Shopping cart

Novels in Urdu is a platform where you will get to read quality content and beautiful full novels. There are all types of novels here, visit our website to read your favorite novels. Here You can find all types of novels online and download them as a PDF, so you can read them anytime.

Cousin Marriage Based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva Episode 27 Complete

Wo Humsafar Tha
Email :4144

Genre: haveli based, Age difference based, twins sister based, cousin marriage based, young heroin based

Wo Humsafar Tha by Yaman Eva

وہ ہمسفر تھا
بقلم یمن ایوا
قسط ستائیس

ہسپتال سے وہ سب ثمر خان کی حویلی پہنچے تھے کیونکہ وہ ہسپتال کے قریب تھی۔ سب کو ہی زرگل کے اس نقصان کا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔ بیگم ثمر کو ایک اطمینان تھا کہ زرگل کی زندگی بچ گئی تھی مگر زورک خان کی ماں کو اپنا پہلا وارث کھو دینے کا غم نہیں بھول رہا تھا۔
”زرگل کو تم نے پین کلرز دی تھیں اوزی؟ جانتی ہو یہ سب اس ٹیبلٹ کی وجہ سے ہوا ہے، ایک بھی نہیں دو ٹیبلٹس اور اتنی ہیوی ڈوز۔۔ تمہیں احساس ہے تم نے ہمارا کتنا بڑا نقصان کر دیا ہے۔۔“ زورک خان کے سرد تاثرات پر اوزگل نے گھبرا کر اسے دیکھا۔ وہ ابرو چڑھائے اسے دیکھ رہا تھا۔
”کیا مطلب کون سی ٹیبلٹ؟“ خان داد اور ان کی بیوی حیرت زدہ سے اوزگل کو دیکھ رہے تھے، بلکہ ثمر خان اور بیگم ثمر بھی ٹھٹک گئے تھے۔ اوزگل سب کی نظریں خود پر ٹکی دیکھ کر پریشان ہوئی۔
”اس کے سر میں درد تھا، اس نے خود کہا کہ پین کلر دوں۔۔“ اوزگل نے پریشانی سے وضاحت دینی چاہی۔ بیگم ثمر نے گھبرا کر اوزگل کو دیکھا۔ زرگل بچ گئی تھی مگر ان کا بچہ نہیں رہا تھا اور اب وہ لوگ اوزگل سے سوال کر رہے تھے۔
”اوزی کیا واقعی تم نے زرگل کو ٹیبلٹس دیں؟“ بیگم ثمر نے اوز سے سوال کیا تو وہ انہیں دیکھنے لگی۔
”مورے اس نے مانگی تو میں نے اٹھا دی، مجھے کیا پتا تھا نہیں دینی ہوتی اور اسے منع کیا تھا کہ آپ سے پوچھے بغیر نا لے، مجھے کیسے پتا ہو گا کہ کیا لینا ہے کیا نہیں۔“ اوزگل نے صفائی دی۔ وہ لب بھنچ کر اسے دیکھنے لگیں۔
”تم نے مجھے فوری کیوں نہیں بتایا، مجھے جگا دینا تھا۔ اتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے، ساری عمر تمہیں گلٹ رہے گا۔ اور پین کلر دو دو ٹیبلٹس کون ایک ساتھ لیتا ہے۔ یہ کیا بےوقوفی کر دی تم نے۔۔“ بیگم ثمر نے دبے دبے لہجے میں غصہ کیا۔
”تمہارے اتنا پڑھنے کا کیا فائدہ جب تمہیں اتنا بھی پتا نہیں کہ اس حالت میں کوئی بھی دوا دینے سے پہلے پتا کر لیتیں۔ ہماری یہاں جان سولی پر ٹنگی رہتی تھی، پہلے ہی زرگل اتنی لاپرواہ ہے۔ اس پر تم نے جو حرکت کی، ہمارے وارث کو مار دیا۔ ہمارا نقصان کر دیا تم نے۔۔“ بیگم خان داد ایک دم اس پر چیخیں۔
اوزگل بری طرح سہم گئی، ایک طرف بیٹھے مرد بھی متوجہ ہوئے۔ اوزگل ہراساں سی زورک خان اور اپنی ممانی کو دیکھ رہی تھی۔ نقصان واقعی چھوٹا نہیں تھا لیکن غلطی اوزگل کی نہیں تھی۔ بیگم ثمر بڑی بھابھی کے غصہ پر گھبرا گئیں۔
”مامی میں نے زرگل کو منع کیا تھا، میں نے خود سے نہیں دی۔“ اوزگل کو رونا آیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے عدالت لگ گئی تھی، وہ لوگ اس کی وضاحت سننے کو تیار نہیں ہوئے۔ زورک خان سے کزن سے زیادہ دوستی کا تعلق تھا، وہ پہلے بھی غصہ کرتا تھا لیکن آج کے غصہ میں فرق تھا۔
”کیا ہوا ہے؟ یہ کیسا شور ہے۔“ خان داد نے بیوی سے سوال کیا۔ ثمر خان بھی سوالیہ نظروں سے ان سب کو دیکھ رہے تھے۔ روتے روتے اچانک ہی شور ہونے لگا تھا۔اوزگل خوف زدہ سی ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہونا ہے، جو نقصان ہوا وہ اوزگل کی مہربانی تھی، اس نے زرگل کو غلط دوا دی اور ہمارا اتنا بڑا نقصان ہو گیا۔ کیا یہ اتنی بچی ہے۔ اتنا بھی نہیں پتا ماں سے پوچھ لیتی۔۔“ بیگم خان داد غصے سے بول رہی تھیں۔ اوزگل کی آنکھوں سے آنسو گرے، اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے آنسو صاف کیے۔
”اوزگل نے کب دی؟ رات تک تو ہم سب ساتھ تھے۔ پھر یہ سونے چلی گئی۔ اوزی کیا واقعی تم نے بہن کو کوئی ٹیبلٹ دی ہے؟“ ثمر خان نے اوزگل کو خود سے لگاتے ہوئے پریشانی سے سوال کیا۔ زرگل اپنے کمرے سے نکل آئی تھی۔ اوزگل کا دل چاہا ان سب سے کہے کہ زرگل سے پوچھ لیں مگر ایک دم اس کے دماغ میں جھماکہ ہوا۔
جب اس نے ٹیبلٹ دی تب وہ دونوں بہنیں اکیلی تھیں۔ جو بات ہوئی ان کے درمیان ہوئی تھی۔ پھر زورک خان کو کس نے بتایا کہ میڈیسن اوزگل نے دی تھی؟ وہ ساکت سی اپنی جگہ جمی رہ گئی۔ زرگل ایک بار پھر اسے پھنسا چکی تھی۔ وہ بےیقینی سے زرگل کو دیکھنے لگی۔
”زرگل مجھے بتا چکی ہے، اس کی لاپروائی نے میرا نقصان کر دیا ہے۔ اگر زرگل کی حالت نا سنبھلتی اور اسے کچھ ہو جاتا۔۔“ زورک خان نے آگے بڑھ کر زرگل کو سہارا دیا۔ اس کا دماغ خالی ہو رہا تھا۔ اسے گہرا صدمہ پہنچا تھا اور اوزگل پر شدید غصہ آ رہا تھا۔ اوزگل سر جھکائے رونے میں مصروف تھی۔
”ہم اپنے ہیں چیخ چلا کر چپ کر جائیں گے۔ کوئی اور ہوتا تو آج تم لوگوں کے لیے اس نقصان کا ازالہ کرنا مشکل ہو جاتا۔ شادی شدہ لڑکی ہو، تھوڑی عقل کر لو، کل کو اپنا بھی نقصان کرتی پھرو گی۔ یہ تو زورک خان ہے، برداشت کر گیا۔ خان زادہ کا تو ایسا مزاج بھی نہیں۔“ بیگم خان داد نے اوزگل کو جتایا۔
”اسے سمجھ نہیں آئی ہو گی، اس نے بہن کو تکلیف میں دیکھا تو دوا دے دی۔ اس بات کو ختم کرو۔ اتنا تماشہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ خان داد نے بیوی کو چپ کروایا۔ علی زئی حویلی والے بھی اسی وقت زرگل سے ملنے پہنچ گئے تھے، اس کے نقصان کی خبر ان تک پہنچ چکی تھی۔۔
”اللہ صبر دے تم لوگوں کو۔۔ بہت دکھ ہوا مجھے تو، لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ زرگل تمہیں آرام کرنا چاہیے، حالت دیکھو اپنی۔۔۔“ دی جان نے آنسو صاف کرتے ہوئے زرگل کو سینے سے لگایا۔ آرام کرنے کا تو سب نے کہا تھا مگر اسے خوف تھا اس کے پیچھے اوزگل سچ نا بول دے۔ کہہ نا دے کہ زرگل نے خود میڈیسن لی ہے۔
”کیا ہوا؟ سب خیریت ہے ناں؟“ یافث نے زورک خان اور اس کی ماں کے چہرے پر غم سے زیادہ غصے کے تاثرات دیکھے تو پریشانی سے پوچھا۔ اوزگل کا دم گھٹنے لگا، زرگل کی التجائیہ نظریں اس پر ٹکی تھیں کہ وہ خاموش رہے اور چپ رہنے پر الزام اسی کے سر آ رہا تھا۔
”خیریت کہاں رہی ہے۔ پین کلر کی ہیوی ڈوز لینے سے یہ نقصان ہوا ہے۔ بےبس ہیں کچھ کر تو نہیں سکتے، یہ تو زرگل کو اللہ نے بچا لیا، شکر ہے لیکن۔۔ جو نقصان ہوا اس کا دکھ ہے۔۔“ زورک خان نے غمزدہ لہجے میں بولتے ہوئے شکوہ کرتی نظر اوزگل پر ڈالی۔
”کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے، اب تو جو ہونا تھا ہو گیا، زرگل آئندہ ان چیزوں کا بہت خیال رکھنا بیٹا۔۔ ورنہ یہ تکلیف پھر جان نہیں چھوڑتی۔۔“ بیگم خان نے صوفے پر آرام دہ حالت میں بیٹھی زرگل کو نرمی سے سمجھایا۔
”چیک اپ نہیں کرواتے تھے؟ ڈاکٹرز تو سب تفصیل سے سمجھاتے ہیں، کوئی میڈیسن ہام فل تھی تو نہیں لینی چاہیے تھی ناں۔۔“ ایک طرف صوفے پر بیٹھتے ہوئے یافث خان نے تاسف سے کہا۔
”چیک اپ تو کرواتا رہتا تھا، دو تین بار شہر بھی لے گیا۔ ڈاکٹر نے بھی سمجھایا اور میں بھی سمجھاتی تھی لیکن یہ نقصان زرگل کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ لوگوں کی بہو کی مہربانی سے ہوا ہے۔ اس کے سر درد ہوا تو اوزگل نے پین کلرز دے دیں۔“ بیگم خان داد نے روتے ہوئے کہا۔
یافث نے ٹھٹک کر اوزگل کو دیکھا۔ وہ چہرہ چھپائے مسلسل آنسو بہا رہی تھی، اسے لگا تھا وہ زرگل کے نقصان پر رو رہی ہے۔ اسے ماحول میں کشیدگی محسوس ہوئی۔ بیگم خان داد کے جملوں پر ثمر خان ضبط کیے بیٹھے تھے۔
بیگم ثمر نے بھی خفت سے پہلو بدلا جبکہ بیگم خان اور دی جان بھی پریشانی سے اوزگل کو دیکھنے لگے۔ عجیب مشکل میں گھر گئے تھے، ایک طرف آنسو بہاتی زرگل تھی جس کا نقصان ہوا تھا اور دوسری جانب اوزگل تھی جو سہمی ہوئی سی اپنی ممانی کو دیکھ رہی تھی۔
خان حویلی والوں کا غصہ جائز تھا مگر یہاں سچ کوئی نہیں جانتا تھا، اوزگل بہن کی نظروں سے پریشان کھل کر صفائی نہیں دے پا رہی تھی۔ ثمر خان پریشان ہوئے، دونوں بیٹیاں عزیز تھیں۔ سمجھ نہیں پائے کیسے خان حویلی والوں کو خاموش کروائیں اور کیسے اوزگل کی طرف داری کریں۔
”ممانی میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ زرگل کو اگر اندازہ تھا تو وہ منع کر دیتی۔“ اوزگل نے ان کی ایک ہی بات پر بےاختیار روتے ہوئے صفائی دی۔ سب کے درمیان الزام لگنے پر اسے شدید شرمندگی ہو رہی تھی۔ یافث نے اس کے یوں رونے اور وضاحتیں دینے پر لب بھنچے۔
”وہ ہوش میں نہیں تھی اوزگل، اپنی غلطی کو جسٹی فائی مت کرو۔ یہ تو شکر ہے زرگل بچ گئی لیکن جو نقصان کیا ہے اسے مان لو۔۔ اور مورے آپ بھی اس بات کو ختم کریں۔ اب بار بار اس بات کو دہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔“ زورک خان نے تلخی سے کہا۔
”وہ ہوش میں نہیں تھی تو تم کہاں تھے؟ اتنی نازک حالت تھی تو ساتھ رہتے۔ اب بھی تو یہاں بیٹھے ہو۔ ساتھ آ جایا کرو۔ جب وہ کہہ رہی ہے زرگل نے ٹیبلٹ مانگی تو اوزگل کو کیسے اندازہ ہوتا اسے کون سی میڈیسن دینی ہے اور کون سی نہیں۔۔
اپنی زمہ داری خود سنبھالو زورک خان تاکہ تمہیں ایسے کسی سے سوال نا کرنا پڑے۔ اب یہاں عدالت سجا کر اوزگل کو الزام دینے سے تمہیں واقعی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔“ یافث خان نے سنجیدگی سے اسے باور کروایا کہ اب وہ اوزگل کی طرف نا دیکھے۔ زورک نے لب بھنچ کر یافث کو دیکھا۔
”بیٹے تم بول سکتے ہو مگر جس نے اپنا بچہ گنوایا ہے اس باپ کی کیفیت نہیں سمجھ سکتے۔ اب کیا وہ بیوی کے ساتھ ساتھ رہتا؟ اوزگل کے اتنا پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ جب۔۔“ بیگم خان داد نے بولنا چاہا جب وہ ان کی بات کاٹ گیا۔
”وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ نہیں ہے۔ اگر پڑھنے لکھنے سے گھر بیٹھے سب آتا ہے تو زورک خان سے کہیں یہ بھی آپ سب کو بیماری میں ہاسپٹل لے جانے کی بجائے خود علاج کیا کرے۔ یہ تو پھر جرمنی سے پڑھ کر آیا ہے۔
اس کے غم کا مجھے احساس ہے لیکن آپ لوگ بغیر کسی ثبوت کے سب کے درمیان میری بیوی سے سوال نہیں کر سکتے۔“ یافث خان نے ان کی بات درمیان میں کاٹتے ہوئے زورک خان کو دیکھا۔
”اور کیا ثبوت ہے کہ نقصان اوزگل نے ہی کیا ہے۔ زرگل کی طبیعت خراب تھی تو اسے تمہیں کال کرنی چاہیے تھی۔ ہاسپٹل جانا چاہیے تھا۔ یا سب کی طرح اس نے بھی یہی سمجھ لیا اوزگل کی پڑھائی لکھائی اس کا علاج کرے گی۔
بچے کی اصل زمہ داری تم دونوں کے سر تھی، اب اوزگل سے سوال مت کرو۔۔“ یافث نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔ امروز خان نے پریشانی سے یافث کا کندھا تھپکتے ہوئے اسے چپ ہونے کا اشارہ دیا۔
”ٹھیک کہا، ہماری زمہ داری تھی۔ اور میرے خیال میں بہتر یہی ہے آئندہ اوزگل ان زمہ داریوں سے دور رہے۔ اگر یہ مہربانی کر رہی تھی تو مجھے فون کر دیتی۔ اگر تب میں نا آتا تو آج اس سے کبھی سوال نا کرتا۔“ زورک خان نے غصہ ضبط کیا۔
”یہ کیا بحث شروع کر دی ہے۔ دونوں چپ ہو جاؤ، بس اللہ نے یہ نقصان ہماری قسمت میں لکھا تھا سو ہو گیا۔ اللہ مزید نقصانات سے محفوظ کرے۔ زرگل کو کمرے میں لے جاؤ، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔“ خان داد نے ان دونوں کو غصہ کرنے سے روکا۔
”میں لے جاتی ہوں۔“ اوزگل نے اٹھ کر زرگل کو سہارا دیا اور اسے کمرے میں لے گئی۔ کمرے میں جاتے ہوئے بھی اوزگل جانتی تھی پیچھے اسی پر بات ہو رہی ہے۔ اسے ہر وقت محبت سے ملنے والی ممانی کا اس سے دل برا ہو چکا تھا۔ زورک خان بھی اجنبی سا لگ رہا تھا۔ اس کا دل بھاری ہونے لگا۔
”تم نے زورک خان سے جھوٹ کیوں بولا زر؟ تم نے مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں نے ٹیبلٹ دی تھی؟ میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ میں دودھ لے کر آئی تو تم سو چکی تھیں۔ تمہارے جھوٹ نے مجھے سب میں مجرم بنا دیا۔ وہ لوگ مجھے برا سمجھ رہے ہیں۔“ اوزگل نے اسے بستر پر لٹاتے ہوئے سوال کیا۔
”اوز تمہیں تو آج کچھ باتیں سننے کو مل رہی ہیں مگر ان لوگوں کو سچ پتا چلا تو میں ساری عمر باتیں سنوں گی۔ زورک خان مجھے مار ڈالے گا۔ رات میرا سر شدید درد کر رہا تھا۔ مجھے خیال نہیں آیا اور میں نے میڈیسن لے لی۔ پلیز تم کچھ مت بولنا، تمہیں تو خان زادہ اپنے پیچھے چھپا لے گا۔
میرا کیا بنے گا، میرا سوچو میں کہاں جاؤں گی۔ مجھے اپنے بیبی کا غم بھی ہے اور زورک خان کا خوف بھی۔۔ میں کیا کیا جھیلوں گی، مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ میں نے۔۔ خوف میں تمہارا نام لے لیا۔ پلیز مجھے معاف کر دو اور کسی کو سچ مت بتانا۔ میں نے بھی جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔“
زرگل روتے ہوئے اس کی منتیں کرنے لگی۔ اوزگل کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ زرگل کو خوف تھا اس کی غلطی کی اسے سزا دی جائے گی، زورک خان کا غصہ ظاہر بھی یہی کر رہا تھا۔ اسے زرگل سے بہت محبت تھی مگر ناجانے اس کی غلطی برداشت کرتا یا نہیں۔۔

زرگل ڈری ہوئی تھی اور مشکل سے نکلنے کے لیے اسے اوزگل ہی نظر آتی تھی۔ زرگل بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی اور وہیں قریب نیچے قالین پر بیٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی اوزگل آنسو بہانے لگی۔ دونوں پریشان تھیں لیکن زرگل کی پریشانی زیادہ بڑی تھی، اوزگل اس کی خاطر خاموشی اختیار کر گئی۔

یافث خان سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا، ساتھ والی سیٹ پر اوزگل شال میں چہرہ چھپائے سر جھکا کر بیٹھی تھی۔ گاڑی میں بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب نے کہا تھا اوزگل کو ایک دو دن مزید رکنے کی اجازت دے مگر وہ نہیں مانا۔ ویسے تو پہلے بھی اس کا یہی ارادہ تھا۔
مگر اب تو ماحول میں جو تلخی چھائی ہوئی تھی، وہ اوزگل کو وہاں اکیلا چھوڑ کر آنے کے لیے بالکل راضی نہیں ہوا۔ اس نے گردن موڑ کر بالکل خاموش بیٹھی اوزگل کو دیکھا۔ اس سے تو پوچھا ہی نہیں تھا وہ رکنا چاہتی تھی یا نہیں۔۔ یافث خان نے کہا تو چپ چاپ ساتھ چلی آئی۔
”میں نہیں جانتا وہاں کیا ہوا۔ تم نے زرگل کو پین کلرز دیں یا نہیں مگر ان سب کا تمہیں برا بھلا کہنا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا، اب وہاں مزید رکنا تمہیں بھی اپ سیٹ کرتا۔ میں جتنی دیر وہاں تھا، تم روتی رہی ہو۔ اس لیے ساتھ لا رہا ہوں۔ تمہیں کوئی ایشو تو نہیں؟“ یافث نے نرمی سے سوال کیا۔
”نہیں۔۔ میں بھی آنا چاہتی تھی۔“ اوزگل نے آہستگی سے جواب دیا۔ اب بھی اس نے سر نہیں اٹھایا تھا۔ یافث جانتا تھا زرگل کے ساتھ جو حادثہ ہوا اوزگل کو پریشان کر گیا تھا۔ اور اوزگل آنسو بہاتی یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں یافث خان بھی اسی کو غلط نہ سمجھ لے۔
یافث باقی راستے خاموش رہا یا کالز پر مصروف رہا تھا۔ اس کی کالز سے اوزگل کو اندازہ ہوا اسے جلد واپس جانا تھا، کام کا حرج ہو رہا تھا۔ حویلی پہنچے تو یافث آغا جان سے ضروری بات کرنے کے لیے مردان خانے میں چلا گیا۔ اوزگل دی جان کے پاس بیٹھ گئی۔
”خان حویلی والوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے، تم پریشان مت ہونا ان کی باتوں پر۔۔۔ ہمیں پتا ہے تم نے جان بوجھ کر وہ سب نہیں کیا، یہ غم تکلیف تو اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے، بچے مر جاتے ہیں تو کیا ہر بار کسی کی غلطی ہوتی ہے۔“ دی جان اسے خود سے لگائے خفگی سے بول رہی تھیں۔
”ان کی پہلی خوشی تھی تو جذباتی ہو رہے ہیں۔ اللہ نے بس زرگل کو بچا لیا، بیٹا ان باتوں میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔“ خان بیگم نے اسے تسلی دیتے ہوئے نرمی سے سمجھایا۔
وہ تو یہ سن کر ہی گھبرا گئی تھیں کہ زرگل کو میڈیسن دینے والی اوزگل تھی۔ ایک دم ڈر سی گئی تھیں، اوزگل کل کو اپنے ہونے والے بچوں کا یہی حال نہ کر دے۔ اوزگل ان کا خوف پہچان رہی تھی، اس لیے خاموش رہی۔ وہ انہیں بتانا چاہتی تھی اس نے ٹیبلٹ نہیں دی۔
اس نے زرگل کو بھی لینے سے منع کیا تھا لیکن زرگل کی وجہ سے یہ بات بھی نہیں کر پائی۔ بول دیتی تو بات زورک خان تک پہنچ جاتی اور پھر زرگل کی خیر نا ہوتی۔ دی جان نے اسے گم صم اور پریشان دیکھا تو آرام کرنے کے لیے کمرے میں بھیج دیا۔
اوزگل اپنے کمرے میں آتے ہی بستر پر لیٹ گئی، رات سے جاگی ہوئی تھی۔ پہلے وہ لوگ ہسپتال میں رکے رہے پھر وہ حادثہ ہو گیا اور پھر زورک خان اور اس کی ماں کی ناراضگی۔۔ نا کچھ کھایا تھا نا سو پائی تھی۔ رو رو کر آنکھوں کی حالت بگڑ چکی تھی۔
یافث کچھ دیر بعد کمرے میں آیا تو اسے یوں بستر پر آنکھیں بند کر کے پڑا دیکھ کر دوسری طرف سے بیڈ پر بیٹھتا اس کے قریب ہوا۔ سوجی ہوئی آنکھیں اور سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر اس نے افسوس سے اس کا سر تھپکا، اوزگل سیدھی ہوتی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔
”تم نے کھانا کھایا؟“ یافث نے نرمی سے پوچھتے ہوئے اس کے دوسرے رخسار پر غیر معمولی سرخی محسوس کی تو ٹھٹک گیا۔ وہ اس کے سوال پر نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
”یہ کیا ہوا ہے؟ اور ایسے کیوں پڑی ہو۔۔ میں تمہارے لیے کھانا لاتا ہوں، کچھ کھاؤ اور ریسٹ کرو۔ جو بھی ہوا اس میں تمہارا قصور نہیں تھا۔“ یافث نے اس کے سوجے ہوئے رخسار کو نرمی سے چھوتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
اوزگل کی خاموشی پر کھانا لانے کا سوچ کر وہ اٹھا مگر اوزگل ایک دم اٹھ کر اس کے گلے میں بانہیں ڈالتی اس کے سینے میں سمٹی۔ یافث نے بےاختیار اسے اپنے حصار میں سنبھال کر بٹھاتے ہوئے خود میں چھپا لیا۔
”میرا واقعی قصور نہیں ہے۔ میں وہ پین کلرز زرگل کو نہیں دی تھیں۔ اس نے خود کھائیں۔ میں تو جانتی بھی نہیں تھی۔ سب مجھے غلط سمجھ رہے ہیں، مامی نے مجھے باتیں سنائیں۔ میرا قصور نہیں ہے۔“ وہ اس کے سینے میں چہرہ چھپائے بری طرح رونے لگی۔
”تم نے ان سب کو کیوں نہیں بتایا، زورک خان کی ہمت کیسے ہوئی تم پر الزام لگانے کی۔۔ مجھے تب کیوں نہیں بتایا اوز، وہ کون ہوتے ہیں تمہیں باتیں سنانے والے۔۔“ یافث کے نقوش تن گئے تھے۔ اوزگل کا چہرہ اپنے سامنے کرتے ہوئے ضبط سے بولا۔
”زرگل۔۔ ڈری ہوئی تھی، اس نے میرا کہہ دیا۔ میں آپ کو نہیں بتا سکتی تھی، اگر زرگل کا پتا چلتا تو وہ لوگ۔۔“ اوزگل سہمی ہوئی سی بول رہی تھی۔
”تم نے اسے بچانے کے لیے خود پر الزام لے لیا؟ کیوں اوز۔۔ تم قاتل بنی ہو، وہ لوگ اس لیے تم پر چیخ رہے تھے۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔ تم نے اتنی بڑی بات پر خاموشی اختیار کر لی۔“ یافث کا بس نہیں چل رہا تھا اسی وقت جا کر سب کو حقیقت بتائے۔
”نہیں، ہم سچ نہیں بتا سکتے۔۔ آپ بھی نہیں بتائیے گا۔ میرے پاس تو آپ ہیں، زرگل کو وہ لوگ جیتے جی مار ڈالیں گے۔ زورک خان بہت برا ہے۔ بہت برا ہے وہ۔۔ زری ڈر گئی تھی۔ ہم اسے کبھی نہیں بتائیں گے پلیز۔۔“ وہ اس کے حصار میں چھپتی روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”ٹھیک ہے تم چپ ہو جاؤ، گھبراؤ مت۔۔ میری غلطی تھی تمہیں وہاں بھیج دیا۔ تم میرے بغیر اب خان حویلی والوں سے تو کبھی نہیں ملو گی۔ دوبارہ کسی نے تمہیں کچھ کہا تو مجھے بتانا۔۔ تم مجھے تب بتا دیتیں، میں ان لوگوں کو تم پر انگلی اٹھانے کی جرات نا کرنے دیتا۔“
یافث کے جبڑے بھنچ گئے تھے۔ اوزگل نے اس کے سرد لہجے پر گھبرا کر اسے دیکھا تو وہ آنکھوں میں فوراً نرم تاثرات لے آیا۔ نہایت نرمی سے اس کے سوزش زدہ نم چہرے کو لبوں سے چھوتا اس کا غم ہلکا کرنے لگا۔
”اگر کبھی تکلیف میں مجھ سے ایسی غلطی ہو گئی تو کیا آپ مجھ پر۔۔ ایسے ہی غصہ کریں گے؟“ وہ سہمی ہوئی سی سوال کر رہی تھی۔
”میری جان میں تمہیں اس حال میں کہیں نہیں بھیجوں گا۔ نا تمہیں اکیلا چھوڑوں گا نا کوئی غلطی ہو گی۔ میں زورک خان نہیں ہوں جس سے تم ضد کرو گی تو میں بھی بھیج دوں گا۔“ وہ اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتا اطمینان سے بولا۔ اوزگل کے چہرے کی سرخی بڑھ گئی۔
”زرگل کا بھی قصور نہیں ہے۔ اس کے سر میں بہت درد تھا۔ اسے تکلیف میں خیال نہیں آیا۔ اسے بھی اس حادثہ کا غم ہے لیکن خوف سے وہ سچ نہیں بول پائی۔۔“ اوزگل افسردگی سے زرگل کو سوچنے لگی۔
”تم ان کا معاملہ ان دونوں پر چھوڑ دو، ہو سکتا ہے زرگل اپنی بات کی وضاحت کرتی تو زورک خان تھوڑا بہت غصہ کرنے کے علاوہ کچھ نا کہتا۔ تم دونوں نے خود سے مان لیا زورک خان اسے معاف نہیں کرے گا۔ میں بھی تمہارے لیے ایسا ہوں، تمہاری غلطی معاف کر سکتا ہوں۔
کوئی اور تمہیں نقصان پہنچائے تو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ زورک خان نے تو صرف غصہ کیا ہے، میں تو مجرم کا حلیہ بگاڑ دیتا۔“ یافث خان کے سنجیدہ لہجے پر اوزگل نے خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ گہرا سانس بھر کر اس کے ماتھے پر لب رکھ گیا۔
”خیر ہمیں کیا پتا سچ پتا چلنے پر کیا ہوتا۔ آج ایسا ہو گیا لیکن آئندہ تم کسی دوسرے کی غلطی پر سر نہیں جھکاؤ گی، تم مجھے بتاؤ گی ورنہ تمہاری خیر نہیں۔۔ اب چھوڑو اس بات کو، میں تمہارے لیے کھانا لاتا ہوں۔ پہلے کچھ کھاؤ پھر بات ہو گی۔۔“
یافث اسے سمجھا کر کمرے سے نکل گیا۔۔ اوزگل نے اس کی باتوں کو سوچتے ہوئے بےساختہ جھرجھری لی۔ وہ اٹھ کر ملگجا لباس بدل کر منہ ہاتھ دھو آئی۔ بھوک بھی ستا رہی تھی اور اب نیند سے آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ یافث کھانا ٹیبل پر رکھے اس کا انتظار کر رہا تھا۔
اوزگل کھانا کھانے لگی، وہ اس کے پاس بیٹھا چائے پیتے ہوئے اسے دیکھتا رہا۔ کریم کلر کے ہلکے سے لباس میں وہ پہلے سے قدرے بہتر لگ رہی تھی۔ اس نے جیسے تیسے کھانا کھایا اور بستر پر جا کر لیٹ گئی۔
”کھانا کھاتے ہی سو گئیں، تھوڑی واک کیا کرو۔ اتنی نیند کہاں سے لاتی ہو۔۔“ یافث نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”میں رات سے جاگی ہوئی ہوں، تین بجے سے۔۔ جب زرگل کی طبعیت خراب ہوئی۔ تب سے بیٹھے بیٹھے اب حالت خراب ہو رہی ہے۔“ اوزگل نیند بھری آواز میں اسے بات رہی تھی۔ وہ بےساختہ اٹھ کر اس کے پاس بیٹھا۔
”اوز کل میں نے واپس جانا ہے۔ دس پندرہ دن ہیں پھر لینے آؤں گا تمہیں، میرے فرینڈ کی شادی ہے۔“ یافث کے بتانے پر وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس کے قریب نیم دراز اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔ اس کے دیکھنے پر سوالیہ انداز میں ابرو چڑھائے۔
”مجھے اپنے ساتھ لے جائیں، میں بھی آپ کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔“ اوزگل کو ناجانے کیا ہوا تھا، ایک دم اس کے گرد بازو پھیلاتی اس کے سینے میں سمٹ کر گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ یافث نے پریشانی سے اسے اپنے حصار میں لیا۔
”ڈر کس سے رہی ہو، میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج بھی میں تمہاری وجہ سے چپ ہو گیا ہوں۔ گھبراؤ نہیں، میرے ساتھ جانا ہے تو مجھے اور کیا چاہیے۔۔ ریلیکس ہو کر سو جاؤ، میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔“ یافث نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اوزگل سختی سے آنکھیں بند کرتی اپنی کیفیت سے پریشان ہوئی۔ اسے کوئی ڈر نہیں تھا مگر یافث کے جانے کا سن کر عجیب سا محسوس ہوا تھا یوں جیسے اس کے بغیر وہ اکیلی ہو جائے گی۔ اسے لگا وہ اب اس سے الگ کبھی نہیں رہ پائے گی۔ آج سب کے درمیان یافث خان کے آنے سے اسے الگ سا تحفظ محسوس ہوا تھا۔
”مائر میرا بہت اچھا دوست ہے، اس کی شادی پر مجھے ہر ایونٹ پر جانا چاہیے۔ میں کوشش بھی یہی کروں گا۔ مجھے اس کے اور اس کی وائف کے لیے گفٹس بھی لینے ہیں۔ سوچ رہا ہوں وہاں جا کر شاپنگ کر لیں گے۔“ یافث اسے دوسری باتوں میں لگا رہا تھا۔
اوزگل آنکھیں بند کیے اس کی مدھم آواز سن رہی تھی۔ وہ اس سے ناجانے کیا کیا مشورے کرنے میں مصروف تھا۔ اوزگل کو الفاظ سمجھ نہیں آئے، وہ تو صرف اس کی آواز سنتے ہوئے نیند میں جا رہی تھی۔ وہ کچھ دیر بولتا رہا پھر اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا۔
وہ گہری نیند سو گئی تھی۔ یافث خان کی سنجیدہ نظریں اس کے ایک رخسار پر واضح ہوتی سوزش پر جمی تھیں۔ اسے شک گزرا کہ وہ تھپڑ کا نشان تھا اور یہی بات اس کا دماغ گھما رہی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جاری ہے

Complete Novels Link

Youtube Special Novels

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

error: Content is protected !!