فرح خوش ہو گئی۔
”آئی ہوپ آپ نے انجوائے کیا ہو گا۔ مائر بھائی تو جب سے آپ لوگوں کو انویٹیشن دے کر آئے ہیں مجھے بار بار سمجھاتے تھے یافث اپنی بیوی کو لائے گا، انہیں بور مت ہونے دینا۔ ان کے ساتھ دوستی کر لینا، وہ بھی تمہاری بھابھی ہیں۔“ فرح لپ گلوز لگا کر مسکرائی۔
”یہ کون ہیں؟ فرح یہ لڑکی کون ہے؟“ لڑکیاں فارغ ہوئیں تو اس کی طرف متوجہ ہونے لگیں۔
”یہ یافث بھائی کی وائف ہیں۔“ فرح نے تعارف کروایا۔
”یافث خان؟ احمر بھائی کی شادی پر جو آئے تھے؟ شادی ہو گئی اس کی۔۔؟ واہ بہت لکی ہیں آپ، ہمیں آپ کے ہزبینڈ نے تین سال پہلے بری طرح متاثر کیا تھا۔ وہ تب احمر بھائی کی شادی پر آئے تھے۔ بہت چارمنگ بندہ ہے یار۔۔ ایک بار نظر اٹھا کر کسی کو نہیں دیکھا۔۔
تمہیں یاد ہے تب وہ تمہارا کرش بن گئے تھے؟ ہاں میں نے مائر سے ان کا نمبر بھی مانگا وہ تو الٹا مجھے باتیں سنانے لگ گیا تھا۔ میں نے ابھی کچھ دیر پہلے دیکھا تھا اسے۔۔ اس نے وہی وائٹ ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔ میں نے تو دیکھا ہی نہیں کوئی اور بھی آیا ہے اس کے ساتھ۔۔“
وہ لڑکیاں آپس میں بولتی کھلکھلا رہی تھیں، اوزگل ہونق سی انہیں دیکھنے لگی۔ کیا وہ اس کی موجودگی کو بھلا چکی تھیں یا انہیں اس کے ہونے نا ہونے سے فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا۔ فرح ان کی باتوں پر شرمندہ سی مسکرانے لگی۔
”شادی کب ہوئی آپ لوگوں کی؟ لو میرج تھی یا ارینج؟ اپنا نقاب اتاریں، چہرہ تو دکھائیں ہمیں۔۔ مسلسل ایسے عبایا میں رہنے سے اکتاہٹ نہیں ہوتی؟ آپ شادیوں پر بھی پردہ کرتی ہیں، شادی پر کون پردہ کرتا ہے۔۔ لڑکیوں سے کون پردہ کرتا ہے۔“ وہ لڑکیاں اس کے گرد جمع ہو کر اب سوال پر سوال کر رہی تھیں۔ وہ نروس ہو گئی۔
”عبایا میں رہنا مجھے سیف فیل کرواتا ہے، اکتاہٹ نہیں ہوتی اور میں مردوں سے پردہ کرتی ہوں۔ مرد جہاں بھی ہوں گے میں پردہ کروں گی چاہے وہ کسی شادی میں ہوں یا موت میں اور چاہے وہ کسی دوسرے گھر کے ملازم ہوں۔“ ان کے سوالات کا اس نے جھجک کر جواب دیا۔
“مرضی ہے آپ کی ورنہ۔۔ مجھے تو آپ کو دیکھ کر ہی گھٹن ہو رہی ہے۔ اوہ مائی گاڈ۔۔“ ایک لڑکی نے جھرجھری لے کر کہا تو اوزگل نے بےاختیار اسے دیکھا۔ وہ کہہ نہیں پائی کہ مجھے بھی تم سب کو دیکھ کر گھٹن ہو رہی ہے۔ کوئی لڑکی اپنے حسن کو اشتہار بنائے سب مردوں میں کیسے گھوم سکتی ہے۔
”اونیسٹلی مجھے بہت تجسس ہو رہا ہے، مائر بھائی نے کہا وہ کچھ نہیں جانتے۔ آپ کے ہزبینڈ نے تو کسی کو کوئی ڈیٹیل ہی نہیں بتائی کہ لو میرج ہے یا ارینج۔۔ صرف شادی ہونے کا بتایا تھا۔۔“ فرح بھی متجسس ہو رہی تھی۔
”ہماری ایک سال پہلے ارینج میرج ہوئی تھی، بچپن سے رشتہ طے تھا۔ ہم فسٹ کزنز ہیں۔“ اوزگل نے جھجک کر انہیں بتایا۔ وہ محبت اور پسندیدگی کی لمبی داستان دوسروں کے سامنے کھولنا نہیں چاہتی تھی۔
”واؤ۔۔ ایج کیا ہے آپ کی؟ پردہ اتار دیں بس ہم ہی ہیں۔ شکل تو دکھائیں، دیکھنے سے تو بہت چھوٹی لگ رہی ہیں، کچھ لوگ بہت عمر چور لگتے ہیں۔“ ان کا اشتیاق ابھی قائم تھا۔ پردہ اتارنے کی ضد پر اوزگل گھبرا گئی۔ کمرے میں ملازم لڑکے تو آ جا رہے تھے مگر ان کی نظر میں وہ شاید مرد ہی نہیں تھے۔
”میں اتنی چھوٹی نہیں جتنی لگ رہی ہوں، سیونٹین ائیر کی ہوں، آئم سوری آپ کے سرونٹس اور بوائز سامنے ہیں۔ میں پردہ نہیں اتار سکتی۔“ اوزگل سر پر سوار لڑکیوں کا گھیرا تنگ ہونے پر پریشانی کا شکار ہو رہی تھی۔
”سیونٹین؟ یعنی جب شادی ہوئی تو سکسٹین تھیں؟ اوہ مائی گاڈ۔۔ ایج گیپ اچھا خاصہ ہے۔ آپ لوگوں کے ہاں ایسے چھوٹی عمر میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔“ وہ سب حیرت زدہ سی اسے دیکھنے لگیں۔
”آپ کی آئز بہت پیاری ہیں، یہ نیچرل ہیں یا لینز لگائے ہوئے ہیں؟ پلیز اپنا فیس دکھا دیں۔ اب کوئی نہیں آئے گا۔ ہم بھی بس باہر جانے والے ہیں۔“ فرح پرشوق سی کھسک کر اس کے قریب ہوئی۔
”یہ نیچرل ہیں اور پلیز ہم پھر کبھی مل لیں گے۔“ اوزگل کے پسینے چھوٹ گئے۔ کمرے کے باہر کھڑے لڑکوں کا گروہ اب بڑا ہو چکا تھا، قہقہے لگاتے ہوئے وہ بھی کمرے میں اوزگل کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑی لڑکیوں کی طرف متوجہ تھے۔۔
”ارے کچھ نہیں ہوتا، ملازموں سے کون پردہ کرتا ہے۔“ مائر کی ایک کزن نے آگے بڑھ کر اس کا نقاب چھینتے ہوئے اتار دیا۔ اوزگل بوکھلا کر منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔
”یو آر سو بیوٹیفل۔۔ ان کا کپل اچھا ہے۔ ویسے لگ بھی رہا ہے دونوں کزنز ہیں۔ میک اپ کیوں نہیں کیا؟ میں تیار کر دوں؟ اپنے ہزبینڈ کو تیار ہو کر دکھانا۔۔ مجھ سے میک اپ کروا کر آئم ہنڈرڈ ایک ٹین پرسنٹ شیور آپ کا ہزبینڈ دیوانہ ہو جائے گا۔“
وہ اس کا نقاب اتارے اب اسے میک اپ کرنے پر اکسا رہی تھیں۔ ایج میں کچھ لڑکیاں اس کی ہم عمر تھیں اور کچھ اس سے بھی بڑی تھیں۔ ان کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، اوزگل کا نقاب ان کے ہاتھ میں تھا۔ باہر کھڑے لڑکے بھی اندر ہی دیکھ رہے تھے اور گجرے لا کر دینے والا ملازم بھی اسی طرف دیکھ رہا تھا۔
”میں میک اپ نہیں کروانا چاہتی، میرا نقاب واپس کر دیں پلیز۔۔“ اوزگل سٹالر سے چہرہ چھپاتی روہانسی ہو کر بولی۔ فرح اس کی گھبراہٹ پر تھوڑی پریشان ہو گئی۔
”صائمہ انہیں نقاب واپس کر دو، وہ گھبرا رہی ہیں۔ ہم نے شکل دیکھ لی اینف ہے، تمہیں سب پر اپنی مہارت دکھانے کا شوق کیوں ہوتا ہے۔“ فرح نے دانت کچکچا کر اپنی کزن سے کہا۔
”ہم انہیں کھا تو نہیں جائیں گے۔ انجوائے کرنے دو انہیں بھی اور ہمیں بھی۔۔ ابھی باہر قوالی پروگرام شروع ہو گا۔ سب اتنا تیار ہو رہے ہیں۔ یہ سادہ سی بیٹھی ہیں۔ لائیں میں آپ کو ریڈ لپ اسٹک لگا دیتی ہوں۔“ وہ لڑکی اوزگل کا ہاتھ تھام کر دوستانہ لہجے میں بولی۔
نا اس کی نیت بری تھی، نا وہ خود کوئی ایسی ویسی لڑکی لگ رہی تھی۔ اس کا انداز دوستانہ تھا، شاید اوزگل کی ہم عمر ہی تھی۔ وہ اتنی سجی سنوری لڑکیوں میں سفید سادہ عبایا میں ملبوس سادہ سی اوزگل کو سجانا چاہ رہی تھی مگر اوزگل کا پردہ اترنا اسے بری طرح پریشان کر گیا تھا۔
”اچھا اس سے لپ اسٹک لگوا لیں پھر چلتے ہیں، ورنہ یہ نہیں ہٹے گی یہاں سے۔۔“ فرح نے ہار مان لی۔ اس لڑکی نے اوزگل کے نرم لبوں پر ڈیپ ریڈ لپ اسٹک لگا دی۔
”نقاب نہیں کرنا، یہ لپ اسٹک لگ جائے گی نقاب پر۔۔ اوہ آئم سوری یہ تو۔۔“ وہ اسے نقاب دیتے ہوئے ہدایت دے رہی تھی جب نقاب پر نظر پڑی۔ شاید وہ سب کو میک اپ کرتی رہی تھی، خراب ہاتھوں میں دبا سفید نقاب کا کپڑا رنگین ہو چکا تھا۔
اوزگل تو صدمے میں آ گئی۔ وہ معذرت کرتی نقاب اسے دے کر چلی گئی، باقی لڑکیاں بھی باہر نکل رہی تھیں۔ فرح خفت زدہ سی نقاب کا کپڑا الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔
”میں آپ کو بروچ دے دیتی ہوں، آپ اسی سٹالر سے نقاب کر لیں۔“ فرح نے خجل زدہ لہجے میں کہا۔ اوزگل نے سر ہلا کر سٹالر کھولا تب اچانک دو تین لڑکے کمرے میں چلے آئے، وہ جلدی سے خود کو چھپا گئی۔ فرح نے انہیں باہر بھیجا۔ وہ کسی کو تلاش کر رہے تھے، معذرت کرتے باہر چلے گئے۔
”آپ نقاب ٹھیک کریں میں کوئی چھوٹا سا بروچ اٹھا دیتی ہوں۔“ فرح شرمندہ ہو رہی تھی۔ اوزگل رخ پھیرے بےآواز رونے لگی۔ بری طرح گھبرا گئی تھی، آج جانے کتنی بار اس کا پردہ اترا تھا۔ اسے رونا تو تب سے آ رہا تھا جب اس لڑکی نے ضد کر کے نقاب اتارا تھا۔
جن گھروں میں پردے کا رواج نا ہو وہاں کسی ایک پردے والے کا ہونا ایسے ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی لڑکی کو پرواہ نہیں تھی وہاں کتنے مرد ہیں، اس لیے لڑکے بھی لاپروائی سے گھوم رہے تھے۔ وہ بیٹھی بھی تو ان کے گھر میں تھی۔
فرح جیولری باکس چھان رہی تھی، اوزگل سٹالر چہرے پر رکھے روتی جا رہی تھی۔ فرح واپس آئی تو اسے روتا دیکھ کر گھبرا گئی۔ حواس باختگی سے اس کے قریب آتی شرمندہ ہونے لگی۔
”آپ رو کیوں رہی ہیں، کچھ ہوا ہے کیا؟“ فرح نے اس کے اچانک رونے پر پریشانی سے سوال کیا۔
”آپ نے دیکھا نہیں میرا پردہ اترا ہے، آپ کے سرونٹس اور وہ بوائز۔۔ اتنے لوگوں کے سامنے۔۔ مجھے اندر نہیں آنا چاہیے تھا۔“ اوزگل روتے ہوئے بول رہی تھی۔ فرح حیران رہ گئی۔ اسے اندازہ نہیں تھا پردہ کرنے والی لڑکیوں کے لیے پردہ اترنا اتنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
اس نے ایسی لڑکیاں بھی دیکھی تھیں جو پردہ کرتی تھیں مگر کچھ خاص موقعوں پر پردے اتار بھی دیتی تھیں، نقاب پھسل جایا کرتے ہیں، مخصوص لوگوں میں یا شادیوں میں پردے اتر جاتے ہیں مگر انہیں مسئلہ نہیں ہوتا۔ شاید یہ وہ لوگ ہیں جو گھر والوں کے لیے پردہ کرتے ہیں۔
اس نے پہلی بار ایسی لڑکی دیکھی تھی جو پردہ اللہ کے لیے کرتی تھی، جس کے لیے نامحرم سے اپنا چہرہ چھپانا اتنا ضروری تھا کہ کچھ لوگوں نے جھلک دیکھ لی تو وہ پریشانی سے رونے لگی۔ حالانکہ اس کی فیملی، اس کا شوہر اس کے ساتھ نہیں تھے۔ مگر اس کے لیے یہ بات چھوٹی نہیں تھی۔
”آئم سوری میری غلطی ہے مجھے ضد نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پلیز ریلیکس ہو جائیں، بھائی کہیں گے میں نے آپ کو رلا دیا۔ میں پانی لاؤں آپ کے لیے؟“ فرح کی شرمندگی پر اس نے سسکتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
”مجھے کچھ نہیں چاہیے، باہر لے جائیں مجھے۔۔“ وہ کانپتے ہاتھوں سے سٹالر کو نقاب کی صورت سیٹ کرتے ہوئے فرح سے بولی۔ نیلی آنکھیں آنسو روکنے کی کوشش میں سرخ ہو رہی تھیں۔ فرح اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے ہوئے بھی بار بار معذرت کرتی رہی۔
سامنے دوستوں کے پاس کھڑا یافث اسی کا ویٹ کر رہا تھا۔ اس کے قریب آتا اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا، روتی ہوئی آنکھیں اور الٹا سیدھا سٹالر، نقاب کا کپڑا ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ وہ گھبرا کر اسے اپنے حصار میں لے گیا۔
”کیا ہوا ہے انہیں؟“ مائر نے پریشانی سے بہن سے سوال کیا۔ یافث اور راحیل کی سوالیہ نظریں بھی فرح پر ٹک گئیں۔ وہ گھبرا گئی۔
”ہم بس فیس دیکھنا چاہتے تھے ان کا، صائمہ نے ضد کر کے لپ سٹک لگا دی اور ان کا نقاب بھی میک اپ کی وجہ سے ڈرٹی ہو گیا۔ شاید اس لیے گھبرا گئیں۔“ فرح نے گڑبڑاتے ہوئے وضاحت دی۔ یافث نے لب بھنچے۔
”تم اس لیے اندر لے گئی تھیں، فیس دیکھ کر کیا کرنا تھا۔ صائمہ کو روکا کیوں نہیں۔۔“ مائر دانت پیستا بہن سے ناراض ہونے لگا۔
”اٹس اوکے مائر۔۔ اب ہم چلتے ہیں، ویسے بھی بہت دیر ہو گئی ہے۔“ یافث نے انہیں موڈ خراب کرنے سے روکا۔ راحیل بھی خاموشی سے کھڑا تھا۔ اس کے جانے کا سن کر چونک گیا۔
”یار ابھی تو پروگرام رہتا ہے۔ کچھ دیر رک جاتے، اتنے عرصے بعد گپ شپ ہو رہی ہے۔ بھابھی کو بےشک اپنے پاس بٹھا لینا۔“ راحیل نے اسے روکا۔
”نہیں راحیل، کل بات کر لیں گے۔ اب قوالی اور مشاعرہ کا پروگرام ہو گا تو ہم دونوں کو ان چیزوں میں انٹرسٹ ہی نہیں۔“ یافث معذرت کر رہا تھا۔ اوزگل اس کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ فرح کب کی کھسک کر جا چکی تھی۔
”مجھے پوئٹری میں انٹرسٹ ہے۔“ اوزگل نے پیچھے سے اس کی بات کاٹی، وہ رک کر گردن موڑتا اسے دیکھنے لگا۔
”تو کیا تمہیں رکنا ہے؟“ یافث نے حیرت سے سوال کیا۔
”نہیں۔۔“ وہ سسکتے ہوئے نفی میں سر ہلا گئی۔ یافث گہرا سانس بھر کر مائر اور راحیل کی طرف متوجہ ہوا، وہ مسکراہٹ دبائے یہاں وہاں دیکھ رہے تھے۔
”اوکے پھر ہمیں اجازت دو۔۔“ یافث نے سنجیدگی سے کہا۔
”آئم سوری یافث، فرح اور میری سب کزنز ایسی ناسمجھ اور پاگل ہیں۔۔ تم لوگ مائنڈ نہیں کرنا پلیز۔۔ کل آؤ گے ناں؟“ مائر پریشان ہوا۔
”ہاں آؤں گا۔ ڈونٹ وری، اس میں معذرت کرنے والی کیا بات ہے۔۔ تم دونوں انجوائے کرو اللہ حافظ۔۔“ یافث نرمی سے کہتا اوزگل کو لے کر باہر نکلا۔ گاڑی میں بیٹھ کر پارکنگ سے گاڑی نکالتے ہوئے ایک نظر اوزگل کو دیکھا۔ وہ سسک رہی تھی۔
”ایزی ہو جاؤ اوز۔۔۔ کچھ ہوا تو نہیں وہاں؟“ یافث نے اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے پوچھا۔ اسے اوزگل کا رونا ڈرا رہا تھا، وہم ستانے لگے تھے مگر اس نے ظاہر نہیں کیا۔
”ان لڑکیوں نے میرا زبردستی نقاب اتروایا اور تب وہاں باہر لڑکے بھی موجود تھے۔ ملازم لڑکوں نے بھی مجھے دیکھ لیا۔۔ میرا پردہ اترا ہے۔“ وہ روتے ہوئے بتا رہی تھی۔ یافث نے بےاختیار اسے دیکھا، اس کے لیے بھی یہ پہلا تجربہ تھا۔
ان کے خاندان میں سب عورتیں پردہ کرتی تھیں لیکن پردہ کرنے والی لڑکی اپنے پردے کے معاملے میں اتنی حساس ہوتی ہے اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ فکر مندی سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں تمہیں اسی لیے نہیں بھیجنا چاہتا تھا، تمہارا شوق دیکھ کر چپ ہو گیا۔ اوز تم نے جان بوجھ کر پردہ نہیں اتارا میری جان، اگر غلطی سے ہوا ہے تو اللہ بھی جانتا ہے۔ پلیز رونا بند کرو اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو۔“ یافث نے گاڑی چلاتے ہوئے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھالا اور دوسرا بازو اس کے گرد پھیلاتا اسے قریب کر گیا۔
”ہاں اللہ جانتا ہے مگر مجھے تب عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ وہ سب ایک دم جمع ہو گئی تھیں، میں انہیں منع کرتی رہی لیکن زبردستی میرا پردہ اتار دیا۔ مجھے اس لڑکی کی یہ حرکت گھبراہٹ میں مبتلا کر گئی تھی۔
میرا نقاب خراب ہو گیا، اس نے میرے منع کرنے کے باوجود مجھے اتنی ڈارک لپ اسٹک لگا دی۔ مجھے تب بہت رونا آ رہا تھا، میں کل نہیں آؤں گی۔“ وہ سسکتے ہوئے بولتی جا رہی تھی۔ یافث اس کا مزاج سمجھتا تھا۔ بات اتنی بڑی نہیں تھی مگر اوزگل بہت جلدی گھبرا جاتی تھی۔
وہ اسے گھر پہنچنے تک چپ کرواتا رہا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ وہ تھکن کا شکار ہو رہی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہی یافث کا ویٹ کیے بغیر آگے بڑھ گئی۔ وہ گاڑی پارک کر کے لفٹ تک پہنچا تو لفٹ پہلے ہی اوپر جا رہی تھی، اسے انتظار کرنا پڑا۔ ویسے وہ بہت ڈرتی تھی آج سب خوف غائب تھے۔
جب تک وہ فلیٹ میں پہنچا وہ اندر کمرے میں جوتے اتار کر بیڈ پر عبایا سمیت آڑھی ترچھی پڑی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی بہت تھکا ہوا تھا، اسے ٹھیک سے سونے کا کہہ کر چینج کرنے چلا گیا۔ واپس آیا تو وہ منہ چھپائے سسک رہی تھی۔
”اوز کیا ہو گیا ہے، اتنا کیوں رو رہی ہو۔۔“ وہ اسے سیدھا کرتا نرمی سے بولا۔ سرخ بھیگی آنکھیں، نم چہرہ اور لبوں پر ڈیپ ریڈ رنگ دیکھ کر یافث کے لیے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا۔
”اب میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔“ وہ اپنا سر پکڑے روتے ہوئے بول رہی تھی۔ وہ تاسف سے اس کی کمر میں بازو ڈال کر اسے اٹھاتے ہوئے اسے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا گیا۔
”ایک تو ہم آدھی رات تک وہاں رہے، پہلے ہی میوزک کا شور اتنا اری ٹیٹنگ تھا پھر تم اتنی دیر روتی رہی ہو۔ سر میں درد تو ہونا تھا۔ عبایا اتار کر ٹھیک سے لیٹو۔۔“ وہ اسے تھپتھپاتے ہوئے فکر سے بول رہا تھا۔
”ایسے نہیں آرام آئے گا، کوئی پین کلر لینی پڑے گی۔ میں کل نہیں جاؤں گی بس۔۔“ اوزگل اس سے الگ ہوتی سسکتے ہوئے بول رہی تھی، تھکاوٹ اور مسلسل رونے کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔
وہ عبایا اتار کر ایسے ہی گول مول کرتی دور صوفے پر پھینک گئی۔ ڈریس وہ پہلے ہی سمپل سا پہن کر گئی تھی۔ بالوں کا جوڑا بھی کھل چکا تھا، یافث خان کی نظریں اس کے ہوش ربا سراپا پر ٹک گئی تھیں۔
”پین کلرز مت لیا کرو ہر وقت، ریسٹ کرنے سے آرام آ جائے گا۔“ وہ میڈیسن لینے کے لیے بیڈ سے اترنے لگی جب وہ اس کی کلائی تھام کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے حصار میں قید کر گیا۔
”مجھے ٹشو لینے دیں، ہونٹ صاف کرنے ہیں۔“ وہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس کی طرف ہاتھ بڑھانے لگی۔ یافث نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔
”مت کرو صاف، ریڈ کلر تمہارے فیس پر اچھا لگ رہا ہے۔“ وہ وارفتگی سے اسے دیکھتا اس کے چہرے کو نرمی سے چھونے لگا۔ اوزگل اس کے دیوانگی بھرے حصار میں سمٹ سی گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°
”زرگل تمہاری طبیعت ٹھیک ہے ناں؟ اتنی چپ چپ سی کیوں ہو؟“ بیگم ثمر پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ اسے آئے تین چار دن ہو چکے تھے مگر پہلے جیسی نہیں لگ رہی تھی۔ نا وہ تحکم بھرا انداز، نا کوئی بات چیت نا ہمیشہ کی طرح کسی بات پر کوئی مسئلہ کھڑا کیا تھا۔۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ آئی تھی تو کوئی شور شرابہ نہیں کیا نا کسی کی شکایت لگائی نا زورک خان کی کوئی بات کی۔۔ چپ چپ سی بیٹھی رہتی تھی۔ ثمر خان کو لگتا تھا وہ ابھی تک اپنا نقصان ہونے کے بعد غم کی کیفیت سے نہیں نکلی۔
”میں ٹھیک ہوں مورے۔۔ آپ خود تو کہتی تھیں بڑی ہو جاؤ تو بس بڑی ہو گئی ہوں۔“ وہ مدھم لہجے میں بولی۔ سب شکایات اور سب گلے شکوے دم توڑ گئے تھے۔ اسے یقین تھا وہ اب کسی کو بتا بھی دے تو کوئی اس کی طرفداری نہیں کرے گا۔
اسے زورک خان کے الفاظ یاد رہ گئے تھے، کیا وہ واقعی بےحس تھی، پتھر دل تھی؟ اس کی وجہ سے کوئی خوش نہیں تھا۔ اس نے بہت غلطیاں کی تھیں مگر جو آخری غلطی تھی وہ تو بہت بڑی تھی۔ اتنی بڑی کہ اسے مہلت تک نہیں دی گئی۔
اس کی التجا بھی نہیں سنی گئی، وہ معافی کے قابل ہی نہیں رہی اور اسے حویلی سے نکال دیا گیا تھا۔ زورک خان کے روئیے اور باتوں سے اسے یہی لگا کہ اب اس کا انجام ہونا ہی یہی تھا۔ اسے لگا وہ ماں باپ کو بتائے گی تو وہ بھی کہیں گی دیکھا اپنے نخروں کا انجام۔۔
اس نے کبھی کسی کے سمجھانے کا اثر نہیں لیا اس لیے اب کسی سے شکایت بھی نہیں کر رہی تھی۔ زرگل لاڈ پیار پر جتنا زیادہ بگڑی تھی، اتنا زلت ملنے پر سدھر گئی تھی۔ اسے نا اتنی سختی کسی سے ملی تھی نا اتنی سرد مہری کا اس نے کبھی تصور کیا تھا۔
لاڈلے بچوں کا مسئلہ یہی ہوتا ہے وہ لاڈ پیار کی زبان سمجھتے ہیں اسی میں خوش رہتے ہیں۔ جہاں رویوں میں تلخی اور سختی آ جائے۔ وہ عام لوگوں سے زیادہ محسوس کرتے ہیں اور انہیں چوٹ بھی زیادہ لگتی ہے کیونکہ انہیں تلخ روئیے سہنے کی نا عادت ہوتی ہے نا تجربہ ہوتا ہے۔
زرگل کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اتنی چپ ہو گئی تھی کہ اس کے ماں باپ بھی گھبرا گئے، اسے ہر وقت سمجھانے والے اور سمجھدار ہونے کی نصیحت کرنے والے اب اس کی خاموشی پر پریشان ہونے لگے۔
”زرگل کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ بچہ دنیا میں نہیں آتا، پہلا تجربہ ہو تو غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ نقصان چھوٹا تھا، ایک ماں کے لیے تو وہ تکلیف بہت بڑی ہے لیکن بچے صبر کرو۔ تم نے تو اس غم کو سر پر سوار کر لیا ہے۔“
بیگم ثمر نے اسے نرمی سے سمجھایا تو وہ سر جھکا کر بیٹھی رہی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ اس نے بہت کوشش کی اپنا غم بانٹے مگر زبان جیسے تالو سے چپک گئی تھی۔ اسے لگا وہ شکوہ شکایت کا حق کھو چکی ہے۔
”مجھے تو زورک خان پر حیرت ہو رہی ہے، کیا وہ تمہیں سنبھالتا نہیں تھا؟ کیا وہ وقت نہیں دیتا تھا؟ میں لالا سے بات کروں گی۔ کیا اس لیے جلدی شادی کی ضد کی تھی۔ میری معصوم بیٹی کو توجہ ہی نہیں دیتا وہ۔۔“ وہ اسے سینے سے لگائے خفا ہونے لگی۔
”مورے سب توجہ دیتے ہیں، وقت بھی دیتے ہیں۔ آپ کسی سے شکایت نہیں کرنا لیکن۔۔ میری شادی واقعی جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اتنی جلدی کیوں کر دی، مجھے سنبھلنے تو دیتے۔ مجھے دوسروں کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ تو سیکھنے دیتے۔“
زرگل ان کے سینے سے لگتی رو پڑی۔ اسے وقت دیا جاتا تو شاید وہ ایسی غلطی نا کرتی اور نا زورک خان کا یہ روپ دیکھتی۔۔ اس نے ہمیشہ زورک کی نرمی دیکھی تھی، اس کی محبت پر اکڑتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ بھی بدل سکتا ہے۔
اس کی سختی کے بعد اور اس کے ہاتھ اٹھانے کے بعد سے تو وہ سہم گئی تھی۔ یعنی زورک خان اس پر چیخ بھی سکتا ہے اور اسے مار بھی سکتا ہے۔۔ یعنی اس کے نخروں اور لاپروائیوں کے دن ختم ہو گئے تھے۔
”کاش آپ لوگ مجھے کچھ وقت دیتے، مجھے سکھا کر بھیجتے شوہر کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔ کاش آپ بتا کر بھیجتے کہ شوہر کی محبت میں لاڈ نہیں ہو گا، مورے اتنی جلدی شادی کر دی اور کچھ سمجھایا بھی نہیں۔۔“ وہ روتے ہوئے شکوہ کر رہی تھی۔
”زرگل مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟ زورک خان نے کچھ کہا ہے کیا؟ جو نقصان ہوا اس میں تمہارا کیا قصور تھا۔ کیا تم اس کی وجہ سے ڈسٹرب ہو؟“ بیگم ثمر پریشانی سے بول رہی تھیں۔ اس بار زرگل جواب دینے کی بجائے صرف روتی رہی تھی۔
وہ فکرمندی سے اسے دیکھنے لگیں، کیا واقعی جلد شادی کا فیصلہ غلط تھا؟ حالانکہ یہ فیصلہ بھی خان حویلی والوں کی ضد پر لیا گیا تھا۔ زورک خان حویلی کا پہلا بیٹا تھا، وہ لوگ اس کی شادی کا ارمان لیے بیٹھے تھے۔ ان کی پرزور فرمائش پر یہ شادی ہوئی تھی۔
اوزگل کی شادی تو اس کی وجہ سے جلدی ہو گئی تھی۔ ورنہ علی زئی حویلی والے ایسی جلد بازی کبھی نہ کرتے۔ وہ لوگ خود ضد کر کے کم عمر زرگل کو بیاہ لے گئے تھے تو کیا اب اسے ٹھیک نہیں رکھ رہے تھے؟ وہ سوچوں میں گھری بیٹھی تھیں۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
”آپ نے آج آفس جانے سے پہلے مجھے جگایا کیوں نہیں، ناشتہ کر کے نہیں گئے آپ؟“ اوزگل کال پر اس سے پوچھتی پریشان ہو رہی تھی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی ایک تو دن بہت نکل آیا تھا اور یافث خان بھی آفس جا چکا تھا۔ اس کی بات پر فائلز پر سائن کرتا یافث نرمی سے مسکرایا۔
”اٹس اوکے میں نے آفس میں کافی اور سینڈوچ لے لیا تھا۔ تم لیٹ سوئی تھیں اس لیے نہیں جگایا۔ کیا تم نے ناشتہ کر لیا؟“ یافث نے اشارے سے اپنی سیکرٹری کو جانے کا کہتے ہوئے سوال کیا۔
”جی کر لیا ہے، مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے۔ مجھے واقعی تھکن ہو رہی تھی۔ میں فجر کے بعد سو گئی اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ میری آنکھ نہیں کھلے گی تو تب سونے کی بجائے پہلے ناشتہ بنا لیتی۔ آپ پورا دن کیسے گزارا کریں گے۔“ وہ فکرمند ہو رہی تھی۔
”میری جان اتنی پرواہ نہیں کرو، مجھے کچھ ہو جائے گا۔“ یافث آہستگی سے ہنسا۔ اوزگل نے خفت سے لب کاٹتے ہوئے اس کی مدھم ہنسی کی آواز سنی۔
”میں آج جلدی آؤں گا، تم تب تک کھانا بنا کر رکھنا اور آج رات شادی پر بھی جانا ہے۔ کیا تم جاؤ گی؟“ یافث نے ہدایت دیتے ہوئے سوال کیا۔
”نہیں، میں کل بتا چکی ہوں نہیں جاؤں گی۔ اب میں کھانا بناتی ہوں۔“ وہ جلدی سے بولتی کال کاٹ گئی، یافث کو مزید کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ اس کی جلد بازی پر حیران ہوتا موبائل ایک طرف رکھ گیا۔ اوزگل کچن میں پہنچ کر خوشنما کو کال ملا گئی۔
”مجھے وہ چکن جلفریزی بنانے کا طریقہ بتاؤ جو تم نے بنائی تھی۔ آج میں بنانا چاہتی ہوں۔“ چاول دھو کر ابالنے کے لیے چولہے پر رکھے اور ہینڈز فری کانوں میں لگائے وہ اس سے بات کرنے لگی۔
”ضرور بتاؤں گی پہلے بتاؤ کس کے لیے بنا رہی ہو؟” خوشنما نے شرارت سے پوچھا۔
”اپنے لیے بنا رہی ہوں، آج موڈ ہو رہا ہے۔ تم نے کہا تھا میں جب پوچھوں گی تو تم بتاؤ گی۔“ اوزگل نے فریج کھول کر ٹماٹر اور شملہ مرچ نکالتے ہوئے اسے یاد دلایا۔
”ہاں اور تم نے کہا تھا تم سپیشل بندے کے لیے بناؤ گی، تب مجھ سے پوچھو گی۔ سپیشل بندے کے لیے بنا رہی ہو؟“ خوشنما نے بھی اسے اس کے الفاظ یاد دلائے، وہ جھینپ گئی۔
”ہاں ان کے لیے ہی بنا رہی ہوں۔“ وہ آہستگی سے بولی۔ خوشنما اس کے الفاظ پر چیخ پڑی۔
”علیزے کی بچی، کیا چکر چل رہے ہیں۔ اس دن تم نے کہا کچھ بتانا ہے اور آج سپشل بندے کے لیے کھانا بنا رہی ہو۔۔ سچ سچ بتاؤ تمہارے اندر اچانک اتنا بڑا چینج کیسے آیا؟“ خوشنما بےیقینی کا شکار ہو رہی تھی۔
”میں سچ سچ بتاؤں گی جب تم دونوں آؤ گی، ابھی تو مجھے ریسپی بتا دو پلیز۔۔“ اس نے بات بدلی۔ خوشنما نے گہرا سانس بھر کر اسے طریقہ سمجھایا وہ ساتھ ساتھ سامان برابر کرتی گئی اور چکن جلفریزی تیار کرنے لگی۔
”تمہاری چھٹیاں کیسی گزریں؟ اب تو پھر سے یونی سٹارٹ ہونے والی ہے۔ آزادی اور عیش ختم ہو جائیں گے۔“ خوشنما کے سوال پر اس نے آہ بھری۔
”مجھے کہاں جانا تھا۔

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!